Sidebar

18
Fri, Oct
11 New Articles

‏359۔ کس پر جنگ فرض ہے؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏359۔ کس پر جنگ فرض ہے؟

‏اسلام کے خلاف جو تنقید کیا جا تا ہے اس میں دہشتگردی بہت ہی اہم ہے۔ دشمنوں سے جنگ کرو کہنے کی جوآیتیں ہیں اس کو دکھا کر وہ کہتے ہیں کہ ‏غیر مسلموں کو قتل کر نے کے لئے اسلام حکم دیتا ہے۔ 

دہشتگردی میں مبتلا ہو نے والے بعض مسلمان جنگ کے متعلق نازل ہو نے والی آیتوں کو اپنی کرتوتوں کے لئے سند بنا کر پیش کر کے ان کی اس تنقید ‏کو اور بھی مضبوط بناتے ہیں۔ 

اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جنگ کے متعلق ٹھیک معنی کو جانے نہیں۔ 

قرآن میں کئی احکام ہیں۔ وہ تمام مسلمانوں کے لئے رہنے کے باوجود حاکموں اور حکومت کے تعلق سے بھی احکام بتائے گئے ہیں۔ 

جو حکم حکومت کے لئے ہے اس پر کوئی فرد عمل پیرا نہیں ہو نا چاہئے۔ 

قرآن میں ایسے بھی حکم دئے گئے ہیں کہ چوری کر ے تو ہاتھ کاٹا جائے، زنا کے لئے سو کوڑے برسایا جائے، آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے ‏بدلے دانت۔ ان احکام کو ایک تنہا مسلمان یامسلم جماعت ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔ بلکہ اسلامی حکومت ہی اس کو عمل میں لا سکتی ہے۔ 

جنگ کے متعلق آیات بھی حکومت پر فرض ہو نے والے احکام ہی ہیں۔ اس کے علاوہ کسی فرد پر یا جماعت پر لاگو نہیں ہے۔ اس طرح ہم جو کہہ ‏رہے ہیں اس کے لئے دلائل قرآن مجید ہی میں موجود ہیں۔ 

آیت نمبر 4:75 میں کہا گیا ہے کہ کمزوروں کے لئے تم کیوں نہیں لڑتے؟ 

کمزوروہ لوگ تھے جو مکہ میں اقلیت مسلمان تھے۔ وہ لوگ مکہ میں بے حد تکلیفوں میں مبتلا کئے جاتے تھے۔ بستی چھوڑ کر بھاگ نکلنے کی حد تک ان پر ‏ظلم ڈھایا جاتا تھا۔ 

پھر بھی قرآن نے انہیں مخاطب کر کے جنگ کر نے کے لئے حکم نہیں دیا۔ان کے لئے تم کیوں نہیں لڑتے؟نبی کریم ؐ کی صدارت پر قائم مسلم ‏حکومت کو وہ حکم دیتا ہے۔ 

اگر کمزوراور مظلوم لوگ ہی کارروائی کر نا ہو تو انہیں کوجنگ کر نے کے لئے حکم دیا جاتا ۔ 

اس سے معلوم ہو تا ہے کہ حکومت ہی پر جنگ فرض ہے، ایک تنہا فرد پر نہیں۔ 

آیت نمبر 8:60 میں مختلف قسم کے جنگی ہتھیار اکٹھا کر نیکو حکم دیا گیا ہے۔ ایک ملک میں کمزور اور اقلیت میں رہنے والا کوئی فرد یا جماعت اس ‏طرح اکٹھا نہیں کر سکتا۔ یہ تو حکومت ہی کر سکتی ہے۔ 

اسلامی حکومت قائم ہوں اور جنگ کرنے کی وجوہات بھی ہوں ، لیکن جنگ کر نے کے لئے فوجی طاقت نہ ہوں تو اس وقت اسلامی حکومت پر بھی ‏جنگ کرنا فرض نہیں ہے۔

یہ آیت 8:65کہتی ہے کہ پہلے یہ حکم تھا کہ جنگ کر نے کی ضرورت پڑ گئی اور دشمنوں کی فوجی طاقت میں دس میں سے ایک حصہ موجود ہے تو اس ‏وقت جنگ کر سکتے ہیں۔ 

پھر لوگوں کی کمزوری کو دیکھ کراس آیت 8:66کے ذریعے فرمایا گیا کہ دشمنوں کی فوجی طاقت میں سے آدھا حصہ ہو تواسلامی حکومت پر جنگ کر نا ‏فرض ہے، اگر اس سے کم ہوتو جنگ کئے بغیر چھوڑ دینا چاہئے۔

دشمنوں کی فوجی طاقت میں آدھے سے کم ہو تو اسلامی حکومت بھی جنگ نہ کرنا ہے تو اقلیت پر جنگ کر نا کیسے فرض ہوگا؟ 

اس وجہ سے کہ اس قوم پر بہت بڑا نقصان پیدا ہو گا، اسی لئے اللہ نے ان لوگوں پر جنگ کو فرض کئے بغیر صبر فرض کیا ہے۔ 

بنی کریم ؐ نے مکہ میں جن تکالیف کا سامنا کیا وہ کوئی بھی نہیں کیا ہوگا۔ اس وقت نبی کریم ؐنے فوج کو اکٹھا نہیں کیا،صبر ہی سے کام لیا۔ مدینہ میں جا کر ‏حکومت قائم کر نے کے بعد جب جنگ کر نے کی حالت پیدا ہوئی تواس وقت جنگ کیا۔ 

اگر اس کو مسلمان ٹھیک سے سمجھ کر چلے تولوگ اسلام کی طرف اپنی نگاہوں کو پھیریں گے۔ اس کو دھیان میں رکھیں۔ 

جنگ،دہشت گرد ی اور جہاد وغیرہ کے بارے میں اور زیادہ معلومات کے لئے حاشیہ نمبر 53، 54، 55، 76، 89، 197، 198، 199، ‏‏203، 359 وغیرہ دیکھیں!  

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account