Sidebar

18
Fri, Oct
11 New Articles

‏358۔ جنگ بدر کی فتح کے بارے میں پیشنگوئی

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏358۔ جنگ بدر کی فتح کے بارے میں پیشنگوئی

‏یہ آیت8:7 کیا کہتی ہے ، اس کو پہلے جان لیں۔

نبی کریم ؐ مدینہ میں حکومت قائم کر نے کے بعد مکہ کے تجارتی قافلہ نبی کریم ؐ کی حکومت کے احاطہ کے حصوں کی راستے سے سفر کیا کر تے تھے۔ 

اپنے ملک کی حفاظت کے ذمہ دار ہونے کی وجہ سے نبی کریم ؐ نے اپنے ملک کے اندرغیر ملکی داخل ہو نے سے روکنے کے لئے منصوبہ بنایا۔آپ نے ‏سوچا کہ خصوصاً مسلمانوں کے مال و متاع چھین کر شہر چھوڑ کر بھگانے والے مکہ والوں کو اپنے ملک کے اندر بغیر اجازت کے داخل ہو نے کو روک دیا ‏جائے۔ 

ملک سے واسطہ رکھنے والے کوئی بھی حاکم جس طرح کر تے ہیں اسی طرح اپنے ملک کے اندر حدود پار کر کے داخل ہو نے والوں کو روکنے اوران کی ‏چیزوں کو سلب کر نے حکم نافذکیا۔ 

اس حالت میں مکہ کے ایک مشہور شخصیت ابوسفیان کی رہبری میں ایک تجاریتی قافلہ بہت زیادہ مال و متاع کے ساتھ اپنے ملک کے اندر داخل ہو ‏کر سفر کر نے کی خبر نبی کریم ؐ کو پہنچی۔ 

اس لئے انہیں راستہ روک کر ان لوگوں کے مال کو سلب کر نے کے لئے اپنی رہبری میں نبی کریم ؐ نے فوج لے کر چلے۔ 

نبی کریم ؐ نے تجارتی قافلے کی تجارتی مال کو سلب کر نے کے لئے آنے والی خبر اس قافلے کے سردار ابوسفیان کو جب معلوم پڑا تو انہوں نے فوراً مکہ ‏والوں کو اطلاع بھیجی کہ اپنے اور تجارتی مال کو بچانے کے لئے فوج اکٹھا کر کے لائیں۔ 

اس اطلاع کو سنتے ہی مکہ سے لگ بھگ ایک ہزار سپاہی مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ 

اصحاب رسول کو سمجھ میں نہیں آیا کہ تجارتی قافلے کو راستہ روک کر مال سلب کیا جائے ؟ یا آنے والے دشمنوں سے جنگ کیاجائے؟ اکثر لوگوں کی ‏خواہش یہی تھی کہ تجارت کے قافلے کو روکیں تو زیادہ خون بہائے بغیر ان پر غالب آسکتے ہیں اور ان کے مال بھی بانٹ لے سکتے ہیں۔ 

دشمنوں کی فوج میں ایک میں تین حصے کے انداز ہی میں ان کے پاس سپاہی تھے، اس وجہ سے جنگ کر نے کے بجائے تجاری قافلے کو لوٹنے ہی میں ‏وہ آرزورکھتے تھے۔ 

لیکن نبی کریم ؐ نے دشمنوں سے میدان جنگ میں سامنا کر نے ہی کو ترجیح دی۔ بدر کے مقام میں دشمنوں سے سامنا کر کے بہت بڑی فتح پا ئی۔ 

اسی بات کو اس آیت میں کہا گیا ہے۔ اللہ اس آیت میں کہتاہے کہ یاد کرو اللہ کے اس وعدے کو کہ دو جماعتوں میں سے

ایک جماعت پر تم فتح پاؤگے۔

یہ آیت کہتی ہے کہ اللہ نے پہلے ہی وعدہ کر چکا کہ تجارتی قافلہ یا انہیں بچانے کے لئے آئی ہوئی مکہ والوں کی فوج ، ان دونوں میں سے ایک کو تم فتح ‏پاؤگے۔

پہلے ہی اللہ نے جو وعدہ کیا تھااس کو اس آیت میں یاد دلاتا ہے۔ 

اس میں یہ مطلب بھی پایا گیا ہے کہ قرآن کے بغیر ایک اور راستے سے بھی نبی کریم ؐ کو اللہ کی طرف سے حکم آتی تھیں۔ 

یہ آیت کہتی ہے کہ اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ دو جماعتوں میں سے ایک جماعت کو تم فتح پاؤگے۔ پوری قرآن میں بھی ڈھونڈو تو اس مطلب کی آیت ‏نہیں ملے گی۔ 

اللہ کہتا ہے کہ وعدہ کیا تھا۔ لیکن وہ وعدہ قرآن مجید میں نہیں ہے۔ صرف حدیثوں میں موجود ہے۔ 

نبی کریم ؐ کے دل میں قرآن کے سوا ایک اور طریقے سے بھی خبروں کو اللہ پہنچاتا ہے۔ اس کے لئے یہ آیت بھی دلیل ہے۔ 

قرآن کے احکام کی پیروی کر نے کے ساتھ نبی کریم ؐ کی رہنمائی کی بھی پیروی کرنا چاہئے ، اس کے بارے میں اور زیادہ جاننے کے لئے حاشیہ نمبر ‏‏18، 36، 39،50، 55، 56، 57، 60، 67، 72، 105، 125، 127، 128،132 ، 154،164،184، 244، 255، ‏‏256، 258، 286، 318، 350، 352، 430وغیرہ دیکھئے!   

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account