Sidebar

18
Fri, Oct
11 New Articles

‏357۔ جادو پر بھروسہ کر نا شرک ٹہراناہے

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏357۔ جادو پر بھروسہ کر نا شرک ٹہراناہے

‏یہ آیتیں 2:102، 5:110، 6:7، 7:109-120، 10:2، 10:76,77، 10:81، 11:7، 15:15، 17:47، ‏‏17:101، 20:63-73، 21:3، 25:8، 26:34,35، 26:45,46، 26:153، 28:36، 28:48، 34:43، ‏‏37:15، 38:4، 43:30، 43:49، 46:7، 51:39، 51:52، 52:15، 54:2، 61:6، 74:24 جادو ٹونے کے بارے میں ‏کہتی ہیں۔

جادو کیا لوگوں کو دھوکا دینے والی چالبازی ہے؟ یا کیا سچ مچ جادو کے ذریعے دوسروں کو متاثر کر سکتے ہیں؟ اس میں عالموں کے درمیان اختلاف ‏رائے پایا جاتا ہے۔ 

اس میں صحیح رائے کیاہوسکتاہے، اس کے بارے میں حاشیہ نمبر 28،285وغیرہ میں واضح کیا گیا ہے۔ 

چند حدثیں کہتی ہیں کہ نبی کریم ؐ کے دشمن یہودیوں نے نبی کریم ؐپر جادو کیا ، اس سے ان کی دلی کیفیت متاثر ہو گئی ۔اس بنیاد پر اکثر مسلمانوں کا اعتماد ‏ہے کہ جادو سے دوسروں کو متاثر کرسکتے ہیں۔

لیکن بعض حدیث کی کتابوں میں یہ خبرہے کہ نبی کریم ؐ پر جادو کیا گیا تھا اور اس کے ذریعے انہوں نے دل کی بیماری میں مبتلا ہو گئے،درج ہو نے کے ‏باوجود وہ قرآن کے خلاف رہنے سے وہ مستند حدیث نہیں ہو سکتی، بلکہ وہ جھوٹی کہانی ہے۔ 

‏حدیثوں کو پرکھنے کا طریقہ

اس کو جاننے سے پہلے قرآن کے خلاف جو حدیثیں ہیں ،ہمیں جان لینا چاہئے کہ اس کو کیسے جانچیں۔

معتمد راویوں کے ذریعے روایت کی ہوئی حدیثوں کو ہم دینی دلیل سمجھیں۔ لیکن معتمد لوگوں کے ذریعے روایت کی ہوئی حدیثیں اگرقرآن کے ‏عقیدے کے خلاف ہوں ، اور کسی بھی لحاظ سے قرآن کی مناسبت سے تشریح کئے جانے کے موافق نہ ہوں تو اس کو اختیار نہ کر یں۔ یہی فیصلہ کر نا ‏چاہئے کہ نبی کو اور اس خبر کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے خلاف جو خبریں ہیں اس کو ماننے سے قرآن کو انکار کر نے کی نوبت آجا ئے گی۔ 

مزید یہ کہ یہ آیت 16:44 کہتی ہے کہ قرآن مجید کی وضاحت کے لئے ہی نبی کریم ؐ کو بھیجا گیا۔ 

قرآن کی وضاحت کے لئے بھیجے ہوئے نبی کریم ؐ قرآن مجیدکے خلاف ہر گز نہیں کہیں گے اور نہ عمل کریں گے۔ اگر کوئی خبر ملے کہ اس طرح ‏انہوں نے بات کی یا عمل کی تو وہ کسی بھی کتاب میں درج ہوہمیں فیصلہ کردینا چاہئے کہ وہ ہرگز نبی کریم کا قول نہیں ہوگااور عمل نہیں ہوگا۔

اس کی وجہ یہی ہے کہ نبی کریم ؐ کا قول اور عمل قرآن مجید کا تشریح ہوسکتا ہے ،اس کے سوائے وہ قرآن مجید کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ 

یہ حدیث کا انکار نہیں ۔ اس کو ہم واضح طورپر سمجھ لینا چاہئے۔

کیونکہ اعتماد کے لحاظ سے قرآن اور حدیث برابر نہیں ہیں۔قرآن مجید کے حد تک تمام صحابہ گواہ ہیں کہ وہ اللہ کا کلام ہے۔

نبی کریم ؐ نے قرآن کی آتیوں کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ یہ میرے رب کی طرف سے نازل ہو ئی ہے۔ اصحاب رسول تما م اس کے لئے گواہ ہیں کہ ‏انہوں نے ایسا کہا۔قرآن مجید کو تحریری انداز میں بھی لکھ لیا گیا اور بعض لوگوں نے اس کو حفظ بھی کرلیا۔ 

حدیثوں کے حد تک کسی حدیث کو تمام صحابیوں نے روایت نہیں کی۔ گنے چنے چند حدیثیں زیادہ سے زیادہ پچاس صحابیوں کے ذریعے روایت کی گئی ‏ہیں۔ دیگر حدیثیں ایک یا دو یا تین صحابیوں کے ذریعے ہی روایت کی گئی ہیں۔ مزید یہ کہ قرآن کی طرح حدیثوں کو صحابیوں نے تحریری انداز میں ‏درج نہیں کی۔ 

یعنی ایک یا دو صحابیوں ہی نے گواہ دی ہے کہ نبی کریم ؐ نے اس طرح فرمایا۔

سارا سماج گواہ دینا اور ایک دو اشخاص گواہ دینا برابر نہیں ہوسکتا۔

کتنے بھی معتمد ہوں ان میں سے ایک دو کے خبروں میں کچھ نہ کچھ غلط ہونے کا امکان ہے۔ 

نبی کریم ؐ کے زمانے میں ہی نہیں بلکہ اس کے بعد کے زمانے میں بھی تمام لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ صحابیوں نے کہا کہ یہی قرآن ہے۔ اس طرح ہر ‏زمانے کے لوگ اسی طرح کہا ہے۔ 

حدیث کے حد تک ایک دو صحابیوں ہی نے کہا ہے۔ ایک دو ہی نے کہا ہے کہ اصحاب رسول نے اس طرح کہا ہے۔ کتاب کی شکل میں مرتب ‏ہونے کے زمانے تک ایک سے ایک کی بنیاد پر ہی حدیث روایت کی گئیں۔ 

اس لئے قرآن کے معاملے میں ذرہ برابر بھی شک پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن احادیث کے حد تک یہ حالت نہیں ہے۔ 

اصحاب رسول کے اعتماد کی بنا ء پر اس کو ہم اختیار کر کے عمل کر رہے ہیں۔ قرآن مجید کے خلاف جب تک وہ جا تی نہیں، ایسی خبروں میں شک نہیں ‏کر نا چاہئے۔ ایک بھی حدیث اگر قرآن کے خلاف ہو جائے تو ہم یہ سمجھتے ہوئے قرآن مجید ہی کو ترجیح دینا چاہئے کہ اس روایت میں کہیں غلطی ہوئی ‏ہے۔

اصحاب رسول نے اس کو نامکمل سنا ہو گا یا غلط سمجھ لیا ہو گا ، اس وجہ سے وہ غلطی سرزد ہوئی ہوگی۔ یااصحاب رسول کی طرف سے سننے والے آئندہ ‏نسل سے وہ غلطی سرزد ہو ئی ہوگی۔یا اس کے بعد کی نسل سے وہ غلطی صادر ہوا ہوگا۔ 

راوی صحیح رہنے کے باوجود قرآن کے خلاف خبروں کوپوری طرح سے جھٹلادینا چاہئے ، اس کو ہم نے خود نہیں کہا، اللہ کے رسول ہی نے فرمایا ‏ہے۔ 

نبی کریم ؐ نے فرمایا:

میرے نام سے کسی خبر کو تم سنو گے تو اس خبر کو اگر تمہارا دل قبول کر لے اور تمہارے چمڑے اور بال (یعنی تمہارے جذبات) اس خبر کے تابع ‏ہو جائے ، اور تم سمجھو کہ وہ خبر تم سے قریب ہوگئی ہے تو اس کو (سنانے کے لئے) تم سے زیادہ میں ہی قابل ہوں۔ میرے نام سے کوئی خبر تم ‏سنتے وقت اگر اس خبر کو تمہارا دل ناپسند کرے اورتمہارا چمڑا اور تمہارے بال بھاگ کھڑے ہو جائیں اوراس خبرکو تم اگردور سمجھو گے تو تم سے ‏زیادہ میں اس سے دور ہوں۔ 

راوی: ابو عذیدؓ 

احمد : 15478

نبی کریم ؐ نے تشریح کی ہے کہ ان کے نام سے کہی جانے والی خبروں میں جھوٹی بات بھی شامل ہو سکتی ہے اور اس کوکس طرح جانچ سکتے ہیں۔ 

مناسب وجوہات کے ساتھ جس خبر کو سنتے وقت کسی کو یہ محسوس ہو کہ اس کو نبی کریم ؐ ہی نے کہا ہوگا تو ان جیسے خبروں کو سنانے کے لئے وہی قابل ‏ہیں۔ جس خبر کو سنتے وقت مناسب وجوہات کے ساتھ ایک شخص کا دل اگرانکارکردے تو اس کو نبی کریم ؐ کہا نہیں ہوگا اور عمل نہیں کیا ہوگا۔ نبی ‏کریم ؐ نے واضح کردیا کہ یہی ٹھیک راستہ ہے۔

اس حدیث سے ہم جان سکتے ہیں کہ راویوں کو جانچ کر نا جتنا ضروری ہے اس سے کہیں زیاد ہ حدیث کے مفہوم کو جاننا ۔ 

قرآن تو ان آیتوں 41:40-42کے ذریعے صاف صاف کہا ہے کہ قرآن میں اختلاف بھی پایا نہیں جائے گا اور نہ ہی غلطی۔ 

اس لئے قرآن میں اختلاف اور غلطی ہے، ایسا عقیدہ ہمارے پاس نہیں ہونا چاہئے۔

اگرکوئی حدیث میںآئے کہ قرآن میں غلط ہے تو وہ حدیث نہیں ہوگی۔ہمیں یہی بھروسہ ہو نا چاہئے کہ اس کو نبی کریم ؐ ہر گز نہیں کہے ہوں ‏گے۔اور سمجھنا چاہئے کہ یہ غلطی سے کہہ دیا گیا ہے۔ 

جب ہم یہ کہہ کر انکار کر تے ہیں کہ قرآن کے خلاف جو حدیثیں ہیں وہ حدیثیں نہیں ہیں تووہ ہمیں حدیث کا انکار کر نے والے بنادیتے ہیں۔ ان کا ‏کہنا ہے کہ جب حدیثیں ایک سے ایک اختلاف ہوں تو اس میں جو مضبوط ہے اس کو اٹھا لینا چاہئے اور کمزور کو چھوڑدینا چاہئے۔ 

اس کو ذرا تفصیل سے دیکھیں!

ایک استاد کے پاس سے ایک حدیث کو پانچ شاگرد روایت کرتے ہیں۔ ا س میں تین شخص ایک قسم سے اور دو شخص اس سے مختلف کہے ، اور وہ ‏پانچوں اشخاص اعتماد میں برابر کے ہیں تو اس تینوں کے کہنے کو مان لینا چاہئے۔ وہ دونوں کے کہنے کو انکار کر دینا چاہئے۔ یہ شاط کہلاتا ہے۔ 

اس کو ہم بھی مانتے ہیں۔ جادو سے متاثر کر سکتے ہیں کے عقیدے والے بھی مانتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ اس کے راوی اگر معتمد بھی ہوں اس کو ‏دلیل نہ مانا جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ تینوں کے کہنے کے خلاف اگر وہ دونوں کہیں تو اس کو جانچ کر جو مظبوط ہے اسی کو مانیں گے۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہزاوں اصحاب ‏رسول کلام اللہ کو ثابت کریں بھی تو اس کے خلاف اگر کوئی ایک شخص بھی کہے تو قرآن کو ایک طرف ہٹادیں گے اور اس کے خلاف جو کہا گیاہے ‏اس کو مان لیں گے۔دیکھئے، شیطان نے ان لوگوں کو کیسا گمراہ بنا کر رکھا ہے!

اس سے اچھی طرح معلوم ہو تا ہے کہ اللہ کی کتاب کوان کے پاس کوئی قدر ہی نہیں۔ 

چنانچہ قرآن مجید کے خلاف جادو کے متعلق جو حدیثیں ہیں اس کو ہم دلیل نہیں ماننا چاہئے۔ اگر مان لیں گے تو قرآن مجید کے انکار کر نے والے بن ‏جائیں گے۔ 

ان جیسے چند حدیثوں کو مثال کے طور پرپیش کر تے ہیں۔ 

بخاری میں حصہ پانے والی ایک حدیث کو ملاحظہ فرماےئے۔ 

ام شریخ ؓ نے روایت کی ہے: 

اللہ کے رسول ؐ نے حکم دیا کہ چھپکلی کو ماردو۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابراھیم ؑ (جب آگ کے گھڑے میں پھینکے گئے اس آگ) کو ان کے خلاف اور ‏بھی پھونک مار رہی تھی۔ 

بخاری: 3359

نبی کریم ؐ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا، اگرصرف اتنا ہی حدیث ہو تا تو نبی کریمؐ کے اس حکم کو ہمیں بجا لا نا ہی چاہئے۔ یہ کسی آیت کے خلاف نہیں ‏ہے۔

اس کی وجہ یہ بتا ئی گئی ہے کہ ابراھیم ؑ کو آگ کے گھڑے میں جھونکتے وقت صرف چھپکلی پھونک مارکراس آگ کو اور بھی بڑھایا۔اس کو ہم نے ‏قرآن کی روشنی میں جانچنا ضروری سمجھا کہ کیا یہ وجہ ٹھیک ہے؟ 

اگر غور سے دیکھا جائے توہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ قرآن مجید کے کئی آیتوں کو اور اسلامی بنیادی عقیدوں کے خلاف پائی گئی ہے۔ 

قرآن میں کہا گیا ہے کہ چند جاندار اللہ کے رسولوں کو مدد کی ہیں، اس جیسے حدیثوں کو ہم مان سکتے ہیں۔ اس آیت 27:20 میں کہا گیا ہے کہ ‏سلیمان نبی کو ہدہد پرندے نے مدد کی۔ 

لیکن کوئی بھی جاندار اللہ کے رسولوں کے خلاف نہیں جا سکتی۔ ان سب کو اللہ کی پابندی اختیار کر نے ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ ان آیتوں ‏‏3:81، 13:15 ، 22:18میں یہی بات کہی گئی ہے۔

ان آیتوں کے خلاف یہ حدیث کہتی ہے کہ چھپکلی نے اللہ کے خلاف عمل کی ہے۔ 

ابراھیم نبی توحید کے عقیدے کو کہا تھا۔ اسی لئے انہیں آگ کے کنویں میں ڈھکیلا گیا۔یہ حدیث کہتی ہے کہ اس سے خوش ہوکر چھپکلی نے ابراھیم ‏نبی کے خلاف آگ کو اور بھی پھونکا۔

اگر اس پر بھروسہ کیا جائے تویہ بھی بھروسہ کر نا پڑے گا کہ جانداروں میں بھی مسلم اور غیرمسلم جاندار ہیں۔ اس طرح کا بھروسہ مندرجہ بالا ‏آیتوں کا انکار ثابت ہوگا۔ 

ایک اور اسلامی بنیاد کے مخالف بھی یہ خبر کہتی ہے۔ 

ایک کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھا سکتا، یہ اسلامی عقیدہ ہے۔ اس کو ان آیتوں میں 6:164، 17:15، 35:18، 39:7، 53:36 سے جان سکتے ‏ہیں۔

ایک کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھا سکتا ، یہی اختلاف اسلام اور عیسائی مذہب کے درمیان ایک اہم عقیدہ ہے۔ 

پہلا انسان آدم گناہ کر نے کی وجہ سے سب انسان گناہگار ہی پیداہو تے ہیں ، یہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ آدم نے گناہ کی تو ان کی نسل کیسے اس گناہ کا ‏بوجھ اٹھا سکتے ہیں ؟ ان آیتوں کی بنیاد پر ہم سوال کرتے ہیں۔

ہر انسان گناہگار پیدا ہو تا ہے۔ اس پیدائشی گناہ کا بوجھ اٹھانے کے لئے عیسیٰ نے اپنے آپ کو قربان کر کے لوگوں کو نجات دی، یہ ان کا دوسرا عقیدہ ‏ہے۔ اس عقیدے کے خلاف مندرجہ بالا آیتوں کو دلیل بتا کر ہم سوال کر تے ہیں۔ 

چلو ایک بات کے لئے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ابراھیم نبی کے خلاف چھپکلی نے آگ پھونکی۔ 

اگر یہ سچ ہو تو جو چھپکلی آگ پھونکی تھی اسی چھپکلی کو مارنا چاہئے؟ وہ چھپکلی تو مر کر کئی ہزاروں سال گزر گئے۔ پھر بھی اس کی نسلوں کو مارنے کے لئے ‏کیایہ وجہ مناسب ہے؟ 

مزید یہ کہ ابراھیم نبی کو آگ کے گھڑے میں ڈالتے وقت دنیا بھر کی چھپکلیاں اس جگہ پر نہیں آئی ہوں گی۔ اس لئے ان چھپکلیوں کو اور اس کی نسلوں ‏کو کیوں ماریں؟ 

کیاقرآن مجید کے خلاف نبی کریم ؐ نے ایسا کہا ہوگا؟ ایک معمولی انسان بھی ایک شخص کی غلطی کے لئے دوسروں کو سزا نہیں دے گا۔ایسے میں کیا ‏رحمت کے پیکر نبی کریم ؐ اس طرح کہا ہوگا؟ 

چنانچہ چھپکلی کو مارنے کہنے کی وجہ قرآن کے خلاف ہے اور حقیقت کے برعکس ہے، اس لئے ہمیں یہی فیصلہ کر نا چاہئے کہ اس کو نبی کریم ؐ نے کہا ‏نہیں ہوگا۔ 

وہ کسی بھی کتاب میں جگہ پایا ہو ، کتنی ہی کتابوں میں درج ہو، ہمیں اسی فیصلے پر آنا چاہئے۔ اگر ایسا آنے سے انکار کریں توہم نے جو اوپر درج کی ہے ‏ان سب آیتوں کو اور اسلام کی بنیادکو انکار کر نے والے ہونگے۔ کوئی بھی انسان مختلف دو چیزوں کومانیگا نہیں۔

یہی طریقہ احادیث کو سمجھنے کے لئے ٹھیک راستہ ہے۔

ایک اور حدیث کو دیکھئے!

محمد بن زیاد الہانی ؒ نے فرمایا ہے: 

ابوامامہ الباہلی ؒ نے ایک گھر میں ہل جوتنے کی کاشتکار ی آلات کو دیکھا۔ فوراً انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس قوم کے گھر میں ‏جب ایسے آلہ جات داخل ہوتے ہیں تو اس گھر میں اللہ ذلت پہنچائے بغیر نہیں رہتا۔

بخاری: 2321

یہ خبر کہتی ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ ہل جوتنے کا آلہ جس گھرمیں ہو اس میں ذلت پیدا ہوگی ۔ 

عام طور سے سب اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ کاشتکاری ہی انسانی زندگی کی جان ہے۔اگر ایک ملک میں صرف مسلمان ہی بستے ہوں ، وہ اس خبر پر ‏بھروسہ کر تے ہوئے ہل جوتنے کی چیزوں کو پھینک دیں اور سب لوگ کاشتکاری چھوڑدیں تواس ملک کی حالت کیا ہوگی؟

لوگوں کو مٹا کر تباہ کر نے والی ایک رہنمائی کیا نبی کریم ؐ فرمائے ہوں گے؟ 

درآمد اور برآمدآسان ہوجانے والی اس زمانے میں بھی کاشکاری کو جھٹلا کر ہر غذائی چیزوں کو اگر ایک ملک درآمد کرے تو وہ ملک تباہ ہو جائے گا۔ ‏درآمد و برآمد مشکل رہنے کے زمانے میں اگر کاشتکاری چھوڑدے تو اس سے زیادہ برے انجام پیدا ہوں گے۔

نبی کریم ؐ روحانی سردار ہی نہیں حکومت چلائے ہوئے حاکم بھی ہیں، کیا انہوں نے کاشتکاری کے خلاف ایسی ایک کارروائی اٹھائے ہوں گے؟ 

قرآن مجید کاشتکاری کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ مثال کے طور پر ان آیتوں کو ملاحظہ فرمائیے: 

‏2:22، 2:164، 6:99، 6:141، 7:57، 12:47، 13:4، 14:24، 14:32،15:19، 16:11، 16:65، 18:32، ‏‏20:53,54، 22:5، 22:63، 23:20، 26:7، 27:60، 29:63، 30:24، 31:10، 32:27، 35:27، 36:36، ‏‏39:21، 41:39، 43:11، 45:5، 48:29، 50:7، 50:9، 56:64، 78:14,15,16، 80:27-32۔ 

ان آیتوں میں اللہ نے کاشتکاری کی فضیلت، ضرورت اور اہمیت کو ایک خوش نصیبی کہا ہے۔ 

اللہ کی کتاب کو واضح کر نے کے لئے جو نبی کریم ؐ بھیجے گئے کیا ان آیتوں کے خلاف کاشتکاری کی چیزوں کو ملامت کریں گے؟ ذرا سوچو تو اچھی طرح ‏سمجھ سکتے ہیں کہ یہ نبی کریم کا قول نہیں ہوسکتا۔

نبی کریم ؐ کی کہی ہوئی کئی حدیثیں موجود ہیں جو کاشتکاری کی فضیلت میں ہے۔ مثال کے طور پر چند حدیثیں ملاحظہ ہوں: 

اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: 

ایک مسلمان ایک جھاڑ لگا تا ہے یابیج بوکر زراعت کر تاہے اور اس میں ایک پرندہ، یا ایک انسان یا ایک جانور کھائے تو اس کی وجہ سے ایک خیرات کر ‏نے کا معاوضہ اس کو ملے گا۔ 

بخاری: 2320

ابو ہریرہؓ نے فرمایا ہے: 

مدینہ والے یعنی انصار نبی کریم ؐ کے پاس آکر کہنے لگے کہ ہم میں اور مکہ سے آئے ہوئے مہاجر بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کے درختوں کو ‏تقسیم کردیں۔ نبی کریم ؐ نے نا کہہ دیا۔یہ سن کر انصار صحابیوں نے مہاجروں سے کہا کہ ہمارے باغوں کو ہمارے بدلے تم ہی دیکھ بھال کرتے آؤ۔ ‏ہم تمہارے ساتھ اس کی آمدنی میں حصہ لے لینگے۔ اس کو مہاجروں نے کہا کہ ہم نے سنا اورقبول کیا۔ (بخاری: 2325)

ہل جوتنے کو ملامت کر نے والی حدیث نوع انسانی کو مٹانے کی راہ دکھا تی ہے اور وہ کئی آیتوں کے خلاف واقع ہوئی ہے اور نبی کریم ؐ کی تعلیم کے ‏مخالف ہے، اس وجہ سے یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ اس کو نبی کریم ؐ ہرگز نہیں کہے ہوں گے۔ 

اگر ایسا نہ کریں اور اس حدیث کو مان لیں تو اللہ کی کئی آیتوں کو انکار کرنے کی نوبت آن پڑے گی ۔ کیونکہ دو مختلف چیزوں کو کوئی مان نہیں سکتا۔ 

ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیے:

اللہ کے رسول ؐ نے میرے ہاتھ کو تھام کر فرمایا: عزت و عظمت والے اللہ نے ہفتہ کے دن زمین کو پیدا کیا۔ زمین میں اتوار کے دن پہاڑوں کو پیدا ‏کیا۔ پیر کے دن درختوں کو پیدا کیا۔ منگل کے دن دھاتوں کو پیدا کیا۔ بدھ کے دن روشنی کو پیدا کیا۔ جمعرات کے دن جانداروں کو پھیلایا۔ جمعہ ‏کے دن عصر کے بعد آخری وقت میں عصر اور رات کے درمیان آخری مخلوق آدم کو پیدا کیا۔ 

راوی: ابوہریرہؓ 

مسلم: 5379

مسلم نامی کتاب میںیہ خبر دی گئی ہے کہ ہر ایک دن ہر ایک چیز پیدا کر کے سات دن میں اللہ نے اس دنیا کو پید اکیا ہے۔ 

لیکن قرآن مجید میں ان آیتوں 7:54، 10:3، 11:7، 25:59، 32:4، 50:38، 57:4 میں کہا گیا ہے کہ دنیا چھ دنوں میں پیدا کیا گیا ‏ہے۔

اللہ نے کہا چھ دنوں میں اس دنیا کو پیدا کیا، لیکن یہ حدیث کہتی ہے کہ یہ دنیا سات دنوں میں پیدا کیا گیا۔ 

صرف وہی نہیں بلکہ اس میں جو تفصیل ہے وہ ان آیتوں کے خلاف ہے۔ 

چنانچہ یہ حدیث قرآن مجید سے ٹکرانے کی وجہ سے قرآن کی وضاحت کر نے آئے ہوئے نبی کریم ؐ نے اس طرح فرمائے نہیں ہوں گے۔ یہ مسلم ‏جیسی کتاب میں درج ہو نے کے باوجود ہمیں یہی فیصلہ کر نا چاہئے کہ یہ ایک تراشیدہ جھوٹ ہے۔ 

یہ نہ سمجھنا کہ اس کو صرف ہم کہہ رہے ہیں۔ مشہور و معروف عالم ابن تیمیہ بھی کہا ہے کہ یہ حدیث قابل قبول نہیں ہے۔ 

تخلیق کی ابتداء ہفتہ کا دن اور انتہا جمعہ کادن ہوگا تو سات دنوں میں تخلیق ہوئی ہے۔ یہ قرآن مجید کے خلاف ہے۔ مزید یہ کہ محدثین کا قول ہے کہ ‏اس کے سوا بھی اس حدیث میں ایک لطیف سی نقص بھی پائی جا تی ہے۔ 

دلیل: ابن تیمیہ کا فتاویٰ 

چھ دنوں میں دنیا کی تخلیق ہوئی ہے ، ان قرآنی آیتوں کو انکار کروگے ہی تو سات دنوں میں دنیا تخلیق ہوئی ہے والی حدیث کو مان سکتے ہو۔ 

اسی لئے ہم انکار کر تے ہیں کہ اس کو نبی کریم ؐ نے ہرگز کہا نہیں ہوگا۔

اسی طرح کا ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیے۔

انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: 

اللہ کے رسول ؐ ام حرام بنت ملحانؓ کے گھر جایا کرتے تھے۔ وہ عبادہ بن صامتؓ کی بیوی تھیں۔ اسی طرح ایک دن نبی کریم ؐ نے امؓ حرام کے گھر گئے تو ‏وہ آپ کو کھانے کے لئے دی اور اس کے بعد آپ کو جوں دیکھنے لگے۔پھر نبی کریم ؐ سوگئے۔ اور پھر آپ نے مسکراکر جاگے۔ 

‏اس حدیث7001 کے بعد 7002کی حدیث میں ام حرامؓ فرماتے ہیں: 

میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیوں ہنس رہے ہو؟ نبی کریم ؐ نے فرمایا: میری امت میں بعض لوگ اللہ کی راہ میں سمندر کے درمیان سفر ‏کر نے والے مجاہدوں کو مجھے دکھایا گیا۔ وہ لوگ تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہ یا بادشاہوں جیسے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے بھی ان ‏میں سے ایک بنانے کے لئے اللہ سے دعا کیجئے۔ تو اللہ کے رسول نے میرے لئے دعا فرمائی۔ اس کے بعد آپ نے سرنیچے رکھ کر سوگئے۔ پھر آپ ‏نے مسکراتے ہوے اٹھے۔ میں نے پوچھا کہ کیوں ہنس رہے ہو؟ نبی کریم ؐ نے پہلے کی طرح ہی فرمایا: میری امت میں بعض لوگ اللہ کی راہ میں ‏مقدس جنگ لڑتے ہوئے مجھے دکھایا گیا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے بھی ان میں سے ایک بنانے کے لئے اللہ سے دعا کیجئے۔نبی کریم ؐ ‏نے فرمایا: تم (سمندری سفر کر کے جہاد کے لئے) پہلے جانے والوں میں سے ایک ہوگے۔ نبی کریمؐ کے کہنے کے مطابق ام حرامؓ نے معاویہ بن ‏ابوسفیانؓ کے زمانے میں سمندری سفر اختیار کئے ۔ بعد میں جب سمندر سے نکل پڑے تو اپنی سواری سے نیچے گر کر انتقال کر گئے۔ 

بخاری: 7001, 7002

یہ حدیث کیا خبر دیتی ہے؟ 

یہ خبر سنایا جا تاہے کہ نبی کریم ؐ نے ایک ایسی عورت کے گھر گئے جونہ خونی رشتہ اور نہ ہی قریبی رشتہ دار تھی۔ وہ حدیث یہ بھی کہتی ہے کہ آپ وہاں ‏ہمیشہ جایا کرتے تھے۔ وہی نہیں بلکہ یہ خبر بھی سناتی ہے کہ وہ عورت آپ کو جوں بھی دیکھا، ایک سے ایک قریب بھی رہے اور آپ وہاں سو بھی ‏گئے۔اس خبر سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے آپ یکایک جاگ کر مسکراتے وقت تمام وہ عورت آپ ہی کے قریب بیٹھ کر آپ ہی کو دیکھ رہی تھی۔ 

کیا نبی کریم ؐ اس طرح کئے ہوں گے؟ کئی حدیثوں میں کہا گیا ہے نبی کریم ؐ نے غیر عورتوں کے معاملے میں کتنی احتیاط برتی۔

مردوں کے پاس جب عہد لیتے تھے تو نبی کریم ؐ ان کے ہاتھ پکڑ کر عہد لیا کرتے تھے۔ لیکن عورتوں کے پاس بیعت نامی عہد لیتے وقت عورتوں کا ‏ہاتھ پکڑنے سے گریز کرتے تھے۔ (دیکھئے بخاری: 7214)

کوئی بھی مردغیر عورتوں کے ساتھ تنہائی میں نہ رہیں۔ شوہر کے بھائی جیسے رشتہ داروں کے ساتھ بھی کوئی عورت تنہا نہ رہنا چاہئے۔اس طرح ‏حکم دینے والے نبی کریم ؐ (بخاری : 5232) خود اس حکم کی خلاف ورزی کیسے کر سکتے ہیں؟ 

اس سے یہ رائے بھی پیدا ہوتی ہے کہ قرآن کی سکھائی ہوئی اخلاقی احکام کو نبی خود تجاؤز کر گئے۔ 

اس دین میں جو حکم دیتی ہے کہ غیر عورتوں کے سامنے نگاہوں کو نیچی رکھیں(24:30)، ایک غیر عورت جوں دیکھنے کی حد تک قریب اور ایک ‏غیر عورت کے گھر میں اس عورت ہی کے سامنے کیانبی کریم ؐ سوئے ہوں گے؟ 

نبی کریم ؐ پر الزام لگا کر اسلام کی ترقی کو روکنے کے لئے یہود کئی قسم کی تدبیریں کیں۔ اگر نبی کریم ؐ اس طرح عمل کئے ہو تے تو اسی کو بنیاد بنا کر ‏یہودنبی کریم ؐ کے نام و شہرت کومٹا کر اسلام کی ترقی کوروک دئے ہوں گے۔ 

اسلام کے دشمن کوئی بھی اس کے بارے میں تبصرہ نہیں کیا۔اس لئے یہ ثابت ہو تا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ سرزد نہیں ہوا ہے۔ 

آپ کی پاکیزہ زندگی کو دیکھ کر ہی اس زمانے کے کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔

‏’ان پرپوری طریقے سے اعتماد کر سکتے ہیں‘، اس طرح نبی کریم ؐ پر بھروسہ رہنے کی وجہ ہی سے وہ لوگ اسلام قبول کر تے چلے گئے۔

کوئی بھی انسان اپنی گزشتہ زندگی دکھا کر کہہ نہیں سکتاکہ مجھ پر بھروسہ کرو۔ کیونکہ کسی کی گزشتہ زندگی پوری طرح سے پاک نہیں ہو سکتی۔ ‏لوگوں کا خیال ہے کہ بڑے بزرگ بھی سہی ان کی آج کی زندگی ہی کی طرف نظرکرنا چاہئے ، گزشتہ زندگی نہیں۔ 

اپنی گزشتہ زندگی کو دکھا کر میں اللہ کا رسول ہوں کہنے کی جرات صرف نبی کریم ؐ ہی کو تھی۔ 

اسی بناء پر قرآن مجید بھی انہیں حکم دیاکہ اللہ کے رسول کا اعلان کرو۔ 

‏(اے محمد!) کہو اگر اللہ چاہتا تو میں اس کو تمہیں نہیں سناتا۔ وہ بھی تمہیں باخبر نہیں کرے گا۔ اس سے پہلے تمہارے ساتھ میں نے کئی سال ‏گزارے ہیں ، کیا تم سمجھوگے نہیں؟ 

قرآن کریم : 10:16

اللہ کا رسول بننے سے پہلے پاکیزہ زندگی گزارنے والے نبی کریم ؐ اللہ کا رسول ہو نے کے بعد اس سے زیادہ پاکیزہ زندگی گزارے تھے۔ 

لیکن وہ حدیث اس بنیاد ہی کو مٹاکر چکنا چور کردیتی ہے۔ 

راوی ٹھیک ہو نے وجہ سے اس حدیث کو حمایت کر نے والے علماء بھی ہیں۔ راوی کو نیک سمجھنے والے اللہ کے رسول کی عظمت کی طرف ذرہ برابر ‏بھی نظر نہیں کی۔ 

اللہ نے اس 68:4 آیت میں سند دیتا ہے کہ تم ایک اعلیٰ اخلاق پر ہو۔ اس حدیث میں جو با ت کہی گئی ہے کیا وہ اعلیٰ اخلاق ہے؟ 

ان جیسے حدیثوں پر اعتبار کریں توکیا نبی کریم ؐ پر الزام نہیں ہوگا؟ کیا اللہ کے رسول اس طرح عمل کئے ہوں گے؟ 

اگر کوئی حجت کرے کہ یہ بخاری میں درج ہو نے کی وجہ سے اس پر بھروسہ کر نا چاہئے تو وہ اپنی قول میں سچے نہیں ہو سکتے۔ 

نبی کریم ؐ ہمارے لئے ایک نمونہ ہیں۔ اگر اس معاملے میں ان کی پیروی کر تے ہوئے تمام مسلمان اس طرح غیر عورتوں کے گھر میں ٹہر کر قربت ‏میں رہ سکتے ہیں، کیا کوئی اس طرح فتویٰ دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ 

اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ان کی زبان ہی کہتی ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جائے، پر ان کے دل انکار ہی کرتے ہیں۔ 

اس کے بعد ایک دوسری حدیث سنئے۔ 

دس بار دودھ پینے سے ہی دودھ کا رشتہ قائم ہو تا ہے ، ایسی ایک آیت (پہلے) قرآن مجید میں نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد دس بار کو بدل کر پانچ بار ‏بنا یا گیا۔ یہ آیت قرآن میں پڑھے جانے کے زمانے میں ہی اللہ کے رسو ل کا وفات ہوا۔ 

راوی: عائشہؓ 

مسلم: 2876

یہ حدیث کہتی ہے کہ عائشہؓ نے فرمایا: نبی کریم ؐ کی وفات تک ایک آیت قرآن میں تھی۔

نبی کریم ؐ کی وفات تک قرآن مجید میں ایسی ایک آیت رہی ہوتی تو وہ آج بھی قرآن میں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ایسی کوئی آیت قرآن میں موجود نہیں ‏ہے۔ 

اس سے کیا معلوم ہو تا ہے؟ نبی کریم ؐ کے زمانے میں پڑھی جانے والی ایک آیت اس کے بعد بدل دیا گیا، اس کا یہی معنی ہوتا ہے۔ 

اگر قرآن میں کسی آیت کو بدلنا ہو تو نبی کریم ؐ کے ذریعے ہی اللہ بدلے گا۔ ان کی وفات کے بعد کسی آیت کو بدل نہیں سکتے۔ 

اب جو قرآن پڑھی جارہی ہے ،کسی بھی قرآن کے نسخہ میں اورمیوزیم میں حفاظت سے رکھی ہوئی عثمانؓ کے قدیم قرآنی نسخہ میں بھی ایسی کوئی آیت ‏نہیں ہے۔ 

اللہ اس 15:9 آیت میں فرمایا ہے کہ ہم ہی اس نصیحت کو اتارا، اور ہم ہی اس کی حفاظت کر یں گے۔ 

جب اللہ نے خود فرمادیا کہ قرآن کے حفاظت کی ہم ذمہ دار ہیں، تو قرآن کو حفاظت نہیں کیا گیا کہنے والی یہ حدیث ایک جھوٹی کہانی ہی ہو سکتی ہے۔ ‏اگر اس خبر کو مانیں توایسا ماننا ہو جائے گا کہ قرآن کی حفاظت نہیں کی گئی ہے۔ 

اس لئے یہ حدیث مسلم میں درج ہو نے کے باوجود یہ معنی دیتا ہے کہ نبی کریم ؐ وفات پاتے وقت قرآن مجید میں رہنے والی ایک آیت کو بعد میں کسی ‏نے تبدیل کردیا ، اس لئے یہ تراشیدہ جھوٹی کہانی ہی ہوسکتی ہے۔

حدیث کو پہچاننے کا یہی صحیح طریقہ ہے۔ 

اس کو اور زیادہ تفصیل سے جاننے کے لئے اس حدیث کو بھی ملاحظہ فرمائیے۔ 

ابوہریرہؓ نے فرمایا: 

سلیمان نبی نے کہا کہ میں آج کی رات سو بیویوں کے پاس جاؤں گا۔ ان عورتوں میں ہر ایک اللہ کی راہ میں جہاد کر نے والے ایک بچے کو جنم دے ‏گی۔ اس وقت ان کے پاس ایک فرشتے نے کہا کہ انشاء اللہ یعنی اگر اللہ چاہے تو ملا کر بولو۔ لیکن سلیمان نبی نے انشاء اللہ کہنا بھول گئے۔ اسی طرح ‏سلیمان نبی نے اپنی بیویوں کے پاس گئے۔ ان میں سے ایک بیوی کے سوا دوسری کسی نے بچے کو جنم نہیں دیا۔ اس بیوی نے بھی ایک آدھے آدمی ‏ہی کو جنا۔ 

بخاری: 5242

ایک ہی رات میں سو بیویوں سے ملنے کی طاقت ہو سکتی ہے؟ یہ الگ بات ہے۔ 

یہاں صرف ایمان پر اثر کر نے والی بات کو دیکھیں گے۔ 

اگر یہ سچ ہو تو سلیمان نبی نے ایسی پوشیدہ باتیں کہی ہیں جو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے۔ یہی معانی اس میں موجود ہے۔ 

ایک رات میں وہ مجامعت کر نے والی سو بیویاں بھی حمل سے ہوں گے،

سو بچوں کو جنم دینگے، 

وہ سو بچے بھی لڑکے ہی ہوں گے، 

وہ سو بچے بھی اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے،

اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے تو انہیں جوانی کی عمر تک موت نہیں آئے گی، 

وہ تمام نیک اور صالح ہوں گے، 

اور وہ بہادر بھی ہوں گے،

اس طرح کئی پوشیدہ باتیں کہی گئی ہیں۔ 

اتنی پوشیدہ باتیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ ایسی باتوں کوجو صرف اللہ ہی جان سکتا ہے، معمولی ایمان رکھنے والا شخص بھی کہنے کے لئے ڈرے ‏گا۔ 

آج میں اپنی بیوی سے ملنے جارہاہوں ، وہ ایک لڑکے کو جنم دے گی، وہ لڑکاجوانی کو پہنچ کرنیک اور صالح بنے گا، کیا ایسا ایک مسلمان کہہ سکتا ہے؟ ہر ‏گز ایسا نہیں کہناچاہئے۔ اس کو ہر مسلمان جانتا ہے۔ 

کیا اس معمولی حقیقت کو بھی سلیمان نبی نہ جانتے ہونگے؟ ایمان کو متاثر کر نے والی ایسی بات وہ ہر گز نہیں کہے ہوں گے۔ 

اس وقت کا علم اللہ ہی کو ہے۔ وہی بارش برساتا ہے، اور جو کچھ رحم میں ہے وہ جانتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا۔ کوئی جاندار یہ ‏نہیں جانتا وہ کہاں مرے گا۔ اللہ جاننے والا باخبر ہے۔ 

قرآن مجید: 31:34

اللہ کے رسول نے فرمایا:

غیب کی کنجیاں پانچ ہیں۔ اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کل کیا ہوگا، اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔رحم میں کیا ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں ‏جانتا۔ بارش کب ہوگی، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کوئی بھی جان یہ نہیں جانتی کہ وہ کہاں مرے گی۔اور قیامت کا دن کب آئے گا، یہ بھی اللہ ‏کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 

راوی: ابن عمرؓ  

بخاری: 4697

رحم میں جو ہے اس کو اللہ کے سوا کوئی جان نہیں سکتا،یہ اسلام کا اعتقاد ہے۔ کیا اس کے خلاف کوئی نبی کہہ سکتا ہے؟

اس خبر کو سلیمان نبی کے نام سے کہنے کے باوجود اس کو سلیمان نبی نہیں کہے ہوں گے، یہی سچے مسلم کا عقیدہ ہو نا چاہئے۔

ایسے بھی ہم سمجھ نہیں سکتے کہ وہ اللہ کے رسول ہو نے کی وجہ سے اللہ نے ان کو سکھلایا ہوگا۔ اگر اللہ نے ان کو سکھلایا ہو گا تو ان کے کہنے کے ‏مطابق سو بیویوں نے بھی ایک ایک لڑکے کو جنم دینا چاہئے تھا۔ لیکن حدیث کہتی ہے کہ ویسا نہیں ہوا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے فرمان کے ‏مطابق انہوں نے نہیں کہا تھا۔ 

اللہ نے ایسا کچھ نہیں کہا تو وہ اس طرح نہیں کہے ہوں گے۔ نبی کریم ؐ نے بھی نہیں کہا ہو گا کہ انہوں نے ایسا کہا۔اس لئے ہمیں یہی فیصلہ کر نا چاہئے ‏کہ یہ بالکل جھوٹی کہا نی ہے۔ 

ایک اور حدیث دیکھئے!

ابوہریرہؓ نے کہا:

روح قبض کر نے والے فرشتے کوموسیٰؑ کے پاس بھیجا گیا۔ موسیٰؑ نے ان کے چہرے پر تھپڑ مارا۔ فرشتے نے فوراً اللہ کے پاس جا کر شکایت کی کہ تو ‏نے مجھے ایک ایسے انسان کے پاس بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ نے کہا: تم ان کے پاس جاکر کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کے پیٹھ پر رکھے۔اور کہو ‏کہ ان کے ہاتھ میں جتنے بال آتے ہیں اس ایک ایک بال کے بدلے ایک سال کی عمر انہیں بڑھا دی جائے گی۔ (جب فرشتے نے اس بات کو موسیٰؑ ‏سے کہا تو) موسیٰ نے اللہ سے پوچھا کہ اے پروردگار! اس کے بعد کیا ہوگا؟ اللہ نے کہا مرناہی ہوگا۔ موسیٰؑ نے کہا کہ اگر ایسا ہوتو مجھے ابھی موت ‏دیدے۔ اس طرح کہنے کے بعد انہوں نے اللہ سے گذارش کی کہ (بیت المقدس کے) مقدس زمین کے قریب ہی ان کی قبر رہے۔ 

بخاری: 3407

روح قبض کر نے والے فرشتے اپنا فرض ادا کر نے کے لئے آئے ہیں تو کیا موسیٰ نبی ان کو تھپڑ مار ے ہوں گے؟ 

روح قبض کر نے والے فرشتے کواللہ ہی نے بھیجا ہوگا، کیا یہ موسیٰ نبی کو معلوم نہ تھا؟ وہ ایک فرشتے ہیں ، انہیں اللہ ہی نے بھیجا ہے، یہ معلوم ہو نے ‏کے باوجود موسیٰ نبی نے ان کے چہرے پر تھپڑ مارا، اس طرح نبی کریمؐ نے بھی نہیں کہا ہوگا۔ 

یہ بات اچھی طرح واضح ہو تا ہے کہ یہ اللہ کے خلاف جنگ ہے۔ 

اگر موسیٰ نبی مرنا نہیں چاہتے اور چند سال جینے کی تمنا تھی تو وہ فرشتے سے کہتے کہ جاؤ، اللہ سے پوچھ کر آؤ کہ کیا مجھے اور چند دن کی مہلت دے سکتے ‏ہو تو یہ تھوڑامناسب لگتا ہے۔ اس کے بجائے چہرے پر تھپڑ مارکر بھگادیا کہنا کیسے مان سکتے ہیں؟ 

فرشتے کی غیر معمولی طاقت کے سامنے موسیٰ نبی کی طاقت کچھ معنی نہیں رکھتی۔ اس لئے ہمیں غور کر نا چاہئے کہ وہ کیسے تھپڑ مارے ہوں گے؟

اگر موسیٰ نبی تھپڑ بھی ماریں ہوں تو اپنے فرض کو انجام دینے والے فرشتے کیا ناکام لوٹے ہوں گے؟ 

اللہ ان 6:61، 16:50، 21:27، 66:6 آیتوں میں کہاہے کہ فرشتے اپنے پروردگار کے احکام کوپوری طرح انجام دینے والے ہیں اور اس ‏میں کسی طرح کی کمی نہیں کر نے والے اور اللہ کے کسی احکام سے تجاؤز نہیں کر نے والے ہیں۔

ایسی صفت رکھنے والے فرشتے وہی کام کریں گے جو اللہ نے انہیں حکم کیا ہے، اس کے بجائے مار کھا کر واپس نہیں لوٹیں گے، ایسی معمولی سی سمجھ ‏رکھنے والے بھی اس کو نہیں مانیں گے۔ 

اللہ کے حکم کو قبول کر لینا ایک مومن کا فرض ہے۔ اللہ کے فیصلے کو انکار کر تے ہوئے اس کو لانے والے پیامبر کو بھی مارنا رسول کا اخلاق نہیں ہو ‏سکتا۔ ایسا عمل اللہ کے انکار کی طرف لے جائیگی۔

اللہ کے انتظام میں غیر مطمئن ہو کر ناراض ہو نے والے یونس نبی کے واقع کو اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔

مچھلی والے (یونس) نے برہم ہو کر چلا گیا۔ اور سمجھا کہ اس پر ہم گرفت نہیں کریں گے۔ پھر اس نے اندھیروں میں سے پکارا کہ تیرے سوا کوئی ‏معبود نہیں، تو پاک ہے۔ میں ظلم کر نے والوں میں سے ہوگیا۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی۔ اور اس کو غم سے نجات دی۔ اور اسی طرح ہم ایمان ‏والوں کو نجات دیتے ہیں۔

قرآن : 21:87,88

پس اپنے رب کے فیصلے تک صبر کرواور مچھلی والے کی طرح نہ بن جاؤ۔اس نے غم سے بھرا ہوا (اپنے رب کو) پکارا۔ اگر اس کے رب کی مہربانی نہ ‏شامل ہوتی تو وہ مذموم ہو کر کھلے میدان میں پھینک دیا

گیا ہوتا۔ پھر بھی اس کے رب نے اس کو برگزیدہ کیا، اس کو نیکوکار بنایا۔ 

قرآن: 68:48-50

اللہ نے یونس نبی کی واقعات کو سنانے کے بعد تنبیہ کر تا ہے کہ اے محمد! تم مچھلی کے پیٹ میں رہنے والے کی طرح نہ بن جانا۔

اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اپنی شان کے خلاف کوئی بھی عمل کرے ،اللہ اس کو رسمی طور پر نہیں اٹھاتا۔ 

اللہ کی عظمت کے خلاف جنگ کے انداز سے قرار پائی ہوئی اس خبر کی طرفداری میں بعض لوگ کوشش کر تے ہیں۔ 

وہ لوگ اس طرح بھی بکواس کر تے ہیں کہ اللہ نے اس فرشتے کو اس طرح بھی کہہ کر بھیجا ہو گا کہ تم موسیٰ نبی کے پاس جاؤ، وہ تمہارے چہرے پر ‏تماچہ ماریں گے، وہ لے کر واپس آجاؤ۔ 

اگر ایسا ہوتا تو وہ فوراً اللہ کے پاس جاکر ایسا کہا نہیں ہو گا کہ تو نے مجھے مرنا نہ چاہنے والے ایک بندے کے پاس بھیج دیا۔اس کے بجائے اس نے یہی ‏کہا ہوگا کہ تم نے جیسا کہا اسی طرح اس نے مجھے تھپڑ ماردیا۔ میں بھی تھپڑ لے کر آگیا۔ 

ایک اور حدیث سنئے۔

سہلہ بنت سہیلؓ نے نبی کریم ؐ کے پاس آکر کہا کہ اے اللہ کے رسول! سالم بن معقل میرے گھر کو جب آئے تو میرے شوہر ابو حذیفہ کے چہرے پر ‏ناگواری کو میں نے دیکھا۔ سالمؓ ابو حذیفہؓ کے غلام تھے۔ نبی کریم ؐ نے اس کے جواب میں کہا کہ تم اس (سالم) کو دودھ پلادو۔ سہلہ بنت سہیلؓ نے ‏پوچھا کہ وہ تو جوان آدمی ہیں، میں انہیں کیسے دودھ پلا سکتی ہوں۔ اللہ کے رسول نے مسکراتے ہوئے کہا وہ جوان آدمی ہیں، اس کو میں بھی جانتا ‏ہوں۔ 

راوی: عائشہؓ 

مسلم: 2858

ایک بچے کو جب ایک عورت دودھ پلاتی ہے تو اس بچے کو وہ عورت ماں کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔اس کے بعد وہ بچہ ترقی پا کر جوان بھی ہوجائے ‏تو وہ اپنے دودھ پلانے والی کے ساتھ تنہائی میں بھی رہ سکتا ہے۔ کیونکہ اسلام کا قانون ہے ماں کی طرح وہ بھی ماں بن جاتی ہے۔

لیکن اس حدیث میں جو کہا گیا ہے کیا وہ اس قانوں کے اندر آسکتا ہے؟ ہر گز نہیں!آئیے وضاحت سے دیکھیں۔

تین سال کے بچے کو اگر کوئی عورت دودھ پلاتی ہے تو وہ اس بچے کی ماں نہیں بن سکتی۔ اس کو ان دلیلوں سے جان لیں۔ 

اس (شوہر)کے لئے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چ ہے مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلانا چاہئے۔ 

قرآن: 2:233

ہم نے انسانوں کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے اس کو دکھ پر دکھ اٹھا کر پیٹ میں رکھا۔وہ دودھ پینے کی عمر دو سال ‏ہے۔ مجھے اور تمہارے والدین کی شکر ادا کرو۔ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ 

قرآن: 31:14

اس کو( یعنی انسان کو) اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا۔ اور تکلیف کے ساتھ جنا۔اس کا حمل میں رہنا اور دودھ چھڑانا تیس مہینے ‏ہیں۔ 

قرآن: 46:15

اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: 

دودھ پلانا دو سال کے اندر ہی ہوں۔ 

راوی: ابن عباسؓ ۔ کتاب: دارقطنی 

ان دلائل سے معلوم ہو تا ہے کہ تین سال کے بچے کو دودھ پلانے سے بھی ایک عورت ماں بن نہیں سکتی۔ 

لیکن سالم کے سلسلے کی حدیث میں کہا گیا ہے کہ بلوغت کو پہنچے ہوئے جوان کو دودھ پلانے سے بیٹے کا رشتہ پیدا ہوجا ئے گا۔

اس لحاظ سے یہ قرآن کے خلاف قرار پائی ہے۔ 

اس کے بعد اللہ نے ہمیں یہ بھی حکم دیا ہے کہ غیر عورتوں کے معاملے میں نگاہوں کو نیچی رکھے۔ 

عورتوں کے پاس مردوں کے لئے بہت ہی جاذب چیز چھاتی ہے۔ ایسے میں ایک جوان مرد کے منہ میں پستان رکھ کر دودھ پلایا جائے اور اس سے ‏وہ جوان مرد بیٹے کے رشتے میں آجائے گا ، اس طرح نبی کریم ؐ کیسے کہے ہوں گے؟ 

اس کو سنتے وقت ہی کراہت محسوس ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول کی عقل اور تہذیب پر الزام دھرنے کی طرح ہے۔ 

اس پر بھروسہ کرنے کو کہنے والے تو زبان تک ہی کہہ رہے ہیں۔ دل سے وہ اس کو ماننے والے نہیں ہیں۔ 

اگر کوئی مان لے کہ اس کو نبی کریمؐ ہی نے کہاہے تو کیا وہ فتویٰ دے سکتے ہیں کہ چاہنے والے مسلمان اس طرح کر لیں؟ ہر گز وہ ایساکر نے والے ‏نہیں۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس طرح وہ لوگ بھی اس کو مانتے نہیں اور جھوٹ بھی بولتے ہیں کہ ہم اس کو مان رہے ہیں۔ 

اس سوال سے بچنے کے لئے بعض لوگ عجیب طرح کی تفصیلیں دے رہے ہیں۔ 

؁ؑ یعنی چھاتی میں منہ رکھ کر دودھ پینے کے لئے نہیں کہا، بلکہ وہ دودھ دوہکردئے ہوں گے، یہی اس کی تفصیل ہے۔ 

اس طرح کہنے کے لئے اس حدیث میں یا دوسری کسی روایت میں کہا نہیں گیا ہے۔ 

کم سے کم اس میں تو وہ سچے ہو نا چاہئے تھا، وہ بھی نہیں۔

غیر مردوں کے ساتھ تنہائی میں رہناچاہنے والی ہر عورت چھاتی سے دودھ دوہ کر دینے کے بعدتنہائی میں رہ سکتی ہے ، کوئی بھی مرد کسی بھی عورت ‏کے ساتھ اس طریقے کو اپناکر تنہائی میں رہ سکتے ہیں ، کیا ایسا فتویٰ دے سکتے ہیں؟ ایسا کوئی نہیں دے سکتا۔یعنی اس تفصیل کو وہ خود مانیں گے نہیں ، ‏دوسروں کو ماننے کیلئے کہیں گے۔ 

وہ ایسا فتویٰ نہ بھی دیں ، کیا وہ ایساقانون بنا سکتے ہیں کہ ایک مرد اور عورت تنہائی میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ، اور وہ عورت کہتی ہے کہ میں نے ‏ابھی ابھی اس کو دوھ پلایا ، اس لئے یہ میرا بیٹاہے تو کیا اس کو سزا دئے بغیر چھوڑ دیں؟ 

ان سب سے بچنے کے لئے جانتے ہو انہوں نے کیا طریقہ اختیار کیا؟یہی کہ یہ صرف سالم کے لئے قانون تھا، سب کے لئے نہیں۔ 

کیا اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ یہ صرف سالم کے لئے ہے؟ ہر گزنہیں۔ 

چند مواقع پر چند مخصوص آدمیوں کے لئے عام قانون سے ہٹ کرنبی کریم ؐ نے مستثنا ء دی ہے۔ لیکن وہ فحش اوربے ہودہ بات کے لئے اجازت ‏نہیں دیا گیا۔ 

اگر کوئی کہے کہ صرف ایک شخص کو زناکاری کے لئے نبی کریم ؐ نے اجازت دی تو کوئی مان سکتا ہے؟ صرف ایک شخص کو غیر عورت کی چھاتی کو ‏دیکھنے اور دودھ پینے کی اجازت دینا بھی ایسا ہی ہے۔ الگ قانون بیہودہ چیزوں کے لئے نہیں ہے۔ 

ان جیسوں کے لئے ہی یہ آیت شاید اتاری گئی ہے۔

جب وہ بے حیائی کا کا م کر تے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کر تے ہوئے پایا۔ اللہ ہی نے اس کو ہمیں حکم دیا ہے۔ کہو کہ اللہ ‏کبھی برے کام کا حکم نہیں دیتا۔ جو تم جانتے نہیں ہو کیا اس کو تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو؟ 

قرآن: 7:28

عدل کا، احسان کا اور قرابت داروں کو دینے کا اللہ حکم دیتا ہے۔ بے حیائی سے، برائی سے اور سرکشی سے اللہ تمہیں روکتا ہے۔ تم یاد دہانی حاصل کر ‏نے کے لئے اللہ تم کو نصیحت کر تا ہے۔ 

قرآن : 16:90

ان 2:169، 2:268، 24:21آیتوں میں اللہ فرماتا ہے کہ نفرت انگیز باتوں کو شیطان ہی ترغیب دے گا۔

چنانچہ یہ جھوٹی کہا نی کے سوا اس کو نبی کریم ؐ نے نہیں کہا۔ 

اس کو تفصیل سے ہم اس لئے پیش کر رہے ہیں کہ جو حدیث کہتی ہے کہ نبی کریم ؐ پر جادو کیا گیا ، اسی حدیث کو اہم دلیل بنا کر ثابت کر نے کی کوشش ‏کرتے ہیں کہ جادو کے ذریعے کسی کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اور یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ جب کہ نبی کریم ؐ پر ہی جادو کرکے انہیں دلی مریض بنایا جا سکتا ‏ہے تو دوسروں کو کیوں نہیں کرسکتے۔

لیکن ہم نے اوپر جو انکار کر نے والی جھوٹی حدیثوں کو پیش کی ہے اس سے کہیں زیادہ پیمانے پر اس جادو کی حدیث اسلامی بنیاد ہی کو ہلانے کی کوشش ‏کررہی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہی ہم اس بنیاد کو وضاحت کر رہے ہیں۔

ایسا بھروسہ کر نا کہ جادو کے ذریعے اثر ہو سکتا ہے، اسلام کی کئی بنیادوں کو کیسے مسمار کر تی ہے، اس کو جاننے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ نبی ‏کریم ؐ پر جادو کرنے کی حدیثوں میں کیا کیا تفصیلیں درج کی گئی ہیں۔ 

‏’نبی کریم ؐپر جادو کیا گیا ہے‘ کہنے والی چند روایتیں یہ ہیں:

عائشہؓ نے فرمایا:

نبی کریم ؐ پر جادو کیا گیا۔وہ اس انداز سے تھا کہ وہ ایک عمل نہیں کر رہے ہوتے، لیکن انہیںیہی وہم ہوتا رہا کہ اس کام کو انہوں نے کر دیا۔ آخر ایک ‏دن وہ دعا کر تے رہے۔ پھر انہوں نے پوچھا:کیا تم جانتی ہو کہ میری شفا جس میں رہا اس کو اللہ نے مجھے بتا دیا؟ میرے پاس دو شخص آئے، ان میں ‏سے ایک میرے سرہانے بیٹھا، دوسرا میرے پاؤں تلے بیٹھا۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا، ان کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو کیا ‏گیا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ کس نے جادو کیا؟ دوسرے نے جواب دیا کہ لبید بن اعصم نامی ایک یہودی نے۔پہلے نے پوچھا کس چیز میں؟ ‏دوسرے نے کہا: کنگھی ، ان کے بال اور کھجور کے خوشے کے غلاف میں۔ اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟دوسرے نے جواب دیا کہ (بنو سریخ ‏قوم کے باغ میں موجود) دروان نامی کنویں میں ہے۔

‏(وہ اس طرح کہنے کے بعد)نبی کریم ؐ نے اس کنویں کی طرف چلے، پھر واپس آئے۔ واپس آکر مجھ سے کہنے لگے کہ اس کنویں میں موجود کھجور کے ‏درخت شیطانوں کے کھوپڑی جیسے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے اس کوباہر نکال دیا؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، مجھے اللہ نے شفایاب کر دیا۔ ‏مجھے خدشہ ہوا کہ یہ کہیں لوگوں کے درمیان الجھن نہ پیدا کردے۔ پھر اس کنویں کوپاٹ دیا گیا۔ 

بخاری: 3268

اللہ کے رسولؐ اس طرح ہوگئے تھے کہ وہ جو نہیں کیا تھا ، انہیں وہم ہو نے لگا کہ وہ اس کو کررہے تھے۔ 

بخاری کی حدیث 5763 میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے رسول ؐ کو ایسا وہم ہو نے لگا کہ وہ جو نہیں کئے تھے وہ کر رہے ہیں۔ 

بخاری کی حدیث 5765 میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے رسول ؐ پر جادو کیا گیا۔اس سے وہ اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کے باوجود انہیں گمان تھا کہ بیوی ‏کے پاس گئے تھے۔

بخاری کی حدیث 5766میں کہا گیا ہے کہ جو وہ نہیں کئے تھے ، ان کو وہم ہو نے لگا کہ وہ اس کو کر رہے ہیں۔ 

بخاری کی حدیث6063 میں کہا گیا ہے کہ ان پر جادو کر دینے کی وجہ سے وہ ایسے ایسے سلوک کر رہے تھے۔ وہ اپنی بیویوں سے ملے بغیر ہی انہیں ‏وہم ہو نے لگا تھا کہ وہ ان سے ملے تھے۔ 

بخاری کی حدیث 6391میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے رسول ؐ پر جادو کیا گیا ۔ اس کے بعد انہیں وہم دلایا گیا کہ وہ جو نہیں کئے تھے، اس کو انہوں نے ‏کردیا۔

جادو کے ذریعے متاثر کر سکتے ہیں، ایسے اعتقاد والے اس کو اپنے لئے ایک اہم دلیل پیش کر تے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ ان حدیثوں میں واضح طور پر ‏کہا گیا ہے کہ جادوسے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ 

یہ احادیث کہہ رہی ہیں کہ ایک یہودی نے نبی کریم ؐ پر جادو کر نے کی وجہ سے وہ سخت متاثر ہوئے تھے۔ ان حدیثوں میں نبی کریم ؐ کو متاثر کرنے والی ‏جملوں کو ذرا غور سے دیکھئے! 

نبی کریم ؐ پر ایک یہودی نے جادو کیا۔ اس کی وجہ سے انہیں وہم ہو تے رہا کہ جو وہ نہیں کئے تھے، اس کوانہوں نے کیا تھا۔ 

اپنی بیوی سے مجامعت کئے بغیرمجامعت کر نے کا خیال پیداہوتا تھا ۔ اس حد تک اثر پختہ ہو گیاتھا۔

اس میں یہی کہا گیا ہے:

ایک انسان جو نہیں کیا تھا اس کو کردیا کہنا ایک قسم کا دلی مرض ہے۔ مزید یہ کہ بیوی سے ملے بغیر مل گیا کہنا بہت سخت دل کا مرض ہے۔ یہ احادیث ‏کہتی ہیں کہ اس قسم کا دل کا مرض ہی جادو کے ذریعے ان پر کیا گیاتھا۔ 

ہم نے جو پہلے حدیث درج کی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ دل کا مرض ہی نہیں جسمانی تکالیف بھی پیدا ہوئی تھی۔اس روایت میں کہا گیا ہے فرشتوں ‏نے گفتگو کی تھی کہ اس آدمی کو کیا تکلیف ہے؟ (اصل متن میں تکلیف کہا گیا ہے ، اس کو مترجموں نے بیماری سے تعبیر کیا ہے۔ اس غلطی کو ذہن ‏میں رکھئے!)

اگریہ ایک دن کا مسئلہ ہو تو اس کو دل کا مرض نہیں کہہ سکتے۔ لیکن یہ روایتیں کہتی ہیں کہ ایسا کئی دن چلتا رہا۔ چند مترجم اس رائے کے مطابق ‏ترجمہ نہ کر نے کے باوجود اصل متن میں ’کان‘ کا لفظ موجود ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ اسی حال میں وہ کئی عرصہ رہے۔

یہ حال کتنے عرصہ تک رہا ، یہ احمد کی حدیث واضح کرتی ہے:

نبی کریم ؐ کی یہ حالت چھ ماہ تک مستقل رہا۔

احمد: 23211 

وہ لوگ دعویٰ کر رہے ہیں، یہ حدیثیں کہتی ہیں کہ نبی کریمؐ نے جو کام نہیں کیا اس کو ایسا سمجھنا کہ کردیا،یہ حالت چھ ماہ تک انہیں متاثر کر تا رہا۔ اس ‏لئے جادو سے سب کچھ کر سکتے ہیں۔ 

اسلامی بنیاد کو جھٹلاتے ہوئے وہ ان حدیثوں کواپنانے کی وجہ ہی سے وہ لوگ اس طرح حجت کر رہے ہیں۔ اسلامی بنیادی عقیدے کی حد سے نہ ‏بڑھتے ہوئے اگرغور کر تے تو وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچتے کہ یہ حدیث تراشیدہ جھوٹ ہے۔ 

کیونکہ جب اعتبار کیا جائے کہ جادو سے متاثر کر سکتے ہیں تواللہ کے ساتھ شرک ٹہرانے کے جرم میں ملوث ہو نے کی نوبت آسکتی ہے۔ 

اس سے قرآن مجید کی کئی آیتوں کو ٹھکرانے کی نوبت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ 

اگر یہ اعتبار کیا جائے کہ نبی کریم ؐ پر جادو کیا گیا ہے ، قرآن کی حفاظت سوالیہ نشان بن جا تا ہے۔ 

نبی کریم ؐ کی رسالت شک کے دائرے میں آجا تا ہے۔ 

ہم نے شروعات میں اشارہ کیا تھا کہ قرآن مجید کے اختلاف میں چند حدیثیں موجود ہیں۔ ان حدیثوں سے زیادہ یہ حدیث بے حد اعتراض کے قابل ‏ہے۔ 

اس کے متعلق تفصیل سے جان لیں۔ 

اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانا

اس پر بھروسہ کرنا کہ جادو سے اثر ہوتا ہے، وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانے کا جرم ہوگا۔ وہ کیسے، آئیے دیکھیں!

ہم جان رکھے ہیں کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانا نہیں چاہئے۔

بعض لو گ سمجھتے ہیں کہ دو معبودوں میں ایک معبود اللہ ہے یا تین معبودوں میں ایک معبود اللہ ہے ، اس طرح ماننا ہی شریک ٹہرانا ہے۔ یہ بھی ‏شریک ٹہرانا ہی ہے، پھر بھی شریک ٹہرانا کا مطلب اس سے بہت وسیع ہے۔ 

اللہ کے کئی صفات ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک صفت بھی اگر کوئی مانے کہ اللہ کے سوا کسی انسان کو ہے تو اس صفت کے معاملے میں ایسا سمجھا جائے ‏گا کہ اس نے اللہ کی طرح کسی انسان کو مان لیا۔ یعنی اللہ کا شریک ٹہرالیا۔ 

اس کو ان 36:78، 42:11، 112:4 آیتوں کے ذریعے معلوم کر سکتے ہیں۔

ان آیتوں کا مطلب ہے کہ اللہ جیسا سننے والاکوئی نہیں، اس جیسا دیکھنے والا کوئی نہیں اور اس جیسا کرنے والا کوئی نہیں۔ 

مثال کے طور پر ہمیں بھی سننے کی طاقت ہے اور اللہ کو بھی سننے کی طاقت ہے۔ لیکن کیا ہم ایسا ایمان لا سکتے ہیں کہ ہمارے سننے کی طاقت اللہ کے ‏سننے کی طاقت جیسی ہی ہے؟ اگر ویسا بھروسہ کرو گے تو وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانا ہوجائے گا۔ 

اللہ کے سننے کی طاقت کی کوئی حد نہیں۔ لیکن ہمارے سننے کی طاقت ایک حد کے اندر ہے۔ 

ایک وقت میں ایک شخص کی بات ہی کو ہم سن سکتے ہیں۔ اگر کوشش کریں تو اور بھی ایک دو خبروں کوبڑھ کر سن سکتے ہیں۔ لیکن دنیا میں بسنے ‏والے کروڑوں لوگ بھی ایک وقت میں کوئی استدعا کریں تو اسی وقت اللہ سب کی سن لیتا ہے۔ 

قبروں کی پرستش کر نے والے جنہیں بڑے بزرگ سمجھتے ہیں انہیں پکارتے ہیں۔ یا ولی! ہمیں یہ عطا فرمائیے کہہ کر کئی شہروں سے ایک ہی وقت ‏میں پکارتے ہیں۔ کیا ان سے ان لوگوں کا استدعا پورا ہو سکتا ہے ، یہ سوال ایک طرف رہنے دو، ان لوگوں کا ایمان ہے کہ سب لوگوں کی گزارش کو ‏وہ بزرگ اسی وقت سنتے ہیں، اسی لئے توہ انہیں پکارتے ہیں۔ اس طرح اس کا مطلب نکلتا ہے کہ وہ بزرگ ایک ہی وقت میں سب لوگوں کی پکار کو ‏سننے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹہراتے ہیں۔ 

ایک شخص کی پکار کو سننا ہوتو ان کے اور ہمارے درمیان ایک مخصوص فاصلہ ہو نا چاہئے۔ بہت دور میں رہنے و الے کی بات کو ہم سن نہیں سکتے۔ 

ایک شخص کی بات کو اگر ہم سننا ہو تو اس بات کو پھیلانے والی ہوا چاہئے، یا برقی لہریں چاہئے۔ اس بات کی آواز ایک مخصوص انداز میں ہو نا چاہئے۔ ‏اس سے کم ہو تو ہم سن نہیں سکتے۔ لیکن ایسی کمزوریاں اللہ کو نہیں ہے۔ 

اگر کوئی ایسا ایمان رکھے کہ کہیں سے بھی پکارو، کتنے لوگ بھی پکارو، کتنی آہستگی سے بھی پکاروایک شخص سب کچھ سنتا ہے ، تو اس کی سننے والی طاقت ‏اللہ کی طاقت کے برابر سمجھے جانے کی وجہ سے اس کو ہم شریک ٹہرانا کہتے ہیں۔ 

دیکھنے والی صفت کو اٹھالیں۔ ہمیں بھی دیکھنے کی طاقت ہے،اور اللہ کو بھی دیکھنے کی طاقت ہے۔ لیکن جس طرح اللہ کے دیکھنے کی طاقت ہے اسی ‏طرح انسان کی دیکھنے والی طاقت بھی ہے ، اس طرح مانو گے تو وہ بھی شریک ٹہرانا ہی کہلائے گا۔ 

ایک مخصوص فاصلے پر ہو تو ہی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اور روشنی ہو تو ہی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی رکاوٹ نہ ہو تو ہی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک ‏ہی چیز کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اللہ کے دیکھنے کی صفت کو کوئی انتہا نہیں ہے۔ 

اگر ایسا بھروسہ کرے کہ ایک انسان ہے جو کتنے بھی فاصلہ پر ہو اسے دیکھ لیتاہے، کتنی بھی رکاوٹ ہواس سے بھی پار وہ دیکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ‏ہو جائے گا کہ وہ انسان اللہ جیسا ہے۔ 

مکہ والے جواسلام کو اختیار نہ کئے تھے، وہ اللہ کے سوا کئی چھوٹے چھوٹے معبودوں کی پرستش کر رہے تھے۔ لیکن ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر قسم کی ‏قدرت اور اختیار اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔ اس کے باوجود اللہ نے انہیں مشرک ہی کہا ۔ 

یہ آیتیں 10:31، 23:84-89، 29:61، 29:63، 31:25، 39:38، 43:9، 43:87 بالکل واضح طور پر کہتی ہیں کہ مکہ والے ‏جو اسلام کوقبول نہیں کئے تھے، اللہ ہی پر بھروسہ کئے ہوئے تھے اور اللہ کی قدرت کو سمجھے ہوئے تھے۔

مکہ کے غیر مسلموں کا بھروسہ یہی تھا کہ ان کے چھوٹے معبود اللہ کے پاس ان کی سفارش کر کے انہیں مدد کریں گے ۔ اسی کو یہ 10:18، 39:3 ‏آیتیں وضاحت کرتی ہیں۔

ایک طرف یہ بھروسہ کر تے ہوئے کہ اپنے چھوٹے معبودوں کو اللہ کی قوت نہیں ہے، دوسری طرف ایسا بھروسہ کر رہے تھے کہ اللہ کے برابر کی ‏قوت ان چھوٹے معبودوں کو ہے۔ 

کہیں سے بھی پکارو، کتنے لوگ بھی پکارو، کسی بھی وقت پکارو، کسی بھی زبان میں پکاروسب کو ایک ہی وقت میں سمجھنے کی قوت انہیں موجود ہے ، ‏یہی ان کا بھروسہ تھا۔ 

صرف اتنا سمجھنا ہی شرک نہیں ہے کہ دوسرے کوپوری کی پوری اللہ کی قدرت حاصل ہے ، بلکہ اللہ کی صفات میں کوئی ایک صفت بھی اللہ ہی کے ‏جیسے کسی کو ہے سمجھنا بھی شرک ہی ہے۔اگر ایسا مانو کہ کوئی ایک صفت بھی اللہ ہی کی طرح دوسروں کوبھی ہے تو وہ شرک ہی ہے، اس کو ذہن میں ‏رکھتے ہوئے آئیے جادو کے بارے میں تحقیق کریں۔ 

دوسروں کودکھ پہنچانا ، یہ صفت اللہ کو بھی ہے اور انسانوں کو بھی ہے۔ 

فرض کرو کہ اللہ ایک شخص کا پاؤں توڑنا چاہتا ہے۔ایک بہت بڑے درانتی کو لے آکر اس آدمی کے پاؤں کو اللہ کاٹے گا نہیں۔ اس آدمی کو چھوئے ‏بغیر ، کسی قسم کی اوزار استعمال کئے بغیر کہے گا کہ ٹوٹ جائے تو وہ ٹوٹ جائے گا۔ 

لیکن ایک انسان دوسرے ایک انسان کا پاؤں اگر ٹوڑنا چاہے تو وہ درانتی یا ڈنڈے کو لے آکر پاؤں پر ضرب لگا کر توڑدیگا۔

اگر ایک انسان کو اللہ دل کا مریض بنانا چاہے تو کہے گا وہ دل کا مریض بن جائے تو وہ دل کامریض بن جا ئے گا۔ لیکن ایک انسان دوسرے ایک ‏انسان کو دل کا مریض بنانا چاہے تو اس کے مناسب کی گولیاں یا دوائیں دے کر یا دماغی توازن کھونے کی طرح سر پر ضرب لگا کر دل کا مریض بنا سکتا ‏ہے۔ 

اس معاملے میں اللہ اور انسان کے درمیان جو فرق ہے وہ واضح ہے۔ 

یہ آیتیں 2:117، 3:47، 3:59، 6:73، 16:40، 19:35، 36:82، 40:68 کہتی ہیں کہ اللہ کسی چیز کو بنانا چاہے تو وہ کہتا ہے کہ ‏ہوجا، تووہ ہو جاتی ہے۔ 

ہو جا کہہ کر بنانے کی طاقت صرف اللہ ہی کو ہے۔ لیکن یہ اعتبار رکھنے والے کہ جادو سے متاثر کر سکتے ہیں، وہ جادوگر کو کس مقام پر رکھے ہوئے ‏ہیں؟

وہ لوگ ایسا بھروسہ نہیں کر تے کہ جادوگر ڈنڈے سے پاؤں توڑے گا۔ وہ ایسا ہی بھروسہ کر تے ہیں کہ اللہ کی طرح ہوجا کہہ کر حکم دے گا تو متاثر ‏ہو جا ئے گا۔ 

وہ بھروسہ کر تے ہیں کہ جادوگر کسی دوے کو استعمال کئے بغیر ہوجا کہہ کر کسی کو بھی پاگل بنا سکتا ہے۔ 

وہ بھروسہ کر تے ہیں کہ ایک انسان دوسرے ایک انسان کو غمگین بنانے یا ضرر پہنچانے دنیا کی کسی طریقے کو استعمال کئے بغیر جادو ئی قوت سے ایک ‏دوسرے کو متاثر کیا جاسکتا ہے۔ 

مثال کے طور پر ایک آدمی دوسرے ایک آدمی کو چھرا گھونپ سکتا ہے، یا دونوں ہی چھرا گھونپ لے سکتے ہیں۔اس سے ایک کو یا دونوں کو تاثیر ہو ‏سکتا ہے۔ 

اس طرح ایک دوسرے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ 

ایک دوسرے کو گالی دیتا ہے یا الزام لگا تا ہے تو جسے یہ گالی دیتا ہے یا الزام لگا تا ہے اس کو غمزدہ کر سکتا ہے۔ 

ایسے طریقوں سے ایک انسان دوسرے ایک انسان کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کے لئے کوئی الگ سے سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ کسی کے مقابلے میں ‏کوئی بھی کر سکتا ہے۔ 

دنیا میں انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو متاثر کر نے کے لئے اللہ نے جو طریقہ مقرر کیا ہے اس کے علاوہ باقی تمام طریقے اللہ کا اپنا طریقہ ہوگا۔ 

اس طرح بھروسہ کیا جا تا ہے کہ جادو کر نے والے کے پاس گزارش کرے کہ ایک آدمی پر جادو کر نا ہے تو وہ اسے چھوئے بغیر ، اس کے قریب گئے ‏بغیر، اس کو دیکھے بغیر کہیں دور ایک مقام پر رہتے ہوئے بھی وہ متاثر کر سکتا ہے۔ 

جس پر جادو کر نا ہے اس کی قمیص، پسینہ، قدموں کی مٹی، سرکی بال اور پیشاب وغیرہ منگوا کر اس کو پُتلابنا کر ، جادو کئے جانے والے کا نام اس پر لکھ کر ‏اس پُتلے کے پیٹ پر چبھاؤ گے تو اس کے پیٹ کو وہ متاثر کر ے گا۔ اس پتلے کی آنکھ کو چبھاؤگے تو اس کی آنکھ متاثر ہوگی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہی جادو ‏ہے۔ ان لوگوں کا بھروسہ ہے کہ صرف جسم ہی کو نہیں بلکہ دل پر بھی اثر کیا جا سکتا ہے۔ 

ایک شخص کو متاثر کر نے کے لئے اللہ نے جس طریقے کا انتظام کیا ہے اس میں سے کسی کو جادوگر استعمال نہیں کرے گا۔ 

لوگوں کا بھروسہ ہے کہ شوہر بیوی کو جدا کر نے کے لئے پیسہ دوگے تو بس جادوگر اس کو لے کر کہیں دور بیٹھے بیٹھے بھی شوہر بیوی کو جدا کر سکتا ‏ہے۔ 

ایسا بھروسہ کر نے والے کہ جادو سے متاثر کر سکتے ہیں ، وہ جادوگر کوبھی اللہ کی طرح قدرت رکھنے والاہی مانتے ہیں۔ 

اس لئے لبید نامی یہودی اپنی جادوئی طاقت سے نبی کریم ؐ پر جادو کیا سمجھنا ، اس بات کو ثابت کر نا ہے کہ اس کو بھی اللہ کی صفت ہے۔ چنانچہ اس میں ‏کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ؐ کو جادو کے ذریعے متاثر کیا گیا کہنے والی حدیثیں بالکل جھوٹی ہیں۔ 

اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانے والی قسم کا یہ عقیدہ رہنے کے باوجود اپنی اعتماد کو ثابت کر نے کے لئے وہ لوگ چند دلیلیں پیش کرتے ہیں،چند احتجاج ‏بھی رکھتے ہیں۔ اس پر ذرانظر کریں۔ 

جادوگر اپنی خود کی طاقت سے ایسا نہیں کرتا۔اللہ نے اس کو وہ طاقت دے رکھی ہے، اس لئے وہ کر تا ہے۔ یہ کیسے شریک ٹہرانا ہوسکتا ہے؟ یہ ان ‏کی پہلی دلیل ہے۔ 

اس دلیل کو دیکھنے کے بعد ایسا معلوم ہو تا ہے کی یہ لوگ وحدانیت کا پہلا قاعدہ بھی نہیں پڑھا۔ 

اللہ نے انسانوں کوبہت سی قوت دینے کے باوجود کسی کو اپنی جیسی طاقت عطا نہیں کی ہے۔ اللہ جو کہتا ہے کہ میرے برابر کوئی نہیں،اسی میںیہ بات ‏مضمر ہے۔

اس بات کو قرآن کی یہ آیتیں 17:111، 25:2 واضح طور پر کہتی ہیں۔

جو خاص اس کی صفت ہے اس کو اللہ کسی کو نہیں دیتا، اس بات کو اللہ نے ایک خوبصورت مثال سے واضح کیا ہے، دیکھئے:

تم میں سے بعض کو بعض کے سوا دولت میں اللہ نے فضیلت دی ہے۔ (دولت سے) فضیلت دئے ہوئے لوگ اپنی دولت کو اپنے غلاموں کو دے ‏کر انہیں بھی اپنے ہی جیسا نہیں بناتے۔ کیا وہ اللہ کی نعمت کا انکار کر تے ہیں؟ (قرآن: 16:7)

اس آیت سے وہ واضح کرتا ہے کہ جو خاص اسی کی صفات ہیں، ان میں سے اللہ کسی کو نہیں دیتا۔

اس بنیاد کو جس نے سمجھ لیا وہ ہر گز نہیں کہے گا کہ اپنی طاقت کو اللہ نے جادوگر کو دیا ہے۔ 

یہ آدمی بچہ عطا کرتا ہے،لیکن وہ خود نہیں دیتا۔بلکہ اللہ نے جو طاقت دی ہے اسی طاقت کے ذریعے وہ کر تا ہے، اگر اس طرح کہدیں تو کیاوہ شریک ‏ٹہرانا نہیں ہوگا ؟ان لوگوں کواس پر غور کر نا چاہئے۔

ایک آدمی سورج کو پوجتا ہے۔ سورج کو اپنی کوئی طاقت نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس طرح ملالیا جائے کہ اللہ نے سورج کو یہ طاقت عطا کی ‏ہے تو کیا شریک ٹہرانا نہیں ہوگا؟

مکہ والے جو اسلام قبول نہیں کئے تھے وہ بھی اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ دوسروں کی بھی اطاعت کر تے تھے۔ 

اس طرح دوسروں کی پرستش کر تے وقت انہیں یہ عقیدہ نہیں تھا کہ یہ سب معبود ہیں اور ان کو ساری طاقت ہے۔ 

اس لئے وہ لوگ بھی یہی حجت کر رہے تھے کہ یہ شریک ٹہرانا نہیں ہے ۔ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ اللہ نے اس کو قبول نہیں کیا۔ 

اِن لوگوں کا یہ دعویٰ کہ جادوگر بھی اللہ کی عطاکردہ طاقت ہی سے جادو کر تا ہے ، اور اسلام کو قبول نہ کر نے والے مکہ والوں کا دعویٰ ایک ہی جیسا ‏ہے۔ 

یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانے کے بعد وہ شریک ٹہرانا نہیں ہے ، یہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہوئے بکواس کر رہے ہیں۔ 

قبر کی پرستش کرنے والے مرے ہوئے لوگوں کی اطاعت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ان بزرگوں کو اللہ سمجھا؟ کیاہم نے کہا کہ انہیں خود ‏سے کرامات دکھانے کی طاقت ہے ؟ ہر گز نہیں! ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ اللہ سے حاصل کر کے ہی کرامات دکھا رہے ہیں۔ یہ کیسے اللہ سے ‏شریک ٹہرانا ہوگا؟ وہ بھی اللہ کے بندے ہی ہیں ، اللہ نہیں۔ اس طرح کہہ کر وہ اپنی شرک کے عقیدے کو انصاف دلانا چاہتے ہیں۔ 

قبرکی پرستش کر نے والے اسی دعوے کو جادوگر کے معاملے میں بھی کہہ کر انصاف دلانا چاہتے ہیں۔ 

ہم نے جب کہا کہ یہ قطعی شرک ہے تووہ کہتے ہیں کہ ہمارے عقیدے اور مکہ والوں کے عقیدے میں بہت فرق ہے۔ 

اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے عقیدے اور درگاہ پرستوں کے عقیدے میں بہت فرق ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ دونوں میں بہت فرق رہنے کی وجہ سے ہم اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانے والے نہیں ہیں۔ 

ہم نے جب ان سے پوچھا کہ وہ فرق کیا ہے تووہ کہتے ہیں ، اللہ نے نہیں کہا کہ اولیاء کو کرامات دکھانے کی طاقت ہے ۔ لیکن اللہ نے اس آیت ‏‏2:102میں فرمادیا کہ جادوگرکو الگ طاقت ہے، یہی وہ فرق ہے۔ 

اللہ نے کہہ دیا کہ جادوگر کو طاقت ہے ، اس لئے ہم اس پر بھروسہ کررہے ہیں،لیکن اللہ نے فرمادیا کہ اولیاء کو کرامات دکھانے کی طاقت نہیں دی ‏گئی ہے، اس پر بھی وہ بھروسہ کر رہے ہیں کہ انہیں کرامت دکھانے کی طاقت ہے۔ ان دونوں باتوں کو کیسے موازنہ کر سکتے ہیں، اسی فرق کووہ دکھا ‏رہے ہیں۔ 

اپنے ہی جیسے طاقت کو اللہ اولیاء کو نہیں دے گا۔ رسولوں کو بھی نہیں دے گا۔جادوگروں کو بھی نہیں دے گا۔ اس عام طور کی بنیاد کے برخلاف ‏ہی ان لوگوں کا دعویٰ قائم ہے۔ 

چند آیتوں میں سطحی طور پر دکھائی دیتی ہیں کہ جادوگروں کو طاقت ہے، اسی طرح سطحی طور پر دیکھا جائے تو ظاہر ہونے والی کئی دلیلیں کہ اولیاء کو ‏کرامت کی طاقت ہے، درگاہ پرستوں کے پاس بھی موجود ہیں۔ 

درگاہ پرست کہتے ہیں کہ اسی کو بنیاد بنا کر اولیاء کو اللہ نے کرامت کی طاقت عطا کی ہے ، اس کی دلیل ہمارے پاس موجود رہنے کی وجہ ہی سے ہم ‏بھروسہ کر تے ہیں۔ 

وہ دلیلیں جادوگر کی طرفداری کے لئے جو وہ پیش کر تے ہیں اس سے زیادہ طاقتور ہیں۔ 

مثال کے طور پر، اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا:

اللہ کہتا ہے: جس نے میرے ولی سے دشمنی کی اس سے میں جنگ کا اعلان کر تا ہوں۔ میری پسندیدہ اعمال میں جسے میں نے فرض کیا تھا اس کے سوا ‏کسی دوسرے کے ذریعے میرا بندہ میری قربت کو حاصل نہیں کرتا۔مگر میرا بندہ نفلی عبادتوں کے ذریعے میری طرف قریب آتا جائے گا۔ آخر میں ‏اس کو پسند کروں گا۔ اس طرح جب میں اس کو پسند کر نے لگوں تو اس کے سننے کا کان، اس کے دیکھنے کی آنکھ ، اس کے پکڑنے کا ہاتھ، اس کے چلنے کا ‏پاؤں بن جاؤں گا۔ وہ جو مانگتا ہے اس کو میں ضرور دوں گا۔ میرے پاس جب وہ پناہ مانگے گا تو میں اس کو پناہ دوں گا۔ ایک مومن کی روح قبض کر ‏تے وقت جس طرح پس و پیش کرتا ہوں ، میرے کسی کام میں توقف نہیں کرتا۔ انسان تو موت سے نفرت کر تا ہے۔ میں بھی (موت کے ذریعے) ‏اس کو تکلیف پہنچانے سے نفرت کرتا ہوں۔ 

راوی: ابو ہریرہ

بخاری: 6502

اسی کو دلیل بنا کرقبر پرست کہتے ہیں کہ اولیاء کو اختیار اور کرامت کی طاقت اللہ نے عطا فرمائی ہے۔

درگاہ پرستوں کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ اولیاء کے ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے، اولیاء کا پاؤں اللہ کا پاؤں ہے، اس لئے وہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ‏ہیں۔ 

جو کہا گیا ہے کہ جادوگر کوطاقت ہے ، اس سے زیادہ زور ان کی دلیل میں موجود ہے۔ 

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اللہ نے خود کہہ دیا کہ اولیاء کو اللہ نے بے حساب طاقت دی ہے، اسی لئے ہم اس پر بھروسہ کر تے ہیں ۔ کیا اس کو جادو پر ‏بھروسہ کر نے والے مان لینگے؟

اس حدیث کو سطحی طور پر دیکھنے سے ایسا معلوم ہو تا ہے۔ مگر پورے قرآن کو دیکھنے لگیں تو اس کی مناسبت سے ہی توحید کے عقیدے کی تفصیل ہی ‏اس کو دینا چاہئے۔ 

درگاہ پرستوں کا دعویٰ ہے کہ آدم کو سجدہ کر نے اللہ نے حکم دینے کی وجہ سے بزرگوں کے پیروں میں گر سکتے ہیں۔ان کے اس دعوے کو سچا ‏ثابت کر نے کے لئے وہ لوگ ان 2:34، 17:61، 7:11، 18:50، 20:116 آیتوں کو دلیل بناتے ہیں۔ہم ان آیتوں کواس طرح ‏سمجھنا چاہئے کہ وہ قرآن کے تعلیم کے خلاف جانے نہ پائے۔اس کو ہم نے حاشیہ نمبر 11میں سمجھایا ہے۔ 

قبر پرستوں کا دعویٰ ہے کہ نبی کریم ؐ کو غیب کا علم ہے ، اس کے لئے دلیل وہ ان72:26,27، 81:24 آیتوں کو پیش کر تے ہیں۔ قرآن کی ‏تعلیمات کے خلاف ان آیتوں کو سمجھنا نہیں چاہئے، اس کو ہم نے حاشیہ نمبر 104 میں واضح کی ہے۔ 

جادوگروں کوکوئی طاقت نہیں، یہ ثابت کر نے والی کئی آیتوں کو چھوڑ کر اس کے برخلاف اس آیت 2:102 کو ان کی وضاحت میں اور قبر ‏پرستوں کے دعوے میں ذرہ بھر فرق نہیں۔

کیا یہ آیت 2:102 جادوگر کی تائید میں ہے ، اس کو ہم نے حاشیہ نمبر 495میں واضح کی ہے۔ 

درگاہوں کو جانے والے بھی مرے ہوئے انسانوں کو اچھے آدمی سمجھ کر کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کو کرامت دکھانے کی طاقت عطا کی ہے۔لیکن ایسا ‏سمجھنے والے کہ جادوگروں کو طاقت ہے ، کہتے ہیں کہ اللہ کے انکار کر نے والوں کو اللہ نے یہ طاقت عطا کی ہے۔ یہ تو درگاہ پرستوں کے عقیدے ‏سے بھی زیادہ گمراہ کن عقیدہ ہے۔ 

اس لئے ان لوگوں کے بے معنی دعوے یہ بات ثابت کر نے کے لئے ذرہ بھر مدد نہیں دے گا کہ جادو پر بھروسہ کر نا شریک ٹہرانا نہیں ہے۔

جب ہم کہتے ہیں اس طرح بھروسہ کرنا کہ جادو کے ذریعے متاثر کر سکتے ہیں ، شریک ٹہرانا ہی ہے، تو اس کے انکار میں وہ ایک اور دعوے کوپیش کر ‏تے ہیں۔ 

وہ لوگ ایک ایسی تشریح کر تے ہیں کہ جادوگر خود اس کو نہیں کرتا۔ وہ جنوں کو قبضہ میں رکھ کرکرتا ہے۔ کسی بھی ذریعہ کو استعمال نہیں کر تا ، بلکہ ‏جنوں کوترغیب دلا کر جادو کر تا ہے۔ جنات جو متاثر کرتے ہیں وہ ہماری آنکھوں کو دکھائی نہ دینے کی وجہ سے لوگوں کو ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اللہ کی ‏طرح جادوگر نے عمل کیا۔ 

جنوں کو ہم قبضہ نہیں کر سکتے، اس کو ہم نے حاشیہ نمبر 183 میں واضح کی ہے۔ 

اس دعوے سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہوئے جھوٹ بول رہے ہیں۔ 

جادوگر کو طاقت ہے، اس کے لئے انہوں نے کیا دلیل پیش کی؟ 

ٓ ؁ ایک یہودی نے نبی کریم ؐ پرجادو کر کے انہیں متاثر کیا، اس خبر ہی کو انہوں نے دلیل پیش کیا ہے۔ 

یہ کہنے والی حدیث میں کہ نبی کریم ؐ کو جادو کیا گیا ، کیاکہا گیا ہے؟

کنگھی، سر کا بال، کھجور کے خوشے وغیرہ میں لبید نامی یہودی نے جادو کر کے دروان نامی کنویں میں دفن کر دیا تھا، اس کنویں کے پانی کو آبیاری کر ‏کے ان چیزوں کو باہر نکالنے کے بعد ہی کہا جا تا ہے کی نبی کریم ؐ صحتیاب ہوئے۔ 

اگر اس حدیث میں ایسا ہو تا کہ یہودی نے جنات کو اکسا کر وہ جنات نبی کریم ؐ پر حملہ کر نے کی وجہ ہی سے آپ دل کے مرض میں مبتلاہوئے تو اس ‏وقت ہی وہ اس طرح حجت کر سکتے ہیں۔

اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ایک ایسی وجہ جس پر انہیں لوگوں کوبھروسہ نہیں ہے، اس کو نئے طریقے سے قیاس کر کے بتاتے ہیں۔

اگر کوئی نام کا مسلمان جادو کر تا تو وہ جنات کو جاننے کی وجہ سے جنوں کو قبضہ میں لے کر جادو کیاکہنا کچھ نہ کچھ مناسب ہوتا۔ 

ہندو، عیسائی اور بدھ مذہب کے علاوہ اور بھی کئی مذاہب والے کہتے ہیں کہ وہ جادو کرتے ہیں۔اسلام میں رہتے ہوئے بھی جادو کی حمایت کر نے ‏والے اس کو مان لیتے ہیں۔ جو جنوں کو نہیں جانتے وہ کس طرح جنوں کے ذریعے جادو کر سکتے ہیں؟ ان کے لئے تویہ دعویٰ موزوں نہیں ہوگا۔ 

کیا وہ ایسا کہنے والے ہیں کہ مسلم سماج میں رہنے والاکوئی شخص جو جادو کرتا ہے اسی کو ہم مانیں گے۔ جو جنوں کو مانتے نہیں ان غیر مذہبوں کو جنات پر ‏بھروسہ نہ ہو نے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں جادو نہیں ہو سکتا، یہی ہمارا عقیدہ ہے۔ 

اگر وہ ایسا کہیں تو یہودی نے جادو کیا کے حدیث کو وہ خود انکار کر نے والے ہو جائیں گے۔ 

ا س سے بھی معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ لوگ کتنے جھوٹے ہیں۔ 

جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنات کو اپنے قبضہ میں لے کر انہیں ترغیب دلا کر اس کے ذریعے متاثر کر سکتے ہیں ، اس طرح کہنے والی قرآنی آیتوں کو یا ‏قابل قبول حدیثوں کو بتاتے نہیں۔ 

جادوگر انسانوں کی طرح عمل نہیں کر تا بلکہ اللہ کی طرح عمل کرتا ہے، اس رائے کی وجہ سے ایسا بھروسہ کر ناکہ جادو سے متاثر کر سکتے ہیں ، ہم کہتے ‏ہیں کہ یہ شریک ٹہرانا ہے۔ جادو پر اعتماد رکھنے والے اس کے انکار میں اور بھی چند دلیلیں پیش کر تے ہیں۔

انبیاء معجزات دکھائے ہیں، اس کو تم بھی مانتے ہو اور ہم بھی مانتے ہیں۔ انبیاء کا کوئی معجزہ ا نسان کے عمل کی طرح نہیں تھا۔ اللہ کے عمل کی طرح ہی ‏تھا۔نبیوں کے معجزوں کو جب مانا جا تا ہے، تو اس میں بھی اللہ ہی کی طرح عمل ہونے کی وجہ سے کیا تم کہوگے کہ وہ معجزے بھی شریک ٹہرانا ‏ہوگا؟یہی ان کی حجت ہے۔ 

یہ احمقانہ حجت ہے۔ 

نبیوں کا معجزہ انسان کے عمل کی طرح نہیں تھا، یہ سچ ہے۔کوئی بھی انسان اس طرح نہیں کرسکتا، وہ بھی سچ ہے۔ لیکن نبیوں کے معجزے حقیقت ‏میں ان کا کیا ہوا نہیں ہے۔ 

انبیاء انسان ہی تھے، انہیں اللہ نے رسول منتخب کر لیا۔ لوگ انہیں ماننے کے لئے اللہ نے سند کے طور پر چند معجزات ان کے ہی ذریعے کر دکھایا۔اس ‏کو اور انبیاء کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

اللہ کی اجازت ہی سے کسی بھی معجزے کو ہم دکھا سکتے ہیں ، اس بات کو نبیوں ہی کے ذریعے اللہ نے لوگوں کو سنایا۔ اس کو کئی آیتوں میں اللہ نے ‏واضح کیا بھی ہے۔ 

انبیاء جب معجزہ دکھانا چاہیں ، یا لوگ ان سے جب بھی معجزہ دیکھنا چاہیں ، اس وقت انبیاء معجزہ دکھا نہیں سکتے۔ اللہ جب اجازت دے تو اسی وقت وہ ‏معجزہ دکھا سکتے ہیں۔ معجزہ دکھانے کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے۔ 

یہ آیتیں 13:38، 14:11، 17:90-93، 40:78 واضح طور پر کہتی ہیں کہ اللہ کی اجازت کے بغیر انبیاء کوئی معجزہ دکھا نہیں سکتے۔ 

معجزہ دکھانے والا صرف اللہ ہی ہے ، اس کو سمجھنے کے لئے ایک اور زاویہ سے بھی ہمیں سوچنا چاہئے۔ 

ہر انبیاء لوگوں سے کیا کہا؟انہوں نے یہی کہا کہ ہم تمہاری ہی طرح انسان ہیں۔اللہ کی طرف سے حکم آنے پر ہی اللہ ہمارے ذریعے اپنی چاہت کے ‏مطابق معجزہ ظاہر کرے گا۔ اس میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ 

لیکن جادوگر وں کو پیسہ دو تو وہ کسی بھی وقت، کسی پر بھی جادو کر نے کے لئے تیار ہو جائیں گے، یہ جادو پر بھروسہ کر نے والے کہیں گے۔ 

انبیاء خود سے معجزہ نہیں کرتے، اس بات کو ہم نے حاشیہ نمبر 269میں درج کی ہے۔ 

نبیوں کے ذریعے اللہ نے جو معجزات دکھائی ہے ان پر ایمان لانے سے وہ ہرگز شریک ٹہرانا نہیں ہوگا۔ وہ لوگ سمجھ جانا چاہئے کہ جادو سے متاثر کر ‏سکتے ہیں پر بھروسہ کر نا ایسا نہیں ہے۔

اللہ کی طرف سے وحی حاصل کر کے اللہ کی اجازت کے ساتھ کیا جادوگر جادو کرتے ہیں؟ کیایہی جادو پر بھروسہ کر نے والوں کا عقیدہ ہے؟ 

چنانچہ نبیوں کے معجزاؤں کے ساتھ جادو کو موازنہ کرنا کچھ انصاف نہیں ہے۔

موسیٰ نبی کے زمانے میں سامری کے جادو کو پیش کر کے سوال کرتے ہیں کہ اس کا یہ عمل بھی اللہ کے عمل جیسا ہی ہے؟ کیا یہ شرک ٹہرانانہیں ‏ہے؟

یہ کیسے شرک ہو سکتا ہے؟ کیونکہ سامری نے حقیقت میں کوئی معجزہ نہیں کیا۔ 

‏(اس کے بارے میں 19 اور269کے حاشیہ میں واضح طور پر تشریح کیا گیا ہے۔)

جادوگروں کے بارے میں جو اعتماد کیا جاتا ہے کہ انہیں بے حساب طاقت ہے، وہ ایسا نہیں ہے۔ 

جادوگر وہ خود تدبیر کر تا ہے۔ 

وہ منصوبہ بندی کے تمام وقت جادو کر تا ہے۔ 

جتنی بار چاہو تو بھی وہ ایسا کر تا ہے۔ 

یہ قطعاً شریک ٹہرانے کے سوا اورکیا ہے؟

دجال کے عمل کو دکھا کر سوال کرتے ہیں کہ کیادجال کا عمل اللہ کے عمل جیسا نہیں ہے؟ کیا اس کو ماننا بھی شریک ٹہرانا ہے؟ 

ہم بھروسہ کر تے ہیں کہ دجال اس کے بعد آئے گا۔وہ آکر کئی عمل کرکے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے گا۔ اس کے عمل میں مرے ہوئے کو ‏زندہ کرنا بھی ایک ہے۔ ایک شخص کو مار کر پھر اس کو زندہ کرکے دکھائے گا۔ 

وہ لوگ سوال کر تے ہیں کہ اگر ہم بھروسہ کرتے ہیں کہ اللہ کی طرح کوئی عمل کر نہیں سکتا تو دجال کے اس عمل کو ہم کیسے مان سکتے ہیں؟ کیاوہ ‏شریک ٹہرانا نہیں ہے؟ 

دجال چند معجزوں کو دکھا کر خود کو اللہ کہہ کر دعویٰ کرے گا، پھر بھی یہ جادوگرکو طاقت ہے ماننے کی طرح نہیں ہے۔

اس سوال کا جواب بھی ہم نے حاشیہ نمبر 269 میں کہا ہے۔

ابلیس اور اس کے جانشین شیاطین انسانی دلوں میں داخل ہو کر برے خیالات پیدا کر نے کی حد تک قوت حاصل کئے ہوئے ہیں۔وہ لوگ سوال کر ‏تے ہیں کہ اگر ایسا ہو تو کیا ابلیس بھی اللہ کی طرح عمل کر نے والا نہیں تھا؟ کیا تم شیطان کی طاقت کا انکار کرتے ہیں؟

اس سوال کا جواب بھی ہم نے حاشیہ نمبر 269 میں کہا ہے۔

قرآن میں شک پیدا کر دے گا

اسلام کا بہت بڑا معجزہ قرآن ہے۔ہر نبی چند معجزے دکھائیں گے۔ان معجزوں کو دیکھ کر لوگ انہیں اللہ کا رسول مانیں گے۔

نبی کریم ؐ ہی آخری نبی ہونے کی وجہ سے ان کے بعد کوئی رسول نہیں آئے گا۔ 

نبی کریم ؐ ہی اللہ کے رسول ہیں، ان کے زمانے کے بعد آنے والے کس طرح مانیں؟ ان کے لئے بھی ایک معجزہ چاہئے؟

اس کے لئے اسلام نے ایک معجزہ پیش کیا ہے، وہ معجزہ ہی قرآن ہے۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ ہر رسول معجزوں کے ساتھ بھیجے گئے ۔ مجھے جو معجزہ دیا گیا وہ قرآن کریم ہے۔

بخاری: 4981، 7274

یہ قرآن اللہ ہی کے طرف سے آیا ہوا ہے، اس کو قرآن خود ثابت کرتاہے۔اگر یہ ثابت ہوجائے کہ قرآن اللہ ہی کے طرف سے آیا ہے تو یہ بھی ‏ثابت ہوجا ئے گا کہ اس کے لانے والے اللہ کے رسول ہی ہیں۔

چودہ سو سال پہلے جو انسان نہیں کہہ سکتا وہ باتیں تمام قرآن کہنے سے وہ ثابت ہو تے جارہا ہے۔ 

قرآن مجیدبحفاظت رکھا ہوا ایک معجزہ ہے، اگر اس پر ہم ایمان لائیں تو قرآن میں شک پیدا کر نے والی کسی بھی خبر کوہم دور پھینک سکتے ہیں۔ 

کیونکہ اللہ نے ان آیتوں 2:2 ،10:37، 32:2 میں نشاندہی کی ہے کہ کچھ بھی شک پایانہ جانا ہی قرآن کریم کی خصوصیت ہے۔ 

اسی رائے میں اور بھی کئی آیتیں ہیں۔ 

ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں کئی غیر مسلموں کو شک ہے۔اس لئے ایسا نہیں کہا گیا کہ اس میں کسی کو شک نہیں ہوگا۔اس میں شک کر نے کے لئے ‏کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس کے خلاف پیدا ہونے والے کسی بھی شک کے لئے اسلام میں جواب ہے، یہی اس کا مطلب ہے۔ 

انسانوں کو نیک راستہ دکھانے کے لئے قرآن کریم کو اللہ نے نازل کیا ، اس لئے وہ ایسا ہونا چاہئے کہ انسان اس پر بھروسہ کریں۔ اس طرح اگر ہوگا تو ‏ہی اس کو کتاب اللہ مان کر سیدھی راہ کی طرف آئیں گے۔اسی لئے اللہ نے دعوے سے کہتا ہے کہ اس میں کسی قسم کی شک نہیں ہے ۔

نبی کریم ؐ چھ ماہ تک دل کی مریض بن کر ، جووہ نہیں کئے اس کو کیا کہنے کی حد تک متاثر ہو گئے تو ان چھ مہینوں کی مدت میں انہیں جو نازل کیا گیا تھا ، ‏ان آیتوں میں شک پیدا کر سکتے ہیں۔ 

وہ چھ ماہ کونسی ہیں ، اس کے بارے میں جادو پر بھروسہ کر نے والے کے پاس بھی کوئی سند نہیں ہے۔ اس سے یہ شک پیدا ہو سکتا ہے کہ مدینے میں ‏نازل ہو نے والی آیتیں تمام کیا ان چھ ماہ میں نازل ہوئی تھیں؟

قرآن کریم اللہ کی کتاب نہیں ہو سکتی ، اس طرح شک پیدا ہو نے کو اللہ معمولی نہیں سمجھے گا ، اسی لئے وہ للکارتاہے کہ اس قرآن کی طرح ایک ‏دوسرابنا لاؤ۔اس کو ان 2:23، 10:38، 11:13، 17:88، 52:33,34 آیتوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ 

محمد خود قیاس آرائی سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے، اس طرح جب دشمنوں نے تبصرہ کیا تو اللہ نے یہ نہیں کہاکہ تم کچھ بھی تبصرہ کر لو ، مسلمان اگر ‏ایمان لائیں توکافی ہے۔ بلکہ ان شکوک کو دور کر نے کے لئے للکارکر ثابت کیا کہ یہ اللہ ہی کاکلام ہے۔ 

اسی طرح قرآن کے خلاف دشمنوں نے ایک اور شک بھی بلند کیا۔لکھنا پڑھنا نہ جاننے والے محمد کو یہ باتیں معلوم ہونے کا اتفاق ہی نہیں۔ اس لئے ‏باہر سے کوئی آکر انہیں سکھا جا تا ہے۔ اسی کو محمد کتاب اللہ کہتے ہیں۔ اس طرح تبصرہ کہہ کر قرآن مجید میں شک پید اکر دئے۔ 

اللہ نے ایسا نہیں سمجھا کہ غیر مسلموں کو شک پید اہو تو مجھے کیا؟ اس نے اس شک کو دور کر نے کیلئے مناسب جواب دیتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کی جھوٹی کہانی ہے۔ جس کو اس نے لکھوالیا۔ صبح اور شام یہ اس کو پڑھ کر سنایاجاتا ہے۔ 

قرآن: 25:4-5

اے محمد! تم کہو کہ مومنوں کو ثابت قدم رکھنے، مسلمانوں کو ہدایت اور خوشخبری سنانے اس کو تمہارے رب کی طرف سے روح ‏القدس(جبرئیل) نے حق کے ساتھ اتارا۔ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ایک آدمی اس کو سکھاتا ہے۔جس کے ساتھ یہ منسوب کر تے ہیں ، ‏ان کی زبان عجمی ہے۔ یہ توصاف عربی ہے۔ 

قرآن: 16:102,103

قرآن مجیدکی اعلیٰ زبان عربی کے انداز کو دکھا کراللہ نے ان کے منہ کو بند ہی کردیا کہ عجمی زبان بولنے والا کس طرح اس کو سکھایا ہوگا؟

قرآن میں جو بھی شک پیدا ہو ان تمام چیزوں کو اللہ نے مناسب جواب دی ہے۔ ایسے میں اپنے ہی رسول کو دل کا مریض بنا کر ، جو انہوں نے نہیں ‏کہا اس کو کہنے رکھ کر کیا اسی نے قرآن مجید میں شک پیدا کر سکتا ہے؟

اگر اس پر غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ نبی کریم ؐ پر جادو کر نے والی کہانی بالکل جھوٹی ہے۔ 

قرآن کریم اللہ ہی کے پاس سے نازل ہواہے، اس میں کسی قسم کاشک پیدا نہ ہو نے پائے ، اس کے لئے اللہ نے جتنی اہمیت دی ہے ، ہم اچھی طرح ‏جان سکتے ہیں کہ اسی لئے انہیں لکھنا پڑھنا نہ جان نے والے رکھا۔ 

لکھنا اور پڑھنا انسان کے لئے بہت ضروری ہے، اس کو اللہ نے واضح کردیا۔ 

اللہ کے پاس سے آنے والی پہلی آیت ہی اسی کے بارے میں کہتی ہے۔ 

اسی نے قلم سے سکھایا، انسان جو جانتا نہیں تھا ،وہ سکھایا۔

قرآن: 96:4,5

قسم ہے قلم کی اور جو وہ لکھتے ہیں۔ 

قرآن: 68:1

اللہ کہتا ہے کہ حرفوں کے ذریعے ہی علم بڑھا سکتے ہیں ، سیکھ سکتے ہیں اور سکھا سکتے ہیں، اس کے باوجوداللہ نے نبی کریم کوا س خوش نصیبی سے محروم ‏رکھا۔

نبی کریم ؐ کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا، اس کو ہم نے دلیلوں کے ساتھ حاشیہ نمبر 312میں وضاحت کی ہے۔

نبی کریم ؐ کو اللہ نے امی کیوں بنایا؟ اس وجہ کو اللہ نے اس آیت میں فرماتا ہے: 

اسی طرح ہم نے تم پر یہ کتاب نازل کی۔ ہم نے جن کو کتاب عطا کی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ (جنہیں کتاب نہیں دی گئی) ان میں بھی اس پر ‏ایمان لانے والے موجود ہیں۔ (ہمیں) انکار کر نے والے کے سوا دوسرا کوئی ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرتے۔ (اے محمد!) اس سے پہلے کسی ‏کتاب کو تم پڑھنے والے نہیں تھے۔(اس کے بعد بھی) اپنی دائیں ہاتھ سے اس کولکھنے والے بھی نہیں ہو۔ اگر ایسا ہو تا تو باطل پرست شبہ میں ‏پڑجاتے۔ بلکہ یہ کھلی ہوئی آیتیں ہیں۔ علم دئے گئے لوگوں کے دلوں میں موجودہے۔ ظالم لوگوں کے سوا دوسرا کوئی ہماری آیتوں کو انکار نہیں ‏کریں گے۔ 

قرآن: 29:47-49

انسانوں کو تعلیم زیادہ قابلیت بناتی ہے، اس کے باوجود اللہ کے رسول مقرر ہو نے والے نبی کریم ؐ کو پڑھائی نہ ہو نا ہی خصوصیت ہے۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے۔ وہ خبر اعلیٰ درجے کی ادبی لحاظ سے ترکیب پائی تھی۔ اس کی معیار ایسی تھی کہ للکار کر کہہ ‏سکتے تھے کہ اس جیسا کوئی بنا نہیں سکتا۔ 

اگر نبی کریمؐ پڑھے لکھے ہو تے تولوگ سمجھتے کہ یہ ان کی علمی لیاقت سے تصنیف پائی ہے۔اس سے نبی کریم ؐ کی قابلیت ثابت ہو سکتی تھی پر یہ ثابت ‏نہیں ہوسکتا تھاکہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔

نبی کریم ؐ عربی زبان کے ماہر کہلانے سے کئی گنا زیادہ یہ قابلیت ہی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ۔

اگروہ لکھنا پڑھنا جانتے ہو تے تو انہیں براہ راست دیکھنے والے یہ قبول نہیں کئے ہوں گے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور ان کا لایا ہوا پیغام اللہ کا کلام ‏ہے۔ 

‏’’لکھنا پڑھنا نہ جاننے والے اتنے اعلیٰ اندازسے پیغام سنا رہے ہیں! یہ ہرگزان کی قابلیت سے کہا نہیں ہوگا۔ ان کے کہنے کے مطابق یہ اللہ ہی کا ‏پیغام ہو سکتا ہے‘‘۔ اس طرح اس زمانے کے لوگ بھروسہ کر نے کے لئے پہلی وجہ نبی کریمؐکا امی رہنا ہی ہے۔ 

نبی کریم ؐ کو لکھنا پڑھنااگر آتا توقرآن مجیدکو اللہ کا کلام ماننا دشوار ہوجاتا، اسی لئے اللہ نے آپ کواس خوش نصیبی سے محروم رکھا۔

اگر ہم یہ مانیں کہ نبی کریم ؐ کو چھ ماہ تک دل کا مرض لاحق رہا، وہ قرآن مجید میں بہت زیادہ شک کا باعث بن جائے گا۔ اس لئے نبی کریم ؐ پر جادو کیا ‏گیاکہنا بالکل جھوٹ ہے۔ ہم جان سکتے ہیں کہ وہ ایک جھوٹی کہانی ہے۔ 

اسی لئے قرآن مجیدکہتا ہے کہ قرآن میں کوئی اختلاف نہیں (4:82)،کیا تم غور نہیں کروگے (4:82، 17:41، 21:10، 23:68، ‏‏25:73، 38:29، 47:24)، اس میں کوئی غلطی نہیں (41:42)، یہ حفاظت کی ہوئی کتاب ہے (15:9، 18:1، 39:28، ‏‏41:42، 75:17)۔

یہ سب آیتیں کھلم کھلا کہتی ہیں کہ قرآن میں کوئی شبہ پیدا ہونا نہیں چاہئے۔ 

نبی کریم ؐ اگر چھ ماہ تک دل کے مرض میں مبتلا ہو تے تو باطل لوگ شبہ کرتے اور اسی بنا پر ان چھ مہینوں میں نازل ہو نے والی آیتوں پربھی شبہ کئے ‏ہوں گے۔ 

دل کے مرض کی اثر سے اللہ نے جوکہا نہیں اس کومحمد نے اللہ نے کہا کہہ سکتے تھے؟ اس طرح دشمنوں کو سوال اٹھانے کا موقع اللہ نہیں دے گا۔ 

دل میں درج کر لینے کی طاقت دوسروں سے زیادہ اللہ نے نبی کریم ؐ کو عطا کیا تھا۔

قرآن کریم کی حفاظت کے لئے جو طاقت نبی کریم ؐ کو دی گئی تھی، وہ کسی انسان کو نہیں دی گئی ۔ اس کو اللہ نے ان آیتوں 75:17-19میں فرمایا ‏ہے۔لیکن وہ خبرجوان پر جادو کیا گیا کہنا ان کے دل کو بالکل ہی کمزورتر بنا کر پیش کر تی ہے۔ 

اللہ نے انہیں قوی دل عطا کیا تھا۔ لیکن جادوپر بھروسہ کرنے والی جماعت یہ ثابت کر تی ہے کہ آپ کو کمزور دل تھا۔ 

نبی کریم ؐ کو کبھی دل کا مرض آ نہیں سکتا۔ 

نبی کریم ؐ کو رسول نہ ماننے والے لوگ انہیں پاگل کہا۔ نبی کریمؐ پر جادو کیا گیا ، اس کی وجہ سے ان کی دل کی حالت بگڑگئی کہنے والے بھی اسی کو ‏دوسری لفظوں میں کہا ہے۔ 

ایک ہی خبر کئی ڈھنگوں سے سنایا جانا رائج ہے۔ نبی کریمؐ کو دل کا مرض لاحق ہوا، اس طرح اس خبر میں یہ لفظ براہ راست نہیں کہا گیا ہے۔ اس کے ‏باوجود اس کے سوا اس کو دوسری رائے نہیں ہے۔ 

اس طرح کہنا کہ نبی کریم ؐ نے چھ ماہ تک اس حالت میں رہے کہ جو انہوں نے نہیں کیا ، اس کو انہوں نے کہاکہ میں نے کیا، اور اس طرح کہنا کہ وہ چھ ‏مہینے تک دل کے مریض رہے تو دونوں ایک ہی ہیں۔ لفظوں کی شکل ہی الگ الگ ہیں۔ 

جب لوگوں نے کہا کہ نبی پاگل ہو گئے ہیں تو اللہ غصہ سے کہتا ہے: 

اس لئے (اے محمد!) نصیحت کرو۔ اپنے رب کے فضل سے تم کاہن بھی نہیں ہو اور نہ مجنون۔

قرآن: 52:29

اللہ نے اس آیت میں واضح طور سے کہدیا کہ نبی کواللہ مجنون نہیں بنائے گا۔ 

قسم ہے قلم کی اور وہ جو لکھتے ہیں۔ (اے محمد) تم اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں ہو۔ تمہیں ختم نہ ہونے والااجر ہے۔ اور تم اعلیٰ اخلاق پر ‏ہو۔ 

قرآن: 68:2-6

کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے۔ وہ تو صاف تنمبیہ کر نے والے ہیں۔ 

قرآن : 7:184

ان آیتوں کو غور سے دیکھئے! یہ آیتیں کہتی ہیں کہ نبی کریم ؐ کو جنون نہیں ہوگا۔اور یہ بھی کہ اللہ نے ان پر فضل کیا ہے۔ اگر کسی کو شبہ ہو تو ان پر ‏توجہ کر کے ان کی ہر عمل پر غور کر کے دیکھیں۔وہ جان جائیں گے کہ انہیں کوئی دل کا مرض نہیں ہے۔اس طرح کہہ کر ان آیتوں میں اللہ نے ‏للکارا ہے۔ 

ان لوگوں کو سرزنش کر تے ہوئے اللہ کا فرمان دیکھئے!

کہو کہ تم دو دو بن کر یا تنہا تنہا ہی اللہ کے لئے تھوڑا وقت نکال کر تمہارے ساتھی کو(یعنی مجھے) جنون نہیں ہے ، سخت عذاب سے پہلے وہ تمہیں ‏ڈرانے والے کے سوا دوسرا کچھ نہیں ، اس پر تم غور فرمانے کے لئے ہی میں تم کو نصیحت کر تا ہوں۔ 

قرآن: 34:46

اللہ للکار کر کہتا ہے کہ نبی کریم ؐ پر جادو کر کے وہ دل کا مریض بن گئے کہنے والو! تنہا تنہا آکر یا دو دو آکر محمد نبی کو آزماکر دیکھو! ان کے پاس کسی بھی ‏قسم کا سوال کر کے دیکھو! جو نہیں کیااسکووہ کہتے ہیں کہ میں نے کیا؟ جو کیا وہ اسکوکہتے ہیں کہ میں نے نہیں کیا؟ کیا وہ دل کے مریض کی طرح بات ‏کر تے ہیں؟ یا دانشمند کی طرح بات کر تے ہیں؟ آزماکر دیکھوتو تم جان جاؤگے کہ انہیں کوئی دل کا مرض نہیں ہے۔ 

نبی کریم ؐ پر جادو کرنے کی وجہ سے آپ دل کا مریض بن گئے،اس کے لئے صرف یہی ایک آیت کافی دلیل ہے کہ یہ ایک جھوٹی کہانی ہے۔

یہود نے پکا ارادہ کرچکے تھے کہ کسی طرح اسلام کو پسپا کردے۔ چھوٹے چھوٹے موقعوں کو بھی استعمال کر نے کے لئے وہ تیار بیٹھے تھے۔ 

نبی کریم ؐ چھ ماہ تک دل کے مریض بن کر رہے ، اگر وہ دل کا مرض یہودیوں کی جادو کی طاقت سے سرزد ہوا ہوتو اس موقعے کو وہ ہر گز ہاتھ سے ‏جانے نہیں دیتے۔ 

وہ لوگ تنقید کرے ہوں گے کہ دیکھو! تمہارے نبی کو ہم نے کس طرح کردیا؟ اب بھی تم ان کو اللہ کا رسول مانتے ہو؟ 

اس طرح کسی نے نبی کریم ؐ پر تبصرہ نہیں کیا۔ 

اس طرح جب ہم سوال اٹھاتے ہیں تویہ کہنے والے کہ جادو سے متاثر کرسکتے ہیں ، وہ لوگ جوکسی طرح سے نبی کریم ؐ کو دل کا مریض ثابت کر نے ‏کے لئے دل میں ٹھان لی ہے ،اس کے لئے بھی ایک جواب تیار کر رکھے ہیں۔ 

نبی کریم ؐ کوجو دل کا مرض ہوا تھاوہ صرف آپ کی بیویوں ہی کو معلوم تھا۔ لوگوں میں کسی کو معلوم نہ ہو نے سے کوئی تبصرہ پیدا نہیں ہوسکا۔ 

اس جادوگر یہودی جو جادو کے ذریعے دل کا مریض بنایا تھا ، کیا اس کو بھی معلوم نہیں تھا؟

کیا وہ اپنے ساتھیوں سے مل کر شان نہ اڑایا ہوگا؟ 

اتنا بھی نہ جانے ہوئے بے عقل لوگ اس طرح سوال کررہے ہیں۔

عام طور سے سرداروں کو بہت زیادہ حفاظت دیا جانا دنیا کا دستور ہے۔ لوگ آسانی سے ان کے قریب جا نہیں سکتے۔ اس حالت میں اگر انہیں ‏دیوانگی لاحق ہوگئی توکیا اس کو لوگوں کوبتائے بغیر چھپا سکتے ہیں۔

اس طرح نبی کریم ؐ بھی لوگوں سے ملے بغیر کیا دور دور رہا کرتے تھے؟ ہر گز نہیں۔ 

نبی کریم ؐ تو لوگوں سے مل جل کر رہا کرتے تھے۔ ہر روز نماز کے لئے پانچ وقت بھی وہ مسجد کو آیا کرتے تھے۔ کوئی بھی ان سے باّ آسانی مل سکتا تھا۔ ‏منافقین بھی مسجد آکر ان کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔

ایسی صورت میں اس چھ ماہ کی تبدیلی لوگوں تک ضرور پہنچی ہوگی۔ اس لئے نبی کریم ؐ کو اگر دل کا مرض ہوا ہوگا تو وہ لوگوں کو بھی معلوم ہوا ہوگا۔ 

کیا وہ لوگ خوشی منائے نہیں ہوں گے کہ اس سے پہلے ہم نے کسی دلیل کے بغیر کہہ دیا تھاکہ محمد نبی پاگل ہیں، اب توخود ان کی بیوی ہی کہہ دیا ؟ کیا ‏وہ لوگوں کو اسلام کی طرف آنے سے روکنے کی کوشش نہیں کیا ہوگا؟ اسلام میں داخل ہو نے والوں میں سے چند لوگ تو پھر اپنی پرانی حالت کو پھر ‏کرگئے نہیں ہوں گے؟ 

اس طرح کوئی بھی خبر کسی بھی کتاب میں درج نہیں ہے۔

اس آیت 15:9 میں اللہ نے کہا ہے کہ قرآن کو ہم ہی نے نازل کی، اور ہم ہی حفاظت کریں گے۔ 

اگر قرآن کی حفاظت کر نا ہو تو نبی کر یم ؐ کے دل کی بھی حفاظت کر نا ضروری ہے۔ اگر ان کا دل بگڑ گیا تو خبریں بھی بکھر جانے کا اندیشہ ہے۔اس ‏سے قرآن اللہ کی حفاظت میں ہے، اس بات میں شک پیدا ہو جائے گا۔

قرآن جو ایک عظیم معجزہ ہے اس پر کسی قسم کابھی شک پیدا کرو مجھے کوئی فکر نہیں، اس حالت میں رہنے والے لوگ ہی بھروسہ کر سکتے ہیں کہ نبی ‏کریم ؐ پر جادوکیا گیا اور اس سے انہیں دل کا مرض پید اہوا۔ 

یہودیوں نے نبی کریم ؐ پر جادو کیا اور انہیں دل کے مرض میں مبتلا کردیا ، اس بات کو جاننے والے غیر مسلمان کیا اسلام قبول کریں گے؟ یا نبی کریم ؐ ‏سے زیادہ طاقت رکھنے والے یہودیوں کے پاس جائیں گے؟ 

فرض کرو کہ ایک باپ اپنی جائداد کو اپنے ایک بیٹے کے نام پر لکھ دیتا ہے۔ اس کے دوسر ے بیٹوں نے ایسا دلیل بتا کر کہ ہمارے والد دیوانگی کی ‏حالت میں ویسا ایک وصیت نامہ لکھا ہے ، عدالت میں مقدمہ دائر کیاتو اس پر بھروسہ کر تے ہوئے عدالت یہ فیصلہ سنا دے گا کہ اس ایک بیٹے پر ‏وصیت نامہ لکھا جانا جائز نہیں ہے۔ 

صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں یہی قانون ہے۔ مسلم ممالک میں بھی یہی قانون ہے۔ 

اگر کوئی دیوانگی کی حالت کو پہنچتا ہے تو اس کا لین دین مستند قرار نہیں دیا جائے گا۔ 

جائداد کے معاملے میں ہم اس کو صحیح طور پر پہچان لیتے ہیں۔ لیکن دینی معاملے میں ہم اپنی عقل کو بھول کر الٹ پلٹ کر سوچنے لگتے ہیں۔ 

کیا کوئی ایسا کہہ سکتا ہے کہ میں قرآن کو بحفاظت بھی سمجھتا ہوں اوریہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس کی حفاظت نہیں کی گئی ہے؟

کیا کوئی عقلمند ایساکہہ سکتا ہے کہ مجھے بھروسہ ہے کہ اللہ کی طرح کسی بھی معاملے میں کوئی عمل نہیں کر سکتا، لیکن یہ بھی بھروسہ ہے کہ صرف ‏جادوگر ایسا کر سکتا ہے؟

قرآن پر بہت زیادہ ایمان رکھنے والا اور نبی کریم ؐ کی بے حد احترام کرنے والا کیسے بھروسہ کر سکتا ہے کہ نبی پر جادو کیاگیا ہے؟

اگر یہ سوال ہم اٹھائیں تو یہ اعتقاد رکھنے والے کہ جادو کے ذریعے متاثر کر سکتے ہیں، جھٹ سے یہ سوال کر تے ہیں۔

نبی کریم ؐ کو بھول کی مرض تھی۔کیا غیر مسلم ایسا سوال نہیں اٹھائیں گے کہ اس بھول کی وجہ سے قرآن کی آیتوں کو کیا وہ بھولے نہیں ہوں گے؟اس ‏وجہ سے کیا تم کہوگے کہ نبی کریمؐ کو بھول نہیں ہوئی؟ 

ایک انسان کی دیوانگی کو اور کسی چیز کو بھول جانے کووہ لوگ یکساں سمجھتے ہیں۔ 

بھول جانا یہ ہے کہ جو ہے اس کو بولے بغیر چھوڑ دینا۔ 

دل کا مرض یہ ہے کہ جو نہیں ہے اس کو ہے کہنا۔ 

جادو کا گروہ یہی کہتا ہے کہ ایسا ہی ایک دل کا مرض نبی کریم ؐ کو ہوا تھا۔ جب وحی نہیں آئی تو انہوں نے کہا ہو گاکہ وحی آئی ، کیااس کو بھول کہا جائے ‏گا؟

نبی کریم ؐ پر نازل ہو نے والے آیتوں میں چند آیتوں کو اگر اللہ بھلادے تو اس سے کوئی مضایقہ نہیں۔ 

اس آیت 2:106میں اللہ نے فرمایا ہے کہ کسی آیت کو اگر ہم بدل دیں یا بھلا دیں تو اس سے بہتر ہم نوازیں گے۔ 

یہ آیت واضح طور پر کہتی ہے کہ نبی کریمؐ اللہ کے ارادے سے اگر کچھ بھول جائیں تو جوکچھ آپ نے لوگوں کے سامنے پیش کیں وہی قرآن ہے۔ 

آپ نے جو لوگوں کو نہیں کہاوہ قرآن نہیں ہے، اس طرح کہنے میں کوئی الجھن نہیں۔ 

دل کا مرض یہ ہے کہ جو اللہ نے نہیں کہا اس کو ایسا کہنا کہ اللہ نے کہا ہے۔یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ دل کے مرض کے ذریعے اللہ نے جو نہیں کہا اس ‏کو نبی کریم ؐ نے کہا ہوگا کہ اللہ نے کہا۔ 

قرآن مجید کی ہر ایک آیت میں یہ شک پیدا ہوسکتا ہے۔

اگر بھول ہوئی کہا جائے تو قرآن کریم جو اب موجود ہے اس میں کسی آیت میں شک پیدا نہیں ہوسکتا۔ 

چنانچہ نبی کو بھول ہوئی کہناقرآن کریم میں شک پیدا نہیں کرے گا۔ نبی کو دل کا مرض ہوا کہنا شک پیدا کر سکتا ہے ، اس فرق کو اچھی طرح سمجھ لینا ‏ضروری ہے۔ 

معجزوں کو بے معنی کر نے والی جادوئی عقیدہ

ایک اور وجہ سے بھی یہ ثابت ہو تا ہے کہ نبی کریم ؐ کو جادو نہیں کیا ہوگا۔ 

کسی کو اللہ کا رسول ثابت کر نے کے لئے اللہ نے کس طرح کا انتظام کیا تھا؟

جس کو اللہ کا رسول بنایاگیااس کو انسانوں ہی سے منتخب کیا گیا۔ ہر قسم سے وہ انسان ہی رہے۔ 

ہر قسم سے اپنے ہی جیسے رہنے والا ایک انسان اپنے آپ کواللہ کا رسول دعویٰ کر نے لگتا ہے تو لوگ اس کو قبول نہیں کرسکے۔ 

اس بات کو اللہ نے ان آیتوں میں 17:94، 21:3، 23:33،23:47، 25:7، 26:154، 26:186، 36:15 واضح طور پر فرمایا ‏ہے۔ 

ہر زمانے میں لوگ یہی سمجھنے لگے کہ انسان جسے رسول مقرر کر تا ہے تو وہ بھی انسان ہی ہوگا ، لیکن اللہ کی طرف سے مقرر کئے جانے والے رسول ‏انسان سے بلند ترین مقام پر ہو نا چاہئے۔ 

انسان کی یہ سوچ بھی صحیح تھا۔ جو اللہ کا رسول کہتا ہے اس کو قبول کر نا ہوتو جھوٹے رسولوں کو بھی قبول کر نا پڑ جائے گا۔

دیگر انسانوں سے کسی بھی طریقے سے اللہ کے رسول مختلف ہو ناچاہئے۔ ان لوگوں کی اس خواہش کو ایک انداز سے اللہ بھی قبول کر تا ہے۔ 

اپنا رسول بنا کراللہ نے جنہیں بھی بھیجتا ہے اس کو ثابت کر نے کے لئے ان کے پاس چند معجزے دے کر بھیجتا ہے۔ 

دوسرے انسان جو نہیں کرسکتے ان معجزوں کو جب دیکھتے ہیں تواس پر ایمان لانے کے لئے کہ وہ اللہ کے رسول ہی ہیں ، راست باز نگاہ والوں کو کوئی ‏توقف پیدا نہیں ہوگی۔ 

اسی وجہ سے قرآن کہتا ہے کہ کسی بھی رسول کوجب بھیجا جاتا ہے تو انہیں معجزہ عطا کئے بغیر نہیں بھیجا جا تا ۔ 

اللہ کا رسول ثابت کر نے کے لئے نبیوں کو اللہ نے معجزہ عطا کی ہے اور معجزہ عطا کئے بغیر کوئی رسول بھیجا نہیں گیا ہے۔اس کو ان 3:184، ‏‏7:101 9:70، 10:13، 10:74، 35:25، 40:22، 40:50، 57:25، 64:6آیتوں کے ذریعے معلوم کر سکتے ہیں۔ 

اپنے اس معجزوں کے ذریعے ہی اپنی اس رسالت کو ہر نبی ثابت کر نے کی حالت میں بھیجے جاتے ہیں۔ 

ایسی ایک حالت میں نبی کریم ؐ کو یہودیوں نے جادو کرکے آپ ہی کو جادوئی طاقت سے باندھ دئے ہوں تولوگ اس طرح سمجھ جاتے کہ رسول سے ‏زیادہ یہودیوں کا معجزہ بڑا ہے۔ 

اللہ کی طرف سے منتخب کئے جانے والے رسول ہی کو جادو سے باندھ دئے تو اس وقت کیسا نتیجہ سامنے آیا ہوگا؟ 

ان لوگوں میں اکثر سوچے ہوں گے کہ وہ ہمارے جیسے انسان رہنے کے باوجود ان کی دکھائی ہوئی معجزوں کو دیکھ کر انہیں ہم اللہ کا رسول سمجھے ‏تھے۔ آج تو ان کے دشمن خود ان کی دل کی حالت ہی کو متاثر کر دئے۔ ان سے تو یہود طاقتور ہیں!

وہ لوگ کہے ہوں گے کہ آپ کا جومعجزہ تھا وہ جادوگرکے کرتوت سے معمولی تھا، اس لئے وہ رسول نہیں ہوسکتے۔ 

آپ نے جو معجزہ دکھایا تھااس سے یہود کا معجزہ بڑا ہے، وہ تو معجزہ دکھا نے والے ہی کو جادو کے زور سے بیکار کردیا، اس طرح کسی نے تبصرہ کر دیا۔ ‏اس وجہ کو دکھا کر ایک شخص بھی اسلام سے منہ موڑا نہیں۔ 

اس سے واضح ہو تا ہے کہ کسی بھی اوزار کو استعمال کئے بغیر صرف کنگھی اور بال کو لے کر اللہ کے رسول کو ناکام کر دیا کہنابالکل جھوٹی کہانی ہے۔ 

اللہ کے رسولوں کے خلاف اس طرح کی کراماتی طاقت کودشمنوں کو دے کر ایماندار لوگوں کو اللہ ہر گز بے راہ نہیں کرسکتا، اس لئے اس میں کوئی ‏شک نہیں کہ نبی کریم ؐ پرکوئی بھی جادونہیں کر سکتا۔ 

جادو کے عمل کو قرآن انکار کر تا ہے

نبی کریم ؐ اور پہلے زمانے کے رسولوں نے جب کہا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں تو اس کو انکار کر نیوالے دشمنوں نے کیا وجہ بتائی؟

انہوں نے کہا:

تم کھاتے ہو،

پیتے ہو،

ہمارے جیسے انسان ہو،

تم جیوتش ہو،

باکمال شاعر ہو،

تمہیں کوئی جادو کر دینے کی وجہ سے تم اس طرح بے عقلی کی بات کا رہے ہو۔

ان کے دوسرے تبصروں کو تسلیم کر تے ہوئے اللہ نے نبیوں پر جادو کئے جانے اور انہیں جیوتش اورشاعر کہنے کو سخت الفاظ سے تنبیہ کیا ہے۔

اس کے بارے میں تفصیل سے جان لو۔

ان آیتوں17:94، 21:3، 23:33، 23:47، 25:7، 26:154، 26:186، 36:15 میں اللہ فرماتا ہے کہ لوگوں نے کہا ، ‏ہمارے جیسے انسان کو ہم کیسے اللہ کا رسول مانیں گے؟

لوگوں کے ان سوالوں کو اللہ نے انہیں جواب دیتے ہوئے سرزنش نہیں کی کہ تم ان لوگوں کو انسان کیسے کہہ سکتے ہو؟ بلکہ ان 14:11، ‏‏17:93، 21:78آیتوں کے ذریعے یہی کہا کہ وہ انسان ہی ہیں۔ انسان ہی کو ہم رسول بنا کر بھیجیں گے۔

اس بات پرلوگ یقین کرتے تھے کہ جادو کے ذریعے متاثر کر سکتے ہیں۔نبی کریم ؐ جب جنت اور دوزخ کے بارے میں لوگوں سے کہنے لگے تو وہ ‏بات ان کی عقل میں نہ آنے کی وجہ سے کہنے لگے کہ انہیں جنون ہوگیا ہے۔

جب کہا گیا کہ نبیوں پرجادو کیا گیا اورنبیوں کو دل کا مرض پیدا ہوا تو اللہ نے اسے بہت سختی سے انکار کر تا ہے۔ 

ظالموں نے جب کہا کہ تم لوگ ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے چل رہے ہو تو (اے محمد!) تم سے جب وہ لوگ سنتے ہیں اور کس لئے سنتے ہیں ، اس کو ‏بھی ہم جانتے ہیں۔

قرآن: 17:47

یا اس کے لئے کوئی خزانہ اتارا جانا تھا؟یا اس کے لئے کوئی باغ ہوتا اس میں سے وہ کھاتا؟ ظالموں نے پوچھا تم لوگ ایک سحر زدہ آدمی کی پیروی کر ‏رہے ہو۔ 

قرآن: 25:8

نبی کریم ؐ پر جادو کیا گیا ، اس طرح تبصرہ کر نے والوں کو یہ آیتیں ظالم کہہ کر اعلان کر تی ہیں۔ 

اگر یہ بات ہوتی کہ اللہ کے رسولوں پر جادو کر نا معمولی بات ہے،اوراس سے ان کے رسالت کے کاموں میں کوئی اثر نہیں ہوتاتو اس تبصرہ کو اللہ ‏انکار نہیں کرتا۔ 

اللہ کے رسول کھا تے ہیں، پیتے ہیں ، اس طرح جب تبصرہ کیا گیا تو کھانے پینے سے رسالت کے کاموں میں کوئی فرق نہیں پڑے گا،اس لئے اللہ نے ‏اس کو انکار نہیں کیا۔ بلکہ یہ کہا کہ تمام رسول تو کھایا ہی کریں گے۔ 

لیکن جب یہ کہا گیا کہ نبی کریم ؐ کو جادوکیا گیا تو اللہ انکار کرتا ہے کہ یہ ظالم لوگ اس طرح کہتے ہیں۔ جادو کر نے سے للہ کے رسول اگر متاثر ہوئے تو ‏وہ رسالت کے کاموں میں اثر انگیز ہوگا۔ اسی لئے اللہ اس کو انکار کرتا ہے۔ 

بعض لوگ کہیں گے کہ یہ آیت نازل ہو تے وقت جادو نہ کیا گیا ہو ، اور ممکن ہے اس کے بعد جادو رکھا گیاہو؟ یہ نا قابل قبول ہے۔ 

اس کے بعد اگرجادو کیا گیا ہوتو وہ بے شک اللہ کو معلوم ہوگا۔ کل کو جادو کرنے کے بارے میں جانتے ہوئے اللہ اس کو انکار کر نے سے کوئی فائدہ نہ ‏ہوگا۔ 

مندرجہ بالا دونوں آیتوں کو اور اس کے بعد آنے والی دونوں آیتوں کو اگر غور کریں تو اس طرح کی فلاسفی وہ نہیں کہیں گے۔ 

‏(اے محمد!) غور کرو کہ وہ تمہارے بارے میں کیسی کیسی

مثالیں دے رہے ہیں؟ پس وہ گم راہ ہوگئے۔ پھر وہ سیدھی راہ پا نہیں سکتے۔ (قرآن : 25:9)

غور کرو کہ کیسی کیسی مثالیں وہ تم پر چسپاں کر رہے ہیں۔ اس لئے وہ گمراہ ہو گئے۔ وہ سیدھی راہ پا نہیں سکتے۔

قرآن: 17:48

اس طرح تبصرہ کر نے والے کہ نبی کریم ؐ سحر زدہ آدمی ہیں ، اللہ نے انہیں گمراہ کہہ کر اعلان کر تا ہے۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ لوگ سیدھی راہ نہیں ‏پائیں گے۔ 

جس پر سحر نہیں کرسکتے انہیں سحر زدہ کہے جانے کی وجہ سے اللہ فرماتا ہے کہ دیکھو، تمہیں وہ کیسے تبصرہ کر تے ہیں۔ 

یہ ثابت ہو تا ہے کہ قرآن کی صاف صاف فیصلے کے مطابق نبی کریم ؐ کو یا کسی بھی رسول کو کوئی بھی جادو نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے متاثر کر سکتا ‏ہے۔ 

چنانچہ نبی کریم ؐ پرجادو کر نے کی حدیثیں بے شک جھوٹی کہانیاں ہیں۔ 

جادو کا انکار کر نے والے نبی کریمؐ

نبی کریم ؐ نے واضح طور پر کہاہے کہ جادو پر بھروسہ نہ کرو۔ 

نبی کریم ؐ فرمایا:

تقدیر کا انکار کر نے والا، ہمیشہ شراب پینے والا، جادو کو سچ سمجھ کر اس پر ایمان لانے والا اور (والدین کا) نافرمان وغیرہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔  

راوی: ابو درداء 

احمد: 26212

اگر کوئی جادو پریقین کرے تو وہ جنت میں نہیں جائے گا،یہ حدیث واضح طور پر کہتی ہے۔ یہ حدیث اتنی وضاحت سے ترکیب پائی ہے کہ اس کو کسی ‏تشریح کی ضرورت نہیں۔

یہ حدیث دوسری کئی راہوں سے آئی ہیں۔ وہ خبریں تمام ضعیف ہیں۔ 

لیکن مسند احمد میں درج ہو نے والی یہ حدیث بہت ہی سند یافتہ ہے۔ 

جادو پر ایمان کا مطلب کیا ہے ، ہمیں سمجھ لینا چاہئے۔جادو کے نام سے ایک فریب کاری ہے ، اس کو ہم بھی مانتے ہیں۔ اس کے بارے میں یہ ‏حدیث نہیں کہتی۔کہ بلکہ جادو کے ذریعے متاثر کر سکتے ہیں، اسی کو یہ آیت کہتی ہے۔ 

اسی انداز سے ایک اور حدیث کے ذریعے اس کے مطلب کو ہم جان سکتے ہیں۔ 

زید بن خالد الذہنیؓ کہتے ہیں:

اللہ کے رسول حدیبیہ کے مقام پر ہمیں صبح کا نماز پڑھایا۔اس رات بارش ہوی تھی۔ نماز ختم ہو نے کے ساتھ آپ نے لوگوں کو مخاطب ہو تے ‏ہوئے کہا کہ کیاتم جانتے ہواللہ نے کیا کہا؟ تو لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں۔جب نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ اللہ نے کہا : میری ‏امت میں مجھ پر ایمان لا نے والے اورمجھے انکار کر نے والے دو گروہ ہیں۔ اللہ کے فضل سے اور اس کی مہربانی ہی سے ہم پر بارش برسائی گئی کہنے ‏والے مجھ پر بھروسہ کر کے ستاروں کے انکار کر نے والے ہیں۔ فلاں فلاں ستاروں کے ذریعے ہی (ہم پر بارش)برس رہی ہے کہنے والے مجھے انکار ‏کر تے ہوئے ستاروں پر بھروسہ کر نے والے ہیں۔ (روایت بخاری: 1038)

اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ ستاروں پر ایمان نہیں رکھنا چاہئے۔ستارہ ہے ، اس پر بھروسہ کر نا غلط نہیں ہے۔ اس کو یہ حدیث بھی انکار نہیں کرتی۔ ‏بلکہ یہ حدیث ان باتوں کو انکار کر تی ہے کہ ستاروں کے ذریعے بارش ہوتی ہے،اور اس کے ذریعے مستقبل کے حالات کو معلوم کر سکتے ہیں اورایسا ‏بھروسہ کر نا کہ اس سے دوسروں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ 

اگر کوئی اس بنیاد سے ستارے پر ایمان رکھے تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس نے اللہ پر ایمان نہیں لایا بلکہ ستاروں پر ایمان رکھا ہے۔ 

اگر جادو پر ا سطرح کوئی یقین رکھے تو وہ جنت جا نہیں سکتا۔

جادو سے متاثر کر سکتے ہیں ، اس طرح کہنے والوں کویہ حدیث ایک بجلی ہے۔ 

جادو سے متاثر کیا جاسکتا ہے ، اس طرح بھروسہ کر نے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ یہ جملہ قرآن مجید کی آیتوں کے مناسبت سے واضح طور پر ‏ترکیب پائی ہے۔ 

اللہ کی نظر میں جادو

جادو، جادوگراور جادو کئے ہوئے لوگ ، ایسے الفاظ قرآن مجید میں کئی جگہوں میں جگہ پائی ہے۔ 

چند مقام میںیہ الفاظ جادو سے متاثر کیا جاسکتا ہے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اور چند جگہوں میں ایسے معنی سے استعمال ہو ا ہے کہ جادو کے ‏ذریعے متاثر نہیں کیا جاسکتااور وہ چالاکی سے دھوکہ دینے کو کہتے ہے۔

جادو کے ذریعے سے متاثر کر سکتے ہیں ، ایسا یقین والے اپنے مطلب کو ثابت کر نے کے لئے ان آیتوں کو جو کہتی ہیں کہ جادو سے متاثر کرسکتے ہیں ، ‏پیش کر تے ہیں۔ 

اختلافی انداز سے اللہ کچھ نہیں کہے گا ، اس اندازپر غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ لوگ قرآن کی آیتوں کو غلطی سے سمجھ بیٹھے ہیں۔ 

اس کے بارے میں ہم نے حاشیہ نمبر 285 میں تفصیل سے بیان کی ہے۔ 

جادو کو حق ثابت کر نے والے دعویٰ کر رہے ہیں کہ 113 اور114 وغیرہ سورتیں نبی کریم ؐ پر جو جادو کیا گیا تھا اس کو نکالنے کے لئے نازل ہوا تھا ‏اور ان سورتوں کی ایک ایک آیت پڑھتے وقت ایک ایک گرہ کھلتے گئے۔

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے ، اس کو جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 499میں دیکھیں!

کیا جادو کو علماء نے انکار نہیں کیا؟ 

معتزلہ نامی ایک جماعت تھی۔وہ لوگ حدیث کو نہیں ماننے والے تھے۔ نبیوں کی معجزات کو بھی نہیں مانتے تھے۔ تاریخ میں وہ لوگ نظر انداز کئے ‏گئے تھے کہ وہ گمراہ جماعت ہے۔ 

ایسی ایک جماعت اس زمانے میں تھی، لیکن اب نہیں ہے۔ اسی جماعت کوعلماؤں نے گمراہی کے لئے ایک مثال سا پیش کیا ہے۔وہ لوگ بھی جادو کا ‏انکار کیا ہے۔ 

جادو کو انکار کرنے والے ہمیں دیکھ کرجادو کی طرفداری کرنے والے الزام لگا رہے ہیں کہ یہ لوگ بھی معتزلہ کے عقیدے والے ہیں۔ معتزلہ ‏جماعت کی طرح یہ لوگ بھی جادو کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ اور معتزلہ کی طرح کوئی دوسرا جادو کا انکار نہیں کیا۔

جادو سے متاثر نہیں کر سکتے ،اس عقیدے کو اگر وہ لوگ غلط سمجھیں تو عوام کے سامنے مناسب دلیل کے ساتھ تبلیغ کر نے دو کہ ہمارا دعویٰ ٹھیک ‏نہیں ہے۔ اگر ان کی تبلیغ ناکام ہو نے کا اندیشہ ہو تو مناظرہ کے ذریعے اس کے انجام کو دیکھ لینے کی کوشش کریں۔ 

لیکن ان کے ساتھ رہنے والوں کو اپنے ہی ساتھ ٹہرالینے کے لئے جادو کے انکار کر نے والوں کو معتزلہ کے اعتقاد والے کہہ کر لوگوں کے سوچ پر ‏پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

یہ سچ ہے کہ معتزلہ نامی گمراہ جماعت جادو کا انکارکیا۔جادو کا انکار کر نے ہی کی وجہ سے کیا وہ لوگ گمراہ سمجھے گئے؟ہر گز نہیں۔

معتزلہ کا عقیدہ کیا ہے، انہیں معلوم نہیں۔ 

تبلیغی جماعت کوچھ نمبر ہے، اسی طرح معتزلہ کے لئے ایک خاص بنیادی پانچ عقیدے ہیں۔ 

معتزلہ کے علماؤں میں ایک خاص عالم ابولحسن الخیادنے فرمایا ہے:

توحید، عدل ، الوعد ولوعید، المنزلت بین المنجدین، الامر بالمعروف ونہی عن المنکران پانچ بنیادی عقیدوں کو اگر کوئی نہ بولے تو وہ معتزلہ نہیں کہلا ‏سکتا۔ ایک آدمی کے پاس اگر یہ پانچ بھی ہوں تو ہی وہ معتزلہ کا عقیدہ والا ہوگا۔ 

الانتظار حصہ ایک اور صفحہ 126 میں یہی پانچ عقیدوں کی تفصیل موجود ہے۔ 

ان کا پہلا عقیدہ توحید ہے۔ اللہ ایک ہے، اس کے سوااس کا شریک کوئی نہیں، اس کے جیسا کوئی نہیں۔ یہ عقیدہ سب مسلمانوں کا ہے۔ 

توحید کے لفظ کے ذر یعے ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کا کوئی شکل نہیں۔ اگر کوئی یقین کرے کہ اس کو شکل ہے تو مخلوقات کے ساتھ اللہ کو شریک ‏ٹہرانے کے گناہ میں مبتلا ہوگا۔ 

اس کو ہم نے مانا نہیں۔ یہ ناسمجھی کی حجت ہے۔ اللہ کی مخلوق میں شکل والی بھی ہیں، بغیرشکل کی بھی ہیں۔ اگر کہا جائے کہ اللہ کو شکل نہیں ہے تو ‏بھی بغیر شکل کی ہوا اور برقی طاقت وغیرہ کو اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانا ہو گا ، اس لئے ان کے عقیدے کو ہم انکار کر تے ہیں۔ 

اللہ کو شکل ہے۔ لیکن اس کو مثال دینا یاموازنہ کر نا نہیں چاہئے، اسی اعتقاد میں ہم ہیں۔ اس کے بارے میں ہم نے حاشیہ نمبر 488 میں تشریح کی ‏ہے۔ 

معتزلوں کادوسرا عقیدہ عدل ہے۔ اس کا براہ راست معنی انصاف ہے۔ لیکن معتزلوں کے پاس اس کامعنی ہی الگ ہے۔ اللہ انصاف کر نے والا ہے ‏کے خلاف اسکامعنی رہنے کی وجہ سے تقدیر پر بھروسہ نہ کر نا چاہئے، اسی کو انہوں نے عدل کا نام دیا ہے۔

اگر ہر کام تقدیر کے مطابق ہی چل رہی ہے تو مجرموں کو سزا دینا ناانصافی ہوگا۔ اللہ عدل کر نے والا ہے کو یہ خلاف ہے۔ گناہ کر نے والاآدمی اس ‏گناہ کو کر نے کے لئے اللہ ذمہ دار نہیں ہے، یہی معتزلوں کا بحث ہے۔ 

ہم تو تقدیر پر بھروسہ کر نے کے عقیدت مند ہیں۔ اس کے بارے میں حاشیہ نمبر 289 میں ہم نے تشریح کی ہے۔ 

معتزلوں کا تیسرا عقیدہ الوعد ولوعیدہے۔ اس کا برا ہ راست معنی وعدہ اور خبرداری ہے۔ اللہ جو وعدہ کر تا ہے اس کو پورا کرتا ہے، تنبیہ کے مطابق ‏سزا دیتا ہے۔گناہگار زندہ رہتے وقت ہی توبہ کر کے اصلاح نہیں پاتا تو اللہ اس کو معاف نہیں کر ے گا، یہی اس کی تفصیل ہے۔ 

اس بنیاد پر عظیم گناہ کر نے والے اگر توبہ نہیں مانگے تووہ دائمی جہنم میں ہوں گے، یہی معتزلوں کااعتقادہے۔ 

اس عقیدے پر ہم نہیں ہیں۔ ایک شخص اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹہراتے ہوئے کوئی بھی گناہ کرے تو اگر اللہ چاہے تو اس کو معاف کر سکتا ہے۔ ‏یہی ہمارا عقیدہ ہے۔ اس بات کو یہ آیتیں 4:48، 4:116، 5:18، 5:40، 33:24بالکل واضح طور پر کہتی ہیں۔ 

معتزلوں کا چوتھا عقیدہ یہ ہے کہ المنزلت بین المنزلیتن ہے۔ اس کا براہ راست معنی ہے کہ دونوں حالتوں کے درمیانی حالت ۔

بڑا گناہ کر نے والانہ مومن ہے اور نہ کافر۔ایمان اور انکار کے وہ درمیانی حالت میں ہے۔ یہی اس کا مطلب ہے۔ 

معتزلوں کی اس عقیدے کو ہم انکار کرتے ہیں۔ اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ایک مسلمان گناہ عظیم بھی کرے تووہ مومن ہی رہتا ہے۔ گناہ عظیم کر ‏نے سے وہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ 

معتزلوں کا پانچواں عقیدہ یہ ہے کہ الامر بالمعروف ونہی عن المنکرہے۔ اس کا براہ راست معنی یہ ہے کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ معتزلہ کا ‏کہنا ہے کہ حکومت چلانے والے اگر غلطی کر ے تو ان کے خلاف ہتھیار لے کر ان سے جنگ کر نا ہے۔ 

جہاد کے نام سے مسلمانوں کو قتل عام کر نے والے اس عقیدے کو ہم سختی سے مخالف ہیں۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ معتزلوں کے اس عقیدے ‏کے مطابق عمل پیرا ہو نے والا جماعت ہم ہی کو معتزلہ کہتا ہے۔

معتزلوں کوسختی سے مخالفت کرنے والے اکثرعلماء جادو کا انکار کیا ہے۔اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ اسی وجہ سے وہ معتزلوں کی فہرست میں جگہ ‏نہیں پائی ہے۔

جادو ایک دھوکہ بازی ہے ، اس کو صرف معتزلوں نے نہیں کہا،بلکہ معتزلوں کے خلاف رہنے والے علماء بھی کہا ہے کہ جادو ایک قیاس ہے۔ اس ‏حقیقت کو وہ لوگوں سے چھپا رہے ہیں۔ 

ابن حجر نے اپنی تصنیف فتح الباری میں کہا ہے :

جادو کے معاملے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ صرف قیاس ہے اور حقیقت نہیں ہے۔ شافعی مذہب کے قابل احترام عالم ابو ‏جعفر کی بھی یہی رائے تھی۔حنفی مذہب کے عالم ابو بکر رازی کی بھی یہی رائے تھی۔ ابن حزم کی رائے بھی یہی تھی۔ (اس طرح کہنے والے کہ ‏قرآن اور حدیث کو ایسے ہی قبول کر لینا چاہئے، کسی قسم کی تشریح نہ کرنی چاہئے، ایسی گمراہی کے اس عقیدے کے خلاف ابن حزم نے ایک ڈراؤنا ‏خواب ثابت ہوئے تھے۔) اور ایک جماعت کی رائے بھی یہی ہے۔ جادو کے ذریعے متاثر کر سکتے ہیں ، اسی رائے کو اکثر لوگ اپنائے ہوئے ‏ہیں۔نووی نے فرمایاکہ اسی کو قرآن مجید اور احادیث کہتے ہیں۔(فتح الباری)

چاروں مذہب والے معتزلہ عقیدے کے خلاف تھے، اس حقیقت کو سب جانتے ہیں۔ابن حجر نے کہا کہ شافعی اور حنفی مذہب کے علماء اور ‏معتزلوں کے خلاف بولنے والے ابن حزم سب نے کہا ہے کہ جادو ایک دھوکہ بازی ہے۔ اس طرح کہنے والے علماء کو ابن حجر نے معتزلہ نہیں ‏کہا۔صرف اتنا کہا کہ ایک اکثر لوگوں کی رائے ہے اور دوسری کم لوگوں کی رائے ہے، لیکن معتزلہ نہیں کہا۔ 

اسی طرح حنفی مذہب کے ایک بڑے عالم عینی نے اپنی کتاب عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں:

جادو کے متعلق پہلی رائے یہ ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے۔ اس رائے میں کہ جادو ایک حقیقت ہے ، علماؤں میں ابو حنیفہ کے سوائے دوسرے علماء ‏اسی رائے میں ہیں۔ ابو المظفر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ جادو میں کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ جادو سچ ہے اوراللہ جب چاہے جو ‏چاہے پیدا کرتا ہے ، یہی ہماری رائے ہے۔ معتزلہ اور شافعی مذہب کے ابو اسحاق اصفرائینی اس کے خلاف رائے دیتے ہیں۔ قرطبی نے کہا ہے کہ ‏جادو ایک باطل شکل اور ملمع کی ہوئی چیز ہے۔ (عمدۃ القاری)

کیا امام ابو حنیفہ اور شافعی مذہب کے ابو اسحاق معتزلہ ہیں؟

اسی رائے کو ابن کثیر بھی پیش کر رہے ہیں۔ 

جادو بالکل صحیح ہے، یہ پہلی رائے ہے۔ جادو کو صحیح کہنے والے علماؤں میں ابو حنیفہ کے سوا دوسرے علماء ایک ہی رائے پیش کر تے ہیں۔ ابو المظفر ‏نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ جادو میں کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔

ابن حجر کی طرح اسی زمانے میں رہنے والوں میں ابن تیمیہ بھی ہیں۔ 

ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الفرقان بین اولیاء الشیطان و اولیاء الرحمن میں جو لکھاہے اسے ملاحظہ فرمائیے۔

علماء اس بات میں اختلاف رکھتے ہیں کہ کیا جادو حقیقت ہے؟ کیا جادو کوئی چیز ہے؟ کیا جادو کے ذریعے ایک چیز کو دوسری ایک چیز میں تبدیل ‏کرسکتے ہیں؟ کیا وہ بالکل قیاس آرائی ہے؟ معتزلہ جماعت اور جزاز نام سے مشہور حنفی مذہب کے ابو بکر رازی ، شافعی مذہب کے عالم بغوی ، اور ابو ‏جعفر استربادی نے جادو کے تمام اقسام کوباطل کہا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ جادو جو ’نہیں‘ ہے اس کو ’ہے‘ کہہ کر پیش کر نے والا ایک باطل چہرہ ‏ہے۔ سحر زدہ آدمی کے اندر زہر یا دھواں داخل کر نے کے سوا جادو سے کچھ نہیں کر سکتے۔ اور کہا گیا ہے کی حنفی مذہب کی رائے یہی ہے۔ یہ علماء ‏کہتے ہیں کہ جادوگر کسی چیز کی ہےئت کو بدلی نہیں کر سکتا۔لاٹھی کو سانپ نہیں بنا سکتا۔ انسان کو گدھا نہیں بنا سکتا ۔ 

اس طرح ابن تیمیہ نے پیش کیا ہے۔ 

اس طرح کہنے والے علماؤں کو ابن تیمیہ نے معتزلہ نہیں کہا۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں وہ بھی عالم ہیں۔ ابن تیمیہ جس بغوی کی طرف اشارہ کیا ہے ، وہ ‏احادیث کو قائم کر نے کے لئے بہت سی محنت کی ہے۔ اس لئے ان کا لقب محی السنہ بن گیا تھا۔ جادو کے متعلق تمام خبروں کو انکار کر نے کی وجہ سے ‏ان کا لقب محی السنہ کوبدل کر کوئی معتزلہ کا لقب نہیں دیا۔

باطل مذہبی علماء کے لئے جادو ایک آمدنی کا ذریعہ ہے، مسجد کے منتظم کو یہ ڈرانے کے لئے کہ میں جادو کر دوں گا، یہ مددگار ثابت ہوتی ہے، اس ‏لئے یہ بات بہت بڑے انداز سے پھیل چکی ہے کہ جادو میں بہت اثر ہے۔ 

ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان وغیرہ کئی ممالک میں حنفی جماعت رہنے کے باوجود وہ لوگ بھی جادو کو مانتے ہیں۔ ابو حنیفہ نے خود کہہ ‏دیا تھا کہ جادو ایک قیاس ہے ، پھر بھی اس کو ماننے کی وجہ یہ ہے کہ یہ باطل عالموں نے اعلان کرچکے ہیں کہ جادو میں بہت اثر ہے۔ 

جادو سے کچھ نہیں کر سکتے ، اس طرح بولنے والوں کو کچھ توقع نہیں رہتا۔ اس لئے یہ رائے بہت کم لوگوں تک پہنچی ہے۔ معتزلوں کے سوائے کوئی ‏دوسرا جادوکا انکار نہیں کیا۔ اب یہ توحید جماعت والے انکار کر رہے ہیں۔ ایسے کہنے والوں کے تمام دعوے مندرجہ بالا دلیلوں سے جھوٹ ثابت ‏ہو چکا۔ 

شافعی اور حنفی مذہب والے جو عربی مدرسے چلاتے ہیں اس میں خطاب پانے والے ساتویں جماعت کے طلباء کو جو نصاب ہے اس میں بیضاوی کی ‏تفسیر تعلیم دی جاتی ہے۔ 

اس تفسیر میں توحید کے خلاف چند باتیں رہنے کے باوجود اس تفسیر میں جادو کے متعلق کیا کہا گیا ہے ، آئیے دیکھیں!

اس آیت 26:46 میں کہا گیا ہے کہ موسیٰ نبی معجزہ دکھانے کے ساتھ جادوگروں نے سجدہ میں گرگئے۔جس طرح موسیٰ نبی نے کیا اس کو جادو ‏کے ذریعے نہیں کر سکتے ، یہ جاننے کی وجہ ہی سے وہ لوگ سجدے میں گر پڑے۔جادو ایک باطل ہےئت ہے، ملمع کیا ہوا، 

اس میں کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ اس کے لئے یہ آیت دلیل ہے۔ 

اس طرح لکھنے والے بیضاوی کیا معتزلہ کے عقیدت والے ہیں؟کیا معتزلہ عقیدت والے کی کتاب کو نصاب میں رکھا گیا ہے؟ 

جادوگروں نے جو جادو کیا تھا اس کو دیکھ کر موسیٰ نبی نے کہاکہ تم جو کئے ہو وہ جادو ہے، اس کو اللہ ناکام کر دے گا۔ مفسدوں کے عمل کو اللہ کامیاب ‏ہونے نہیں د ے گا۔ اس کو اللہ نے اس 10:81میں فرمایا ہے۔یہ آیت اس کے لئے دلیل ہے کہ جادو ایک فساد ہے، جو نہیں ہے اس کو موجود ‏کہتا ہے، اور اس میں کسی قسم کی حقیقت نہیں ہے۔ 

تفسیر بیضاوی میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے۔ اس طرح کہنے والے کو کیوں معتزلہ نہیں کہا گیا؟

مولوی کے کورس میں ساتویں سال پڑھنے والے طلباء کو قرآن کی تفسیر اسی کو توپڑھایا جاتاہے ؟ بیضاوی جو بغیر دلیل کے کہا ہے اس کو قبول کر نے ‏والے یہ علماء بیضاوی نے جو دلیل کے ساتھ کہا ہے اس حقیقت کو کیوں انکار کر رہے ہیں؟

اسی طرح شوخانی نے اپنی کتاب فتح القدیر میں جو کہا ہے اس کو ملاحظہ فرمائیے۔ 

آیت نمبر 7:117 میں جادوگروں کے جادو کے متعلق اللہ کہتے وقت وہاں ےَاْفِکُوْنَ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس لفظ کا معنی ہے جھوٹی قیاس۔ اللہ ‏نے اس لفظ کو اس لئے استعمال کیا ہے کہ جادوگروں کی جادو میں کچھ بھی حقیقت نہیں ہے ، بلکہ جھوٹ ، قیاس اور ملمع کر نا ہے۔ اسی لئے جادوگر ‏ناکام ہوگئے۔ 

اسی ےَاْفِکُوْنَ کے لفظ کی بنیاد پر طبری کا کہنا دیکھئے!

اللہ فرماتا ہے کہ ان کی جھوٹی قیاس کو موسیٰ نبی کا معجزہ نگل گیا۔کیونکہ ان کا کیا ہوا جادوبالکل حقیقت سے عاری اور صرف قیاس ہے۔ اسی لئے ‏جادوگروں نے سجدے میں گر پڑے۔ 

اسی طرح ابن حیان کی تصنیف تفسیر المحیت میں جو لکھا گیا ہے، اس کو بھی ملاحظہ کیجئے۔ 

آیت نمبر 20:66 میں جو ہے کہ لوگوں کی آنکھوں کو گرویدہ کر لیا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ سازش کے ذریعے اور جھوٹی نمود کے ذریعے ‏جو نہیں ہے اس کو موجود دکھایا۔ اسی لئے انہوں نے موسیٰ کوایک خیالی نمود کر دکھایا۔

اسی طرح روح البیان کے مصنف کہتے ہیں: 

آیت نمبر 10:81 ،میں اللہ نے جو فرمایا ہے کہ باطل لوگوں کے اعمال کو درست نہیں کرے گا، یہ دلیل ہے کہ جادو میں کسی قسم کی سچائی نہیں ‏ہے اور وہ جھوٹ اور فریب کاری کے لئے ایک دلیل ہے، اس طرح قاضی نے کہا ہے۔ 

اسی روح البیان کی کتاب میں جو شعرانی نے کہا ہے اس کو وہ پیش کر تے ہیں۔

جادوگروں نے جو سجدے میں گر پڑے تھے ، اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ جادو میں کسی قسم کی سچائی نہیں ہے۔یہ کس طرح دلیل ہو سکتا ہے؟ ‏اگر وہ ایک چیز کو دوسری ایک چیز سے تبدیل کرکے جادو کر تے تو موسیٰ نبی نے جو اپنی عصاکو سانپ میں تبدیل کئے تھے اس کو دیکھ کر تعجب نہیں ‏کرتے۔وہ تو جادو کے ذریعے نہ کئے جانے والی ایک حقیقی تبدیلی ہے ، اس کو وہ لوگ سمجھ جانے کی وجہ سے اپنی ناکامی کو تسلیم کرلیا۔ 

ابن خدامہ نے اپنی کتاب شرح الکبیر میں لکھا ہے:

گرہ ڈالنا، چند لفظوں کو دہرانا، چند جملے کہنایا کچھ کر نا ایسی کئی قسم کے جادو ہیں۔سحر زدہ آدمی کو چھوئے بغیراس کے جسم میں یا دل میں متاثر کیا ‏جاسکتا ہے ، یہ حقیقت ہے۔ جادو کے ذریعے کسی کو مار سکتے ہیں، بیمار کرا سکتے ہیں۔ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی سے ملنے نہ پائے، دونوں ‏کے درمیان جدائی پیدا کر سکتے ہیں۔ دونوں کے درمیان نفرت پیدا کر سکتے ہیں۔ دونوں کے درمیان محبت پیدا کر سکتے ہیں۔ یہی شافعی امام کی ‏رائے ہے۔ لیکن شافعی مذہب کے بعض علماء کہتے ہیں کہ جادو بالکل صحیح نہیں ہے، اور وہ صرف قیاس ہی ہے۔اللہ نے کہا کہ پھنکارنے کی طرح ‏ایک جھوٹی نمود ہوئی ، وہی اس کے لئے دلیل ہے۔ ایک شخص کے اندر دھواں سا داخل کر نے سے وہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کسی بھی چیز کو استعمال ‏کئے بغیر بیماری میں مبتلا کر نا یا مار دینا ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر ویسا ہو جائے تو نبیوں کے معجزے ناکام ہو جائیں گے۔ غیر نبی بھی مروجہ ناممکنات کے ‏کر نے سے نبیوں کے معجزے بھی بیکار ہو جائیں گے۔ اس طرح ابو حنیفہ کے شاگرد کہتے ہیں۔ 

اس میں بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ موسیٰ نبی کے زمانے کے جادوگر وں کے معاملے میں آنے والی آیتوں کی ہر لفظ کو بالکل باریکی سے غور کر نے ‏کے بعد جادو میں کوئی سچائی نہیں کہنے والوں میں اکثر لوگ 2:102 کے آیت کو تشریح کر تے وقت جو انہوں نے کہا اور جادوگروں کی نسبت ‏میں آئی ہوئی تمام آیتوں کو بھول کر دوسری انداز سے بات کرتے ہیں۔ 

جزاز نام سے مشہور ابو بکر نے بہت سختی سے جادو کا انکار کیا ہے۔ 

ان کی بات بھی سنئے!

جس نے جادوکو سچا مانا اس نے نبوت کے بارے میں نہیں جانا۔ جادو کو اگر مانا تونبیوں کا معجزہ بھی جادو کا ایک قسم ماننا پڑے گا، اس سے، انبیاء بھی ‏جادوگر ہیں ماننے سے ہم بچ نہیں سکتے۔ اس 20:69 آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ جادوگر جادو کر نے سے کامیاب نہیں ہوسکتا۔ نبی کریمؐ پر جادو کیا ‏گیا۔ اس جادو سے انہیں نقصان پہنچا۔اس حد تک اثر ہواکہ آپ نے جو نہیں کیا ، اس کو آپ نے کہا کہ کیا۔ ایک یہودن نے کنگھی، سر کا بال اور ‏کھجور کے خوشے وغیرہ میں جادو کر کے ایک کنواں میں رکھ دیاتھا۔ جبرئیل کے ذریعے وہ بات نبی کریمؐ کو معلوم ہونے کے بعد کنویں سے ان ‏چیزوں کو نکال باہر کر نے کے بعد ہی جادو کا اثر زائل ہوا، ایسا بے ہودہ عقیدہ بھی بعض لوگوں میں موجود ہے۔ 

لیکن اللہ نے اس 25:8 آیت میں فرماتا ہے کہ ظالموں نے کہاسحر زدہ آدمی ہی کی تم پیروی کر رہے ہو۔ اس کے ذریعے نبی کریم ؐ پر جادو کیاگیاکہنے ‏والوں کو جھوٹا ثابت کیا گیا ہے۔ نبی کریم ؐ پر جادو کر نے کے بارے میں جو خبر ہے وہ اسلام کے دشمنوں کی تراشیدہ جھوٹی کہانی ہے۔ نبیوں کے ‏معجزوں کی خاصیت کو مٹانا ہی ان کا مقصد ہے۔ان کی عقیدت کے مطابق جادو اور نبیوں کے معجزے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کی عقیدت کے ‏مطابق جادو اور معجزہ ایک ہی قسم کے ہیں۔

نبیوں کا معجزہ بھی حق ہے اور جادوگروں کا جادو بھی سچ ہے ، اس طرح کہنے والوں کا بے ربط عقیدہ ہمیں حیرت زدہ کرتی ہے۔ جادو گر جادو کر تے ‏وقت کامیاب نہیں ہوگا، اس طرح کہہ کر اللہ نے جادوگروں کو جھوٹا ثابت کردیا ، لیکن یہ لوگ تو انہیں صادق قرار دے رہے ہیں۔ 

نبیوں کا معجزہ اور جادوگروں کی شعبدہ بازی کے درمیان فرق یہی ہے۔ نبیوں کا معجزہ مکمل حق ہے۔ جیسا وہ باہر دکھائی دیتا ہے اسی طرح اندر بھی ‏ہے۔ نبیوں کے معجزوں میں جس حد تک تم غور کروگے اسی انداز سے اس کی سچائی تم پر ظاہر ہوگی۔ ساری کائنات بھی مل کر اگر کوشش کریں تو ‏اس طرح نہیں کر سکتے۔ جادوگروں کا جادو صرف جھوٹ اور فریب کاری ہے۔ اس کے صحیح حالت کے خلاف ہی اس کا ظاہری حالت ہوگا۔ ‏اگرسوچ کر تحقیق کروگے تو ہم جان سکتے ہیں۔ 

جزاز نے آگے کہا:

جادوگرجو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سے یہ ہوسکتا ہے ، اگروہ سچ ہے ، اوراگر وہ سچے ہوں کہ جادو کے ذریعے اچھا یا برا ہو سکتا ہے، اگر وہ سچے ہوں کہ ‏آسمان پر اڑانے رکھیں گے، غیب کوجانیں گے اور دور دراز مقام کی خبروں کو بھی ہم معلوم کر لیں گے تووہ ان کاموں کو کرنا چاہئے تھا کہ حکومتوں ‏کو برطرف کردیں، خزانوں کو باہر کر دیں، کسی بھی تذبذب کے بغیر بادشاہوں کو قتل کر دیں، دوسروں سے اپنی طرف کوئی نقصان نہ آنے دیں، ، ‏اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے نہ رکھیں۔ ایسا تو نہیں ہے؟ بلکہ انسانوں میں یہی لوگ بری حالت میں ہیں۔ بہت زیادہ حرص و ہوس والے، ‏دوسروں کو دھوکہ دے کر مال ہڑپ کر نے والے، بہت ہی غریبی حالت میں رہنے والے، اور لوگوں سے چاپلوسی سے پیش آنے والے یہی لوگ تو ‏ہیں۔ اس سے اچھی طرح معلوم ہو تا ہے کہ یہ جو دعویٰ کر تے ہیں اس میں سے کوئی بھی بات ان میں نہیں ہے۔ 

ایسی بات کہنے والے ابو بکر الجزاز کو کسی نے معتزلہ کہا ہے؟

اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ جوجادو کے گروہ نے کہا کہ معتزلہ کے سوا کسی نے نہیں کہا، حقیقت کے خلاف ہے۔ 

کیا میجک دکھانا شرک ٹہرانا ہے؟

اس کے بعد ایک سوال کیا جا تا ہے۔

جادوکو تم میجک کہتے ہو۔ جادو کو شرک ٹہرانا بھی کہتے ہو۔ تو کیا میجک سیکھنا اور میجک دیکھنا وغیرہ بھی شرک ہی ہے؟

یہ سوال بھی کئی لوگ پوچھتے ہیں۔ 

ظاہر میں دو کام ایک ہی جیساہوگا۔ لیکن اس کے پیچھے جو عقیدہ ہے اس کے لحاظ سے دونوں الگ الگ ہوجائیں گے۔ 

مثال کے طور پر ایک سونے کی چین کو لے لیں۔ اس کو ایک عورت شادی کی نشانی منگل سوتر سمجھ کرگلے میں پہن لیتی ہے اور بعض عورتیں ایک ‏زیور کی طرح بھی پہن لیتی ہیں۔ ظاہر میں وہ ایک سونے کی چین ہے۔ لیکن عقیدے میں دونوں میں فرق ہے۔ 

شادی کی بندھن ہی اس چین ہی میں ہے۔اگر وہ شادی کی چین ٹوٹ گئی تو اس کے پیچھے ایک باطل عقیدہ بھی ہے کہ اس کے شوہر کو کچھ ہو جائے ‏گا۔ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ وہ ہونا نہیں چاہئے۔ 

لیکن آرائش کے طور پر عورتیں اس کو پہن سکتے ہیں۔ 

سونے کی چین ایک ہی ہے، لیکن وہ ہمارے عقیدے میں کس طرح کا نقصان پہنچاتا ہے، ذرا غور کریں۔ 

کوئی پوجا کر کے ایک کیلا ہمارے پاس دیتا ہے۔ اس کو ہم لے نہیں سکتے۔ 

کوئی دوسرا معمولی سا ایک کیلا ہمیں دیتا ہے تو ہم اس کو لے لیتے ہیں۔ 

دونوں ہی کیلے ہیں۔ لیکن نذر کر نے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ وہ مقدس ہو گیا۔ اس میں وہ جھوٹا عقیدہ رہنے کی وجہ سے ہمارا دین اس کو حرام کہتا ‏ہے۔ 

دوسرے کیلے میں وہ اعتقاد نہ رہنے کی وجہ سے وہ ہمارے لئے حلال ہو جا تا ہے۔ 

اسی طرح میجک بھی جادو کے شکل میں ایک ہی جیسے ظاہرہو نیکے باوجود اسکے پیچھے جو عقیدہ ہے اس سے وہ تبدیل ہو جا تا ہے۔

میجک کر نے والاخالی ہاتھ سے اگر انگوٹھی منگواکر دیتا ہے تو میجک دکھا نے والا بھی یہ نہیں کہتا کہ جو نہیں تھا اس انگوٹھی کومیں نے دکھایا اور لوگ ‏بھی ایسا نہیں مانتے۔ پہلے ہی سے جو انگوٹھی چھپا کر رکھا گیا تھا کسی کی نظر میں آئے بغیر وہ لا کر دکھاتا ہے۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس کے لئے وہ چند ‏تدبیریں کی ہیں۔ 

میجک والے کے پاس کوئی نہیں پوچھتا کہ میری بکری کہیں گم ہو گئی ہے، اس کو تلاش کر کے دو۔ میجک والے کے پاس کوئی ایسی گزارش نہیں کر تا ‏کہ شوہر سے بیوی کو جدا کر دو یا دشمن کے ہاتھ پاؤں توڑ دو۔ اگر کوئی پوچھے بھی تو میجک کر نے والا صاف کہہ دے گا کہ ایسا میں نہیں کر سکتا۔ 

لیکن جادوگر کیا کہتا ہے؟ وہ کہے گا کہ میں سچ مچ استدراج کر نے والا ہوں۔ میں یہیں سے کہیں دور رہنے والے کے ہاتھ پاؤں موقوف کر دوں ‏گا۔شوہر سے بیوی کو اور بیوی سے شوہر کو جدا کر دوں گا۔ اس کے لئے لوگ بھی اس کے پاس جائیں گے۔ 

میجک والا تو اعلان کئے ہوئے پروگرام میں پہلے ہی سے انتظام کئے ہوئے چیزوں کو دکھا ئے گا اور بس۔ 

لیکن جادو گر پہلے ہی سے انتظام کئے ہوئے چیزوں ہی کو نہیں بلکہ کہے گاکہ کوئی بھی آئے، کسی کے خلاف بھی آئے، کچھ بھی کر نے کو کہے ان سب ‏کو کرنے کی طاقت ہے ۔ یہی جادو ہے۔ 

ہماری عقل ہی کہہ دیتی ہے کہ ایک میں شرک ہے۔ دوسری چیزکو ہماری عقل فیصلہ کر دیتی ہے کہ وہ ایک تفریحی تدبیر ہے۔ اس فرق کو ہم جان ‏لینا چاہئے۔ 

میجک کر نے والے کہیں گے کہ ہم اس کو مشق کی ذریعے کرتے ہیں۔ اور یہ بھی کہیں گے کہ اگر تمہیں بھی وہ مشق ہو تو تم بھی کر سکتے ہو۔ 

لیکن جادو کر نے والے کہیں گے کہ وہ اپنے جادو کی طاقت سے یہ انہیں حاصل ہوئی ہے۔ 

جادو ہے تو کر دکھا نا چاہئے

غیب کی باتیں اگر اللہ نے کہہ دی تو اس پر ہم ایمان لا نا چاہئے۔

ملائکہ، فرشتے، جنات، شیاطین،جنت، دوزخ، پھر سے اٹھایا جانا وغیرہ کئی باتوں کو اللہ نے فرمایا ہے۔ 

اس کو آزمائش میں ڈالے بغیر سارے مسلمان مانتے ہیں۔ کیونکہ یہ آزماکرجاننے والی چیز نہیں ہے۔ اللہ نے کہہ دیا، بس ہم نے مان لیا۔ 

لیکن آزمانے کے قابل بھی چند چیزیں ہیں۔ اس کو ہم آزما کر ہمیں جانچنا چاہئے کہ کیا یہ سچ یا جھوٹ؟ آنکھ بند کر کے ایسے ہی مان لینا چاہئے۔ 

مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ گنجے سر پر اس تیل کو لگاؤ تو بال بڑھ جائے گی تو اس کو آزمانے کے بعد ہی اس پر ہمیں بھروسہ کرنا چاہئے۔ 

شریک ٹہرانے کی بات آگئی تو اس کو آزماکر دیکھنے کے بعد ہی جاننا چاہئے۔ 

کہا جائے کہ جادوگر کو طاقت ہے تو اسی وقت اس کو آزماکر دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ شریک ٹہرانے کے خلاف اللہ نے اسی طریقے کو ہمیں سکھایا ہے۔

کہو کہ اللہ کے سوا جسے تم پکارتے ہو ان شریکوں نے زمین میں کیا بنایا ہے، مجھے دکھاؤ۔یاجواب دو کہ کیا انہیں آسمانوں میں کوئی حصہ ہے؟ یا ہم نے ‏ان کو کوئی کتاب دی ہے اس کی کسی دلیل پر ہیں۔ نہیں، یہ ظالم ایک دوسرے سے دھوکہ دہی کا وعدہ ہی کر رہے ہیں۔ (قرآن : 35:40)

اللہ کے سوا جسے تم پکارتے ہو وہ زمین میں کیا پیدا کیا ، مجھے بتاؤ۔ یا جواب دو کہ آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ (ائے محمد!) کہو کہ اگر تم سچے ہو تو ‏اس سے پہلے گزری ہوئی کتاب یا کوئی علمی دلیل میرے پاس لے آؤ! (قرآن: 46:4)

اگر یہ مسئلہ اٹھے کہ اللہ کے جیساکسی کو طاقت ہے تو اس کو ثابت کرو کہنا ہی اللہ ہمیں سکھایا ہوا طریقہ ہے۔ 

جادوگر کو اگر طاقت ہے تو اس کو وہ ثابت کرے اورمعلوم ہوجائے کہ وہ ثابت نہ کر سکے گا تو اس کو جھوٹ سمجھنا اسلام کا طریقہ ہے۔ 

جادو کر نے والے ایک شخص کو دکھاؤ۔ہم جو کہتے ہیں اس کو وہ کر نے دو۔ یا جو طاقت وہ کہتا ہے کہ میرے پاس ہے، اس کو کر دکھانے دو۔ ایسے ‏سوال اٹھایا گیا تو کوئی سامنے نہیں آتا۔

اللہ اپنے قرآن میں کہتا ہے:

کسی چیز کو پیدا نہ کرنے والے کو کیا وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹہراتے ہیں؟ بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ انہیں وہ کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی ہی مدد بھی ‏نہیں کر سکتے۔ کچھ کہنے کے لئے اگر تم ان کو بلاؤ تو وہ تمہاری پیروی نہیں کریں گے۔تم انہیں بلاؤ یا خاموش رہو دونوں برابر ہے۔ اللہ کے سوا ‏جنہیں بھی تم پکارو وہ سب تمہارے ہی جیسے بندے ہیں۔ اگر تم سچے ہو تو انہیں پکار کر دیکھو، وہ جواب تو دینے دو! کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ ‏چلیں؟ کیاان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑیں؟کیا ان کے آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھیں؟ کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنیں؟ کہو کہ تمہارے ‏شریکوں کو پکارواور میرے خلاف سازش کرو۔ میرے لئے کچھ مہلت نہ دو۔

قرآن: 7:191-195

بتوں کو ہاتھ پیر بنا کروہ کہتے ہیں کہ ان ہاتھوں سے وہ انسانوں کی حاجت پوری کر تے ہیں۔ مزید یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا ایمان ہے۔ 

اس کو اللہ نے نہیں مانا۔ بلکہ اللہ نے اس شرک کے خلاف کاروائی کر نے کے لئے ہمیں سکھاتا ہے کہ ان ہاتھوں سے وہ کچھ پکڑنے دو، ان پاؤں سے ‏چل کر دکھانے دو۔

جادوگر کو اگر طاقت ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کوکر کے دکھاؤ، ثابت کر کے دکھاؤ۔ اگر کوئی ثابت کر نے کے لئے آگے نہ بڑھے توسمجھ لیں کہ جادو ‏کو کچھ طاقت نہیں ہے۔ قرآن کی رو سے یہی فیصلہ کر نا ٹھیک ہے۔ 

جادو پر بھروسہ کر نے والے جہالت میں رہتے ہوئے عقلمندی سے بات کر نے والوں کو دیکھ کر حقیر سمجھتے ہیں۔ 

اسلام میں بحث کرنے والے عقلمندی سے بات کرنا چاہئے۔ 

ہود نبی کی للکار کو ذرا دیکھئے!

ان کی قوم نے کہا کہ ہم تو یہی کہیں گے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی نے تم پر ضرر پہنچا دی ہے۔ہود نے کہا کہ میں اللہ کو گواہ ٹہراتا ہوں اور تم ‏بھی گواہ رہو۔ اس کے سوا جن کو تم نے شریک ٹہرایا ہے اس سے میں بری ہو۔ پس تم سب مل کر میرے خلاف سازش کرو۔ پھر مجھ کوکچھ مہلت ‏نہ دو۔

قرآن: 11:54,55

ہود نبی کی طرح ہم بھی کہہ رہے ہیں۔ جادوگر کو کوئی طاقت نہیں ہے۔ اگر ہے تو کر کے دکھاؤ، یہ ہماری للکار ہے۔ 

جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہارے ہی جیسے بندے ہیں۔ اگر تم سچے ہو تو انہیں پکار کر دیکھو، وہ تمہیں جواب دینے دو!

قرآن: 7:194

اگربتوں کو طاقت ہے کہو تو ہمیں کہنا چاہئے کہ ثابت کر کے دکھاؤ۔ اس آیت میں اللہ نے کتنی خوبصورتی سے اس بات کو سکھلایا ہے، ذرا غور ‏کرو۔ 

شریک ٹہرانے کا مسئلہ آگیا تو اس کا حل یہی ہے کہ اس سے کہے کہ ثابت کرے۔ جادو بھی شریک ٹہرانے کی جگہ پر رہنے کی وجہ سے اس کو بھی ‏آزمانا ہی صحیح طریقہ ہے۔ 

نام کے مسلمان بھی جادوگر بنے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں طاقت ہوتی تو وہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو قتل و غارت کئے جا نے کو مقصد بنائے ہوئے ‏لوگوں پر جادو کر کے اس امت کو مدد پہنچانا چاہئے تھا؟ 

غیر مسلموں میں بھی جادو گر ہیں۔ ہمارے ملک کے سیاستدان انہیں استعمال کر کے جو جیتنے والا ہے اس سردار کو گونگا بنا دیتے تو بس تھا۔ ایسا کچھ ‏واقع نہیں ہوا۔ 

اس سے اچھی طرح معلوم ہو تا ہے کہ جادو سے کچھ نہیں کرسکتے۔ 

جادو کے متعلق اٹھائے جانے والے تمام سوالوں کے جواب جاننا ہو تو حاشیہ نمبر 28، 285، 468، 495، 499 وغیرہ دیکھئے!  

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account