Sidebar

03
Thu, Jul
0 New Articles

‏95۔ نبیوں سے لیا گیا عہد

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏95۔ نبیوں سے لیا گیا عہد

اس (3:81) آیت میں نبیوں سے لئے گئے عہد کے بارے میں کہا گیا ہے۔ اور آیت نمبر 33:7 میں بھی کہا گیا ہے۔ 

وہ عہد کیا ہے، اس میں دو رائے پائے جاتے ہیں۔ 

اکثر علماء کہتے ہیں کہ وہ عہد یہی ہے کہ’’نبی کریمؐ آخری نبی بن کر آئیں گے، جب وہ آئیں گے تو سب لوگ ان پر ایمان لائیں اور انہیں مدد کریں۔‘‘

اس آیت میں ایسی کوئی رائے پائی نہیں جاتی کہ اللہ نے نبیوں سے یہ عہد لیا تھا کہ نبی کریم ؐآخری نبی بن کر آئیں گے تو ان پر ایمان لائیں۔ اکثر علماء جو ‏کہتے ہیں اس کو، اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ان لوگوں کی خاص رائے ہے۔ 

یہ آیت کیا کہتی ہے اس کو، اس آیت میں استعمال شدہ جملوں سے ہی ہم معلوم کر سکتے ہیں۔ 

نبیوں سے عہد لینے کی بات کو یہ آیت عام طور سے کہتی ہے۔ اس میں نبی کریم ؐ ہی نہیں بلکہ سب نبی شامل ہیں۔ 

اس معاہدے میں نبی کریم ؐ بھی شامل ہونے کی وجہ سے ان کی آمد کے بارے میںیہ آیت کوئی پیشنگوئی نہیں ہو سکتی۔ 

اللہ نے یہ نہیں کہا کہ تمہارے سوا دوسرے نبیوں سے عہد لیا۔ اس لئے اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ؐ کے ساتھ دوسرے نبیوں کو بھی ملاکر ‏لئے گئے معاہدہ ہی کو یہ کہتی ہے۔ 

اسی آیت سے ہم واضح طور پر جان سکتے ہیں کہ کیا معاہدہ لیا گیا تھا۔

وہ معاہدہ یہی ہے کہ تمہیں کتاب اور حکمت دینے کے بعد اور ایک رسول تمہارے پاس آئے تو تم ان پر ایمان لانا اور مدد کر نا چاہئے۔

اگر یہ کہا ہوتا کہ تمہارے بعد ایک رسول آئے توہم سمجھ سکتے ہیں کہ آئندہ زمانے میں آنے والے ایک رسول کے بارے میں یہ پیشنگوئی ہے۔ 

تمہارے بعد کہنے کے بجائے اس آیت میں کہا گیا ہے کہ تمہارے پاس ایک رسول آئے۔ایک نبی کی زندگی ہی میں ان کے پاس ایک اور رسول ‏آنے کے بارے ہی میں یہ جملہ کہتا ہے۔

اس آیت کا یہی مطلب ہے کہ ’’تمہیں ہم نے نبی مقرر کردیا۔ یہ تمہاری لیاقت یا محنت سے ملی نہیں بلکہ ہم ہی نے تمہیں عطا کی ہے۔ہم نے ‏تمہیں نبی بنادیا، اس لئے ایسا نہ سمجھ لینا کہ تمہاری قابلیت میں کچھ خامی واقع نہیں ہوگی۔تمہارے ہی زمانے میں اگر ہم تمہارے پاس ایک اور نبی ‏بھیجیں توتم فوراً ان پر ایمان لا نا چاہئے اور انہیں مددپہنچانا چاہئے۔ اسی شرط کی بنا پر تمہیں یہ حیثیت عطا کی جاتی ہے۔‘‘

اس آیت کی ترکیب ہی اس بات کو ثابت کرتی ہے۔ 

اگراس کو نبی کریمؐ کے بارے میں پیشنگوئی سمجھو تو ایسا ہو جائے گا کہ نبیوں نے عہد کو پورا نہیں کیا۔ 

معاہدے کا شرط ہی یہ ہے کہ ’’ان پر ایمان لانا اور انہیں مدد پہچانا۔‘‘نبی کریم ؐ جب دنیا میں آئے تو اس وقت دنیا میں کوئی نبی نہیں تھے۔اورنبی ‏کریم ؐکو مدد بھی نہیں کئے۔ 

اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ علماء کا قول قطعی غلط ہے۔ 

نبی کی حیثیت انسان کی محنت یا لیاقت کے لئے نہیں دی جاتی۔ وہ فضل الٰہی سے عطا کی جاتی ہے۔ دوسروں کو اگر میں عطا کروں تو اس کو بھی پابند رہنا ‏ہے، اسی شرط کی بنا پر اس کو میں عطا کر تا ہوں، یہی معاہدہ ہے۔ 

‏1۔ اگر وہ تمہارے پاس آئے

‏2۔ ان پر تم ایمان لانا چاہئے

‏3۔ انہیں تم مدد کر نا چاہئے

اسی کو یہ جملے واضح کرتی ہیں۔

آیت نمبر 36:14 کہتی ہے کہ ایک نبی کو بھیجنے کے بعد ان کی حمایت کے لئے اور بعض کو اللہ نے بھیجا ہے ،اس طرح بھیجے گئے رسولوں کو پہلے بھیجے ‏ہوئے رسولوں نے قبول فرمالیا۔ 

اس آیت میں جو نہیں کہا گیا اس رائے کواکثر علماء نے قیاس کے ذریعے کہہ دینے کی وجہ سے بعض گمراہوں نے اس آیت کو اپنی گمراہی کے لئے ‏دلیل پیش کرتے ہیں۔ 

نبی کریم ؐ کے زمانے کے بعد اپنے آپ کونبی بتانے والے سارے کذاب اس آیت کو ان کے بارے میں پیشنگوئی کہہ کر لوگوں کو دھوکہ دئے بغیر ‏نہیں رہے۔ 

اپنے آپ کو نبی کہہ کر جھوٹا دعویٰ کر نے والوں نے کہا ہے کہ’’ نبی کریم ؐ اور دیگر تمام نبیوں کے پاس اس کے بعد آنے والے نبی کے بارے میں ‏اللہ نے جوپیشنگوئی کی ہے وہ نبی میں ہی ہوں۔‘‘

ایسا کہنے کے بجائے کہ ’’تمہارے بعد ایک نبی اگر آئے‘‘اس آیت میں ’’جاء کم ، یعنی تمہارے پاس ایک نبی آئے ‘‘ کہا گیا ہے۔ اس کو وہ کذاب ‏لوگ الٹ پھیرکر تے ہیں۔ 

جب اس آیت کی براہ راست معنی یہ ہے کہ ایک نبی کی زندگی میں اس کے پاس ایک اور نبی بھیجا گیا تو اس پر ایما ن لا نا چاہئے، تو وہ کیسے پیشنگوئی ‏ہوسکتی ہے؟ 

یہی سچ ہے کہ نبی کریم ؐ کی آمد کے بارے میں بھی یہ آیت پیشنگوئی نہیں کی، اور کسی کے بارے میں بھی پیشنگوئی نہیں کی۔

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account