89۔ کیا دوسرے مذہب والوں کو دوست نہیں بنا سکتے؟
ان آیتوں میں3:118، 3:128، 4:89، 4:139، 4:144، 5:51، 5:57، 5:80، 5:81، 9:16، 9:23، 58:14، 60:1، 60:8، 60:9، 60:13) کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے سوائے دوسروں کو دوست بنا نا نہیں چاہئے۔
ان آیتوں کو دیکھ کر بعض لوگ سوچ سکتے ہیں کہ غیر مذہبوں کے خلاف اسلام نفرت کی بیج بوتی ہے۔ ایسا سوچنا غلط ہے۔
اگر یہ معلوم ہوجائے کہ یہ آیت کس کے بارے میں کہتی ہے اور یہ کس لئے اتاری گئی ہے تو ایسی شک و شبہ پیدانہیں ہوسکتی۔
قرآن مجید نازل ہونے والے زمانے میں مسلمانوں کے اطراف بسنے والے کئی معبودوں کے عقیدتمند اور یہودی مسلمانوں کے خلاف فوج اکٹھا کر رہے تھے۔
کسی بھی طرح مسلمانوں اور اسلام کو مٹادینے کے لئے قسم کھارکھا تھا۔ کوئی سال جنگ کے بغیر نہیں رہا۔ چند سالوں میں ایک سے زیادہ جنگ بھی مسلمانوں کو سامنا کر نا پڑا۔
ایسی ایک پُرآشوب ماحول میں چند مسلمانوں کے رشتہ دار اور دوست لوگ دشمنوں کے حصے میں بسے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ مسلمانوں نے دوستی کر رکھی تھی۔ مسلمانوں کے ذریعے انہیں کوئی خبر نہ پہنچ جائے ، اس لئے انہیں اس طرح حکم دیا گیا تھا۔
ان آیتوں میں استعمال شدہ لفظوں پر اگر غور کریں تو ہم جان سکتے ہیں کہ یہ مناہی عام نہیں ہے اور غیر مسلموں کے بارے میں بھی نہیں ہے۔
آیت نمبر 5:57 کہتی ہے کہ اسلام کامذاق اڑانے والوں کے ساتھ دوستی نہ کرو۔ اسلام کا مذاق اڑائے بغیر مسلمانوں سے رضامند رہنے والوں کا یہاں ذکر نہیں ہے۔
آیت نمبر 60:2 کہتی ہے کہ تم سے دشمنی سے پیش آنے والوں کے ساتھ، ہاتھوں اور زبانوں سے تمہیں ضرر پہنچانے کی تدبیر کر نے والوں کے ساتھ دوستی مت کرو۔ مسلمانوں کے اگر دشمن نہ ہوں اور ہاتھوں سے اور زبانوں سے ضرر نہ پہنچانے والے ہوں توان کے ساتھ دوستی کر نے کو یہ منع نہیں کرے گا۔
آیت نمبر 60:1 کہتی ہے کہ تمہیں اور نبی کریم ؐ کو شہر چھوڑ کر بھگانے والے تمہارے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ اپنے خلاف عمل پیرا ہو نے والوں کے ساتھ کوئی بھی مذہب دوستی نہیں کر یگی۔
یہ آیتیں (60:8,9) کہتی ہیں کہ تمہیں اور نبی کریم ؐ کو بھگانے والوں کے ساتھ اور دین کے خلاف تم سے جنگ کرنے آنے والوں کے ساتھ دوستی سے پیش نہ آؤ۔ ان جیسے نہ ہوں ان غیر مسلموں سے صرف دوستی ہی نہیں بلکہ انہیں بھلائی بھی کرو۔یہ آیتیں فرق کر کے دکھاتی ہیں کہ غیر مسلموں میں دوستی کر نے کے قابل بھی ہیں اور ناقابل بھی ہیں ۔
آیت نمبر3:118 کہتی ہے کہ ظاہری طور پر دشمنی دکھا کر اندرونی انداز سے تمہیں مٹانے کی تدبیر کر نے والوں کو دوست مت بناؤ۔ جو ہمیں مٹانے کی تدبیر کرتا ہے ان سے کون دوستی کرے گا؟
آیت نمبر 5:82کہتی ہے کہ اس زمانے کے عیسائی قوم مسلمانوں سے قریبی دوست تھے۔ یہ آیت یہی کہتی ہے کہ نبی کریم ؐ کے زمانے کے غیر مسلمانوں میں عیسائی قوم مسلمانوں کے ساتھ مل کر اور قریب رہا کرتے تھے۔
آیت نمبر 5:2، 5:8 کہتی ہیں کہ ایک قوم تمہیں برائی پہنچانے کی وجہ سے ان پر ظلم نہ کرو۔ مسلمانوں کو برائی پہنچانے والے بھی ہوں تو انہیں عدل پہنچانے میں انکار کرنا نہیں چاہئے۔ اس سے بڑھ کر مذہبی آ ہنگی کہیں ہوسکتا ہے؟
آیت نمبر 9:4 کہتی ہے کہ معاہدہ کر کے قاعدے سے چلنے والوں کے پاس اپنے عہد کو پورا کرو۔فوج جمع کر کے آنے والے دشمن بھی ہوں ، اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کئے ہوں تو پرانی دشمنی کو بھول کر ان سے کیا ہوا معاہدہ کو پورا کریں، کیا ایسا حکم دینا مذہبی تعصب ہو سکتا ہے؟
آیت نمبر 9:6 کہتی ہے کہ غیر مسلم اگر پناہ مانگیں تو انہیں پناہ دو۔ ایک غیر مسلم دوسروں سے تکلیف پا کر مسلمانوں کے پاس اگر پناہ مانگے تو وہ غیر مسلم ہو نے کی وجہ سے اس کو پناہ دینے سے انکار نہیں کر نا چاہئے، اس انداز سے دوسرے مذاہب والوں کو اسلام سہارا دیتا ہے۔
آیت نمبر 29:8، 31:15 وغیرہ کہتی ہیں کہ اگر والدین مسلم نا بھی ہوں تو ان لوگوں کا جو حق ہے ا س کو ادا کرنا چاہئے۔
ان آیتوں کے ساتھ اگر مندرجہ بالا آیتوں کو ملا کر دیکھاجائے تو ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ جنگ کا اعلان نہ کرنے والے غیر مسلموں سے اچھی طرح ملنساری سے رہنے کے لئے ہی اسلام کہتا ہے۔
صرف وہی نہیں بلکہ نبی کریم ؐ کی حکومت میں غیر مسلم لوگ سب طرح کے حقوق کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے۔
نبی کریم ؐ کے بڑے دشمن جو تھے ان یہودی قوم کا ایک نوجوان نبی کریم ؐ کے خادموں میں سے ایک تھا۔
(دیکھئے بخاری: 1356)
نبی کریمؐ کی حکومت میں جو یہود تھے وہ ہر طرح سے نبی کریم ؐ کو تکلیفیں پہنچا رہے تھے۔ نبی کریم ؐ کو مار دینے کی بھی تدبیریں کررہے تھے۔ دشمن ملک کو اطلاع پہنچا نے والے بھی ان میں تھے۔ دوہرے بھیس میں مسلمانونکو دھوکہ دینے والے بھی تھے۔
اس جیسی قوم کے ایک نوجوان کو نبی کریم ؐ اپنا خادم بنالیا۔ ایک قوم کے لوگ اگر دشمن بنے ہوں تو اس قوم میں رہنے والے اچھے لوگوں سے دشمنی نہیں کر نا چاہئے، اس انداز سے آپ میں انسانی چاہت بھری ہوئی تھی۔ اسی لئے دشمن کی قوم میں رہنے والے ایک شخص کواپنے خادموں میں ایک شامل کرلیا۔
نبی کریم ؐ نے اپنا زرہ بکتر ایک یہودی کے پاس گروی رکھا تھا۔ (دیکھئے بخاری: 2068،2096، 2200، 2251، 2252، 2386، 2509، 2513، 2916)
نبی کریم ؐ کی حکومت میں یہود بہت ہی قلیل تعداد میں تھے۔ ان میں سے اکثر لوگ اپنے ملک سے وفادار نہ ہوتے ہوئے نبی کریم ؐ کے دشمن ملکوں کو خبریں پہنچا کر ان کے وفادار بنے رہے۔
اپنے ملک سے وفادار نہ ہوتے ہوئے دوہرے بھیس بدل کر آنے والی قوم کو کوئی بھی ملک عزت نہیں دیتا۔ لیکن یہود کئی قسم کی تکلیفیں دینے کے باوجود وہ لوگ نبی کریم ؐ کی حکومت میں جس انداز سے احترام اور عزت سے چلائے گئے ، اس کے لئے یہ ایک سند ہے۔
ملک کے فرمانرواگروی رکھنے والے تھے، اقلیت کے قوم والے اس گروی کو رکھ لینے والے تھے۔اس سے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ نبی کریم ؐ کے دل کی وسعت کتنی تھی۔
ایک یہودی عورت نے نبی کریم ؐ کے پاس زہرآلود بکری کی گوشت بھن کر لائی تھی۔ نبی کریم ؐ نے اس کو کھالیا۔ فوراً اس کو پکڑ کا لایا گیا۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا ہم اس کو ماردیں؟ آپ نے کہا کہ نہیں۔ انسؓ کہتے ہیں کہ اس زہر کے اثر کو میں نے آپ کے منہ کے اندرونی حصہ میں دیکھا۔ (بخاری: 2617)
نبی کریم ؐ کے دشمنی اور اقلیت میں رہنے والی یہودی عورت زہر آلود بکری کی گوشت لا کر دی تو اس کو قبول کرنے کی حد تک آپ کریم النفس تھے۔ جب یہ خبرپھیلی تواس عورت کو کھینچ کر لایا گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس کو مار ڈالیں تو آپ نے منع کردیا۔
نبی کریم ؐ نے جو دین لایا تھا اس کا قانون یہ تھا کہ مجرموں کوسختی سے سزا دینا چاہئے اور ان پر رحم نہیں کرنا چاہئے۔
قانون کی کارروائی میں بالکل سختی برتنے والے نبی کریمؐ نے اپنا ذاتی معاملہ رہنے کی وجہ سے اس کو معاف کردیا۔
نبی کریم ؐ کے سامنے سے ایک لاش گزری۔ نبی کریم ؐ نے فوراً اٹھ کھڑے ہوگئے۔ ان سے کہا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کی لاش ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی تو ایک جان ہے!
(بخاری: 1311، 1313)
مرنے والے کی لاش لے جاتے وقت بیسویں صدی میں بھی فسادات برپا ہونے کوہم دیکھ رہے ہیں۔ مخالف قوم کے جسم کو ہماری گلی سے لے جانا نہیں کہہ کر ایک ہی مذہب کے لوگ مار پیٹ میں مبتلا ہو نے والوں کو ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔
وہ زندہ رہتے وقت چلنے پھر نے کے لئے اجازت دینے والے بھی اس کے مردہ جسم کووہ حق دینے کے لئے انکار کر نے کو ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔
نبی کریمؐ سلطنت کے سردار ہیں۔ ان کی دشمن قوم یہود تھے۔ یہودی یعنی اقلیتی قوم کے ایک شخص کی لاش کو نبی کریم ؐ کے سامنے ہی کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور خوف کے بغیر لے جایا جاتا ہے۔
مسلمانوں کی حکومت میں امت مسلمہ بسنے والے محلہ کے راستے سے ، مسلم حکومت کے فرمانروا بسنے والی گلی سے لاش کو لے جانے کے لئے اقلیتی قوم کو کسی قسم کی خوف نہیں تھی۔ بالکل معمولی طور سے لاش کو لئے جاتے ہیں۔
لاش گزرتے وقت دل میں نفرت لئے ہوئے، ناپسندیدہ کراہت کے ساتھ کیا نبی کریم ؐ اور مسلمانوں نے امن کو اپنایاتو ہرگز نہیں۔ بلکہ اٹھ کھڑے ہو کر اس لاش کواحترام کرنے کے ذریعے پورے دل کے ساتھ اجازت دے دیا۔
یہود خود انصاف مانگتے ہوئے نبی کریم ؐ پاس آتے تھے۔ (دیکھئے بخاری: 2412، 2417)
دوستی کی دکھاوا کر نے والے منافق بھی ظاہری طورپر جنگ کا اعلان نہ کر نے کی وجہ سے ان سے بھی مسلمان میل جول رکھتے تھے۔ اسی لئے اسلام ان لوگوں کو جیت لیا۔
اس لئے ان دلیلوں سے ہم جان سکتے ہیں کہ غیر مسلموں سے دوستی نہ رکھنا عام نہیں ہے اور غیر مسلموں سے بھی اچھی میل جول رکھنا چاہئے۔
جنگ، دہشت انگیزی اور جہاد وغیرہ کے بارے میں اور زیادہ معلومات کے لئے حاشیہ نمبر 53، 54،55، 76، 197، 198، 199، 203، 359 وغیرہ دیکھیں!
89۔ کیا دوسرے مذہب والوں کو دوست نہیں بنا سکتے؟
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode