Sidebar

Display virtual keyboard interface
15
Sat, Mar
13 New Articles

‏488۔ کیا اللہ بے شکل ہے؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏488۔ کیا اللہ بے شکل ہے؟

‏قرآن مجید کی کئی آیتوں میں اللہ کی صفات اور اللہ کی نمود کے بارے میں کہا گیا ہے۔ 

غیر مسلم سمجھتے ہیں کہ اسلام کا عقیدہ ہے کہ اللہ بے شکل ہے۔مسلمانوں میں بھی اکثراسی طرح سمجھتے ہیں۔ 

اللہ کو کسی نے دیکھا نہیں، اس لئے اس کو ایک شکل بنا کر مسلمان پرستش نہیں کر تے ، اس معنی میں اگرکہا جا ئے تواس میں کوئی غلطی نہیں۔ لیکن ‏اللہ کو ایک بے حقیقت کی معنی میں ویسا کہا گیا تو وہ قطعی غلط ہو گا۔ 

قرآن مجید کی کسی بھی آیت میں کہا نہیں گیا ہے کہ اللہ بے شکل ہے۔ نبی کریم ؐ نے بھی اپنی قول میں کبھی نہیں کہا کہ اللہ بے شکل ہے ۔ 

بلکہ اس معنی میں کہ اللہ کو شکل ہے ، بے شمار آیتیں قرآن مجید میں اور حدیثوں میں موجود ہیں۔ 

اللہ کو شکل نہیں ہے،اسلام کی یہ غلط رائے اسلام کے نام سے لوگوں میں داخل ہو جا نے کی وجہ سے لوگوں کے اندر اللہ کے بارے میں جو خوف ہو ‏ناچاہئے تھا وہ نہیں رہا۔ 

اللہ کوآنکھوں سے اوجھل ایک قوت سمجھے جا نے کی وجہ سے لوگوں کے دل میں یہ خیال جڑ پکڑ گئی کہ جو کچھ بھی نہیں ہے اس خام خیالی کو ہم کیوں ‏ڈریں۔ 

اللہ اپنے ہی موزوں شکل میں موجود ہے۔ لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ شکل کیسی ہے۔ آخرت میں اس کو دیکھنے کے بعد ہی اس کی شکل ہماری ‏آنکھوں کو دکھائی دے گی۔ مسلمان اللہ کے بارے میں اسی طرح بھروسہ کرنا چاہئے۔ 

اس کے لئے قرآن مجید میں دلیل موجود ہیں۔ 

قرآن مجید کی یہ آیتیں2:46، 2:223، 2:249، 3:77، 6:31، 6:154، 10:7، 10:11، 10:15، 10:45، 11:29، ‏‏13:2، 18:105، 18:110، 29:5، 29:23، 30:8، 32:10، 33:44، 41:54، 75:23 کہتی ہیں کہ آخرت میں ہم اللہ ‏کودیکھ سکتے ہیں۔ 

نبی کریمؐ نے بھی فرمایا ہے کہ آخرت میں اللہ کو دیکھ سکتے ہیں۔(دیکھئے ،بخاری کی حدیث: 554، 573، 806، 4581، 4851، 6574، ‏‏7434، 7435، 7436، 7438، 7440)

آخرت میں اللہ کو دیکھ سکتے ہیں ، یہ اللہ کو شکل ہے کے لئے دلیل ہے۔ شکل ایک ہے تو ہی آنکھوں سے اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ 

یہ آیتیں7:54، 10:3، 13:2، 20:5، 25:69، 32:4، 57:4 کہتی ہیں کہ اللہ عرش نامی تخت پر بیٹھا ہوا ہے۔ 

یہ آیتیں9:129، 11:7، 17:42، 21:22، 22:86، 22:116، 27:26، 40:15، 43:82، 81:20، 85:15 کہتی ‏ہیں کہ اللہ عرش نامی تخت کامالک ہے۔ 

تخت پر بیٹھنا بھی اللہ کو شکل ہے کے لئے دلیل ہے۔ اگر شکل ہی نہ ہو توعرش پر بیٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 

اس کے اختیار ات کی طرف اشارہ کر نے والا لفظ ہی تخت ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کو براہ راست معنی لینا غلط ہے۔ 

کیونکہ ان آیتوں 39:75، 40:7، 69:17میں کہا گیا ہے کہ عرش کو لادنے والے فرشتے ہیں اور عرش کے اطراف رہنے والے فرشتے اللہ ‏کی حمد کر تے ہیں۔ اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ فرشتوں سے بوجھ اٹھائے جانے والا چیز ہی عرش ہے اور اختیار کو کہنے کے لئے عرش کا لفظ ان آیتوں ‏میں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔

یہ آیت89:22 کہتی ہے کہ آخرت میں لوگوں سے دریافت کر نے کے لئے فرشتوں کی جھرمٹ میں اللہ آئے گا۔ 

قرآنی آیت 89:22میں اور اور بخاری کی حدیث 4919 میں کہا گیا ہے کہ آخرت میں اللہ کے قدموں میں گر کر مسلمان اتباع کریں گے۔ 

نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ (جہنمی) جہنم میں ڈالے جائیں گے۔جہنم پوچھے گا کہ کیا اور بھی ہے۔ آخر میں اللہ اپنا قدم (اس میں) رکھے گا۔ اس وقت وہ ‏بس بس کہے گا۔ اس کو بخاری کی ان حدیثوں 4848، 4849میں کہا گیا ہے۔

اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اللہ کو پاؤں ہیں۔ 

آخرت میں فیصلہ سنا نے کے بعد حکم ہو گا کہ ہر آدمی جنہیں عبادت کر تے تھے ان کے ساتھ چلو۔ ان کے ساتھ چل کر وہ جہنم میں گریں گے۔ ‏صرف اللہ کی عبادت کر نے والے اپنے معبود اللہ کی انتظارمیں رہیں گے۔ تب اللہ انکے پاس آئیگا۔ نبی کریم ؐ کافرمان شدہ یہ اطلاع بخاری کی حدیث ‏‏806، 7440میں کہا گیا ہے۔ 

نبی کریم ؐنے فرمایا کہ آخرت میں اللہ بعض لوگوں کو قریب میں بلا کر رازسے بات کرے گا۔ان کے ہر گناہ کو دکھا کر اللہ پوچھے گا کہ کیا تم نے ایسا ‏کیا؟ وہ لوگ ہاں کہیں گے۔ اس طرح وہ ہر گناہ کو ماننے کے بعد اللہ کہے گا کہ جس طرح میں نے دنیا میں تمہاری گناہوں کو چھپایا تھایہاں بھی چھپا دیا ‏اور معاف بھی کردیا۔ 

دیکھئے: بخاری:4685)

اللہ کو شکل ہے ، اس کے لئے یہ بھی ایک سند ہے۔ 

دنیا کو مٹاتے وقت آسمان و زمین اللہ کی بند مٹھی میں ہوگی۔ اس کو اللہ نے آیت نمبر 39:67میں فرمایا ہے۔ نبی کریم ؐ نے اشارے سے تشریح کیا ‏تھا کہ اللہ نے اپنی مٹھی میں کیسے بند کرے گا۔ اس کو مسلم کی حدیث نمبر 5371اور 5372 میں کہا گیا ہے۔ 

بخاری کی حدیث 6614 میں کہا گیا ہے کہ تورات کو اللہ نے اپنی ہاتھوں سے لکھ کر موسیٰ نبی کو عطا کیا تھا۔

نبی کریم ؐنے فرمایا کہ قیامت کے دن یہ زمین اللہ کے ہاتھوں میں ایک روٹی کی طرح دب جائے گی۔اس کو بخاری کی اس حدیث 6520میں کہا گیا ‏ہے۔ 

مسلم کی حدیث 3731 کہتی ہے کہ مومن اللہ کے دائیں ہاتھ کی طرف ہوں گے۔ 

اس آیت 38:75 میں اللہ کہتا ہے کہ پہلے انسان آدم کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا۔ 

نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ اللہ نے (پہلے انسان) آدم کو اپنی ہی شکل میں پیدا کیا۔

ابوہریرہؓ 

بخاری: 6227

اگر اللہ کو کوئی شکل نہ ہوتا تووہ نہیں کہتا کہ آدم کو اپنی ہی صورت میں پیدا کیا۔ بے شکل کو کوئی مشابہت نہیں ہوتی۔ 

اسی طرح اللہ کو دو ہاتھیں موجود ہیں کہہ کر بے شمار دلیلیں کہتی ہیں۔ 

دجال خود کو اللہ کہے گا ۔ لیکن اس کی ایک آنکھ معذور ہوگی۔ نبی کریم ؐ نے کہا تھا کہ اس کی باتوں پر بھروسہ نہ کرو۔ تمہارے رب کی آنکھ معذور ‏نہیں ہیں۔ (دیکھئے: بخاری کی حدیث: 3057، 3337، 3440، 4403، 6173، 7127، 7131، 7407)

اس سے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ اللہ کو آنکھیں ہیں۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ اللہ آخرت میں ہنسے گا۔ اس کو بخاری کی یہ حدیثیں 7437، 3798، 6573کہتی ہیں۔ 

یہ آیتیں2:253، 4:164، 7:143، 7:144 کہتی ہیں کہ اللہ نے موسی نبی سے بات کی۔

اللہ کو منہ ہے، اس کے لئے یہ سند ہے۔ 

کئی آیتیں کہتی ہیں کہ اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ 

یہ سب آیتیں اس بات کی دلیلیں ہیں کہ اللہ کو کان اور آنکھیں ہیں۔ 

اس طرح بے شمار دلیلیں رہنے کے باوجود بعض لوگ اس کو دوسری قسم کی وضاحت کر تے ہیں۔ 

وہ کہتے ہیں کہ اگر کہا جا ئے دائیں ہا تھ تواس کا مطلب ہو گا دائیں ہا تھ کی طرح اہمیت رکھنے والا۔ اگر کہے کہ وہ میری آنکھ ہیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ ‏وہ مجھے آنکھ کی طرح ہیں۔ اسی طرح ہی اللہ کے بارے میں کہی گئی صفات کے متعلق بھی ہمیں سمجھ لینا چاہئے۔

یہ ان لوگوں کی لاعلمی کو ظاہر کر تی ہے۔ عام طور پر کسی بھی لفظ کو اس کی براہ راست معنی ہی لینا چاہئے۔ اگر براہ راست معنی نہیں دے سکتے تو اسی ‏وقت اس کو دوسرا معنی دیا جا سکتا ہے۔اوپر دئے گئے مثالوں میں ایک دوسرے کی ہاتھ یا آنکھ بن نہیں سکتا ، اس لئے اس کو دوسرا معنی دیا جاتا ہے۔ 

لیکن وہ ہاتھوں سے کھایا، اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا، آنکھوں کا علاج کیا، آنکھ کھل گئی وغیرہ ہزاروں الفاظ کو براہ راست معنی ہی میں ہم سمجھتے ہیں۔ 

اسی طرح اللہ کے بارے میں کہتے وقت جس جگہ میں براہ راست معنی نہیں لے سکتے صرف اسی جگہ پر دوسرے معنی دے سکتے ہیں۔ ایسی جگہ ‏بہت کم ہے۔ 

ایسی جگہوں کو حاشیہ نمبر 61 میں واضح کر چکے ہیں۔ 

براہ راست معنی نہ لینے کی اس جگہ کے سوا دوسرے مقامات پر براہ راست معنی ہی میں سمجھنا چاہئے۔ 

اللہ کو شکل نہیں ہے کہنے والوں کا ایک ہی دلیل ایسی آیتیں ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اللہ کی طرح کوئی نہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اللہ کو شکل ‏ہے کہا گیا تو وہ ان آیتوں کے خلاف ہو جا ئے گا کہ جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ کی طرح کوئی نہیں۔ 

یہ دعویٰ تو دانشمندوں سے قطعی طورپر جھٹلائے جانے والا دعویٰ ہے۔

اللہ کی تخلیق میں شکل و صورت والی بھی ہیں، 

بغیر شکل والی کی بھی ہیں۔ 

ہوا، روشنی، برقی قوت، گرمی اورسرد وغیرہ بے شکل ہیں۔

اگر کہا جا ئے کہ اللہ کو شکل ہے تو وہ مخلوق کے برابر ہو جائے گا، اس دعوے کے مطابق اگر دیکھا گیا تو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اللہ کو شکل نہیں ہے۔ ‏اگر ایسا کہا گیا تو بے شکل چیزوں کو اللہ کے ساتھ موازنہ کر نا ہوجا ئے گا۔ 

اسی سے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ ان کا دعویٰ کتنا مہمل ہے۔ 

اگر کہا جائے کہ اللہ کو شکل ہے، لیکن وہ مخلوق کی طرح نہیں ہے تواس میں کوئی الجھن نہیں ہوگا اور سب واضح ہو جائے گا۔ 

ہم یہی کہہ رہے ہیں۔

اس کے جیسا کوئی نہیں۔ 

قرآن مجید، 42:1 

‏(اے محمد! کہدو کہ)اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ (اس نے) کسی کو جنا نہیں، (کسی سے)جنا نہیں گیا۔اس کے برابر کوئی نہیں۔

قرآن مجید، 112:4

ان آیتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ،اللہ جیساکوئی نہیں پر یقین کر تے ہوئے، ایسی ایک شکل میں جو کسی کا ہمسر نہیں وہ موجودہے سمجھنا ہی ٹھیک ‏ایمان ہوگا۔ قرآن مجید اور احادیث سے ہمیں یہی وضاحت ملتی ہے۔ 

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Display virtual keyboard interface
Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account

x
x
x

Create an account* Required field


x