Sidebar

15
Sat, Mar
22 New Articles

‏487۔ کیا اسقاط حمل بچے کا قتل ہوگا؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏487۔ کیا اسقاط حمل بچے کا قتل ہوگا؟

‏ان آیتوں 6:140، 6:151، 17:31، 60:12، 81:8,9میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو قتل نہ کرو۔ 

اس زمانے کے گنوار عربوں کے پاس یہ عادت تھی کہ غریبی سے ڈر کراور لڑکی پیدا ہونا حقیر سمجھ کر بچیوں کو قتل کر دیا کرتے تھے۔ اسلام نے ‏اس آیت کے ذریعے یہ کہہ کرتنبیہ کی کہ وہ بہت سخت گناہ ہے۔اس طرح اس رواج کو ختم ہی کرڈالا۔

بچیوں کو قتل نہ کریں، اس کابراہ راست مطلب یہی ہے۔ 

بچوں کو قتل نہ کریں ، اس آیت کے نازل کے وقت اسقاط حمل کا نکتہ انکشاف نہیں ہوا تھا۔ بچہ پیدا ہو نے کے بعد قتل کر نا ہی ان کی عادت تھی۔ یہ ‏آیت اسی کی طرف اشارہ کر تی ہے۔ 

اب اس جدید زمانے میں حمل ہی میں بچوں کو قتل کر نے کی عادت بڑھتی جا رہی ہے۔ 

حمل میں رہنے والے بچے کو مار دینا کیا قتل کہلایا جائے گا؟ اس کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ اس کو ہم جان لینا چاہئے۔

اسلام کے نظریہ سے روح دو طرح سے تقسیم کیا گیا ہے۔ جسمانی حرکات کے لئے ایک قسم کی روح اوراحساسات کی حرکات کے لئے دوسری قسم ‏کی روح۔ 

جب حمل میں جنین پیدا ہو نے لگتا ہے تو اس وقت سے لے کر وہ ترقی پا تے جاتا ہے۔ پہلے دن کے حمل کو بھی جان ہے اور نو ماہ کے ترقی پائے ہو ‏ئے جنین کو بھی جان ہے۔ حمل میں رہنے والے جنین کوجان رہنے کی وجہ ہی سے وہ بڑھتی جارہی ہے، اور مختلف حالات کو پہنچتی جاتی ہے۔ 

اس انداز سے دیکھا گیا تو معلوم ہو تا ہے کہ ایک دن کا حمل بھی ہو تو اس کو مٹانا قتل میں ہی جمع ہوگا۔ 

لیکن نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ 120 ویں دن میں ہی روح پھونکا جا تا ہے۔ (دیکھئے بخاری: 3208، 3332، 6594، 7454)

یعنی 120ویں دن سے پہلے جنین کو جان رہتے وقت نبی کریم ؐ فرماتے ہیں کہ 120ویں دن میں روح پھونکا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ ‏ایک اور قسم کی جان ہے۔ 

اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ 120دن کے پہلے تک ترقی پانے کی جان ہی اس حمل میں رہی ہے، اور 120ویں دن ہی میں انسان کے لئے روح ‏پھونکا جا تا ہے۔ 

‏(دو قسم کی جان ہیں، اس کو اور زیادہ دلیلوں کے ساتھ جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 486دیکھئے!)

‏120ویں دن ہی میں روح پھونکا جا تا ہے تو معلوم ہو تا ہے کہ اس سے پہلے وہ انسانی حمل نہیں رہا۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ 120ویں دن کے ‏پہلے کی حمل کو مٹایاجائے تو وہ بچہ کو قتل کر نے کا جرم نہیں ہوگا۔ 

کنڈوم وغیرہ استعمال کر تے وقت منی میں موجود لاکھو ں تعداد کے خلیہ کو بچہ بننے سے ہم روکتے ہیں۔ یہ بچوں کو قتل کر نا نہیں ہوگا۔اسی طرح اس ‏کے بعد کے تین حالاتوں میں ترقی پاتے وقت بھی حمل کو ضائع کر نا بچے کو قتل کر نا نہیں ہوگا۔ 

‏120دن ترقی پانے والے حمل کو ضائع کر نے سے وہ قتل کے جرم میں جمع ہو گا۔ اس سے پہلے کی حالت میں حمل کو مٹا دینے سے وہ بچہ کو قتل کر ‏نے کا جرم نہیں ہوگا۔

تاہم حمل کو سہنے والی عورت کو وہ نقصان پہنچانے کی وجہ سے وہ اس جرم میں جمع ہو جا ئے گا۔ 

دین میں روکا گیا ہے کہ خود کو نقصان پہنچانے والا کام نہیں کر نا چاہئے۔ سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ تشکیل پائے ہوئے بچے کو ضائع کر نا ‏عورت کو بہت نقصان پہنچائے گا۔اس انداز سے 120دنوں کے پہلے کی حمل کو مٹانا بھی ممانعت ہے۔ وہ بچے کو قتل کر نے کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ماں ‏کی صحت کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے اس کو کر نا نہیں۔

جان کوآفت یا ماں کی صحت کواثر کر نے والی ہو تو بڑی نقصان سے بچنے کے لئے چھوٹی نقصان کو اختیار کر سکتے ہیں، اس بنیاد پر وہ گناہ نہیں کہلائے ‏گا۔ 

اس کے بارے میں اور زیادہ جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 296، 314، 486وغیرہ دیکھیں!

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account