44-کیا چاند کے دیکھنے میں اختلاف رائے ٹھیک ہے؟
آیت نمبر 2:185 میںیہ کہنے کے بجائے کہ ’’ماہ رمضان آجائے تو روزہ رکھنا چاہئے‘‘ ، اس طرح کہا گیا ہے کہ ’’جوماہ رمضان پائے وہ روزہ رکھے۔‘‘عام طور سے ماہ شروع ہونے کے بارے میں اس طرح کوئی نہیں کہتا۔ قرآن مجیدایک خاص وجہ ہی سے دستور کے خلاف ایک جملے کو اس جگہ میں استعمال کیا ہے۔
ہلال کے متعلق یہ آیت ایک اہم سند ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے۔انسانی جملوں میں پائے جانے والی غلطیاں اللہ کے جملوں میں نہیں ہوگا، ہو بھی نہیں سکتا۔
ہر مسلم کا پکا عقیدہ ہے کہ اس میں ایک حرف بھی بے ضرورت نہیں ہوسکتا۔ اس عقیدے کو دل میں پیوست کر تے ہوئے اس آیت کی تحقیق کرتے ہیں۔
تم میں سے جو کوئی ماہ رمضان پائے وہ ماہ رمضان کے روزے رکھنا فرض ہے۔
اس آیت میں تم میں سے جوکوئی اس ماہ کو پائے کے جملے کے بغیر ہی رمضان میں روزے رکھنا فرض ہے کا مفہوم ملجا تا ہے۔
اگر ایسا ہو تو اس جملے کا فائدہ کیا ہے؟ مروجہ طریق کار میں اس جیسا جملہ کوئی بھی استعمال نہیں کرتا۔
ف
من
شہد
من
کم
ال
شہر
(اس لئے تم میں سے جو کوئی اس ماہ کو پائے)ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سات الفاظ ضرورت سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔کیا یہ الفاظ کوئی فائدے کے بغیر ، کچھ بھی مطالب کے بغیر بے کار استعمال ہوا ہے؟ ہر گز ایسا نہیں ہے۔ اللہ کی کتاب میں کوئی لفظ بغیر معنی کے نہیں ہے۔
اس جملے کے ساتھ کہ رمضان کے مہینے میں روزے فرض ہیں، کوئی اور خبر دینے ہی کے لئے اللہ نے ان لفظوں کو استعمال کیا ہوگا۔ کیونکہ بے ضرورت باتوں کو استعمال کر نیسے اللہ پاک ہے۔
تم میں سے جو کوئی اس ماہ کو پائے، اس جملے میں اللہ کیا کہناچاہتا ہے، آؤ تحقیق کریں۔
اس کو سمجھنے کے لئے اسی جیسے انداز میں استعمال کئے گئے جملوں کو ایک نمونے کے طور پر دیکھیں۔ اس سے پہلے کی آیت بھی اسی انداز سے کہا گیا ہے۔ اسی کو لے لیں۔
اے ایمان والو! تم (اللہ سے) ڈرنے کے لئے تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں پر جس طرح فرض کیا گیا تھا تم پر بھی مخصوص دنوں میں روزہ فرض کیا گیا ہے۔ تم میں جو مریض ہیں، یا سفر میں ہیں،وہ دوسرے دنوں میں گنتی کرلیں۔ اس کی طاقت رکھنے والے ایک غریب کو کھانا کھلانا اس کا کفارہ ہے۔ مزید نیکی کرنے والوں کو وہ اچھاہے۔
اگر تم جانو تو روزہ رکھنا ہی بہتر ہے۔
قرآن مجید 2:184
اس آیت میں اللہ کہتا ہے کہ تم میں جو مریض ہیں یا سفر میں ہیں ، وہ لوگ دوسرے دنوں میں روزہ رکھ لیں۔
تم میں جو مریض ہیں کے جملے میں تم میں صحتمند بھی ہیں کا مطلب نکلتا ہے۔ اگر سب لوگ مریض ہیں توکہہ نہیں سکتے کہ تم میں جو مریض ہیں ۔
اس آیت کو جس طرح سمجھ لیتے ہیں اسی طرح جس نے اس ماہ کو پایا کے جملے کو بھی سمجھ لینا چاہئے۔ کیونکہ دونوں ہی جملے ایک ہی انداز سے کہا گیا ہے۔
تم میں جو اس ماہ کو پاتے ہیں کا مطلب ہے کہ ااس ماہ کو پانے والے بھی ہوں گے اور نہ پانے والے بھی ہوں گے۔
اس آیت ہی میں نہیں بلکہ قرآن میں جن آیتوں میں بھی جس نے پایا اور جو گیا کا استعمال ہوا ہے ان تمام مقامات کو بھی اسی طرح سمجھ لینا چاہئے۔
سیدھی راہ پانے والے، نہ پانے والے جب دو گروہ ہوتے ہیں تو اس وقت ہی کہا جائے گا کہ جس نے میری راہ کی پیروی کی، 2:38۔
جب حج کو اختیار کر نے والے اور حج کو اختیار نہیں کر نے والے ہوتے ہیں تو اس وقت ہی کہا جائے گا کہ جس نے حج کو اختیار کیا 2:197۔
قربانی کے جانورکو حاصل کر نے والے، قربانی کے جانور کو حاصل نہیں کرنے والے ہوتے ہیں تو اس وقت ہی کہا جائے گا کہ جس نے قربانی کے جانور نہ حاصل کیا 2:196۔
اس انداز میں اور بھی کئی جملے قرآن اور احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ انسانوں کے بات چیت میں بھی اس طرح کے الفاظ استعمال کیا جا تا ہے۔
انسانوں سے کہہ سکتے ہیں کہ تم میں جو جھوٹ نہیں بولتا اس کو میں انعام دوں گا ۔ لیکن فرشتوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم میں جو جھوٹ نہیں بولتا اس کو میں انعام دوں گا۔ اگر ایسا کہا جائے تو اس کا یہ مطلب ہو جا ئیگا کہ فرشتوں میں جھوٹ بولنے والے بھی ہیں۔
اسی بنیاد پر مندرجہ آیت کوبھی جانچنا ہے۔
* اس ماہ کو اگر کوئی پایا ہو تو دوسرے اس کو پائے نہیں ہوں گے۔
* ایکہوتو ہی جس نے رمضان پایا ، کہہ سکتے ہیں۔
فرض کر لو کہ سب لوگ ایک ہی وقت میں رمضان پالیا۔ سب لوگ جب رمضان پایا ہے تو تم میں جس نے رمضان پایا کہنا بے جا لفظوں کا استعمال ہوجا ئے گا۔
بعض لوگوں نے وضاحت کی ہے کہ مرجانے والے رمضان پائیں گے نہیں، جو زندہ ہیں وہی تو رمضان کو پائیں گے؟ اس کو اللہ بھی کہہ سکتا تھا؟ یہ نا قابل قبول وضاحت ہے۔کیونکہ قرآن زندوں سے ہی کلام کر تا ہے۔ وہ تو زندے کو تنبیہ کر نے کے لئے نازل کیا گیا ہے۔
تم میں سے جو مخاطب کیا گیا ہے وہ زندوں کو دیکھ کر ہی ہے۔ زندوں ہی میں رمضان پائے ہوئے لوگ بھی ہیں اور نا پائے ہوئے لوگ بھی ہیں۔
صرف روزہ ہی نہیں بلکہ قرآن مجید کا سب احکام زندہ رہنے والوں کے ہی حق میں ہے۔ اللہ جو باریک بین ہے کیا ایسا کہے گا کہ تم میں جو زندہ ہیں وہ روزہ رکھے اور جو مر گئے انہیں روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں؟
اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں زندہ جو ہیں ان میں سے رمضان پائے ہوئے لوگ بھی ہوں گے اور نا پائے ہوئے لوگ بھی ہوں گے۔ جو پاگئے انہیں روزہ رکھنا چاہئے اور جو نہیں پائے وہ جب پائیں گے اس وقت روزہ رکھنا چاہئے۔
ایک شخص رمضان پایا ہوا ہے تو کیا دوسرا نہیں پایا ہوگا؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ایسے سوال سائنس کے دور کے پہلے پوچھ سکتے تھے۔ اس وقت پوچھ سکتے تھے جبکہ لوگ سمجھتے تھے کہ دنیا چپٹی ہے۔ ایسے سوال آج نہیں پوچھ سکتے۔
کیونکہ دنیا کے سب لوگ ایک ہی وقت میں یا ایک ہی دن میں رمضان پا نہیں سکتے۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ ہلا ل دیکھ کر ہی مہینے کی پہلی تاریخ کا فیصلہ کر نا ہے۔ (دیکھئے بخاری : 1906، 1909)
آسمان میں نکلے ہوئے ہلال کو آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ہم پہلا چاندکہتے ہیں ۔ہلال آنکھوں میں دکھنے کے لئے کئی چیزیں ایک ساتھ شامل ہونا چاہئے۔
* ہلال پیدا ہو کر کم از کم پندرہ یا بیس گھنٹہ تو ہونا چاہئے۔ اس سے کم وقت کی ہلال کو آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔
* سورج ڈوبنے کے بعد ہلال بھی غائب ہوجانا چاہئے۔ سورج غائب ہو نے سے پہلے ہلال غائب ہو جائے تو ہلال آسمان میں رہنے کے باوجود اسے دیکھنے سے سورج کی شعائیں روک دیتی ہیں۔
* بادل کے بغیر آسمان صاف ہو نا چاہئے۔ باریک سی بادل بھی پہلی ہلال کو چھپا دے گی۔
* سورج غروب ہو نے کے بیس یا تیس منٹ کے بعد ہی ہلال غائب ہو نا چاہئے۔ کیونکہ سورج غروب ہو کر اس کی روشنی افق میں ہو تو اس روشنی سے آگے ہلال ہماری آنکھوں کو دکھائی نہیں دے گا۔
* دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کوئی کمی نہ ہونی چاہئے۔ ورنہ چھوٹی سی سفید بادل کو بھی وہ ہلال سمجھ جائیں گے۔
اس جیسے کئی وجوہات ایک ساتھ جمع ہونے سے ہی ہلال کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔
ایک بستی والے جب ہلال کی عمرچودہ گھنٹے ہو تو سورج غروب ہونے کے وقت کو پاتے ہیں۔ ان کے بستی کے سیدھ میں ہلال ہو توبھی ٹھیک وقت پر نہ پہنچنے کی وجہ سے وہ ان کی آنکھوں کو دکھائی نہیں دے گا۔
مثال کے طور پر سنگاپور میں رہنے والے جب سورج کے غروب ہونے کے وقت کو پاتے ہیں ،ہلال کی عمر چودہ گھنٹے ہو تو وہ ان کی آنکھوں کو دکھائی نہیں دے گی۔
چینئی سے سنگاپور اڈھائی گھنٹے آگے ہے۔ اس لئے چینئی میں رہنے والے اڈھائی گھنٹے بعد ہی سورج غروب ہو نے کے وقت کو پائیں گے۔ اس اڈھائی گھنٹے کے عرصہ میں ہلال کی عمر بھی اڈھائی گھنٹے زیادہ ہوجائے گی۔ یعنی 16.30گھنٹے کی عمر کو ہلال حاصل کر لے گی۔ یہ آنکھوں سے دیکھنے کا پیمانہ ہے۔
سورج غروب ہو نے کے ساتھ شام کے چھ بجے ہم چینئی میں پہلی چاند کو دیکھتے ہیں۔ اس طرح ہم چاند دیکھتے وقت سنگاپور میں رات کے ساڑھ آٹھ بجے ہوگا۔
ہم ہلال دیکھ لینے کی وجہ سے ہم نے رمضان پالیا۔ سنگاپور کے باشندے ہلال دیکھے بغیرہلال دیکھنے کا وقت کے گزر جانے کی وجہ سے وہ لوگ رمضان کو نہیں پائے۔ دوسرے دن ہی وہ لوگ ہلال دیکھ سکتے ہیں۔ اس لئے دوسرے دن ہی وہ لوگ رمضان کو پائیں گے۔ اس طرح دو بستی والے بھی ایک کے بعد ایک دن ہی رمضان کو پائیں گے۔
اگر کوئی یہ دعویٰ کر ے کہ چینئی میں ہلال دیکھنے کی وجہ سے سنگاپور ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں رمضان پیدا ہوگیا تو وہ لوگ اس آیت کی معانی کو جھٹلانے والے ہوں گے۔
کیونکہ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ سب لوگ ایک ہی وقت میں رمضان کوپاگئے۔ اللہ کی بات’’ جس نے پایا‘‘ وہ بے معانی ہوجائے گا۔
* اس دعوے کو یہ آیت یکسر جھٹلاتی ہے کہ دنیا کے ایک حصہ میں ہلال دکھائی دے تو دنیا بھر کو رمضان آگیا ۔
* اس دعوے کو بھی یہ آیت یکسر جھٹلاتی ہے کہ دنیا کے ایک حصہ میں ہلال دکھائی دینے کی خبر ملی تو دنیا بھر کو رمضان آگیا۔
* اندازہ لگایا جاتا ہے کہ دنیا کے کسی ایک حصہ میں آج ہلال دکھائی دے گا۔ اس طرح اگر اندازہ لگا یا جائے کہ وہ اس حصہ تک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو بھی پہلا چاند ہوگا، اس دعوے کو بھی یہ آیت یکسر جھٹلاتی ہے۔
قرآن مجید کی رائے ہے کہ ایک ہی وقت میں سب لوگ اس ماہ کو پا نہیں سکتے۔
بعض لوگ دعویٰ کر تے ہیں کہ دنیا میں ایک ہی چاند ہے۔ اس لئے دنیا میں وہ کہیں بھی پیدا ہو جائے تواس کا مطلب ہے کہ ساری دنیا کے لئے بھی وہ پیدا ہوگئی۔اس لئے اگر وہ سعودی میں دکھائی دی یا اندازہ لگا کر کہہ دیا جائے کہ آج پہلی چاند ہے تو اس کو ساری دنیا مان لینی چاہئے، ورنہ دنیا بھر کو ایک ہی چاند کہنا معطل ہوجائے گا۔
فلکیاتی علم نہ رکھنے والوں کو یہ بہت بڑی سائنسی حقیقت اور دانشمندانہ دعویٰ جیسامعلوم پڑے گا۔
لیکن اس پر غور کریں تو اس سے زیادہ بیہودہ دعویٰ دوسرا کچھ ہو نہیں سکتا۔ اس میں کوئی سائنس نہیں ہے اور نا ہی دانشمندانہ دعویٰ۔
دنیا میں ایک ہی چاند ہے، اس میں کسی کو کوئی شک نہیں۔ جیسے چاند دنیا بھر کے لئے ایک ہی ہے اسی طرح سورج بھی دنیا بھر کے لئے ایک ہی ہے۔
جیسا کہ چاند ہمیں وقت کی نشاندہی کر تا ہے اسی طرح سورج بھی ہمیں وقت کی نشاندہی کرتا ہے۔
وہی صبح کا وقت پیدا کر نے والا ہے، رات کو سکون کے لئے بنایا، سورج اور چاند کووقت دکھانے والا بنایا، یہ زبردست، علم والے کا انتظام ہے۔ قرآن: 6:96)
سورج ہمیں رات اور دن کو دکھلاتا ہے۔ صبح، شام اور دوپہر کے وقت بھی دکھلاتا ہے۔ وہ کیسے دکھلاتا ہے؟ ہماری بستی سے وہ جس زاویہ میں ہے ، وہی وقت کی نشاندہی کرتا ہے، اس کے سوا سورج خود وقت نہیں دکھا ئے گا۔
ہمارے سر کے اوپر سیدھے 0 ڈگری پر ہوگا تو وہ دوپہر ہوگا۔
ہمارے سر سے مشرق کی طرف 90 ڈگری پر ہوگا تو ا س کو ہم صبح سویرے کہتے ہیں۔
ہمارے سر سے مغرب کی طرف 90 ڈگری پر ہو گا تو اس کو ہم رات کی شروعات کہتے ہیں۔
یعنی کہ سورج اور اس کا زاویہ مل کر ہی وقت کہلاتا ہے۔
سورج جب ہمارے سر کے اوپر ہوتوہمارے مشرق کی طرف 90 ڈگری میں رہنے والوں کے نظرسے وہ غائب ہو تے ہوئے دکھائی دے گا۔ یعنی کہ وہ لوگ رات کی ابتدا کو پائیں گے۔
ہمارے سر کے اوپر موجود یہی سورج ہمارے مغرب کی طرف 90 ڈگری میں بسنے والے لوگوں کو ابھی ابھی طلوع ہوتے ہوئے نظر آئے گا۔
دنیا بھر کے لئے ایک ہی سورج ہے۔لیکن وہ ہمیں جب دوپہر دکھا تا ہے تو بعض لوگوں کو وہ صبح کا وقت دکھا ئے گا۔اور بعض لوگوں کو سر شام دکھائے گا۔
ہمیں جب وہ دوپہر دکھاتا ہے تو آدھی دنیا کو وہ بالکل غائب ہو کر رات کا وقت دکھلاتا ہوگا۔
مجھے جب دوپہر کا وقت ہے تو ساری دنیا کو بھی وہ دوپہر کا وقت ہی ہے، اس طرح اگر کوئی حجت کر ے گا تو اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہوگا۔
ہمارا ایک دوست سعودی میں ہے۔ چینئی میں سورج ڈوبنے کے ساتھ ہمیں روزہ کھولنا ہے۔ ہمارے سعودی دوست کو فون کر کے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سورج ڈوب گیا ہے،
اب تم روزہ کھول سکتے ہو۔ ہم کہے بھی تو وہ سنے گا نہیں۔کیونکہ ہم جب روزہ کھولتے ہیں تواسی وقت وہ عصر نماز پڑھا ہوگا۔ سورج ڈوبنے کے لئے اس کو اور اڈھائی گھنٹہ انتظار کر نا پڑے گا۔
اسی طرح چاند بھی وقت دکھاتا ہے۔
سعودی میں نظر آنے والا چاند دنیا چھوڑ کر کہیں جا کر چھپ نہیں جائے گا۔ سورج کی طرح ہر ایک لمحہ زمین کو گردش کرتے ہوئے ساری دنیا کو دکھائی دینے کے لئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔وہ چاند ہمارے سر کے سیدھے جب آئے گااس وقت ہی وہ ہمیں وقت دکھلاتا ہے۔
سورج وقت دکھا تا ہے تو سورج اور ہمارے حصہ میں اس کی موجودہ زاویہ بھی مل کر ہی ہمیں وقت دکھا تا ہے۔
چاند وقت دکھا تا ہے توچاند اور ہمارے حصہ میں اس کی موجودہ زاویہ بھی مل کر ہی ہمیں وقت دکھا تا ہے۔
اس علمی حکمت کو نہ جاننے کی وجہ سے علمی نقاب پہنے ہوئے بعض اشخاص اپنی بے وقوفی کی بکواس کو یہ کہہ کر گمراہ کر رہے ہیں کہ دنیا بھر میں ایک ہی ہلال ہے۔
یہ آیت نہیں کہتی کہ پہلے ہلال کوکس طرح فیصلہ کیا جائے ، بلکہ یہ کہتی ہے کہ کیسے فیصلہ نہ کرنا چاہئے ۔ اور یہ بھی اعلان کر تی ہے کہ وہ رائے قابل قبول نہیں ہے کہ دنیا بھرمیں ایک ہی عیدہو۔
بعض لوگ کہتے ہیں ،اس کا مطلب یہی ہے کہ جو اس ماہ کاگواہ ہے وہ روزہ رکھے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شَہِدَ کو جیساپایا کا مطلب ہے اسی طرح گواہی دیا کا مطلب بھی ہے۔لیکن اس آیت کو اس طرح معانی نہیں دے سکتے، معانی دینا بھی نہیں چاہئے۔
کئی معانی والے الفاظ ہر زبان میں موجود ہے۔ اس لئے ان معنوں میں ہماری پسندکی کوئی بھی معنا نہیں لے سکتے۔ وہ لفظ جہاں استعمال ہوا ہے اس جگہ کو اور جو معنی مناسب ہے اس کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر معانی دینا چاہئے۔
اگر اس کو یہ معانی دیں کہ جو گواہ ہیں وہ روزہ رکھے تو بستی میں صرف چار پانچ لوگ ہی روزہ رکھیں گے۔ کیونکہ بستی میں رہنے والے سب لوگ ہلال دیکھنے کی گواہی نہیں دے سکتے، اور سب لوگ ہلال دیکھ بھی نہیں سکتے۔ اس لئے اگر اس کو یہ معنی لیں کہ جو گواہ ہیں توایسی مخالفانہ رائے پیدا ہو سکتی ہے کہ 99 فیصد لوگ روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔
اس لئے اس آیت پر غور کریں تو ہمیں واضح ہو جائے گا کہ سب لوگ ایک ہی دن میں رمضان کو حاصل کرنے والی رائے کا ہر دعویٰ غلط ہے ۔
44-کیا چاند کے دیکھنے میں اختلاف رائے ٹھیک ہے؟
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode