43۔ اسلامی جرمیاتی قوانین
ان آیتوں میں (2:178-179، 5:33، 5:38، 5:45، 17:33، 24:2، 24:4)اسلامی جرمیاتی قوانین کہا گیا ہے۔ مجرموں کو سخت سزا دینے کے لحاظ سے یہ قوانین بنائے گئے ہیں۔
غیر مسلم اسلام کے خلاف جو تنقید کر رہے ہیں ان میں سے ایک یہ قوانین بھی ہیں۔ وہ لوگ اسطرح تنقید کرتے ہیں کہ اسلامی جرمیاتی قوانین بہت ہی ظالمانہ ہے اور انسانیت کے خلاف ہے۔
غیر جانبداری سے غور کر نے والے سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی جرمیاتی قوانین انسانیت کے لئے بے حد فائدہ مند قوانین ہیں۔
یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ مجرم سزا پانا چاہئے۔ اگر اس کو جان گئے تو ہی ہم کوئی ٹھیک فیصلہ کر سکتے ہیں۔قاتلوں کو قتل کر نے سے مقتول کی جان واپس نہیں آسکتی۔ عصمت دری کر نے والے کو سزائے موت دینے سے عصمت واپس نہیں مل سکتی۔ معاش کے معاملے میں ہوسکتا ہے چوری گئی ہوئی مال واپس مل بھی جائے، لیکن پھر بھی اکثر جرائم میں مجرم کو سزا دینے سے مصیبت زدہ کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اس سے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ جو کھو گیا اس کو چھڑانا مقصد نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تو مجرموں کو سزا دینے کی ضرورت کیا ہے؟
1۔ مجرم کو اس لئے سزا دی جاتی ہے کہ بار بارجرم کرنے سے اس کو روکا جائے۔
2۔ ایک مجرم کوملنے والی سزاکو دیکھ کر دوسرے لوگ جرم کر نے سے ڈریں۔
3۔ مجرم کے ذریعے نقصان پایا ہوا شخص یہ سمجھے کہ اس کو انصاف مل گیا۔ اس سے دل مطمئن ہو جانا چاہئے۔
مجرمین سزا بھگتنے کے لئے یہ تین وجوہات کے سوا اور کوئی وجہ نہیں ہوسکتا۔
دنیا بھر میں قید خانے، پولس تھانے اور عدالتیں اس لئے تشکیل پائی ہیں کہ جرم کر نے والے پھر سے جرم نہ کر بیٹھیں، جرم کرنے کا ارادہ کر نے والے اس کے قریب نہ جانے پائیں۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت نہیں کہتی کہ مجرموں کو کسی قسم کی سزا نہ دیا جائے۔
لیکن دنیا کے اکثرملکوں میں نافذ کئے ہوئے جرمیاتی قوانین سے جرم کم نہیں کر سکے۔
صرف وہی نہیں بلکہ مجرموں کو قید خانوں میں جو سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں اس سے جرم اور بھی بڑھنے کا امکان ہے۔
جرم کو انسداد کر نے والے قوانین ہی جب جرم کر نے اکساتا ہے تو کیا حال ہوگا؟
چوری، عصمت دری، قتل، ڈاکہ زنی وغیرہ جرائم میں مبتلا ہو نے والے سماجی دشمنوں کو کیا سزا دی جا تی ہے؟ چند ماہ یا چند سال قیدخانے کی سزا ۔ اکثر ممالک میں یہی سزا کی میعاد ہے۔
قید خانے کی سزا کیا ہے؟ باہر نہ آسکتے ، اس ایک کمی کو دور کر کے اگر دیکھا جائے تو کئی غریبوں کی زندگی سے قیدخانے کی زندگی کئی گنا بہتر معلوم ہو تا ہے۔
عدل و انصاف کے ساتھ زندگی بسر کر نے والے غریبوں کو ہر روز پیٹ بھر کر کھانا ملنا ہی مشکل ہے۔لیکن بے انصافی اور بے ایمانی سے چلنے والے مجرموں کو تینوں وقت کا کھانابے کم و کاست مل جاتا ہے۔ اعلیٰ قسم کی دوائیں مہیا کی جاتی ہیں۔ ان لوگوں کی تفریح کے لئے قید خانے کے اندر ہی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔
اس حد تک انہیں حفاظت کیا جاتا ہے کہ مجرموں سے مصیبت میں گھرے ہوئے لوگوں سے مجرموں کو کچھ گزند نہ پہنچے۔ جن لوگوں سے اس نے چرایا تھا ، جن لوگوں کو اس نے قتل کیا تھا، جس عورت کی اس نے عصمت دری کی تھی، انہیں لوگوں کی ٹیکس کی رقم سے ان بدمعاشوں کو اتنی سہولتیں دی جاتی ہیں۔
صرف نام کی اس سزا سے کچھ فائدہ نہ ہوا اور نہ ہو گا۔
53بار قید خانہ گیا ہوا شخص پھر بھی گرفتار۔
15بار سائیکل چرانے والا پھر ایک بار گرفتار۔
اس طرح ہر روز اخباروں میں خبر آتی رہتی ہیں۔ 53بار سزا دینے کے باوجود اس کو کوئی خوف پیدا نہ ہوا۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ اس کو ایک سزا ہی سمجھا نہیں۔
قید خانوں میں ملنے والی سہولتوں کو سن کر دوسرے لوگوں کے دلوں میں بھی یہ گزرتا ہے کہ ہم کیوں نیک بن کر کھانے پینے کے لئے تکلیفیں اٹھائیں؟ کچھ جرم کرو تو بس قید خانہ میں ہم کو تین وقت کا کھانا آسانی سے مل جا تا ہے۔ اس طرح وہ بھی جرم کر نے میں لگ جاتے ہیں۔
اور قید خانوں میں سب لوگ ایک ساتھ جم کر رہنے کا موقع ملتا ہے ، اس سے وہ بڑے پیمانے میں جرم کر نے کے لئے نئے نئے منصوبے بنانے لگ جا تے ہیں۔
سب لوگ جانتے ہیں کہ قید خانہ مجرموں کے لئے ایک دارالعلوم بنا ہوا ہے۔
ہر سال مجرم لوگ بڑھتے جا رہے ہیں۔ جرائم بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ مجرموں کو بڑھانے کیلئے لوگوں کا ٹیکس برباد ہو رہا ہے۔
انسانیت کے قانون کا نتیجہ ہے یہ۔
ہمیں یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ مصیبت زدہ انسان کیا ان سزاؤں سے دلی اطمینان حاصل کر سکتا ہے؟
لٹے ہوئے شخص سے اگر پوچھا جائے کہ چرانے والے کو کیا سزا دی جائے تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ اس کو چھ ماہ تک کھا نا کھلایا جائے۔ مقتول کے بیٹے سے اگر پوچھا جائے کہ قاتل کے ساتھ کیا کیا جائے تو کیا وہ یہ کہے گا کہ اس کو چودہ سال تک حکومت کے خرچ پر حفاظت کیا جائے یا اس کے سر کو قلم کر دیا جائے؟
تاریکی میں اپنی مستقبل کو کھوئی ہوئی عصمت لٹی ہوئی عورت اس کی عصمت لوٹنے والے کو کس طرح کا سزا دیا جائے تو اس کو تسلی ہوگی؟ اس طرح اثر پذیر لوگوں کے احساسات کو مدنظر رکھ کر سزائیں دینی چاہئے۔
اثر پذیرشخص کی حالت کو دیکھے بغیر اثرنہ لینے والے کی جگہ میں بیٹھ کر قوانین نافذ کر نے کے وجہ ہی سے اثر پذیر شخص کی احساسات کو غور نہیں کیاجاتا۔ لیکن اسلام اس پر توجہ دیتا ہے۔
ایک شخص دس لوگوں کو قتل کر کے سولی کی سزا پاتا ہے۔ اس سزاکو رحم کی درخواست کے بنیاد پر رد کر نے کا اختیار صدر جمہوریہ کو عطا کیا گیاہے۔ یہ دنیا میں ہر ملک میں پایا جاتا ہے ۔
یہ صدر جمہوریہ مقتولوں کے کوئی رشتہ دار نہیں۔ ا س کے باوجوداچھی طرح معلوم ہو تا ہے کہ اختیاراس صدر کو دیا جانا اثر پذیر شخص کے حالات کو یہ قانون ذرہ برابر بھی خیال نہیں کیا۔
اسلامی قانون کیا کہتا ہے؟ ایک شخص دوسرے کی آنکھ پھوڑدے تو اسلام کا قانون ہے کہ اس مجرم کی آنکھ بھی پھوڑدی جائے۔ آنکھ کو آنکھ، دانت کو دانت ہی اسلامی جرمیاتی قانون ہے۔
اگر آنکھ پھوٹا ہوا شخص مجرم کو معاف کر دے تو مجرم کو سزا نہیں دی جائے گی۔ یا مجرم کے پاس جرمانہ حاصل کر لی جائے تو بھی مجرم کو سزا نہیں دی جائے گی۔
اسی طرح مقتول کے وارثوں میں کوئی کہے کہ مجرم کی جان نہ لی جائے تو بھی مجرم کو سزائے موت نہیں ہوگی۔ یہ اسلام کا قانون ہے۔
یعنی دنیوی ممالک صدر جمہوریت کو جو اختیار عطا کیا ہے وہ اختیار اثر پذیر شخص کو اسلام دیتا ہے۔
عدل کی سوچ رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ انکار نہیں کر سکتا کہ قانوں ایساہی ہو نا چاہئے۔ اثر پذیر شخص کی دلی اطمینانی کے مطابق سزا نہ دی جائے تو وہی شخص مجرم بن جانے کا بھی امکان ہے۔
قتل کے جرم میں قید ہو نے والا ضامن میں باہر آتے وقت،یا قید خانہ سے عدالت کو لے جانے کے وقت مقتول کے رشتہ دار اس کو مار بھی دیتے ہیں۔
ایسی ایک حالت کی وجہ کیا ہے؟ رشتہ داروں کا خیال ہے کہ قاتل کو ان لوگوں کا قانون خاطر خواہ سزا نہیں دے گا۔ اگر سزا دیا بھی گیا تو وہ کافی نہیں ہوگا۔ اسی وجہ سے مقتول کے رشتہ دار بھی قاتل بن جاتے ہیں۔ جرائم بڑھنے کے لئے یہ بھی ایک وجہ ہے۔
آؤاب دیکھیں کہ اسلامی قانون کتنی معنی خیز اور دانشمندانہ ہے۔
اسلام کہتا ہے کہ چوری کے جرم میں گرفتار ہو نے والے مرد اور عورت وغیرہ کی دائیں ہاتھ کو کلائی تک کاٹ دیا جائے۔
اس طرح اگر ہاتھ کاٹ دیا جائے تو وہ پھر سے چوری نہیں کرے گا اور چوری کر بھی نہیں سکتا۔
اور ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ پھر سے چوری کرنے کے لئے دل میں بھی نہیں سوچے گا۔
پہلی بار جب ایک شخص چوری کر نے کا ارادہ کیا تو اس سزا کو سن کر چوری کر نے کی ہمت نہیں کریگا۔ یہ دوسرا فائدہ ہے۔
کٹے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ ایک چور ہے۔ اس وجہ سے ہم اپنا مال کھوئے بغیر ہوشیاری سے رہ سکتے ہیں۔
چوروں کی تصویروں کے ساتھ ’’کیا یہ لوگ یہاں ہیں؟‘‘ کا بورڈ عام جگہوں پر لٹکانے سے ان چہروں کوکوئی یاد نہیں رکھ سکتا۔ لیکن ہاتھ کاٹ دینے سے وہ ایک علامت بن جاتی ہے کہ یہ چور ہے۔یہ تیسرا فائدہ ہے۔
سزا دینے کا جو مقصد ہے وہ اب پورا ہوگا۔ صرف وہی نہیں بلکہ مجرم کو کئی سالوں تک قید میں بند کر کے اس کی دیکھ بھال کے لئے جو خرچ ہو تا ہے وہ حکومت کو بچت ہوجائے گا۔ لوگوں کی ٹیکس کی رقم برباد ہونے سے یہ قانون روکتا ہے۔ قید خانوں کو مٹا کر اسلام کی سفارش کردہ سزاؤوں پر اگر عمل کیا جائے تو قلت کی بجٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
افسوس کہ تم ہاتھ کاٹ ڈالتے ہو کہہ کر مجرموں کی طرف داری کر نا ہی بعض لوگ انسانیت سمجھ بیٹھے ہیں۔
بستر مرگ پر پڑی ہوئی اپنی بیوی کی جان بچانے والی دوا لینے جاتے ہوئے شخص کے پاس سے چور پیسہ چرا لیتا ہے تو وہ پیسوں کے علاوہ وہ اپنی بیوی کی جان بھی کھو دیتا ہے۔ اس کے لئے ہمدردی کون دکھائے؟
صداقت اور اخلاق کا چاہنے والا صدمہ سے دوچار ہو کر بیچ گلی میں کھڑا ہوجا تا ہے تو اس پرہمدردی دکھا نے کے بجائے اس کو بیچ گلی میں لاکھڑا کرنے والا بدمعاش کیلئے ہمدردی دکھایا جاتا ہے۔
بعض لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ ایسے ہی ہاتھ کاٹتے جائیں تو ہاتھ کٹے ہوئے لوگوں کی تعداد نہیں بڑھے گی؟
ہرگز ہاتھ کٹے ہوئے لوگوں کی تعداد نہیں بڑھے گی۔ایک چور کا ہاتھ کاٹ دو تو دوسرے کسی کو چوری کر نے کی ہمت پیدا نہیں ہوگی۔ اسلئے ہاتھ کٹے ہوئے لوگوں کی تعدادہرگز نہیں بڑھے گی۔
ویسے بھی اگرہاتھ کٹوں کی تعداد بڑھ بھی جائے تو اس میں کوئی ناانصافی نہیں۔
ایک مثال کے لئے چوری کے سزا کے بارے میں ہم نے ذکر کیا ہے۔ اسلامی سزا کے طریقے اسی طرح قرار پائے ہیں۔
قتل کر نے والے کو اگر حکومت فوراً مار دے تو کوئی بھی قتل کر نے کی ہمت نہیں کرے گا۔ ایک شخص اگر دانت توڑدے تو اس کی بھی دانت حکومت کے ذریعے توڑدی جائے گی ، اس حقیقت کو کوئی جان لے تو کوئی بھی دوسرے کی دانت نہیں توڑے گا۔
دنیا میں کئی حکومتیں آئی اور گئیں۔ لوگوں کی جان ، مال، عصمت کی حفاظت ، ان ساری ذمہ داریوں سے سارے ہی حکومتیں ناکام ہوگئیں۔ کب کیا ہوگا، اسی خوف سے لوگوں کو زندگی بسر کر نے کی نوبت آگئی ہے۔
اس حالت کو اگر بدلنا ہوتو مجرموں کے معاملے میں تھوڑا بھی رحم نہ کریں۔ تنگ نظری سے اسلامی سزاؤں کو جھٹلائے بنا اس سے حاصل ہونے والے اچھے انجام کو دل میں رکھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہو نا چاہئے۔
مجرموں کو سینکنے کی طرح سزا ئیں دینے کے بجائے ان کے خلاف چابک گھما کر سخت ترین سزائیں جاری کریں تو دنیا ایک پرسکون چمنستان نظر آئے گا۔
بعض لوگ سوال کر تے ہیں کہ چور کو پکڑکر فوراً اس کے ہاتھ کاٹ دینے کے بعد اگر معلوم ہوا کہ وہ بے قصور ہے تو کیا اس کا ہاتھ واپس آجائے گا؟
دو تین سال قیدخانے کی سزا بھگتنے کے بعد کئی لوگ بے قصور ثابت کئے گئے ہیں۔ اگر کوئی سوال کرے کہ ان کی کھوئی ہوئی ان تین سالوں کو کیا واپس دلا سکتے ہیں، تو تمہارا جواب کیا ہوگا؟ اس پر غور کر و تو کوئی ایسا سوال نہیں کرے گا۔
اور اسلام یہ نہیں کہتا کہ پکڑو اور سزا دو۔ اسلام کہتا ہے کہ جرم ثابت ہونے کے بعد ہی سزا دیا جائے۔
سزائے موت کے جرم کی طرح سمجھے جانے والی زنا کاری کو چار براہ راست گواہوں کے ذریعے ثابت کر نا چاہئے۔ چاروں سے کم اس جرم کواگر تھوپیں توان تھوپنے والوں کو اسی کوڑے مارنے کے لئے آیت نمبر 24:4 اور 24:13 کہتی ہیں۔
اسلامی حکومت کے طریقے میں مناسب گواہوں کے بغیر چند مجرم بچ جا سکتے ہیں، لیکن کوئی بے قصور سزا نہیں پاسکتا، یہی حقیقت ہے۔
دنیا میں قانون اور قاعدہ برقرار رکھنے میں سارے جرمیاتی قوانین ناکام ہو گئے، لیکن قرآن مجید جو جرمیاتی قوانین کہتا ہے صرف وہی کامیاب ہوا ہے۔
یہ قرآن اللہ ہی کی کتاب ہے، اس کے لئے دلیلوں میں سے ایک یہ آیتیں بھی ہیں۔
43۔ اسلامی جرمیاتی قوانین
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode