Sidebar

16
Mon, Sep
1 New Articles

‏365۔ رحموں میں حمل کا بیضہ

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏365۔ رحموں میں حمل کا بیضہ

‏ان آیتوں میں 22:5، 23:14، 40:67، 75:38، 96:2 انسان کی ابتدائی حالت کو کہتے وقت علق اور علقۃ کاا لفاظ استعمال کیا گیا ہے۔اس ‏لفظ کے کئی معنی ہیں۔

اس کا معنا ہو تاہے کہ خون کا لوتھڑا ، لٹکے ہوئے حالت اور ایک سے ایک شامل ہونا۔

اس جگہ میں خون کا لوتھڑا کہہ نہیں سکتے۔ حمل میں خون کے لوتھڑے کا ایک حالت نہیں ہوتی۔ لٹکا ہوا حالت بھی معنی نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ‏انسان کی اصل کے مطابق وہ ایک چیز ہی ہوسکتی ہے، لٹکنے کی حالت ایک چیز نہیں ہے۔ 

انسان کی تخلیق کے بارے میں اللہ نے جب ترتیب وارکہتا ہے تو پہلے نظفے کی اصل کاذکر کر تا ہے، اس کے بعد علقۃ کی اصل کا ذکر کر تا ہے۔ 

نطفہ مردوں کی منی میں رہنے والے خلیہ ہیں۔انسان کی تخلیق کے لئے صرف مرد کا خلیہ کافی نہیں ہے۔ عورت کے حمل کے بیضہ کے ساتھ مرد ‏کے خلیہ بھی شامل ہو تو ہی حمل ٹہرتا ہے۔ 

مرد کا خلیہ اور عورت کا حمل کا بیضہ ملا ہوا مرکب ہی دوسرا اصل ہے۔ 

اس لحاظ سے ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن میں کہا ہوا علق اسی کی طرف اشارہ کر تا ہے۔ مزید یہ کہ علق کے لفظ کوکئی معنی رہنے کے باوجود ‏ایک کے ساتھ ایک جڑنے کے معنی ہی میں کئی جگہوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ 

مرد کا خلیہ عورت کے حمل کے بیضہ کے ساتھ ایک سے ایک جڑجانے کی وجہ سے اس کو ذکر کرنے کے لئے اس سے مناسب لفظ دوسرا ہو نہیں ‏سکتا۔ 

اسی لئے علق کا لفظ جگہ پانے والے ہر مقام میں حمل کا بیضہ کہہ کر ہم نے ترجمہ کیا ہے۔ اس کا سیدھا معنی ہے دو چیزیں ایک سے ایک ملناہے۔ اس کا ‏مطلب ہی رحموں میں حمل کا بیضہ۔

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account