Sidebar

18
Fri, Oct
11 New Articles

 ‏361۔ دن کا آغاز کونسا ہے؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

 ‏361۔ دن کا آغاز کونسا ہے؟

‏نبی کریم ؐ نے تشریح کی ہے کہ اس آیت 2:238میں جو درمیانی نمازکہا گیا ہے، وہ عصر نماز ہے۔ 

قریبی زمانے سے بعض لوگ دعویٰ کر نے شروع کر دئے ہیں کہ اس کے ذریعے روز کا آغاز دن ہی ہے ۔ 

ان کا دعویٰ یہی ہے۔ 

رات ہی سے اگردن کا آغاز ہے تو مغرب کی نماز ہی پہلی نماز ہوگی۔ اس طرح صبح کی نماز درمیانی نماز ہوگی۔ 

لیکن نبی کریم ؐ اس طرح نہیں کہا،بلکہ عصر نماز ہی کو درمیانی نماز کہا ہے۔ روز کا آغاز صبح ہوگا ہی تو عصر نماز درمیانی نماز ہوگی۔ اس لئے صبح ہی سے ‏دن شروع ہو تا ہے، اس کے لئے درمیانی نماز کو نبی کریمؐ کی وضاحت دلیل ہے ، اس طرح وہ حجت کرتے ہیں۔ 

نبی کریم ؐ کے زمانے سے آج تک مسلمانوں میں سورج کے ڈھلنے کا وقت ہی دن کا آغاز ہے، یہ کسی اختلاف رائے کے بغیر مانا جاتا ہے۔ اس حالت ‏میں یہ لوگ درمیانی نماز کو نبی کریم ؐ کی تشریح کو سند بنا کرحجت کر رہے ہیں کہ صبح نماز ہی دن کا آغاز ہے۔

آج تک بغیر کسی اختلاف رائے کے مان لئے جانے والی ایک بات کو انکار کر کے ایک نئی رائے کو داخل کر نے کے خواہشمند اپنے دعوے کو بغیرکسی ‏شک کے ثابت کر نے کے لئے بالکل صاف دلیلوں کو پیش کر نا چاہئے۔ 

مندرجہ بالا آیت ان کی رائے کو صاف طور سے نہیں کہہ رہی ہے۔ درمیان کے معنی میں ہم نے وُسْطٰی کو لیا ہے۔ لیکن اس لفظ کو کئی معنوں میں ‏استعمال کیا جا تا ہے۔ 

درمیانی نماز میں درمیان جو ہے وہ صرف ترتیب وار کو ہی نہیں کہتی، بلکہ خصوصاًکے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ 

آیت نمبر2:238 میں درمیانی نماز کا لفظ خصوصاً کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔فن حدیث کے ماہر حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی بخاری کی ‏تشریح والی کتاب فتح الباری میں واضح کی ہے۔ 

حافظ ابن حجر کی قول کو قرآن مجید کی آیتیں اورحدیثیں دلیل ہیں۔ وُسْطٰی کے لفظ کے ذریعے نکلنے والے لفظوں کامعنی جیسے ’’ درمیان میں ہے ‏‏‘‘اسی طرح ’’خصوصاً‘‘ کا معنی بھی ہے۔ اس کو تم ان آیتوں 2:143، 68:28 کے ذریعے معلوم کر سکتے ہیں۔ 

بعض علماء کہتے ہیں کہ رات کی نماز تم پر فرض کی گئی ہے۔ اس طرح فرض کئے جانے کے بعد جو پہلی نماز آئی وہ فجر کی نماز ہے۔ فرض کئے ہوئے ‏ترتیب کے مطابق دیکھا جائے تو عصر ہی درمیانی نماز ہوتی ہے۔ 

یہ دونوں کسی بھی دلیل سے نہ ٹکراتے ہوئے عقل کی مناسبت سے ترکیب پائی ہوئی ہے۔ 

لیکن ان کی نئی تفتیش جو تیسری رائے ہے ، وہ ان واضح دلیلوں کی کثرت کو انکار کرتی ہیں کہ دن کا آغاز مغرب ہی ہے۔ 

نبی کریمؐ کے زمانے میں مانا جاتا تھا کہ مغرب نماز ہی روز کا آغاز ہے، اس کے لئے بہت سی دلیلیں موجود ہیں۔ 

ہم نے مشورہ کیا کہ لیلۃ القدر کے بارے میں نبی کریمؐ سے کون سوال کرے؟یہ رمضان مہینے کی ایکیسویں کا صبح کا وقت تھا۔ میں گیا اور نبی کریم ؐ کے ‏ساتھ مغرب کی نماز میں شامل ہوگیا۔ پھر آپ سے کہا کہ لیلۃ القدر کے بارے میں پوچھ کر آنے کے لئے بنو سلمہ کی قوم نے مجھے بھیجا ہے۔ نبی کریم ؐ ‏نے پوچھا یہ کونسی رات ہے؟ میں نے کہا یہ بائیسویں رات ہے۔ نبی نے کہا یہی لیلۃ القدر ہے۔ پھر واپس آکر دوسری رات بھی کہہ کر تےئیسویں ‏رات کی طرف اشارہ کیا۔

راوی : عبد اللہ بن انیسؓ 

حدیث ابوداؤد: 1171

یہ حدیث کیاکہتی ہے؟ 

عبداللہ بن اُنیسؓ اکیسویں روزصبح کو نکل کر مغرب میں نبی کریم ؐ سے ملتے ہیں۔ اگردن کا آغاز صبح ہوتا تووہ جس مغرب کو پہنچے اس کو اکیسویں دن کی ‏مغرب کہنا چاہئے تھا۔ لیکن بائیسویں دن کی مغرب کہتے ہیں۔ نبی کریم ؐ بھی اس کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس سے ہم کسی شک کے بغیر جان سکتے ہیں کہ ‏مغرب ہی دن کا آغاز ہے۔ 

اکیسویں دن صبح کے بعد آنے والی مغرب کو اگر اکیسویں دن کی مغرب کہا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ صبح سے دن کا آغاز ہو چکا ہے۔ اکیسویں دن صبح ‏کے بعد آنے والی مغرب کواس حدیث میں بائیسویں دن کی مغرب کہنے کی وجہ سے ہمیں ثابت ہو تا ہے کہ مغرب ہی سے تاریخ بدلتی ہے۔ 

ایک اور حدیث کو دیکھئے!

کھجور کے پھل کو پانی میں بھگوکر دوسرے دن اس پانی کو پینا نبی کریم ؐ کی عادت تھی۔ اسکے بارے میں ابن عباسؓ کہتے ہیں:

پیر کی رات کو نبی کریم ؐ کے لئے ہم کھجور کے پھل کوپانی میں بھگوکر رکھتے تھے۔ اسکو پیر کے دن اور منگل کی عصر تک وہ پیتے تھے۔

مسلم: 4083

یہ حدیث کہتی ہے کہ پیر کی رات کو بھگوکر پیر کے دن وہ پیتے تھے۔

یہ واضح دلیل ہے کہ دن کا آغاز صبح نہیں ہے۔ اگر دن کا آغاز صبح ہو تا تو پیر کی رات کے بعد آنے والی صبح کو منگل کا دن کہنا چاہئے تھا۔ اس حدیث ‏میں ویسا نہیں کہا گیا۔ پیر کی رات کے بعد آنے والا دن پیر کا دن ہی اس حدیث میں کہنے کی وجہ سے واضح طور سے معلوم ہو تا ہے کہ صبح آنے پر دن ‏کی تبدیلی نہیں ہوئی۔ 

مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ مغرب ہی سے دن کا آغاز ہے۔

نبی کریم ؐکورمضان کے مہینے کے درمیان میں دس دن اعتکاف رہنے کی عادت تھی۔اسی عادت کے مطابق وہ ایک سال اعتکاف رہے۔ جب ‏اکیسویں رات آتی تو اس رات کی صبح ہی میں انہیں اعتکاف سے باہرنکلنے کی عادت تھی۔ ’’میرے ساتھ اعتکاف رہنے والے آخری دس دن بھی ‏اعتکاف رہیں۔ وہ رات مجھ کو دکھا کر پھر بھلا دیا گیا۔ اس صبح میں کیچڑ اور پانی میں سجدہ کرتے ہوئے میں نے (خواب) دیکھا۔ اس لئے آخری دس ‏دن میں اس کو تلاش کرو۔ہر طاق دنوں میں اس کی تلاش کرو۔‘‘ اس رات بارش ہوئی۔مسجد کے کوٹھے سے پانی ٹپکنے لگا۔ اکیسویں دن کی صبح میں ‏نبی کریم ؐ کی پیشانی میں کیچڑ اور پانی کو میں نے دیکھا۔ 

بخاری: 2027

اگر صبح ہی سے دن کا آغاز ہو تا ہے کے مطابق اکیسویں رات کی صبح کے بارے میں کہنا ہو تو دوسرے دن کی صبح یا بائیسویں دن کی صنح کہنا چاہئے ‏تھا۔ اس طرح کہنے کے بجائے اس حدیث میں اکیسویں دن کی صبح کہا گیا ہے ۔ اکیسویں دن کے بعد آنے والی صبح کے وقت کو اسی دن کا ہے کہنے کی ‏وجہ سے واضح طور سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح کے وقت تاریخ بدلتا نہیں۔ 

اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ جب اکیسویں رات آئی تو نبی کریم ؐ نے لوگوں کو نصیحت فرمائی ۔ آخر میں اس دن رات بارش ہوئی۔ مسجد کے کوٹھے ‏سے پانی آگیا۔کہا گیا ہے کہ اکیسویں دن صبح میں نبی کریم ؐ کی پیشانی میں کیچڑ اور پانی کو میری آنکھوں نے دیکھا۔

یہ جملہ کہتا ہے کہ اس رات کویعنی کہ اکیسویں رات کو بارش ہوئی۔ اس بارش کی وجہ سے اکیسویں صبح کو نبی کی پیشانی میں کیچڑ لگا ہوا تھا۔

اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اکیسویں رات کے بعد آنے والا صبح کا وقت اکیسویں دن ہی رہا ۔یعنی مغرب میں جو تاریخ رہاوہی صبح میں بھی رہا۔ صبح کا ‏وقت آنے کے ساتھ تاریخ نہیں بدلا۔ اس لئے یہ بھی ایک دلیل ہے کہ دن کا آغاز صبح کا وقت نہیں ہے۔ 

اگر دن کا آغاز صبح ہو تا تو اکیسویں رات کے بعد آنے والی صبح کو بائیسواں دن ہی کہنا چاہئے۔ لیکن صحابئی رسول تو اکیسویں رات کے بعد آنے والی ‏صبح کو اکیسویں صبح ہی کہتے ہیں۔اس سے اچھی طرح واضح ہو تا ہے کہ دن کا آغاز رات ہی ہے۔ 

اس کے بعد یہ جملہ بھی غور طلب ہے کہ نبی کریم ؐ کو صبح ہی میں اعتکاف سے باہر آنے کی عادت تھی۔ اگر صبح ہی سے دن کا آغاز ہوتا توکہنا چاہئے تھا ‏کہ دوسرے دن صبح ہی وہ باہر آئیں گے۔یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس دن صبح ہی وہ باہر ہوں گے۔ اس دن صبح ہی کہنے کی وجہ سے بغیرکسی شک کے یہ ‏ثابت ہو تا ہے کہ دن کا آغاز رات ہی ہے۔ 

ایک اور حدیث دیکھئے!

ہر جمعرات کی شام جمعہ کے رات کو بنی آدم کے اعمال اللہ کے پاس پیش کیا جائے گا۔ نبی کریم ؐ فرماتے ہیں (اس وقت) رشتہ داروں سے قطع تعلق ‏کر نے والوں کے عمل کواللہ قبول نہیں کرے گا۔ 

راوی: ابو ہریرہؓ 

احادیث: احمد: 9883، الادب المفرد:61، شعب الایمان:7966

یہ حدیث کیا کہتی ہے؟ 

جمعرات کی شام کے بعداگر جمعرات کی رات کہا جا تا توکہہ سکتے ہیں کہ رات میں تاریخ بدلی نہیں ہوئی ، بلکہ صبح کو جو تاریخ تھی وہی جاری ‏ہے۔لیکن اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ جمعرات کی شام کے بعد آنے والی رات کے بارے میں کہتے وقت جمعہ کی رات کہاگیا ہے۔ یعنی یہ ایک ‏واضح دلیل ہے کہ مغرب آنے کے ساتھ دوسرا دن شروع ہوجاتاہے۔

نبی کریم ؐ کے زمانے کے بعد صحابیوں کے زمانے میں بھی مغرب ہی سے دن کا آغاز ہے۔ اسی اصول پر کئی دلائل موجود ہیں۔ 

میں نے جب ابوبکرؓ کے پاس گئی تھی توانہوں نے پوچھا کہ نبی کریم ؐ کو کتنے کپڑوں میں کفن بنائے تھے؟تو میں نے کہاکہ روئی کے تین سفیدکپڑوں ‏میں کفن بنائے تھے۔ اس میں کرتا یا پگڑی نہیں تھا۔ ابو بکرؓ نے پوچھاکہ نبی کریم ؐ کس دن وفات پائے؟میں نے کہا کہ پیر کے دن! انہوں نے ‏پوچھا کہ آج کیا دن ہے؟ میں نے کہا پیر کا دن۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آج رات کے اندر (میری موت) واقع ہوجائیگی۔ ایسا کہنے ‏کے بعد انہوں نے اپنی لباس کو دیکھاجو بیماری کے وقت پہنے ہوئے تھے۔ اس میں زعفران کا داغ لگا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کو دھو کر اس کے ‏ساتھ اور دو کپڑوں کو ملا کر اس میں میری کفن بنادو۔ میں نے کہا یہ توپرانی ہے۔انہوں نے کہا کہ مرنے والوں سے زیادہ زندہ رہنے والے ہی نئے ‏کپڑے پہننے کے مستحق ہیں۔ اور یہ (میت کے) جسم کی زخم ہی کیلئے وقف ہے۔ پھر اس شام تک انہیں موت نہیں آئی۔ منگل کی رات میں وفات ‏پائی۔ صبح نکلنے سے پہلے دفن کر دئے گئے۔ 

راوی: عائشہؓ 

بخاری: 1384

نبی کر یم ؐ نے جو پیر کے دن وفات پائی تھی ، اسی پیر کے دن خود بھی مر نے کے لئے ابوبکرؓ نے خواہش کی۔انہوں نے سوچا کہ آج کی رات آنے سے ‏پہلے مر گئے توپیر کے دن مرنے والے ہوجائیں گے۔ لیکن اس دن کے بجائے انہوں نے رات آنے کے بعد ہی وفات پائی۔ اس رات کوعائشہؓ نے ‏پیر کی رات نہیں کہا، بلکہ اس کو منگل کی رات ہی کہا۔ 

یعنی پیر کے دن کے بعد آنے والی رات کواگر پیرکی رات کہا گیا تو رات میں تاریخ بدلتی نہیں کہہ سکتے ہیں۔ صبح ہی میں تاریخ بدلتی ہے کہہ سکتے ‏ہیں۔ لیکن پیر کے دن کے بعد آنے والی رات کے بارے میں اس کو منگل کی رات ہی حدیث میں کہا گیا ہے۔ یعنی پیر کا دن تو مغرب کے پہلے ہی ‏ختم ہو گیا۔یہ حدیث واضح طور پر کہتی ہے کہ مغرب کے ساتھ منگل شروع ہوجاتا ہے۔

ایک اور حدیث دیکھئے!

عبد اللہ بن مسعودؓ جمعہ کی رات کی جمعرات کی شام ہو تی ہے تواٹھ کرکہا کرتے تھے کہ کلمہ میں بالکل سچا کلمہ اللہ ہی کا کلمہ ہے۔ 

راوی: بلاد بن عصمہ

حدیث: دارمی۔209 

اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ جمعرات کے شام کے بعد جمعہ کی رات آتی ہے۔ یعنی مغرب آنے کے بعد ہی تاریخ بدلتی ہے۔ اس سے ہم جان سکتے ‏ہیں کہ یہی طریقہ اصحاب رسول کے زمانہ میں چل رہا تھا۔

دیکھئے،عائشہؓ فرماتے ہیں:

اگر تم جمعہ کی رات کو پاگئے تو جمعہ کی نماز کو پڑھے بغیرکہیں باہر(سفر میں) نہ نکلو۔

راوی: مصنف ابن ابی شیبہ: 5114

صبح میں ہی دن کا آغاز ہے کے رائے کے مطابق جمعہ کے رات کے بعد آنے والی صبح کا وقت ہفتہ کا دن ہوگا۔ لیکن جمعہ کے رات کے بعد آنے والا ‏دن بھی جمعہ ہی رہنے کی وجہ سے عائشہؓ تاکید کر تے ہیں کہ جمعہ کی نماز پڑھے بغیر کہیں باہر سفر نہ کریں۔ 

صبح کے وقت میں دن کا آغاز نہیں ہوتا، اس کے لئے یہ خبر سند ثابت ہوتی ہے۔ 

دن کا آغاز مغرب ہی ہے اس کے لئے اور بھی کئی دلائل موجود ہیں۔ 

کئی معنی والے درمیانی نماز کے لفظ کو پیش کر کے روزکے آغاز کوفیصلہ کر نے کے بجائے دن اور تاریخ کے بارے میں کہنے والی مندرجہ بالا ‏حدیثوں کی بنیادپر فیصلہ کر نا ہی ٹھیک ہو گا۔ 

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account