Sidebar

05
Sat, Jul
0 New Articles

‏279۔ جبرئیل کی قول کیا قرآن میں جگہ پائے گی؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏279۔ جبرئیل کی قول کیا قرآن میں جگہ پائے گی؟

‏اس آیت(19:64) کا معنی ایسا لگتا ہے کہ قرآن مجید فرشتوں کا قول ہے۔

قرآن مجید اللہ کا کلام ہونے کی وجہ سے اس میں صرف اللہ ہی کا قول جگہ پانا چاہئے۔ اگردوسروں کی بات اس میں جگہ پانا ہو تو اللہ اس کو صاف سے ‏سمجھانے کی طرح جگہ پانا چاہئے۔ 

لیکن اس آیت میں فرشتوں کا کہناکہ ’’اللہ کی اجازت کے بغیر ہم نہیں اترتے‘‘ قرآن مجید میں جگہ پائی ہے۔یہاں یہ شک پیدا ہو سکتا ہے کہ ‏فرشتوں کا یہ ذاتی قول کس طرح قرآن مجید میں جگہ پا سکتا ہے؟اس طرح کی لفظی ترکیب قرآن مجید میں کئی جگہوں میں جگہ پائی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن تحریری انداز میں کتابی شکل میں نہیں اترا۔ تقریری انداز ہی میں اترا۔ بات چیت کے انداز میں بعض لفظوں کو ہم نہ ‏کہیں بھی تو ماحول کے لحاظ سے ہم اس کو سمجھ لیتے ہیں۔ 

فرض کرو کہ ایک مجلس میں ابراھیم اور اسماعیل کے درمیانی معاملے کو مجلس کے صدر دریافت کر تے ہیں۔اور فرض کرو کہ کوئی شخص اس کوویسے ‏ہی لکھتا ہے۔

صدر نے پوچھا کہ کیا تم نے ایسا کیا؟ 

اسماعیل کہتا ہے کہ میں نے نہیں کیا۔

فوراً ابراھیم سے صدرپوچھتا ہے کہ یہ تو کہتا ہے ، اس نے نہیں کیا۔ تم کوئی سند کے بنا کیوں الزام لگاتے ہو؟ 

ابراھیم کہتا ہے کی میرے پاس ثبوت ہے۔

اس واقع کو کوئی اس طرح لکھتا ہے تو وہ اس بنا پر لکھتا ہے کہ وہ اس کو سمجھ چکا۔اس کے بجائے اگر کوئی صرف وہاں کی گفتگو ہی لکھ دے تو کیسا رہے ‏گا؟ 

کیا تم نے کیا؟ میں نے نہیں کیا۔ یہ کہتا ہے کہ اس نے نہیں کیا؟ کچھ سند کے بغیر کیوں الزام لگا رہے ہو؟ میرے پاس ثبوت موجود ہے۔ 

اس مجلس میں صرف اتنی ہی گفتگو ہوئی تھی۔ اب دونوں عبارت کو موازنہ کر کے دیکھو۔ 

گفتگو کے وقت کتنے الفاظ چھوٹ گئے ہیں۔ ایسا کہا، ویسا پوچھا، اس طرح کے لفظوں کو ہم ہی شامل کر لینا چاہئے۔ ایسے ہی چند گفتگو ترکیب پائی ‏ہیں۔ 

قرآن مجید لوح محفوظ میں بحفاظت رکھا گیا ہے۔ اللہ کی اجازت کے ساتھ جبرئیل وقت ضرورت لے آکر سناتے ہیں۔

لوح محفوظ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ چند دن وحی بھیجا بھی نہیں جائے گا۔ اوریہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس وقت نبی کریم ؐ فکر مند ہوں گے۔ اس میںیہ ‏بھی لکھا گیا ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر ہم نہیں اتریں گے، اس آیت کو بھی لوح محفوظ سے جبرئیل لے جائیں گے ۔ 

اس کے بارے میں اور زیادہ جانکاری کے لئے حاشیہ نمبر 492دیکھئے!

اس بنا پراگر جبرئیل نے کہا ہو کہ ہم نہیں اتریں گے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ نے ایسا کہنے کے لئے کہا ہو گا کہ ہم نہیں اتریں گے۔ انہوں نے جو ‏بھی کہا اللہ نے کہنے کو کہا تھا۔ 

اسی طرح آیت نمبر 37:164 میں کہا گیا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ہو انہیں ایک مخصوص جگہ متعین ہے۔ ہم صف بستہ کھڑے ہو نے والے ‏ہیں۔ اور ہم تسبیح کر نے والے ہیں۔ 

ہم کا لفظ فرشتوں کی طرف اشارہ ہے۔ایسا نہ سمجھنا کہ فرشتے خود براہ راست کہی ہوئی بات قرآن میں جگہ پائی ہے۔بلکہ اس کو ایسا سمجھنا چاہئے کہ ‏اس طرح کہنے کو اللہ نے کہا ہے۔ 

قرآن مجید تقریری انداز سے نازل ہو نے کی وجہ سے وہ اس ماحول کے لحاظ سے سمجھ جائیں گے، اسی لئے قرآن مجید بھی عام طور سے بولی جا نے والی ‏طریق کار کو اپنایا ہے۔   

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account