273۔ معرفت اور جہالت
ان آیتوں (18:60-82) میں موسیٰ نبی نے خضر سے تعلیم پانے کا واقعہ کہا گیا ہے۔
ان آیتوں میں کہا گیا ہے کہ موسیٰ نبی جو تین باتیں نہیں جانتے تھے ا س کو خضر جانتے تھے۔ اس کو چند افراد اپنی غلط عقیدے کے لئے دلیل بنا لیا ہے۔
موسی نبی ایک بڑے رسول رہنے کے باوجود ، بعض معجزے دکھانے کے باوجودانہیں جو معلوم نہیں تھا وہ غیبی علم خضر کو حاصل تھا۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ خضراپنی ریاضت کی قوت کے ذریعے جو علم پایا تھاوہ موسیٰ نبی کی وحی کے ذریعے حاصل کردہ علم سے بڑھ کر ہے۔
اور آنکھوں کودکھائی نہ دینے والی تمام باتیں اس معرفت کے ذریعے معلوم ہوجاتی ہیں۔ اللہ کے ذریعے وحی کا انتظارکئے بغیر سب کچھ معلوم کر سکتے ہیں۔اسی کو وہ لوگ معرفت کہہ کر بحث کر رہے ہیں۔
ان کا وہ دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔
اس واقعہ کے پس منظر کو نبی کریم ؐ نے واضح کی ہے۔
موسیٰ نبی نے اسرائیلوں کے درمیان وعظ کر نے کے لئے اٹھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ’’ انسانوں میں بہت زیادہ جاننے والا کون ہے؟ ‘‘انہوں نے یہ کہنے کے بجائے کہ ’’اللہ ہی سب کچھ جاننے والاہے‘‘، انہوں نے کہہ دیا کہ’’ میں ہی زیادہ جاننے والاہوں۔‘‘ اس لئے اللہ ان پر غصہ ہوا۔ اللہ نے ان سے کہا کہ’’ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر میرا ایک بندہ ہے، وہ تم سے زیادہ جاننے والا ہے۔‘‘ موسیٰ نبی نے سوال کیا کہ’’ انہیں میں کیسے پہچانوں؟‘‘ ان سے کہا گیا کہ’’ ایک برتن میں ایک مچھلی ڈال لو۔ اس مچھلی کو تم جہاں کھو دیتے ہو اسی جگہ پر وہ ہوگا۔ ‘‘
موسیٰ نبی اور ان کے ساتھ ایک خدمتگار یوشع بن نون نے برتن میں مچھلی لئے ہوئے روانہ ہوئے۔ ایک چٹان میں سر رکھ کر ایسے ہی سو گئے۔ اس وقت برتن میں موجود مچھلی نے اچھل کر دریا میں چلی گئی۔
اسی طرح نبی کریم ؐ نے تشریح کی۔ (دیکھئے بخاری کی احادیث: 122، 3401، 4725، 4726۔)
اس کے متعلق نبی کریم ؐ نے پھر سے کہنے لگے:
اس مخصوص جگہ پر موسیٰ نبی نے خضر کو پالیا۔ ان کو موسیٰ نے سلام کیا۔ خضر نے پوچھا کہ’’ تمہارے علاقے میں سلام کر نے کی دستور کیسی ہے؟ ‘‘تو موسیٰ نبی نے کہا کہ’’ میں ہی موسیٰ ہوں۔‘‘ خضر نے پوچھا کہ’’ کیا تم ہی وہ موسیٰ ہو جو اسرائیل کی طرف بھیجے گئے؟‘‘ تو موسیٰ نبی نے ہاں کہا۔(دیکھئے بخاری کی احادیث: 122، 3401، 4725، 4727)
خضر نے پوچھا کہ’’ تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘تو موسیٰ نبی نے جواب دیا کہ’’ میں اس لئے آیا ہوں،جو تمہیں معلوم ہے اس کو مجھے سکھادیں۔‘‘ خضر نے کہا کہ ’’تمہیں تو اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے؟ اور تمہاری ہاتھوں میں تو تورات کی کتاب بھی موجود ہے!‘‘(دیکھئے بخاری کی حدیث:4726)
وہ آیتیں کہتی ہیں کہ موسیٰ نبی کو جو معلوم نہیں تھا ان تین باتوں کو خضر جانتے تھے، اس کو دلیل بنا کروہ لوگ کہتے ہیں کہ خضرکومعرفت کا علم تھا اور معرفت کے ذریعے سب کچھ جان سکتے ہیں، اس طرح دعویٰ کر نے والوں کے لئے ان حدیثوں میں انکار موجود ہے۔
موسیٰ نبی جب خضر کو سلام کیا تو انہوں نے پوچھا کہ تمہاری بستی میں سلام کر نے کا دستور کیسا ہے؟
یہ بات تصدیق کر تی ہے کہ خضرکویہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آنے والے اللہ کے رسول ہیں اوراپنے ہی جیسا وہ بھی ایک مسلمان ہے۔
اس کے بعد موسیٰ کہتے ہیں کہ میں موسیٰ ہوں ، اس کو سن کر بھی خضر کو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ اسی لئے وہ پھر پوچھتے ہیں ، کیا تم اسرائیل کےؑ طرف بھیجے گئے موسیٰ ہو؟
خضر پوچھتے ہیں کہ یہاں تم کس لئے آئے ہو؟
اگر ان کے پاس غیبی علم ہو تا تووہ موسیٰ نبی سے پوچھنے سے پہلے ہی کہنا چاہئے تھا کہ میرے پاس چند علم سیکھنے کے لئے ہی تم آئے ہونا؟
مندرجہ بالاتینوں واقعوں میں ایک واقعہ نیچے گرنے والی دیوار کو تھام کر سیدھا کرنا۔
موسیٰ نبی اورخضر ایک بستی میں گئے۔ بستی والوں سے کھانے کے لئے کچھ مانگا۔ ان آیتوں میں کہا گیا ہے کہ ان بستی والوں نے کھانا دینے سے انکار کردیا۔وہ لوگ انہیں کھانا نہیں دیں گے، یہ پہلے ہی سے خضر کو معلوم نہیں ہوسکا۔ اگر معلوم ہو تا تو پہلی ہی سے انتظام کر تے ہوئے گئے ہوں گے۔ اور ان بستی والوں سے کھانا نہیں مانگے ہوں گے۔
موسیٰ نبی نے کہا کہ میں آئندہ کوئی سوال نہیں کروں گا، پھر بھی انہوں نے تین بار وعدہ خلافی کیا۔اگر خضر کو پہلے ہی سے معلوم ہو تا کہ موسیٰ نبی وعدہ نبھائیں گے نہیں توپہلی ہی بار ان کو واپس بھیج دینا چاہئے تھا۔ اس طرح نہ کیا بلکہ موسیٰ نبی کی بات کو یوں ہی مان کردھوکہ کھاگئے۔
اوپر کا جو واقعہ ہے وہ اسی کے لئے دلیل ہے کہ غیبی علم جاننے کی کوئی معرفت ان کے پاس نہیں تھی۔
تو وہ تینوں غیبی واقعے صرف خضر کو کیوں معلوم ہوئیں؟ کیوں موسیٰ نبی کومعلوم نہ ہوسکا؟
ان آیتوں پر ذرا غور کریں تو ہی اس سوال کا جواب معلوم ہو جائے گا۔
قرآن کہتا ہے کہ تینوں واقعے ختم ہو نے کے بعد خضر کہتے ہیں کہ ’’اس کو میں نے خود نہیں کیا۔اللہ جو کہنے کو کہا وہی میں نے کی۔‘‘
موسیٰ نبی نے جو کہا تھا کہ’’ میں ہی بہت جاننے والاہوں‘‘ اسکو سبق سکھانے کے لئے ہی ان تین باتوں کو جو موسیٰ نبی نہیں جانتے تھے ، اللہ نے اسے خضر کو سکھایا ۔ خضر کی اس جواب ہی سے ہم جان سکتے ہیں۔
اچھی کشتی کو چھیننے کے لئے بادشاہ کے آدمی آنے والے ہیں، اس کو اللہ نے آگاہ کر نے کی وجہ ہی سے اس کشتی کو نقصان پہنچایا گیا۔
نیچے گرنے کی حالت میں رہنے والی دیوار کے نیچے ایک خزانہ تھا۔ وہ دو نوں لڑکوں کا حق تھا، اللہ نے اس کو آگاہ کرنے کی وجہ ہی سے انہوں نے دیوار کو سیدھا کیا۔
اس بستی والے کھانا نہیں دیں گے، اس کو اللہ نے آگاہ نہ کرنے کی وجہ ہی سے اس کو وہ لوگ جان نہیں سکے۔
ایک جوان لڑکا خود بھی بگڑ کر اپنے والدین کو بھی بگاڑنے کی کوشش کی، اس لئے اس کو قتل کیا گیا۔ اللہ کے حکم کے مطابق وہ بھی کردیتے ہیں۔
چنانچہ موسیٰ نبی کو نہ بتاتے ہوئے صرف خضرکو اللہ نے ان تین باتوں کا علم دے کر یہ بھی آگا ہ کر دیا کہ اس میں کس طرح عمل کر نا چاہئے ، اسی لئے انہوں نے ویسا کر دکھایا۔
اس میں معرفت وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے۔
اوپر جوحدیثیں پیش کی گئیں اس میں موسیٰ نبی نے خضر سے کہا کہ اللہ نے جو مجھے سکھایا اسی کو میں جانتا ہوں، تمہیں اللہ نے جو سکھایااس کو تم جانتے ہو، یہ اور بھی مثبت کرتی ہے۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ موسیٰ نبی اور خضر نے کشتی میں سفر کرتے وقت ایک چڑیا اپنی چونچ کے ذریعے دریا سے پانی کھینچا۔ اسے دیکھ کر خضر نے کہا: اے موسیٰ ! اس دریا سے یہ چڑیا جتنا پانی پیا اس سے بھی بہت کم ہی اللہ کے علم سے ہم دونوں کی عقل ہوگی۔ (دیکھئے بخاری کی احادیث: 122، 3401، 4725)
اس میں کسی قسم کی کوئی معرفت نہیں ہے۔ اس کو خضر نے کتنی خوبصورتی سے واضح کردی ہے۔
اس واقعے کے متعلق مفسروں نے ایک اور غلطی کی ہے، اس کو بھی جانتے چلیں۔
چند مفسروں اور مترجموں نے لکھا ہے ،خضر نے جس کو قتل کیا وہ ایک بچہ تھا۔ اس سے کئی شکوک پیدا ہو تے ہیں۔
کہا گیا ہے کہ وہ بچہ بڑا ہو کر اپنے والدین کو گمراہ کر دیگا، اس لئے اس کو خضر نے قتل کردیا۔
مستقبل میں ایک انسان بڑا گناہ کریگا، اسلئے وہ اس گناہ کوکر نے سے پہلے اس کو قتل کردینا کیا اللہ کا عدل ہوسکتا ہے؟ ایک معصوم بچے کو قتل کر دینا کیا انصاف ہے؟ایسا سوال اٹھ سکتا ہے ،اس سوال کے مناسبت سے کوئی جواب کوئی مفسرین دے نہیں سکا۔
اس لئے بچہ کہہ کر ترجمہ کر نے کے بجائے نوجوان کہہ کر اگر ترجمہ کیا جائے تو یہ سوال اٹھ نہیں سکتا۔اگر کہا جائے کہ وہ نوجوان اپنے والدین کو ہر روز ستایا کر تا تھا اور انہیں کافر بنانے کے لئے ظلم کیا کرتا تھاتواس وقت اس کو سزا دینا اللہ کا عدل ہوگا۔
بچہ کہہ کر دوسرے لوگ اور نوجوان کہہ ہم نے جو ترجمہ کیا ہے اس جگہ میں (18:74)غلام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظ کے کئی معنی ہیں۔
غلام، خدمتگار، لڑکا، نوجوان اور ہم عمرجیسے کئی معانی ہیں۔
لڑکے کے معنی سے اس کے ناکردہ گناہ پر ایک شخص کو سزا دی گئی کہنے سے، نوجوان کے معنی سے اس کے کئے ہوئے گناہ پر سزا دی گئی کہنا ہی اللہ کے عدل کے مناسب ہے۔
اس طرح معنی لینا حدیث سے ثابت ہے۔
ابن عمرؓ نے کہا کہ میں ایک غیر شادی شدہ، غلام، نوجوان رہا۔ (دیکھئے بخاری: 3739، 7031)
ابن عمرؓ نے کہا کہ میں ایک نوجوان ، غلام تھا۔ (دیکھئے بخاری کی حدیث: 6122)
ابوبکر کے بیٹے نوجوان اور غلام تھے۔ (بخاری: 5807)
نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ اس غلام کواس عورت سے نکاح کرو۔(بخاری: 3472)
حارثہ جب غلام تھے وہ جنگ میں مارے گئے۔(بخاری: 3982، 6550)
نبی کریم ؐ کے پاس خدمت کر نے والے یہودی غلام نے اسلام قبول کی۔(بخاری: 1356، 5657)
ان جگہوں میں غلام کے لفظ کو لڑکاکہنا بالکل نامناسب ہوگا۔
ان حدیثوں میں غلام کے لفظ کو نوجوان کا معنی دیا گیا ہے اسی طرح اوپر کی آیت میں پائی گئی لفظ کو بھی معنی دینا ہی ٹھیک ہوگا۔
بیعت اور معرفت وغیرہ اسلام میں نہیں ہے، اس کے بارے میں اور زیادہ جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 81، 182، 334وغیرہ دیکھئے!
273۔ معرفت اور جہالت
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode