271۔ موت کے دریا کا دستاویزی لچھا
اس18:9 آیت میں غار میں ٹہرنے والوں کے بارے میں کہتے وقت غار والے کہنے کے بجائے اللہ نے غار اور کتبہ والے کہا ہے۔
اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کی تاریخ کے ساتھ ایک کتبہ بہت ہی اہم مقام پایا ہے۔
کوئی ایک کتبہ انہوں نے رکھا ہوتا تواس کے لئے ہرگز ایسا کہا نہیں ہوگا۔ خاص کر ’’وہ کتبہ‘‘ کہنے کی وجہ سے وہ ایک اہم کتبہ ہی ہو سکتا ہے۔
وہ کتبہ ایک زمانے میں انکشاف ہو کر لوگوں کو ان میں موجود حقائق معلوم ہو نا چاہئے ، اسی لئے اللہ نے ایسا کہا ہوگا۔ اگر وہ کتبہ کسی کو نہ ملنا ہو تا تو ’’وہ کتبہ‘‘ کہہ کر اللہ اس کو اہمیت نہ دیا ہوتا۔
کئی سالوں سے دنیا کو نہ معلوم ہو سکا کہ وہ کتبہ کیا ہے؟لیکن اس کتبہ میں موجود خبریں اب منظر عام پر آچکی ہیں۔
’’موت کے دریا کا دستاویزی رول‘‘کے عنوان پر 1998واں سال کے ایک مہینے میں کئی بار بی بی سی دوردرشن سے اشاعت کی گئی تھی۔ اس میں جو خبریں سنائی گئی تھیں اس کو سن کر سب لوگ حیرت میں پڑ گئے۔
کہا جاتا ہے کہ اس واقعے کی پہلی اشاعت 1993 سال ہی میں دکھایا گیاتھا۔
اس کی ویڈیوکی مناظر onlinepj.inکے ویب سائٹ میں اشاعت کیا گیا ہے۔ اس کا پتہ ہے:
https://onlinepj.in/index.php/videos/online-videos/kadanthu-vantha-paathai/savukadal-sasanangal
اس کی تفصیل یہ ہے:
1947میں ایک دن ایک عرب چرواہا نے ایک بکری کے بچے کو جو گم ہوگئی تھی تلاش کر تے ہوئے موت کے دریا کنارے جورڈان کے پہاڑی علاقے کی طرف چل نکلا۔ اس حصہ کو کمران پہاڑی علاقہ کہاجاتا ہے۔
بکری کے بچے کو تلاش کر تے ہوئے وہ چرواہا ایک غار کے اندر گیا، وہاں مٹی کے برتنوں میں لپٹ کر رکھے ہوئے کھال میں دستاویز ات کو دیکھا۔ اس میں سے چند لے آکر اس نے اپنے باپ کے پاس جو ایک موچی تھا دکھایا۔دوسرے ہی دن باپ اور بیٹے دونوں مل کر غار میں موجود تمام دستاویزات کو سمیٹ کر گھر لے آگئے۔
اس لڑکے کے باپ نے اس پرانے کھال کو اپنے جوتے کے پیشے کے لئے استعمال کر لینا چاہا۔ ان کھالوں پر ہبر زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ ان الفاظ کا معانی نہ سمجھتے ہوئے اس کو اس زمانے میں جورڈان حکومت کے تحت رہنے والے مشرقی یروشیلم کے ایک قدیم کتاب کی دوکان والے کے پاس دکھایا۔
ذراسا ہبر زبان کا علم رکھنے والا وہ دوکاندار سمجھا کہ یہ لچھا کچھ قدیم خبریں رکھا ہوا ہے۔ اس لئے اس نے چند دیناروں کے عوض ان تمام لچھے کو اس موچی سے خرید لی۔
وہ دوکاندار عیسائی تھا، اس لئے اس نے اس لچھے کو اس شہر کے گرجا گھر میں سونپ دیا۔
اس موقع پر لچھے کی انکشاف کی خبر ظاہر ہو گئی۔اس میں موجود خبروں کو جاننے کے لئے یہود اور مسلمان مشتاق تھے۔
اس وقت جورڈان کے حکمراں حسین نے درخواست کی کہ اس دستاویزی لچھے کو مسلم، یہود اور عیسائی تینوں کے ایک گروہ کے پاس سونپ کر تفتیش کیا جائے۔
لیکن عیسائی پادریوں نے دعویٰ کیاکہ وہ ایک ذاتی جائداد ہے، اس لئے اس کو درمیان میں رکھنے کے لئے انہوں نے انکار کردیا۔ عیسائیوں میں بعض علماء کو بھی اس کو پڑھنے کے لئے موقع نہیں دیاگیا۔
درمیانی پانچ سالوں میں یروشیلم میں رہنے والے پادریوں نے چند گروہ بناکرکمران کی پہاڑی علاقے کے ان غاروں میں تلاش کر کے وہاں کے سارے دستاویزی لچھوں کواپنے قبضے میں کر لیا۔
1952 کی ماہ ستمبر میں تمام لچھے عیسائی پادریوں کے پاس پہنچ گئے۔اب اس کا شمار کیا گیا ہے کہ اس قسم کے پندرہ ہرزار دستی مسودہ دستیاب ہوئے ہیں۔
پچھلے پچا س سالوں سے ان دستاویزی لچھوں میں موجود خبریں چند مخصوص پادریوں کا ایک گروہ اس کو چھپاتے آیا۔
بعض عیسائی محقق اس کو پڑھنے کے لئے خواہش ظاہر کی تو انہیں موقع نہیں دیا گیا۔
دستاویزی لچھے پر قبضہ جمائے ہوئے گروہ میں سے کوئی ایک اگر مرگیا تو اس کے عوض اس گروہ کے لوگوں سے دوسرا ایک پادری منتخب کیا جاتا ہے، صرف اسی کو پڑھنے کے لئے اجازت دی جاتی تھی۔
اس طرح اس مدت تک اس دستاویزی لچھے کی خبریں رازداری سے رکھی گئی تھیں۔ اس راز کی حفاظت میں پوپ کی واٹیگن کا گروہ پیش پیش رہا تھا۔
کھال میں درج شدہ اس قدیم زمانے کی دستاویز مٹ جانے کی حالت کو آگئی۔ اس کو جانتے ہوئے رازدارانہ حفاظت کرنے والوں نے ان دستاویزوں کو مائکرو فلم بنالئے۔
اس کی ایک فوٹو کاپی امریکہ کے شہر لاس اینجلس کی ایک لائبرری کو بحفاظت بھیجا گیا۔
1990 میں اس لائبرری کوآئسمین نامی ایک دانشور کو صدر مقرر کیا گیا ۔ وہ پہلے ہی سے اس دستاویز پڑھنے کے خواہشمند تھے اور اس کے لئے ان کو موقع نہیں دیاگیا تھا۔
اب وہ اپنی اختیار میں رہنے والی لائبرری سے دستاویزی لچھے کی مائکرو فوٹوکو بڑی سائز میں بنا کر پڑھنے لگے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کو پڑھتے وقت انہیں بہت حیرت ہوئی۔ اور یہ بھی کہا کہ میں یہ بھی سمجھ گیا کہ اتنے زمانے تک ان دستاویزی لچھوں کو عیسائی گروہ نے دوسروں کو نہ دکھانے کا مقصد کیا تھا۔
مائیکل ویس نامی چکاگو یونیورسٹی کے ہبرو زبان کے پروفیسر کی مدد سے ان دستاویزی لچھوں میں سے جسے اہم سمجھا گیا ان میں سے سو دستاویزوں کو انگریزی میں ترجمہ کر کے چھاپاگیا۔
اس ڈاکومنٹری کے مخبر نے کہا کہ اس کتاب کی اشاعت عیسائی دنیا ہی کوہلا کر رکھدی۔ اور خاص کر عیسائی کلیساؤں کو ایسا جھٹکا لگا کہ ساکت ہوگئے۔
اس مخبر نے یہ بھی کہا کہ وہ اشاعت مغربی لوگوں کی مذہبی عقائد کو مسمارکردینے والی بن گئی۔ اس لئے یہ بھی اندیشہ تھا کہ ان دونوں دانشور وں پر قانونی کارروائی اٹھائی جائے گی۔
اس دوردرشن ڈاکو منٹری یہ بھی آگاہ کیا تھا کہ وہ دونوں دانشوروں نے کہا کہ اگر ویسا ہو گا بھی تو اس کو ہم سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں، اوراس سے ڈرکر ہم ایک بہت بڑی حقیقت کو دنیا سے چھپانا نہیں چاہتے۔
دستاویزی لچھے یہی کہتے ہیں کہ عیسائی کلیساؤں میں اب مسیح کے نام سے کئے جانے والے مذہبی رسم و رواج اور عبادات ابتدائی عیسائیوں کے درمیان واقع نہیں ہوا۔
اس رسم و رواج اور عیسیٰ کی تبلیغ و عقیدے کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان تمام چیزوں کو ’باؤل‘ نامی ایک شخص کے ذریعے بعد کے زمانے میں وجود میں آئی ہے۔
مختصراً اب جو مسیح کے نام سے کئے جانے والے تمام عیسائی عقیدے جھوٹے ہیں۔اس کو عیسیٰ کے بعد کے نسل میں جینے والے کسی بھی نیک لوگوں کے پاس دکھائی نہیں دی۔
اس طرح جب دانشور آئسمین نے کہا تو ایک یہودی سے اس کے متعلق بحث کیا گیا تو وہ یقینی انداز میں کہتا ہے کہ وہ اسلام کی تائید کرتی ہے۔اس مقام پر وہ بحث روک دیا گیا اور دوسرے مناظر دکھائے گئے۔
اسی طریقے سے مائیکل ویس نامی دانشور نے بھی گفتگو کرتے وقت کہتے ہیں کہ وہ اسلام کی یائید کر تی ہے۔ یہاں بھی مناظر بدل دئے گئے۔
چنانچہ یہ دستاویزی لچھے کس انداز سے قرآن مجید اور اسلام کو سچ ثابت کرتی ہیں ، ان کے کہنے کو عوام معلوم نہ کرسکے۔
ان خبروں سے ہمیں ایک حیرت کن سچائی معلوم ہوتی ہے۔
قرآن کئی جگہوں میں کہتا ہے کہ عیسیٰ ؑ کو اللہ نے انجیل نازل کی ۔لیکن عیسائیوں کے پاس وہ کتاب اب ہرگز موجود نہیں ہے۔
کیونکہ بائبل کی جدید عہدنامہ عیسیٰ کے بعد اللہ نے عطا نہیں کی۔ بلکہ عیسیٰ کے بارے میں دوسرے لوگوں نے جو لکھا تھا وہی جدید عہد نامہ ہے۔
بائبل میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی خوشخبری کو مسیح نے بیان کی۔(دیکھئے: متتے یو4:23، مارکو 1:14 )
اس طرح فیصلہ کرنے کے لئے مناسب وجہ ہے کہ جس کتاب الٰہی کو انہوں نے چھپایا اسی کو عیسیٰ کی راہ پر چلنے والے نیک لوگوں نے اس کو لئے ہوئے غار میں ٹہر گئے۔
ان لچھوں کو پڑھنے والے عیسائی دانشوروں کی رائے ہے کہ وہ قرآن سے مشابہ ہے۔
قرآن کئی جگہوں میں فرماتا ہے کہ انجیل نامی صحیفے کو قرآن مجید ثابت کرتا ہے۔
اس رائے کو ثابت کرتی ہے کہ اس کو پڑھنے والے پادری جان بوجھ کر اس کو چھپا دیا۔
اس رائے کو وہ بات اور بھی مضبوط کر تی ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں لکھے گئے کتاب کو اتنی زیادہ اہمیت دے کر اللہ فرمایا نہیں ہوگا۔
271۔ موت کے دریا کا دستاویزی لچھا
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode