270۔ آواز سے اور بغیر آواز کے پڑھ کر نماز ادا کرنا
اس آیت 17:110کا مطلب کیا ہے اور یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی ہے، اس میں دو رائے حدیثوں کی کتابوں میں جگہ پائی ہیں۔
عائشہؓ نے کہا کہ اللہ سے دعا کر نے کے بارے میں یہ آیت نازل کی گئی ہے۔ اس کو بخاری کی حدیث 4723، 6327، 7526وغیرہ میں درج کیا گیا ہے۔
صلوٰۃ کا معنی دعا بھی ہے اور نماز بھی ۔ اس لئے عائشہؓ نے اس کو دعا کے مطلب سے اس کے بارے میں جو کہا ہے اتاری گئی ہے وہی قابل قبول ہے۔
پہلے ہم نے اسی بنیاد پر تشریح کی تھی۔ لیکن عائشہؓ نے دوسری ایک وجہ بتانے سے وہ قابل قبول نہیں ہے۔
اگر یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہوتووہ یہی معنی دیتی ہے کہ آواز سے یا بغیر آواز کے دعا نہ کریں ، بلکہ درمیانی دھیمی آواز ہی سے دعا کریں۔
لیکن قرآن کی اس آیت 7:55 میں جو کہا گیا ہے اس دعا کی قاعدے کے خلاف ہی عائشہؓ کی وضاحت قرار پائی ہے۔
آیت نمبر 7:55 کہا گیا ہے کہ اپنے رب سے عاجزی کے ساتھ اور چھپے ہوئے انداز سے دعا کرو۔حد سے گزرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔
اس آیت میں اللہ سے پوشیدہ طور پر دعا کر نے کے لئے اللہ حکم فرماتا ہے۔ لیکن عائشہؓ کی وضاحت کے مطابق کہا گیا ہے کہ دھیمی آواز ہی سے دعا کرنی چاہئے اور پوشیدہ طور پر دعا نہ کریں۔
اوپر پوشیدہ طور پر دعا کر نے کو زور دینے والی حدیثیں موجود ہیں۔ ان دلیلوں کے خلاف بھی عائشہؓ کی وضاحت قرار پائی ہے۔
پوشیدہ طور پر دعا کرنے کو کہنے والی آیت 7:55 میں دعا کا لفظ جگہ پایا ہے۔ لیکن 17:110کی آیت میں وہ لفظ نہیں ہے۔ اس کے بدلے صلوٰۃ کا لفظ جگہ پایا ہے۔ یہ لفظ نماز کے معنی میں زیادہ اور دعا کے معنی میں کم استعمال کیا جاتا ہے۔
دو معنی دینے والے لفظ کو لے کر قانون کو سمجھنے سے زیادہ دعا کا ایک ہی معنی دینے والے لفظ کی آیت 7:55 کو قانون ماننا ہی مناسب دکھتا ہے۔
یہ آیت کس لئے نازل کی گئی ، اس کو ابن عباسؓ نے فرمایا ہے۔ یہ قول عائشہؓ کے قول سے مطابقت نہیں رکھتا۔
نبی کریم ؐ نے مکہ میں پوشیدہ طور پر تبلیغ کر نے کے زمانہ میں نماز پڑھتے وقت قرآن کو بلند آواز میں پڑھ کر نماز ادا کرتے تھے۔ مکہ میں مقیم مشرکوں نے جب اس کو سنا تو انہوں نے قرآن مجید پر، اس کو نازل کر نے والے اللہ پر، اس کو لے آنے والے نبی پرتنقید کرنے لگے۔ اس وقت ہی یہ آیت نازل ہوئی۔ اس میں کہا گیا کہ مشرکوں کو ناگوار گزرنے کی طرح بلند آواز سے نہ پڑھو، اورتمہارے مقتدیوں کو سنائی نہ دینے کی طرح آہستہ بھی نہ پڑھو۔ دونوں کے درمیان میانہ روی اختیار کرو۔
دیکھئے بخاری : 4722، 7490، 7525۔
ابن عباسؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ؐ نے اسلام کو پوشیدہ طور پر تبلیغ کر نے والے ابتدائی زمانے میں یہ حکم نازل کیا گیا۔یہی اس آیت 7:55 کے موافقت میں ہے۔
بعض گمراہوں نے حجت کررہے ہیں کہ آج کے زمانے میں نماز پڑھنے کا طریقہ اس �آیتکےبرخلافہے۔
چندنمازوںمیںبلندآوازسےاورچندنمازوںمیںبغیرآوازکےہمنمازاداکررہےہیں۔پھرسبنمازوںمیںکئیدعاؤںکوبغیرآوازکےپڑھتےآرہےہیں۔نبیکریمؐنےایساکیاہے۔
انکادعویٰہےکہایساپڑھنا اس آیت کے خلاف ہے اور ہر نماز میں آواز کے ساتھ بھی نہیں اور بغیر آواز کے بھی نہیں، بلکہ درمیانی آواز کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔
یہ مکہ کی ابتدائی حالات تھی، اس کے لئے تاریخی دلیل رہنے کی وجہ سے اب جو طریق کار ہے اس لحاظ سے نماز پڑھنا اس آیت کے خلاف نہیں ہے۔
270۔ آواز سے اور بغیر آواز کے پڑھ کر نماز ادا کرنا
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode