Sidebar

05
Sat, Jul
0 New Articles

269۔ اولیاء اور کرامات

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

269۔ اولیاء اور کرامات

کوئی بھی انسان جو انسان سے ہوسکتا ہے صرف وہی کام کر سکتا ہے۔ وہ کام جوصرف اللہ ہی سے ہوسکتا ہے اس کو کوئی بھی بزرگ نہیں کر سکتا۔یہ اسلام کا ایک اہم بنیادی عقیدہ ہے۔

مردوں کو زندہ کرنا، بے اولادوں کو اولاد دینا، خلا میں سے کوئی چیزبرآمد کرنا ،جادو سے ایک شئے کو ایک اور شئے سے تبدیل کرنا وغیرہ عمل کوئی بھی انسان نہیں کر سکتا۔ یہ بھی اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ اس طرح کر نے کی طاقت انسان کو عطا نہیں کی گئی۔ چالاکی کے ذریعے اس طرح لوگوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔

پھر بھی جو انسان سے نہیں ہوسکتا ایسے کئی کاموں کو اللہ کے رسولوں نے کیا ہے، اس کو یہ قرآنی آیتیں 2:60، 3:49، 5:110-114، 6:109، 7:73، 7:107، 7:108، 7:115-117 ، 7:133، 7:160، 10:81، 11:64، 13:38، 14:11، 17:59، 17:93، 20:20، 20:22، 20:69، 20:77، 21:69، 21:81، 21:82، 26:32، 26:33، 26:45، 26:63، 26:155، 27:10، 27:12، 27:17 ، 28:31، 28:32، 29:24، 29:50، 34:12، 37:98، 38:36، 38:37، 38:38، 40:78، 54:27، 91:13 کہتی ہیں۔

نبیوں کے معجزات کا انکار کر نے والا قرآن کا انکار کر نے والا ہوگا۔

اس لئے انہیں ایسا نہ سمجھ لینا کہ وہ جو چاہے کر نے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آؤ،اس کے متعلق تفصیل دیکھیں!

جواللہ کے رسول بھیجے جاتے ہیں وہ انسانوں ہی میں منتخب کئے جاتے ہیں۔ ہر قسم سے وہ لوگ انسان ہی رہے۔

ہر قسم سے اپنے ہی جیسا ایک انسان اپنے آپ کو اللہ کا رسول جب دعویٰ کر نے لگتا ہے تو لوگ اس کو قبول نہیں کرسکے۔

قرآن مجید بھی کہتا ہے کہ اس وجہ کو دکھا کر لوگوں نے اللہ کے رسولوں کا انکار کیاتھا۔ دیکھئے قرآنی آیت: 17:94، 23:33، 25:7، 36:15، 21:3، 23:47، 26:154، 26:186۔

انسانوں سے مقرر ہو نے والے رسول انسان ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہر زمانے میں لوگوں کی رائے یہی تھی کہ اللہ کا مقرر کردہ رسول انسانی حیثیت کے پرے ہی ہو نا چاہئے۔

لوگ اس طرح سوچنے میں بھی ایک بات تھی۔ اگر کوئی شخص کہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کو قبول کر نے میں تھوڑا پس و پیش ہو سکتا ہے۔کیونکہ اللہ کا رسول کہہ کر جھوٹا دعویٰ کر نے والوں کو بھی قبول کرنے کی نوبت آسکتی ہے۔

دوسرے انسانوں سے کسی بھی طور سے اللہ کا رسول مختلف ہونا چاہئے، ان لوگوں کی اس خواہش کو ایک حد تک اللہ بھی قبول کرلیتا ہے۔

اپنا رسول کہہ کر جسے بھی بھیجتا ہے وہ اللہ ہی کا رسول ہے ، اس کو ثابت کرانے کے لئے چند معجزات بھی انہیں دے کر بھیجتا ہے۔

ایسے معجزات جودوسرا کوئی انسان نہیں کرسکتا، جب وہ اس کو دیکھتا ہے تو اسے یہ ماننے کے لئے کہ وہ اللہ ہی کا رسول ہے ، نیک لوگوں کو کوئی پس و پیش نہیں ہو سکتی۔

آدمی سیدھی راہ پانے کے لئے بھیجے جانے والے اللہ کے رسولوں کو یہ ماننے کے لئے کہ یہ اللہ کے رسول ہی ہیں ، دلیل کے طور پر اللہ نے معجزات عطا کی ہے۔

اگر اللہ کے رسولوں کو معجزات نہ دئے گئے ہوں تو کوئی بھی شخص اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہہ کر دعویٰ کرنے کا موقع مل جائیگا۔

لیکن انبیاء جب بھی معجزہ دکھانا چاہیں یالوگ جب بھی معجزہ دیکھنا چاہیں ، ان تمام موقعوں پر نبی معجزہ دکھا نہیں سکتے۔

اللہ جس وقت اجازت دے گاصرف اسی وقت ہی وہ معجزہ دکھا سکتا ہے۔ معجزہ دکھانے کا اختیار اللہ ہی کے ہاتھوں میں ہے۔

اللہ کی اجازت کے بغیر انبیاء کسی بھی معجزے کو دکھا نہیں سکتے۔ اس کے لئے یہ آیتیں 13:38، 14:11 ، 40:78 گواہ ہیں۔

نبی کریم ؐ کے پاس چند دشمنوں نے یہ گزارش کی کہ چند معجزے کر کے دکھاؤ، اسے دیکھ کر ہم اسلام قبول کرتے ہیں۔ اللہ نے نبی کریم ؐ کو حکم دیا کہ تم ان سے کہہ دو کہ وہ اختیار میرے پاس نہیں ہے۔ اس کو تم ان آیتوں 17:90-93 میں دیکھ سکتے ہو۔

ان معجزوں کو کر دکھانا اللہ کے لئے کوئی دشوار نہیں تھی۔ ان سب کو کر دکھانے کے لئے انہوں نے گزارش نہیں کی، بلکہ ان میں سے کسی ایک کے لئے درخواست کی تھی۔اگر ایسا کر دکھاؤگے تو انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ؐ پر ایمان لے آئیں گے۔پھر بھی ان کی درخواست کے مطابق معجزات دکھانے کے لئے اللہ نے اجازت نہیں دی۔

معجزات دکھا نے والا اللہ ہی ہے۔جب وہ چاہتا ہے تو انسان کے ذریعے اس کو ظاہرکر تا ہے ۔ اس کو اور بھی وضاحت سے جاننے کے لئے موسیٰ نبی کے ذریعے ظاہر ہو نے والے چند معجزوں کو دیکھتے ہیں۔

اللہ نے موسیٰ نبی سے پوچھا کہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ انہوں نے کہا لاٹھی ہے۔ اللہ نے کہا کہ اس کو نیچے ڈالو۔ وہ فوراًسانپ بن گیا۔اس معجزے کو اللہ ہی نے واقع کر کے دکھایا۔ موسیٰ نبی نہیں جانتے تھے کہ وہ سانپ بن جائے گا۔ اس کو تم ان آیتوں 20:17-20 میں دیکھ سکتے ہو۔

پھر فرعون کے پاس جا کر موسیٰ نبی نے اس کو دعوت دے کر اسی معجزے کو اللہ کی اجازت سے کر دکھایا۔ اسے دیکھ کر فرعون نے کہا کہ یہ تو جادو ہے۔اور للکارنے لگا کہ ہمارے دیش کے جادوگروں کو بلا کر تمہارے ساتھ مقابلہ کر کے تمہیں ناکام کرکے دکھاتا ہوں ۔

جادوگر آئے۔ وہ اپنا جادو کر نے لگے۔ موسیٰ نبی کے پاس لاٹھی رہنے کے باوجود اس کو نیچے ڈال کر دشمنوں کو ناکام نہیں کیا۔ اللہ کے حکم کے لئے منتظر تھے۔ پہلے ہی اس کو سانپ بنا کر اللہ دکھانے کے باوجود پھر سے اللہ کی طرف سے حکم آنے کے بعد ہی موسیٰ نبی نے اس پر عمل کیا۔

اللہ کا حکم آنے کے بعد اس لاٹھی کو ڈالنے ہی سے جادوگروں کے شعبدہ بازی کو وہ نگل گئی۔ اس کو تم ان آیتوں میں 7:115,116,117دیکھ سکتے ہو۔

موسی نبی کے ہاتھ میں لاٹھی رہنے کے باوجود اس کو ڈالنے کا وقت آنے پر بھی انہوں نے لاٹھی کوخود سے نہیں ڈالا۔اللہ کی اجازت آنے پر ہی ڈالا۔

اسی طرح ایک اور واقعہ سنئے!

موسیٰ نبی کو دشمنوں نے جب بھگاتے ہوئے آئے تو وہ اپنی لاٹھی سے مار کر سمندر کو چیرا نہیں۔ اللہ مجھے راستہ دکھائے گا کہہ کر اللہ کی اجازت کے منتظر تھے۔’’ لاٹھی سے سمندر پر مارو‘‘حکم آنے کے بعد ہی وہ اپنی لاٹھی سے سمندر پرمارا۔ اللہ کے حکم کی وجہ ہی سے وہ معجزہ واقع ہوا۔ اس کو ان آیتوں 26:60-63 سے جان سکتے ہیں۔

اسی طرح موسیٰ نبی کی زندگی میں ہو نے والا ایک اور واقعہ سنئے۔

موسیٰ نبی کی قوم کو جب پیاس لگی تو وہ لوگ موسیٰ نبی کے پاس فریاد کر نے لگے۔ ہاتھ میں لاٹھی رہنے کے باوجود ضرورت کے وقت بھی اس کے ذریعے پانی کے چشمہ کو جاری نہیں کیا۔ بلکہ لوگوں کی پیاس کو اللہ سے فریادکر کے پانی مانگنے لگے۔ اللہ کا حکم آنے کے بعد ہی انہوں نے اپنی لاٹھی کواس چٹان پر مارا۔ اس میں سے چشمے ابلنے لگے۔ اس کو اس آیت 2:60 میں دیکھ سکتے ہو۔

عیسیٰ نبی نے مردے کو زندہ کرنے کی طرح کئی معجزوں کو کر دکھایا۔ اس کے بارے میں اللہ کہتا ہے کہ وہ میرے ہی اجازت سے واقع ہوا اور وہ عیسیٰ نبی سے نہیں ہوا۔اس کو ان آیتوں 3:49 اور 5:110 سے جان سکتے ہیں۔

لوگ جب بھی چاہیں نبیوں نے معجزہ نہیں دکھایا اور وہ خود بھی جب چاہیں معجزہ نہیں دکھا سکتے۔

معجزہ کر نے والا صرف اللہ ہی ہے ، اس کو سمجھنے کے لئے دوسرے انداز سے بھی ہمیں سوچنا چاہئے۔

نبی کریم ؐ سے پہلے بے شمار نبیوں کو بھیجا گیا تھا۔ ان میں اکثر نبیوں کو ان کے دشمنوں نے مار ڈالا۔

اس کو ان آیتوں 2:61،2:87، 2:91، 3:21، 3:112، 3:183 میں دیکھ سکتے ہیں۔

جب بھی چاہیں معجزہ دکھانے کی طاقت اگر نبیوں کو دیا گیا ہو تا تو وہ کیوں قتل کئے جاتے؟ اگر کوئی قتل کر نے کے لئے آتا ہو تو ہمارے پاس جو قوت ہے اس کو استعمال کر کے اس سے بچنے کی کوشش کرنا ہم پر فرض ہے۔ ہاتھوں کو باندھے ہوئے سر کو خم کر دینا دین میں اجازت نہیں ہے۔

معجزہ دکھانے کی طاقت نبیوں کے پاس اگر ہو تا تو جب بھی دشمن قتل کر نے کے لئے آتا توان کا فرض ہے کہ اس کو استعمال کر یں۔ اگر معجزے کو استعمال کئے ہو تے تو انہیں کوئی بھی قتل نہیں کیاہوتا۔ پھر بھی وہ قتل کردئے گئے۔ اس لئے اس سے ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ معجزہ دکھا نے کا اختیار اللہ کے سوا نبیوں کو یا دوسرے کسی کو بھی نہیں ہے۔

نبیوں نے جتنی تکلیف اٹھائی تھی اس کو قرآن نے کئی جگہوں پر کہا ہے۔

نبیوں کو مفلسی کا سامنا کر نا پڑا۔

سماج سے کنارہ کئے گئے۔

مارے گئے اور ان پر ظلم و ستم ڈھایا گیا۔

ملک سے بھگائے گئے۔

اس کو تم ان آیتوں 2:83-86 ،2:214، 6:17، 6:33، 6:34، 7:188، 12:110، 13:12، 38:41,42 میں دیکھ سکتے ہیں۔

اگر نبیوں کو معجزہ دکھانے کی قدرت ہو تا تو انہیں تکلیف کا سامنا کیوں کر نا پڑا؟ معجزہ دکھانے کی قدرت اگر انہیں دیا گیا ہوتا تواس قدرت کو وہ استعمال کرنا چاہئے تھا۔

اس سے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ معجزہ تمام اللہ کے اختیار میں ہے۔

کئی نبیوں نے مختلف جنگوں میں حصہ لیا تھا۔ ان میں کئی ساتھیوں کو کھونا پڑا۔ معجزہ دکھانے کی قدرت اگر ان کے پاس ہوتا توایسا ہوا نہ ہوگا۔کسی قسم کی نقصان کے بغیر وہ دشمنوں کو ہلاک کردئے ہوں گے۔

ہر انسان کی طرح نبیوں کو بھی کئی خاص حاجتیں اور خواہشیں تھیں۔ ان خواہشوں اور حاجتوں کو بھی ان کی معجزانہ قوت سے وہ پورا نہیں کر سکے۔اس بات کو قرآن مجید نے کئی جگہوں میں واضح کی ہے۔

یوسف نبی کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں پھینک دیا اور انہیں غلام بنا کر فروخت کردیا گیا ۔ اس کو یعقوب نبی نے نہ جان سکے اور نہ اس کو روک سکے۔ کئی سالوں تک بیٹے کی فرقت سے غمگین ہی رہے۔ اس کو ان آیتوں 12:84,85 سے معلوم کر سکتے ہیں۔

جو چاہیں اور جب چاہیں کر نے کی اگر یعقوب میں قدرت ہو تی تو کیا ایسا ہوسکتا تھا؟

یوسف نبی کچھ غلطی نہ کر نے کے باوجود قید میں ڈالے گئے۔ کئی سالوں تک قید ہی میں رہے۔ قید کو گئے بغیر یوسف نبی اپنے آپ کو بچانہیں سکے۔اس کو اس آیت 12:35کے ذریعے تم جان سکتے ہو۔

جو چاہیں اور جب چاہیں کر نے کی اگر یوسف میں قدرت ہو تی تو کیا ایسا ہوسکتا تھا؟

ایوب نبی بہت ہی سخت بیماری اور تکلیف میں مبتلا کئے گئے۔ اس تکلیف سے بچنے اور اس کو روکنے ایوب نبی سے نہیں ہوسکا۔اس کو ان آیتوں 21:83,84، 38:41 سے جان سکتے ہیں۔

ابراھیم نبی اللہ کے خلیل رہنے کے باوجود انہیں بڑھاپے تک بھی بچہ نہیں ہوا۔ سب لوگ جس عمر میں بچے کے لئے ترسینگے اس عمر میں اللہ نے ان کو بچہ نہیں دیا۔ جب وہ بڑھاپے کو پہنچے تو اس وقت ہی انہیں اللہ نے بچہ نوازا۔ اس کو ان آیتوں 14:39، 15:53,54 سے جان لے سکتے ہیں۔

جب وہ سمجھنے لگے کہ اب ہمیں بچہ پیدا ہو نہیں سکتا تو اسی بڑھاپے کے عمر میں اللہ نے انہیں بچوں کو نوازا۔ اپنی خواہش کے مطابق بچہ پیدا کر لینے کی اگر ان میں طاقت ہو تی تو جس عمر میں بچہ پانے کی خواہش ہو تی تو اسی جوانی کی عمر میں بچہ حاصل کرلئے ہوتے۔

زکریا نبی نے اپنے لئے ایک وارث کی دعا اللہ سے مانگتے رہنے کے باوجود وہ بڑھاپے کو پہنچنے کے بعد ہی اللہ نے انہیں بچہ عطا کیا۔ اس کو آیت نمبر 3:38، 3:39، 3:40، 19:2-9، 21:89,90 وغیرہ میں معلوم کر سکتے ہیں۔اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ نبیوں کو معجزہ عطا کر نے کے باوجود وہ جب چاہیں اپنے لئے ایک بچہ حاصل نہیں کرسکتے۔

نبیوں کو چند معجزہ عطا ہونے کی وجہ سے ایسا نہ سمجھ جانا کہ ان سے کچھ ناممکن نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوتو کئی انبیاء اور انہیں اختیار کر نے والے مفلسی میں تکلیف نہ اٹھائے ہوں گے۔

اللہ کے رسولوں کو چند معجزے عطا ہونیکے باوجود ان سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اسکو ان آیتوں 3:128، 6:17، 6:50، 6:57، 7:188، 10:49، 10:107، 11:31 کے ذریعے معلوم کر سکتے ہیں۔

جس طرح چندنبیوں کو معجزے عطا کیا جانا حقیقت ہے اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسرے معاملوں میں انہیں کوئی معجزانہ قوت نہیں ہے۔

نبیوں نے جو کچھ بھی معجزہ کیاوہ سب ان کا کیا ہوا نہیں ہے۔ معجزے دکھانے کی طاقت انہیں فطری طور پر عطا نہیں کیا گیا۔ لوگوں کے سامنے معجزے دکھانے کو اللہ جب چاہتا ہے نبیوں کے ذریعے کر دکھاتا ہے۔ معجزے کو سمجھنے کے لئے یہی ٹھیک طریقہ ہے

کوئی شخص ایک کام کو خود کر نے میں اور وہ کام ان کے ذریعے ظاہر ہو نے میں جو فرق ہے اس کو ان مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں۔

فرض کرو کہ تمام ڈاکٹر یقین کے ساتھ کہہ دیتے ہیں، کوما میں رہنے والا ایک انسان کسی حالت میں نہیں اٹھے گا ۔لیکن اگر وہ اچانک اٹھ کر بیٹھ جائے اور ہم سے خیریت دریافت کر نے لگے تو وہ ایک حیرت کن بات ہی ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ وہ بھی نہیں کہے گا کہ وہ اس کا معجزہ ہے اور ہم بھی نہیں کہیں گے۔ اس پر مہربانی فرما نے کے لئے یہ اللہ کا کیا ہوا معجزہ ہی کہیں گے۔

ایک شخص خود سوچ کر خود ہی منصوبہ بندی سے کرے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس نے کیا۔

ایک شخص پچاسویں درجہ کے بالا خانہ سے گر کر نہ مرا تو ہم اس کو کیا کہیں گے؟ وہ ایک حیرت کن بات ہونے میں کوئی شک نہیں۔ لیکن کیا وہ اس کا معجزہ ہوگا؟ یا اللہ نے اس کے ذریعے دکھایا ہوا معجزہ ہوگا؟

ہم اسی وقت اس کو معجزہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ جب چاہے پچاسویں درجہ سے نیچے گرے ، اور اس کو کچھ بھی نہ ہو۔ایسا وہ بھی نہ کہہ سکتا ہے اور دوسرا کوئی بھی نہیں کہہ سکتا ۔ہم اس کو ایسے ہی سمجھیں گے کہ اس کو ناگہاں اللہ نے حیرت انگیز طور پر مدد کی ہے۔

یہی حقیقت ہے کہ نبیوں کے ذریعے معجزے ظاہر ہوئے، سوائے اس کے وہ خود منصوبہ کر کے کوئی معجزے نہیں دکھائے۔

صرف نبیوں ہی سے نہیں بلکہ دوسروں سے بھی اور جانداروں سے بھی معجزے واقع ہوئے ہیں۔

ہدہد نامی پرندہ سلیمان نبی سے بات کیا ہے۔ دوسرے ملک میں حکمرانی کر نے والی ایک عورت کے بارے میں جان لیتا ہے۔ ان کی کارروائی کو معلوم کر کے سلیمان نبی سے کہتا ہے۔

دیکھئے آیت نمبر 27:20-28

اس کو ہم ایسا نہ سمجھیں گے کہ ہدہد نامی پرندہ انسانوں کی طرح عقل و تمیز رکھتی ہے۔ اور ایسا بھی نہیں سمجھیں گے کہ وہ ہد ہد پرندہی نے معجزہ دکھائی۔ ہم اس کو ایسا ہی سمجھیں گے کہ اللہ نے جو معجزہ دکھا نا چاہا تھا اس کو اس پرندے کے ذریعے ظاہر کیا۔

سلیمان نبی نے اپنی فوج کے ساتھ جا تے وقت چیونٹیوں کے گھر کی طرف گزرے۔ اس کو ان چیونٹیوں نے سمجھ لیا، اس کے بارے میں قرآن میں کہا گیا ہے۔

دیکھئے قرآنی آیت نمبر 27:18

اس کو ایسا نہ سمجھیں کہ ان چیونٹیوں کو بھی وہ طاقت تھی اورچیونٹیوں کو اس کو سمجھ لینے کی قوت عطا کی گئی تھی۔بلکہ اس موقع پراس کو اس طرح سمجھنا چاہئے کہ اللہ نے اپنی قدرت کو ان چیونٹیوں کے ذریعے ظاہر کی ہے۔

چیونٹی اور ہدہد کے ذریعے اپنے معجزے کو اللہ نے چند موقع پر جس طرح ظاہر کیا تھا اسی طرح نبیوں کے ذریعے بھی چند موقعوں پر معجزے کو ظاہر کیا ہے۔

پرندے اور چیونٹی تو ایک طرف ، اللہ نے دشمنوں کے پاس بھی معجزے ظاہر کیا ہے۔

سامری نامی شخص موسیٰ نبی کے زمانے میں تھا۔ اس نے سونے سے ایک بچھڑا بنا کر اس کوخون اور گوشت کا بچھڑے کی شکل دے کر اس سے آواز بھی نکالنے رکھا۔ دیکھئے آیت نمبر 20:88-90۔

ہم نے حاشیہ نمبر 19 میں تشریح کی ہے کہ سامری کو کوئی قدرت نہیں تھی۔

اتفاقی طور پر بعض لوگوں کی زندگی میں بھی معجزے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے وہ حقدار نہیں ہوں گے۔ پھر بھی نبیوں کے ذریعے ظاہر ہو نے والے معجزوں اوردوسروں کے ذریعے ظاہرہو نے والے معجزوں میں ایک لطیف سا فرق ہوتا ہے۔ وہ کیا ہے، آئے دیکھیں۔

معجزے دو قسم کے ہوتے ہیں۔

اللہ کی اجازت کے مطابق ہونے والے معجزے پہلی قسم کے ہیں۔

جس کے ذریعے معجزے واقع ہو تے ہیں ، اسی کے علم کے بغیر ہو نے والے معجزے دوسری قسم کے ہیں۔

اس دوسری قسم کے معجزے انسانوں میں کئی لوگوں کو واقع ہوئے ہیں۔ آج بھی ہو رہے ہیں۔ طبیبوں سے متروک مریض چند موقعوں پر پھر سے اٹھ بیٹھتے ہیں۔ ہوائی جہاز ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجا نے پرسب لوگ مرجانے کے بعد بھی کوئی بچہ زندہ جی اٹھتا ہے۔ ٹوٹے ہو ئے گھر کے ملبا میں پھنس کر مرے ہوئے لوگوں کے درمیان دس دن گزرنے کے بعد بھی کوئی آدمی زندہ بچایا جاتاہے۔ اس طرح کے معجزے کئی لوگوں کی زندگی میں واقع ہوا ہے۔

پچاسویں بالا خانہ سے نیچے گر کر بھی کوئی شخص زندہ بچ جاتا ہے،یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ لیکن اس کے نیچے گرنے سے پہلے یا نیچے گرتے وقت کوئی اس سے نہیں کہتا کہ تم اب نہیں مروگے۔ وہ نہیں جانتا کہ یہ ختم ہو نے تک وہ نہیں مرے گا۔

ایک شخص کے ذریعے واقع ہو نے والا معجزہ اسی کو خبر نہیں ہوتا۔ نبیوں کا معجزہ ویسا نہیں ہوتا۔

اللہ کی اجازت سے انبیاء معجزہ دکھا نے کی وجہ سے وہ معجزہ واقع ہو نے سے چند لمحے پہلے ہی انہیں اطلاع کی جا تی ہے کہ اب جو ہم لاٹھی نیچے ڈالیں گے تو وہ سانپ بن جائے گا۔ جو واقع ہو نے والا ہے اس کو پہلے ہی سے جانیں ہی تو اس کو دلیل بنا کر اپنی رسالت کو وہ ثابت کر سکتے ہیں۔

ورنہ لوگ اس کو اتفاقاً سمجھ کر جھٹلا دیں گے۔

اس لحاظ سے نبیوں کے معجزے دوسرے معجزوں سے مختلف ہو تے ہیں۔

بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ اللہ کی طرح کوئی کارساز نہیں ہوسکتا توابلیس کیسے ہمارے دلوں کے اندر گھس کر ہمیں گمراہ کرتا ہے؟ یہ بھی اللہ ہی کا عمل دکھتا ہے؟

یہ بھی ان کا سوال ہے کہ حدیثوں میں آتا ہے ، دجال بھی مرے ہوئے ایک آدمی کو زندہ کر ے گااور بھی کئی کام کر ے گا۔ جو انسان سے نہیں ہو سکتا اور اللہ ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے، اس کووہ لوگ کیسے انجام دیتے ہیں؟

کیا ابلیس کا کیا ہوا معجزہ اس کی طاقت سے ہوتا ہے؟ یا اللہ کی اجازت سے کیا جاتا ہے؟ اس کو پہلے ہم جان لینا ضروری ہے۔

ابلیس کو جب اللہ نے آسمانی دنیا سے نکال باہر کرتے وقت چند معجزوں سے گمراہ کر نے کی اجازت دے کر اس کو بھیجا تھا۔ اس کو قرآن مجید کی ان آیتوں 7:13-15، 15:34-38، 15:42، 16:98-100، 17:62-65 میں کہا گیا ہے۔

شیطانوں کو دل کے اندر گھس کر گمراہ کر نے کی طاقت بالکل نہیں ہے۔ اس نے اللہ سے گزارش کی کہ میں انسانوں کوگمراہ کرکے دکھاتا ہوں۔ مجھے اجازت اور مہلت دیا جائے۔ اللہ نے بھی اس کومہلت دیدی۔ پھر بھی اللہ نے یہ کہہ کر اس کو اجازت بخشی کہ مظبوط ارادے رکھنے والے لوگوں سے تم ہار جاؤگے۔

اللہ جب فرمایا ہے کہ اللہ نے خود اجازت دی ہے تو اس کو ایسا نہیں کہا جائے گا کہ شیطان اللہ کی طرح کار فرما ہے۔ اس پر بھروسہ کر نا اللہ کے ساتھ شریک کر نا نہیں ہے۔

جس طرح جو کام اللہ ہی کر سکتا ہے اس کونبیوں نے کیا کہنا اللہ کے ساتھ شرک ٹہرانا نہیں ہوسکتا ،اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ نبیوں سے واقع ہو نے والے معجزے اللہ کی اجازت کی بنیاد پر ہی واقع ہوئے ہیں۔ شیطان کے وسوسے بھی اللہ کی اجازت کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ چند کام جوصرف اللہ ہی کر سکتا ہے، اس کو دجال بھی کرے گا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کاموں کو کر نے کی اجازت اللہ نے انہیں دے رکھی ہے۔

لوگوں کو آزمانے کے لئے اللہ نے ابلیس کوجس طرح چند اختیار دے رکھی ہے اسی طرح دجال کو بھی دیا ہے۔ اس کو ماننا شرک ٹہرانا نہیں ہوگا۔

اگر اس طرح بھروسہ کر نے لگے کہ دجال جب چاہے معجزہ دکھا نے میں ماہر ہے تو وہی شرک ٹہرانا ہے۔

نبیوں نے اللہ کی اجازت کے ساتھ چند معجزے دکھائے ، اس کے لئے دلیل ہے۔ اسی طرح ابلیس اور دجال وغیرہ اللہ کی اجازت سے چند معجزے دکھائیں گے اس کی بھی دلیل ہے۔

اس طرح جن کے پاس اللہ کی اجازت کا دلیل ہے تو ان کے سوا کوئی دوسرا معجزہ دکھانہیں سکتا۔

اصحاب رسول ہو یا کوئی بھی بزرگ ہو اپنے زمانے میں کئے جانے والے معجزے جو درج کئے گئے ہیں وہ تمام جھوٹی کہانیاں ہیں۔

کیونکہ اگر کوئی معجزہ دکھانا چاہیں تو وہ اسی وقت معجزہ دکھا سکتا ہے جبکہ اللہ ان سے براہ راست بات کر کے اجازت دی ہو۔

دیکھئے قرآن کی آیتیں: 13:38، 14:11، 40:78۔

یہ آیتیں کہتی ہیں کہ اللہ کی اجازت کے ساتھ ہی انبیاء معجزہ دکھا سکتے ہیں۔

ہم نے مناسب دلائل کے ساتھ پہلے ہی سمجھا چکے کہ اللہ کی طرف سے حکم آنے کے بعد ہی انبیاء معجزہ دکھا سکتے ہیں، جو معجزے کی اجازت ملی ہے اس کو دوسری مرتبہ اگر کر نا ہو تو اس وقت بھی اللہ کی اجازت ملنا ضروری ہے، اور انہیں جو ملی ہے اس معجزے کے سوا دوسرا کچھ ان سے نہیں ہوسکتا۔

اس سے ہمیں کیامعلوم ہوتا ہے؟ کوئی معجزہ دکھا نا ہو تو وہ اللہ کے وحی کے تعلق میں ہونا چاہئے۔ یا اس کو وحی کے ذریعے اطلاع کیا جانا چاہئے کہ گمراہ کر نے کے لئے فلاں شخص فلاں کام کرے گا ۔

نبی کریم ؐ کے زمانے تک وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا۔ ان کے بعد کسی کو وحی نہیں آئے گی۔ کسی سے اللہ بات نہیں کرے گا۔ دوسرے جو غیر نبی ہیں اللہ سے اجازت لینے کا موقع نہیں پائیں گے، اس لئے وہ معجزہ دکھا نہیں سکتے۔ اس سے ہم بخوبی جان سکتے ہیں۔

اگر کوئی دعویٰ کرے کہ کوئی بزرگ معجزہ دکھاتے ہیں تو وہ ہمیں ان سوالوں کا جواب دینا چاہئے کہ کیا وہ بزرگ اللہ سے باتیں کیں؟ کیا اللہ نے انہیں اجازت دی ہے؟ کیا وہ اللہ کے رسول ہیں؟ کیا اس کے بعد بھی نبی آئیں گے؟

اللہ کے رسول اپنے کو اللہ کا رسول ثابت کر نے لئے دلیل کے ساتھ لوگوں سے ملنا چاہئے ، اسی لئے انہیں چند معجزے عطا کیا گیا۔ دوسروں کے لئے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔

انبیاء ہو یا کوئی بھی بزرگ ہو اگردرج کیا گیا ہو کہ انہوں نے معجزہ دکھائی تو اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ وہ جھوٹی کہانی ہے۔ وہ کسی بھی کتاب میں درج ہو ، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہ جھوٹ ہے۔

مثال کے طور پرایک واقعہ پیش کرتے ہیں۔

عمرؓ نے ساریہ کی صدارت میں ایک فوج جنگ کے لئے بھیجا۔ جب عمرؓ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے اپنے اس خطبہ کے درمیان کہنے لگے کہ اے ساریہ!اس پہاڑ کے اندر چلو۔ اے ساریہ! اس پہاڑ کے اندر چلو۔ جہاں جنگ چل رہی تھی اس مقام سے عمرؓ کے مقام تک ایک ماہ کی سفر کی دوری تھی۔ عمرؓ نے یہاں سے جو آواز دی اس کو سن کر سپہ سالار ساریہ نے پہاڑکے اندر چلے گئے۔ اس کے بعد ان کو فتح ملی۔ اس طرح وہ واقعہ سناتا ہے۔

یہ ابو نعیم کی دلائل النبوت ، بیہقی کی الاعتقاد اور بھی کئی کتابوں میں درج ہے۔ یہ تمام ضعیف قول ہیں۔

اگر وہ ضعیف بھی نہ ہوں تو اس کے معانی قرآن کے ساتھ ٹکراتا ہے۔

یہ واقعہ کہتا ہے کہ انسانی نظر جہاں تک نہ جانے کے فاصلہ میں واقع ہو نے والی ایک خبر کو عمرؓ نے جان لیا۔چنانچہ یہ واقعہ اس طرح معانی دیتا ہے کہ جوغیبی علم صرف اللہ ہی کو ہے وہ علم عمرؓ کو بھی تھی۔یہ صریح شرک ہے۔

غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں، اس کے سوا اس کو کوئی نہیں جانتا۔ (قرآن مجید: 6:59)

اللہ چند موقعوں پر بعض غیبی باتوں کو اپنے رسولوں کو سکھاتا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ جو اللہ انہیں سکھاتا ہے اس کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے۔ اس لئے ان لوگوں کو جو نبی نہیں ہیں، غیبی باتیں اللہ نہیں سکھائے گا۔ (دیکھئے قرآن مجید : 72:26)

عمرؓ اللہ کے رسول تو نہیں۔ اس لئے اللہ نے انہیں اس غیبی بات کو سکھایا نہیں ہوگا۔ راویوں کا سلسلہ ضعیف ہو نے اور وہ قرآن سے ٹکرانے کی وجہ سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ جھوٹی کہانیوں میں سے ایک ہے۔

شیعہ لوگ کئی جھوٹی کہانیوں کو مرتب کئے ہو ئے ہیں کہ ان کے امام کئی معجزہ دکھائے ہیں ۔ ان سب کوجھوٹی کہانیاں ثابت کرکے دلیلوں کے ذریعے انہیں باطل قرار دینے کے بجائے اس کے مقابلہ میں ان لوگوں نے بھی کرامت کے نام سے کہنے لگ گئے کہ ہمارے اماموں کو بھی اس طرح پیش آچکا ہے۔

جو نبی نہیں ہیں ان لوگوں کی معجزوں کے بارے میں اگر کہا جائے کہ وہ پہلی قسم کا معجزہ ہے تو اس کے لئے معتبر راوی ہوں تو اس پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔

انہیں کے علم کے بغیر چند معجزے واقع ہوں تو اسی کو ہم پہلی قسم کہتے ہیں۔ ان جیسے واقعات معتبر ہوں تو مان سکتے ہیں۔

یہ کسی کو بھی ہو سکتا ہے۔ غیر مسلم اور مسلموں میں برے لوگوں کو بھی ہو سکتا ہے۔ جس طرح دنیا میں عطا کی جانے والی خوش بختی اچھے برے کو نہیں دیکھتی ، اسی طرح اس جیسے معجزے بھی ہیں۔ اگر کسی کو یہ واقع ہوجائے تووہ اس کی دلیل نہیں ہے کہ وہ شخص اچھا آدمی ہے۔

انبیاء جب معجزہ دکھاتے ہیں توجس طرح وہ یہ جان کر کرتے ہیں کہ فلاں کام کررہے ہیں، اس طرح اگر کوئی کہے کہ اس کو ایک غیر نبی نے کیاتووہ جھوٹی کہانی ہی ہوگی۔

اکثر علماء کہتے ہیں کہ جو انہونی بات کسی نبی سے واقع ہوتو اس کو معجزہ کہتے ہیں اور وہی بات بزرگوں سے واقع ہو تواس کو کرامت کہتے ہیں۔ اس طرح تقسیم کر کے ماننا ہی سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ اس طرح فرق کرنا نہ قرآن میں کوئی دلیل ہے اور ناہی سنت نبوی میں ہے۔

قرآن سے یا سنت نبوی سے ان کے کہنے کے معانی میں کرامت کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے ، اس کے لئے کوئی دلیل سنائے بغیر اپنی دلی خواہش کے مطابق کوئی نام رکھ لینا دینی بات نہیں ہوسکتی۔

کرامت کی جھوٹی کہانی پر بھروسہ کر نے والے کوئی قابل قبول دلیل دکھائے بغیرکہتے ہیں کہ درگاہوں میں کئی لوگوں کو معجزے واقع ہوئے ہیں۔ وہ لوگ اسی باطل فلسفے کو دلیل کہتے ہیں۔

کوئی بھی بزرگ ہو زندہ رہتے وقت بھی کوئی کرامت نہیں کر سکتے، یہ اسلام کا عقیدہ ہے۔وہ مرنے کے بعد معجزہ دکھاتے ہیں کہنا ، کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟

نبی کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ انسان جب مر جاتا ہے تو اس کے کئے ہوئے اچھے اعمال صدقہ وخیرات، فائدہ مند تعلیم اور اپنے لئے دعا کر نے والی اچھی اولاد وغیرہ ان تینوں کے سوا اس کے دیگر اعمال ختم ہو جا تے ہیں۔

راوی: ابو ہریرہؓ

مسلم: 3358

قرآن مجیدکہتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد اس کے اور اس دنیا کے درمیان ایک رکاوٹ پیدا ہو جا تی ہے۔

آخر میں جب کسی کو موت آتی ہے تووہ کہے گا کہ یا اللہ! جس کو میں چھوڑ آیا ہوں اس میں کچھ نیکی کمانے کے لئے مجھے واپس بھیج دو۔ ہر گز نہیں، یہ صرف منہ کی باتیں ہیں جس کووہ کہتا ہے۔ وہ لوگ پھر سے زندہ کئے جا نے تک ان کے پیچھے ایک پردہ ہے۔

قرآن مجید : 23:99,100

اور بھی بے شمار دلیلیں موجود ہیں کہ مرنے والوں کو اس دنیا کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔

مرنے کے بعد کسی شخص کو اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں، اس کو جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 41, 79, 83, 298 وغیرہ دیکھئے!

مزید یہ کہ درگاہوں میں کرامات واقع ہوتے ہیں کہنے میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس طرح کرامات واقع ہوتے ہیں جیسے افواہ پھیلانے ہی کی وجہ سے وہ مشہور ہوتا ہے۔

فرض کرو کہ ایک درگاہ میں ایک ہزار آدمی جاکر مزید دولت کے لئے دعا مانگتے ہیں،ان میں سے ایک یا دو آدمی کو دولت حاصل ہو کر مالدار بن جاتے ہیں۔ باقی کے 998آدمی مالدار کیوں نہیں بنے؟ اس پر کوئی غور نہیں کرتا۔

مالدار بنے ہوئے وہ دو افراد ان 998 آدمیوں کابھی ملا کر تبلیغ کرتے ہیں۔ لیکن ناکام ہو نے والے 998 آدمی اگر کہدے کہ یہ کوئی اولی نہیں؟ تو معاملہ بگڑ جائے گا، اس لئے وہ لوگ منہ بند رکھتے ہیں۔

اسی وجہ سے درگاہوں میں یہ یقین پھیلا ہوا ہے کہ کرامات واقع ہو رہے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھتے آرہے ہیں کہ بچہ کے خواہشمند حضرات تمام درگاہوں کی زیارت کرنے کے باوجود آخرزندگی تک اس سعادت سے محروم رہتے ہیں اور بہت سے لوگ بچہ کے بغیر ہی مربھی جاتے ہیں۔

ہزار میں دو کے حساب سے صرف درگاہوں ہی میں نہیں، بلکہ مندروں میں اور گرجاؤں میں بھی کرامت واقع ہو تے رہتے ہیں۔ اور مزید کئی عبادت گاہوں میں بھی چلتے ہیں۔

اس طرح چلنے کی وجہ ہی سے مندروں ، گرجا گھروں میں درگاہوں میں جمع ہو نے والے نذرانوں سے زیادہ جمع ہو تے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ اپنی حاجت پوری ہو نے کے بعد ہی نذرانے پیش کئے جاتے ہیں۔

ان کے دعوے کے مطابق ایسا ہو جائے گا کہ مندروں اور گرجا گھروں میں جا کر دعا کرنا غلط نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی دلیل یہی ہے کہ درگاہوں میں کرامات واقع ہوا کر تے ہیں۔

ہزاروں میں دو اشخاص کوجو کرامات واقع ہوتے ہیں، وہ کیسے ہوتے ہیں ، اس کو بھی اگر ہم جان لیں تو یقین ہو جائے گا۔

ہر چیز واقع ہو نے کے لئے اللہ ایک وقت مقررکر رکھا ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو وہ چیز خودبخودظہور پذیر ہوجاتی ہے۔

جب وہ وقت آتا ہے اس وقت درگاہ میں رہنے والے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ درگاہ میں مدفون شخص کی کرامت ہے۔

جب وہ وقت آتا ہے اس وقت مندرمیں رہنے والے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ مندرکے اس دیوتاکی کرامت ہے۔

جب وہ وقت آتا ہے اس وقت گرجا گھرمیں رہنے والے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ عیسیٰ یا مریم کی کرامت ہے۔

یہ لوگ درگاہ یا چرچ یا مندر کو نہ بھی جائیں توجب اس کا وقت آجاتا ہے تو ان لوگوں کی حاجت انجام پاجاتی ہے۔ مناسب وقت جب آجاتا ہے تو ایک لمحہ آگے بھی نہیں جا سکتا اور پیچھے بھی ہٹ نہیں سکتا۔ اس کو ان آیتوں میں 7:34، 10:49، 16:61دیکھ سکتے ہو۔

ہر کام واقع ہو نے کے لئے اللہ نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے، وہ وقت آنے پر وہ خودبخود واقع ہوجاتا ہے۔

درگاہ کی عبادت گناہ ہے، وہ اللہ کے ساتھ شرک ٹہرانا ہے، اس طرح تبلیغ کر نے والوں کی حاجتیں بھی پوری ہوتی ہیں۔

درگاہ کی عبادت کر نے والوں کو بھی بچہ پیدا ہو تا ہے، اس کو مخالف کر نے والوں کو بھی پیدا ہو تا ہے۔ درگاہ کی عبادت کرنے والے بعض لوگ دولتمند ہو تے ہیں، اسی طرح اس کے مخالف اشخاص بھی دولتمند ہو تے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ اس کامناسب وقت آگیاہے۔ درگاہ کی عبادت کر نے والے اس پر غور کرنا چاہئے۔

اس لئے بزرگ لوگ دنیا میں زندہ رہتے وقت بھی کچھ کرامت کرنہیں سکتے، اگر وہ مرگئے تو معمولی سا کام بھی ان سے نہیں ہوسکتا۔ یہی حقیقت ہے۔

بزرگ کرامت دکھانے میں ماہر ہیں اور جو ارادہ کر تے ہیں اس کو کر دکھاتے ہیں ، اس طرح سوچنے والے مندرجہ ذیل حدیث کو دلیل پیش کر تے ہیں۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا :

اللہ فرماتا ہے کہ جس نے میرے اولیاء سے دشمنی کی اس سے میں جنگ کا اعلان کر تا ہوں۔ میری پسندیدہ عمل میں جس کو میں نے فرض کیا ، اس کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے میرا بندہ میری قرب کو حاصل نہیں کرتا۔میرا بندہ مزید(نفل) عبادتوں کے ذریعے میری طرف بڑھتا چلا آئے گا۔ میں اس کو چاہوں گا۔ جب میں اس کو چاہنے لگوں تو اس کے سننے والا کان، اس کی دیکھنے والی آنکھ، اس کے پکڑنے والا ہاتھ اور اس کے چلنے والا پاؤں بن جاؤں گا۔ وہ جو مانگے گا میںیقیناًاس کو دوں گا۔ اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے گا تو میں اس کی حفاظت کروں گا۔ ایک مومن کے جان کو قبض کر تے وقت جس طرح میں تردد کر تا ہوں اس طرح میں میرے کسی کام میں تردد نہیں کرتا۔ وہ تو موت کو پسند نہیں کرتا، میں بھی (موت کے ذریعے )اس کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتا۔

راوی: ابو ہریرہؓ

بخار: 6502

اس حدیث کوغلط انداز سے سمجھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ نبیوں کو جو معجزہ نہیں دیا گیا اس کو اللہ نے اولیاؤں کو عطاکیا ہے۔ اولیاء کی آنکھ اللہ کی آنکھ ہے۔ اللہ ایک ہی وقت میں ہرچیز کودیکھتا ہے اسی طرح اولیاء بھی دیکھتے ہیں۔ اولیاؤں کا کان اللہ ہی کا کان ہے۔ اللہ جس طرح ایک ہی وقت میں سب کی بات سنتا ہے اولیاء بھی اسی طرح سنتے ہیں۔

وہ لوگ کہتے ہیں کہ عبد القادر جیلانی، شاہ الحمید وغیرہ اولیاء نے اللہ کی طرح دیکھنے والے ہیں، اللہ کی طرح سننے والے ہیں ۔ اگروہ پکڑیں تو وہ ان کا ہاتھ نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ ہی کا ہاتھ ہے۔

ہم نے جو پہلے دلیلیں پیش کی تھیں اس کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ اسی ایک حدیث کو تھامے ہوئے حجت کر رہے ہیں۔

قبر پرستوں نے اس کو ایک بہت بڑی دلیل سمجھ کر پیش کر رہے ہیں کہ اللہ نے اولیاء کو اختیار اور کرامات بخشی ہے۔

اس حدیث کو سطحی طور پر دیکھا جائے تو اس طرح دکھائی دیتا ہے۔ لیکن قرآن کاجو وحدانیت کا عقید ہ ہے اسی کی مناسبت سے اس کی تشریح کرنا ضروری ہے۔

کیا اس کو براہ راست معنی دے سکتے ہیں؟ کیا اس کودوسری دلیلوں کے ساتھ بغیر اختلاف کے معنی لینا چاہئے؟اگر ہم براہ راست معنی لیں تو اس سے جو تباہی ہوگی، اس کو ذرا دیکھیں!

اللہ کے کئی اولیاء مارے گئے۔ اپاہج کر دئے گئے اور قتل بھی کردئے گئے۔ اولیاء ہی اللہ ہوں تو کیا اللہ مارا گیا؟ کیااللہ ہی اپاہج کر دیا گیا؟ کیا اللہ کی موت ہوئی؟ اگر اس پر وہ سوچنے لگیں تو انہیں سمجھ میں آجائے گی۔

ایک شخص پر بہت زیادہ محبت ہو تو اس جیسے لفظوں کو عام طور سے استعمال کیا جانا معمول ہے۔اگر کہا جائے کہ ’’یہ میرا دایاں ہاتھ ہے‘‘ تو اس کو ہم براہ راست معنی میں لے نہیں سکتے۔ اگر کہا جائے کہ ’’ہم ایک جاں دوجسم ہیں‘‘تو ہم اس کو بھی براہ راست معنی نہیں دیتے۔

ان کی لاعلمی کو سمجھانے کے لئے ایک اور حدیث کو پیش کر نا یہاں مناسب ہوگا۔

آخرت میں اللہ پوچھے گا: ’’جب میں بھوکا تھا تو تم نے کیوں مجھے کھانا نہیں کھلایا؟ جب میں پیاسا تھا تو تم نے کیوں مجھے پانی نہیں پلایا؟ جب میں بے لباس تھا تو تم نے کیوں مجھے لباس نہیں دلایا؟ ‘‘ اس پر بندہ کہے گا کہ ’’تم تو رب ہو۔ تمہیں بھوک اور پیاس کیسی؟ ‘‘ اس پر اللہ کہے گا کہ ’’ایک غریب جب بھوک سے مانگا تو اس وقت اگر تم اس کو کھانا کھلائے ہوتے تو تم وہاں مجھے پائے ہوتے۔‘‘

دیکھئے: مسلم: 5021

تو کیا بھکاری تمام اللہ ہیں؟ کیاان کے پاس وہ دعا کریں گے؟ کیا بھکاریوں کو درگاہ باندھوگے؟

کیا ہمارا ہاتھ اللہ کا ہاتھ بن جائے گا؟ کیا ہمارا کان اللہ کا کان بن جائے گا؟ کیاہماری آنکھ اللہ کی آنکھ بن جائے گی؟ اگر ایسا ہوتا توکیا اولیاؤں کو موت آئی ہوتی؟ اگر ایسا ہوتا تو وہ مر نے کے بعد جسے دفن کیا گیا وہ اللہ ہے؟

یہ لوگ جنہیں اولیاء کہتے ہیں ان سب کو اللہ کا دوست اور اللہ کی صفت والے کہتے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو انہیں موت کیوں آئی؟ اب بھی وہ لوگ زمین میں چلنا پھرنا چاہئے تھا۔ کیوں اتنے سارے اولیاء معمولی انسان کو مر نے کے بعد دفن کئے جانے کی طرح قبروں کے اندر مدفون کئے گئے ہیں؟

وہ انسان ہی کی کوئی بات ہو یا اللہ ہی کی بات ہوادبی انداز میں اور تشبیہ سے بولی گئی بات بھی ہوتی ہیں۔ اور براہ راست سمجھنے کی بھی بات ہوتی ہیں۔

جو براہ راست کہا گیا ہو اس کو براہ راست ہی سمجھنا چاہئے۔ جس کو تمثیل سے کہی گئی ہو تواس کو تمثیل ہی سمجھنا چاہئے۔

انسانی طریقے میں کسی کو اگر کہا جائے کہ یہ شیر ہے تو کیا ہم اس کو براہ راست شیر سمجھ جا ئیں گے؟ نہیں۔ بلکہ ہم یہی سمجھیں گے کہ وہ شیر کی طرح طاقت اور ہمت رکھنے والا ہے۔اس کو براہ راست معانی میں لینا نہیں چاہئے۔ تمثیل ہی سمجھنا چاہئے۔

اسی طرح ہم اپنی بیوی کو میری جان کہہ کر پیار سے مخاطب کر تے ہیں۔ تو کیا وہ ہماری جان بن جائے گی۔

اس کو ہم کس طرح سمجھیں گے؟ یہی سمجھیں گے کہ مجھے میری جان کتنی اہم ہے اسی طرح تم بھی مجھے اہم ہو۔

اسی طرح کے الفاظ اللہ استعمال کر تا ہے۔ اسی طرح ہم اس حدیث کو بھی سمجھنا چاہئے۔

مندرجہ بالا حدیث کی آخری حصہ ہی اس معانی کو واضح کردیتا ہے۔

اس کا آخری جملہ یہ ہے کہ وہ جومجھ سے مانگے گا میں ضرور دوں گا۔ اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے گا تو میں اس کی حفاظت کروں گا۔

اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں کچھ بھی نہیں چلے گا۔ ان کے پاس کرامات کچھ بھی واقع نہیں ہوگا۔ اگر وہ مجھ سے دعا کریں تو میں قبول کروں گا۔

ان سب سے بڑھ کراس کا براہ راست معنی اس آیت کے خلاف ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی کرامت کر نہیں سکتا ۔

درگاہ پرستی کی عبادت کو روا رکھنے والوں کے دیگر دعوے کس طرح غلط ہیں، اس کو جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 17، 41، 49، 79، 83، 100، 104،121، 122، 140، 141، 193،213، 215، 245، 298، 327، 397، 427، 471 وغیرہ دیکھئے!

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account