213۔ کیا بزرگوں کے پاس سفار ش کی درخواست کر سکتے ہیں؟
یہ آیتیں 10:18، 39:3 باطل خدا کے عقیدے کو سخت جواب دی ہیں۔
بعض مسلمان یہ دعویٰ کر تے ہوئے اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب تر کریں گے اوراللہ سے ہمارے لئے سفارش کریں گے،۔ جو دعا صرف اللہ کے پاس کرنا چاہئے تھا وہ مرے ہوئے لوگوں سے کر تے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’بزرگوں سے ہم لوگ جو دعا کر تے ہیں یہ نہیں کہتے کہ ان کے پاس قدرت ہے۔ اور یہی کہتے ہیں کہ وہ لوگ بھی اللہ کے بندے ہیں۔‘ ہمارا بھروسہ ہے کہ ’ وہ لوگ اللہ کا قرب حاصل کئے ہوئے ہیں، اس لئے وہ ہمیں اللہ سے قربت حاصل کر کے دیں گے‘ ۔’ہم اس کے منتظر نہیں ہیں کہ وہ لوگ خود سے کچھ کریں گے۔ اس طرح بھروسہ کر نا کیسے غلط ہوگا؟‘
سطحی طور پر اگر دیکھا گیا تواس میں کوئی نا انصافی دکھائی نہیں دیتی، پھر بھی وہ صحیح نہیں ہے۔
اللہ کی قدرت ان بزرگوں کو نہیں ہے ، یہ حقیقت ہے کہ اس کو وہ لوگ نہیں مانتے۔ لیکن اس حقیقت کو بھی انکار نہیں کر سکتے کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں ، ایک اور طریقے سے اللہ کے برابر کی قدرت ان بزرگوں کو ہے۔
کہیں سے بھی پکارو، کتنے لوگ بھی پکارو، جس وقت بھی پکارو، کسی زبان سے پکارو، وہ سب کچھ ایک ہی وقت میں جاننے کی قدرت صرف اللہ ہی کی ذات کو ہے۔ مگران لوگوں کا بھروسہ ہے کہ اسی طرح کی طاقت ان بزرگوں کو بھی ہے۔
اسی وجہ سے دنیا کے ہر حصے میں رہنے والے اکثر لوگ ان بزرگوں سے دعا کررہے ہیں۔ان لوگوں کا ماننا ہے کہ اپنی دعائیں جس طرح اللہ سنتا ہے اسی طرح وہ بزرگ بھی سنتے ہیں۔ایسا معلوم ہو تا ہے کہ وہ بزرگوں کو اللہ کے برابر مانتے ہیں۔
دوسروں کوکامل طور سے قدرت والا سمجھ لینا ہی صرف شرک نہیں ، بلکہ اگرکوئی سوچے کہ اللہ کی صفت میں کوئی ایک صفت بھی دوسروں کو ہے تو وہ بھی شرک ہی ہے۔ اس کو نا سمجھنے کی وجہ ہی سے وہ لوگ غیر اللہ سے دعا کر رہے ہیں۔
اسلام قبول نہ کرنے والے مکہ کے لوگ بزرگوں کے بارے میں جو ایمان رکھے ہوئے تھے اس کو یہ دونوں آیتیں10:18، 39:3 تشریح کرتی ہیں۔وہ بزرگوں کے پاس صرف اس لئے دعا کرتے تھے کہ وہ اللہ کے پاس سفارش کریں گے۔لیکن اللہ نے اس کو قبول نہ کر تے ہوئے انہیں کافر کہہ کر اعلان کر دیا۔
اس وقت مکہ میں جو مشرک تھے وہ لوگ ایک ہی معبود کو اختیار کئے ہوئے تھے۔اس ارادے سے کہ اس ایک ہی اللہ کے پاس سفارش کریں گے ، وہ چھوٹے چھوٹے معبودوں کو بنا رکھے تھے۔
آسمان بنانے والا اللہ ہی ہے، زمین کو پیداکر نے والا اللہ ہی ہے، رزق دینے والا اللہ ہی ہے، ہمیں پیدا کر نے والااللہ ہی ہے، سب کچھ بنانے والا اللہ ہی ہے، اسلام کو قبول نہ کرنے والے مکہ کے لوگوں کا یہی عقیدہ تھا۔ اسی بات کو یہ آیتیں (10:31، 23:84-89،29:61، 29:63، 31:25، 39:38، 43:9، 43:87 کہتی ہیں۔
اسلام کو قبول نہ کر نے والے مکہ کے لوگ اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ اس کی طاقت کو جان رکھے تھے۔ اسی بات کو یہ آیتیں یقین کے ساتھ کہتی ہیں۔
اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ درگاہ پرستی کر نے والوں کا عقیدہ اور مکہ کے مشرکوں کا عقیدہ دونوں ایک جیسا ہی ہے۔
اگر کہا جائے تو اسلام کو قبول نہ کر نے والے مکہ کے لوگوں کا عقیدہ درگاہ پرستوں کے عقیدے سے بہتر تھا۔ مکہ والے معمولی حالت ہی میں چھوٹے معبودوں کی پرستش کرتے تھے۔ اگرکوئی بڑا مسئلہ پیش آگیا تو وہ اللہ ہی کو پکارا کرتے تھے۔اس بات کو یہ آیتیں (6:40, 41، 6:63,64، 10:22، 17:67، 29:65،30:33,34، 31:32، 39:8، 39:49، 41:51) وغیرہ کہتی ہیں۔
بعض لوگ سوچ سکتے ہیں کہ اللہ سے سفارش کرنے والا جس کو مکہ والے کہتے تھے وہ تو ایک بے جان پتھر کے بت تھے، بزرگ نہیں تھے۔
یہ توایک بے بنیاد شک تھا۔
ہمیں جو حکم ملا ہے وہ اللہ کے سوا کسی کو اور کسی چیز کو پرستش نہ کریں۔ اس میں قبر اور بت میں تفریق کر نے کے لئے کوئی سند بھی نہیں اور نہ کوئی وجہ ہے۔ قبر اور بت سب برابر ہیں۔
بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ اسلام قبول نہ کر نے والے مکہ کے لوگ جس کی عبادت کر تے تھے وہ بروں کے بت ہی تھے۔ ہم تو بزرگ لوگوں کی قبروں ہی کی تو عبادت کر تے ہیں؟
یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ کیونکہ اسلام نہ قبول کر نے والے مکہ کے لوگ بھی اکثر نیک صالح لوگ اور نبیوں ہی کی پرستش کر تے تھے۔اس کو حدیث گواہ ہے۔
نبی کریم ؐنے جب مکہ پر فتح پائی تو کعبہ کے اندر ابراھیم ؑ اوراسماعیل ؐ کے مجسموں کو دیکھا۔ انہیں اپنی لاٹھی سے دور کر نے کے بعد ہی آپ اندر داخل ہوئے۔
راوی:ابن عباسؓ ۔ بخاری: 1601،3352، 4289۔
ایک اور روایت میں کہا گیا ہے کہ ابراھیم ؑ اورمریم ؑ کے بت تھے۔ (بخاری: 2351)
نیک بندوں سے دعا کرنا اور اس بھروسے کے ساتھ کہ وہ اللہ کے پاس سفارش کریں گے، ان کی پیروی کرنا اگر دین میں جائز ہوتا تو نبی کریم کوؐ ان نبیوں کے بتوں کو دورکرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ یہودو و نصارٰی پر اللہ کی لعنت ہو۔کیونکہ وہ لوگ اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنادیا ہے۔
راوی: عائشہؓ
بخاری: 436، 437،1390، 3454، 4441، 4444، 5816
نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تمہارے گھروں کو قبریں مت بناؤ۔ اور میرے مقبرے پر جشن نہ مناؤ۔
راوی : ابو ہریرہؓ ۔ ابو داؤد : 1746
نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی نیک آدمی اگر مرجائے تو اس کی قبر پر ایک عبادت گاہ تعمیر کر لیا۔ ان کی شکل بھی اس میں تراش لیا۔ اللہ کی مخلوق ہی میں وہی لوگ بہت خراب ہیں۔
راوی: عائشہؓ
بخاری: 427، 434، 1341، 3873
قبروں پر عمارت بنانا اور اس پر رنگ و روغن کر نا اور اس پر بیٹھنا ، نبی کریم ؐ نے منع فرمایا ہے۔
راوی: جابرؓ ۔ مسلم: 1765
اسلام کی نظر میں قبریں اور بت وغیرہ یکساں ہیں۔ یہ حدیثیں اس کے لئے سند ہیں۔
نبی کریم ؐ نے جب واضح طور پر کہہ دیا کہ قبر کی شکل میں بھی ہو تو وہ اللہ کی لعنت کے قابل ہی ہے۔پھر بھی اگر وہ کہیں کہ قبر کی پرستش کر سکتے ہیں تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ان کے دعوے میں کوئی عدل نہیں ہے۔
اعلیٰ عہدے میں رہنے والے ایک شخص کے قریب جانا یا ان سے ملاقات کرنا آسان نہیں ہے۔ ہمارے بارے میں ان سے سفارش کر نے کے لئے ایک دلال کو ہم مقرر کر لیتے ہیں۔ ان کے ذریعے ہم ہمارا کام بنا لیتے ہیں۔
قبر پرست لوگ اپنے اس عمل کو صحیح ثابت کر نے کی کوشش کر تے ہیں،یہ کہتے ہوئے کہ ان سے زیادہ بہت ہی اعلیٰ مقام میں رہنے والے اللہ سے ہم کیسے براہ راست مل سکتے ہیں؟ اسی لئے ہم بزرگوں کو استعمال کر لیتے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اعلیٰ عہدے پر رہنے والوں سے ہم براہ راست مل نہیں سکتے۔ ایک دلال کے ذریعے ہی ملنا ہو تا ہے۔ ایسے میں ہم اللہ سے کیسے براہ راست مل سکیں گے؟
ان کے برے اعمال کو شیطان اسی طرح خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ حقیقت میں یہ بھی ایک بے علم دعویٰ ہی ہے۔
یہ سچ ہے کہ اعلیٰ عہدے میں رہنے والوں سے ہم براہ راست نہیں مل سکتے۔ کیوں مل نہیں سکتے؟ اس لئے کہ اس حاکم کو ہمارے متعلق معلوم نہیں۔
اس حاکم کو جیسے ہمارے بارے میں نہیں معلوم کیا اسی طرح اللہ بھی ہمارے بارے میں نہیں جانتا؟ کیا وہ بزرگ لوگ ہمارے بارے میں کہنے کے بعد ہی اللہ ہمارے بارے میں جان سکتا ہے؟ اس طرح سوچنے سے وہ چوک گئے۔
ہر چیز کو جاننے والا ، ہر زمانے کا علم رکھنے والا،دل کے اندر جو چھپاہواہے اس کی باریک بینی بھی سمجھنے والا، اس زبردست رب کو اس کے غلاموں میں سے ایک حاکم کے برابری میں سمجھا جائے تو اس سے زیادہ ایک رذیل مثال کیا ہوسکتی ہے؟
ہمارے مقدمے کو ہم خود نہیں لڑتے۔ کسی وکیل کو ہم مقرر کر لیتے ہیں۔ان لوگوں کا سوال ہے ،اس لئے ہم ولیوں کو اللہ سے بحث کر نے والے وکیل سمجھیں تو اس میں کیا غلطی ہے؟
جج سے بحث کر نے کے لئے وکیل کی ضرورت تو ہے۔ وکیل اپنی حجت کی صلاحیت سے مجرم کو بے گناہ اور بے گناہ کو مجرم ثابت کر دیگا۔ اس پر یقین کر تے ہوئے جج بھی فیصلہ سنادے گا۔
کیا اللہ کی حیثیت جج کے برابر ہے؟ شاطر بحث کی بنیاد پر مجرم کو بے گناہ سمجھ کر فیصلہ سنانے والے جج کی طرح کیا اللہ بھی غلط فیصلہ سنائے گا؟
کون مجرم ہے ؟ اور کون بے گناہ؟ جیسے اس جج کو معلوم نہیں ہے، کیا اسی طرح اللہ کوبھی معلوم نہیں ہے؟
اللہ کے نیک بندوں کا کام بھی کیااس وکیل جیسا ہے؟ کیا وہ مجرموں کو اللہ کے پاس بے گناہ ثابت کر نے کے لئے بحث کریں گے؟ اگر نہیں تو وکیل کیوں؟
اگر اللہ کے بارے میں کچھ کہنا ہو تو وکیل، جج اور حاکم جیسے مثالوں کو چھوڑدینا چاہئے۔اللہ جیسا کچھ بھی نہیں، اس لئے اللہ خود کہتا ہے کہ اللہ کو کوئی مثال دے کر باتیں نہ کرو۔
اللہ کے لئے مثالیں بیان نہ کرو۔اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ (قرآن 16:74)
اس کے جیسا کچھ بھی نہیں۔ وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (قرآن 42:11)
اس کے برابر کوئی نہیں۔ (قرآن 112:4)
وہ ہمارے لئے مثالیں دیتا ہے۔ اس کو ہم نے جو پیدا کیا ہے اس کو وہ بھول گیا۔ (قرآن 36:78)
یہ آیتیں کہتی ہیں کہ اللہ کو کوئی مثالیں نہ دو۔
ہم جب کہتے ہیں کہ صرف اللہ کے پاس ہی مدد چاہو تو وہ ایک اورسوال اٹھاتے ہیں۔
ہماری زندگی میں ہم کئی ضروریات ہم جیسے انسانوں سے مانگ رہے ہیں۔ ایسا کوئی انسان نہیں جو نہیں مانگے۔ دوسروں کی مدد کے بغیر کوئی انسان اس دنیا میں جی نہیں سکتا۔ نبی کریم ؐ کے ساتھ ہر انسان دوسرے انسانوں سے مدد مانگنے والے ہی تھے۔
ان لوگوں کا سوال یہ ہے کہ ایک انسان جب دوسروں کی مدد کے بغیر جی نہیں سکتا تو مرے ہوئے بزرگوں سے مدد مانگنے میں کیا حرج ہے؟
اس کے متعلق تفصیل کے ساتھ اور وضاحت کے ساتھ سمجھانا ہمارا فرض ہے۔
نیک کاموں میں اور اللہ سے ڈرنے میں تم ایک دوسرے کی مدد کیاکرو۔گناہ میں اور سر کشی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ (قرآن 5:2)
اس آیت میں انسان ایک دوسرے کی مدد کر نے کے لئے اللہ نے اجازت دی ہے اور تاکید بھی کی ہے۔
یہ مانتے ہوئے کہ ایک انسان میں اللہ کی صفت موجود ہے، اس سے مدد مانگنے ہی کو اسلام روکتا ہے۔
مرے ہوئے شخص کو پکار کر جب کوئی مدد مانگتا ہے تویہ مانا جاتا ہے کہ اس میں اللہ کی صفت موجودہے۔ زندہ انسان کے پاس جو معمولی مدد مانگا جا تا ہے وہ اس جیسا نہیں ہوسکتا۔
ایک آدمی مرے ہوئے شخص سے التجا کر تا ہے کہ اپنی بیماری کو صحتیاب کردے۔ ایک اور شخص طبیب کے پاس جا کر اپنی بیماری کو دور کر نے کی درخواست کر تا ہے ۔ دونوں کو اگر سطحی طور پر دیکھا گیا تو دونوں ایک جیسا دکھائی دینے کے باوجود دونوں کے درمیان بہت سا فرق موجود ہے۔
طبیب کے پاس جانے والا اس طبیب کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔طبیب بھی اس کو دیکھتا ہے۔
لیکن مرے ہوئے شخص کے پاس جا نے والا اس کو آنکھوں سے نہیں دیکھتا۔ اللہ جس طرح غیب میں رہ کر اس کی نگہبانی کر تا ہے اسی طرح وہ بزرگ بھی اس کی نگرانی کر تے ہیں ، اس طرح ایمان رکھنے کی وجہ ہی سے ان کووہ پکارتا ہے۔
آنکھوں سے اوجھل رہتے ہوئے ہر چیز کی نگہبانی کر نے والے اللہ کی صفت کو مرے ہوئے شخص کو بھی وہ دے دیتا ہے۔ طبیب سے طلب کرنے والی امداد اس طرح کی نہیں ہے۔
طبیب سے مدد طلب کرنے والے کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ جب طبیب کے پاس جاتا ہے تو اس کا بھروسہ ہوتا ہے کہ وہ ممکن حد تک کوشش کر ے گا ۔ وہ کتنا بھی کوشش کر ے اور بہترین انداز کا علاج بھی کرے تواس کی کوشش ناکام بھی ہوسکتاہے۔ اگر وہ طبیب ارادہ کرے کہ اس کو کسی طرح صحتیاب کردے، ایسا ہو نا ضروری نہیں ہے۔
مرے ہوئے شخص کے پاس جانے والے کا عقیدہ ویسا نہیں ہوتا۔ ان کا ایمان ہوتا ہے کہ اگر یہ بزرگ ٹھان لے کہ ہمیں مدد کریں تو بے شک ہماری بیماری دور ہوجائے گی۔ ا ن کا ایمان ہے کہ اگر وہ چاہیں تو وہ ہو کر ہی رہے گا ۔یعنی وہ بزرگ ایسے سمجھے جارہے ہیں گویا کہ ان کی کوئی کمزوری نہیں ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں۔
جب ہم طبیب کے پاس جاتے ہیں تو یہی سمجھ کر جا تے ہیں کہ یہ طبیب ایک وقت ایک ہی شخص کا بات سن سکتا ہے، اگر ایک ہی وقت میں کئی لوگ اپنی بیماری کا اعلان کریں تو اس کو وہ طبیب سن نہیں سکے گا۔
لیکن مرے ہوئے شخص کے پاس جب کوئی جاتا ہے تو یہ جان کر ہی جاتا ہے کہ جب ایک آدمی مدد طلب کرتا ہے تو اسی وقت ان سے اور بھی کئی لوگ مدد طلب کر سکتے ہیں، دنیا کے ہر کونے سے انہیں پکار سکتے ہیں۔ یعنی وہ اسی بھروسے سے پکارتے ہیں کہ کہیں سے بھی پکارو اورکتنے ہی آدمی پکارو، یہ بزرگ سنتے ہیں۔ یہ صفت صرف اللہ ہی کی ذاتی صفت ہے۔
طبیب کی سننے کی طاقت اپنی ہی طاقت جیسا سمجھنے والا شخص مرے ہوئے آدمی کے سننے کی طاقت کو اللہ کے سننے کی طاقت کے برابر سمجھتا ہے۔
طبیب کی طبی طاقت کو ہم آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ نے انسان کو اس طرح کی طاقت عطا کیا ہے ، اس کے لئے دلیل بھی موجود ہے۔
مرے ہوئے لوگوں میں ایسی کوئی طاقت ہم دیکھ نہیں سکتے۔اس کی کوئی سندنہیں ہے کہ مرنے کے بعد ان میں ایسی کوئی طاقت پائی جاتی ہے۔اگر کہا گیا تو زندہ رہتے وقت ان کے پاس جو طاقت تھی مرنے کے بعد وہ بھی نہیں رہی، اس کے لئے سندیں موجود ہیں۔
دوا، گولیاں، انجکشن اورہتھیار وغیرہ چیزوں کے ذریعے ہی طبیب علاج کر تا ہے، اسے ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
لیکن مرا ہوا آدمی اس طرح کی کوئی چیز استعمال کئے بغیر اعتماد کیا جاتا ہے کہ جادوئی قوت سے وہ صحتیاب کر تا ہے۔ یعنی یہ عقیدہ رکھے ہوئے ہیں کہ اللہ ہی کی طرح مرے ہوئے بھی مدد پہنچاتے ہیں۔
ہم مثال ہی کے لئے طبیب کے پاس مدد چاہنے کے بارے میں کہا ہے۔کوئی وزیر کے پاس، حاکم کے پاس، سوداگر کے پاس، مزدور کے پاس، بیوپاری کے پاس یا کسی اور کے پاس جو مدد چاہتے ہیں وہ طبیب کے پاس مدد چاہنے جیسا ہی ہے۔
لیکن بزرگ، عارف اور صوفی وغیر ہ جیسے مانے جانے والوں کے پاس طلب کی جانے والی امدادایسالگتا ہے کہ اللہ کے
پاس مانگا جا رہا ہے۔اس اختلاف کو نہ سمجھنے کی وجہ ہی سے ایسے سوال اٹھا رہے ہیں۔
انسان ایک دوسرے سے مددلیتے وقت اور مدد دیتے وقت کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ کسی کو اللہ کی صفت حاصل ہے۔لیکن قبروں پر جا کرجب مدد مانگا جاتا ہے تواس وقت اس میں مدفون شخص کو اللہ کی صفت دے دیتے ہیں۔
درگاہ پرستی کی عبادت کو روا رکھنے والوں کے دیگر دعوے کس طرح غلط ہیں، اس کو جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 17، 41، 49، 79، 83، 100، 104،121، 122، 140، 141، 193، 215، 245، 269، 298، 327، 397، 427، 471 وغیرہ دیکھئے!
213۔ کیا بزرگوں کے پاس سفار ش کی درخواست کر سکتے ہیں؟
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode