202۔ صبح کا تارا؟ آواز دینے والا ستارہ؟
اس آیت (86:1) میں طارق پر قسم کھا یا گیا ہے۔ اس کی دوسری آیت میں کہاگیا ہے کہ طارق کیا ہے۔ یعنی اس سے ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ طارق ایک چمکتا ہوا تارا کانام ہے۔
صبح میں زوردار چمک کے ساتھ نظر آنے والا چمکتا ہوا تارا ہی طارق کہلاتا ہے۔ لغات میں بھی صبح کا تارا ہی کہا گیا ہے۔ رات بھر نظر نہ آ کر اچانک صبح میں روشنی دینے کی وجہ سے اس کو طارق (یعنی اچانک روشنی دینے والا) کہا گیا ہے۔
ہر روز ہر شخص کو نظر آنے والا ، ہر شخص کا جانا ہواچیز ہی کو یہ آیت کہتی ہے۔ طارق کو کوئی دوسرا معنی نہ دیں، اسی لئے اس کو چمکتا ہوا تارا بھی کہا گیا ہے۔
لیکن اس آیت کو نئے زمانے کے مطابق تشریح کرنے کے ارادے سے بعض لوگ اس کو نئے معنی دے رہے ہیں۔ یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ اس کا مطلب ہے آواز دینے والا، ستاروں میں آواز دینے والا دو لاکھ سے زیادہ ہے، اسی کو یہ آیت کہتی ہے۔
قرآن میں کئی سائنسی حقائق کہی گئیں ہیں۔ لیکن اس آیت کو یہ لوگ جو تشریح دیتے ہیں وہ قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ آیت کہتی ہے کہ طارق ایک مخصوص ستارے کا نام ہے۔ایسا کہنا کہ آواز دینے والے دو لاکھ ستاروں کے بارے میں یہ آیت کہتی ہے، زبردستی ٹھونسے جانے والا قیاس ہے۔
اور پھر سائنسدانوں نے انکشاف کر کے لوگوں کے نظروں کو نہ دکھائی دینے والے ستاروں کے بارے میں یہ لفظ نہیں کہتی ہے۔یہ لوگوں کے نظروں کو دکھائی دینے والاچمکدار تارا ہی ہے۔ اسکے بعد آنے والی دوسری آیت ہی اس کوواضح کرتی ہے۔
اسی لئے ہی ہم نے اس کو آواز دینے والا ستارہ کا معنی نہیں دیا۔ طارق کا معنی دروازہ کھٹکھٹانا، ہتھوڑے سے مارنابھی ہوتا ہے، اسی طرح اچانک آجانا، ناگہاں نظر آنااور کسی کو معلوم ہوئے بغیر آجانا وغیر ہ معنا بھی ہیں۔ اس لئے یہاں آواز دینے والاستارہ نامناسب معلوم ہوتا ہے۔
202۔ صبح کا تارا؟ آواز دینے والا ستارہ؟
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode