Sidebar

03
Thu, Jul
0 New Articles

‏193۔ وحدانیت کی لاعلمی

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏193۔ وحدانیت کی لاعلمی

‏اس آیت (8:17) میں اللہ کہتا ہے کہ جنگ بدر میں نبی کریم ؐ نے جودشمنوں پر پتھرپھینکا اس کو تم نے نہیں پھینکا بلکہ ہم ہی نے پھینکا۔ 

اللہ اور اس کے رسول ایک ہی ہیں کہہ کر وحدانیت کی بات کر نے والا ایک گمراہ گروہ اس کو دلیل بناکربیکار بکواس کر رہاہے۔ اس لئے یہ آیت کیا ‏کہتی ہے، اس کے بارے میں ہم تفصیل سے جان لینا چاہئے۔

ہم جانتے ہیں کہ جنگ بدر ہی نبی کریم ؐکی پہلی جنگ ہے۔ 

اسلامی سرگرمی کو بڑھانے والی اس جنگ میں اللہ نے بیشمار معجزات دکھا کر مسلمانوں کو فتح عطا کی۔ 

‏* ہزار فرشتوں کو اللہ نے میدان جنگ میں اتارا۔ (8:9) 

‏* چست ہو کرجنگ لڑنے کے لئے مسلمانوں کو ایک چھوٹی سی نیند دے کر ان کے دلوں میں سکون پیدا کیا۔ (8:11)

‏* اس رات بارش برسا کر انہیں پاکیزہ بنانے کے ساتھ ان کے قدموں کو بھی مضبوط کیا۔ (8:11) 

‏* فرشتوں نے بھی میدان میں اتر کر جنگ کی۔ (8:12)

‏* دشمنوں کے دل میں اللہ نے خوف پیدا کردیا۔ (8:12) 

ان سارے معجزات کے ساتھ ایک اور معجزہ کے بارے میں ہی اللہ نے اس آیت (8:17)میں فرمایا ہے۔

نبی کریم ؐ نے علیؓ سے فرمایا کہ مٹھی بھر سنگریزے لے آؤ۔ انہوں نے لے آیا۔ نبی کریم ؐ نے اس کو دشمنوں کے منہ کی طرف پھینکا۔ ہر ایک دشمنوں ‏کی آنکھوں میں وہ جا لگا۔ اس موقع پر ہی اللہ نے فرمایا کہ ’’جب تم نے پھینکاتو اس کو تم نے نہیں پھینکابلکہ ہم ہی نے پھینکا۔(طبرانی)

اسی کو اللہ نے مندرجہ بالا آیت میں ذکر کیا ہے۔ 

انسان پتھر پھینکنے سے جو نتیجہ نکلے گااس جیسا نتیجہ نکلنے کے بجائے اللہ جب پھینکتا ہے تو جو نتیجہ نکلے گا اس سے وہی نتیجہ نکلا۔ 

ان جیسے معجزات ہی کی وجہ سے وہ لوگ فتح پائے، اس کے سوا جنگ میں حصہ لینے والوں کی طاقت کی وجہ سے نہیں۔ اس کو احساس دلانے ہی کے ‏لئے اللہ نے اس طرح فرمایا ہے۔ 

ایسی واضح آیت ہی کو انہوں نے اپنے غلط عقیدے کے لئے دلیل بنا لئے ہیں۔ 

اس طرہ یہ کہ ’’اللہ اور نبی کریم ؐ الگ الگ نہیں ہیں، دونوں ایک ہی ہیں‘‘ اس طرح کابکواس بھی کر رہے ہیں۔اس کی مناسبت سے جھوٹی کہانیاں ‏بھی بکثرت انہوں نے بنا رکھی ہیں۔ عیسیٰ نبی کے معاملے میں عیسائیوں نے جو حد سے تجاؤذ کر گئے تھے اس سے بھی یہ گئے گزرے لوگ ہیں۔ 

اسلام کو ایک غلط وضع دینے والاان کا سردار ابن عربی نے دوسرے مذاہب سے وحدانیت کے عقیدے کو نقل کر کے اسلام کے اندر داخل کر نے ‏کی کوشش کی۔اس نے کہا کہ دکھائی دینے والی ہر چیز اللہ ہی ہے۔ اس کو بہت بڑا بزرگ ماننے والے بیوقوف بھی ہمارے سماج میں موجود ہیں۔

قرآن اور حدیث میں استعمال ہو نے والے ذومعنی جملوں کو غلط معنی د ے کر وہ لوگوں کو گمراہ کر نے کی کوشش کی۔ 

‏(ذومعنی والے آیتوں کو کس طرح سمجھنا چاہئے ، اس کو جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 86 دیکھئے!)

قرآن کی آیتوں کو یا حدیثوں کو موڑ کر اپنی بکواس کے لئے کیا کوئی نیاراستہ ڈھونڈ سکتا ہے؟اس بات کی تلاش کر نے والوں کو یہ آیت بہت بڑی سند ‏ثابت ہوئی۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ’’نبی کریم ؐ اگر انسان ہوتے تو ایک مٹھی سنگریزے سے کیاسارے دشمنوں کے منہ پر پھینک سکتے تھے؟محمد نبی خود اللہ ہوتے تو ہی ‏اس طرح پھینک سکتے تھے۔اللہ تو یہ کہتا ہے کہ انہوں نے جو پھینکا تھا اس کو ہم ہی نے پھینکاتھا۔ اسی لئے نبی کریم ؐاور اللہ ایک ہیں۔ ‘‘

شرک کے دروازے کو بالکل سختی سے بند کر نے والے اس دین میں ہی وہ لوگ کھیل رہے ہیں۔ 

لیکن یہ آیت ان کے دعوے کا بالکل خلاف ہے۔ 

‏’’اے محمد! تم یہ نہ سمجھ لینا کہ اگر میں سنگریزے پھینکوں تو دشمن بھاگ جائیں گے۔ بلکہ خصوصاً اس واقعہ میں جب تم نے پتھر پھینکا تو میری ‏قدرت سے میں نے اس کو بکھیر دیا‘‘ یہی اس آیت کا مفہوم ہے۔ 

یہ سمجھنے کے لئے کہ یہی اس آیت کا معنی ہے، ہم کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اسی آیت میں اس کی وجہ بھی موجود ہے۔ 

نبی کریم ؐ سنگریزے کو پھینک دینے کے متعلق کہنے سے پہلے اصحاب رسول جنگ میں دشمنوں کو کاٹ پھینکنے کو اللہ نے اس طرح فرماتا ہے: ’’تم نے ‏انہیں قتل نہیں کی، بلکہ اللہ ہی نے انہیں قتل کیا۔‘‘

اصحاب رسول اپنے تلوار وں اور نیزوں سے دشمنوں کو قتل کیا۔اصحاب رسول کے ہاتھوں سے کئے گئے اس دلیرانہ عمل کو اللہ اپنا کہہ رہا ہے۔ 

نبی کریم ؐ کے پتھر پھینکنے کے بارے میں جو جملہ استعمال کیا گیا تھا اسی طرح کا جملہ یہاں پر بھی اللہ نے استعمال کیا ہے۔ 

انہیں دعویٰ کر نا چاہئے تھا کہ صرف نبی کریم ؐ ہی نہیں بلکہ جنگ بدر میں شامل ہو نیوالے تمام اصحاب رسول بھی اللہ ہی تھے۔

اس طرح کہنے والے کہ اللہ ہی نبی اور نبی ہی اللہ ہے، انہیں اس طرح بھی کہنے کی نوبت آجا ئے گی کہ اللہ ہی اصحاب رسول اور رسول ہی اصحاب ‏رسول ہیں۔ 

جنگ بدر میں کئی صحابی مارے گئے۔ ان لوگوں کی احمقانہ دعوے کے مطابق یہ مطلب ہو جائے گا کہ اللہ ہی مارا گیا۔ 

‏’’دشمنوں کی فوجی طاقت میں تم تین میں ایک حصہ رہنے کے باوجود تم ہی کامیاب رہے۔ اسی مناسبت سے کئی قسم کی ماحول کو میں نے ہی پیدا ‏کیا۔‘‘اس رائے کو قائم کر نے کے لئے ہی اللہ نے اس طرح فرمایا ہے۔ 

اس کامیابی کو نبی کریم ؐ یاان کے اصحاب اپنی ذاتی کامیابی نہیں کہہ سکتے، اسی لئے اللہ نے جو معجزات دکھائے تھے اس کو پہلے کی آیت میں یاد دلایا ‏تھا۔ 

میں بھی تمہارے ہی جیساایک انسان ہوں، اس طرح صریح طور پر کہہ دینے کونبی کریم ؐ سے اللہ فرماتا ہے۔ (18:110)

نبی کریم ؐ کھاتے پیتے تھے،بیت الخلاء وغیرہ جا تے تھے، گھریلو زندگی بسر کر تے تھے، دوسروں کی طرح والدین سے پیدا ہوئے تھے، بیوی بچوں کو کھو ‏کر غمگین ہو تے تھے، تکلیفیں برداشت کرتے تھے، شہر چھوڑ کر جلا وطن ہوئے تھے، اپنے بیوی پر جب دشمن تہمت دھر ے تو سچائی کو نہ جانے ‏ہوئے تھے، ایک گروہ کی دعوت پر بھیجے جانے والے ستر صحابی مارے جائیں گے ، اس کو نہیں جانتے تھے اور غربت میں بسر کر تے تھے ،ایسے ‏ہزاروں واقعات کے ذریعے نبی کریم ؐ نے یہ ثابت کرچکے تھے کہ وہ ایک بشر ہی ہیں۔یہ جاننے کے باوجود بھی یہ لوگ بکواس کر رہے ہیں۔ 

نبی کریمؐ اور اصحاب رسول ہی نہیں بلکہ سب آدمیوں کے معاملے میں بھی اللہ نے ایسے جملے استعمال کیا ہے۔ 

اللہ ان (53:63,64) آیتوں میں پوچھتا ہے کہ اس بارے میں کہو جوتم بوتے ہو ۔ کیا تم ہی زراعت کر تے ہو یا ہم کرتے ہیں؟ 

انسان کی زراعت کے بارے میں کہنے کے بعد اللہ فرماتا ہے کہ حقیقت میں زراعت تم نہیں کر تے ہو، بلکہ ہم ہی کر تے ہیں۔ اب کہو کہ کیا تمام ‏کسان اللہ ہیں؟ کیا اس پر غورکرنا نہیں چاہئے؟ 

ہم ہی بیج بوتے ہیں، لیکن بوتے ہوئے بیج کو اگا کر ایک کے بدلے سواور اس سے بھی زیادہ جو اگاتا ہے وہ اس کی قدرت میں جمع ہے، اس کو ہم اچھی ‏طرح جانتے ہیں۔ 

اسی طرح مندرجہ بالا آیت کو بھی سمجھنا چاہئے۔ 

ایک اور زاویہ سے سوچا جائے توہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا یہ دعویٰ کتنی بیہودہ ہے۔

تم نے جب پھینکا

تم نے نہیں پھینکا

یہاں دو جملے استعمال ہوئے ہیں۔ جب تم نے پھینکا کہتے وقت اللہ مان لیتا ہے کہ وہ نبی کریمؐ ہیں۔جس کو اس نے مان لیا اسی کو یہ کہہ کر انکار بھی کرتا ‏ہے کہ تم نے نہیں پھینکا۔ 

اللہ کے کلام میں ہر گزاختلاف نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم کہیں کہ میں نے جب کھایا تو میں نے نہیں کھایاتو اس کو ہم بیہودگی کہہ سکتے ہیں۔

اگر وہ غور کرتے کہ اللہ کیسے اس طرح بے ربط بات کہہ سکتاہے تو اس معنی کو ٹھیک سے سمجھ سکتے ہیں، بکواس نہیں کریں گے۔

اس طرح استعمال ہو نے والے جملے کو ہم براہ راست معنی میں نہیں لیتے۔ دو اختلاف جملے کو دو الگ الگ معنی ہی لینا چاہئے۔ 

اگرکہا جائے کہ جب ہم زراعت کر تے ہیں توہم زراعت نہیں کرتے، اللہ ہی زراعت کر تا ہے، ان دونوں جگہوں میں ہم دو الگ معنی ہی سمجھتے ‏ہیں۔ 

یعنی کہ ہم جب( زراعت کرتے ہیں)بیج بوتے ہیں تو اس کو ہم نہیں اگاتے۔ 

اسی طرح ہم اس آیت کو بھی لینا چاہئے۔ 

تم نے جب پھینکا

تم نے نہیں پھینکا

یہاں مختلف دو جملوں میں ہر ایک جملہ مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ 

تم نے جب پھینکا یعنی’’ سنگریزے تم نے جب پھینکا‘‘

تم نے نہیں پھینکا یعنی ’’ہر ایک کے چہرے پر تم نے نہیں پہنچایا!‘‘

اس طرح معانی لوگے تو ہی بغیر کسی اختلاف کے ایک جملہ ترکیب پائے گا۔ 

اس طرح کے لفظوں کا استعمال ہر زبان کے ادب میں اور لوگوں کے بات چیت میں بھی پایا جا تا ہے۔ یہ بات صرف قرآن مجید تک ہی محدود ‏نہیں۔ 

اس قانون کے مطابق مندرجہ بالا آیت کا اگر معانی لیا جائے تومطلب نکلے گا ، پھینکنے والے نبی تھے اور اس کو لے جا کر پہنچانے والا اللہ تھا۔ اللہ نے ‏جو کیا تھا وہ الگ ہے اور اس کے رسول نے جو کیا تھا وہ الگ ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ اللہ الگ ہے اور رسول الگ ہے۔ 

بخاری کی حدیث 6502میں درج کیا گیا ہے ، اللہ فرماتا ہے کہ نفلی عبادت کے ذریعے جوبندہ میرے قریب آتا ہے تو اس کو میں پسند کر تا ‏ہوں۔اگر میں اس کو پسند کر لیا تو اس کی سننے والی کان بن جاتا ہوں، اس کی دیکھنے والی آنکھ بن جاتا ہوں، اس کا تھامنے والا ہاتھ بن جاتا ہوں، اور اس کا ‏چلنے والا پاؤں بن جاتا ہوں۔اس جیسی حدیث کو بھی انہوں نے اپنی گمراہی کے لئے سند بنالیا ہے۔ 

‏’’دیکھا آپ نے؟ اولیاء الگ اور اللہ الگ نہیں ہے۔ اللہ ہی نے اولیاء کا اوتار بنا ہوا ہے۔‘‘ اس طرح کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ‏ہیں۔

اللہ کے کئی ولی مارے گئے ہیں، اپاہج کئے گئے ہیں اور وفات بھی پائے ہیں۔ اگرولی ہی اللہ ہے تو کیا اللہ ہی مارا گیا؟ کیا اللہ ہی اپاہج کردیاگیا؟ کیا اللہ ہی ‏وفات پاگیا؟ اگر وہ اس طرح سوچے ہو تے تواس طرح بکواس نہیں کئے ہوتے۔ 

عام طور سے ایک شخص پر زیادہ چاہت ہو تواس کو دکھانے کے لئے اس جیسے الفاظ کو استعمال کیا جانا عام بات ہے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ شخص میراداہنا ‏ہاتھ ہے تو ہم اس کو براہ راست معنی میں نہیں لیتے۔ اگر کہا جائے کہ وہ ایک جان دو جسم ہیں تو اس کو بھی ہم براہ راست معنی میں نہیں سمجھتے۔

ان کی جہالت کو سمجھانے کے لئے ایک اور حدیث کوپیش کرنا یہاں موزوں ہے: 

آخرت میں اللہ پوچھے گا کہ’’جب میں بھوکا تھا توتو نے مجھے کھاناکیوں نہیں کھلایا؟ جب میں پیاسا تھاتو تو نے مجھے پانی کیوں نہیں پلایا؟ جب میں ‏کپڑے کے بغیرتھا تو تو نے مجھے کپڑا کیوں نہیں پہنایا؟ ‘‘تو بندہ کہے گا کہ’’ تم تو میرے رب ہو۔ تمہیں بھوک کیسے اور پیاس کیسے؟ ‘‘وہ سن کر اللہ ‏کہے گا:’’ بھوک کا مارا ایک غریب جب تجھ سے کھانا مانگا تو تواگر اس کو کھانا کھلایا ہو تا تو تو مجھے وہاں پاتا۔ (دیکھئے:مسلم 5021)

اگر ایسا ہوتو کیا تمام بھکاری اللہ ہے؟کیا ان کے پاس دعا کر سکتے ہیں؟ کیابھکاریوں کو درگاہ بن سکتے ہیں؟ 

اس کو جیسے ہم سمجھتے ہیں اسی طرح متشابہات (ذو معنی والے) آیتوں کو بھی سمجھنا چاہئے۔ 

گمراہ لوگ ہی متشابہات آیتوں کو غلط معنی سکھلائیں گے ، اس کو تفصیل سے جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 86دیکھئے!

درگاہ پرست عبادت کو روا رکھنے والوں کے دیگر دعوے کس طرح غلط ہیں، اس کو جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 17، 41، 49، 79، 83، 100، ‏‏104،121، 122، 140، 141، 213، 215، 245، 269، 298، 327، 397، 427، 471 وغیرہ دیکھئے! ‏

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account