171۔ کیا جانداروں کو ذبح کر کے کھانا انصاف ہے؟
ان 2:173، 5:3، 5:4، 6:118،6:119، 6:121، 6:145، 11:69، 16:5، 16:14، 16:115، 22:28، 22:36، 23:21، 35:12، 36:72، 40:79، 51:27 آیتوں میں اجازت دی گئی ہے کہ جانداروں کوذبح کر کے کھا سکتے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اجازت جانداروں پر رحم کے خلاف ہے۔ بالکل گہرائی سے اگر سوچیں توہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ انسانی نسل کے لئے ایک بھلائی پہنچانی والی اجازت ہے۔
یہ کہنے والے کہ جانداروں کوکھانے کے لئے نہ مارا جائے، اس کے لئے وہ لوگ یہ سبب دکھاتے ہیں کہ وہ جان پر ظلم کرنا ہے۔ اگر اس کو وہ جان پر ظلم کرنا کہیں تو اور بھی کئی باتوں کو وہ لوگ واضح کر نا چاہئے۔
1۔ جان پر ظلم کہنے والے جانداروں کو کھیتی کے کاموں میں اور باراٹھانے والے کاموں میں استعمال کر تے ہیں،کیا وہ جان پر ظلم ہے کہ نہیں؟
2۔ جان پر ظلم کہنے والے گائے جو بچھڑے کے لئے دودھ دیتی ہے اس کو فریب دے کر خود پی لیتے ہیں، کیا وہ جان پر ظلم ہے کہ نہیں؟
3۔ آج کی اس سائنسی دور میں تحقیق کیا گیا ہے کہ نباتات کو بھی جان ہے۔ نباتات اور سبزی وغیرہ کھانا کیا جان پر ظلم نہیں ہے؟
4۔عنقریب انکشاف کیا گیا ہے کہ آدمی جو پانی پیتا ہے اس میں بھی کروڑوں جراثیم پائے جاتے ہیں۔ان جانداروں کے ساتھ جو پانی پیا جا تا ہے کیا وہ جان پر ظلم نہیں ہے؟
5۔ مچھر، بچھو، سانپ جیسے کئی جانداروں کو انسان اپنی حفاظت کے لئے جو مارتا ہے کیا وہ جان پر ظلم نہیں؟
جانداروں کو نہ کھانے کا سبب جان پر ظلم ہی ہے تو مندرجہ بالا معاملوں میں بھی جان پر ظلم ہی ہے، اس کو ہم سوچنا چاہئے۔
جانداروں کو نہ کھانے کی وجہ جان پر ظلم ہی ہے تو جو اپنے آپ مرجا تا ہے ان جانوروں اور مچھلیوں سے کیوں اجتناب کیا جاتا ہے؟
مچھلی کے سوا کوئی بھی غذا نہ ملنے والے قطبی ممالک میں رہنے والے اگر اس اصول کی پیروی کریں تو کیا وہ اس دنیا میں زندہ رہ سکتے ہیں؟
اس طرح گوشت سے اجتناب کر نے والے نگاہ کی روشنی بڑھانے کے لئے مچھلی کا تیل استعمال کر تے ہیں۔ اس کو ان کا ضمیر قبول کر لیتا ہے۔
چنانچہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جان پر ظلم کا وجہ بتانا غلط بیانی ہے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ سبزی یا گوشت خوری دونوں قسم کے کھانے کو ہضم کر نے کے لحاظ سے انسان کا معدہ بنایا گیا ہے۔
اس طرح سوچنے سے ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ اپنی بھلائی کے لئے دوسری جانداروں کو تکلیف دینا اور مارنا انسانی نفس قبول کرلیتی ہے۔
نقلی طور سے اور قدیم لوگوں کی قول پر اندھی اعتماد کے بنا پر جان پر ظلم کی وجہ بتاکر گوشت خوری سے اجتناب کیا جا تا ہے۔
معائنے کے ذریعے ثابت کیا گیاہے کہ سلام کے طریقے پر جانداروں کو ذبح کر تے وقت انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی۔
جانداروں کوکھانے والے غیر مسلم انہیں پانی میں ڈبوکر یا گلا دبا کر یا لاٹھی سے مار کر یا نیزے سے چبھوکر ایسے کئی طریقوں سے جانوروں کو مار دیتے ہیں۔
لیکن جانوروں کو ان طریقوں سے مارنے کو اسلام ملامت کر تا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ جانوروں کے حلق میں تیز چھری کے ذریعے ہی ذبح کر نا چاہئے۔
حلق بہت جلد کٹ جانے کی وجہ سے دماغ سے تعلق کٹ جاتی ہے۔قریبی انکشاف کہتا ہے کہ اس سے وہ جانور درد محسوس نہیں کرتا۔ خون کو باہر کر نے کے لئے بدن تڑپتا ہے، درد سے نہیں۔
جرمن کی ہنو ور یونیورسٹی میں ایک تفتیش کی گئی۔
اس تفتیش کے کر نے والے پروفیسر سولٹج اور ان کے نائب پروفیسر ڈاکٹر حاسم ہیں۔
انہوں نے جو تجربہ کیا اس کی تفصیل اور اس نتیجے کی تفصیل نیچے دیا گیا ہے۔
1) سب سے پہلے کھانے کے لئے ذبح کئے جانے والے جانوروں کو انتخاب کیا گیا۔
2) عمل جراحی کر کے ان جانوروں کے سرپر دماغ کو چھونے کی طرح کئی حصوں میں برقی آلہ لگایا گیا۔
3) ان کے احساسات واپس آنے کے ساتھ پوری طور پرصحت پانے کے لئے کئی ہفتوں تک ویسے ہی چھوڑدیاگیا۔
4) اس کے بعد آدھے تعداد کے جانوروں کو اسلامی حلال کے طریقے سے ذبح کیا گیا۔
5) باقی کے آدھے تعداد کے جانوروں کو مغربی ممالک کے طریقے سے کاٹا گیا۔
6) تجربہ کے دوران مارے گئے تمام جانوروں کو U.U.A اورU.E.A.درج کیا گیا۔ یعنی U.U.A کی دماغی حالت اور U.E.A. کی دلی کیفیت کو تصویر کھینچ کر دکھایاگیا۔
اب دیکھیں مندرجہ بالا تفتیش کا انجام اور اس کی تفصیلات۔
1) اسلامی حلال طریقے سے جانور جب ذبح کیا گیا تو پہلے تین منٹ تک U.U.A میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں گئی۔ ذبح کر نے کے پہلے کی حالت میں ہی وہ مسلسل رہی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جانور ذبح کر تے وقت وہ درد سے تڑپانہیں تھا۔
2) تین لمحوں کے بعد دوسرے تین لمحوں تک جانور گہری نیند یا بے حسی کے حالت میں پائے گئے، اس کو U.U.A نے درج کی۔ وہ حالت جسم سے باہرہونے والے زیادہ خون کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
3) مندرجہ بالا چھ لمحوں کے بعد U.U.A نے صفر کی حالت کو درج کی۔اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ ذبح کیا ہوا جانور کسی طرح کا درد یا تکلیف کا سامنا نہیں کیا۔
4) دماغ کی حالت کو صفر دکھا نے پر بھی دل کی دھڑکن رکے بغیر دھڑکتے رہنے کی وجہ سے اور جسم میں ہونے والے اینٹھن کی وجہ سے جسم سے پورا خون باہر نکل جا تا ہے۔ اس لئے اس کا گوشت کھانے کے قابل تندرست ہو تا ہے۔
اس تفتیش سے معلوم ہو تا ہے کہ مغربی ممالک کے طریقے سے مارے جانے والے جانورتکلیف کا سامنا کر تے ہیں۔
1) اس طریقے سے مارے جانے والے جانورفوراً متزلزل ہو کر بے حس ہو جا تے ہیں۔
2) اس وقت جانور درد کی شدت سے جوایذا اٹھاتی ہے اس کو U.U.A دکھاتی ہے۔
3) اسی وقت جانوروں کے دل کو حلال طریقے سے ذبح کئے گئے جانوروں کے ساتھ موازنہ کر یں تو وہ پہلے ہی سے رک جاتاہے۔ اس لئے جسم میں بہت سارا خون ٹہر جاتا ہے۔ منجمد خون کا وہ گوشت کھانے کے قابل تندرست نہیں ہوتا۔
مندرجہ بالا تفتیش ثابت کر تی ہے کہ اسلامی حلال طریقہ ہی بہتر ہے اوروہ طریقہ ہی انسانی محبت کا طریقہ ہے۔
اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ جانوروں کو اسلام کے طریقے پر اگر ذبح کریں تو اس میں جانداروں کوکوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
اس کے بعد یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ اللہ کا نام لے کر جو ذبح کیاجاتا ہے ، اسی کو کھانا ہے ، اگر اس طرح نا م نہ لیاجائے تو نہیں کھانا چاہئے ، اس کی وجہ کیا ہے؟
عام طور سے کسی بھی جاندار کو کوئی بھی انسان بنا نہیں سکتا۔ ساری دنیا بھی اگر اکٹھا ہوجائے تو ایک چیونٹی بھی پیدا نہیں کر سکتی۔ ایسی صورت میں اللہ نے جو جاندار پیدا کیا ہے اس کو ہلاک کر نے کا حق کسی بھی انسان کو نہیں ہے۔
لیکن ان سب کا خالق اللہ ہی نے جب ان جانداروں کو ذبح کر کے کھانے کی اجازت دی ہے تو ہمیں کسی قسم کی خلش نہ ہونی چاہئے۔ مگر اس اجازت کو اگر استعمال کر نا ہو تو ہر ایک جاندار کو ذبح کر تے وقت بھی اجازت لینی ضروری ہے۔
وہ اجازت ہی بسم اللہ کہنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میں اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ، تیرے پیدا کئے ہوئے ایک جان کو ہلاک کر نے کے لئے یہ میں نے ذبح نہیں کیا، میں اس حد تک ظالم نہیں ہوں۔اس کا مطلب یہی ہے کہ اس جان دار کو پیدا کر نے والا توہی مجھے ذبح کر نے کی اجازت دینے کی وجہ سے میں اس کو ذبح کر تا ہوں۔ ورنہ میں جانوں کو مارنے والا نہیں ہوں۔
یہ وعدہ ہی ذبح کر نے کے لئے اجازت ہے۔اگر یہ نہ کہا گیا کہ اللہ کے نام ہی سے اس کو میں ذبح کر تا ہوں ، جانداروں کا حقیقی خالق سے اجازت نہ لینے کی وجہ سے اس کو کاٹنا اور کھانا گناہ ہوجا ئے گا۔
ایک شخص کے بکرے کو اگر ہم چرا کر کھاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہے کہ وہ جرم ہے۔ وہ آدمی اس کے گوشت ہی کا حقدار ہے۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس کی جان کا حقدار اللہ کے پاس بھی اجازت لینا ضروری ہے۔
عام طور سے خون کر نیکا عادی انسان کسی کو ڈرا دھمکا کر کام بنانے والا بدمعاش بن جاتا ہے۔ ہر روز بکرے کاٹنے والا ایک مسلمان اسطرح چھری دکھا کر دھمکی دینیوالا بدمعاش نہیں بن سکتا۔
اس کی وجہ بسم اللہ ہی ہے۔
اللہ کی اجازت رہنے کی وجہ ہی سے میں بکرے کاٹتا ہوں، اس طرح وہ ہر روز کہتے اور سوچتے رہتا ہے، اس لئے اس کے دل کی گہرائی میں یہ بات مضبوطی سے بیٹھ گئی ہے کہ اللہ نے انسان کو کاٹنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
اس طرح کی وجوہات کی بناہی پراسلام ہمیں رہنمائی کرتا ہے کہ بسم اللہ کہہ کر ذبح کر یں ۔ اس پر ہم غور کر یں تو اس وقت ہمیں یہی وجوہات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اور وجوہات بھی ہوسکتے ہیں۔
مچھلیوں کو کیوں ذبح کئے بغیر کھاتے ہیں؟ مرے ہوئے مچھلیوں کو کیوں کھاتے ہیں؟ اس طرح شک کر نے والے حاشیہ نمبر 505 دیکھیں۔
171۔ کیا جانداروں کو ذبح کر کے کھانا انصاف ہے؟
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode