159۔ سلام کہنے کا طریقہ
ایک سے ایک ملتے وقت جوسلام کہنا ہے اس کے بارے میں ان آیتوں میں کہا گیا ہے: 4:94، 6:54، 7:46، 10:10، 11:69، 13:24، 14:23، 15:52، 16:32، 19:33، 19:47، 19:62، 24:27، 24:61، 25:63، 25:75، 27:59، 28:55، 33:44، 33:56، 36:58، 37:79، 37:109، 37:120، 37:130، 37:181، 39:73، 43:89، 51:25، 56:26، 56:91، 97:5۔
مسلمان ایک سے ایک ملاقات کر تے وقت السلام علیکم کہہ کر کورنش بجا لاتے ہیں۔ نبی کریم ؐ نے بھی اس کو مروج کیا اور یہ طریقہ چودہ سو سالوں سے لگاتار چلا آرہا ہے۔
لیکن قرآن مجید میں چند آیتوں کو غور کرنے پر السلام علیکم کہنے کے بجائے دوسرے الفاظ کہنے کو رہنمائی کی گئی ہے۔
قرآن کی ان آیتوں (7:46، 13:24، 16:32، 39:73) میں کہا گیا ہے کہ جنت میں نیک لوگوں کو فرشتے سلام علیکم کہیں گے۔
اسی طرح اس آیت 6:54 میں کہا گیا ہے کہ سلام علیکم کہو۔
آیت نمبر 28:55 میں کہا گیا ہے کہ نیک لوگ سلام علیکم کہیں گے۔
لیکن ان آیتوں (10:10، 11:69، 14:23، 15:52، 19:32، 25:63، 25:75، 33:44، 36:58، 37:79،37:109، 37:120، 37:130، 37:181، 43:89، 51:25، 56:36) میں سلام علیکم کہنے کے بجائے صرف سلام کہا گیا ہے۔
اکثر مقامات پر سلام ہی ذکر کیا گیا ہے۔
آیت نمبر 19:47 کے ذریعے ہم جان سکتے ہیں کہ جب کسی کو سلام کریں تو سلام علیک کہہ سکتے ہیں۔
آیت نمبر 19:33 کے ذریعے ہم جان سکتے ہیں کہ سلام کے لفظ کے ساتھ ال ملا کر السلام بھی کہہ سکتے ہیں۔
جب ایک کو ایک سلام کہتے ہیں تو قرآن مجید میں کہے مطابق صرف سلام کہیں یا السلام علیک کہیں ، دین میں غلط نہیں۔ قرآن مجید کی پیروی ہی اس کو مانا جائے گا۔
نبی کریم ؐ نے کئی مواقع پر السلام علیکم کہا ہے۔ اس طرح استعمال کر نا مندرجہ آیتوں کے خلاف نہیں ہے۔
کیونکہ سلام علیکم اور السلام علیکم ایک ہی جملہ کا دو الگ الگ انداز ہے۔ سلام علیکم کا مطلب ہے تم پر سلامتی ہو اور السلام علیکم کا مطلب ہے وہ سلامتی تم پر ہو۔
یعنی وہ اس طرح ترکیب پائی ہے کہ جس سلام کے بارے میں اللہ نے قرآن مجید میں کہا ہے وہ سلام تم پر پیش ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان جو سلام مروج ہے اس لفظ کا معنی بہت ہی گہرا ہے۔
قرآن مجید کی سکھلائی ہوئی یہ دعا کسی بھی وقت اور ہر ماحول میں استعمال کر نے کے قابل ہے۔
اس لفظ کا معنی ہے کہ تم پر سلامتی قائم ہو، اطمینانی قائم ہو، سکون قائم ہو، اللہ کی حفاظت قائم ہو وغیرہ۔
اس کو تم شادی کے گھروں میں مسرور سے رہنے والوں سے بھی بول سکتے ہو، غمگین رہنے والوں سے بھی بول سکتے ہو۔ دونوں گروہوں کے لئے سکون ضروری ہے۔
اس کو تم صبح بھی کہہ سکتے ہو، شام بھی کہہ سکتے ہو اور رات میں بھی کہہ سکتے ہو۔
بڑے چھوٹوں کو کہہ سکتے ہیں اور چھوٹے بڑوں کو کہہ سکتے ہیں۔
صحت مند مریضوں کو کہہ سکتے ہیں اورمریض صحت مندوں کو کہہ سکتے ہیں۔
طلباء استادوں کو اور استادطلباء کو، حاکم خدمت گاروں کو اور خدمت گار حاکموں کو کہہ سکتے ہیں۔
کسی قسم کی ذلت یا بے عزتی ہوئے بنا یہ السلام علیکم کا لفظ سب کی عزت کو محفوظ رکھنے والی ہے۔
دنیا بھر میں کئی قسم کی دعائیں مروج ہیں۔ چند دعااچھی صبح کے لئے ہوتی ہے۔ اس کو تم غم کے ماحول میں بول نہیں سکتے۔ وہ انہیں صدمہ پہنچا دے گی۔اچھی صبح کو تم شام میں یا رات میں بھی بول نہیں سکتے۔
اسی طرح ایک کو ایک بلند کرکے عزت کے انداز میںیاپوجا کے انداز میںیا پرستش کے انداز میں اگر سمجھا جائے وہ ایک انسان کی خودداری کو متاثر کر دے گی۔ بندگی، تعظیم ، نمستے اور نمسکار وغیرہ الفاظ کا معانی ہے تمہیں میں پوجتا ہوں۔ ایک انسان دوسرے انسان کو پوجنا خودداری کو زک پہنچا دے گا۔
اس طرح نہ ہوتے ہوئے ایک شخص کے لئے دوسرا ایک شخص اللہ سے دعا کرنے کے انداز میں ترکیب پایا ہوا یہ سلام اسلام کی ایک خاص خصوصیت ہے۔
اکثر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ صرف مسلمانوں ہی کو سلام کر نا چاہئے۔ اس وجہ سے غیر مسلموں سے ملاقات کے وقت سلام کہنے کو تامل کر تے ہوئے آداب، تسلیم یانمسکار وغیرہ خودداری کو زک پہنچانے والے الفاظ اوراللہ کے ساتھ شرک ٹہرانے والے الفاظ کہنے کی نوبت کو اپنے آپ پر تھوپ لیتے ہیں۔
اگر غیر مسلموں کو سلام نہ کہنے کا حکم ہو تو اس کو بے شک پیروی کر نے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی۔لیکن اللہ اور اس کے رسول نبی کریم ؐ نے ہمیں ایسا حکم نہیں دیا۔ بلکہ غیر مسلموں کوبھی سلام کہنے کے لئے واضح طور پر اجازت دے رکھی ہے۔
قرآن مجید کی ان آیتوں (2:130، 2:135، 3:95، 4:125، 6:161، 16:123، 22:78) میں اللہ نے تاکید کیا ہے کہ ابراھیم نبی کے طریقے کو مسلمان پیروی کر نا چاہئے۔
اسلام قبول نہ کر نے والے اپنے باپ کے لئے ابراھیم نبی نے ایک بار مغفرت طلب کی۔ معلوم ہوا کہ وہ غلط ہے تو انہوں نے اس سے ہٹ گئے۔ اللہ نے اس آیت 60:4 میں واضح طور پر فرماتا ہے کہ انہوں نے جو اپنے باپ کے لئے مغفرت چاہی تھی اس کے سوا ان کی دوسری ساری کارروائی میں مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ موجود ہے۔
آیت نمبر 19:47 کہتی ہے کہ ابراھیم نبی نے کہا: ’’تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے لئے میں میرے پروردگار سے مغفرت چاہوں گا۔وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ ‘‘
اللہ کو شرک ٹہرانے والے اپنے والدکو ابراھیم نبی نے سلام کیا، اس کو ہم ہمارے لئے ایک نمونہ بنا لینا چاہئے۔
بعض لوگ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ غیر مسلموں پر سلامتی کے لئے ہم کیسے دعا کر یں؟یہ سوال ہی غلط ہے۔
السلام علیکم کا مطلب ہے تم پر سلامتی ہو۔
اسلام کی طریقہ زندگی کو غیر مسلم اختیار کرلینے سے انہیں سلامتی ہو سکتی ہے، یہ مقصد بھی اس میں شامل ہے۔ غیر مسلم اس دنیوی زندگی کی بھلائیوں کوپا کر سلامتی حاصل کریں، یہ معنی بھی اس کے اندر موجود ہے۔ اس دنیا کی بھلائیاں غیر مسلموں کو حاصل ہو نے کے لئے ہم دعا کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے کچھ منع نہیں۔ اس لئے غیر مسلموں کو سلام کرنے سے منع کر نے کے لئے کوئی وجہ نہیں۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ ’’جاننے والوں کو اور نہ جاننے والوں کو بھی سلام کو پھیلاؤ۔‘‘(دیکھئے بخاری: 12، 28، 6236)
اگرصرف مسلمانوں کو سلام کر نے کا ہوتا تو نبی کریم ؐ فرما دئے ہو تے کہ تم جسے جانتے ہو اس کو سلام کرو۔ اس طرح نہ کہتے ہوئے عام طور سے کہہ دیا کہ تم جسے جانتے ہو اور نا بھی جانتے ہو سب کو سلام کرو۔
اگر ایک شخص کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں اس سے بھی ہم لاعلم ہیں۔ نبی کریم ؐ کا فرمان ہے کہ جان پہچان والے اور اجنبی میں کسی اختلاف کے بغیر سب کو سلام کرو ،اس سے ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ غیر مسلموں کو بھی سلام کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ ان آیتوں 25:63، 28:55 ، 43:88,89 میں اللہ ہمیں رہنمائی کر تا ہے کہ جاہل لوگ جب بات کریں تو سلام کہہ دیا کرو۔ غیر مسلموں سے بعض جاہل لوگ جب نبی کریم ؐ سے حجت کر نے لگتے تھے تو اسی کے بارے میں یہ آیت کہتی ہے۔
اس آیت کو سطحی طور پر دیکھنے سے بھی یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ غیر مسلموں کو بھی سلام کر سکتے ہیں۔
مندرجہ ذیل حدیث کو دلیل پیش کر کے وہ لوگ دعویٰ کر تے ہیں کہ غیر مسلموں کو سلام نہ کر نا چاہئے۔
’’نبی کریم ؐ نے کہا : اہل کتاب اگر تمہیں سلام کریں تو وعلیکم (یعنی تم پر بھی) کہہ دیا کرو۔ (بخاری: 6258)
نبی کریم ؐ کی اس فرمان سے کہ اہل کتاب اگر تمہیں سلام کریں تو وعلیکم (یعنی تم پر بھی) کہہ دیا کرو۔اس سے وہ ثابت کر تے ہیں کہ انہیں سلام نہ کہیں۔
نبی کریم ؐ کوئی وجہ بتائے بغیرعام طور سے ایک حکم سناتے ہیں تواس کو ہم پوری طرح سے قبول کر لینا چاہئے۔ اورکوئی سبب بتا کرنبی کریم ؐ نے اس کو روکیں تو اسے ہم رسمی رکاوٹ نہ سمجھیں۔ یہ تمام قانون ہر ایک کا قبول کیا ہوا ہے۔
اہل کتابوں کے سلام کو جواب دینے کے حد تک نبی کریم ؐ نے وعلیکم کہنے کو جو کہا تھا اس وجہ کو واضح کر دیا ہے۔
’’اگر یہودی تمہیں سلام کریں تو وہ (السلام علیک کہنے کے بجائے) اسسام علیک (یعنی لا کے لفظ کو حذف کر کے) کہتے ہیں۔ (اس کا مطلب ہے تم پر موت طاری ہوجائے۔)چنانچہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ تم وعلیک (تم پر بھی اسی طرح طاری ہوجائے) کہہ دو۔
(بخاری: 2935، 6024، 6030، 6256، 6257،6395، 6927، 9401)
یہود السلام کہنے کے بجائے اسسام کہنے کی وجہ ہی سے نبی کریم ؐ نے کہا کہ انہیں سلام کا لفظ نہ کہو ۔ اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ اگر وہ طریقے سے سلام کہیں تو ہم بھی انہیں طریقے سے جواب دے سکتے ہیں۔ ہم نے جو پہلے بغیر کسی اختلاف رائے کے دلیلیں پیش کی تھیں اسی انداز سے حدیثوں لینا بالکل ٹھیک طریقہ ہے۔
159۔ سلام کہنے کا طریقہ
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode