Sidebar

03
Thu, Jul
0 New Articles

 ‏114۔ نکاح کے ناقابل لوگوں سے اگر نکاح کی ہو تو

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

 ‏114۔ نکاح کے ناقابل لوگوں سے اگر نکاح کی ہو تو

اس(4:23) آیت میں کہا گیا ہے کہ دو بہنوں سے شادی نہیں کر ناچاہئے، جو ختم ہوگیا اس کے سوا۔

اس آیت کو بعض لوگ غلطی سے سمجھ کریہ خیال کر تے ہیں کہ پہلے ہی بیوی کی بہن سے اگر شادی کی ہو تو ان سے زندگی کی متواتر کو برقرار رکھ سکتے ‏ہیں۔ 

‏’’جو ختم ہو گیا اس کے سوا‘‘کا استثناء صرف دو بہنوں کو ایک ہی وقت میں نکاح کرنے کے متعلق ہی نہیں۔بلکہ پہلے یہ سمجھ جانا چاہئے کہ اس آیت ‏میں جو 13 باتیں کہی گئیں ہیں ان سب کے لئے عام ہے۔ 

مثال کے طور پر اپنی خاص بہن سے اگر شادی کی ہوتو اس میں یہ بھی ایک ہے۔جو کہا گیا ہے کہ ’’جو ختم ہو گیا اس کے سوا‘‘ یہ اس کے لئے بھی ‏موزوں ہے۔ 

فرض کرو کہ اسلام قبول کر نے سے پہلے کوئی شخص اپنی خاص بہن سے شادی کر لی ۔اگر سوال اٹھے کہ وہ اسلام قبول کر نے کے بعدکیا اس رشتے کو ‏قائم رکھ سکتا ہے تو سب لوگ یہی کہتے ہیں کہ نہیں رکھ سکتے۔ ’’جو ختم ہو گیا اس کے سوا‘‘کہنے کی وجہ سے کوئی یہ دعویٰ نہیں کر تا کہ پہلے کی اس ‏شادی کو قائم رکھ سکتے۔ 

غلط شادی کر نے کی وجہ سے جو گناہ سرزد ہوا ہے اس کو معاف تو کیا جا سکتا ہے ، لیکن اس گناہ کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ 

اسی طرح بڑی بہن اور چھوٹی بہن دونوں سے شادی کئے ہوئے مرد اگراسلام قبول کرلیں تو ان دونوں میں سے ایک کے ساتھ ہی زندگی جاری ‏رکھنا چاہئے۔ جو پہلے ہو چکا وہ گناہ معاف کر دیا جائے گا۔ 

‏’’جو ختم ہو گیا اس کے سوا‘‘کا مطلب ہے کہ نفرت انگیز عمل جوپہلے ہوچکا اس کے لئے سزا نہیں دی جائے گی۔ اسی عمل کو دوہرانے کی وہ اجازت ‏نہیں ہے۔ 

اسی طرح اس سے پہلے کی آیت 4:22 کہتی ہے کہ باپ کے بیوی سے بھی شادی نہ کریں۔ ’’جو ختم ہو گیا اس کے سوا‘‘کااستثناء اس آیت میں بھی ‏کہا گیا ہے۔ 

اسلام کے قبول کر نے سے پہلے یا اسلامی قانون کو جاننے سے پہلے اگر کوئی اپنے باپ کی بیوی سے شادی کی ہو تواس سے یہ نہ سمجھنا کہ اس رشتہ کو ‏جاری رکھ سکتے ہیں۔ بلکہ یہی سمجھنا کہ اب تک جو گناہ سرزد ہوا اللہ اس پر گرفت نہیں فرمائے گا۔ 

آج کے اس دور میں کئی ہندؤں نے اپنی بڑی بہن کی لڑکی سے شادی ہو نے کی صورت میں اسلام قبول فرمالیا ہے۔ وہ لوگ اسلام قبول کر نے کے ‏بعدقرآن کی منع کی ہوئی اس نا اہل شادی کی بندھن سے چھوٹ جانا چاہئے۔ ’’جو ختم ہو گیا اس کے سوا‘‘کو غلط انداز سے سمجھ کر غیرمناسب شادی ‏کوجاری نہ رکھیں۔ 

کیونکہ اس آیت (4:23) میں کہا گیا ہے کہ بہن کی لڑکی بھی شادی کر نے کے لئے ممانعت کی گئی ہے۔

ایک اور اہم چیزپر بھی ہم دھیان رکھنا چاہئے۔ غیر مناسب طریقے سے نکاح کر نے والے اس رشتہ سے الگ ہٹ جانے پر ہی وہ اسلام میں شامل ہو ‏سکتے ہیں، ایسا کوئی شرط نہیں۔ 

اگر اسلام کو قبول نہ کریں تو ہمیشگی کی جہنم نصیب ہوگی۔ اسلام کو قبول کر نے سے اس سے وہ نجات پا سکتے ہیں۔ 

نا مناسب شادی کے رشتے کو جاری رکھنے کی وجہ سے اگر اللہ نے اس کو معاف کر دیا تو وہ سزا سے بچ جائے گا۔ اگر اس کو معاف نہ کیا گیاتو اس گناہ کا ‏جو سزا ہے ، اسے وہ پائے گا۔ ہمیشگی کی جہنم نہیں ہوگی۔ 

روایتی مسلمان بن کر غلط طریقے کو اپنائے ہوئے مسلمانوں کی طرح ہی یہ سمجھا جائے گا۔ 

اس لئے صرف اس قانون کو ہم ان جیسوں کو کہنا چاہئے۔ ایسا نہیں کہنا چاہئے کہ رشتوں کو اگر توڑدو گے ہی تو اسلام میں داخل ہو سکوگے۔

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account