111۔ مزاحمت نہ ہونے والا تقسیم
اسلام کی قانون وراثت میں کسی کو چھ میں ایک حصہ، کسی کو تین میں ایک حصہ، کسی کو چار میں ایک حصہ، کسی کو دو میں ایک حصہ، کسی کو آٹھ میں ایک حصہ، کسی کو تین میں دو حصہ ، اس بنیاد پر مقرر کیا گیا ہے۔
اکثر موقعوں پر اس طرح تقسیم کر دینا ممکن ہو نے کے باوجود چند موقعوں پر اس طرح تقسیم کرنا ناممکن ہو جا تا ہے۔
جائداد سے حصے کی مقدار اگر زیادہ ہوتو اس وقت ہر ایک کو ملنے والے حصے میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ حصوں سے جائداد کی مقدار اگر زیادہ ہو تو اس وقت ملنے والے حصہ سے ہر ایک کو زیادہ ملنے کی نوبت آسکتی ہے۔
اس کو چند مثالوں سے ہم سمجھ سکتے ہیں۔
ایک روٹی ہے۔
اس کو یوسف نامی ایک شخص کو چار میں سے ایک حصہ
عمر نامی ایک شخص کو آٹھ میں سے ایک حصہ
خالد نامی ایک شخص کو آٹھ میں سے تین حصہ
عباس نامی ایک شخص کو دو میں سے ایک حصہ
اس طرح دینے کو ہم کہتے ہیں۔جیسا ہم کہتے ہیں اس طرح کیا سب کو دے سکتے ہیں؟
آٹھ میں سے ایک اور آٹھ میں سے دو اگر تقسیم کر نا ہو تو روٹی کو آٹھ ٹکڑے کر نا پڑے گا۔
اس میں چار میں سے ایک، روٹی کے ڈو ٹکڑے ہیں۔
اس میںآٹھ میں سے ایک ، روٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔
اس میں آٹھ میں سے تین ، روٹی کے تین ٹکڑے ہیں۔
اس میں دو میں سے ایک، روٹی کے چار ٹکڑے ہیں۔
سب ملا کر جمع کر و تو کل دس ٹکرے ہو تے ہیں۔ یہاں جو ہے وہ صرف آٹھ ٹکڑے ہی ہیں۔
مندرجہ بالا چار اشخاص کو بھی اوپر درج شدہ حساب کے مطابق تقسیم نہ کر نے کی نوبت پیدا ہو تی ہے۔
ان سب کو ملے ہوئے ٹکڑوں کی تعداد ایسے ہی قبول کر تے ہوئے روٹی کو آٹھ ٹکڑے کر نے کے بجائے اگر دس ٹکڑے کیا جائے تو سب کو یکساں انداز میں اثر ہوگا۔ یعنی روٹی کوآٹھ ٹکڑے کر نے کے بجائے دس ٹکڑے بناکر یوسف کو دو، عمر کو ایک، خالد کو تین اور عباس کو چار کے حساب سے تقسیم کر یں تو بغیر کچھ بچے چاروں کوروٹی بانٹ کر دے سکتے ہیں۔
لیکن یوسف کو آٹھ حصے رکھ کر اس میں دو ملنے کے بجائے دس حصے رکھ کر اس میں دو ملتے ہیں۔ اس سے اس کو بیس فیصد کم ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر ایک کو بیس فیصد کے حساب سے کم ملتا ہے۔
اس طرح ہر ایک کا حصہ یکساں کم ہوجا تا ہے۔ اس سے ایک متاثر ہو کر دوسرا متاثر نہ ہونے کی نوبت نہیں آئے گی۔
اسلام کی قانونِ وراثت میں بھی چند اوقات اس طرح تقسیم نہ کر نے کا موقع بھی آجاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو یہ تنقید کر نے کا موقع مل جائے گا کہ اللہ نے کیوں اس طرح کا قانوں بنایا جو ناممکن ہے؟ یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ اللہ جیسے کہا تھا اس طریقے سے بانٹ کر دکھاؤ۔
اس قانون کو بنانے والے اللہ کو سب کچھ معلوم ہے، اس لئے اللہ نے اس آیت میں موزوں الفاظ کو شامل کر کے کہتا ہے کہ اس طرح کی تنقید یں پیدا نہ ہوں ۔اور اس آیت میںیہ شرط بھی شامل کر دیا کہ یہ تقسیمات ایسی ہونی چاہئے کہ اس سے کوئی متاثر نہ ہوں۔
کسی کو تنقید کا موقع دئے بغیر اسی نے پہلے یہ کہہ دیا کہ چند اوقات میں ہوسکتا ہے کہ اس طرح تقسیم نہ کرپائیں گے اور اس طرح کے مواقع پر کوئی متاثر ہوئے بغیر تقسیم کر لینا چاہئے ۔
ایک عورت مرتے وقت
شوہر
دو لڑکیاں
والدہ
والد
وغیرہ کو چھوڑ کر جب جاتی ہے تو
شوہر کوچار میں سے ایک حصہ
دو لڑکیوں کوتین میں سے دو حصہ
والدہ کو چھ میں سے ایک حصہ
والد کو چھ میں سے ایک حصہ
اس طرح تقسیم کرنا قرآن کا قانون ہے۔
تین میں سے ایک حصہ اور چار میں سے ایک حصہ اگر دینا ہو تو دونوں کے درمیان بارہ حصوں میں کل جائداد کو تقسیم کیا جائے تو ہی ممکن ہے۔
بارہ حصہ بنا کر اس میں چار میں سے ایک حصہ (شوہر کو) 3
بارہ حصوں میں تین میں سے ایک حصہ (دو لڑکیوں کو) 8
بارہ حصوں میں چھ میں ایک حصہ (والد کو) 2
بارہ حصوں میں چھ میں ایک حصہ (والدہ کو) 2
اس طرح تقسیم کرو تو کل حصہ پندرہ ہو تے ہیں۔
بارہ حصے بنا کر مند رجہ بالا طریقے سے تقسیم کر و تو کل 15 حصوں کی ضرورت رہنے سے تین حصوں کی کمی پڑتی ہے۔ اس لئے کل جائداد کو 12 کے بجائے 15 حصے بنالیا جائے تو کسی کمی کے بغیر سب کو دے سکتے ہیں۔
بارہ حصوں میں اس رقم کو دیا جائے تو ہی ان ان کے لئے حصے مل سکتے ہیں۔ لیکن اب تو اس 15 حصوں ہی سے اوپر درج شدہ حصے دینے کی نوبت پیدا ہوئی ہے۔
اس طرح دینے سے اللہ نے جو حصہ ذکر کیا ہے وہ کسی کو نہیں ملے گا۔ 12میں 3 دوگے تو ہی وہ پاؤ حصہ ہو سکتا ہے۔15 میں3 دو گے تو وہ پاؤ حصہ نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح ہر ایک کا حصہ کم ہو جائے گا۔ ایک ہی شخص اگر ضد کیا کہ مجھے 12 میں 3 ہی چاہئے تو دوسرے متاثر ہوجائیں گے۔
اس صورت حال میں صرف چند لوگوں ہی کو، مثال کے طور پرصرف شوہر کو 12 حصوں میں 3 دے کر دوسروں کو کم کریں تو وہ دوسروں کو نقصان ہوگا۔
15 حصوں میں سے اگر تقسیم کر یں تو ان چاروں کو ان ان کے حساب کے مطابق تھوڑا سا کمی ہوگا۔ ایک شخص کو کم دے کر دوسروں کو زیادہ دینے کی نوبت نہیں آئے گی۔
اس طرح ان کے حصوں کے مطابق کچھ کم کر کے تقسیم کر نے ہی کے لئے ’’متاثرہوئے بغیر‘‘ کا لفظ اس آیت میں استعمال کیا گیا ہے۔
اس لئے نقصان کو جب سب لوگ برابری سے تقسیم کر لیتے ہیں تو اس سے کسی ایک کو اثر نہیں ہوگا ۔ اس جیسے صورت حال کے لئے ہی اللہ فرماتا ہے کہ ’’کسی کو متاثر کئے بغیر۔‘‘
اس انداز کی باریکی سے ضروری لفظوں کا استعمال کیا جانا یہ ثابت کر تی ہے کہ یہ اللہ ہی کا کلام ہے۔
111۔ مزاحمت نہ ہونے والا تقسیم
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode