108۔ مہر
ان آیتوں میں (2:236، 2:237، 4:4، 4:24,25، 4:127، 5:5، 33:50، 60:10) کہا گیا ہے کہ شادی کر تے وقت مرد اپنی بیوی کو مہر ادا کرنا چاہئے۔
ایک عورت اپنی ازدواجی زندگی کے ذریعے اس پر بیتنے والی نقصانات کا خیال کر تے ہوئے جتنا چاہے مہر پوچھ سکتی ہے، یہ اس کا حق ہے۔اس کو وہ اپنی ہی ملکیت میں رکھنے کی بھی اس کو حق ہے۔
ازدواجی زندگی میں بہت زیادہ نقصان اٹھانے والی عورت ہی ہیں۔ اپنا حسن اور جوانی کھونے کے بعد ہی وہ طلاق حاصل کر تی ہیں۔ اس حالت کو خیال کرتے ہوئے مہر کی رقم کو فیصلہ کر نے کا حق اسلام نے عورتوں کو دی ہے۔
مہر کی رقم کو جتنا چاہے عورتیں مانگ سکتی ہیں۔کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ ایک حد مقرر کریں کہ اتنا ہی مانگنا ہے ۔
اسلام نے عورتوں کو جو حق دے رکھی ہے اس کو انہوں نے استعمال نہ کر نے کی وجہ سے ان کی حالت دگر گوں ہوگئی ہے۔ انہوں نے مہر نہ پوچھنے کی وجہ سے مردوں کا جہیزمانگنے کا ظلم بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
دینے کی حیثیت رکھنے والے مرد مانگنے کی حد تک بے شرم بن گئے ہیں۔ جہیز نہ لو ، کہنے سے زیادہ تم عورتوں کو دو ، یہی سخت حکم ہے۔ اس کو سمجھنے والا کوئی سچا مسلمان کبھی جہیز مانگنے کی ہمت نہیں کرے گا۔
مرد ،عورتوں کو دینا ہی دانشمندی اور راست بازی ہے۔ کیونکہ ازدواجی زندگی میں عورتیں ہی زیادہ قربانی دیتے ہیں۔ بہت زیادہ تکلیفیں بھی وہی اٹھاتی ہیں۔ اس لئے عورتوں کو مرد دینا ہی انصاف ہے۔
شادی ہو نے کے بعد مرد اپنے ہی گھر میں، اپنے ماں اور باپ کے ساتھ ، عزیز و اقارب کے ساتھ رہتا ہے۔ لیکن اس سے عمر میں چھوٹی سی عورت اپنے ماں، باپ ، عزیزواقارب سب کچھ چھوڑکر اپنے خاوند کے گھر کو آجا تی ہے۔ اس قربانی کے لئے عورتوں ہی کو مرد لوگ عطا کر نا چاہئے۔
شادی کے بعد عورت کے لئے شوہر کچھ بھی خدمت نہیں کرتا۔ زیادہ سے زیادہ اس کی زندگی کے خرچ کے لئے ذمہ لیتا ہے۔ لیکن عورتیں تو اپنے شوہر کے لئے کھانا بنانا، کپڑے دھونا، گھر کو پاک و صاف رکھنا،صرف شوہر کے لئے ہی نہیں بلکہ شوہر کے رشتہ داروں کے لئے بھی خدمت بجا لانا، ایسے بہت سا بوجھ وہ اپنے سر میں لیتی ہے۔اس کے علاوہ بعض عورتوں کو اپنی ساس کی ظلموں کو بھی سہہ لینا پڑتا ہے۔ان ساری وجوہات کی بنا پر مرد لوگ ہی عورتوں کو عطا کر نا چاہئے۔
ازدواجی زندگی میں مبتلا ہو کر ایک عورت جب حاملہ ہو تی ہے تو مردوں کو کوئی تکلیف یا بوجھ سنبھالنا نہیں پڑتا۔ عورت ہی تکلیف اٹھاتی ہے۔ کچھ نہ کھانے کی حالت کو وہ پہنچ جاتی ہے ۔ فطری طور پر چلنے یا سونے کی تکلیف کو بھی وہ سہہ لیتی ہے۔ اس کے ساتھ موت کے دروازے تک پہنچ کر بچہ جن کر واپس آتی ہے۔ اس ایک وجہ کے لئے اس کو ایک کروڑبھی دیں تو کافی نہیں ہوگا۔
بچہ پیدا ہونے کے بعد بچہ کے لئے باپ کچھ نہیں کرتا۔ دودھ پلانا، پرورش کرنا، آنکھ جھپکے بنا اس کی حفاظت کر نا ایسے کئی بوجھ اس پر لادا گیا ہے۔ اس وجہ سے بھی مرد ، عورتوں کو مہر دینا عدل کے مطابق ہے۔
ایک کے بعد ایک بچے پیدا ہو تے گئے تو عورت اپنی تمام بہاروں کو کھو دینے کی حالت کو پہنچ جا تی ہے۔
انسانی ہمدردی رکھنے والا کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتاکہ عورتوں کو مرد ہی عطا کرنا چاہئے ۔
جہیز مانگنے کی بری عادت کی وجہ سے کئی برے انجام سماج میں پھیلا ہوا ہے۔ جہیز مانگنے والے اور اس کی حمایت کر نے والے ان سب برے انجاموں میں برابر کے حصہ دار ہیں۔
جہیز کی وجہ سے پندرھویں عمر ہی سے زندگی کے لئے ترسنے والی عورتیں تیس سال تک بھی ازدواجی زندگی سے محروم ہیں۔
اس کی وجہ سے بعض عورتیں گھر چھوڑکر ہی بھاگ جاتے ہیں، اور دھوکہ دئے جاتے ہیں۔ان میں سے بعض عورتیں طوائف گھروں میں بھی ڈھکیل دئے جاتے ہیں۔ ان گناہوں میں جہیز لینے والوں کو بھی ضرور ایک حصہ ہے۔
اس کی وجہ سے بعض عورتیں اسلام ہی کو دھتکا ر کر دوسری مذہب والوں کے ساتھ بھاگ جانے کی نوبت بھی آجا تی ہے۔
ازدواجی زندگی نہ ملنے کی امید میں اپنی جان کو خود ہی مٹانے والی عورتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ لڑکیوں کو جنم دینے والے بھی ایکساتھ خودکشی کر لیتے ہیں۔ جہیز مانگنے والے اس گناہ میں بھی برابر کے شامل ہیں۔
یہ سوچ کر کہ ازدواجی زندگی نہ ملے گی ، اگر کوئی بھاگ جائے تو اس کے گھر میں رہنے والی باقی عورتوں کو بھی زندگی نہ ملنے کی نوبت آجائے گی۔ اس میں بھی جہیز مانگنے والوں کا حصہ ہے۔
جہیز کی عادت اور اس سے پیدا ہو نے والی برائی کو پہلے ہی سے محسوس کرنے والے لڑکی پیدا ہوتے ہی اپنے بچوں کو مار دیتے ہیں۔ دوسرے چند لوگ اسکین کے ذریعے حمل میں لڑکی کو دیکھ کر اس کو حمل ہی میں دفن کر دیتے ہیں۔ اس گناہ عظیم میں بھی جہیز لینے والے حصہ دار ہو تے ہیں۔
عزت و آبرو سے جینے والے شخص کو لڑکی پیدا کر نے کی وجہ سے بستی بستی گھوم کر بھیک مانگنے رکھ دیتے ہیں۔ یہ گناہ بھی انہیں نہیں چھوڑے گی۔
جوانی میں اٹھنے والی جذبات کو ایک راستہ نہ ملنے کی وجہ سے کئی عورتیں نفسانی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اس ظلم میں بھی وہ لوگ حصہ دار ہو جاتے ہیں۔
اس طرح بہت سی برائیوں کا جامع شکل اختیار کر نے والے یعنی جہیز لینے والے اتنی ساری گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے اپنا نام درج کر لیتے ہیں۔اگر کسی کو رائی برابر بھی یہ ڈر ہو تا کہ آخری فیصلہ سنانے والے اللہ کے سامنے ہم کھڑا کئے جائیں گے تو کوئی بھی جہیز لینے آگے نہیں بڑھے گا۔
اس کے بارے میں اور زیادہ معلومات کے لئے حاشیہ نمبر 309دیکھئے!
108۔ مہر
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode