Sidebar

03
Thu, Jul
0 New Articles

 ‏107۔ کنیزوں کے ساتھ خانگی زندگی چلانے

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

 ‏107۔ کنیزوں کے ساتھ خانگی زندگی چلانے

اسلام نے کیوں اجازت دی؟

ان آیتوں میں (4:3، 4:24,25، 4:36، 16:71، 23:6، 24:31، 33:50، 33:52، 33:55، 70:30) ’’تمہارے ‏دائیں ہاتھ کی ملکیت والی عورتیں‘‘ کاجملہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کنیزوں کی طرف اشارہ کرتاہے۔ 

ان آیتوں میں کہا گیا ہے کہ کنیزوں سے نکاح کئے بغیر ان کے مالک ان کے ساتھ خانگی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ 

آج کے دور میں کنیز یا غلام نہ ہونے کے سبب اس کو سمجھنے کے لئے اس کے متعلق تاریخ جان لینا ضروری ہے۔

دو ملکوں کے درمیان جنگ ہوتے وقت فتح پانے والے، ہارجانے والوں کو قیدکرلیا کر تے تھے۔ ان قیدیوں میں مردبھی ہوتے تھے اور قلیل تعداد ‏میں عورتیں بھی ہو تی تھیں۔ 

اس طرح قید کئے جانے والوں کو بند رکھنے کے لئے اس وقت قید خانے نہیں تھے۔ انہیں کھانا کھلا کر دیکھ بھال کرنا غیر ضروری بوجھ معلوم ہو تا ‏تھا۔ اس لئے قید یوں کو جنگ میں شامل ہونے والوں کو تقسیم کر دیا کر تے تھے۔ کیونکہ ان کے پاس خدمت لے کر انہیں کھانا کھلانا کچھ تکلیف ‏محسوس نہ ہوگا۔ 

کام کاج کے لئے کسی کی ضرورت محسوس نہ کرنے والے اپنے ملک میں دئے گئے غلاموں کو حیثیت رکھنے والوں کو بیچ دیا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے ‏اس وقت غلام کا بازار بھی سر گرم عمل تھا۔ 

بعض لوگوں کو یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ کئی سماجی مظالم کو ایک ہی حکم کے ذریعے مٹا دینے والا اسلام کیاغلاموں کومٹا نہیں سکتا تھا؟ اسلام نے اس کو ‏کیوں قبول کر لیا؟ 

اس کے لئے کئی چیزوں پر غور کر نا ضروری ہے۔ میدان جنگ میں گرفت ہو نے کے ذریعے اگر غلام ظاہربھی ہوں تو جنگی سپاہیوں نے انہیں ‏فوراًبیچ کرپیسہ بنا لیتے تھے۔ قیمت ادا کر کے خریدنے والے ہی کے پاس اکثر غلام رہتے تھے۔ 

اگر حکم دیا جاتا کہ اب سے کوئی غلام نہ رہے تو ان غلاموں کو خریدنے والے بہت زیادہ نقصان سے دو چار ہوں گے۔ اگران سب کو تلافی دیا جاتا تو ‏حکومت چلا نہیں سکتے۔ تلافی کے بغیر اگر حکم دیا جاتا تو قانونی طورپراجازت کے ساتھ جو تجارت کر رہے تھے اس میں لوگوں کو نقصان پہچانا ‏ناانصافی ہوگی۔ 

اسی طرح تمام غلاموں کے لئے تلافی دے کر آزاد کر نے کو اگر نبی کریم ؐ حکم بھی دیتے تو وہ ضرررساں ہی ثابت ہوگا۔ 

کیونکہ باربار جنگ ہونے والے اس ماحول میں اگر جانبداری سے نبی کریم ؐ نے ویسا کہا ہو تا تو مسلم غلام غیر ممالک میں غلام بن کر رہنے کی نوبت آجا ‏ئے گی۔ دشمن لوگ فوراً آزاد ہونے کی نوبت بھی آجائے گی۔ 

آس پاس کے ممالک میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ نبی کریم ؐ کے خلاف اگر جنگ کریں تو ہمیں کوئی بڑا نقصان پیدا نہیں ہوگا، انہیں کو نقصان ہو ‏گا۔اسی لئے حکم نافذ کر کے غلامی کو مٹایا نہیں۔

تمام عالمی ممالک ایک متفق فیصلے کی طرف آنے تک صرف نبی کریم ؐ کا فیصلہ فائدہ نہیں دے سکتا۔ 

اسی وقت نبی کریمؐ نے غلامی کو مٹانے کے لئے کئی انتظامات کئے تھے۔ 

‏* نبی کریم ؐ ترغیب دلائی کہ ایک شخص اللہ پر قسم کھا کر اس کو توڑ دے یاروزہ رکھ کرتوڑدے تو ان جیسے گناہوں کا کفارہ یہ ہے کہ حیثیت رکھنے ‏والے غلاموں کو آزاد کر دینا چاہئے۔

‏* معاہدے کی بنا پر غلاموں کو آزاد ہو نے کو بھی انہوں نے انتظام کیا۔ اور یہ بھی ترغیب دلائی کہ مالک، غلاموں سے یہ معاہدہ لے کر آزاد کر ‏دے کہ تم محنت کر کے تھوڑا تھوڑا سا میرے قرض کو ادا کر دینا چاہئے۔ 

‏* اور اس طرح بھی انہوں نے یہ حکم نافذ کر کے ترغیب دلائی کہ کوئی اپنے غلام کو آزاد کریں تو وہ غلام آئندہ جو کمائے گا ، اس کا حقدار اس کا مالک ‏ہی ہوگا۔ 

‏* اس طرح بھی انہوں نے ترغیب دلائی کہ عام طور سے انسان جو نیک عمل کر تا ہے ، اس میں سے غلاموں کو آزاد کرنا بہترین عمل ہے۔ 

آپ نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ تعداد میں غلاموں کی کمی کی ہے۔ یہ عام طور سے غلاموں کے بارے میں ہے۔ اب کنیزوں کے بارے میں ‏جان لیں۔ 

کنیز سا فروخت کئے جانے والے اپنے آقا کے گھر میں ہی ٹہریں گے۔ اس کا شوہر غیر ملک میں ہوگا، نہیں بھی ہوگا۔ ایسی حالت میں اس عورت کو ‏غیر مرد بری نظروں سے جو دیکھتے ہیں اس کو روک تھام کر نا چاہئے۔ اس کو بھی جسمانی انداز کی ضروریات بھی ادا کر نی چاہئے۔ 

اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے غلاموں کو خریدنے والا مالک (اگر کئی مالک ہوں تو ان میں سے صرف ایک) خانگی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ اس طرح ‏بسر کرتے وقت اگر اس نے ایک بچے کو جنم دیدی تو اسلام نے یہ قانون نافذکی کہ وہ اور اس کا بچہ غلامی کی گرفت سے آزاد ہو جائیں گے۔ 

اس کو اگر اس وقت اجازت نہ دیا گیا تو اس کے لئے سفارش کر نے والا کوئی نہ رہنے والے اس ملک میں اس کے آقا پر جب وہ پوری طرح سے دامن ‏گیر ہو تو وہ اس سے مجامعت کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ 

کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ وہ تو کنیز ہے، ہم بھی اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔جب دوسروں کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسکے شوہر کے برابر اسکا آقا ‏موجود ہے تو اسکو ایک حفاظت مل جاتی ہے۔ 

اس طرح کہا جا نے کی وجہ سے کہ اس کے ساتھ ایک آقا ہی خانہ داری کر سکتا ہے اور اس کو پیدا ہونے والا بچہ خاص آقا ہی کا بچہ کہلائے گا، اس لئے ‏وہ زناکاری نہیں ہوسکتا۔ 

اس زمانے میں کہ کنیزوں کا معاملہ تھا، اس کواجازت دینے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ آج دنیا بھر میں غلامی کا دستور مٹائے جانے کے بعد ‏اب اس کو مروج نہیں کرسکتے۔

نوکرانیوں کو غلام نہ سمجھیں۔ نوکرانی خریدی ہوئی عورت نہیں ہے۔ اگر وہ چاہے تو اس آقا کو چھوڑ کر دوسرے آقاکو بدل سکتی ہے۔ لیکن کنیزیں ‏آقا کو بدل نہیں سکتیں۔

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account