Sidebar

03
Thu, Jul
0 New Articles

‏106۔ کیا کثیر ازواج انصاف ہے؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏106۔ کیا کثیر ازواج انصاف ہے؟

یہ آیت (4:3)مردوں کو چار بیویوں سے نکاح کر نے کی اجازت دیتی ہے۔ 

یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ یہ عورتوں کے حق میں ناانصافی ہے۔اس کے بارے میں ٹھیک سے اگر تفتیش کیا جائے توہم اسلام جو اجازت دی ہے ‏اس عدل کو محسوس کر سکتے ہیں ۔

اس آیت میں جو اجازت دی گئی ہے وہ ہر مردوں کو چار بیویوں سے نکاح کرنے کی خواہش دلانے کے لئے نہیں اتارا گیا۔ اور حکم کے اعتبار سے بھی ‏نہیں اتارا گیا۔ 

اس آیت میں جو کہا گیا ہے وہ یہی ہے:

اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے تو تمہاری چاہت کے عورتوں میں سے دو دو، تین تین یا چار چار سے نکاح کر ‏لو۔ 

یتیم عورتوں کی حفاظت کے ذمہ دار اس عورت کی جائداد کو غبن کر نے کے ارادے سے ان یتیم عورتوں سے زبردستی نکاح کر لیا کر تے تھے۔ 

اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ یتیم عورتوں کے معاملے میں نا انصافی کر دوگے تو چار یا تین یا دو سے نکاح کر لو، پر یتیموں کو ناانصافی نہ کرو۔اسی کویہ آیت ‏کہتی ہے۔ یہ اجازت ان کے لئے ہے جو یہ اندیشہ رکھتے ہوں کہ ہم راہ بھٹک جائیں گے یا ناانصافی کر دیں گے۔ جو اس طرح نہ ہوں یہ ان سب کے ‏لئے نہیں ہے۔ 

اس کو پہلے سمجھ جا نا چاہئے۔

اس اجاز ت کی وجہ کیا ہے ، اس کو بھی جان لیں۔

کثیرالازواج عورتوں کے حق میں ناانصافی ہے کہنے والے اسی وجہ کواہمیت دیتے ہیں کہ اس سے پہلی بیوی کو مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

یہ حقیقت ہے کہ پہلی بیوی کو تکلیف ہو گی۔

ایک بیوی کے رہتے ہوئے ایک شخص دوسری ایک عورت سے شادی کر نے کی وجہ ہی سے پہلی بیوی کو تکلیف نہیں ہوتی،بلکہ وہ شخص اگر کسی ‏لڑکی سے بغیر نکاح کے تعلقات رکھتا ہو یاوہ دوسری عورتوں سے زناکاری کر تاہو تو اس وقت بھی پہلی بیوی کو تکلیف ہوتی ہے۔ 

دوسری ایک عورت سے نکاح کرنے سے جو تکلیف پیدا ہوتی ہے کہیں اس سے زیادہ وہ تکلیف دہ ثابت ہوگی۔ کئی عورتوں سے تعلقات رکھتے ‏ہوئے ان کے ذریعے بیماریاں حاصل کر کے پہلی بیوی کو تحفہ دینے سے اس کو اور زیادہ تکلیف پہنچے گی۔

دوسری شادی کی مخالفت کرنے والے داشتہ رکھنے اور زناکاری کر نے سے تو قانونی طور پر روک تھام کر نا چاہئے تھا؟ کثیر ازواج کا انکار کر نے والے ‏ہمارے ملک کے ساتھ ساتھ کسی بھی ملک میں زناکاری یا داشتہ رکھنے کے لئے ممانعت نہیں ہے۔ اس کو گناہ بھی نہیں سمجھا جاتا۔ 

بیوی کے ہوتے ہوئے ایک شخص داشتہ رکھا ہوا ہے ۔ اس کو جان کر وہ عورت شوہر کے خلاف تھانہ میں اگر فریاد کرے تو کوئی مقدمہ درج نہیں ‏کیا جاتا۔ یہ کہہ کرکہ کیا اس نے دوسری شادی کرلی، اس شکایت کو رد کردیا جا تا ہے۔ اگر اسی سبب سے اس عورت نے عدالت میں مقدمہ دائرکیا ‏تو عدالت بھی اس مقدمہ کو رد کردیتی ہے۔ 

ہمارے ملک کا قانون ایسا ہی ہے۔ 

کثیر الازواج سے مخالفت کرنے کی یہی وجہ ہے کہ اس سے عورتوں کا حق متاثر ہوتا ہے تو داشتہ رکھنا اور زناکاری کرنا گناہ کہہ کر قانون بنانا چاہئے۔ 

داشتہ رکھنے والے اور زناکاری کر نے والے مردوں کو روکنے نہیں ہوسکا۔ یہ جان کر بھی کہ وہ دوسری ایک عورت کا مرد ہے، اس کو اپنے چنگل ‏میں پھنسانے والی عورتوں کو بھی روکنے نہیں ہوسکا۔ اسی لئے اسلام کہتا ہے کہ قانونی طور پر بیوی کی حیثیت د ے کر اس کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ 

بغیر نکاح کئے عورتیں حاملہ ہوجانا اور انہیں بے سہارا چھوڑ جاناہندو قوم میں بہت زیادہ ہوجا نے کی وجہ سے وہاں کے ہندو لوگ جدو جہدکر رہے ‏ہیں کہ انہیں بھی کثیرالازواج کی اجازت دی جائے۔ (روز نامہ، ملیشیہ ننبنNanban)) : 05-01-2002‎‏)

کثیرالازواج کو اسلام اجازت دینے کے لئے کئی مناسب وجوہات ہیں۔ 

‏1۔ شادی کی عمر کو پہنچنے والی عورتیں، شادی کی عمر کو پہنچنے والے مردوں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ کیونکہ عورتیں مردوں سے کم از کم دس سال پہلے ‏ہی شادی کے لئے تیار ہو جا تے ہیں۔ 

‏2۔ مردوں سے زیادہ عورتیں ہی تعداد میں بڑھے ہوئے ہیں۔ 

‏3۔ مر نے کے حساب سے بھی مردوں سے عورتوں کی تعداد بہت کم ہے۔ 

‏4۔ میدان جنگ میں جوان بیویوں کے شوہر بہت زیادہ تعداد میں مارے جا رہے تھے۔ 

‏5۔ زیادہ تعداد میں عورتوں کو ازدواجی زندگی نہ ملنے کی وجہ سے زناکاری بڑھتے جارہی ہے۔ 

‏6۔ عورتوں کو نکاح کر نے کے لئے ایک بڑی رقم جہیز میں مانگے جانے کی ایک افسوسناک حالت بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ 

‏7۔ جہیز دینے کی طاقت نہ رکھنے والے اپنی بیٹیوں کو زندہ ہی ماردینا یا رحم ہی میں دفن کر نا ہر روز کاواقعہ بن چکا ہے۔ 

‏8۔ ازدواجی زندگی کو جھٹلا نے والے کنوارے مردوں کی کمی کو اور زیادہ بڑھا رہے ہیں۔ 

‏9۔یہ جانتے ہوئے کہ والدین جہیز دے کر نکاح نہیں کر سکتے، ایسی جوان لڑکیاں خود ہی زندگی بنالینے کے خیال سے دھوکہ کھاکر عصمت کھو بیٹھتی ‏ہیں۔ 

‏10۔ یہ سوچ کر کہ ہمیں شادی نہیں ہوسکتی، خودکشی کر نے والی عورتیں کی تعداد بھی بڑھتے جا رہی ہے۔ 

اس طرح کی مناسب وجوہات کی بنا پراور مردوں کو زناکاری میں گرنے سے روکنے کے لئے اسلام کثیرالازواج کی اجازت دیتی ہے۔ 

اس وجہ سے کئی عورتوں سے تعلقات رکھنے والوں کی تعداد ضرور کم ہوگی، یہی حقیقت ہے۔ 

کیونکہ نکاح کر تے وقت ذمہ داریوں کو سنبھالنا ہو تا ہے بہت ہی کم تعداد ہی میں لوگ کثیر ازواج کی طرف مائل ہوں گے۔ زناکاری کے لئے یا ‏داشتہ رکھنے کے لئے ویسی کوئی ذمہ داری سنبھالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے مردوں کو تباہی ہی نصیب ہوسکتی ہے۔ 

اس جیسے نامعقول تعلقات کے ذریعے جنسی بیماریوں کو خودبھی حاصل کر کے اپنی بیوی کو بھی عطا کر نے کی مصیبت بڑھتے جائے گی۔ 

ان سب سے بڑھ کر کثیر ازواج کے لئے اسلام کوئی حکم نافذ نہیں کیا۔ ضرورت مندوں کے لئے صرف اجازت دیا ہے۔

اس حالت میں رہنے والی عورتیں کثیر تعداد میں ہیں کہ ہمارے لئے دوسری بیوی بن کر رہنا بھی منظور ہے ، ۔ کثیر ازواج کی ضرورت کو یہ حالت ‏ہمیں احساس دلاتا ہے۔ 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ جیسے مردوں کو اجازت ہے اسی طرح عورتوں کو بھی کثیر ازواج کی اجازت دینی چاہئے۔ یہ ناقابل قبول دعویٰ ہے۔ 

ہم جو وجوہات ذکر کئے ہیں اس میں سے کوئی ایک بات بھی ان کے لئے موزوں نہیں۔ عورتوں کو اگرکثیر ازواج کی اجازت دی جائے تو جو اوپر کہا ‏گیا ہے ، وہ برائیاں اور بھی بڑھ جا ئیں گی۔ اس لئے عورتوں کو کئی شوہروں کا اجازت دینے کے لئے کوئی مناسب وجہ نہیں ہے۔ 

بلکہ عورت کو بھی وہ اجازت چاہنے والوں کی خواہش کے مطابق اگر اجازت دیں توہمیں جاننا چاہئے کہ اس سے کئی آفتیں اور خرابیاں ہی پیدا ہوں ‏گی۔ 

ایک مرد کوسوعورتوں کے ساتھ اگر ایک سال تنہائی میں چھوڑا گیا تو وہ سو عورتیں بھی سو بچوں کو جنم دے سکتے ہیں۔ ایک عورت کواگر سو مردوں ‏کے ساتھ تنہا چھوڑا جائے تو کیا وہ سوبچے پیدا کر سکتی ہے؟ 

ایک مرد کو کئی عورتوں کے ذریعے دس بچے پیدا ہوں توہم معلوم کرسکتے ہیں کہ ان دس بچوں کی ماں کون ہے اورباپ کون ہے؟ کئی مردوں سے ‏تعلقات رکھی ہوئی ایک عورت جنم دینے والے ایک ہی بچے کو ماں کون ہے کہہ سکتے ہیں ، اس کے سوا اس کا باپ کون ہے، کہہ نہیں سکتے۔ 

اس صورت حال سے زیادہ اس بچے کوکوئی دوسری ذلت نہیں ہوسکتی۔ اس طرح اپنے باپ کو نہ جاننے والی نسل دل برداشتہ ہو کر نفسیاتی بیماری ‏میں مبتلا ہو جا تی ہے۔ 

ایک مرد جب چار عورتوں کے ذریعے چار بچوں کو جنم دیتا ہے تو ان چاروں بچوں کو پرورش کر نے کی ذمہ داری اس پرتھوپا جاسکتا ہے۔ ان بچوں کو ‏پالنے کا خرچ اس سے لینے کے لئے زبردستی کر سکتے ہیں۔ لیکن جب ایک عورت چار مردوں کے ساتھ مل کر ایک بچے کو جنم دیتی ہو توکیا اس کو وہ ‏ضمانت دے سکتے ہیں؟ 

ہر ایک اگر اس سے انکار کر دے کہ وہ میرا بچہ نہیں ہے تو کس دلیل کی بنا پر اس پرہم ذمہ داری تھوپ سکتے ہیں؟ اس کی پرورش کے لئے خرچ ‏دینے کو ہم اسے کس طرح جبر کر سکتے ہیں؟ بڑھنے والے اس بچے کے مستقبل پر کیا اندھیرا نہیں چھا جائے گا؟ 

اسی طرح اگر ان چاروں نے دعویٰ کر دیا کہ وہ بچہ میرا ہے تو کیا اس بچے کو کاٹ کرہر ایک کو تقسیم کر سکتے ہیں؟ 

ایک شخص کو کئی بیویوں کے ذریعے کئی سو بچے بھی ہوں تو وہ مر جا نے کے بعداس کو کئی سو بچوں کا باپ جاننے کی وجہ سے وراثت کی بنا پر وہ اس کی ‏جائداد سے حصہ مانگ سکتے ہیں۔ 

کئی مردوں سے نکاح کی ہوئی عورت کے شوہروں میں کوئی بھی شوہرمرجائے تواس کے بچے باپ کے جائداد میں حق مانگنے کا راستہ نہیں ہوگا ۔

اور عورتیں کئی مردوں سے تعلقات رکھنے ہی سے ایڈس پیدا ہو تی ہے۔ شرمگاہ کی رطوبت سے نکلنے والا زہریلا جراثیم کئی مردوں کی خلیہ سے ‏شامل ہو تے ہی وہ مہلک جراثیم پیدا ہوتی ہے۔ محکمہ ادویات کہتی ہے کہ وہ جراثیم عورتوں ہی کو پہلے لگتی ہے۔ اسی لئے ایڈس والی ایک عورت سے ‏کوئی مرد اگر مجامعت کر ے تواس کو بھی وہ بیماری لگ جاتی ہے۔ 

لیکن یہاں کے معالج اور حکومت اعلان کر تے ہیں کہ ایک مردکے لئے ایک عورت ہے۔یہ اعلان بالکل غلط ہے۔ایسا اعلان کر نا چاہئے کہ ایک ‏عورت کے لئے ایک مرد ہے۔عرب ممالک میں ایک کے بجائے چار عورتیں رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں کوئی ایڈس نہیں آئی۔ اس لئے ایک مرد ‏اگر چار عورتیں رکھتاہے تو ایڈس نہیں آتی۔ لیکن ایک عورت کو چار خاوندہوں تو ایڈس آجائیگی۔

کئی مردوں کے ساتھ بغیر کوئی پابندی کے تعلقات رکھنے والی عورتوں کے ذریعے ہی ایڈس آتی ہے۔ پھر اس کے ساتھ مجامعت کر نے والے تمام ‏مردوں کو وہ پھیل جاتی ہے۔ 

اس وجہ سے بھی عورتوں کوکثیر ازواج کی اجازت نہیں دے سکتے۔ 

ایک عورت کو اگر کئی شوہر ہوں تو ایک ہی وقت میں اگر سب شوہر اس کو مجامعت کے لئے بلائیں تو کیسی شامت ہوگی؟وہ معاملہ قتل تک بھی پہنچ ‏سکتا ہے۔ 

اس لئے عورتوں کو کثیر ازواج کی اجازت دینے میں کوئی عدل نہیں ہے۔ لیکن مردوں کو اجازت دینے میں عدل ہے۔

عورتوں کی بھلائی کی تعلق سے غور و فکر کرنے کے لئے قومی زنانہ کمیشن قائم کیا گیا ہے۔ یہ کمیشن بھی یہی سفارش کرتی ہے کہ چوری سے تعلقات ‏رکھنے والی عورتوں کوبیوی کی حیثیت اور حق دیا جانا چاہئے۔ روزنامہ دناملر (26-10-2009) میں یہ خبر چھپی ہو ئی ہے:

ہندوستان کی قومی زنانہ کمیشن نے مرکزی حکومت سے سفارش کی ہے کہ داشتہ کوبھی نان و نفقہ دینا چاہئے۔

قانون کے مطابق نکاح کر کے ازدواجی زندگی بسر کر نے والی عورت کو ہی نہیں بلکہ مسئلہ اٹھتے وقت داشتہ کے طورپر رہنے والی دوسری اور تیسری ‏بیویوں کو اور ان کے ذریعے پیدا ہونے والے اولاد کو بھی نان و نفقہ دینا چاہئے، قومی زنانہ کمیشن نے ایسی ایک دھماکے دار سفارش کی ہے۔ 

بیوی کے سوا گھر کا سرداردوسری عورت یا عورتوں سے چوری سے تعلقات رکھا ہو تو اس کے ذریعے پیدا ہو نے والے بچوں کو اگرکوئی مسئلہ پیش ‏آئے تو اس کے لئے قانون کے مطابق کوئی راستہ کہا نہیں گیا ہے۔ قانون کے مطابق جو بیوی بنی ہوئی ہے اس کے سوا چوری کے تعلقات سے آنے ‏والی عورت یا عورتوں کو قانون کے مطابق مجرم گردانا جاتا ہے۔ 

انہیں کوئی نان و نفقہ کا حق نہیں ہے۔ ہندوستانی جرمانہ دستور قانون 125 (5)کے تحت فیصلہ کیا گیا ہے کہ دوسری اور تیسری غیر قانونی بیویوں ‏کو کوئی حق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں قومی زنانہ کمیشن عنقریب ہی پوری طرح غور و فکر کرنے لگی۔آخرکار سفارش کر نے لگی کہ قانون کے بغیر ‏ایک کے ساتھ زندگی بسر کر نے والی عورت اس کے ذریعے پیدا ہو نے والے بچے کو ، انہیں زندگی بسر کر نے کے لئے حفاظت دینا قانوناًفرض ہو تا ‏ہے۔ کسی مسئلے سے اگر انہیں مشکل پیش آئی تو تعلق رکھنے والا مرد ضرور انہیں نان و نفقہ دینا چاہئے۔ 

قانونی بیوی ہی نہیں بلکہ تعلق رکھنے والی دوسری عورتوں کے معاملے میں بھی قانونی دستورالعمل لانا چاہئے، بے یارو مدگار چھوڑے بغیر انہیں جینے ‏کے لئے راستہ بنا کر دینا چاہئے، یہ سفارش کی گئی ہے۔ 

‏( روزنامہ دناملر (26-10-2009) سند ہے)

اسلام جو کہتا ہے اسی کو دوسری الفاظوں میں عورتوں کی بھلائی کے لئے قائم کی گئی کمیشن سفارش کرتی ہے۔ کثیر ازواج کے بارے میں تمام ‏دعوے اس سفارش کے ذریعے ملیا میٹ ہوجاتی ہے۔

اسلام کی عطا کی ہوئی اس اجازت کو بعض مسلمان جو بے قاعدگی سے استعمال کر تے ہیں اس کو بھی ہم یہاں ذکر کرنا چاہئے۔

دوسری شادی کر نے والے پہلی بیوی کو بولے بنا رازداری سے شادی کر لیتے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلی بیوی کو اسے معلوم کرانے کی ضرورت ‏نہیں ہے۔

حقیقت میں پہلی بیوی کی حق اس میں شامل رہنے کی وجہ سے اس کو معلوم کرانا بہت ضروری ہے۔ 

ایک بیوی کے ساتھ جب ایک شخص جیتا ہے تو اس کے ہر دن کو وہ اس کے لئے وقف کر تا ہے۔اسی کے لئے وہ اپنی دولت بھی لٹا تا ہے۔ اس حالت ‏میں اگروہ دوسری ایک لڑکی سے شادی کرتا ہے تو پہلی بیوی کو جتنا دن وقف کر تا تھا اس میں سے آدھے دن کم ہوجائیں گے۔ دولت میں بھی آدھی ‏چھوٹ جائے گی۔ 

دوسری شادی کے ذریعے جب پہلی بیوی متاثر ہوتی ہے تو اس کو اطلاع کر نے کی ضرورت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔ 

وہ اس طرح بھی سوچ سکتی ہے کہ سارا دن تم مجھ ہی کو دوگے، یہ سمجھ کر ہی میں نے تم سے شادی کی تھی، اس میں سے آدھا دن اگر مجھ کو نہیں ملے ‏گا تو اس طرح کی زندگی مجھے نہیں چاہئے۔ 

دوسری شادی کے بارے میں جب اس کو اطلاع دیتے وقت ہی مندرجہ بالا حقوق اس کوحاصل ہو سکتی ہے۔ 

اگر پہلی بیوی کو چھپا کر دوسری شادی کر تے ہیں تودوسری بیوی بھی متاثر ہو جا تی ہے۔ کیونکہ پہلی بیوی کو چھپا کر شادی کر نے والے اس کو معلوم نہ ‏ہو نے کے لئے دونوں بیویوں کے درمیان یکساں رہنے کا موقع نہ پاتے ہوئے جب جب کوئی جھوٹی سبب بتا کر دوسری بیوی کے پاس چلے جاتے ‏ہیں۔ 

اس لئے دوسری بیوی کو جو حق پہنچنا ہے اس کو وہ نہ پہنچاسکنے کی حالت پیدا ہوجا تی ہے۔

پہلی بیوی کو چھپا کر دوسری شادی کر نے کی حالت میں اگر وہ مرجائے تو اس وقت بھی اس کی بیویاں متاثر ہوتی ہیں۔ 

پہلی بیوی یہ سوچ رہی ہو گی کہ شوہر کی جائداد اس کو اور اس کے بچوں ہی کے لئے ہے۔وہ مر نے کے ساتھ دوسری بیوی اور اس کے بچے جائداد میں ‏حصہ مانگتے ہوئے اگر آجائیں تو اس وجہ سے بھی پہلی بیوی اور اس کے بچے دھوکہ دئے جاتے ہیں۔

دوسری شادی کے بارے میں پہلی بیوی کے پاس کہتے وقت اگر وہ مان گئی تو کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر وہ کہے کہ دوسری شادی کروگے تو میں تمہارے ‏ساتھ زندگی نہیں بسر کروں گی ، تو اس کے لئے اس کو حق ہے۔ 

اگر کوئی عورت زور دے کہ اس کا خاوند اس کے سوا دوسرے کسی سے شادی نہ کرے، اسلام جو مردوں کو حق دی ہے، اس کو وہ انکار کر نے والی ‏نہیں مانی نہیں جائے گی۔ 

علیؓ کو اپنی بیٹی سے نکاح کر نے کے لئے حشام بن مقیرہ نے اجازت چاہی ۔ نبی کریم ؐکہا کہ ’’میں ہرگز اجازت نہیں دوں گا، اجازت نہیں دوں گا، ‏اجازت نہیں دوں گا۔ اگر علی چاہے تو میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے نکاح کرلے۔‘‘

‏(بخاری: 5230)

اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ اپنا خاوند دوسری عورت سے نکاح کر نا چاہے تو اسے انکار کر نے کا حق عورت کو ہے۔   

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account