60۔ دو دن میں نکلنے کا مطلب
اس آیت (2:203) میں اللہ کہتا ہے کہ مقررہ دنوں میں اللہ کو یاد کرو۔
اللہ کو ہمیشہ یاد کر نا چاہئے۔لیکن اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف مقررہ دنوں میں یاد کرکے دوسرے دنوں میں یاد کئے بغیر رہ سکتے ہیں۔
عام طور سے اللہ کو یاد کر نے کے بارے میں یہاں نہیں کہا گیا ہے۔بلکہ ایک مقررہ عبادت کو مقررہ دنوں میں کر نا چاہئے ، اسی کے متعلق کہا گیا ہے۔
مخصوص دنوں میں جو کیا جائے وہ عبادت کونسی ہے، اس کے بارے میں قرآن مجید کچھ کہا نہیں۔ بلکہ اس کے متعلق نبی کریم ؐ نے وضاحت کی ہے۔
نبی کریم ؐ جب عرفات میں تھے تو میں ان کے پاس گیا۔نجد سے آنے والی ایک جماعت نے نبی کریم ؐ سے حج کے بارے میں پوچھنے کے لئے ایک شخص کے کہا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ’’ حج عرفہ ہی ہے۔ جس نے مزدلفہ کو فجر نماز سے پہلے پہنچ گیا وہ حج کو پالیا۔ منا کے دن تین ہیں۔ جو دودنوں میں جلدی سے نکل گیا اس پر کوئی گناہ نہیں۔ جو دیر سے نکلے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ ‘‘ یہ کہنے کے بعد اس کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے ایک شخص کو بھیجا۔
نسائی: 2994
اس حدیث کے بنا پر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ آیت ’’منا میں پتھر پھینکنے‘‘کی عبادت کے بارے میں ہی کہتی ہے۔
پتھر پھینکنے کی عبادت مسلسل تین دن تک کر نا چاہئے۔ یہ حدیث کہتی ہے کہ اس طرح کرنا اگر نہیں ہوا اور کچھ ضروری کام کی وجہ سے صرف دو دن پتھر پھینک کر چلے گئے تو وہ گناہ نہیں۔
دو دن میں چلے جانے کے بارے میں قرآن سے ہم سمجھ نہ پائیں بھی تونبی کریم ؐ نے اس کو سمجھا دینے کی وجہ سے وہی کافی ہے۔ قرآن کی طرح نبی کریم ؐ کی وہ تشریح بھی دینی سند ہے۔
قرآن مجید کے احکام کی پیروی کر تے ہوئے نبی کریم ؐ کی رہنمائی کی بھی پیروی کرنا ضروری ہے، اس بارے میں اور زیادہ معلومات کے لئے حاشیہ نمبر 18، 36، 39، 50،55، 56، 57، 60، 67، 72، 105، 125، 127، 128، 132، 154، 164، 184، 244، 255، 256، 258، 286، 318، 350، 352، 358، 430 وغیرہ دیکھیں۔
60۔ دو دن میں نکلنے کا مطلب
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode