Sidebar

08
Sun, Sep
0 New Articles

‏378۔ نبی کریم ؐ نے کئی نکاح کیوں کیں؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏378۔ نبی کریم ؐ نے کئی نکاح کیوں کیں؟

‏اس آیت 33:50 میں کہا گیا ہے کہ صرف نبی کریمؐ کوکسی خاص تعداد کے بغیر شادی کر نے کی اجازت دی گئی ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ صرف نبی ‏کریم ؐ ہی کے لئے دی ہوئی خصوصی اجازت ہے۔ 

قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور نبی کریمؐ اللہ کے رسول ہیں، اس کو قبول کر نے کے لئے بے حساب دلیلیں قرآن میں موجود رہنے کے باوجود صرف یہ ‏بات غیر مسلموں کو کھٹکتی رہتی ہے۔ 

بعض لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ زیادہ عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کر نے کو محمد نبی نے اپنی سہولت کیلئے یہ قانون بنا لیا ہے۔

یہ دعویٰ کہ بنی کریم ؐ نے اپنی سہولت کے لئے قانون بنا لیا ہے بالکل غلط ہے۔ کیونکہ نبی کریمؐ کو اور بھی کئی مخصوص قانون ہیں۔ وہ تمام قانون ‏صرف انہیں اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں۔ 

‏* زکوٰۃ نامی حکومت کے خزانے سے حاجتمندمدد لے سکتے ہیں، اس قانون کو لا نے والے نبی کریم ؐ نے ایسا ایک

قانون بھی نافذ کر دیا کہ اس خزانے سے آپ اور آپ کے اہل بیت کسی قسم کی امداد حاصل نہ کریں۔ 

‏* اپنی موت کے بعد اپنا جانشین کوئی زکوٰۃ کے پیسوں سے مدد حاصل نہ کریں، یہ قانون بھی نافذ کیا۔ 

‏* اپنے خاص تمام مال ومتاع کے لئے اپنا وارث کوئی بھی حق نہ جتائیں، بلکہ اس کو حکومت میں جمع کردیں۔ اس طرح وہ اپنے خلاف ہی قانون نافذ ‏کیا۔ 

‏* وہ اپنے لئے جو مخصوص قانون بنائے تھے اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ اور آپ کے اہل بیت کسی زمانے میں کسی کے پاس خیرات نہ ‏پائیں۔ 

‏* دوسرے لوگ پانچ وقت کی نماز پڑھنا ضروری ہے تو آپ کے لئے آدھی رات میں پڑھی جانے والی چھٹی نماز کو بڑھا لیا۔ 

‏* رات اور دن چوبیس گھنٹے بھی روزہ نہ رکھنے کو دوسروں کو منع کردیا ، لیکن اس بوجھ کو اپنے اوپر بار اٹھالیا۔ 

اس طرح کئی معاملوں میں وہ صرف اپنے لئے جوقانون بنا لیا تھا وہ آپ کے لئے رعایت نہیں تھی بلکہ وہ آپ کے لئے تکلیف دہ ہی تھی۔ 

مزید یہ کہ آپ کو اللہ نے سرزنش کر نے والی کئی آیتیںآپ کے اعزاز کو متاثر کر نے والی تھیں۔اس کو بھی آپ نے لوگوں کے درمیان سنادیا۔ 

اس کوپیش لفظ میں یہ اللہ کاکلام ہے کے عنوان پر منتظر نہیں کے اندرونی عنوان پر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کو حاشیہ نمبر168میں واضح کیا ‏گیا ہے۔ 

اس طرح زندگی بسرکر نے والے نبی کریم ؐ نے اپنی سہولت کے مطابق زیادہ عورتوں سے لطف اندوز ہو نے کے لئے ایسا قانون بنالیاکہنا کوئی انصاف ‏نہیں ہے۔ 

اللہ نے انہیں جو سرزنش کی تھی اس کو لوگوں کو بتا دیا۔اللہ کی دی ہوئی تکلیف کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے اس کو بھی لوگوں کے سامنے پیش ‏کر دیا۔اسی طرح بیویوں کے معاملے میں اللہ نے جو فرمایا کہ کوئی پابندی نہیں،اس قانون کو بھی لوگوں کے درمیان پیش کردیا۔ 

محمد نبی نے اپنی زندگی کے آخری پانچ سالوں میں دنیا کی بہت بڑی طاقتور حکومت کے فرماں روا بن گئے تھے۔ اس سماج میں ایسا ایک ماحول تھاکہ ‏بادشاہوں سے کوئی سوال نہیں کرسکتا۔ نام کے لئے ایک دو بیویوں کو رکھتے ہوئے بادشاہوں نے حرم سرا میں بے شمار عورتوں کورکھ کر قسم قسم ‏سے لطف اندوز ہو تے تھے۔اگر ویسا کر تے تواس زمانے میں کوئی نقص نہیں کہلاتا۔ 

اس طریقے سے تو آپ نے نہیں کیا۔ قانون کے مطابق دنیا کے سامنے انہوں نے نکاح کی۔ مزید یہ کہ جنسی خواہش کا متلاشی جس قسم کی عورتوں ‏سے شادی رچانا نہیں چاہے گا اس نوعیت کی عورتوں ہی سے نبی کریم ؐ نے نکاح کیا۔

اس کے بارے میں پوری تفصیل جاننے والا کوئی بھی نبی کریم ؐ کے کثیر الازدواجی کو عیب نہیں لگائے گا۔ 

ہم ضرور کہہ سکتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے جنسی خواہش کی بنا پر کئی شادیاں نہیں کی۔ کیونکہ آپ پیدا ہو نے سے لے کر اپنے آپ کو اللہ کا رسول اعلان ‏کر نے تک وہ اپنی مادر وطن ہی میں رہے۔ 

ہر آدمی اپنی چالیس سال کی عمرتک کسی غلطی کے بغیر پاکیزہ زندگی بسر کر نا ناممکن ہے۔ لیکن نبی کریم ؐ اپنی چالیسویں عمر میں اپنے آپ کو جب اللہ کا ‏رسول کہا تواس کو ثابت کر نے کے لئے وہ اپنی گزری ہوئی زندگی ہی کو دلیل بنا کرپیش کیا۔ 

تمہارے ساتھ میں نے کئی سال گزارے ہیں۔کیا تم نے میرے پاس کوئی گھناؤنا حرکت دیکھا ہے؟ چالیس سال تک پابندی سے پاکیزہ زندگی ‏گزارنے والا میں کیا جھوٹ بول سکتا ہوں؟ اسی بنیاد پر انہوں نے اپنے اعتماد کو ثابت کیا۔

آیت نمبر 10:16 کے تشریح میں ہم نے حاشیہ نمبر 212 میں تفصیل سے کہا ہے۔

جنہیں ابتدا سے دیکھتے ہوئے آنے والوں کے درمیان اس حد تک اچھے اخلاق کے ساتھ زندگی گزارنے والے نبی کریم ؐ ہی سے ایسا اعلان ہو سکتا ‏ہے۔ 

نبی کریم ؐ کے عقیدے کو نہ ماننے والے بھی اسلام کو اس لئے مخالف کیا کہ وہ ایک نئی دین ہے، اس کے علاوہ انہیں نبی کریم ؐ کے چال و چلن پر کوئی ‏شک نہیں تھا۔ 

جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہو نے والی جوانی کی عمر میں پاکیزہ زندگی گزارنے والے کو ساٹھ سال کی عمر میں کیا اچانک عورتوں کی خواہش پیدا ہو گئی ‏ہوگی؟ اس پر اگر غور کروگے تو ہم صاف طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ نبی کریم ؐ کی کثیرالازدواج کی وجہ جنسی خواہش نہیں ہے۔ 

اس حقیقت کو ذہن میں لئے ہوئے دوسروں کی تنقید اور نبی کریم ؐ کی جوانی کے عالم کو کھوجنا چاہئے۔

نبی کریم ؐ اپنی پچیسویں سن میں پہلی شادی کی۔ پچیسویں عمر کے پہلے ان کی زندگی تعجب خیز زندگی تھی۔ کسی بھی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتے نہیں ‏تھے۔ اپنے ہم عمرنوجوانوں کے ساتھ مل کر عورتوں کے بارے میں تنقید نہ کر نے والی پاکیزہ زندگی تھی۔ عورتوں کے ساتھ ناروا صحبت رکھنافخر ‏کی بات سمجھی جانے والی اس جاہلیت کے زمانے میں وہی ایک، صرف وہی ایک کی زندگی پوری طرح سے پاکیزہ زندگی قرارپائی ہوئی تھی۔

جب انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہہ کر اعلان کیا تواس کے لئے پہلا دلیل اپنی چالیس سالا پاکیزہ زندگی ہی کو انہوں نے پیش کیا۔ 

کوئی بھی انسان اپنی گزری ہوئی زندگی کو لوگوں کویاد دلا کر کہہ نہیں سکتا کہ مجھے بھروسہ کرو۔ کیونکہ کسی بھی شخص کی گزری ہوئی زندگی پوری ‏طرح سے پاکیزہ ہو نہیں سکتی۔ وہ کتنا ہی نیک آدمی بھی ہو ان کی آج کی زندگی ہی کو دیکھنا چاہئے ۔ اس کے سوا گزری ہو ئی زندگی کو نہ دیکھنا چاہئے۔ 

آپ اللہ کے رسول ہونے کو اپنی گزری ہوئی زندگی ہی دلیل ہے ، اس طرح کہنے کی ہمت صرف نبی کریم ؐ ہی کو تھی۔ 

اپنے کو اللہ کا رسول دعویٰ کر نے کے چالیسویں سال تک نبی نے عورتوں کے معاملے میں کوئی عیب کے بغیر زندگی بسر کی۔ اس سے ثابت ہو تا ہے ‏کہ انہوں نے جنسی خواہش کی وجہ سے کئی شادیاں نہیں کیں۔ 

ہاتھ پکڑ کر کھینچاکہنا ایک طرف کن انکھیوں سے دیکھا کہنے کی حد تک بھی کوئی ان پر عیب نہیں لگاسکے۔نبی کریم ؐ کی زندگی اتنی پاکیزہ تھی کہ دشمنوں ‏نے بھی تنقید نہ کر سکے۔ 

ماں باپ کے بغیر پلنے والے بچے بدتمیز ہوا کرتے ہیں۔ ماں باپ کے بغیر پرورش پانے والے نبی کریم ؐ بگڑ جانے کے لئے کئی مواقع تھے۔ اس زمانے ‏کے حالات ایسے تھے کہ بگڑ نے کے لئے ہر سہولت مہیا کر نے کو تیار تھی۔ اس حالت میں بھی بالکل پاکیزہ زندگی اختیار کئے ہوئے تھے۔ اس تنقید ‏کو کہ نبی کریم ؐ جنسی خواہش رکھتے تھے ، یہ طرز زندگی جھوٹ 

ثابت کر دیتا ہے۔ 

اپنی پچیسویں عمر میں نبی کریم ؐ نے جو پہلی شادی کی تھی وہ بھی احساس دلاتی ہے کہ آپ جنسی خواہشات والے نہیں تھے۔

پچیسویں عمر میں نبی کریم ؐ نے بہت ہی خوبصورت نوجوان تھے۔اس عمر میں کسی بھی دل کش عورت سے انہوں نے شادی نہیں کی۔ بلکہ پہلے ہی ‏سے دو شوہروں کے ساتھ زندگی بسر کئے ہوئے ایک بیوہ سے جو نبی کے عمر سے پندرہ سال بڑی تھیں ، چالیس سالا خدیجہؓ سے نکاح کی۔ 

انہیں یہی مقصد تھی کہ غلط راستے پربھٹک نہ جانے کے لئے ایک بیوی کی ضرورت پڑتی ہے، اس کے سوا جوانی، حسن اور کنواراپن سب کچھ ملا کر ‏زیادہ حیثیت والی ایک عورت کی چاہت انہیں نہیں تھی۔ اس عمر میں ایک معمولی انسان کی جو چاہت ہونی چاہئے تھی اس سے بھی کہیں کم ہی ‏انہوں نے پسند کی تھی، ان کی اس پہلی شادی ہی سے یہ بات ظاہر ہو تی ہے۔ 

نبی کریم ؐ نے اپنی پچیسویں عمر سے لیکر پچاسویں عمر تک یعنی خدیجہ کی چالیس سے لیکر پینسٹھ عمر تک انہیں بیوہ کے ساتھ زندگی بسر کی۔ اس عرصہ میں ‏آپ کسی سے نکاح نہیں کی۔پچیسویں عمر سے پچاسویں عمر تک کا عرصہ ہی مردوں کا جنسی جذبہ غالب ہو نے کا زمانہ ہے۔ اس کے بعد بتدریج وہ ‏جذبہ کم ہو تے چلا جا تا ہے۔ 

خوب لذت لینے والی اس عمر میں اپنے سے پندرہ سال بڑھے ہوئے ایک بیوہ کے ساتھ زندگی گزارا ہے۔ اس سے بھی ثابت ہو تا ہے کہ آپ نے ‏مستقبل میں جو شادی کی تھی اس کی وجہ جنسی جذبہ نہیں ہے۔ 

ایک اور زاویہ سے بھی اس پر ہم غور کر نا چاہئے۔ ازدواجی زندگی میں مبتلا ہو نے کے لئے اگر عورت کو پوری طرح سے رغبت نہ ہو اور صرف مرد ‏تیار ہوجائے تو وہ رشتہ مکمل نہ ہوگا۔ خدیجہؓ نے اپنی چالیسویں عمر سے اپنی وفات پانے کی پینسٹھ عمر تک وہ نبی کریم ؐ کے ساتھ زندگی گزاری تھی۔ ‏چالیسویں عمر سے مباشرت کا لطف بتدریج کم ہو تے ہوئے پچاس یا پچپن کی عمر میں عورتوں کواس میں ناپسند یدگی کی حالت پیدا ہو جا تی ہے۔

نبی کریم ؐ کی عمر تو ازدواجی تعلق کو بالکل پسند کرنے والی عمر تھی۔ ان کی بیوی کی عمر تو اس کو ناپسند کر نے والی عمر تھی۔ نبی کریم ؐ کی جوانی کے زور کو ‏مقابلہ کر نے کی حالت میں خدیجہ ؓ نہیں ہوسکتے تھے۔ مزید یہ کہ اکثر عورتیں پچپن سے لے کر پینسٹھ کی عمر تک مباشرت کو پسند نہیں کریں ‏گے۔خدیجہؓ کی پچپن سے لے کر پینسٹھ کی عمر تک کی دس سال میں کیا نبی کریم ؐ اذدواجی زندگی میں مبتلا ہوئے ہوں گے؟یہ بھی غور کر نے والی بات ‏ہے۔ 

اگر یہ سچ ہو تا کہ نبی کریم ؐ کو بہت زیادہ جنسی جذبہ تھا تو اپنی بیوی جنسی تسکین دینے سے قاصررہنے کے باوجود ان کے ساتھ صرف نام کے لئے نبی ‏نے کیسے گزارا کئے ہوں گے؟ جنسی تسکین کی چاہت والی عمر میں اگر وہ نہ ملے تو بددلی پیدا ہو کر دوسری شادی کر نے کی کیا خواہش پیدا نہیں ہوئی ‏ہو گی؟ کم سے کم خدیجہؓ کے ساتھ بسرکر نے والی آخری دس سالوں میں تو کیا انہیں وہ خیال پیدا نہیں ہوا ہوگا؟ ایساکوئی خیال انہیں پیدا نہیں ہواتھا۔ ‏خدیجہؓ کے وفات تک بھی دوسری شادی کے بارے میں بغیر سوچے ہی وہ گزارا کررہے تھے۔

اس زمانے کے عربوں نے عام طور سے دس سے بیس تک بیویوں کو بیاہے ہوئے تھے۔ اس زمانے کے مرد یا عورت کوئی بھی کثیر الازدواج کو غلط ‏نہیں سمجھتا۔ اس حال میں اگر نبی نے دوسری شادی کی ہوتی تو کوئی بھی اعتراض نہیں کیاہوگا۔ ان کی بیوی خدیجہ بھی انہیں اعتراض نہیں کرتے۔

نبی کریم ؐ کی نیک اخلاق، راست بازی، بلند اوصاف، دلکش حسن اور جوانی ان سب کو اچھی طرح جانے ہوئے اس زمانے کے لوگ نبی کریمؐ کو بیٹی ‏دینے کے لئے بھی انکار نہیں کئے ہونگے۔ اتنے مواقع رہنے کے باوجود نبی کریم ؐ نے اپنے پچاسویں عمر تک، خدیجہؓ وفات پا نے تک ، دوسری شادی ‏نہیں کی۔ 

نبی کریم ؐ اپنے آپ کو اللہ کا رسول اعلان کرنے کے زمانے سے زیادہ وہ اعلان نہ کر نے کے اس چالیسویں عمر تک کی زندگی ہی میں کئی شادیاں کرنے ‏کو سہولتیں تھیں۔ اپنے کو اللہ کا رسول کہنے سے پہلے کوئی انہیں تنقیدی نگاہ سے دیکھ نہیں سکتا۔لیکن اپنے کو اللہ کا رسول اعلان کر تے وقت ان کی ہر ‏عمل کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا گیا تھا۔ اس لئے جنسی جذبہ کے لئے کئی شادیاں رچانا ہی ان کا مقصد ہو تا تو چالیس عمر کے پہلے کئی بیویوں کے ساتھ بسر ‏کر نے ہی کو منتخب کئے ہوتے۔ اس کے باوجود اپنی پچاس سالا زندگی تک ساٹھ عمر کی عورت کے ساتھ ہی زندگی بسر کی۔ یہی بات ہر تبصرہ کے لئے ‏منہ توڑ جواب ہے۔ 

ہم اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ اتنی ساری سہولتیں رہنے کے باوجود ایک عمر رسیدہ عورت کے ساتھ ہی زندگی نباہنے کو وہ عام انسانوں سے بھی ‏بالکل کم جنسی جذبے کی طرف توجہ فرمایا تھا۔

دوسری شادی اگرنہ کریں بھی تو جنسی تسکین نہ پہنچانے والی بیوی پر کم از کم نفرت توپیداہو سکتا تھا۔ ان کی ازدواجی زندگی میں روٹھنا، جھگڑنا تو ‏ہوسکتا تھا۔ نبی کریم ؐ اگر جنسی جذبہ والے ہو تے تو اس جذبہ کی تسکین نہ ہو سکنے پر اس کو ضبط نہ کر تے ہوئے غصہ اور نفرت پیدا ہو کر ان کی زندگی ‏ہی جہنم بن گئی ہوتی۔ لیکن ایسا کوئی واقعہ اس زمانے میں نہیں ہوئی۔ 

جنسی جذبات سے مغلوب ایک شخص اپنے لئے ایک بیوی رکھتے ہوئے کئی کئی روز تک شہر کے باہر ایک غار میں کیا تنہائی میں ریاضت کئے ہوں ‏گے؟چالیسویں عمر میں وہ تنہائی میں بیٹھ کر ٖغور و فکر میں ڈوبے رہنا یہ ثابت کر تا ہے کہ وہ جنسی جذبات سے آلودہ نہیں تھے۔

جنسی صحبت سے پرے دلی قربت ہی ان دونوں کے درمیان رہی ہے۔ غارحرا کے اندر تنہائی میں غورو فکر میں مبتلا ہونے والے زمانے میں پچپن کی ‏عمر کو پہنچے ہوئے خدیجہؓ نے نبی کو ان کی ضروریاتی غذا وغیرہ لیتے ہوئے ان کانٹے دار پتھریلی راہ میں بہت مشکل سے چل کرآیا کر تے تھے۔ ان کے ‏پاس جو سہولت تھی اس سے وہ اپنے غلاموں کے ذریعے ہی بھیج سکتے تھے۔ اس کے باوجود وہ خود لے جا کر وہاں نبی کریم ؐ کی خاظر تواضع کر تے ‏تھے۔اس سے ان دونوں کے درمیان جو محبت تھی کیا اس کو جنسی خواہشات کا تعبیر دے سکتے ہو؟ 

جنسی جذبات کے پرے نبی کریم ؐ کی پاکیزہ زندگی کو آنکھوں کے سامنے دیکھنے کی وجہ ہی سے نبی کریم ؐ کی رسالت کو پہلے پہل ماننے والے کا اعجازخدیجہؓ ‏نے حاصل کی تھی۔اورخدیجہؓ کوبھی وہ جذبہ اہمیت رکھتا نہیں تھا۔ اگر ایسا ہو تا تو نبی کے غار حرا کو جانے سے روک دیتے۔ اس طرح عمل در آمد نہ ‏ہوتے ہوئے اس ریاضی زندگی کے حامی بن کر رہے۔

اپنی پچیسویں عمر سے پچاسویں عمر تک ، چالیس سے پینسٹھ سال کی عمروالے خدیجہ کے ساتھ گزری ہوئی زندگی نبی کریم ؐ کے مقصد کو دنیا کو واضح طور ‏پر اعلان کر تا ہے۔ 

پچاس سال کی عمر تک ایک شخص کو جنسی جذبہ پیدا نہیں ہوا اور اس کئے لئے کوئی نشانی بھی دکھائی نہیں دی، پھراگر کوئی کہے گا کہ اس کو پچاس سال ‏گزرنے کے بعد جنسی جذبہ یکایک ابھر گیا تو کیا کوئی عقلمند اور تجربہ کار اس کو قبول کرسکتا ہے؟

نبی کریمؐ اپنی پہلی بیوی خدیجہ کی وفات کے بعد سمعہ نامی شخص کی بیٹی سودا سے انہوں نے نکاح کر لی۔ ان کے بارے میں تھوڑی سی تفصیل جان ‏لیں۔ 

سکران ابن عمر الانصاریؓ اور ان کی بیوی سوداؓ دونوں نے اسلام میں شامل ہو گئے۔ اسلام کو قبول کر نے کی وجہ سے یہ دونوں زوجین ان کے قبیلے ‏والے عبد الشمس کے جماعت والوں سے کئی ظلموں کا سامنا کر نا پڑا۔اپنے عقیدوں کو حفاظت کر نے کے لئے یہ زوجین ابی سینیہ کی طرف ہجرت کر ‏گئے۔اس غلط خبر کو سن کر کہ مکہ میں اچھا ماحول پیدا ہوگیا، وہ دونوں پھر سے مکہ واپس آگئے۔واپس آنے کے بعد سکرانؓ نے اپنی بیوی سودا کو بیوہ ‏چھوڑکرچل بسے۔ 

اسی بیوہ کو نبی کریم ؐ نے دوسری شادی کر لی۔ وہ بیوہ کم عمر والی یا ادھیڑ عمر والی بیوہ نہیں تھی، بلکہ ازدواجی زندگی کی قابلیت کو کھونے والی ابتدائی منزل ‏کی وہ بیوہ تھی۔ 

نبی کریم ؐ سوداؓ سے نکاح کر تے وقت سودا کی عمر پچپن تھی اور نبی کریمؐ کی عمر پچاس تھی۔ 

پہلی شادی تو اپنے سے عمر رسیدہ بیوہ سے ہوئی۔ وہ بیوی اگر مر جائے تو جنسی جذبہ رکھنے والے ازدواجی زندگی کے لئے ایک قابل قبول عورت ہی ‏کودوسری شادی کے لئے منتخب کریں گے۔

نبی کریم ؐایک جوان عورت کو منتخب کر نے سے اس زمانے کی سماج میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ خدیجہؓ کی ساری دولت کو ایک ہی وارث آپ ہی ‏تھے۔پیسوں کی لالچ دے کر بھی وہ جوان عورت سے شادی کر سکتے تھے۔اتنی سہولیات رہنے کے باوجود دوسری شادی کے لئے جو انہوں انتخاب ‏کیا وہ بھی آپ سے پانچ سال بڑی تھی۔ ازدواجی زندگی کی قابلیت کو کھونے کے ابتدائی دور میں رہنے والی ایک بیوہ عورت سوداؓ ہی کو چنا۔ اس سے ‏ثابت ہو تی ہے کہ اس کی وجہ جنسی جذبات نہیں ہوسکتی۔ 

خدیجہؓ کی وفات کے بعد ان کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کو پرورش کر ناہی اس کی وجہ ہوسکتی ہے۔ 

اس کے بعد ہی نبی کریم ؐ عائشہؓ سے نکاح کر تے ہیں۔ خدیجہؓ کی وفات کے تین سال بعد اپنی ترپن سالہ عمر میں عائشہؓ سے نکاح کر تے ہیں۔ اس وقت ‏عائشہؓ کی عمر صرف چھ سال تھی۔ ہم یہاں یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس وقت بچپن کی شادی عام طور سے رواج تھا۔ اسکے بعد کے زمانے میں ہی ‏اسلام اس کو منع کر دیا۔ 

اس شادی کو بھی عورت کی خواہش کو وجہ نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ عورت کی خواہش سے شادی کر نے والے ان سے فوراً صحبت کرنے کے لائق ‏عورت ہی کو منتخب کریں گے۔ صحبت کر نے کے نامناسب ایک چھوٹی لڑکی سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔ 

ایک چھوٹی سی لڑکی سے شادی کر نے کی کیا ضرورت تھی، یہ سوال بھی اٹھایا جا تا ہے۔ اس لئے اس کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ 

اللہ کا رسول مبعوث ہو نے والے نبی کریم ؐ کواسلام کا سارا قانون یکمشت ایک ہی وقت میں عطا نہیں کیاگیا۔ تھوڑا تھوڑا سا 23 سال میں ایک ایک ‏قانون اترتا گیا۔ 

چنانچہ اللہ کی طرف سے جس کے متعلق قانون نازل نہیں ہواان معاملوں میں اس سماج میں جو عادات و اطوار چلا آرہا تھا اسی کے مطابق آپ بھی ‏چلتے آئے۔ اس زمانے کے لوگ شراب خوب پینے والے تھے۔ اس کے متعلق اللہ کا حکم آنے تک اسلام کو قبول کئے ہوئے لوگ بھی اپنی پرانی ‏عادت پر ہی قائم تھے۔ اللہ نے جب تک منع نہیں کیا نبی کریم ؐ بھی اس کو روکا نہیں ۔ 

اسی طرح بچپن کی شادی کا معاملہ بھی عربوں کے درمیان عام طور سے چلا آرہاتھا۔یہ ممانعت آنے سے پہلے کہ چھوٹی لڑکیوں سے شادی نہ کیا ‏جائے ، اس سماج کے عادت کے مطابق نبی کریم ؐ نے بھی چھوٹی عمر کی عائشہؓ سے نکاح کر لی۔

بعد میں اس شادی کی ضابطگی اللہ کی طرف سے نازل ہوئی۔ کچھ نہ جاننے والی لڑکیوں سے شادی کرنا اسلام پوری طور سے منع کر تی ہے۔ 

اس کو مندرجہ ذیل دلیلوں سے جان سکتے ہیں۔ 

یہ آیت 4:19 کہتی ہے : ’’اے ایمان والو! عورتوں کو زبردستی حاصل کر نا تمہیں جائز نہیں ہے۔‘‘

یہ آیت 4:21 کہتی ہے : وہ عورتیں تم سے سخت معاہدہ لے چکی ہیں۔

جب نبی کریم ؐ نے کہا کہ کنواری ہو یا بیوہ ان کی رضامندی لینا ضروری ہے تو میں نے پوچھا کہ ’’کنواری لڑکی تو (رضامندی کے لئے) شرمائے ‏گی!‘‘تو نبی کریم ؐ نے فرمایا:’’ اس کی خاموشی ہی اس کی رضامندی ہے!‘‘

راوی: عائشہؓ 

بخاری:حدیث 5137، 6964، 6971 

میرے والد نے میری رضامندی کے بغیر میری شادی کر دی۔ میری ناپسندیدگی میں جب میں نے رسول اللہ ؐ کے پاس آکر شکایت کی تو آپ نے ‏اس شادی کو رد کر دیا۔ 

راوی: خنسہ بنت خطامؓ 

بخاری: 5139، 6945، 6969

جس طرح عورتوں کو ذمہ داریاں ہیں ، اسی طرح انہیں بہترین طریقے سے حقوق بھی ہیں۔ (قرآن: 2:228)

مندرجہ بالا دلیلوں سے ہم جان سکتے ہیں کہ شادی ایک معاہدہ ہے، عورتوں کو ذمہ داری اور حقوق ہیں، اورشادی کے لئے ان سے رضامندی مانگنا ‏ضروری ہے۔ 

معاہدے کا مطلب ہے کہ معاہدے کی معانی کو دونوں جان لینا چاہئے۔ رضامندی کا مطلب ہے کہ وہ دونوں کو معلوم ہوناچاہئے کہ وہ کس کے ‏لئے رضامندی دے رہے ہیں۔ فرائض اور حقوق کا مطلب ہے کہ اس کو جان لینے کی حد تک پختگی حاصل کر نا چاہئے۔ 

اسی وجوہات کی بنا پر لڑکے اور لڑکیوں کو شادی نہ کر نے کا حکم عائد کیا گیا ہے۔ 

یہ حکم اللہ کی طرف سے آنے سے پہلے اس سماج میں بچپن کی شادی پھیلی ہوئی تھی۔ اسی دستورکے مطابق نبی کریم ؐ نے نکاح کی۔ 

یہ شادی ہو نے کے بعد بھی عائشہؓ اپنے والد کے گھر ہی میں تھے۔

نبی کریم ؐ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ جانے کے بعد ہی عائشہ ؓ سن بلوغت کو پہنچتے ہیں۔اس کے بعد ہی نبی کریم ؐ عائشہؓ کے ساتھ ازدواجی زندگی ‏گزارنے لگے۔ اس لئے یہ سوال کہ چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کیوں کیا گیا،اس کیلئے یہی جواب کافی ہے۔ 

کسی شخص کو جنسی جذبات ابھر جائے تو وہ عورتوں سے لطف اندوز ہو نے کو فوراً اس جذبے کی تسکین کے لئے جوان عورت ہی کی تلاش کر ے گا، ‏سوائے اس کے پانچ سال بعد بلوغت کو پہنچنے والی ایک عورت سے شادی نہیں کرے گا۔ اگر اس طرح اگر کوئی شادی کر ے تو اس کا مقصد جنسی ‏جذبہ نہیں ہو سکتا، اس کے لئے کوئی دوسری ہی وجہ ہوگی۔ ہر جذبے کا یہی حال ہے۔

اگر کسی کو بھوک لگے تو وہ اسی وقت کھانے کی تلاش کر ے گا، اس کے بجائے اس وقت کی بھوک کو وہ تین دن بعد پکنے والے پھل کی تلاش نہیں ‏کرے گا۔ پہلی بیوی سے بھی آخری دس سالوں سے ازدواجی زندگی نہ ملنے کی صورت میں دوسری بیوی بھی اس حالت سے گزری ہوئی ایک بیوہ ‏عورت تھی۔ 

اس حالت میں تیرہ سال تک خانگی زندگی سے لطف اٹھانے کے مواقع کو کھویا ہوا ایک انسان ، جنسی جذبے سے مغلوب ایک انسان، اس کے بعد ‏انتخاب ہونے والی عورت فوراً لطف اٹھانے کے لائق ہو، اسی کو وہ پسند کر ے گا۔ 

اس لئے اس شادی میں جنسی جذبے کو وجہ بتانا مناسب نہیں لگتا۔ 

ابوبکرؓ نبی کریم ؐ کے بالکل جانی دوست رہنے کی وجہ سے اپنے اور نبی کے درمیان ایک رشتہ قائم رکھنے کی خواہش میں ابوبکرؓ نے اصرار کی کہ اپنی بیٹی ‏عائشہؓ سے اس زمانے کی روایت کے مطابق نکاح کر لیں۔ 

اس حالت میں نبی کریمؐ تین نکاح کر نے کے باوجود خدیجہؓ وفات پاجا نے کی وجہ سے صرف دو ہی بیویوں کے ساتھ زندگی گزارے تھے۔ یہی حالت ‏نبی کریم ؐ کی چھپن سال تک قائم رہی۔

ایسا کہنا بھی ٹھیک نہیں کہ وہ دو بیویوں کے ساتھ زندگی گزارے۔ کیونکہ عائشہؓ کے ساتھ آپ مدینہ جا نے کے بعد ہی زندگی بسر کی۔ سوداؓ کے ‏ساتھ ہی اس دوران میں صرف نام کے لئے زندگی گزارا تھا۔

یعنی پچاس سال کے نبی کریم ؐ نے پچپن سالا عمر رسیدہ سوداؓ کے ساتھ اور ازدواجی زندگی قابلیت کو نہ پہنچے ہوئے عائشہؓ کے ساتھ نام کے لئے اس ‏دوران زندگی بسر کر رہے تھے۔ چھپن سال کی عمر تک اسی حالت میں گزر ہوا۔ نبی کریمؐ کی شادیوں کو جنسی جذبے کی وجہ بتانے والے اس مقام پر ‏غور کر نا چاہئے۔ 

نبی کی چوتھی شادی کے بارے میں دیکھیں۔

حصن بن حوزافہؓ اور ان کی بیوی حفصہؓ نے اسلام قبول کیا۔ اسلامی تاریخ میں واقع ہو نے والی دوسری جنگ جنگ احد میں میاں بیوی دونوں نے ‏حصہ لیا۔ اس جنگ میں اپنی قربانی کی دھاک بٹھا کر حصن بن حوزافہؓ شہید ہو گئے۔زخمی ہو نے والوں کو تیمارداری کر نااور پانی مہیا کرنا جیسے کاموں ‏کو اس حالت میں بھی حفصہؓ نے کر نے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اسلامی تاریخ کی بہادر لڑکیوں میں ان کا نام بھی سر فہرست ہے۔

شوہر کے لٹ جانے کے بعد بیوہ ہوجا نے والے حفصہؓ ہی سے نبی کریم ؐ نے اپنی چھپن سالا عمر میں نکاح کی۔ یہ شادی نبی کی چوتھی شادی رہنے کے ‏باوجود خدیجہؓ پہلے ہی وفات پاجا نیکی وجہ سے ان کو بھی ملا کر اس وقت نبی کریم ؐ کو تین بیویاں ہی تھیں۔

نبی کریم ؐکے قریبی دوستوں میں دوسرامقام حاصل کرنے والے اور بہادرانہ کارروائی سے اسلامی تبلیغ کو طاقت پہنچانے والے عمرؓ کے بیٹی ہی حفصہؓ ‏تھے، یہ بھی اس شادی کے لئے ایک اہم وجہ ہوسکتا ہے۔ 

اس کے بعد نبی کریم ؐکی پانچویں شادی کو دیکھیں!

نبی کریم ؐ کی پانچویں بیوی قسیمہ کی بیٹی زینبؓ تھیں۔ یہ پہلے طبیب بن حارس کی بیوی رہ چکی تھیں۔ وہ اچانک انتقال کر جانے کی وجہ سے ان کے بھائی ‏عبیدہ بن حارثؓ کی بیوی بنیں۔ وہ جنگ بدر میں حصہ لے کر اسی جنگ میں مارے گئے۔ اس سے زینبؓ پھر سے بیوہ بن گئیں۔ اس کے بعد عبد اللہ ‏بن جہشؓ سے ان کی نکاح ہوئی۔ صرف دو ہی سال ان کی ازدواجی زندگی چلی۔ اس کے بعد واقع ہو نے والی جنگ احد میں عبد اللہ بن جہشؓ نے حصہ ‏لیا اور اسی میں بہادرانہ طور پر شہید ہوئے۔ اس کے بعدزینبؓ نے پھرسے بیوگی اختیار کی۔ 

پہلے ہی سے تین خاوندوں کے شریک حیات رہ کر تین بار بیوہ بنے ہوئے زینب بنت قسیمہؓ ہی سے نبی کریم ؐ کی پانچویں شادی ہوئی۔ 

ہجری کے تیسرے سال رمضان میں نبی نے ان سے شادی کی۔ ہجری کے چوتھے سال ربیع الاول میں یعنی آٹھ سال نبی کے ساتھ زندگی بسر کر نے ‏کے بعد زینبؓ انتقال فرما گئے۔ تین شوہروں کے ساتھ زندگی بسر کر کے تین بار بیوہ ہونے والی ایک عمر رسیدہ عورت سے نکاح کر نے کی وجہ کیا تم ‏کہہ سکتے ہوکہ یہ جنسی جذبہ ہی ہے ؟ اب تک جتنی شادی ہوئی تھی وہ سب اس طرح انتظام پائی ہے کہ اس میں جنسی جذبے کی کوئی شائبہ تک ‏نہیں۔

ایسی حالت میں نبی کریم ؐ نے پانچ شادی کر نے کے باوجود خدیجہؓ پہلے ہی گزر جانے کی وجہ سے اور زینبؓ آٹھ ہی مہینے میں انتقال فرمانے کی وجہ سے ‏اب جو زندہ تھے وہ سوداؓ ، حفصہؓ اور عائشہؓ تین ہی تھے۔ 

نبی کریم ؐ اپنی چھپن سالا عمر میں جہش کی بیٹی زینبؓ کو چھٹویں بیوی بنالیا۔ نبی کریم ؐ نے کئی بیویوں سے شادی کر نے کے لئے جو تنقیدیں کی جاتی ہیں ، اس ‏کے ساتھ اس شادی کے بارے میں بھی دشمنوں کے ذریعے خاص طور سے تنقید کیا جا تا ہے۔ 

نبی کریم ؐ کو عیاش ثابت کر نے کے لئے وہ لوگ اس شادی کو استعمال کر تے ہیں۔ یعنی وہ لوگ معقول معلومات کے بغیر تنقید کرتے ہیں کہ نبی نے ‏اپنی بہو سے شادی کر لی۔ 

اس کی تفصیل یہی ہے:

زید کو جو ایک غلام تھے عربوں کے دستور کے مطابق نبی کریم ؐ نے لے پالک بچہ بنالیا۔

نبی کریم ؐ نے زید کو اپنی پچیسویں عمر سے پچپن سال تک اپنے خاص بچے کی طرح پالا۔ زید کی ہر معاملے کو نبی ہی ذمہ دار تھے۔ اسی طرح زید بھی ہر ‏کام کے لئے نبی کریمؐ ہی پر وابستہ تھے۔ 

نبی کریم ؐ اپنے والد کی بہن عمیمہ کی بیٹی زینب کو یعنی اپنی پھوپی کی بیٹی کو ہجری کے پہلے سال میں زید سے شادی کر رکھا۔ بہت ہی اعلیٰ قبیلہ کی لڑکی ‏مانے جانے والی اپنی پھوپی کی بیٹی کو ایک معمولی غلام کے ساتھ شادی کر رکھنا اس دور کے سماج میں ایک ایسا انقلابی کام ہے جو قیاس نہیں کیا جاسکتا ‏تھا۔ 

اس وقت یہ قانون نازل ہوا کہ لے پالک بچہ اسلام میں جائز نہیں۔ 

ابن عمرؓ نے کہا کہ یہ آیت 33:5کہ’’ ان کے باپوں کے نام سے ہی پکارو‘‘ نازل ہونے تک ہم نے ان کو محمد کے بیٹے زید کہہ کر ہی پکارا کرتے ‏تھے۔ (بخاری: 4782)

زید اور زینب کی شادی کسی وجہ سے ایک سال سے زیادہ نبھ نہ سکی۔ ہر وقت ان کے درمیان کچھ نہ کچھ جھگڑا ہوتا ہی رہا۔ خاندان میں سکون ہی نہ رہا۔ ‏آخر میں زید نے زینب کو طلاق دینے کی نوبت تک آگئی۔ 

پالا ہوا بچہ اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد پالنے والا اس لڑکی سے شادی کر سکتا ہے ، وہ بہو سے شادی کر نا نہیں ہو سکتا۔ اس شادی کی وجہ یہ ہے کہ ‏اس قانون کو دنیا کو سنانا ہے۔ 

لے پالک کیوں نہیں ہو ناچاہئے اور وہ ایک باطل عقیدہ ہے، اس کے بارے میں حاشیہ نمبر 317میں تشریح کیا گیا ہے۔

چند دشمنوں نے اس طرح افواہیں پھیلانے لگے کہ نبی کریم ؐ نے زینب کی چاہت میں زید کو طلاق دینے رکھا۔ 

اگر نبی کریمؐ کو زینب کی چاہت ہو تی تو انہیں جوانی ہی میں شادی کر سکتے تھے۔ کیونکہ آپ ہی اس عورت کے ذمہ دار تھے۔ انہیں زیدسے نکاح ‏کرانے کے بجائے خود ہی نکاح کر سکتے تھے۔ 

جوانی کے عالم ہی میں نکاح کر نے کے بجائے کئی سالوں تک زید کے ساتھ زندگی بسر کرانے کے بعد ان سے شادی کر لینا ، کوئی نہیں کہہ سکتا اس کی ‏وجہ جنسی جذبہ ہے۔

اسلامی قانون کے مطابق لے پالک بچہ خاص بیٹا نہیں ہو سکتا۔ اپنے کو جو پیدا ہوا اسی کو خاص بیٹا کہہ سکتے ہیں۔ اس لئے زید جب نبی کریم ؐ کے بیٹے نہ ‏ہونے کی صورت میں ان کی بیوی نبی کی بہو نہیں ہوسکتی۔ اللہ کے قانون کے مطابق وہ آپ کو پھوپی کی بیٹی ہی کہلائے گی۔ چنانچہ اس شادی کے ‏بارے میں جو تنقید کی جاتی ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ 

نبی کریم ؐ کی اس کے بعد کی شادی ام سلمیٰ سے ہوئی۔ 

نبی کریم ؐ کی مامی کے بیٹے ابو سلمہ نامی عبد اللہ اسدؓ نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کر نے والے شہیدوں میں سے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کر ‏نے والوں میں گیارویں شخص تھے۔دشمنوں کا ظلم نہ سہنے والے مسلمان جب پہلی بار ابی سینیہ کی طرف ہجرت کر نے لگے تو ان میں یہ بھی ایک ‏تھے۔ 

اصحاب رسول پھر سے جب مدینہ کو ہجرت کر گئے تو ان میں یہ زوجین بھی تھے۔ ابو سلمیٰؓ جنگ بدر میں بھی حصہ لئے۔ جنگ احد میں بھی انہوں ‏نے حصہ لے کر زخمی ہو نے والوں میں سے ایک تھے۔ اس کے بعد ہجری کے چوتھے سال میں بنو اسد کے لوگوں سے ہونے والے چھوٹی سی جنگ ‏میں حصہ لے کر پھر سے زخمی ہو کر مدینہ واپس ہوئے۔ ان زخموں کی وجہ ہی سے ان کا انتقال بھی ہوگیا۔ 

وہ مرتے وقت ان کی بیوی ام سلمیٰؓ کو پارا، سلمہ، عمرہ اور درا نامی چار بچے تھے۔ چار بچوں کے ساتھ بے بسی کی حالت میں رہنے والے ام سلمیٰ ہی سے ‏نبی کریم ؐ نے ساتویں شادی کی۔ 

ام سلمیٰ کو اس وقت کیا عمر تھی، کوئی واضح حوالہ نہیں ہے۔ پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ ان کی عمر کچھ زیادہ ہی رہی ہوگی۔ 

کیونکہ نبی کریم ؐ نے جب شادی کے بارے میں کہنے لگے تو انہوں نے کہا کہ میں ایک عمر رسیدہ عورت ہوں، میری عمر والے کوئی شادی نہیں ‏کرتے، اور مجھ سے بچہ بھی جنا نہیں جا سکتا۔ 

‏(مسند احمد: 15751)

اس شادی کو بھی جنسی جذبہ کہا نہیں جا سکتا۔ 

نبی کریم ؐ کو یہ شادی ہو تے وقت ان کی عمر ستاون تھی۔ 

جنسی جذبے سے مغلوب شخص چار بچوں کے ساتھ بے بسی کی حالت میں رہنے والی ازدواجی زندگی کی چاہت نہ رکھنے والی ایک عمر رسیدہ بیوہ سے کیا ‏شادی کر سکتا ہے؟ بچہ نہ جننے کی عمر میں یعنی حیض کے رک جانے کی عمر میں رہنے والی ایک عورت کو جنسی جذبے کے لئے کیا کوئی منتخب کرسکتا ‏ہے؟ عقل رکھنے والے ذرا سوچیں۔ 

اس کے بعد نبی کریم ؐ نے جویریہ سے شادی کی۔ اس کی تفصیل یہ ہے۔

بنومستلق نامی گروہ اسلام کے پکے دشمن تھے۔ مسلمانوں کو کئی طریقوں سے اذیت دے رہے تھے۔ اس وجہ سے بنومستلق کی جماعت کے ساتھ ‏چھٹویں ہجری میں یعنی نبی کریم ؐ کی انسٹھویں سال میں جنگ ہوئی۔ 

اس جنگ میں مسلمانوں نے بہت بڑی فتح پائی۔ اس جماعت میں نبی کریم ؐ کے ایک جانی دشمن مسافع بن سفوان مارا گیا۔ میدان جنگ میں زندہ جو ‏پکڑے گئے ان میں اس کی بیوی جویریہ بھی ایک تھیں۔ اس جماعت کے صدر حارث کی بھی وہ بیٹی تھیں۔ 

اس زمانے کے جنگی قانون کے مطابق گرفت ہو نے والے قیدی جنگی بہادروں کو تقسیم کیا جا تا تھا۔ جویریہ کو ثابت بن قیسؓ نامی صحابی کے حوالے ‏کر دیاگیا۔ 

اس کے بعد جویریہ نے نبی کریم ؐ کے پاس آکر کہنے لگی کہ میں بنو مستلق جماعت کے صدر حارث کی بیٹی ہوں۔ مجھے ثابت بن قیس کے حوالے کر دیا ‏گیاہے۔ وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ساتھ اوقیہ چاندی کے سکے دے کر آزاد ہوسکتی ہوں۔ اس لئے آپ میری آزادی کے لئے کچھ مدد کرو۔ 

نبی کریم ؐ نے کہا کہ میں تم کو وہ رقم دے کر آزاد کرکے میں تم سے نکاح کر لیتا ہوں۔وہ راضی ہو گئے۔ اس کے بعد نبی کریم ؐ نے ان سے شادی ‏کرلی۔ 

اس شادی کے وقت نبی کریم ؐ کی عمر انسٹھ سال تھی۔گرفت میں آئے ہوئے قیدیوں کو نبی کریم ؐ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اگر نبی کریم ؐ اس عورت کے ‏حسن میں مست ہو کر جنسی جذبات کی وجہ سے ان سے لطف انداز ہو نا اگر چاہتے تو جویریہ کو اسی وقت اپنا لیا ہوتا۔ اصحاب میں کوئی بھی اعتراض ‏نہیں کئے ہوں گے۔ لیکن اس عورت کو ثابت بن قیسؓ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس سے ہم اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ اس شادی کی وجہ نہ تو جنسی ‏جذبہ ہے اور نہ ہی فریفتگی۔ 

وہ عورت اس طرح کہنے کے بعد ہی کہ میں اس گروہ کے صدر کی بیٹی ہوں اور مجھے آزادی کے لئے کچھ مدد کرو ، آپ نے ان سے شادی کی۔اس ‏سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ جاننے کے بعد کہ نبی کریمؐ اس عورت سے نکاح کرلی ہے، تمام اصحاب رسول نے اپنی غلامی میں ملے ہوئے سب کو آزاد کر ‏دئے۔کیونکہ نبی کریم ؐ کے ساتھ جڑے ہوئے اس جماعت والوں کو ہم کیسے غلام بنا سکتے ہے، اس طرح سوچ کر انہوں نے سب کو آزاد کردیا۔

اس نکاح کے وقت جویریہ کی عمر کتنی تھی باقاعدہ طور پر معلوم نہ ہوسکا، پھر بھی وہ عمر رسیدہ عورت ہی ہو سکتی تھی۔ 

اگر وہ عورت جوان ہو تی اورپرکشش حسن والی ہو تی تو ثابت بن قیس جیسے نوجوان کہہ نہیں سکتے کہ ساتھ اوقیہ چاندی کے سکہ دے کر آزاد ہو سکتی ‏ہو۔ وہ خود لطف اندوز ہونے کی ٹھان لیتے۔غلاموں سے لطف اندوز ہو نے کو اس زمانے کے ماحول میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ یا وہ خود بھی ان سے ‏شادی کر سکتے تھے۔ 

اپنے کو ملی ہوئی عورت کو سات اوقیہ جیسی حقیر رقم دے کر آزاد ہو سکتی ہو کہنے سے یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ جویریہ نہ توجوان تھیں اور نہ ہی ‏خوبصورت تھیں۔ 

نبی کریم ؐ بھی انسٹھ برس کے ہو گئے تھے۔ وہ عورت بھی اسی عمر کی ہوسکتی تھی۔ ان دونوں کے درمیان ہو نے والی شادی کی وجہ جنسی جذبہ نہیں ‏ہوسکتا۔ 

نبی کریم ؐ نے اپنی انسٹھ سالا عمر میں ام سلمیٰؓ سے شادی کر لی۔ یہ شادی نبی کریم ؐ کی نویں شادی تھی۔

نبی کریم ؐ کو ابتداء سے بہت ہی سختی سے مخالفت کرنے والے ، اور مکہ والے دشمنوں کے سردارابو سفیان کی بیٹی ہی ام حبیبہؓ تھیں۔ وہ معاویہؓ کی بہن ‏بھی تھیں۔ 

ان کے والد اسلام کو مٹانے کے لئے شدید طور سے کوشش کر تے وقت ہی ام حبیبہؓ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کے شوہر عبداللہ ابن جہش نے ‏بھی اسی دور میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ 

والد کا ظلم حد سے جب بڑھ گیا توحبشہ (ابی سینیہ) کو ہجرت کر کے چلے گئے۔ابی سینیہ جا نے کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں ان کے شوہر عبد اللہ ‏ابن جہش اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت کو قبول کرلیا۔ شوہر کے اسلام چھوڑنے کے باوجود انہوں نے اسلام ہی پر ثابت قدم رہے۔ 

تاریخ میں اتنی سختی سے عقیدے کو تھامنے والی عورتیں بہت ہی کم نظر آتی ہیں۔ام حبیبہؓ نے اس طرح زندگی گزارا کہ باپ سے زیادہ اور شوہر سے ‏زیادہ عقیدہ ہی اہمیت رکھتاہے۔عبد اللہ ابن جہش کے ذریعے حبیبہ نامی لڑکی کو جنم دینے سے وہ ام حبیبہ کے نام سے پکارے گئے۔

نبی کریم ؐ نبی بننے کے سترہ سال پہلے وہ پیدا ہوئے۔ (العسابہ)انہیں نبی کریم ؐ نے اپنی انسٹھویں عمر میں شادی کر تے وقت ان کی عمر سینتیس سال ‏تھی۔ 

شوہر مذہب بدل جا نے سے غیر ملک میں بے بسی کی حالت میں شوہر سے بچھڑ کر عقیدے کی خاطر جدو جہد کر تے وقت ہی اس کو سن کر نبی کریم ؐ ‏نے خود ام حبیبہؓ سے شادی کر لی۔ 

ابی سینیہ کے بادشاہ نجاشیؓ کونبی نے پیغام بھیجا کہ ان کے ملک میں بری حالت میں گھری ہوئی ام حبیبہؓ سے شادی کرنی ہے۔ 

اس کے بعد نجاشی بادشاہ نے ام حبیبہ کو بے حد عزت و احترام کے ساتھ نبی کریم ؐ کی طرف سے چار سو دینار مہر دے کر مدینہ کو بھیج کر رکھا۔ اس ‏کے بعد ہی ام حبیبہؓ کے ساتھ شادی ہوئی۔ یہ مختصر واقعہ ہے۔ 

غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھا گیا تو اس شادی کی وجہ بھی ہر گز جنسی جذبہ نہیں ہوسکتا۔ 

اسلام کی ابتدائی دور ہی میں ام حبیبہؓ نے اسلام قبول کر لی تھی۔ ابتدائی دور میں ہی وہ اپنے شوہر کے ساتھ ابی سینیہ کی سفر اختیارکرلی تھی۔ کم از کم ‏پندرہ سال تک ام حبیبہؓ نے ابی سینیہ ہی میں رہے۔ ام حبیبہؓ کو اسلام کی ابتدائی دور میں دیکھنے کے سوا اس درمیانی پندرہ سال میں نبی کریم ؐ نے انہیں ‏دیکھا تک نہیں۔ 

اس پندرہ سال کی درمیانی عرصہ میں ایک دوسرے ملک میں پناہ لینے والی عورت، شوہر سے بچھڑی ہوئی، ایک بیٹی کو جنم دی ہوئی، کس شکل میں ‏ہوگی، قیاس بھی نہیں کر سکتے۔ 

ان کا رنگ،شکل اور حسن ان پندرہ سالوں میں کس طرح تبدیل پائی ہوگی، کوئی کہہ نہیں سکتا۔ جنسی جذبہ ہی اس کی وجہ ہو تو نبی کریم ؐ ام حبیبہؓ کو ‏دیکھ کر ان کی خوبصورتی میں ڈوب جانا چاہئے تھا۔ ایک عورت کو بغیر دیکھے اگر شادی کریں تو اس کو جنسی جذبہ سبب نہیں ہوسکتا۔ 

نبی کریم ؐ کی دیگر شادیوں کی وجہ جس طرح جنسی جذبہ نہیں ہے اسی طرح اس شادی کو بھی جنسی جذبہ نہیں ہے۔ 

اس کے بعد نبی کریم ؐ نے صفیہ بنت حیے سے شادی کی۔ 

وہ یہودی خاندان کی عورت تھی۔ وہ پہلے سلام ابن مکشم کی بیوی رہ چکی تھی۔

اس کے بعد خنانہ ابن عفل حقیق سے دوسری شادی کر لی۔ 

صفیہ اور ان کے شوہر خنانہ اور ان کے والد حیے سب مدینہ میں جی رہے تھے۔

مدینہ میں رہنے والے یہود اور خیبر کے حصہ میں رہنے والے یہود ملک دشمنی کی کاموں میں مبتلا تھے۔ معاہدوں سے سرکشی کر کے مکہ کے کافروں ‏کو ملکی رازوں کو بتا کر الجھا رہے تھے۔ اس لئے خیبر کے حصہ کے یہودیوں کے ساتھ جنگ کر نے کی کوشش میں نبی کریم ؐ نے مبتلا ہوگئے۔ 

اس کو جانتے ہوئے صفیہ اور ان کے والد اور ان کے شوہرتینوں نے مدینہ خالی کر کے خیبر کو چلے گئے۔

خیبر کی جنگ میں مسلمانوں نے فتح پائی۔ یہود کے سرداروں میں بہت سے اہم لوگ مارے گئے۔ ان میں صفیہ کے شوہرخنانہ بھی تھے۔ کئی لوگ ‏گرفتار کئے گئے ، ان میں صفیہ بھی تھے۔

اس زمانے کے دستور کے مطابق قیدیوں کو جنگی بہادروں کے درمیان تقسیم کیاگیا۔ دحیا نامی ایک شخص نے نبی کریم ؐ کے پاس آکر ایک غلام مانگا ‏اور صفیہ کو لے گیا۔ اس وقت وہاں رہنے والوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ عورت اس قوم کی سردار کی بیٹی ہے۔ اس لئے ان کو آپ ہی رکھ ‏لیں تو بہتر ہوگا۔ اس کے بعد نبی کریم ؐ نے صفیہ کو آزاد کر کے ان سے شادی کرلی۔ یہ واقعہ اس شادی کی مختصرکیفیت ہے۔ 

اس کو غور سے دیکھنے والے دانشمند کوئی بھی اس شادی کی وجہ جنسی جذبہ نہیں کہے گا۔ اس میں غور کر نے کے لائق کئی باتیں موجود ہیں۔ وہ باتیں ‏دشمنوں کی بے بنیاد الزامات کو توڑ کر چکنا چور کر دیتی ہیں۔ 

پہلی بات نبی کریم ؐ کی عمر۔ یہ واقعہ ساتویں ہجری میں ظہور ہوا۔ ساتویں ہجری میں نبی کریم ؐ کی عمر ساٹھ سال تھی۔ پچاس سال تک ایک ہی بیوی کے ‏ساتھ زندگی بسر کر نے والے نبی کو کیا موت کے قریبی زمانے میں جنسی جذبہ پیدا ہوگا؟ 

دوسری بات صفیہ کی حالت۔ پہلے ہی سے دو شوہروں کے ساتھ زندگی گزار کر بیوہ ہونے والی عورت کو جنسی جذبہ والا کوئی انتخاب کر ے گا؟

تیسری بات شادی ہونے والا موقع۔ یعنی خیبر نامی غیر ملک کے ساتھ جنگ کر کے نبی کریم ؐ فتح پایا ہوا وقت ہے۔ بڑے بڑے سردار مٹی میں مل کر ‏مٹی بن گئے تھے۔ اگر نبی کریمؐ جنسی جذبہ والے ہو تے تو اس وقت کئی عورتوں کو اپنی طرف مائل کر لئے ہوتے۔ اس کو کوئی بھی روکنے کی طاقت ‏نہیں رکھ سکتا تھا۔ 

عام طور سے اس زمانے میں بادشاہ جب فتح پا تے ہیں تو جو وہ چاہتے ہیں اس کوعورت کواپنالینا معمولی تھا۔اس کو جنگی دھرم کہہ کر جائز بھی کہاجا تا ‏ہے۔ 

اس انداز کے ماحول میں بھی کسی بھی کنواری لڑکی کو نبی کریم ؐ نے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔جنسی جذبہ رکھنے والے جو راہ منتخب کر تے ہیں ، اس میں ‏سے کسی راہ کو انہوں نے اپنایا نہیں۔ اس حالت میں بھی انہوں نے دو شوہر والی بیوہ ہی کو منتخب کیا ہے تو اس کی وجہ جنسی جذبہ کیسے ہو سکتا ہے؟

آخر میں جوغور کر نے کی بات ہے وہ بھی بہت اہم ہے۔ یعنی صفیہ اور دیگر لوگوں کو جب قیدی بنا کر لایا گیا تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صفیہ کی ‏خوبصورتی میں ڈوب کر ان سے شادی کر لی۔نبی کریم ؐ نے صفیہ کے بارے میں اور دیگر لوگوں کے بارے میں سوچا تک بھی نہیں۔ 

اسی لئے دہیا نے صفیہ کو اپنے لئے منتخب کر لیا۔ وہ ان کو منتخب کر لینے کے بعد بھی نبی کریم ؐ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ 

ان کے بارے میں یہ بتانے کے بعد ہی کہ وہ بنو قریسہ اور بنو نظیر قوم کے سردارانہ خاندان سے وابستہ ہیں ، ان کو نبی کریم ؐ نے آزاد کر کے شادی کر ‏لی۔ 

صفیہ اگر خوبصورت بھی ہوتیں تو نبی کریم ؐ ان سے شادی کر نے کی وجہ وہ نہیں ہے۔ اگر خوبصورتی وجہ ہوتی تو وہ پہلی ہی نظر میں شادی کر لئے ‏ہوتے۔ 

یہود یوں کی شاہی خاندان کی عورت کہنے کے بعد ہی نبی کریم ؐ نے انہیں شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

اس شادی سے یہ فائدہ ہوا کہ یہودیوں کی نفرت کا جذبہ ٹھنڈاہوگیااور دونوں سماج کے درمیان اچھے تعلق پیدا ہوگئے۔

اس کے سوا دیگر شادیوں کی طرح اس کو بھی وہی وجہ مناسب ہے۔ 

دیگر شادیوں کو جس طرح جنسی جذبہ کی وجہ کہہ نہیں سکتے اسی طرح اس شادی کو بھی وہ وجہ بتا نہیں سکتے۔ 

نبی کریمؐ نے آخر میں میمونہؓ سے شادی کی۔ 

میمونہؓ کا اصلی نام برّا تھا، وہ حارث کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے پہلے عمر بن امر سے شادی کی تھی۔ اس کے بعد ابو رحم بن عبد العزا سے شادی کی۔دو ‏شوہروں سے بیاہنے کے بعد وہ دونوں مر جا نے کےٍ ۱بعدمیمونہؓ بیوہ ہی رہے۔ 

نبی کریم ؐ نے ان سے اپنی ساٹھویں عمر کے آخرمیں شادی کی۔ اس شادی کے موقع پر میمونہؓ کی عمر کتنی تھی، اس کی کوئی واضح نشان دہی نہ رہنے کے ‏باوجود انہوں نے پہلے ہی سے دو شادی کر کے بیوہ ہو جا نے کی وجہ سے ایک قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ ادھیڑ عمر کی ہوں گی۔ 

نبی کریم ؐ کے بڑے والد عباسؓ ام فضل نامی عورت سے شادی کی تھی۔میمونہؓ ام فضل کی بہن تھیں۔ اس وجہ سے میمونہؓ عباسؓ کی دیکھ بھال میں ‏تھیں۔ عباسؓ ہی نے انہیں نبی کریم ؐ کے ساتھ نکاح کر رکھا۔ 

مزید یہ کہ میمونہ ؐ نے خود نبی کریم ؐ سے درخواست کی تھی کہ انہیں شادی کر لیں۔ اس طرح انہوں نے درخواست کیں اوروہ اپنے بڑے والد کی ‏ذمہ داری میں بھی تھیں، یہی بات اس شادی کے لئے خاص وجہ تھی۔اس لئے اس شادی کو بھی جنسی جذبہ کی وجہ کہہ نہیں سکتے۔ 

نبی کریم ؐ کی یہی شادیاں تھیں۔ان شادیوں میں کچھ بھی جنسی جذبہ کے بنیاد پر نہیں تھیں۔ 

تو اس مخصوص اجازت کی وجہ کیا ہے؟ 

نبی کریم ؐ کی زندگی میں جو واقعات منعقد ہوئے اکثر اصحاب رسول کے ذریعے ہی مسلمان جانتے ہیں۔ ہر ایک صحابی نبی کریم ؐ کی کارروائی کو دیکھ کر ہی ‏بیان کیا ہے۔اسی وقت نبی کریم ؐ نے جوازدواجی زندگی گھر میں گزارے ، کھانا پینا اور رات کی عبادتیں وغیرہ باتوں کو اصحاب رسول نہیں جان سکتے ‏تھے۔ 

اس کوگھر کے اندر خانگی زندگی چلا نے والی بیویاں ہی جان سکتی ہیں۔ اس لئے ان کی بیویوں کے ذریعے ہی نبی کریمؐ کی زندگی میں چلنے والی تمام باتیں ‏دنیا کے لوگوں تک جاپہنچنے کے لئے اللہ کے رسول کے لحاظ سے اللہ نے اس طرح کا انتظام کیا ہوگا۔

اگرایک ہی بیوی ہو، نبی کریمؐ کی وفات کے بعد آپ کے بارے میں سنانے کے لئے صرف وہی ایک بیوی ہو تو ان خبروں میں کچھ دم نہ ہوگا۔ اگر وہ ‏کوئی غلط خبر دے دے تواسی کو دلیل بنا کر مسلمان عمل کر نے کی نوبت آسکتی ہے۔

اگر کثرت سے بیوی ہوں تو کوئی بھی بیوی کم یا زیادہ بولنے کے لئے پس و پیش کر ے گی۔ اگر کوئی ایک غلطی سے کہہ بھی دے تو دوسری ایک اسے ‏انکار کر تے ہوئے سچ بتا دے گی۔ اس سے نبی کریم ؐ کے دین کی حفاظت اور بھی بڑھ جائے گی۔ ان جیسے وجوہات کی بناپر ہی نبی کریم ؐ نے کئی شادیاں ‏کیں۔اس کو مندرجہ بالا دلیلوں سے ہم جان سکتے ہیں۔ 

عام طور سے لوگ جنسی جذبہ رکھنے والوں کو عزت کے قابل نہیں سمجھتے۔ دینی بزرگوں کے پاس اگر جنسی جذبے کو دیکھ لیں تو انہیں ذلیل بنا کر ‏دھتکار دیتے ہیں۔نبی کریم ؐ کوکئی شادیاں کر تے ہوئے لوگ دیکھنے کی وجہ سے انسانوں کے عام فطرت کے مطابق نبی کریم ؐ کونہیں ناپا۔

آپ کے ساتھ رہنے والا کوئی بھی شخص اس وجہ کو بتا کر مذہب نہیں بدلا۔ نبی کریم ؐ زیادہ شادی کر نے کی اس آخری پانچ سال میں ہی لوگ جوق در ‏جوق اسلام میں داخل ہو نے لگے۔ تقریباً عرب ملک ہی انہیں قبول کر لیا تھا۔ 

اگر جنسی جذبہ والے ہو تے تو اسے آنکھوں سے دیکھے ہوئے لوگ آپ کو دھتکار دئے ہوتے۔ایساکیوں نہیں کیا؟ اس پر بھی غور کر نا چاہئے!

تاریخ کے مطالعہ کر نے والے صرف نو بیویوں کو دیکھتے ہیں۔ پوری تفصیل کے نہ دیکھتے ہوئے فیصلہ کر بیٹھتے ہیں۔ 

اس تاریخی زمانے میں جینے والے لوگ نبی کی ساری زندگی کو غور سے دیکھا۔ آپ جن سے شادی کی ان بیویوں کو بھی دیکھا۔اور یہ بھی دیکھا کہ ان ‏جیسے عمر رسیدہ عورتوں سے شادی کر نے کے لئے جنسی جذبہ وجہ نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو نے لگے۔

آج نبی کریم ؐ کی کثیر ازواج کے بارے میں بات کر نے والے اگر نبی کے زمانے میں ہو تے تو یہ اچھی طرح سمجھ جاتے کہ اس کی وجہ جنسی جذبہ نہیں ‏ہے اور اسلام میں فوراًجمع ہو جاتے۔ 

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account