Sidebar

06
Sun, Jul
0 New Articles

‏368۔ انسان بندر سے پیدا نہیں ہوا

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏368۔ انسان بندر سے پیدا نہیں ہوا

‏یہ آیتیں 2:21 ،3:59، 4:1، 5:18، 6:2، 6:98، 7:189، 15:26، 15:28، 16:4، 18:37، 18:51، 19:67، ‏‏21:37، 22:5، 23:12، 25:54، 30:20، 32:7، 35:11، 36:77، 37:11، 38:71، 39:6، 40:57، ‏‏40:67، 49:13، 50:16، 51:56، 53:45، 55:3، 55:14، 70:19، 76:2، 86:5، 87:2، 90:4، 92:3، ‏‏95:4، 96:1 کہتی ہیں کہ انسان ارتقائی نشونما کے ذریعے تبدیل نہیں پایا۔ وہ براہ راست اللہ سے پیدا کیا گیاہے۔ 

یہ آیتیں کہتی ہیں کہ پہلا انسان مٹی سے پیدا کیا گیا اور دوسرے لوگ منی کے قطرے سے پیدا کئے گئے۔

کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ منی کے قطرے سے انسانی نسل بڑھتی جا رہی ہے۔

لیکن اللہ کا انکار کر نے والوں کا کہنا ہے کہ انسان کی ابتدائی نمود ارتقائی نشو نما کے ذریعے ہوئی ہے۔ 

ان کا دعویٰ ہے کہ ایک خلیہ کئی ارتقائی منزل سے گزرتے ہوئے بندر بنا۔ اس کے بعد ہی انسان کی ارتقاء ہوئی ۔ وہ اس لئے ایسا دعویٰ کر رہے ہیں ‏کہ اگر مان لیں کہ انسان پیدا ہوا تو اللہ کے انکار کا عقیدہ مٹ جائے گا۔ 

لیکن اس ایک خلیہ کی جان کیسے پیدا ہوئی؟ ا س سوال کا جواب ان کے پاس نہیں ہے۔ 

انسان بندر سے پیدا ہوا ، یہ فلسفہ اللہ کے انکار کے لئے مددگار ثابت ہو نے کی وجہ ہی سے اس کو بعض لوگ قابل تعریف سمجھتے ہیں ، اس کے علاوہ وہ ‏سائنسی لحاظ سے ثابت کی ہوئی حقیقت نہیں ہے۔ وہ صرف ایک قیاس ہے۔ 

ڈارونوں کا عقیدہ ہے کہ بعض جاندار زمانے کے دوران ایک اور جاندار میں تبدیل ہو تی گئی۔ کئی کروڑوں سال کے بعد بندر کی ذات میں تبدیل ‏ہوئیں۔اس کے اور کئی کروڑوں سال کے بعدبندر نشو نما پا کر انسانی شکل اختیار کی۔ 

کسی بندر کوانسانی شکل میں تبدیل ہو تے ہوئے دیکھ کرکیا کوئی ڈارونسٹ نے اس طرح فیصلہ کیا تو ہرگز نہیں۔

بندر اور انسان کے درمیان شکل میں چند متشابہت پائے جانے کی وجہ سے ڈارونسٹ اس قیاس کواپنایاہوگا۔ 

اس قیاس کو سچ کر دکھانے کے لئے انسان کی ارتقائی منزل کو دکھانے کی تصویریں شائع کر کے اسی کو ارتقائی نشو نما کو دلیل بنا کر پیش کر تے ہیں۔ یہ ‏تمام خیالی تصویریں ہیں۔ یہ ارتقائی عقیدے کو دلیل نہیں ہو سکتا۔

سائنسی علم کم ہو نے کے زمانے میں رہنے والے اگر اس کو مانیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔ آج کے سائنسی دینا میں اس کو ماننا ہی حیرت کی بات ‏ہے۔ 

شکل کے اعتبار سے بندر انسان سے مشابہت رکھ سکتا ہے،لیکن اندرونی ساخت میں انسان بندر سے مختلف ہے۔ 

ایک انسان کے خون کو دوسرے ایک انسان کو چلانے کے زمانے میں ہم جی رہے ہیں۔ 

سائنسدانوں نے تحقیق کی کہ انسانی خون جب مہیا نہیں ہوتاتو دوسرے جانداروں کا خون کیا انسانوں کوچلا سکتے ہیں؟ صرف بندر ہی نہیں بلکہ کسی ‏بھی جانوروں کا خون انسان کے خون سے ملتا نہیں۔ لیکن صرف خنزیرکا خون ہی انسان کے خون سے زیادہ تر میل کھاتاہے۔ 

شاید آئندہ زمانے میں سائنسدان اگر فیصلہ بھی کر یں کہ انسان کو خنزیر کا خون چلا بھی سکتے ہیں اورچلا نہیں بھی سکتے ہیں ، کسی بھی جانداروں کے ‏خون سے زیادہ خنزیر کا خون ہی انسانی خون سے میل رکھتا ہے۔ 

اگر انسان بندر سے ارتقاء پایا ہوتا توبندر کاخون ہی انسان کے خون سے قریب ہونا چاہئے تھا۔ بیل بکری جیسے جانور وں کا خون جس حد تک انسانی ‏خون سے الگ ہے اسی حد تک بند ر کا خون بھی انسانی خون سے الگ ہے۔ 

یہ انکشاف ناقابل انکارکے لئے ایک سند ہے کہ بندر سے انسان پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ظاہری شکل کے اعتبار سے یہ فیصلہ کر نے کے بجائے کہ انسان ‏کس سے پیدا ہوا ، یہی بہتر ہے۔کیونکہ یہی عقلمندی ہے۔ 

آج بھی باپ کی شکل میں اگربیٹا ظاہر ہو تو ڈی۔این۔اے۔ کے معائنہ کے ذریعے ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہی اس کا باپ ہے۔ شکل کو حساب میں ‏لیا نہیں جاتا۔ 

ڈارون کے زمانے میں خون کے ذروں کو تقسیم کر نے کی فراست نہ رہنے کی وجہ سے اس کے قیاس کو معاف کر سکتے ہیں۔ علمی شعور بڑھے ہوئے ‏اس زمانے میں بھی اس پر قائم رہنا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ 

دل کی آپریشن میں آج انسان بہت ترقی کرچکا ہے۔ اگر دل کام نہیں کر تا تو اس کے بدلے میں مصنوعی دل کو لگا نے کے حد تک ترقی کر چکا ہے۔ 

سائنسدانوں نے تفتیش کی کہ کیا دوسرے جانوروں کا دل انسان کو لگا سکتے ہیں؟ اگر لگا یا جا سکتا تو کئی دل کے مریضوں کو ایک دوسرا جنم مل سکتا ‏ہے۔ 

ہر جانوروں کے دلوں کو جب تفتیش کیا گیاتومعلوم کیا گیا کہ بندراور کسی بھی جانور کا دل انسانی جسم کے ساتھ موزوں نہیں ہوا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ انکشاف کیا گیا ہے، خنزیر کا دل ہی انسان کے دل کے ساتھ میل کھاتا ہے۔ خنزیر کا دل انسان کے جسم میں میل کھانے کے ‏باوجود ، وہ ممکن نہیں ہے،مگر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دوسرے جانوروں کے دل سے زیادہ خنزیر کا دل ہی انسانی دل کے قریب ہے۔

اگر کہنا ہو کہ انسان اگر کسی جانور سے ارتقاء پایا ہے تو یہی کہنامناسب ہو گا کہ وہ خنزیر سے ارتقاء پایا ہے۔ ڈارون کی بتائی ہوئی جسمانی ساخت سے ‏زیادہ اندرونی اعضاء کا تناسب کو بنیاد بنانا ہی علمی شعور کے مطابق ہوگا۔ 

آج کا انسان خلیہ کی آزمائش میں بھی ترقی پاگیا۔ جین کی راز کو جان لیاہے۔ 

بندر کی جین اور انسان کی جین کو آزما کر دیکھو، اگر وہ دونوں کم و بیش ایک ہی مشابہت سے ہوں یاثابت کیا گیا ہو کہ دوسرے کسی جانورکی جین ‏انسان کی جین سے مناسبت نہ رکھتا ہو تو ڈارون کے فلسفہ کو ایک حد تک تو مان سکتے ہیں۔ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ 

جین کی تفتیش کے بعد انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک ساری نسل ہی ایک افریقی ماں باپ سے نمودار ہوئی ہے۔

ڈارون نے ایسا نہیں کہا کہ ایک ہی بندر کی جوڑی سے انسان ارتقا ء پا کر اس میں سے انسانی نسل بڑھتے ہوئے آئی ہے۔ ڈارون کا فلسفہ ہے کہ ایک ‏مخصوص زمانے میں ایک مخصوص گنتی کے بندر ہی انسان میں ارتقاء پائی ہے۔یہ انکشاف ہو نے کے بعد سارے انسان ایک ہی افریقی ماں کی نسل ‏ہیں تو ڈارون کا وہ عقیدہ چکنا چور ہوگیا۔ 

انسان ایک ماں باپ کے ذریعے ہی پیدا ہوا، یہی حقیقت دنیوی بھائی بندی کو اجاگر کر سکتی ہے اور قوم، نسل اور رنگ کے نام سے اونچ نیچ وغیرہ کو ‏روک سکتی ہے۔ 

ڈارون کے فلسفہ کو تھامنا انسانی نسل کے لئے ضرر پہنچا سکتی ہے۔ 

میراپہلا باپ اور تمہارا پہلاباپ الگ الگ ہیں، یہ کہہ کر آج کے اس ذات پات کے اختلاف کو روا رکھ سکتے ہیں۔ 

اس سے زیادہ ایک اہم بات بھی ہے۔ انسان اپنی جسمانی ساخت سے بڑائی حاصل نہیں کی بلکہ عقل و تمیز کے ذریعے ہی حاصل کیا ہے۔ 

جسمانی نشونما اور جسمانی تبدیلی ہی کے لئے ڈارون وجہ بتاتا ہے۔ عقل و فہم سے عاری جاندار عقل و فہم سے تبدیل ہو نے کا ماحول اور مجبوری کون ‏سی ہے، وہ اس کو نہیں کہہ سکا۔ 

ڈارونسٹ کہتے ہیں کہ ابتدا میں زرافہ کی گردن بہت چھوٹی تھی۔ اس کی غذا اونچی مقام پرتھی، اس کو کھانے کے لئے گردن کواونچا کر نا پڑتا تھا، ایسے ‏ہی اونچا کرتے کرتے کئی کروڑوں سال کے بعد بہت لمبی ہوگئی جیسا اب دیکھ رہے ہیں۔ 

دنیا میں جینے کے لئے لمبی گردن کی ضرورت پر زرافہ کی گردن لمبی ہوگئی ، چلئے،ایک بات کے لئے مان لیتے ہیں۔لیکن زندہ رہنے کے لئے عقل و ‏فہم کی ضرورت کسی بھی زمانے میں نہیں رہی۔ زندہ رہنے کے لئے عقل و فہم کی ضرورت نہیں۔ 

کیا یہ زبردستی کسی زمانے میں تھی کہ عقل نہ رکھنے والی جاندار زندہ نہیں رہ سکتی؟ عقل نہ رکھنے والی جاندار عقل والی جاندار بننے کے لئے کسی بھی ‏زمانے میں کوئی زبردستی نہیں تھی۔ 

جب زندہ رہنے کے لئے عقل کی ضروری نہیں تو ارتقائی نشونما کے ذریعے جسم بدل سکتاہے ، مگر عقل و فہم نہیں آسکتی۔ 

زرافہ کی گردن لمبی ہونے کو جو وجہ ڈارون نے بتائی ہے اس کو ہم مان نہیں سکتے۔ ہاتھی کی سونڈ کیوں لمبی ہوگئی؟ کنگرو کے پیٹ میں تھیلی کیوں ‏آئی؟ کیا وہ کہیں گے کہ ہاتھی اپنی ناک کو لمبا کر نے سے وہ سونڈ بن گئی؟ 

ارتقائی نشونما سے کئی کروڑوں سال کے بعد اگر بندر انسان بنا تو وہ نشونما اب کیوں رک گئی؟

ہر دن چند بندر دنیا کے کسی حصہ میں انسان میں تبدیل ہوتے رہنا چاہئے؟ یا ہر روز چند بندریہ انسانی بچے کو جنم دینا چاہئے۔

وہ سلسلہ کیوں نہیں بڑھا؟ اس کا جواب بھی ڈارونسٹ کے پاس نہیں ہے۔

بندر سے انسان اگر ارتقاء پایا ہوتو بندر بننے سے پہلے وہ ایک نسل ہو نا چاہئے تھا۔ اس کو اور انسان کے درمیان ایک دو فرق تو ہونا چاہئے۔ اب کے ‏بندر اور انسان کے درمیان ہزاروں درمیانی نسلیں ہونی چاہئے تھیں۔ اسی وقت ارتقاء کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ 

اب کے بندر اور انسان کے درمیان ہزاروں فرق جو ہیں وہی ارتقائی نشونما کے ذریعے انسان پیدا نہیں ہوا کے لئے ایک اور دلیل ہے۔ 

انسان نشو نما پا کر کیوں ایک اور اونچے مقام کو حاصل نہیں کیا؟ اس کا بھی جواب نہیں ہے۔

انسان کا خون، دل، جگر اورگردہ وغیرہ کی اندرونی بناوٹ اور جین یہ ثابت کر تی ہیں کہ انسان ایک الگ نسل ہے، کسی دوسری نسل سے وہ نشو نما پایا ‏ہوا نہیں ہوسکتا۔ 

پیدائشی طور پر سب برابر ہیں۔ چال چلن ہی سے وہ ایک دوسرے سے بڑھ سکتا ہے اور اسلام کی بتائی ہوئی مساوات اور بھائی بندی کو جاننے کے ‏لئے ان 11، 32، 49، 59، 141، 168، 182، 227، 290، 508 حاشیوں کو دیکھئے!  

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account