Sidebar

18
Fri, Oct
11 New Articles

‏354۔ کیا قرآن انیس کے ہندسے کی پابند ہے؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏354۔ کیا قرآن انیس کے ہندسے کی پابند ہے؟

‏اس آیت 74:30 میں جو کہاگیا ہے کہ ’’اس پر انیس اشخاص ہیں‘‘ وہ دوزخ کے انیس فرشتوں کی گنتی کو کہتا ہے۔ اس میں تمام عالم متفق رائے ‏ہیں۔ اس میں کسی قسم کی الجھن یا شک نہیں ہے۔ 

لیکن قریب ہی میں گولی کھا کر مر نے والا رشاد خلیفہ نے اس کو نئی تفسیر دے کر بکواس کیا ہے۔ اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس بکواس کی انکشاف کرنے ‏کی وجہ سے میں ایک نبی ہوں۔

چنانچہ اس کے بارے میں کسی کو کوئی الجھن نہ ہو نے پائے، اس کو ہم تھوڑی وضاحت سے بیان کر تے ہیں۔ 

پہلے ہم اس کو دیکھتے ہیں کہ اس آیت کے سلسلہ میں رشاد خلیفہ کیا کہتا ہے۔ 

‏’’اس پر انیس ہے ‘‘ کا مطلب ہے کہ قرآن مجیدپر انیس ہے ۔ قرآن مجید پر انیس ہے کا مطلب انیس کے ہندسے میں قرآن مجید پابند ہے۔ یہی دلیل ‏ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے۔

‏) قرآن میں 114سورتیں ہیں۔ 114کا ہندسہ انیس سے برابر تقسیم ہو تا ہے۔ 

‏) بسم اللہ الرحمن الرحیم کا جملہ قرآن میں 114جگہوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بھی انیس سے برابر تقسیم ہو تا ہے۔ 

‏) بسم اللہ الرحمن الرحیم کی حرفوں کو جمع کرو تو وہ بھی انیس سے برابرتقسیم ہو تا ہے۔ 

اس طرح قرآن میں سے جو بھی اٹھاؤ وہ انیس سے برابر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس حساب سے وہ بندش رہنے کی وجہ ہی سے سند ہے کہ یہ اللہ ہی کا کلام ‏ہے۔ 

زمانہ جدید میں قرآن مجید کو اللہ کا کلام ثابت کر نے کے لئے اس عجیب انکشاف کو اللہ نے مجھے عطا کی ہے۔ اس لئے قرآن مجید کو تصدیق کر نے والا ‏رسول میں ہوں۔ 

یہی رشاد خلیفہ کا دعویٰ ہے۔ 

وہ بکواس کر تا ہے کہ انیس کے حساب سے تقسیم نہ ہو نے کی وجہ سے قرآن میں سے دو آیتوں کو نکال دیا جائے۔ اس کو نکال کر دیکھا جائے تو سارا ‏قرآن ہی انیس کے اندر مسدود ہے۔ 

اس زمانے میں دنیا بھر میں یہی انیس کے بارے میں چرچہ چل رہا تھا۔ پھر بھی یہ جان کر کہ یہ ایک واہیات ہے ، چند ہی سالوں میں معدوم ہو گیا۔

یہاں ہم تین باتوں کو واضح کر نے والے ہیں:

‏1۔ اس آیت کو رشاد خلیفہ نے جو تشریح کیا تھا، کیاوہ صحیح ہے؟

‏2۔رشاد خلیفہ نے جو کہا ہے کہ قرآن مجید انیس میں یا ہندسے کے اندرمسدود ہے، کیا وہ حقیقت ہے؟ 

‏3۔ رشاد خلیفہ ایک دلی مریض ہے ، اس کی دلیل خود اس کی تحریروں میں سے۔ 

اب پہلی بات کو لے لیں۔

قرآن پر انیس ہے کہہ کر اس نے جو دعویٰ کیا تھا کہ پورا قرآن ہی انیس کے اندر مسدود ہے ، قطعاً غلط ہے۔ 

عربی زبان کو پوری طریقے سے نہ جاننے والے بھی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ عربی زبان کے قواعد کے ‏مطابق رشاد خلیفہ کا کہنا غلط ہے۔ 

یہ تشریح کس طرح غلط ہے ، اس کو سمجھنے کے لئے عربی زبان کے قواعد کی ایک بات کو جان لینا ضروری ہے۔ 

عربی زبان میں مرد اورعورت ہی کی طرح دوسری جاندار اور بے جان چیزوں کو بھی کہا جاتا ہے۔ 

عربی زبان میں نر اور مادہ کے سوا دوسراکوئی جنس نہیں ہوتا۔ 

ہم انسانوں کے بارے میں بات کریں یا دوسرے کسی کے بارے میں بات کریں نر اور مادہ دو ہی قسم عربی زبان میں ہوتا ہے۔ 

سورج کے طلوع کے بارے میں کہنا ہو تو سورج طلوع ہو تا ہے کہنا چاہئے، اور جب بارش کے بارے میں کہنا ہو تو بارش ہورہی ہے کہنا چاہئے۔ 

اگر کسی سے پوچھا جائے کہ ہوا مونث ہے یا مذکر تو وہ ہمیں تعجب سے دیکھے گا ۔ لیکن عربوں سے پوچھو تو وہ فوراً کہدیں گے کہ ہوا مونث ہے۔ عربی ‏زبان میں ہی کہہ سکتے کہ ہوا چلتی ہے۔

کوئی بھی لفظ ہو کونسا مذکر ہے اور کونسا مونث ہے اس کو عرب لوگ عام طور سے جھٹ سے کہہ دیں گے۔ 

اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے مندرجہ بالا آیت پر غور کر نا چاہئے۔’ عَلَےْھَا‘ کے لفظ کو ہم نے’ اس پر‘ ترجمہ کیا ہے۔

اس کا براہ راست معنی ہے ’اس پر (مونث)‘ ۔عَلَےْہِ کا معنی ہے ’اس پر (مذکر)‘۔

اصل متن میں علیھا کہنے کی وجہ سے ہمیں ایک اور بات بھی سمجھ لینی چاہئے۔ 

عربی زبان میں قرآن مذکر ہے۔ قرآن کی طرف اشارہ کرنیوالے ذکر اور فرقان وغیرہ بھی مذکر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ 

اس لئے’ اس پر‘ جو ترجمہ کیا گیا ہے اس جگہ پر اصل متن میں علیھا کہہ کر استعمال کر نے کی وجہ سے ہر گز وہ قرآن کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ ’ ‏اس پر‘ کے ترجمہ سے سادہ لوح انسانوں کو فریب دیتے ہیں۔ اگر قرآن کو مونث کے صیغے میں استعمال کر تے ہوئے دیکھیں تو عرب لوگ ہماری ‏لاعلمی پر ہنس پڑیں گے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی قواعد کے لحاظ سے ’ اس پر‘ کا لفظ قرآن کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ 

اگر ان کا دعویٰ اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قرآن پر انیس ہے کہنے پر ہی انیس کی حدود میں قرآن مسدود ہے ، توان کا یہ دعویٰ ٹھیک ہو سکتاہے۔ ‏اگریہ قرآن کی طرف اشارہ نہیں ہے تو انیس کے ہندسے میں قرآن مسدود ہے کا دعویٰ آغاز ہی میں گرجا تا ہے۔ 

اگر ’اس پر‘ کا لفظ قرآن کی طرف اشارہ نہیں کر تاتو وہ کس طرف اشارہ کرتا ہے، آئے وضاحت سے دیکھیں!

تیسویں آیت انیس کے بارے میں کیا کہتی ہے، اس کو جاننے کے لئے آیت نمبر چوبیس سے اکتیس تک اگر غور کریں توبس، کسی کی تشریح کی ‏ضرورت نہیں ہوگی۔ 

یہاں چوبیس اور پچیسویں آیت قرآن کے بارے میں اور چھبیس اور ستائیسویں آیت دوزخ کے بارے میں کہتی ہیں۔ 

قرآن کے بارے میں کہنے والی دونوں آیتوں میں ھٰذِہِ کے بجائے ھٰذَا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ 

عربی میں دوزخ کے لئے نارکا لفظ مونث ہے۔ 

‏’اس پر‘ کے لئے علیھا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اس لئے ’قرآن پر‘ کا معنی لینا عربی قواعدکے مطابق غلط ہے۔ اس لئے دوزخ پر کا معنی لینا ہی ٹھیک ‏ہے۔اس آیت میں کہا ہی نہیں گیا ہے کہ قرآن انیس کے ہندسے پر کاربند ہے۔

یہ آیت یہی کہتی ہے کہ دوزخ پر انیس ہے ۔ دوذخ پر انیس ہے کا مطلب کیا ہے؟ 

انیس ہیں، یا انیس ہے کہنے کی وجہ سے عربی میں دونوں کو ایک ہی طرح سے کہنا چاہئے۔ 

انیس اشخاص ہیں بھی اس کو معنی دے سکتے ہیں ، یا انیس ہے کہہ کر دیگر جانداروں اور چیزوں کو بھی کہہ سکتے ہیں۔ 

اس کا ٹھیک معنی یہی ہے کہ ’’جہنم میں اس کو داخل کروں گااور اس پر انیس اشخاص ہیں‘‘ ۔انیس اشخاص ہیں کہنے کے بعد کہا گیا ہے کہ جہنم کے ‏داروغہ فرشتوں ہی کو ہم مقرر کئے ہیں ۔ اس لئے یہ آیت کہتی ہے کہ دوزخ کے ان محافظوں کی گنتی انیس ہے۔ 

انیس اشخاص جہنم کے داروغہ مقرر ہو نے کے باوجود تیرے رب کے لشکرتو بے حساب ہیں کہہ کر اکتیسویں آیت ختم ہوتی ہے۔ ایسا نہ سمجھ لینا کہ ‏انیس فرشتے ہی رب کے پاس ہیں۔ یہ جملہ یقین دلاتا ہے کہ تمہارے رب کے لشکروں کو کو ئی نہیں گن سکتا۔

چنانچہ اس ‏‏�آیتمیںقرآنکےبارےمیںیاوہانیسکےاندرکاربندہونےکےبارےمیںکہاہینہیںگیا۔اسلئےاسکودلیلبناکررشادخلیفہنےجودعویٰکیاتھاسببیکارگیا۔

اگررشادخلیفہکےکہنےکےمطابقانیسمیںہیسبکچھکاربندہےبھیتواسکواوراسآیتکوکوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کہہ ہی نہیں سکتے کہ اس کو ایک فضیلت سا ‏اللہ نے بنایا۔

اس نے جس آیت کو دلیل بنا کر دعویٰ کیا تھا کہ قرآن انیس کے ہندسے میں کاربند ہے ، اس کو اور اس کے دعوے کو کوئی تعلق نہیں ہے، یہی اس ‏کے لئے کافی جواب ہے۔ 

پھر بھی اس کے کہنے کے مطابق قرآن کیا انیس کے ہندسے میں کاربند ہے اوروہ جو حساب دکھاتا ہے کیا وہ تمام ٹھیک ہیں؟ آؤ اسے بھی جانچ کریں!

اس کے کہنے کے مطابق قرآن انیس کے ہندسے کا ہرگزپابند نہیں ہے۔ رشاد خلیفہ نے صرف پچاس مقام ہی کو انیس کے اندر کاربند ہوتے ہو ئے ‏دکھایا ہے۔اس سے ثابت ہو تا ہے کہ باقی کے تمام آیتیں، ان آیتوں میں موجود الفاظ، اور ان لفظوں میں موجود حروف کوئی بھی اس انیس کے اندر ‏سمائی ہوئی نہیں ہے۔ 

پورا قرآن انیس کے اندر کاربندہے، یہی رشاد خلیفہ کا دعویٰ ہے۔ وہ صرف پچاس مقام کو انیس کے اندار کاربند ہوتے ہوئے دکھاتا ہے۔ لاکھوں ‏الفاظ کے قرآن میں اس کی طرح اگر ڈھونڈنے لگیں تو پچاس مقام سے زیادہ جگہوں میں دیکھوگے کہ وہاں اٹھارہ کا ہندسہ کاربند ہے۔ اسی طرح ہر ‏ایک ہندسہ میں چند الفاظ ملے بغیر نہیں رہے گا۔ 

اس بنیادی حقیقت کو وہ بھی نہ جان سکا اور اس کی بکواس کی پیروی کر نے والے بھی نہ جان سکے۔ 

بعض الفاظ انیس کے ہندسے میں کاربند ہونے کو دیکھ کر اگر کوئی تعجب سے سوال کر ے تو ان کے لئے یہی جواب کافی ہے کہ صرف انیس ہی نہیں ‏بلکہ بہت سارے ہندسوں میں کاربند ہو نے والے الفاظ بھی قرآن مجید میں موجود ہیں۔ 

‏(انیس سے تقسیم ہو نا کوئی تعجب کی بات نہیں، اس کو ثابت کر نے کے لئے بائبل میں بھی انیس سے تقسیم ہو نے والے کئی لفظوں کو ہم تحقیق رکھے ‏ہیں۔)

قرآن مجید میں کل 114سورتیں ہیں۔ یہ ہندسہ انیس سے برابر تقسیم ہو تا ہے۔ (6‏X19=114‎‏)

وہ کہتا ہے کہ 114سورتوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نویں سورت میں جگہ نہیں پائی ہے۔اس لئے صرف 113بسم اللہ ہی آتے ہیں۔یہ تو 19 ‏سے تقسیم نہیں ہو گا۔میں نے تلاش کی تو 27:30 آیت میں ایک بسم اللہ کو ڈھونڈ نکالا۔ اس سے 114برابر ہو گیا۔ وہ بھی انیس کے اندر آگیا۔

یہ دونوں حساب تو ٹھیک ہیں۔قرآن میں 114 سورتیں ہونے کی وجہ سے وہ انیس سے تقسیم ہوگی ہی۔ 

‏114 کا ہندسہ انیس سے برابر کاتقسیم ہونا حقیقت ہے۔ لیکن 114 کا ہندسہ چھ سے بھی برابر کا تقسیم ہو تا ہے، تین سے بھی برابر کا تقسیم ہو تا ‏ہے، دو سے بھی برابر کا تقسیم ہو تا ہے، 38سے بھی برابر کا تقسیم ہو تا ہے، 57سے بھی برابر کا تقسیم ہو تا ہے۔ صرف 19سے تقسیم ہو کر کسی اور ‏ہندسے سے اگر تقسیم نہ ہو نے پائے تو ہی انیس سے ہوتی ہے کہہ کر تعجب کر سکتے ہیں۔ 

اس نے اس سے ختم نہیں کیا۔وہ کہتا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں موجود ہر ایک لفظ کو گن کر دیکھاتو وہ بھی انیس سے تقسیم ہو تے ہوئے دیکھ ‏کر تعجب ہوا۔ 

یعنی بسم، اللہ، رحمن اور رحیم وغیرہ الفاظ قرآن میں کتنی جگہ پر آئی ہیں، میں نے گن کر دیکھا تو تعجب ہوئی۔ان سب کو انیس کے اندر کاربند دیکھ کر ‏میں حیرت میں پڑگیا۔ 

یعنی اس نے کہا ہے کہ اللہ کا لفظ پورے قرآن میں 2698بار آیا ہے۔ وہ لفظ انیس سے 142بار برابر کا تقسیم ہو تا ہے۔ ‏‏(142‏X19=2698‎‏)

اس نے 2698بار کو ایسے ہی نہیں کہہ دیا۔جس جس آیت میں اللہ کا لفظ جگہ پایا ہے ان سب کا ایک فہرست اپنی کتاب میں اشاعت کیا ہے۔ اس ‏کی اشاعت شدہ کتاب میں صفحہ نمبر30 سے 63 تک 34 صفحات میں اللہ کا لفظ جگہ پانے والی آیتوں کی فہرست پیش کیا ہے۔

اللہ کا لفظ جگہ پائے ہوئے اور بھی کئی آیتوں کو اس فہرست سے نظر انداز کردیا ہے۔

جن آیتوں میں اللہ کا لفظ ہی نہیں ہے ، اس میں اللہ کا لفظ ہے کہہ کر جھوٹ کہا ہے۔ اور بھی کئی فریب دے کر 142‏X19=2698‎‏ کا حساب ‏پیش کیا ہے۔

مثال کے لئے چند فریب دہی کو ملاحظہ فرمائیے۔

پچیسویں سورہ میںآیت نمبر 68میں اللہ کا لفظ اس نے ایک بارکہاہے، لیکن اس آیت میں اللہ کا لفظ دو بار کہا گیا ہے۔ 

چالیسویں سورہ میں آیت نمبر 74 میں اللہ کا لفظ اس نے ایک بار کہا ہے، لیکن اس آیت میں اللہ کا لفظ دو باراستعمال ہوا ہے۔ 

‏46 ویں سورہ میںآیت نمبر 23میں اللہ کا لفظ اس نے دو بار کہا ہے ۔ لیکن اس آیت میں اللہ کا لفظ ایک ہی بار استعمال ہوا ہے۔ 

اس کی ایک اور عیاری کی طرف بھی اشارہ کر ناضروری ہے۔ یعنی اس کا دعویٰ ہے کہ نویں سورہ میں آخر دو آیتوں کو بیچ میں داخل کیا گیا ہے۔ قرآن ‏کی تمام آیتوں کو انیس سے تقسیم کریں تو دو بچت ہو جا تے ہیں۔ چنانچہ اس کا دعویٰ ہے کہ نویں سورہ کی آخر دو آیتیں قرآن میں شامل نہیں ہیں۔ 

اس طرح دعویٰ کر نے والاوہ شخص اس کی فہرست میں اس آیت 9:129کو بھی شامل کرلیاہے۔ جس میں اللہ کا لفظ ایک بار استعمال ہو ا ہے۔ اس ‏کے دعوے کے مطابق یہ آیت قرآن میں نہیں ہے۔ 

اس کی فہرست کو اس نے جمع کر دیکھاتو 2697ہی آتی ہے۔وہ انیس سے برابر تقسیم ہو نے کے لئے ایک کم ہوتا ہے۔ اس لئے اس نے جس کو ‏قرآن میں نہیں کہا اسی کو اس کے حساب میں شامل کر کے اس کو 2698بنا دیا۔ 

اس سے اچھی طرح ثابت ہو تا ہے کہ اس کی بتائی ہوئی گنتی میں اللہ کا لفظ قرآن میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ اور وہ انیس سے بھی تقسیم نہیں ہوتا ‏ہے۔ 

رحیم کا لفظ قرآن میں 115جگہوں میں جگہ پائی ہے۔ وہ تو 114 کہہ کر فہرست بھی پیش کیا ہے۔ اس فہرست میں اس نے اس آیت 9:128کو ‏شامل نہیں کیا۔ اس آیت میں رحیم کا لفظ ایک بار استعمال کیاگیا ہے۔ 

اس سے پوچھا گیا کہ اس کو تم نے کیوں شامل نہیں کیا تو کہتا ہے کہ یہ آیتیں 9:128 اور 9:129 قرآن میں نہیں ہیں۔ اس کو قرآن سے منسوخ ‏کر نا چاہئے۔ 

رحیم کوشامل کر تے وقت درمیان میں داخل ہوا کہہ کر رد کرنے والااللہ کو شامل کر تے وقت اس آیت کو اختیار کر لیتا ہے۔ 

ایک جگہ میں اس آیت کواختیار کر لیتا ہے ، دوسری جگہ میں اس کو رد کر دیتا ہے۔ 

یہ حساب کر تے وقت کئی قسم کی مسخرہ پن دکھائے گا۔ 

اس کے مرضی کے مطابق اگر انیس میں آجائے تو اس ک چھوڑ دے گا۔ اگر انیس میں نہ آئے تو کئی طرح کی دیوانہ پن سے کہہ دے گا کہ وہ انیس ‏میں مسدود ہے۔ 

اللہ اور رحیم کے لفظ کو گنتے وقت اس نے بسم اللہ الرحمن الرحیم میں بھی وہ دونوں لفظ موجود رہنے کے باوجود اس کو نظر انداز کردیا۔ 

‏113سورتیں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ شروع ہو تی ہیں۔ 27ویں سورہ میں 30ویں آیت کے درمیان ایک بار بسم اللہ الرحمن الرحیم جگہ ‏پایا ہے۔

یہ حساب کرتے وقت کہ اللہ اور رحیم وغیرہ الفاظ کتنے جگہوں میں ہے ، بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بھی حساب میں لینا چاہئے۔ کیونکہ اس میں اللہ اور ‏رحیم استعمال ہوا ہے۔ لیکن اس نے 113 سورتوں میں استعمال ہو نے والے 113بسم اللہ کو حساب نہیں کیا۔

‏113جگہوں میں جو 113اللہ کا لفظ ہے اور 113رحیم کا لفظ ہے، اس کو حساب میں نہیں لیا گیا۔ 

اس کے حساب سے اللہ کا لفظ قرآن میں 2698بار آیا ہے۔ وہ انیس سے تقسیم ہوجاتا ہے۔ لیکن اور بھی شامل کئے جانے والے بسم اللہ میں ‏‏113اللہ کا لفظ بھی شامل کریں تو کل (2698+113)2811=ہوتے ہیں، یہ انیس سے تقسیم نہیں ہوتی۔

اس کے حساب سے رحیم کا لفظ 114ہیں۔ اس کے ساتھ 113بسم اللہ میں موجود 113 رحیم بھی ملائیں تو 227ہوتے ہیں۔ یہ انیس سے تقسیم ‏نہیں ہوتیں۔ اسی لئے اس حساب میں بسم اللہ میں موجود اللہ اور رحیم کے لفظ کو اس نے شامل نہیں کیا ۔ 

رحمن کا لفظ 57بارجگہ پایا ہے۔ وہ کہتا ہے یہی انیس سے برابر تقسیم ہوتا ہے۔ وہ بھی غلط ہے۔ 113جگہوں میں جگہ پانے والی بسم اللہ الرحمن ‏الرحیم میں 113بار رحمن کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے ساتھ اس کو بھی اگر ملائیں تو 170 ہوتا ہے، یہ انیس سے تقسیم نہیں ہوتا۔ 

اگر دیکھا گیا تو مسئلہ بسم االلہ الرحمن الرحیم کا ہی ہے۔اس میں جو الفاظ ہیں اس کو گھٹاکر حساب کرنا بکواس کے سواکچھ نہیں۔

تمام حساب میں اگر وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو شامل نہیں کرتا تو ایک لحاظ سے برداشت کر سکتے ہیں۔ لیکن چند جگہوں میں بسم اللہ کو بھی بنا نمبر کے ‏آیت کہہ کر شامل کر لیتا ہے۔ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم میں پہلا جو لفظ ہے بسم ، کیا اس میں انیس مسدود ہے؟ اس کے بارے میں اس کی بکواس دیکھو۔ 

وہ کہتا ہے کہ بسم تین جگہوں میں جگہ پائی ہے۔ آیت 96:1میں جو بسم جگہ پائی ہے اس بسم کو حساب میں نہیں اٹھئے گا۔ کیونکہ اس آیت میں لکھتے ‏وقت ایک زیادہ الف لکھا گیا ہے۔ 

اچھا، تیں جگہوں پر ہی تو بسم آئی ہے، وہ کیسے انیس سے تقسیم ہو سکتی ہے تووہ کیا کہتا ہے، سنئے!

قرآن میں تین جگہوں میں بسم جگہ پائی ہے نا، ان جگہوں پرغور کرو!

ستائیسویں سورہ میں تیسویں آیت میں ایک بار بسم استعمال ہوا ہے۔ 

اس کے ساتھ 30 کوملاؤ۔ 57آگیانا؟ (کیوں ملایا جائے ، پوچھو مت!)

اس کے ساتھ بسم جگہ پائے ہوے ان تین جگہوں کو ملاؤ تو 60 آتا ہے ؟ 

اس کے بعد گیارھویں سورہ میں 41 آیت میں بسم جگہ پائی ہوئی ہے۔ اس لئے 41 کے ساتھ 11 کو ملاؤ تو 52 ہوتا ہے۔ 

پہلے جو ملایا گیا تھا اس 60 کواس 52سے ملاؤ تو 112 آتا ہے۔ 

اس کے بعد پہلی صورت میں پہلی آیت میں جو بسم موجود ہے ، اس میں ایک سے ایک ملاؤ تو دو ہوتا ہے۔ 

پھر اس 112 سے ان دو کو ملاؤ تو 114آجائے گا۔ 

اب تو یہ انیس سے تقسیم ہو سکتی ہے۔ 

اسی طرح وہ پاگل بکواس کیا ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا بسم کا لفظ انیس سے تقسیم ہونے والا ہے؟ اس کا جواب ہو ناچاہئے ، نہیں۔ 

بسم کا حساب شاید اسی کو مضحکہ خیز معلوم ہو اہوگا۔ اس لئے وہ دوسرے ایک حساب کو چلا کہ بِ کو چھوڑ کر اسم کا لفظ کتنی جگہوں میں جگہ پائی ہے۔

ایک فہرست بنایا کہ اسم کا لفظ کل انیس جگہوں میں آتا ہے۔ اس میں بھی مکاری دکھائی ہے۔ 

اسم کا لفظ تنہا کل چودہ جگہوں میں آتا ہے۔ دوسرے لفظوں کے ساتھ جیسے الاسم، بسم اور اسمہُ دس جگوں میں آتا ہے۔ اس طرح کل چوبیس جگہوں ‏میں اسم کا لفظ جگہ پایا ہے۔ لیکن اس نے 19جگہ کہہ کر جھوٹا حساب دکھایاہے۔ 

اب تم سمجھتے ہو کہ اس کی یہ تحقیق کتنی بیہودہ ہے ؟

قرآن مجید میں بعض سورتوں کے آغاز میں جملوں کے بجائے چند خاص حروف جگہ پائی ہیں۔ 

اس طرح قرآن میں کل 29سورتیں ہیں۔ وہ یہ ہیں:

‏2، 3، 7، 10، 11، 12، 13، 14، 15، 19، 20، 26، 27، 28، 29، 30، 31، 32، 36، 38، 40، 41، 42، 43، 44، 45، ‏‏46، 50، 68۔ 

ان جیسے سورتوں کو اس نے نام دی ہے انشیل سورے۔اس کا دعویٰ ہے کہ ہر ایک انشیل سورے میں بھی انیس سے تقسیم ہو نے کی حد تک ہی یہ ‏انشیل حروف جگہ پائی ہیں۔ یہ انیس کی بہت بڑی کرامت ہے۔ 

یعنی البقرہ نامی دوسری سورت میں الف لام میم کے تین حروف جگہ پائی ہیں۔ اس سورہ میں کتنے الف ہیں ، اگر گنا جائے تو وہ انیس سے تقسیم ہونے ‏والی حد تک ہی ہوں گی۔

اسی طرح اس سورہ میں کتنے لام ہیں ، اگر گناجائے تو وہ بھی انیس سے تقسیم ہونے والی حد تک ہوں گی۔

اسی طرح اس سورہ میں کتنے میم ہیں ، اگر گناجائے تو وہ بھی انیس سے تقسیم ہونے والی ہوں گی۔

اس نے یہ بھی کہا ہے کہ آج تک کوئی انکشاف نہ کر سکا کہ چودہ سو سال سے انشیل حروف کیوں جگہ پائی ہیں، اس کو میں نے انکشاف کی ہے۔ قرآن ‏انیس کے اندر مسدود ہے اس کی گواہی کے لئے ہی اس کوقایم کیا گیا ہے۔ 

الف لام میم جیسے حروف چند سورتوں کی آغاز میں کیوں رکھا گیا ہے ، یہ نہ جاننے والے لوگوں کواس کی وہ بکواس کوئی فلسفہ سا معلوم پڑا۔اس لئے ‏لوگ یہ سمجھ کر اس کی تعریف کر نے لگے کہ دوسرے لوگ قرآن کو بے معنی کر دیا تھا ، اسی نے اس کو بامعنی بنایاہے۔

لیکن انشیل حروف کو اس کے کہنے کے مطابق حساب کریں تو ہر گز وہ ٹھیک نہیں ہے، اس سے اس کی مکاری ثابت ہوتی ہے۔ 

قرآن مجیدمیں پچاسویں سورہ کی آغاز میں جو قاف ہے اس کے کہنے کے مطابق وہ انشیل حرف ہے۔ اسی کو مثال دے گا۔

پچاسویں سورہ میں قاف کا حرف 57 بار استعمال ہوا ہے۔ یہ انیس سے تقسیم ہوتی ہے،صحیح ہے۔ 

اس سورت کو پوری طرح چھاپ کر جہاں قاف استعمال ہوا ہے اس جگہ پر کچھ نشان لگا کر دکھاتاہے۔ اس کے پیروکار کو وہ بہت خوشی کا باعث ‏ہوگا۔ 

اس کے بعد 42 ویں سورت میں قاف انشیل حرف آیا ہے۔ اس سورہ میں بھی قاف57 بار جگہ پایا ہے۔ یہ بھی انیس سے تقسیم ہوتی ہے۔اس کو ‏دیکھ کر اس کے پیروکار حیرت کی بلندی ہی کو پہنچ جاتے ہیں۔ 

اگر اس کا کہنا سچ ہو تا تووہ ہر سورہ میں اس کو دکھانا چاہئے۔ سورہ بقرہ سے وہ ثابت کر نا چا ہئے تھا۔ اس کے بارے میں اس کے مرید سوچتے نہیں۔ اسی ‏لئے اس کی مکاری کے بارے میں ہر چیز کو خلاصہ کر نا پڑتا ہے۔ 

پچاسویں سورہ میں انشیل حرف قاف جگہ پانے کی وجہ سے وہ انیس سے تقسیم ہو تی ہے، اس طرح کہنے والا رشاد خلیفہ کہتا ہے کہ 42ویں سورہ میں ‏بھی قاف کاانشیل حرف آیا ہے، وہ بھی انیس سے تقسیم ہو تا ہے۔ اس 42ویں سورہ میں صرف قاف ہی انشیل حرف نہیں ہے۔ 

بلکہ حا میم عین سین قاف کے پانچ انشیل حروف بھی ہیں۔ پانچویں حرف قاف 57 بار تقسیم ہوتا ہے کہنے والا رشاد خلیفہ باقی کے چار حرفوں کے ‏بارے میں کچھ بھی نہیں کہا۔ 

اس سورہ میں حاکا جو حرف ہے وہ 51بار ہی جگہ پایا ہے، وہ انیس سے تقسیم نہیں ہوتا۔ 

اس سورہ میں میم کا جو حرف ہے وہ 297 بارجگہ پایا ہے، یہ بھی انیس سے تقسیم نہیں ہوتا۔ 

اس سورہ میں عین کا جو حرف ہے وہ 98 بارجگہ پایا ہے، یہ بھی انیس سے تقسیم نہیں ہوتا۔ 

اس سورہ میں سین کا جو حرف ہے وہ 53 بارجگہ پایا ہے، یہ بھی انیس سے تقسیم نہیں ہوتا۔ 

حا میم عین سین قاف کے پانچ انشیل حروف والے اس سورہ میں چار حروف انیس سے تقسیم نہیں ہوتے۔ صرف قاف ہی تقسیم ہو تا ہے۔ اسی لئے ‏اس نے ان چار حرفوں کو نظر انداز کر دیا اور صرف قاف کے حرف کو ایک خاص نشان دے کر لوگوں کو دھوکہ دیا ہے۔ 

کام دام چھوڑ کر کوئی گنتے نہیں بیٹھے گا ، اس بھروسے سے اس نے نظر انداز کردیا۔ 

اسی 42ویں سورہ میں اس نے ایک اور حماقت کر کے حساب دکھایا ہے کہ سب انیس کے اندر مسدود ہے۔ 

اسی طرح اس نے حرفوں کو آگے پیچھے گھما پھرا کر اس انیس کو ثابت کر نے کی کوشش کی ہے۔

اس سے کہیں اورزیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کا رسول ثابت کر نے کے لئے دلائل پیش کیا ہے۔ اس کو معمولی ایک انسان بھی ‏پاگل پن کہہ سکتا ہے۔ 

اس سے پہلے ایک اور بات کو سمجھ لینا ضروری ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ آج کے زمانے میں نیومرالجی کے نام سے حرفوں کو ایک ہندسہ دے کر کئی قسم کی حماقتیں چلی آرہی ہیں۔ اس باطل عقیدے کو ‏مسلمانوں میں جو بدمذہب ہیں ، انہوں ہی نے راستہ دکھا یا ہے۔ تعویز، جھاڑ پھونک، بندش وغیرہ کاموں کے لئے کارآمد ہونے کی وجہ سے ایسا ‏ایک حساب انکشاف کیاگیا ہے۔ اسی باطل عقیدے کے حساب کووہ اپنے لئے سند بتاتا ہے۔ 

اسی قسم سے دینی علم نہ رکھنے والے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو 786سے پیش کر تے ہیں۔اس کو ابجد کا حساب کہا جاتا ہے۔ اس حرف کو یہ ہندسہ ‏،کس نے مقرر کیا؟ کیااللہ نے ؟ قرآن میں براہ راست یا پوشیدہ طور پر اللہ نے اس طرح کہا ہے؟ ہر گز نہیں۔ 

یہود اپنی عبرانی زبان جو استعمال کیاکرتے ہیں وہی ابجد کاحساب ہے۔ چند لفظوں کے سوا تمام عربی الفاظ عبرانی زبان میں موجود ہیں۔عبرانی زبان ‏میں یہود جس حرف کو جو عدد دیتے ہیں اسی کو یہ لوگ بھی دیتے ہیں۔ عربی زبان کے چھ حروف عبرانی زبان میں نہ ہو نیکی وجہ سے صرف ان ‏حرفوں کو نئے ہندسے دیدیاگیا۔ 

اسی یہودی حساب کو دلیل بنا کر اپنے کو رسول کہتا ہے۔

اس کا نام رشاد خلیفہ ۔اس رشادمیں را کے لئے 200، شین کے لئے 300، الف کے لئے 1، دال کے لئے 4، ان چار حرفوں کی مقدار ہے ‏‏505۔ 

خلیفہ کے حرفوں میں خاکے لئے 600، لام کے لئے 30، یا کے لئے 10، فا کے لئے 80، ہا کے لئے 5، کل پانچ حرفوں کی مقدار 725ہوتے ‏ہیں۔ 

ان دونوں ہندسوں کو ملاؤ تو 1230ہو تے ہیں۔ 

اس کو بنیاد رکھ کر وہ اپنے آپ کو رسول کہنے کا طریقہ دیکھو!

اس آیت 2:119میں جو کہا گیا ہے کہ ہم نے تم کو حق کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا ۔ اس کا دعویٰ ہے یہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔ کیا تم پوچھتے ہو کہ ‏اس کے لئے کیا دلیل ہے؟ سنئے! رشاد کا ہندسہ 505، خلیفہ کا ہندسہ 725، ان دونوں کے ساتھ 119 کو ملاؤ تو 1349 آتی ہے نا؟ اس کو تم ‏انیس سے بآسانی تقسیم کر سکتے ہو۔انیس کومیں نے ہی دریافت کیا، اس لحاظ سے وہ میری ہی طرف اشارہ ہے۔یہی اس کا دعویٰ ہے۔ 

یعنی اس آیت کا نمبر 119 ہو نے سے اس کے نام کے ساتھ اس 119 کو ملاؤ کہتا ہے۔ 

اس کے دعوے ہی سے ہم معلوم کر سکتے ہیں وہ کتنا پاگل ہے۔پھر بھی اس نے ایک اور دلیل بھی پیش کیا ہے۔ اس کو دیکھو تو تم یقین کے ساتھ اس ‏کے بارے میں معلوم کر سکتے ہو۔ 

اس آیت5:19 میں کہا گیا ہے کہ ہمارے رسول تمہارے پاس آگئے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ بھی اسی کی طرف اشارہ ہے۔ کیا تم پوچھتے ہو وہ ‏کیسے؟اگر تم سوچوگے کہ پہلے جو کہا تھا اسی طرح اب بھی کہے گا؟ ہر گز نہیں۔ 

اس نے پہلے جو کہا تھا 1230 اس کے ساتھ 19 کوملاؤ تو 1249ہوتے ہیں۔تم الجھوگے کہ یہ تو انیس سے تقسیم ہو نہیں سکتی۔ اس پاگل کو اس ‏کے بارے میں فکر نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایک اور پانچ کو اس کے ساتھ ملاؤتو 1254 آتا ہے، وہ انیس سے تقسیم ہو جائے گی۔ پانچ کو کیوں ملایا ‏جائے؟ یہ آیت توپانچویں سورہ میں ہے، اس لئے اس پانچ کو ملا لو۔ 

انسان جس دن سے ہندسوں کو جان لیا اس پر ایک قسم کی حیرت او ر خوف پیدا ہو گئی۔اور اعتبار کر نے لگا کہ بعض ہندسے اس کو بھلائی پہنچاتی ہیں اور ‏بعض برائی پہنچاتی ہیں۔ راس آنے والے چند ہندسوں کو منتخب کر لیا اور چند ہندسوں کو راس نہیں کہہ کر ہٹا دیا۔ 

نیومرالجی کے نام سے ایک حساب مرتب کیا۔ ہر حرف کو ایک ہندسہ مقرر کیا۔چند منتروں کولکھ کر اس کو نیومرالجی کے حساب میں بدل دیا۔اس ‏ہندسوں کوملاکر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ سمجھتا تھا وہی اس منترکی طرف اشارہ ہے۔لمبے لمبے منتروں کو چھوٹے چھوٹے ہندسے میں تبدیل کیا۔ اس ‏طرح بدلے ہوئے ہندسوں کو پترے میں لکھ کر دیواروں میں ٹانگ دیا۔ کاغذوں میں لکھ کر ہاتھوں اور گلے میں لٹکا دیا۔ یہ سب اپنے لئے بھلائی ‏سمجھا۔ 

‏13جیسے نمبر والی گھروں میں بسنے سے انکار کر دیا۔ بارہ کے بعد تیرہ کے بجائے 12-‏A، ‏‎14‎، ‏‎15‎، ‏‎16‎‏ کو گھروں کا نمبر دینے لگا۔ 

جنگلی اور پہاڑی لوگ ہی نہیں بلکہ اچھے پڑھے لکھے امریکی اور یورپ کے لوگ بھی اس باطل عقیدے کے شکار ہیں۔ 

ہر زمانے میں اور ہر جگہ بعض لوگ ، بعض عدد کو افضل سمجھتے ہیں۔ اسی طرح انیس کے عدد کوبھی بعض لوگ مقدس سمجھتے ہیں۔ 

اس کو اور اسلام کو کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب اسلام میں خلل پیدا کر نے کے لئے یہودیوں کی چال ہے۔ اس کو پڑھنے والے اچھی طرح سمجھ سکتے ‏ہیں۔   

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account