Sidebar

18
Fri, Oct
11 New Articles

‏350۔ وحی تین قسم کی ہیں

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏350۔ وحی تین قسم کی ہیں

‏اس آیت 42:51 میں کہا گیا ہے کہ اللہ اپنے پیغام کو تین طریقوں سے انسانوں تک پہنچاتا ہے۔

‏* وحی کے ذریعے بات کر نا

‏* پردے کے پیچھے سے براہ راست بات کرنا

‏* رسول بھیج کر ان کے ذریعے پیغام پہنچانا

یہی تین راستے ہیں۔ 

دوسراجو طریقہ پردے کے پیچھے سے براہ راست بات کرنا کہا گیا ہے ، وہ موسیٰ ؑ کے ساتھ اللہ نے جو براہ راست گفتگو کی تھی اس کی مثال ہے۔  

موسیٰ ؑ نے اللہ کو سامنے نہ دیکھنے کے باوجود اللہ نے جو کہا تھا وہ اپنی کانوں سے سنا تھا۔ اس بات کو یہ آیتیں 4:164، 7:143,144، ‏‏19:51,52، 28:30، 20:11,12,13 کہتی ہیں۔ 

ایک رسول بھیج کر ان کے ذریعے اللہ بات کر تا ہے، یہ جبرئیل جیسے فرشتوں کے ذریعے اللہ کے رسولوں کو وحی پہنچانا ہے۔ اس کو ان آیتوں ‏‏2:97، 3:39، 3:42، 3:45، 11:69، 11:77، 15:52,53، 15:61,62، 16:2، 16:102، 19:19، 20:21، ‏‏22:75، 26:193، 29:31، 51:28، 53:56، 81:19 کے ذریعے جان سکتے ہیں۔ قرآن کریم بھی اسی طرح کی وحی ہے۔ 

انسانوں کے ساتھ اللہ بات کرنے کی تین طریقوں میں براہ راست بات کرنے کا مطلب ہمیں سمجھ میں آتا ہے۔فرشتوں کے ذریعے پیغام پہنچانے ‏کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے۔ وحی کے ذریعے جو بات کی جاتی ہے وہ کیا ہے؟ اسی کوہم واضح کر نا ہے۔

عام طور سے وحی کا لفظ اللہ کی طرف سے عطا ہونے والے ہر طرح کے پیغام کو کہا جانے کے باوجود اس آیت کو اس طرح کا مطلب نہیں دے ‏سکتے۔ 

دو قسم کے وحی کو دوسری لفظوں میں کہنے کے بعد تیسرے کو ’’وحی کے ذریعے‘‘ کہنے کی وجہ سے ان دونوں قسم میں نہ جمع ہو نے والی ایک اور ‏قسم کی وحی کی طرف ہی یہ اشارہ کرتی ہے۔ ان دونوں قسم کے سوا اگر دیکھا جائے کہ اور کوئی وحی ہے تو وہ یہی ہے کہ ’’جو وہ کہنا چاہتا ہے اپنے ‏رسول کے دل میں اللہ جو درج کر تا ہے وہی تیسری قسم کی وحی ہے۔ 

قرآن مجید ظاہر کرتا ہے کہ وحی میں ایسی بھی ایک وحی موجود ہے۔ 

شہد کی مکھیاں کتنی بھی فاصلہ میں چلا جائے کسی قسم کی لڑکھڑاہٹ کے بغیر اپنی چھتے کی طرف آجا تی ہے۔ اس کے بارے میں قرآن مجیدکہتے وقت ‏اس آیت 16:68 میں کہتا ہے: ’’شہد کی مکھیوں کو اللہ نے وحی بھیجی۔‘‘

یعنی یہ آیت کہتی ہے کہ اپنی چاہت کے پیغام کو شہد کی مکھیوں کے لئے اللہ نے الہام کیا۔ اس جیسے وحی کے ذریعے بھی اللہ اپنے رسولوں سے بات ‏کر تا ہے۔ یہ تیسری قسم کی وحی ہے۔ 

ان تینوں قسم کی وحی پر بھروسہ کر نے والا ہی حقیقت میں قرآن کو ماننے والا ہوگا۔ 

اس کے بجائے صرف قرآن مجیدہی کافی ہے کہہ کر کوئی دعویٰ کر ے تو وہ تین قسم میں فرشتے کے ذریعے آنے والے ایک ہی قسم کو مانتے ہیں۔ ‏دوسرے دونوں قسم کو وہ انکار کرتے ہیں۔ یعنی اللہ نے روبرو بات کر کے عطا کر نے والے پیغام کا انکار کرتے ہیں۔ الہام کے ذریعے اللہ نے جو ‏پیغام بھیجا اس کا انکار کر تے ہیں۔ 

تین قسم کی وحی کے ہونے کی خبر دینے والی اس آیت کو بھی انکار کر تے ہیں۔ 

فرشتوں کے ذریعے سے قرآن کے علاوہ بھی وحی آئی ہے۔ اس کو بھی وہ لوگ انکار کر تے ہیں۔ 

اللہ نے جو اتارا ہے اس کی پیروی کرو جیسے احکام میں بہت سی چیزوں کو بھی وہ انکار کر تے ہیں۔ حدیثوں کے پیروی کر نے والے ہی اللہ نے جو اتارا ‏ہے اس کو پوری طرح سے مانتے ہیں۔ 

موسیٰ نبی اور عیسیٰ نبی کے ماؤں کو بھی اللہ نے وحی بھیجی ہے۔ اس بات کوقرآن کی یہ آیتیں 20:39، 28:7 کہتی ہیں۔

اس کو دلیل بنا کرکیا یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جواللہ کے رسول نہیں ہیں، ان پربھی اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے؟بعض لوگوں کو یہ شک پیدا ہوسکتا ہے ‏کہ اس طرح نبی کریم ؐ کے بعد بھی ان کی امتوں سے کیا اللہ بات کر سکتا ہے؟

جو اللہ کے رسول نہیں ہیں اللہ ان سے بات کر نے کا واقعہ نبی کریم ؐ پر وحی آنے کا بند ہو نے سے پہلے چلا تھا۔ 

پچھلی قوموں میں بعض لوگوں کے پاس اللہ نے اس طریقے سے بات کی ہے۔ لیکن نبی کریم ؐ کے بعد اللہ براہ راست کسی سے بات نہیں کر ے گا۔ 

اسلام مکمل پاکر اللہ کے آخری نبی رسول اللہ ؐ وفات پانے کے بعد وحی کا آنا بند ہو گیا۔ نبوت انجام کو پہنچ جانے کی وجہ سے آئندہ کسی کوہر گزوحی ‏نہیں آئے گی۔ دینی معاملوں میں اور احکام کے متعلق کوئی بھی کہے کہ اللہ نے مجھ سے بات کی یا ندائے غیبی آئی تو وہ جھوٹ ہوگا۔کیونکہ دین مکمل ‏ہو چکی ہے۔ 

اللہ نے قرآن میں کہہ دیا کہ ’’آج کے دن تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا‘‘اس کے ذریعے اللہ نے احساس دلایا ہے کہ آئندہ وہ کسی سے ‏بات نہیں کرے گا۔اس سے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ دینی تعلق کے احکام میں نبی کریم ؐ کے بعد اللہ نے فیصلہ کر چکا کہ کسی سے میں بات نہیں ‏کروں گا۔

قرآن اور حدیثوں میں دلیل موجود ہے کہ نبوت اور سب قسم کی وحی بند ہوگئی۔ 

نبی کریم ؐ کے بعد اگر کسی کو وحی آنا ہو تو نبی کے صحابیوں ہی کو آنا چاہئے۔ لیکن وہی لوگ کہہ دئے کہ وحی نہیں آئی۔ 

نبی کریم ؐ وفات پانے کے بعد ابو بکرؓ نے عمرؓ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ ’’ہم دونوں ام ایمنؓ سے ملاقات کے لئے جائیں گے۔‘‘ کیونکہ نبی کریم ؐ ‏اس عورت سے اکثر ملنے جایا کر تے تھے۔ان سے ملنے کے لئے جب یہ دونوں گئے تو وہ عورت ان دونوں کو دیکھ کر رونے لگیں۔ ان دونوں نے کہا ‏‏: ’’اللہ کے رسول کو اللہ کے پاس بھلائی ہی تو ملے گی، تم کیوں روتے ہو؟ رونے کی وجہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا : ’’اللہ کے پاس نبی کریم ؐ کو ‏بھلائی ہی ملے گی، یہ میں جانتی ہوں۔ میں اس لئے نہیں روئی کہ وہ نہیں ملے گا۔ لیکن میں اس لئے روتی ہوں کہ آسمان سے آنے والی اللہ ذوالجلال ‏کی وحی آنا بند ہوگئی۔‘‘ انہوں نے ان دونوں کو بھی رلا دیا۔ اس طرح ان کے ساتھ وہ دونوں بھی مل کر رونے لگے۔

راوی: انسؓ 

مسلم: 4492

عمر ؐ نے کہا: اللہ کے رسول ؐ کے زمانے میں لوگ وحی کے ذریعے سزا دئے جاتے تھے۔ اب وحی آنا بند ہو گیا۔ اب ہم تمہیں تمہاری ظاہری اعمال کو ‏دیکھ کر ہی سزا دے سکتے ہیں۔ اس لئے جو ہمارے پاس بھلائی ظاہر کر تے ہیں انہیں کو معتمد مان کر ان کی عزت کریں گے۔ ان کی پوشیدہ باتوں کو ہم ‏نظر انداز کر دیں گے۔انکی رازوں کے بارے میں اللہ ہی حساب مانگے گا۔ جس نے ہمارے پاس برائی ظاہر کی اس کے بارے میں ہم مطمئن نہیں ‏رہیں گے۔ اگر وہ دعویٰ بھی کریں کہ ان کی خفیہ زندگی خوبصورت ہے ! 

بخاری: 2641

پچھلی قوم میں اللہ کی طرف سے وحی پانے والے ہوتے تھے۔ نبی کریم ؐ نے قطعی طور پر کہہ دیا تھا کہ اس قوم میں وہ نہیں ہے۔

نبی کریم ؐنے فرمایا : تم سے پہلے گزری ہوئی قوم میں(مختلف مسائل میں ٹھیک فیصلہ کے بارے میں اللہ کے فضل سے) پہلے ہی سے اطلاع کئے ‏ہوئے لوگ رہتے تھے۔ ان جیسے اگر کوئی میری قوم میں ہو تا تو وہ عمر بن خطاب ہی ہوں گے۔

بخاری: 3469،3689

اگر کوئی ویسا ہو تا تو وہ عمرہی ہوں گے ، اس طرح نبی کریمؐ ؐفرمانے کے ذریعے یہ ثابت ہو جا تا ہے کہ ان جیسے کوئی بھی نہیں۔

اس لئے موسیٰ نبی کی ماں کو فرمانے کی طرح پچھلی قوم میں بعض لوگوں کو فرمایا گیا ہوگا۔ لیکن محمد نبی کی قوم میں ویسے لوگ نہیں ہیں۔ اس انتظام کو ‏قائم کر کے اللہ نے بہت بڑی مہربانی کی۔ 

اس قوم میں اگر وہ معاملہ ہو تا تو باطل لوگ یہ کہہ کر کہ مجھے اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے ، لوگوں کے عقیدے کو زک پہنچا دئے ہوں گے۔ 

قرآن کے احکام کی پیروی کر نے کے ساتھ نبی کریم ؐ کی رہنمائی کی بھی پیروی کرنا چاہئے ، اس کے بارے میں اور زیادہ جاننے کے لئے حاشیہ نمبر ‏‏18، 36، 39،50، 55، 56، 57، 60، 67، 72، 105، 125، 127، 128،132 ، 154،164،184، 244، 255، ‏‏256، 258، 286، 318، 352، 358، 430وغیرہ دیکھئے!   

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account