Sidebar

18
Fri, Oct
11 New Articles

‏317۔ لے پالک بچے

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏317۔ لے پالک بچے

‏ان 33:4، 58:2آیتوں میں کہا گیا ہے کہ لے پالک بچے تمہارے خاص بچے ہو نہیں سکتے۔

جنہیں بچہ نہیں ہے وہ لوگ محظوظ ہو نے کیلئے کسی دوسرے کے بچے کو لے کر اپنے بچوں کی طرح پالنے کو اسلام منع کر تا ہے۔ کیوں کر تا ہے ، اسکو ‏مناسب وجہ کے ساتھ قرآن واضح کیاہے۔

یہ رشتہ جھوٹا رشتہ ہوگا۔ اسلام تمام جعلی رشتوں کو جھٹلاتا ہے۔ اپنے خاص والد کو جانتے ہوئے بھی دوسرے ایک شخص کو والد کہنے والے بچے ‏موجود ہیں۔ کسی دوسرے کو پیدا ہو نے والے بچے کو اپنا خاص بچہ کہہ کر رشتہ نبھانے والے باپ بھی ہیں۔ 

یہ صرف منہ سے انسان خود قیا س کر لیتا ہے، اس کے سوا ایک کا بچہ کسی وجہ سے دوسرے کسی کا بچہ ہو نہیں سکتا۔ 

ایک شخص خود کو پیدا نہ ہونے والے بچہ کا باپ کسی وجہ سے کہلا نہیں سکتا۔یہ انسان کاخود ساختہ رشتہ ہے، اس طرح کہہ کر اسلام اس کو قطعی طور ‏پر انکار کرتا ہے۔

خونی رشتہ اگر پیدا ہو نا ہوتو حقیقت میں خونی رشتہ ہو نا چاہئے۔ وہی راست بازی ہے، انصاف ہے۔ اسی بات کو یہ آیتیں 33:4,5کہتی ہیں۔

ایک بچہ پیدا ہو نے کے لئے جو باعث تھا وہی اس بچے کا باپ ہوگا۔ پالنے والے کو باپ کہنا باطل ہے۔ 

ایک جانور کو کوئی پالتا ہے تو کیا اس کو اس کا باپ کہہ سکتا ہے؟ ایک جھاڑ کو ایک شخص پالتا ہے تو کیا وہ اس کا باپ ہو سکتا ہے؟ لے کر پالنے والے کو ‏باپ کہنا اسی طرح ہے۔ 

پالنے والے کو ذمہ دار کہہ سکتے ہیں۔ باپ کہنا جھوٹا رشتہ کہلائے گا۔ 

اسلام کے آغاز میں ایک شخص کسی بچے کو لے کر پالتا ہے تو اس کو اس کا باپ سمجھا جانا رواج تھا۔ لے پالک بچہ اس کے پالنے والے کا وارث کہلاتا ‏تھا۔ بعد میں اسلام اس کو منع کردیا۔ 

عبدا للہ بن عمرؓ نے فرمایا:

‏’’لے پالک بچوں کو ان کے خاص والدکے ساتھ ہی پکارو۔ یہی اللہ کے پاس انصاف ہو گا۔‘‘ یہ آیت (33:5) نازل ہونے تک نبی کریم ؐ کے ‏ذریعے سے پالے ہوئے زید بن حارثہؓ کو ہم نے محمد کے بیٹے کہہ کر ہی پکارا کر تے تھے۔(مسلم:4782)

یہ حدیث کہتی ہے کہ نبی کریمؐنے زیدکو لے کر پالا، اس لئے وہ محمد کے بیٹے کہلائے گئے، اورجب یہ اللہ کا حکم آیاکہ پالنے والا خاص باپ نہیں ہوسکتا، ‏تو اس طرح کہا جانا روک دیا گیا۔ 

اسی طرح لے کر پالنے والی عورتیں اس بچے کی ماں نہیں ہوسکتیں۔ 

اس لئے وہ بچہ جب جوانی کو پہنچ جائے تو جس طرح اجنبی کے ساتھ سلوک کیا کر تے ہیں اسی طرح ادب و قاعدے سے پیش آنا چاہئے۔ 

مثال کے طور پر پالا ہوا بچہ جب جوانی کو پہنچ جائے تو ان کے ساتھ تنہائی میں رہنا اور ان کے سامنے بے پردگی سے آنا وغیرہ نہیں ہو نا چاہئے۔ اجنبی ‏مرد ہی کی حیثیت انہیں دینا چاہئے۔ 

اسلام کہتا ہے کہ ایک شخص بچہ نہ ہو نے کی وجہ سے ایک مرد بچے کو لے کر پالتا ہے۔ پھر اس کو اللہ ایک لڑکی عطا کر تا ہے۔ وہ لڑکی جب جوانی کو پہنچ ‏جائے تو ان کے پالے ہوئے لڑکے کے ساتھ اس کو بیا ہ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ لڑکا ان کا اپنا بیٹا نہیں ہے۔ اس لئے ان کی بیٹی کووہ بھائی نہیں ہو سکتا۔ 

ویسے ہی اگر پالنے والا مرجائے تو جس طرح اس کاخاص بیٹا وارث بنتا ہے ،لے پالک بیٹا نہیں بن سکتا۔ کیونکہ وہ اس کا بیٹا نہیں ہے۔ خونی رشتے کے ‏بھائی اور بہن جیسے رشتے دار ہو تے ہوئے کسی غیر کو وارث بنانا ان رشتہ داروں کو نفرت پیدا کر دیگی۔ خاص رشتہ داروں سے دشمنی پیدا ہو جائے ‏گی۔ 

لے پالک کو کچھ دینا ہی ہو تو اس طرح وصیت لکھے کہ تین میں ایک حصے سے بڑھ نے نہ پائے۔   

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account