Sidebar

18
Fri, Oct
11 New Articles

‏314۔ بچہ دودھ پینے کی عمر کب تک؟ 

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏314۔ بچہ دودھ پینے کی عمر کب تک؟ 

‏ان آیتوں 2:233، 31:14 میں کہا گیا ہے کہ دودھ کو چھڑانے کی عمر دو سال ہے۔ 

لیکن اس آیت 46:15میں دودھ پلانے کا زمانہ اور حمل کے زمانے کو ملاکرقرآن جملہ تیس مہینے کہا ہے۔ 

اس میں ، اللہ نے جو دودھ پلانے کا زمانہ دو سال کہا تھا، اس کو (یعنی چوبیس مہینے کو) گھٹاؤ تو حاملے کا زمانہ چھ ماہ ہو تا ہے۔ ایک بچے کا حاملہ کا عرصہ ‏چھ ماہ کسی بھی زمانے میںآج تک کسی نے نہیں کہا۔ جس طرح آج کی دنیا سمجھ رکھی ہے کہ اس کے لئے دس ماہ لگتے ہیں اسی طرح قرآن نازل ‏ہونے کے زمانے میں بھی لوگ سمجھ رکھے تھے۔ 

جب سب لوگ جان رکھے ہیں کہ حاملہ کا عرصہ دس مہینے ہوتے ہیں توقرآن مجید جان بوجھ کر ہی کہا ہے کہ حاملہ کا عرصہ چھ ماہ ہے ۔ اس جگہ ایسا کہنا ‏ہی مناسب ہے۔ 

سب لوگ جو جان رکھے ہیں اس کے خلاف اللہ جان بوجھ کرکہتا ہے تو اس میں ایک گہرا مطلب ہوگا۔ اس پر غور کر کے حمل کی نشو نما کی تحقیق کی ‏گئی توحیرت انگیزطور پر یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ یہ اللہ ہی کا کلام ہے۔

انسان کو ایک الگ ہی اختلافی شکل ہے۔ دوسری جانداروں کو الگ شکل ہے۔ انسان منی کے قطرے سے بنایا جاتا ہے۔ پھر رحم کی دیوار سے چمٹ کر ‏بڑھتا ہے۔ اس کے بعد گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے۔ اس عرصہ میں وہ اپنی ذاتی شکل اختیار نہیں کرتا۔ ماں کے رحم میں جس طرح بکری کا بچہ ایک ‏گوشت کا لوتھڑا بن کر رہتا ہے اسی طرح انسان بھی رہتا ہے۔ اس وقت ہاتھ یا پاؤں کچھ بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ 

رحم کی تھیلی میں گوشت کے لوتھڑے کو دیکھ کر کہہ نہیں سکتے کہ یہ انسان کا ہے یاکسی جاندار کا ہے۔ 

اس حالت کے بعد ہی انسانی خلیے موزوں مقام پر جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہی آدمی کے لائق خاصیت اور اعضاء کے ساتھ وہ حمل بڑھنے لگتا ہے۔ 

انسان کے لائق خصوصی قابلیت اور انسانی شکل میں حمل میں جو نشونما ہوتا ہے اس کا عرصہ چھ ماہ ہی ہے۔ اس سے پہلے کے عرصہ میں انسان کہنے ‏کے لائق کوئی خاصیت یا نشانی کے بغیر انسان ایک لوتھڑا بن کر رہا تھا۔ 

مندرجہ ذیل کی آیت میں بھی دوسرے الفاظ میں یہ بات کہی گئی ہے:

پھر ہم نے منی کے بوند کو حمل کا بیضہ بنا یا۔ پھر اس حمل کے بیضہ کو گوشت کا لوتھڑا بنایا۔ اس گوشت کے لوتھڑے کو ہڈی بنا کر اس ہڈی پرگوشت ‏چڑھادیا۔ پھر اس کو ایک دوسری تخلیق بنایا۔ 

‏(قرآن مجید 23:14)

پھر اللہ فرماتا ہے کہ اس کو ہم نے ایک دوسری تخلیق دی۔ اس حالت کو پہنچنے تک حمل میں ساری تخلیق ایک ہی ہے۔ اس کے بعد ہی بکری بکری ‏ہوتی ہے، بیل بیل ہوتاہے اور آدمی آدمی ہو تا ہے۔ اسی لئے اللہ نے اس کو دوسری تخلیق کہا ہے۔

اس آیت میں بچہ کو پیٹ میں رکھا کہنے کے بجائے آدمی کو پیٹ میں رکھا کہا گیا ہے، اس پر غور کر نا چاہئے۔ 

اس کے بارے میں اور زیادہ معلومات کے لئے 296کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔ ‏

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account