495۔ جادو سے متاثر نہیں کر سکتے
جادو کے ذریعے بعض کاموں کو کر سکتے ہیں، ایسی رائے رکھنے والے اس آیت 2:102کو دکھا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ آیت کہتی ہے کہ جادو سے متاثر کر سکتے ہیں۔
اس آیت کی پوری تفصیل حاشیہ نمبر 28 میں تشریح کی گئی ہے۔ اسے پڑھ کر ذہن میں لیتے ہوئے اسے اگر پڑھیں تو اور بھی زیادہ وضاحت ملے گی۔
کیا یہ آیت کہتی ہے کہ جادو کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر سکتے ہیں ؟ کیا یہی تشریح کی گئی ہے؟
یہ آیت کیا کہتی ہے؟ اس کو کیسے سمجھا جائے؟ کیا یہ آیت کہتی ہے کہ جادو کو طاقت ہے؟ یا نہیں ہے؟ ان تمام چیزوں کو ہم جان لینا چاہئے۔
اس کا صحیح معنی سمجھنے سے پہلے اس آیت کو مختلف علماوؤں کاترجموں کو دیکھ لیں۔
پہلا ترجمہ کیا کہتا ہے دیکھیں:
اور (وہ یہود)سلیمان کی حکومت کے بارے میں (انہیں) شیطان نے پڑھ کر سکھائے ہوے(جادو منتر )وغیرہ کی پیروی کر نے لگے۔ لیکن سلیمان تو انکار کر نے والے نہیں تھے۔ وہ شیاطین ہی سچ میں انکار کر نے والے تھے۔ کیونکہ وہ لوگ انسانوں کو جادو اور بابلون (کے شہر میں) ہاروت ماروت نامی دو فرشتوں پر نازل ہو نے والی چیزوں کو بھی سکھاتے آرہے تھے۔ وہ دونوں فرشتوں نے (انکے پاس جادو سیکھنے جانے والے لوگوں سے مخاظب ہو کر )کہنے لگے کہ ہم تو آزمائش ہیں۔ (اگر تم سیکھوگے تو انکار کر نے والے ہوجاؤگے، اس لئے اس کو سیکھ کر)تم منکر نہ بن جاؤ۔ اس طرح کہنے سے پہلے وہ اسے کسی کو نہیں سکھاتے تھے۔ (اس طرح کہنے کے باوجود اس کو سیکھنے کے خواہشمند) شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے کے طریقے کو ان سے سیکھ لیا۔ اللہ کے حکم کے بغیر اس کے ذریعے وہ لوگ کسی کو ضرر پہنچا نہیں سکتے۔ اس کے سوا انہیں کسی بھی فائدے کے بغیر جوضررپہنچانے والی تھی اسی کو انہوں نے سیکھ لیا۔ سوائے (اللہ پر ایمان کے بجائے) اس (جادو) کو جس نے خرید لی اس کو آخرت میں کوئی خوشحالی نہیں، اس کو انہوں نے بغیر کسی شک کے واضح طور پر جان رکھا تھا۔ اپنے آپ کو بیچ کر انہوں نے جو خرید لیا وہ (بہت ہی) برا ہے۔ (اس کو) وہ سمجھ لینا چاہئے۔
دوسرے قسم کے ترجمے کو دیکھیں:
اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے ، جو شیاطین سلیمان کی سلطنت کا نام لیکر پیش کیا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا، کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادو گری کی تعلیم دیتے تھے وہ پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشروں ، ہاروت و ماروت پر نازل کی گیٰ تھی، حالانکہ وہ(فرشتے) جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے ، توپہلے صاف طور پر متنبہ کر دیا کرتے تھے کہ دیکھ ہم محض ایک آزمائش ہیں، تو کفر میں مبتلا نہ ہو، پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے، جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈالدیں، ظاہر تھا کہ اذن الٰہی کے بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے جو خود ان کے لئے نفح بخش نہیں، بلکہ نقصان دہ تھی اور خوب انہیں معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا، اسکے لئے آخردت میں کوئی حصہ نہیں کتنی بری متاع تھی جس کے بدلے انہیوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، کاش انہیں معلوم ہوتا۔
ان دونوں ترجموں میں کیا کہا جاتا ہے؟
دونوں فرشتے لوگوں کو جادو سکھلانے کیلئے آئے تھے۔
اس طرح سکھلاتے وقت یہ کہے بغیر کہ جادو نہ سیکھو، اگر سیکھوگے تو کافر ہوجاؤ گے، وہ کسی کو جادو نہیں سکھلاتے تھے۔
اس طرح وہ آگاہ کر نے کے باوجود جادو سیکھنے کے خواہشمند شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے کے طریقے کو سیکھ لیا۔
ان دونوں ترجمے میں یہی مطلب ظاہر ہوتا ہے کہ جادو سیکھنے کے خواہشمند جادو کا ایک طریقہ یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے کو سیکھ لیا۔
وہ کہتے ہیں کہ جادو کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر سکتے ہیں، اس کے لئے یہ دلیل ہے۔
اور ان کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ قرآن مجید ہی کہہ دیا کہ جادو کو طاقت ہے، اس پر ہمیں بھروسہ ہے۔
ان دونوں ادارے کے ترجمے قواعد کے مطابق ٹھیک رہنے کے باوجود وہ اسلام کی بنیاد ہی کو مسمار کر نے کی طرح ہے۔
ان ترجموں سے ہمیں یہ رائے ملتی ہے کہ جادو کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر سکتے ہیں۔
غیبت یا جھوٹ کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ کام گناہ رہنے کے باوجود ایسا کرناممکن ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ بھروسہ کر ے کہ جادو کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرسکتے ہیں تو وہ ناممکن ہے۔ اوراس کو ایسا سمجھاجائے گا کہ جادوگر بھی اللہ کی طرح عمل کر نے میں طاقتورہے۔
اس طرح بھروسہ کر نا کہ شوہر اور بیوی کے درمیان جادوئی طاقت کے ذریعے جدائی پیدا کر سکتے ہیں تو وہ شرک میں شامل ہو جائے گا۔ اس وجہ سے یہ ترجمے غلط ثابت ہو تے ہیں۔
(جادو سے کچھ نہیں کر سکتے، وہ ایک دھوکہ بازی ہے۔ اس کو حاشیہ نمبر 357میں وضاحت کی گئی ہے۔ )
آیت نمبر 10:77میں کہا گیا ہے کہ جادو گرکبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ جادو سے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر سکتے ہیں کہنا جادوگروں کی کامیابی کی طرف اشارہ کر تا ہے۔
آیت نمبر 7:116میں کہا گیا ہے کہ جادو ایک شعبدہ بازی ہے، حقیقت نہیں ہے۔ایسا کہنا کہ جادو کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر سکتے ہیں ، اس آیت کے خلاف ہے۔
آیت نمبر 7:118 سے7:120کی آیتوں میں کہا گیا ہے کہ جادو بھی ہارا اور جادوگر بھی ہار گئے۔جا دو سے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر سکتے ہیں کہنا ان آیتوں کے خلاف ہے۔
آیت نمبر 20:66میں کہا گیا ہے کہ بہت بڑے جادوگروں نے اپنی بہت بڑی جادوگری سے رسیوں کو صرف سانپ کی طرح بناسکے، لیکن اس کو سانپ بنانہیں سکے۔ ان کا ترجمہ اس کے بھی خلاف ہے۔
آیت نمبر 20:69میں کہا گیا ہے کہ جادو ایک سازش اور مکاری ہے،وہ حقیقت نہیں۔ جا دو کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر سکتے ہیں کہنا اس کے خلاف ہے۔
آیت نمبر 52:13,14,15آیتوں میں سچ کے مخالفت میں اللہ نے جادو کے لفظ کو استعمال کیا ہے۔ اللہ ہی نے کہہ دیا کہ جادو ایک جھوٹ ہے۔ اس لحاظ سے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرسکتے ہیں کہنا اس کے خلاف ہے۔
جادو کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر سکتے ہیں، اس انداز سے ترکیب پائی ہوئی دونوں ترجمے غلط ہیں، اس کے سوا عقلی انداز کے وجوہات بھی ہیں۔
جادو کو اگر تم سیکھ گئے تو کافر ہو جاؤ گے، اس طرح دونوں آگاہ کر نے کے باوجودانہوں نے کہا کہ ہم کافر بھی ہوجائیں، اس سے ہمیں کوئی پروا نہیں، ہمیں جادو سکھلادو۔یہ ترجمے کہتے ہیں کہ اس طرح انہوں نے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے والی جادو کو سیکھ لیا۔
جادو کو سیکھو گے توکافر ہوجاؤ گے، یہ تنبیہ بھی انہیں اثر نہیں کر سکی تو وہ لوگ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے والا ایک چھوٹا سا جادو کو کیوں سیکھا؟
جب چھوٹا سا جادوبھی سیکھیں تو کافر ہوجائیں گے یا بڑا سا جادو بھی سیکھیں تو کافر ہوجائیں گے تو انہوں نے چھوٹا سا جادو کیوں سیکھا؟
جادو گروں کے اعتقاد کے مطابق جادو ایک ایسا فن ہے کہ اس کے ذریعے بہت سی شعبدے دکھا سکتے ہیں۔ کافر ہو نے سے بھی بے پروائی برت کر ہمت جتانے والے تمام جادو ہی کو تو سیکھنا چاہئے تھا؟
صرف ایک جادو کو ، وہ بھی ایک چھوٹا سا جادو کو انہوں نے کیوں منتخب کیا؟ ایک جادو بھی سیکھوکافر ہو نا یقینی ہے یا ہزار جادو بھی سیکھو کافر ہونا یقینی ہے۔ اس حالت میں وہ لوگ کیوں تمام جادو کو یا کم سے کم بڑے بڑے جادؤں کو نہیں سیکھا؟
مال کمانے کے لئے اور فائدے حاصل کر نے کے لئے ہی وہ لوگ جادو سیکھنے کے لئے تیار ہوئے ہوں گے۔ایک ہی جادو سیکھنے سے انہیں فائدہ کچھ زیادہ نہیں ملے گا۔ اگر زیادہ جادوسیکھو گے تو زیادہ دولت کما سکتے ہیں۔
دنیوی فائدے کے لئے کافر ہو نے سے بھی فکر نہ کر نے والے ہر قسم کے جادو ہی کوتو سیکھے ہوں گے؟ اس طرح سوچنے سے واضح ہو تا ہے کہ اس ترجمے میں کچھ غلط معنی موجود ہے۔
اس لئے قرآن کے دیگر آیتوں کے خلاف نہ ہوتے ہوئے اور اسلام کے بنیادی عقیدے سے ٹکرائے بغیر اس آیت کو معنی دینا ہی ٹھیک ہوگا۔
اسی لئے ہم نے اس آیت کو اس طرح ترجمہ کیا ہے:
سلیمان کی حکومت میں شیاطین نے جو کہا اس کو انہوں نے پیروی کر نے لگے۔ سلیمان نے (اللہ کا) انکار نہیں کیا۔ وہ دونوں(جبرئیل، میکائیل)فرشتوں پر بھی (جادو) اتارا نہیں گیا۔ بابل نامی شہر میں لوگوں کوجادو سکھلانے والے ہاروت، ماروت نامی شیاطین ہی انکار کئے تھے۔ ہم آزمائش ہیں، اس لئے (اس کو سیکھ کراللہ کا) انکار مت کرو۔اس طرح کہے بغیر وہ دونوں کسی کو سکھلاتے نہیں تھے۔ اس لئے جس کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرتے تھے، اسی کو ان دونوں سے وہ لوگ سیکھ لئے۔ اللہ کی چاہت کے بغیر اس کے ذریعے کسی قسم کا ضررکسی کو پہنچا نہیں سکتے۔ اور انہوں نے خود کوضرر پہنچانے اور فائدہ نہ پہنچانے کے جادو کو سیکھا۔ ان لوگوں نے یقینی طور پر جان رکھا تھا کہ اس کے خریدنے والوں کوآخرت میں کسی قسم کی سرخروئی نہیں ہوگی۔ خود کو جس کے لئے فروخت کیا تھاوہ بہت برا ہے۔انہیں جاننا چاہئے تھا!
اس لئے جس کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر تے تھے اس کو ان دونوں سے ان لوگوں نے سیکھ لیا۔ یہ جملہ کیا کہتا ہے؟
جس جگہ پر ہم نے ’’اس لئے‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اسے ذرا غور سے دیکھیں۔’’ اس لئے ‘‘کے لفظ کے لئے یہاں ’’ف‘‘ کا لفظاستعمال کیا گیا ہے۔ اس کو کب استعمال کیا جاتا ہے؟
یہ آدمی دھوکہ با زہے، اس لئے میں اس کوقرض نہیں دوں گا۔اس جملے میں اس لئے کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں ’’اس لئے‘‘ کا لفظ استعمال ہو نے کی وجہ سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کو قرض نہ دینے کی وجہ وہ دھوکہ باز ہے۔
اسی طرح ہی یہاں بھی وہ لفظ جگہ پایا ہے۔
شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے کو انہوں نے سیکھ لی، یہ بھی اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں۔ اور یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ جادو کو اگر سیکھو تو کافر ہوجاؤ گے، یہی تنبیہ اس کے لئے وجہ ہے۔
یہ تنبیہ کی گئی تھی کہ جادو کوسیکھنے سے کافر ہوجاؤ گے،اس لئے خود کو کافر بنانے والے جادو سیکھنے کے بجائے اس کے سوائے دوسری ایک چیز کو انہوں نے سیکھ لی۔یہ بات ’’اس کے لئے ‘‘ کے لفظ سے معلوم ہو تا ہے۔
کراٹے سیکھ لوگے تو معلم کی پرستش کر نی پڑے گی، اس طرح آگا ہ کر نے کے بعد ہی کراٹے سکھایا جا تا ہے۔ اس لئے فرض کرو کہ لوگوں نے کشتی سیکھ لیا۔ کراٹے کے ذریعے ہونے والے نقصان کو دکھا کرتنبیہ کر نے کی وجہ سے وہ لوگ کراٹے چھوڑ کر کشتی سیکھ لیا۔
اسی طرح مندرجہ بالا جملہ بھی ترکیب پایا ہے۔
کراٹے کی خرابیاں کہی گئی، اس لئے کراٹے سیکھ لئے، ایسا کہنا نامناسب نہیں ہے۔ تنبیہ کر نے کے بعد اس کے بجائے دوسری ایک چیز کو سیکھنے ہی میں ’’اس لئے‘‘ کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
باپ تاکید کرتا ہے کہ تمباکو نوشی نہ کرو۔اس لئے بیٹے نے اس عادت کو چھوڑ دیا۔ ایساکہنا مناسب ہے۔
باپ نے تاکید کی کہ تمباکو نوشی نہ کرو۔ اس لئے بیٹے نے بہت اچھی طرح تمباکو نوشی کی۔ کیاایسا کہنا مناسب ہے؟
اس وضاحت کوذہن میں لیتے ہوئے مندرجہ بالا جملے پر ذرا غور کرو۔
دونوں نے آگا ہ کی کہ جادوسے خرابی پیدا ہو گی۔اس لئے شوہر بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے والافن کو لوگوں نے سیکھ لی، اس لفظ سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ شوہر بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنے والا فن جادو نہیں ہے۔ وہ جادو کے علاوہ جادو سے کم نقصان پہنچانے والی ایک اور چیز ہے۔
’’ف‘‘ کے لفظ کو ہم ’’اس لئے‘‘ کا معنی دئے ہیں۔ اس طرح اشارہ کر نے والی بعض آیتوں کو ہم نے اور زیادہ پیام کے لئے یہاں پیش کر تے ہیں۔
2:144 کی آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ تمہارا منہ بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے تمہیں تسلی دینے والے قبلہ کی طرف تمہارے منہ کو پھیر دیتے ہیں۔ یہاں ’’اس لئے‘‘کے معنی والے’’ف‘‘ کا لفظ جگہ پایا ہے۔ قبلہ کو بدلنے کے لئے وجہ اس سے پہلے کہا ہوا معاملہ ہی ہے۔ یعنی آسمان کی طرف نبی کریم ؐ کا بار بار منہ پھیرنا ہی وجہ ہے۔ اس کو ’’اس لئے‘‘ کے لفظ سے معلوم کر سکتے ہیں۔
ان آیتوں36:49,50 میں بھی ’ف‘ کا لفظ جگہ پایا ہے۔ان آیتوں میں اللہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جب مباحثہ میں مبتلا تھے تو اچانک ایک بہت بڑی آواز پیدا ہوئی اور وہ لوگ مٹ گئے۔ اس لئے وہ لوگ اپنی ملکیت کے بارے میں وصیت نامہ نہیں لکھ سکے۔ وہ لوگ وصیت نامہ نہ لکھنے کی وجہ وہی ہے جو اس سے پہلے کہہ چکے ہیں۔ یعنی اچانک قیامت کا دن آجانے کی وجہ سے وصیت نامہ لکھ نہیں سکتے، وہی بات یہاں کہی گئی ہے۔
اس آیت 17:48میں وہ لوگ تمہیں کس طرح مثال دیتے ہیں ، اس پر غور کرو۔ اللہ کہتا ہے کہ اس لئے وہ لوگ راہ بھٹک گئے۔ وہ لوگ گمراہ ہو نے کی وجہ وہی ہے جو اس سے پہلے کہہ چکے ہیں۔ یعنی نبی کو نامناسب مثالیں استعمال کر نے ہی سے وہ گمراہ ہوئے۔
اس آیت 18:105 میں اللہ فرماتا ہے کہ ان کے اعمال برباد ہو گئے۔ اس لئے ہم انہیں وزن نہ قائم کر یں گے۔ ان کے اعمال برباد ہو گئے، یہی وجہ ہے ان کے لئے وزن نہ قائم کر نے کا۔اس کو اس لئے کے لفظ کے ذریعے احساس دلایا جاتا ہے۔
اسی طرح شیطانوں نے تاکید کی کہ کافر ہوجاؤ گے، اسی وجہ سے وہ لوگ جادو سیکھنے کے بجائے شوہر بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے والی کوئی اور چیز کو سیکھ لیا۔
اس طرح معنی دینے والے’ف‘ کا لفظ سببیہ کہلاتا ہے۔ اپنے آپ کو عربی زبان کے ماہر سمجھنے والے بعض لوگ دعویٰ کر تے ہوئے کہ یہ سببیہ کا ’ف‘ نہیں ہے، چند دلیل پیش کرتے ہیں۔
سببیہ قسم کا ’ف‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہو تا توےَتَعَلَّمُوْنَ کا لفظ ےَتَعَلَّمُوْا جیسے سمٹ گیا ہوتا۔ اس میں سے نون کا حرف نکل گیا ہوتا۔ یہاں نون رہنے کی وجہ سے اس کو سببیہ کہہ نہیں سکتے۔ یہ ان کا دعویٰ ہے۔
سببیہ کا ’ف‘ دو قسم کے ہیں۔ آیت نمبر 2:102میں اور ہم نے جن آیتوں میں استعمال کیا ہے ان سببیہ قسم کے’ف‘ میں ، ان لوگوں کے سببیہ قسم کے ’ف‘ میں کوئی تعلق نہیں ہے۔اس سے اچھی طرح معلوم ہو تا ہے کہ ان لوگوں کو عربی قواعد کے بارے میں ٹھیک علم نہیں ہے۔
ہم نے جن آیتوں میں ’ف‘ کو اشارہ کیا ہے ، اس کو کئی تفسیروں میں سببیہ کہا گیا ہے، اس پر نظر کریں! وہ جو سببیہ کہتے ہیں وہ الگ ہے، اور یہاں جو استعمال کیا گیا ہے یہ سببیہ الگ ہے۔اس کو جان کر وہ اپنی جہالت سے باز آجائیں۔
اللہ کی چاہت کے بغیر اس کے ذریعہ کسی کو کسی قسم کی ضرر پہنچا نہیں سکتے۔ وہ لوگ اس جملے کو بھی اپنی غلط رائے کے لئے پیش کرتے ہیں۔
اللہ کی مرضی کے بغیر اس کے ذریعے کوئی ضرر پہنچا نہیں سکتے، اس طرح کہا جانے کی وجہ سے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جادو کے ذریعے نقصان پہنچا سکتے ، اس کے لئے یہ چیز زوردار دلیل ہے۔
یہ سچ ہے کہ اگر اللہ چاہے تو اس کے ذریعے ضرر پہنچ سکتی ہے۔ لیکن ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ ’’اس کے ذریعے‘‘ جو کہا گیا ہے وہ جادو نہیں ہے۔
اگر’’ اس کے ذریعے‘‘ کہا جائے تو جو اس سے پہلے کہا گیا تھا اسی چیز کو لینا چاہئے۔ اس سے پہلے کیا کہاگیا تھا؟ اس ڈر سے کہ کہیں جادو سے کافرنہ ہوجائیں، اسے چھوڑ کر شوہر بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنے والے فن کو انہوں نے سیکھا۔’’ اس کے ذریعے‘‘ جو کہا گیا، وہ اسی فن کی طرف اشارہ ہے، جادو کی طرف نہیں۔
یہ اصطلاح یہی کہتی کہ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے والے فن کے ذریعے اگر اللہ چاہے تو ضرر پہنچا سکتا ہے، یہ نہیں کہتی کہ جادو سے ضررپہنچ سکتی ہے۔
خود کو ضرر پہنچانے والی اورکچھ فائدہ نہ دینے والی کو انہوں نے سیکھ لی۔ اور وہ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس کے خریدنے والوں کوآخرت میں کوئی خوشحالی ملنے والی نہیں ہے۔ کیا انہیں سمجھنا نہیں چاہئے تھا کہ جو انہوں نے اپنے آپ کوفروخت کیا تھاوہ بہت ہی خراب تھا؟اس کا مطلب کیا ہے؟
شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے والے فن سے اگر اللہ چاہے تو دوسروں کو ضرر پہنچا سکتا ہے، اس کے باوجود اس کے کرنے والوں کو اس کے ذریعے آخرت میں برائی ہی ملے گی۔ اس سے ان کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہو سکے گا۔ اس طرح یہ جملہ انہیں آگاہ کرتا ہے۔
اس آیت کو غور سے دیکھنے کے بعد معلوم ہو تا ہے کہ بغیرکسی جادو کے شوہر بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے والے فن ہی کو لوگوں نے سیکھا تھا۔ یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ اس کے ذریعے چند نقصان بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس میں کہا نہیں گیا ہے کہ جادو سے متاثر کر سکتے ہیں۔
شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نا جادو کی ایک قسم کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس طرح اگر کوئی سمجھیں تو اس کے لئے دو وجہ ہیں۔
جادو کے متعلق وہ دونوں سختی سے تنبیہ کرنے کے بعد جادو کی ایک اور قسم کو اگر سیکھ گئے ہو تے، اس طرح کہے نہیں ہوں گے۔
اور پھر اس آیت میں تین بار کہا گیا ہے کہ جادو کا سیکھناکافر بنا دے گا۔شوہر بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنا گناہ ہو نے کے باوجود وہ کافر بنادینے کی حد تک جرم نہیں۔ ہم بھی ایسا نہیں کہا ہے۔ جادو پر بھروسہ کر نے والے بھی ایسا نہیں کہتے۔ ان لوگوں نے سیکھے ہوئے اس فن سے کسی کو کافر بنا نہیں سکتے تو یقیناوہ جادو کا کوئی حصہ ہو نہیں سکتا۔
یعنی وہ لوگ جادو نہیں سیکھا۔بلکہ بغیر جادو کے شوہراور بیوی میں جدائی کیسے کر سکتے ہیں، اسی کو انہوں نے سیکھا۔ وہ بھی سو فیصد کامیابی نہیں دے سکتی۔ کیونکہ یہ آیت کہتی ہے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر شوہر اور بیوی کو جدا نہیں کر سکتے۔
اس طرح ترجمہ کر تے وقت اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانے کا گناہ سرزد نہیں ہوتا۔ جادو ایک سازش ہے، شعبدہ بازی ہے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ قرآن کی ان آیتوں کو ہمارا یہ ترجمہ اختلاف نہیں ہوسکتا۔
اور یہ بھی کہ ا س میں اللہ نے جس طرح سے جملوں کا استعمال کیا ہے اس کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے۔
یہ نہیں کہا گیا ہے کہ شوہر بیوی کے درمیان جدا کر نے کے جادو کو انہوں نے سیکھ لیا۔جس کے ذریعے جدا کر سکتے اس طریقے کو کہا گیا ہے۔ یہ انداز بغیر جادو کے کوئی اور طریقے کی طرف ہی اشارہ کر تا ہے۔
اس آیت کو دوسروں کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
سلیمان کی حکومت میں شیاطین جو پڑھایاتھا اسی کو انہوں نے پیروی کی۔ سلیمان نے انکار نہیں کیا۔ بلکہ شیاطین ہی انکار کئے۔انہوں نے لوگوں کو جادو اور بابلون میں رہنے والے ہاروت ماروت نامی دو فرشتوں پر (جو انہوں نے خود کہا تھا)نازل ہو نے والے جادو کو سکھایا۔ لیکن ان دونوں نے ہم (اللہ کی طرف سے آئے ہوئے)آزمائش ہیں، اس لئے (اللہ کا) انکار مت کرو، اس طرح کہنے سے پہلے وہ کسی کو سکھاتے نہیں تھے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنے کے لئے ان دونوں کے ذریعے انہوں نے سیکھ لیا۔ اس کے ذریعے اللہ کی اجازت کے بغیر وہ کسی کو ضرر پہنچا نہیں سکتے۔ وہ لوگ خود کو ضرر پہنچانے والی اور کچھ بھی فائدہ نہ دینے والی چیز ہی کو سیکھا۔وہ لوگ یقیناجانتے تھے کہ اس کے خریدنے والے کو آخرت میں کوئی خوشحالی نہیں ملے گی۔جس کے بدلے میں وہ اپنے آپ کو بیچ ڈالا وہ بہت ہی خراب ہے۔ کاش، وہ اس کو سمجھتے!
غور کرو تویہ ترجمہ پہلے جو ترجمے ہم نے پیش کیا تھااس سے تھوڑا مختلف ہے۔
پہلے جوترجمے ہم نے پیش کیا تھااس طرح اگر ترجمہ کریں تو وہ شریک ٹہرانے میں شامل کر دے گا، اس ڈر سے انہوں نے ایسا ترجمہ کیا ہے کہ جس سے وہ اللہ کا قول دکھائی نہ دے۔
(یہ بھی کہتے آئے کہ )شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے والی چیز کوانہوں نے ان دونوں کے ذریعے سیکھ لئے۔
یہ لفظ بھی کہ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر نے کو انہوں نے سیکھ لیا ، اللہ کا قول نہیں ہے۔ بلکہ یہود نے اس طرح کہا کرتے تھے، اس معنی کو دینے کے لئے (یہ بھی کہتے تھے) کو خطوط وحدانی کے اندر پیش کیا ہے۔اللہ پیش کر تا ہے کہ یہود نے اس طرح کہا کرتے تھے، اس مطلب کو ظاہر کر نے کی طرح ترجمہ کیا ہے۔
یہودیوں نے کہا کہ جادو سے شوہر بیوی کو جدا کر سکتے ہیں ، اگر اس طرح معنی دیں تو یہ جادوگروں کے فرقہ کو دلیل نہیں ہو سکتا۔ اس میں یہی اطلاع ملے گا کہ یہودیوں کے اعتقاد کے مطابق انہوں نے ایسا کہا، اس کے سوا دوسرا معنی اس میں نہیں ہے۔
اللہ کیسے کہے گا کہ جادو کے ذریعے نقصان پیدا ہو تا ہے اور اگر ویسا کہا گیا تو وہ بہت سی آیتوں کے خلاف ہو جا ئے گا، اس ڈر سے مندرہ بالا الفاظ یہودیوں کی رائے ہے کہہ دیا گیا ہے۔ ا س طرح چند علماء نے ترجمہ کیا ہے۔
اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانے کا مطلب نہ آنے پائے، اور دیگر آیتوں کے خلاف بھی نہ ہو نے پائے ، اس طرح ترجمہ اگر کریں تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔
جادو کے متعلق اور زیادہ جانکاری کے لئے حاشیہ نمبر 28، 285، 357، 468، 499وغیرہ دیکھیں!
495۔ جادو سے متاثر نہیں کر سکتے
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode