Sidebar

08
Sun, Sep
0 New Articles

 ‏381۔ کیا اسلام میں منحوس دن بھی ہے؟ 

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

 ‏381۔ کیا اسلام میں منحوس دن بھی ہے؟ 

‏اس آیت 54:19 میں کہا گیا ہے کہ منحوس دنوں میں قوم عاد مٹا دئے گئے۔

اس کوٹھیک سے نہ سمجھنے والے، لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتے آرہے ہیں کہ اسلام میں اچھے اور برے دن ہوتے ہیں۔ اس آیت کے معنی کو ‏ٹھیک سے سمجھنے سے پہلے اچھے اور برے دن کے بارے میں اسلام کا عقیدہ کیا ہے، جان لینا ضروری ہے۔ 

شگون دیکھنااور اچھے دن اور وقت دیکھنے کو اسلام پوری طریقے سے منع کر تا ہے۔ 

دن میں یا وقت میں پوری طریقے سے بھلائی یا برائی پہنچانے والی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ کوئی بھی وقت ہو اس میں چند لوگ بھلائی حاصل کریں ‏گے اور چند لوگ برائی حاصل کریں گے۔ 

اگر کوئی دن مخصوص دن ہو تا تو اس دن کوئی مرنا نہیں چاہئے ۔ کسی کو بیماری آنانہیں چاہئے۔ اس دن فکر، غم یا بے قراری نہیں ہو نا چاہئے۔ ایسا ‏ایک دن تاریخ میں کہیں نہیں دیکھ سکتے۔

جس دن کو برا دن جب کوئی مقرر کر تا ہے تو اس دن کئی لوگوں کو بچہ کی خوش نصیبی حاصل ہوئی ہے اور کئی لوگوں کو دولت حاصل ہوئی ہے۔ 

محرم کے دسویں دن فرعون مارا گیا اور موسیٰ ؑ حفاظت کئے گئے۔ 

اسی محرم کے دسویں دن حسینؓ قتل کئے گئے۔ 

کیا موسیٰ ؑ بچائے جانے کی وجہ سے اس دن کوکیااچھا دن کہا جائے گا؟ 

حسینؓ مارے جانے کی وجہ سے کیا وہ برا دن کہلائے گا؟

اس سے ہم اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ دنوں اور اچھے برے واقعے کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

اس آیت 3:140 میں اللہ کہتا ہے کہ ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں۔ 

گردش کے پہیہ کانچلا حصہ جب اوپرآتا ہے تو اوپر کا حصہ نیچے جاتا ہے۔ اللہ نے اس آیت میں واضح کر تا ہے کہ اسی طرح ہم زمانے کو گردش کرتے ‏ہوئے بعض کو اوپر اور بعض کو نیچے کر تے رہتے ہیں۔ 

مسلمانوں کے عقیدے میں تقدیر پر ایمان لانا بھی ایک ہے۔ 

اچھا ہو یا برا سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے ، اس مقدر پر میں ایمان لاتا ہوں ۔ اس عہد کو اختیار کئے ہوئے مسلمان شگون وغیرہ پر ایمان لانا اس ‏کے عین خلاف ہوگا۔ 

جو دن اچھا ہے یا برا اسے اللہ ہی جا نتاہے۔ اس کو وہ خود سنائے بغیر دوسرا کوئی نہیں جان سکتا۔ 

اللہ نے قرآن میں یہ نہیں کہا کہ فلاں فلاں دن اچھا ہے ، اور اللہ کے رسول نے بھی نہیں کہا۔ جب اللہ اور اس کے رسول ہی نے نہیں کہا تو اس کو ‏دوسرے کیسے جان سکتے ہیں؟

ہماے جیسا انسان ہی فیصلہ کر تا ہے کہ فلاں فلاں دن فلاں فلاں کے اچھے دن ہیں۔اس نے جو لکھا یا بولا اسے دیکھ کر ہی اچھے اور برے دن کا فیصلہ ‏کیاجاتا ہے۔ ہمارے جیسا انسان اسے کیسے جان لیا؟ اس پر ہم غور کر نا چاہئے۔ 

مستقبل میں جو ہونے والا ہے اسے کہنا اور جیوتشی ایک ہی ہے۔ ایک جادوگر کے پاس یا مذہبی عالم کے پاس جا کر لوگ پوچھتے ہیں کہ میرے لئے ‏کوئی ایک اچھا دن بتلائیں۔ وہ بھی کسی ایک دن کو اندازے سے کہہ دیتے ہیں۔ تو یہ لوگ اس پر یقین کر تے ہوئے عمل پیراہوجاتے ہیں۔ 

اگر کوئی جیوتش کے پاس گیا اور اس کے کہنے پر بھروسہ کیاتو اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔ 

مسلم: 4137

اگر کوئی جیوتش کے پاس گیا اور اس کے کہنے پر بھروسہ کیا تو اس نے محمد پر نازل ہو نے والی دین کو جھٹلا دیا۔ 

احمد: 9171

ایک اور بات پر بھی غور کر نا چاہئے۔ ساری دنیا کے لئے اچھاایک دن مقرر کر نے والے پوجاریوں، منیوں، جیوتشوں اور مذہبی عالموں کی حالات ‏کو دیکھیں! ہم دیکھ سکتے ہیں وہ مفلسی اورمحرومی میں گھر کر لوگوں سے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ 

وہ لوگ خود کے لئے ایک مخصوص دن منتخب کرکے اپنی زندگی کوخوشحال بنا نہیں سکتے۔ اس سے اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ سب ان کی ‏دھوکہ بازی ہے۔ 

مسلمان کسی بھی دن ، کسی بھی وقت کوئی بھی اچھا کام کر سکتا ہے۔ وقت، شگون اور جیوتش وغیرہ سے ہٹ جانا ضروری ہے۔ 

تو یہ آیت ایسا کیوں کہتی ہے کہ قوم عاد منحوس دنوں میں ہلاک کئے گئے؟

ایک انسان کو ایک دن اگر کوئی مصیبت پیش آئے توہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دن اس کے لئے برا دن ہے۔اس بنیاد پر ہی اس طرح کہا گیا ہے۔ اسی ‏آیت میں دلیل بھی موجود ہے کہ اسی مطلب سے کہا گیا ہے ۔

اس آیت کے رائے کے مطابق قوم عاد میں رہنے والے صرف برے لوگ ہلاک کئے گئے۔ ہود نبی اورنیک لوگ محفوظ کر لئے گئے۔اس بنیاد پر ‏ہود نبی کے لئے وہ دن منحوس دن نہیں رہا۔ دشمنوں کو ہلاک کردیا گیا، اسی وجہ سے ہود نبی کو وہ دن اچھا دن تھا۔

دنوں کی وجہ سے بھلا برا نہیں ہو تا، اسی کے لئے یہ دلیل ہے۔ وہ دن ہی اگر منحوس دن ہو تا تو ہود نبی کے ساتھ سب لوگ بھی ہلاک ہوگئے ‏ہوتے۔

اچھا دن اور برا دن کو دوسرے مذہب کے لوگ استعمال کر نے میں اور اسلام کے استعمال کر نے میں ایک اہم فرق ہے۔

دوسرے مذہب کے لوگ اگر ایک دن کو اچھا دن کہیں تواسی مطلب سے کہتے ہیں کہ اس دن اگر اچھا کام کریں تو وہ دن بہترین گزرے گااور ‏اچھے کام کر نے کی خاصیت اسی دن کو ہے۔ اگر برا دن ہو گا تو اس دن جو کام بھی کیا جائے گا پورا نہیں ہوگا۔ 

لیکن اسلام ان الفاظ کو اس معنی میں استعمال نہیں کر تا۔ ایک خاص انسان کو یا سماج کوکوئی خرابی پہنچ جائے تواس انسان کے لئے وہ برا دن ہوگا، سب ‏کے لئے وہ برا دن نہیں ہوگا۔ اسی معانی سے اسلام اس کو استعمال کرتا ہے۔ 

دوسرے مذہب کی طرح اسلا م پہلے ہی سے فیصلہ نہیں کر تا کہ کوئی دن اچھا دن ہے یا برا دن ۔

اس آیت 69:7 میں کہا گیا ہے کہ سات دن تک ان کے مقابل ہوا چلی، اور دوسری ایک آیت 41:16 میں کہا گیا ہے کہ سات دن بھی منحوس ‏دن ہی ہیں۔ 

سات دن میں پورا ہی آجا تا ہے۔ ان کے دعوے کے مطابق کوئی بھی دن اچھا دن نہیں ہے۔ یعنی وہ لوگ اس فیصلے کو آجائیں گے کہ 365 دن بھی ‏منحوس دن ہیں۔ 

اس طرح کہنے والے کہ اس آیت کو سند بنا کر اچھے دنوں کو منتخب کر کے دیں گے، وہ کس طرح تحقیق کر سکتے ہیں کہ یہ دن اچھا ہے اور وہ دن برا ‏ہے؟ اس کو کونسی قرآنی آیت دلیل ہے؟ اور کون سی حدیثیں ہیں؟ اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account