28۔ جادو کے بارے میں یہودیوں کی جھوٹے دعوے

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

28۔ جادو کے بارے میں یہودیوں کی جھوٹے دعوے

 آیت نمبر 2:102 میں جادو کے بارے میں یہودیوں کے سارے جھوٹے دعؤوں کواللہ جھٹلاتا ہے۔

 
اس آیت میں کیا خبریں دی گئی ہیں، پہلے اسکو جان لیں۔


سلیمان کی حکومت میں شیطانوں نے جو کہا انہوں نے اس کی پیروی کی، یہ جملہ کیا کہتا ہے؟ 


جادو کسی نیکوکاروں سے سکھلائی نہیں گئی۔ اس کو سکھلانے والے سلیمان نبی کے زمانے میں موجود برے لوگ ہی تھے۔ یہی اوپر والے جملے کی معانی ہے۔ 


سلیمان نے (ایک اللہ سے) انکار نہیں کیا۔ (جبرئیل، میکائیل نامی) ان دونوں فرشتوں کو (جادو) عطا نہیں کیا گیا، یہ جملہ کیا کہتا ہے؟ 


یہود جو کہتے ہیں کہ جادو سلیمان نبی نے سکھلائی ہے، وہ غلط ہے۔ انہوں نے جادو نہیں سکھلائی۔

 اگر وہ جادو سکھلائے ہوتے تو اس وجہ سے وہ اللہ کا انکار کرنیوالے ہوتے۔ انہوں نے جادو بھی نہیں سکھلائی اور اللہ کا انکار کر نے والے بھی نہیں ہوئے۔


اسی طرح یہاںیہی کہا گیا ہے کہ یہودیوں نے جو مانا تھا کہ جادو فرشتوں نے سکھلائی ہے ، ان کاوہ اعتبار غلط ہے ۔یعنی جادو سیکھنا کفر ہے، اس کو نہ سلیمان نبی کر سکتے ہیں اور نہ ہی فرشتے۔ 


بابل شہر میں لوگوں کو جادو سکھلانے والے ہاروت اور ماروت نامی شیطان ہی انکار کے یہ جملہ کیا کہتا ہے؟ 


ہاروت ماروت نامی شیطانوں ہی نے جادو سکھلائی۔ اس کے ذریعے انہوں نے اللہ کا انکار کر نے والے بن گئے۔ 


’’ہم عبرت کے لئے ہیں۔ اس لئے (اس کو سیکھ کراللہ کا) انکار مت کر دینا۔‘‘ یہ کہے بغیر ان دونوں نے کسی کو سکھلا تے نہیں، یہ جملہ کیا کہتا ہے؟


اللہ کا انکار کر نے والے ہاروت ماروت نامی شیطان جادو سکھلانے کے پہلے سیکھنے آنے والوں کو پہلے یہ آگاہی کر دیا کر تے تھے۔ہم جادو سیکھنے کی وجہ سے کافر بن کر تمہارے سامنے عبرت بنے ہوئے کھڑے ہیں۔ اس لئے تم بھی اس کو سیکھ کر کافر مت بن جانا، یہی ان کی آگا ہی تھی۔ ہر ایک سے وہ یہ آگاہی کئے بغیر نہیں رہتے۔ 


اس لئے شوہر بیوی کے درمیان جس کے ذریعے تفریق ڈال سکتے اس کو ان دونوں کے ذریعے وہ لوگ سیکھ گئے، یہ جملہ کیا کہتا ہے؟ 


اس مقام پر ہم نے اس لئے جو کہا ہے اس پر ذرا غور کرو۔ 


یہ آدمی دھوکہ باز ہے، اس لئے اس کو میں قرض نہیں دونگا۔ اس جملے میں اس لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے یہ مطلب ظاہر ہوتا ہے کہ اس لئے کا لفظ استعمال ہو نے کی وجہ سے اس کو میں قرض نہ دینے کا سبب وہ دھوکہ باز ہے۔

 
اسی طرح وہ جملہ بھی قرار پایا ہے۔ 


اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر جادو سیکھ گئے تو کافر بن جاؤگے، ہاروت ماروت نے یہ آگاہی دینے کی وجہ سے جادو کو سیکھے بغیر شوہر اور بیوی کے درمیان جس کے ذریعے تفرقہ ڈال سکتے ہیں اس کو انہوں نے سیکھ لیا۔


جادو سیکھنے سے کافر بن جاؤگے، یہ تنبیہ کر نے کی وجہ سے اپنے کو کافر بنانے والے جادو کو سیکھے بغیر دوسری ایک چیز کو سیکھ لئے۔یہی مطلب اس لئے کے لفظ سے ظاہر ہو تا ہے۔ 


کراٹے اگر سیکھوگے تو استاد کو آداب بجا لانا چاہئے، اس تنبیہ کے ساتھ کراٹے سکھایا گیا۔ اس لئے فرض کرو کہ لوگ کشتی سیکھ گئے۔ کراتے سے پیش آنے والی برائی سے آگاہ کر نے کی وجہ سے وہ لوگ کراٹے چھوڑکر کشتی سیکھ گئے۔ 


اسی طرح مندرجہ بالا جملہ بھی قرار پایا ہے۔ 


کراٹے کی خرابیوں کے بارے میں کہا گیا، اس لئے کراٹے سیکھ گئے کہنا بالکل نامناسب ہوگا۔ تنبیہ کر نے بعد اس کو چھوڑکر دوسری ایک چیز کوسیکھوگے تو ہی اس لئے کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں۔ 


والد نے تنبیہ کی کہ تمباکو نوشی مت کر۔ اس لئے بیٹے نے اس عادت کو چھوڑ دیا، ایسا کہنا مناسب ہے۔ 


والد نے تنبیہ کی کہ تمباکو نوشی مت کر، اس لئے بیٹے نے اچھی طرح تمباکو نوشی کی ، ایسا کہنا بالکل نامناسب ہوگا۔ 


اس وضاحت کو دل میں رکھتے ہوئے مندرجہ بالاجملے پر غور کریں۔ 


دونوں نے تنبیہ کی کہ جادو سے نقصان ہو گا ۔اس لئے شوہر بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنے والے فن کو لوگوں نے سیکھ لیا، اس لفظ سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ شوہر بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنے والا فن جادو میں جمع نہیں ہو سکتا ۔ اوریہ کہ عدم جادو کے جادو سے کمترنقصان دینے والی ایک اور چیز ہے۔


یہ کہنے کی وجہ سے کہ سوائے اللہ کی چاہت کے اس کے ذریعے کوئی نقصان پہنچا نہیں سکتے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسکے لئے یہ ایک مثبت دلیل ہے کہ جادو کے ذریعے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔


یہ سچ ہے کہ اللہ اگر چاہا تو اس کے ذریعے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے نہیں جانا کہ اس کے ذریعہ جادو نہیں کہا گیا۔


اگر اس کے ذریعے کہا گیا تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس سے پہلے کیاکہا گیا تھا۔اس سے پہلے کیاکہا گیا تھا ، اس ڈر سے کہ اگر جادو سیکھیں تو کافر بن جائیں گے، اس کو چھوڑ کر شوہر اور بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنے والے فن کوسیکھ لئے۔ 


اس کے ذریعے کا لفظ اسی کی طرف اشارہ کر تی ہے، جادو کی طرف نہیں۔


شوہر بیوی کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والے فن کے ذریعے اگر اللہ چاہے تو نقصان ہو سکتاہے ، اسی کو یہ جملہ کہتا ہے، جادو سے نقصان ہو گا، نہیں کہا گیا۔ 


اس آیت کو اگر غور سے جانچ کر یں تو معلوم ہو تا ہے کہ جادو کے بغیر شوہر بیوی کے درمیان تفرقہ پیدا کر نے والے فن ہی کو لوگوں نے سیکھا اور اس کے ذریعے چند نقصانات پیدا ہوسکتا ہے۔


اس میں یہ بولا ہی نہیں گیا کہ جادو سے ضرر پہنچا سکتے ہیں۔


اگر کوئی ایسا سمجھے کہ شوہر بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنا جادوکی ایک قسم کیوں نہیں ہوسکتا تو دو وجہ سے وہ غلط ہے۔ 


جادو کے بارے میں وہ دونوں سختی سے آگاہی کر نے کے بعدجادو کی ایک قسم کو اگر سیکھ لئے ہوتے تو ’’اس لئے‘‘ کہا نہیں گیا ہوتا۔ 


نیزاس آیت میں تین جگہوں میں کہا گیا ہے کہ جادو سیکھنا کافر بنادے گا۔ شوہر بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنا گناہ کا کام رہنے کے باوجود وہ کافر بنانے کی حد تک گناہ نہیں۔ہم بھی اس طرح نہیں کہا۔جادو پر یقین رکھنے والے بھی اس طرح نہیں کہتے۔ اگران کا سیکھا ہوا یہ فن کسی کو کافر نہیں بنائے گاتو وہ یقینی طور پر جادوکی ایک قسم نہیں ہو سکتی۔


یعنی وہ جادوسیکھے نہیں۔بغیر جادو کے شوہر اور بیوی کو کس طرح جدا کیا جا سکتا ہے، اسی کو سیکھا۔ وہ بھی صد فی صد کامیابی نہیں دے سکتی۔ یہ آیت کہتی ہے کہ سوائے اللہ کے چاہنے سے شوہر بیوی کو الگ نہیں کر سکتے۔


اس طرح ترجمہ کر تے وقت اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانے کا گناہ عظیم نہیں ہوتا۔قرآن کی آیتیں کہتی ہیں کہ جادو ایک سازش ہے، دھوکہ ہے،وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتاتو اس کا یہ ترجمہ بغیر اختلاف کے تعاون کر تا ہے۔


نیز اس میں اللہ کا استعمال کیا ہوا جملہ بھی غور کر نے کے قابل ہے۔ 


شوہر بیوی کو جس کے ذریعے جدا کیا جاتا ہے وہ بات اصل میں ہے۔ 


اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ شوہر بیوی کو جدا کر نے کا جادو سیکھ لیا۔جس کے ذریعے جدا کیا جا سکتا ہے وہ بات کہہ کر لفظوں کو جو جوڑا گیا ہے وہ بغیر جادو کے ایک اور چیز کی طرف اشارہ کر تا ہے۔ 


اور اس آیت میں ہاروت ماروت دو نام کہا گیا ہے۔ ہاروت ماروت کیا فرشتے ہیں یا برے لوگ ہیں، اس میں مختلف رائے پائے جاتے ہیں۔ 


بعض علماء کہتے ہیں کہ ان دو فرشتے کے الفاظ کے بعد ہاروت ماروت کا نام لیاجانے کی وجہ سے یہاں ہاروت ماروت کو فرشتوں کے معانی میں لینا ہے۔ ان لوگوں کے رائے کے مطابق دیکھا گیا تویہ معانی نکلتا ہے کہ ہاروت ماروت نامی دو فرشتے انسانوں کے پاس آکر سحر نامی جادو سکھائے۔


فرشتے کس طرح جادو سکھا سکتے ہیں؟ اس معقول سوال کے جواب میں چند مفسرین ایک کہانی بھی تیار کر رکھے ہیں۔


نوع انسانی کو اللہ ہر وقت تعریف کر تے ہوئے دیکھ کر انہوں نے حسد سے اللہ سے اعتراض کر نے لگے۔خطا کر نے والے انسان کی انہوں نے ایک فہرست بنا کر پیش کیا۔ اس کو دیکھ کر اللہ نے کہا کہ انسانوں کو میں نے ہی خواہش کا جذبہ عطا کیا ہے۔ اس سے وہ لوگ بعض اوقات غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔ تم میں سے کسی دو کو انتخاب کر لو۔ میں انہیں بھی خواہش کا جذبہ پیدا کر دیتا ہوں۔ ان دونوں کو دنیا میں جانے دو۔ اسی طرح ملائک نے ہاروت ماروت نامی دو فرشتوں کو منتخب کیا۔ وہ دونوں دنیا میں آکر انسانوں سے زیادہ گناہ کر نے لگے۔وہی دونوں نے جادو بھی سکھائے۔ یہ رہا وہ کہانی۔


کیا یہ کہانی اور اس کہانی کی بنیاد پرجو معانی لیا گیا ہے، کیا درست ہے؟ اس پر جب ہم غور کر نے لگے توقرآن کی کئی آیتوں سے وہ ٹکراتا نظر آتا ہے۔ 


آیت نمبر 2:30کہتی ہے کہ جب اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ میں نوع انسانی کو پیدا کر نے والا ہوں تو انہوں نے کہا کہ انسان تو فساد کر نے والے اور خون بہانے والے ہیں۔


آیت نمبر 2:32 کہتی ہے کہ اللہ نے جب آدم ؑ کی فضیلت اور قابلیت ثابت کر کے دکھائی تو انہوں نے کہا کہ تو پاک ہے ، تو ہمیں جتنا سکھایا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی دوسرا علم نہیں ہے، تو ہی جاننے والا ، حکمت والا ہے۔یہ کہہ کر انہوں نے اپنی غلطی پر نادم ہوئے۔


آیت نمبر 2:34کہتی ہے کہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے آدم ؑ کے مطیع ہو کر اپنی غلطیوں کیلئے کفارہ ڈھونڈ لیا۔ 


انسان کی صلاحیت کے بارے میں پہلے ہی انہوں نے تنقید کی اور اللہ نے اس تنقید کو غلط ثابت کر نے کے بعد فرشتوں نے اپنی غلطی کو مان لیا تھا۔


ایسی فطرت کے مالک فرشتے پھر ایک بار اللہ سے کیوں اعتراض کریں گے؟ 


انسان کو پیدا کر تے وقت اللہ نے ان کی رائے طلب کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنی رائے پیش کی۔ اس کو اعتراض یا بے ادبی نہیں کہہ سکتے۔ 


اس کہانی میں ایسا کہا گیا ہے کہ اللہ نے فرشتوں سے رائے کچھ نہیں مانگا اور انسان کو پیدا کئے جانے کے بعدہی فرشتوں نے خلاف رائے کی۔


اس طرح کی بے ادبی فرشتوں کی خلاف فطرت ہے۔

 
جب ہم نے تحقیق کی کہ ہاروت اور ماروت کوجو فرشتہ کہا جاتا ہے کیا وہ درست ہے؟ تو وہرائے قرآن کی کئی آیتوں سے ٹکراتے ہوئے نظر آئی۔ 


اللہ نے جو حکم دیا اس سے فرشتے کبھی بھی اختلاف نہیں کریں گے۔قرآنی آیت 66:6 کہتی ہے کہ جو حکم ہوا ہے اس کو وہ پورا کر یں گے۔


فرشتے قابل عزت بندے ہیں۔ وہ اللہ کے سامنے کچھ نہیں بولیں گے۔ آیت نمبر 21:26,27 کہتی ہے کہ وہ اس کے حکم کے مطابق عمل کریں گے۔

 
ان آیتوں میں فرشتوں کی صفات اور فطرت کو واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ اتنے اچھے اخلاق والے فرشتے اللہ کے انکار کی طرف ڈھکیلنے والے جادو کو کیسے سکھا سکتے ہیں؟


اس آیت میں کہا گیا ہے کہ سحر نامی جادو سکھاناکفر ہے ۔کفر کی باتوں کوفرشتے ہر گز نہیں کئے ہوں گے۔ 


اگر ہاروت ماروت کو ہم فرشتے سمجھنے لگیں تو جس طرح فرشتوں پر ایمان لانا چاہئے اس سے مختلف انداز میں فرشتوں پر ایمان لے آنا پڑے گا۔ اس لئے فرشتوں کے کردار کے مطابق جس طرح معانی لینا چاہئے اسی معانی سے انہیں سمجھنا چاہئے۔ 


فرشتوں کے کردار کے خلاف کوئی مطلب نکالے بغیر ہمیں دیکھنا ہے کہ کیادوسری قسم کے معانی لے سکتے ہیں؟ 


اس آیت میں وہ دو فرشتے کہا گیا ہے۔ وہ دو فرشتے کہنے کی وجہ سے اس سے پہلے یا پچھلی آیت میں جب ہم تلاش کرتے ہیں کہ کیادو فرشتوں کے بارے میں کچھ کہا گیا ہے توہمیں آیت نمبر 2:98ملتی ہے جس میں جبرئیل اور میکائیل کے متعلق کہا گیا ہے۔ 


جبرئیل اور میکائیل نامی فرشتوں کے خلاف چلنے والے یہوداس آیت میں تاکید کئے گئے ہیں۔


یہودیوں کی اس چال کے بارے میں اللہ سرزنش کر نے کے بعد اس سلسلے میں (2:102 آیت میں) فرمایاہے کہ ان دونوں فرشتوں کوجادو عطا نہیں کیا گیا۔

 

یہودیوں نے جوکہا کہ ہمیں جبرئیل اور میکائیل نامی دو فرشتوں کے ذریعے ہی جادو ملا ، اس کے خلاف ہی اللہ نے یہ فرمایا ہے۔ 


اس کا مطلب ہے کہ جبرئیل اور میکائیل نامی فرشتوں کو اور جادوئی فن کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ 


آیت نمبر 2:98 میں کہا گیا ہے کہ جبرئیل اور میکائیل نامی فرشتوں کے یہود دشمن تھے۔اسی کی تشریح میں یہ آیت اتری ۔ یہودیوں نے یہ کہہ کرالزام لگایا تھا کہ جبرئیل اور میکائیل نامی دو فرشتوں نے ہی جادو سکھایا تھا ، اس الزام کو اس کے ذریعے اللہ نے دور کر دیا۔ 


یہاں سوال اٹھ سکتا ہے کہ اگر ایسا ہو تو ہاروت اور ماروت کون ہیں؟ ان کے بارے میں یہاں ذکر کر نیکی ضرورت کیا ہے؟ 


یہ آیت اسطرح شروع ہوتی ہے کہ جو شیطانوں نے سکھا یا تھااسی کی انہوں نے پیروی کی۔ 


اگر شیطانوں نے سکھایا ہے تو کیا شیطانوں نے ہی براہ راست سکھایا ہے؟ یا برے لوگوں کو یہاں شیطان کہا گیا ہے؟ 


یہ بھی ہمیں سمجھنا چاہئے۔ 


جس طرح شیطان کا لفظ سچ مچ شیطان کے لئے استعمال کیا گیا ہے اسی طرح ان 2:14، 6:112، 114:5,6آیتوں میں بھی برے لوگوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ 


نبی کریم ؐ نے تنہا سفر کر نے والا شیطان (ابو داؤد 2240، ترمذی 1597) اور شاعروں کو شیطان (مسلم 4548:) کہا ہے۔


ہم جو بحث کر رہے ہیں اس آیت میں کہا گیا ہے کہ شیطانوں نے جادو سکھلایا۔گمان ہو تا ہے کہ کیا یہ شیاطین اصل شیاطین کو کہہ رہے ہیں؟ یا برے آدمیوں کو؟اس گمان کو ہٹا نے کیلئے ہی اللہ نے ہاروت ماروت کہا ہے۔ 


یعنی اللہ نشاندہی کر تا ہے کہ جادو سکھلانے والے شیاطین ہاروت ماروت نامی برے آدمی ہی ہیں۔


عربی زبان میں کئی معنوں والے لفظ استعمال کر نے کے بعد واضح ایک دوسرے لفظ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کو عربی زبان میں بدل کہا جا تا ہے۔ اس لحاظ سے شیطانوں کا (بدل) دوسرا لفظ ہی ہاروت ماروت ہے۔ 


ہم اب تک جو کہتے آرہے ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ یہودیوں کوفن جادو سکھلانے والے نہ سلیمان نبی ہیں،نہ ہی جبرئیل اور میکائیل نامی فرشتے ۔ بلکہ ہاروت ماروت نامی انسانی شیطان ہی نے سکھلایا۔ 


تفسیری فن میں مہارت رکھنے والے قرطبی نے کہا ہے کہ اس آیت کو مختلف انداز سے معانی دینے کے باوجود یہی بالکل بہترین تشریح ہے۔ 


قرطبی کی اس تشریح کو ابن کثیر بھی اپنی تفسیر میں لیا ہے۔


آیت نمبر 10:77 کہتی ہے کہ جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اگر کہتے ہیں کہ جادو سے شوہر اور بیوی کو جدا کیا جاسکتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے جادوگر فتح پائیں گے۔

 
آیت نمبر 7:116کہتی ہے کہ جادو ایک شعبدہ بازی ہے، وہ حقیقت نہیں ہے۔یہ کہنا کہ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال سکتے ہیں، اس آیت کے مخالف ہے۔ 


آیت نمبر 7:118 سے 7:120 تک کہا گیا ہے کہ جادوبھی ہارا اور جادوگر بھی ہار گئے۔ایسا کہنا کہ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال سکتے ہیں، اس آیتوں کے مخالف ہے۔

 
آیت نمبر 20:66میں کہا گیا ہے کہ بہت بڑے جادو گر جو بہٹ بڑے جادو سے رسی کو سانپ کی طرح بناکر دکھائے، لیکن اس کو سانپ نہیں بنا سکے۔یہ بھی اس رائے کے خلاف ہے۔ 


آیت نمبر 20:69 میں کہا گیا ہے کہ جادو کا مطلب ہے سازش اور مکاری، وہ سچ نہیں ہے۔ایسا کہنا کہ جادو کے ذریعے شوہر بیوی کو جدا کر سکتے ہیں، یہ بھی اس رائے کے خلاف ہے۔ 


اس مطلب سے لکھے ہوئے ترجمے کہ جادو سے شوہر اور بیوی کو جدا کر سکتے ہیں ، بالکل غلط ہے۔اس کے لئے عقلی وجوہات بھی ہیں۔

 
جادوسیکھیں تو کافر ہوجاؤگے ، اگر یہ تنبیہ بھی انہیں کچھ اثر نہ کرسکا تو وہ شوہر بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنے والے بالکل چھوٹے جادو کو کیوں سیکھیں؟ 


اگر چھوٹے جادو سیکھیں بھی کا فر ہی ہوں گے، اور بڑے جادو سیکھیں بھی تو کافر ہی ہوں گے تو وہ کیوں چھوٹے جادو سیکھیں گے؟


جادو اثر کر سکتی ہے کہنے والوں کی رائے کے مطابق جادو ایک بکثرت شعبدہ دکھانے والا فن ہے۔ کافر ہوجائیں گے جان کر بھی جو دلیر ہیں وہ سب قسم کے جادو بھی سیکھے ہوں گے۔ 


ایک ہی جادو، وہ بھی بہت چھوٹا ساجادو، کیا منتخب کرکے سیکھیں گے؟ ایک ہی جادوبھی سیکھو تو کافر ہونا یقینی ہے اور ہزارہا جادو بھی سیکھو تو کافر ہونا یقینی ہے۔ اس حالت میں سب کچھ یا بڑے بڑے جادو کو سیکھے بغیر کیوں چھوڑدیا؟ 


مال جمع کر نے کے لئے اور دنیوی آسائشیں حاصل کر نے کے لئے ہی جادو سیکھنے کی کوشش کئے ہوں گے۔ ایک ہی جادو اگر سیکھیں تو کم ہی مال جمع کرنا ہوگا۔ اگر زیادہ جادو سیکھیں تو زیادہ مال جمع کر سکتے ہیں۔ 


دنیوی آسائشوں کے لئے کافر بننے کے بارے میں فکر نہ کر نے والے، سب قسم کے جادو ہی نا وہ سیکھے ہوں گے؟ اس پر غور کرو تو ہمیں واضح ہو تا ہے کہ ترجمے میں کہیں کوئی کوتا ہی ہے۔


اس لئے قرآن کی دیگر آیتوں کو بغیر اختلاف کے اور اسلام کی بنیادی عقیدے کے مطابق اس آیت کو معانی دینا ہی درست ہے۔


جادو کے متعلق پوری تفصیل معلوم کر نے کے لئے حاشیہ نمبر 285، 357، 468، 495، 499 وغیرہ دیکھئے۔ 

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account