263۔ نبی کریم ؐ کی آسمانی سفر
ایک رات میں مسجد حرام ، مکہ سے یروشیلم کی مسجد اقصیٰ تک نبی کریم ؐ کولے جا یا گیا، اسی واقعہ کو اس آیت 17:1 میں اللہ فرماتا ہے۔
نبی کریم ؐ نے اس کو اور زیادہ تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے کہ بیت المقدس سے آسمان کی طرف آپ کولے جایا گیا، ہر آسمان سے گزرتے وقت اللہ کی بے شمار برہان کو دیکھا، اللہ کو آمنے سامنے تو نہیں دیکھا، پر اس سے ہمکلام ہوا، اسی وقت اللہ نے پانچ وقت کی نماز کو فرض کیا۔
اس کے بارے میں پوری طرح سے جاننے کے لئے بخاری کی حدیث 349 اور3887 دیکھئے!
کیا ایک رات میں سات آسمانوں سے گزر کر مختلف دلائل کو دیکھ کر واپس آسکتے ہیں؟
اگر ایسا ہو تو کتنی رفتار سے سفر کرنا چاہئے تھا؟
اتنی رفتار سے سفر کر نے کو کیا انسان کا جسم برداشت کر سکتا ہے؟ ایسے کئی سوالات اس سے پیدا ہو سکتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ اس میں کوئی بات انسان سے ممکن نہیں ۔اور یہ ہرگز ممکن نہیں کہ اس سفر کو نبی کریم ؐ نے خود ہی اختیار کیا ۔
پیدا کر نے والے اللہ کی طرف سے یہ سفر واقع ہوئی ہے۔ جو وہ چاہتا ہے اس کو کر نے والا اللہ ہی ہے۔ یہی ممکن ہے، یہ اتنا ہی ہوسکتا ہے ، یہ ممکن نہیں ہو سکتا ، اس حالت میں رہنے والا اللہ نہیں ہوسکتا۔
آسمانی سفر کے بارے میں کہنے والی اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اپنے عبد محمد نبی کو ایک رات میں لے جا نے والا کمزوریوں سے پاک ہے۔
اس جملے سے ہم جان سکتے ہیں کہ اللہ سے سب کچھ ہو سکتا ہے، اس کے بارے میں کہنے کے لئے ہی اللہ نے یہاں فرمایا ہے۔ ’’اس کو کر نے والا اللہ، میں ہی ہوں‘‘ کہہ کر سب شکوک کا منہ بند کردیتا ہے۔
اللہ کی طرف سے جبرئیل نے ایک ہی لمحہ کے اندر اللہ کا حکم لے آتے ہیں، اس کو ہم مانتے ہیں۔ وہاں سے یہاں ایک ہی لمحہ کے اندر فرشتہ آنے کے بجائے یہاں رہنے والے آسمان کولے جائے گئے۔دونوں کی بنیاد ایک ہی ہے۔
وہ فرشتہ ہو نے کی وجہ سے روشنی کی رفتار سے یا روشنی سے بڑھکر بھی تیزی سے جا سکتے ہیں۔ لیکن محمد نبی تو فرشتہ نہیں، وہ توایک انسان ہیں۔کیا انسان کو اتنی طاقت آسکتی ہے ؟ اس شک کا جواب معراج کے حدیث میں موجود ہے۔
نبی کریم ؐ کوفرشتے جب لے جانے کے لئے آئے تو براق نامی ایک سواری بھی ساتھ لائے تھے۔اس کو بخاری کی حدیث3887اور چند حدیثوں میں بھی کہا گیا ہے۔
اس کی جسامت کے بارے میں وہ حدیث کہتی ہے کہ وہ گھوڑے سے تھوڑاچھوٹا اور خچر سے تھوڑا بڑا تھا، اور جہاں تک ہماری نظر جاتی ہے وہاں تک اس کا ایک قدم ہوتا تھا۔
ایک گھوڑے کے جسامت میں رہنے والی ایک سواری زیادہ سے زیادہ ایک میٹر تک ہی قدم اٹھا سکتی ہے۔ نظر جانے کی حد تک وہ قدم اٹھاتی ہے تو وہ قدم نہیں ہوسکتا۔ وہ اڑنے کی طاقت کی طرف اشارہ ہے۔ نظر جہاں تک جاتی ہے وہاں تک قدم اٹھاتی ہے تو اس کا مطلب روشنی کی رفتار ہے۔
برقی طاقت کے ذریعے تیزی سے چلنے والی سواری کو انسان خود بنا سکتا ہے تو اس سے بھی طاقتور بے حد تیزی سے چلنے والی سواری کو پیدا کرنا اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔ اس کے بغیر بھی اللہ آسمان تک لے جاسکتا ہے، اس کے باوجود ہمیں بھروسہ دلانے کے لئے یہ انتظام کیا ہے۔
براق کا معنی ہے بجلی۔ یہ نام خود ثابت کر تی ہے کہ وہ روشنی کی تیزی کی طرح چلنے والی سواری ہے۔
روشنی کی تیزی سے اگر سفر کریں تو ایک رات میں آسمانی دنیا تک جا کر آنا ممکن ہی ہے۔ اس تیزی سے چلنے والی سواری کو انسان دریافت نہ کر نیکی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے یہ نا ممکن ہے۔
تیزی سے چلنے والی سواری بھی ہو تو اس تیزی سے انسان اگر سفر کرے تو یہ شک پیدا ہوسکتا ہے کہ اس کا دل پھٹ کر چور چور ہوجا ئے گا۔
یہ سچ ہے کہ آسمانی خلاء میں سفر کر نے والے کا دل سکڑ جائے گا۔ اس کو قرآن نے بھی واضح کی ہے۔
(اس کے بارے میں جاننے کے لئے آیت نمبر 6:125 اور حاشیہ نمبر 72 دیکھیں!)
اگر اللہ چاہے تو دل پھٹ کر چور ہوئے بغیر بھی لے جا سکتا ہے ، اس کے باوجود انسان آسانی سے ماننے کے لئے آسمانی سفر پر لے جانے سے پہلے نبی کریم ؐ کے دل کو فرشتوں کے ذریعے شق کر واکراللہ نے چند تبدیلیاں کیں۔
اس کو بخاری کی حدیث 349 اور 3207وغیرہ میں کہا گیا ہے۔
اس میں یہ بھی شامل ہوسکتا ہے کہ تیزی سے سفر کر تے وقت متاثر ہوئے بنا حفاظت کا انتظام ہو۔
یعنی تیزی سے سفر اختیار کر تے وقت نبی کریم ؐ کواثر انداز ہوئے بغیر ان کے دل میں اللہ نے مناسب انتظامات کردیا، اس لئے ان سے اس رفتار کو برداشت کرنا ممکن ہوگیا۔
اللہ کی قدرت کو جانتے ہوئے اس پر بھروسہ کر نے والے لوگوں کے لئے یہ ایک معمولی چیز ہے۔
گمراہ لوگوں کا ایک گروہ معراج کا انکار کر تے ہیں۔ ان کا انکار کیا صحیح ہے ؟ اس کو بھی ہم جان لینا چاہئے۔
مکہ سے یروشیلم تک لے جانے کی بات ہی قرآن میں کہا گیا ہے۔ وہاں سے انہیں آسمان تک لے جانے کی کوئی بات قرآن میں نہیں ہے۔ اس لئے ان کا کہنا ہے کہ یروشیلم جانے کے حد تک ہی ہمیں ماننا چاہئے۔
آسمانی سفر انہیں سمجھ میں نہیں آئی، اسی لئے اگر وہ انکار کرتے ہیں تو مکہ سے یروشیلم کے سفر کو بھی انہیں انکار کر نا چاہئے۔ انسانی عقل کے لئے وہ بھی ناممکن ہی ہے۔
اگر وہ اس لئے انکار کرتے ہیں کہ قرآن میں جو کہا گیا ہے اسی کو ہم مانیں گے، حدیث میں جو کہا گیا ہے اس کو نہیں مانیں گے تو وہ جان لیں کہ نبی کریم ؐ کی احادیث بھی وحی ہی ہے۔ اس کو جاننے کے لئے ان حاشیوں میں 36،39، 50، 55، 56، 57، 60، 67، 72، 105، 125، 127، 128،132 ، 164، 244، 255، 256، 258، 267، 318، 350, 329، 352، 430درج شدہ باتوں کو پڑھ کر معلوم کر لیجئے۔
مزید یہ کہ آسمانی سفر کے بارے میں قرآن مجید میں بھی کہا گیا ہے۔ اس کو حاشیہ نمبر 267، 315، 362 وغیرہ میں ہم نے تشریح کی ہے۔
263۔ نبی کریم ؐ کی آسمانی سفر
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode