162۔ کیا دین پھیلانے کے لئے جھوٹ بول سکتے ہیں؟
ان آیات (6:76-78)میں کہا گیا ہے کہ ابراھیم نبی نے پہلے ستاروں کو اپنا رب مانا۔ پھر چاند کواپنا رب مانا۔ پھر سورج کو اپنا رب مانا۔ پھر سمجھ میں آگیا کہ یہ سب ر ب نہیں ہو سکتے۔
لیکن ان آیتوں 2:135،3:67، 3:95، 6:161، 16:120، 16:123میں کہا گیا ہے کہ ابراھیم ؑ کبھی شریک ٹہرانے والوں میں سے نہ تھے۔
ابراھیم نبی اللہ کو کبھی شریک ٹہرانے والے نہ تھے، اس وجہ سے سورج، چاند اور ستارے وغیرہ کو اپنا رب کہنا لوگوں کو بتدریج سمجھانے کے لئے ہی ہوسکتا ہے۔
اگر ان چیزوں کو ابراھیم نبی نے حق سمجھا ہو تا تو جو قرآن نے کہا کہ ’’وہ شریک ٹہرانے والوں میں سے نہ تھا‘‘ ان آیتوں کے خلاف بن گیا ہوتا۔
ابتداء میں لاعلمی کی وجہ سے ابراھیم نبی نے نبی بننے سے پہلے کیا ایساکہا ہوگا تو وہ بھی غلط ہے۔
کیونکہ آیت نمبر 6:83 میں اللہ فرماتا ہے کہ ابراھیم کو یہ دلیل ہم ہی نے عطا کی۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس طرح ابراھیم نبی نے جو دعویٰ کیا تھا وہ اللہ کی سکھلائی ہوئی بنیاد پر ہی تھا۔ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہی ابراھیم نبی نے اس طرح کہا تھا۔
ابراھیم ؑ نے لوگوں کوحقیقت سمجھانے کے لئے چند حکمتانہ طریقے اپنایا تھا۔
ان کی سیرت کو عبرت بناکر اللہ نے جو ہمیں سمجھایا ہے، اس سے ہم یہ عبرت حاصل کر سکتے ہیں کہ دوسروں کو سمجھانے کے لئے بتدریج پیام دے سکتے ہیں۔
دین کی کوئی مناہی باتیں پیش کئے بغیر ناٹک کی شکل میں نصیحتوں کو پیش کر سکتے ہیں، اس کے لئے بھی یہ آیت سند ہے۔
ابراھیم نبی کی اس طریقہ کار کو اللہ بھی اس آیت (6:83) میں تسلیم کر تا ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کی اصلاح کے لئے ابراھیم نبی نے جس طرح جھوٹ کہا اسی طرح ہم بھی لوگوں کو راہ راست پر لا نے کے لئے جھوٹ بول سکتے ہیں۔
بعض مذہب پرچار کر تے ہیں کہ نابینا دیکھتا ہے اور بہرا سنتا ہے ، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی اسی طرح تبلیغ کریں ۔ ابراھیم نبی کی اس طریقے کو اپنے لئے ایک سند پیش کر تے ہیں، یہ بالکل غلط ہے۔
کیونکہ نابینا دیکھتا ہے جیسے اعلان کر نے والے اس جھوٹ کواس لئے کہتے ہیں کہ لوگ اس کو مان کر قبول کر لیں۔اسے سننے والے لوگ بھی اس کو سچ ہی سمجھتے ہیں۔
لیکن ابراھیم نبی نے جو کہا اس کو وہ مان کر نہیں کہا۔ اس لئے بھی نہیں کہا کہ لوگ اس کو سچ سمجھیں۔ سورج یا چاند کو اپنا رب ماننے کے لئے بھی نہیں کہا۔
کسی قسم کی قدرت نہ رکھنے والے بت سے ستارے بہتر ہیں کہہ کر ابراھیم نبی نے ایک اور اونچے درجے کی طرف انہیں لے چلتے ہیں۔
ستارے میں اتنی روشنی نہیں ہے، اس سے بڑھ کر روشنی والے چاند ہی بہتر ہے کہہ کر ایک اور اونچے درجے کی طرف انہیں لے چلتے ہیں۔
رب ماننے کے لئے یہ کافی نہیں ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ اس سے بڑا جو سورج ہے وہی رب ہونا چاہئے۔ اس کے ذریعے ایک اور اونچے درجے کی طرف لوگوں کی فکر کو تیز کرتے ہیں۔
اس کے بعد ساری کائنات کو پیدا کر نے والا ہی رب ہوسکتا ہے ، کہہ کر ان لوگوں کوٹھیک مقام پر لاکھڑا کرتے ہیں۔
نیچے رہنے والوں کو درجہ بدرجہ اوپر کی طرف لا کر کھڑا کرنے ہی کو ابراھیم نبی کے راستے میں ایک نمونہ موجود ہے۔
مذہب کو پھیلانے کے لئے جھوٹ بولنے والے اسی لئے جھوٹ بولتے ہیں کہ غلط عقیدے کو لوگ قبول کرتے ہوئے ماننا چاہئے۔اس جھوٹ میں لوگوں کو قائم کر دیتے ہیں۔لوگ جس حال میں رہتے ہیں اسی مقام میں انہیں قائم رہنے کے لئے بولے جانے والے جھوٹ میں اور ابراھیم نبی کے طریقے میں کوئی موافقت نہیں ہے۔
اور زیادہ معلومات کے لئے حاشیہ نمبر 236، 336، 432 دیکھئے!
162۔ کیا دین پھیلانے کے لئے جھوٹ بول سکتے ہیں؟
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode