16۔ فضیلت دے گئے اسرائیل
2:47، 2:122، 45:16 ان آیتوں میں اللہ کہتا ہے کہ بنی اسرائیل کو دنیا والوں پر فضیلت بخشی گئی ہے۔
اسلام کی بنیادی عقیدوں میں سے ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ کوئی انسان پیدائشی بنا پر کوئی فضیلت پا نہیں سکتا۔اس کو 2:111، 3:75، 49:13 وغیرہ آیتوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس بنیادی عقیدے کے مطابق ہی اس کو ہم سمجھنا چاہئے۔
اس لئے یہ لفظ اس معنی میں استعمال نہیں کیا گیا کہ پیدائشی طورپر بنی اسرائیل اعلیٰ ہیں ۔ اسرائیلوں کو جو حکومت، اختیارات اور مالی سہولیات عطا کی گئیں اسی فضیلت کے بارے میں کہا گیا ہے۔
یعقوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، داؤد، سلیمان، زکریا، یحیےٰ، عیسیٰ وغیرہ اللہ کے رسول زیادہ تر اسرائیلوں میں ہی بھیجا گیاتھا۔یہ عظمت دوسروں کو نہیں ملی۔ قرآن کی آیت 5:20 اس بات کو واضح طور پر کہتی ہے۔ مندرجہ بالا آیتیں بھی اسرائیلوں کو عطا کی گئی انہیں اختیارات کے بارے میں کہتی ہے۔
وہ فضیلت بھی ہمیشہ قائم رہنے والی فضیلت نہیں تھی۔ان 2:47، 2:122، 45:16 آیتوں میں بھی ماضی کا صیغہ ’’فضیلت دی تھی ‘‘استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اسی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ایک زمانے میں انہیں چند سہولتیں عطا کی گئی تھیں، اس کے سوا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ہر زمانے میں فضیلت والے ہوں گے۔
قرآن کی یہ آیتیں 2:143، 3:110کہتی ہیں کہ روحانی حالات کے موافق نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی ذمہداری سے عمل پیرا ہونے والی امت نبی کریم ؐ کی امت ہی ہے۔یہ فضیلت اسرائیلوں کو نہیں ہے۔
قرآن کی آیتیں 2:88، 2:159، 4:46,47، 5:13، 5:60، 5:64، 5:78 کہتی ہیں کہ اختیارات دے کر فضیلت کے قابل نبے ہوئے اسرائیل بعد میں اللہ کے سخت غضب اور لعنت کو حاصل کرنے والے بن گئے۔
16۔ فضیلت دے گئے اسرائیل
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode