Sidebar

21
Thu, Aug
11 New Articles

‎53‎۔ کیا دوسرے مذہب والوں کو اسلام مارنے کو کہتا ہے؟‏

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‎53‎۔ کیا دوسرے مذہب والوں کو اسلام مارنے کو کہتا ہے؟‏

یہ آیتیں 2:190-193، 2:216، 2:244، 3:121، 3:195، 4:74,75، 4:84، 4:89، 4:91، 8:39، 8:60، ‏‏8:65، 9:5، 9:12-14، 9:29، 9:36، 9:41، 9:73، 9:123، 22:39، 47:4، 66:9 مسلموں کوجنگ کر نے کے لئے ‏حکم دیتی ہیں۔ 

اسلام کے خلاف یہ تنقید کیا جا رہا ہے کہ روحانی رہنما والی کتاب میں جنگ کر نے کے لئے کیوں حکم دیا گیا ہے؟ تو کیا اسلام کو تلوار کی نوک سے ہی ‏پھیلایا گیا؟ 

اس طرح کیوں حکم دیا گیا؟ کن حالات میں یہ حکم نافذ کیا گیا؟ اگر اسکو جان لیں تو معلوم ہوجائیگا کہ انکی تنقید قطعی غلط ہے۔

نبی کریم ؐ نے جب تبلیغ کر نے لگے کہ صرف اللہ واحدہی کی عبادت کریں تو آپ کے خاص شہر والوں سے وہ ناگفتہ تکلیوں میں مبتلا کئے گئے۔ ان کے ‏پیروکارکو بھی ظلم و ستم سے دوچار ہو نا پڑا۔ کئی لوگ تو قتل بھی کئے گئے۔ 

آخر میں جب نبی کریم ؐ کو بھی مار دینے کی ان لوگوں نے تدبیر کی تو نبی کریم ؐ اور ان کے ساتھیوں نے اپنا گھر باراور جائداد سب کچھ ان دشمنوں کے ‏حوالے کئے اور مکہ چھوڑ کر چلے گئے۔ 

نبی کریم ؐ جب مدینہ آئے تو انہیں لوگوں کی تعاون حاصل ہونے کی وجہ سے وہاں ایک الگ حکومت قائم کئے۔ 

اس کے بعد مکہ والوں نے حملہ کیا اور مسلمانوں کو ایذائیں دینے لگے اور چند لوگوں کو قتل بھی کر ڈالا تواس وجہ سے اللہ نے جنگ کو فرض کیا۔

نبی کریم ؐ صرف مذہبی رہنما ہی نہیں تھے بلکہ اس ملک کے حاکم بھی تھے۔ ملک کے حاکم ہو نے کی وجہ سے اپنی رعایا کی حفاظت کی ذمہ داری نبھاتے ‏ہوئے اگر کوئی دشمن حملہ آور ہو تو ان سے مقابلہ بھی کرنا ضروری ہے۔صرف یہی نہیں کہ اپنے خاص شہرسے مسلمانوں کو بھگایاگیا،بلکہ وہ لوگ ‏جہاں سکون سے جی رہے تھے اگروہاں بھی وہ لوگ ان پر حملہ آور ہو ئے تو ان سے مقابلہ کر نا فرض اور حق بنتا ہے۔ اسی بنا پر نبی کریم ؐ کو جنگ کر نا ‏پڑا۔ 

قرآن مجید میں جو مارو، کاٹو کہا گیا ہے وہ سب جنگی میدان کی دستور العمل ہے۔ میدان جنگ کا وہی طریقہ ہے۔ 

میدان جنگ میں کھڑے ہوئے سپاہیوں کو جو احکام دیا جاتا ہے ان احکام کا ذکر کرتے ہوئے وہ لوگ کچھ اندرونی مقصد سے تشہیر کر تے ہیں کہ اسلام ‏غیر مسلموں کو قتل کرنے کو کہتاہے۔ 

نیچے دئے گئے آیتوں سے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ الزام بالکل غلط ہے ۔ 

‏* آیت نمبر 2:190 اور 9:13 میں کہا گیا ہے کہ بے ضرورت جھگڑاکرنے والوں سے جنگ کرو۔ 

‏* آیت نمبر 2:191 اور 22:40 میں کہا گیا ہے کہ خاص شہر سے بھگانے والوں ہی سے جنگ کرو۔ 

‏* آیت نمبر 2:192 میں کہا گیا ہے کہ جنگ سے باز آ جانے والوں سے جنگ مت کرو۔ 

‏* آیت نمبر 4:75، 22:39-40 میں کہا گیا ہے کہ ظلم سہنے والے کمزور مرد، عورتیں اور بچوں ہی کے لئے جنگ کریں۔

‏* آیت نمبر 8:61 میں کہا گیا ہے کہ صلح چاہنے والوں سے جنگ نہ کریں۔ 

‏* آیت نمبر 2:256، 9:6، 109:6 میں کہا گیا ہے کہ مذہب پھیلانے کے لئے جنگ مت کرو۔ 

اسلام کہتا ہے کہ جائز وجہ ہو تو ہی مسلم حکومت جنگ کر نا چاہئے۔ 

یہ آیتیں کس لئے اور کس ماحول میں نازل کی گئیں، اس حقیقت کو جانے بغیرکوئی تنہا شخص یا گروہ ان آیتوں کو اپنی انتہا پسندی کے لئے سند بنالیں تو ‏یہ ان کی جہالت ہوگی۔ ان آیتوں کو اور انتہا پسندی کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

تنہا شخص یا گروہ جہاد کے نام سے تشدد اختیار کریں تو وہ غلطی ہوگی۔ 

اپنے خاص ملک سے بھگائے ہوئے لوگ جنگ کر کے اپنی کھوئی ہوئی اختیار پھر سے پا لینے کو کوئی غلط نہیں کہے گا۔ اسی بنیاد پر ہی نبی کریم ؐ نے مکہ پر ‏جنگ کیا۔ 

بالکل واضح حکم بھی دیا گیا ہے کہ جنگ کو پہلے شروع نہ کریں۔اس کو آیت نمبر 2:190 اور 9:12,13میں دکھ سکتے ہیں۔

جنگ، دہشت انگیزی اور جہاد کے بارے میں اور زیادہ معلومات کے لئے حاشیہ نمبر 54، 55، 76، 89، 197، 198، 199، 203، 359 ‏دیکھیں۔ ‏

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account