*جادو منتر ایک دھوکا ہے
*مصنف:
مناظر اسلام شیخ پی۔زین العابدین حفظہ اللہ
مترجم: کے۔محمد ناصر عمریؔ ، پرنام بٹ
ناشر : نبیلہ پدپ پگم، چینئی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عرضِ مترجم
جادو کے موضوع پر مجلات اور جرائد میں مضامین آتے رہتے ہیں ،اور اس کی بابت کئی مستقل کتابیں بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں ۔جن میں جادو کی حقیقت اس کی قسمیں اس کا تدارک، علاج ، بچاؤ اور احتیاطی تدابیر وغیرہ لکھے گئے ہیں۔
غرض جادو کے تعلق سے جتنی کتابیں ہیں ،سب اس کی تائید میں لکھی گئی ہیں کہ جادو کا وجود ہے ، وہ برحق ہے ، خود نبی ﷺ پر جادو کا اثر ہوا ،پھرا س کے ازالے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نازل کیا وغیرہ۔
مگر افسوس ہے کہ کسی نے بھی ان کا تحقیقی جائزہ نہیں لیا ۔حالانکہ جب قبرپرستی کی تائید میں کتاب لکھی گئی ،تو اس کا تحقیقی جائزہ لے کر تردیدمیں کتاب لکھی گئی ۔اور جب تقلید کی تائید میں کتاب منظر عام پر آئی ،تو پھر اس کا بھی تحقیقی جائزہ کے ساتھ اس کی تردید میں کتاب شائع کی گئی ۔اس طرح کئی موضوع پر تائید اور تردید میں کتابیں شائع کی جاتی ہیں ۔غرض اس کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ جو قاری خالی ذہن کے ساتھ اس کا مطالعہ کرتاہے وہ حقیقت سے واقف ہوتا اور سچائی کو تسلیم کرلیتاہے۔
اس طریقے سے جادو کے متعلق جتنے دلائل پیش کیے جاتے ہیں ،ان سب کا بھی تحقیقی جائزہ منظرعام پر آنا چاہیے ،تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آئے ۔چنانچہ چند سال قبل مناظر اسلام شیخ پی ۔زین العابدین صاحب نے جادو کے تعلق سے تحقیقی مضامین لکھے۔ تفصیلی بیان دیا۔ اورسوال وجواب کے نشستوں میں بھی خوب سمجھایا اور قرآنی آیتوں کے حوالوں سے کہا کہ جادو درحقیقت ایک چال ہے۔ وہ فریب اور دھوکا بازی کے سوا کچھ نہیں۔ البتہ اس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالی جاسکتی ہے۔ اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال کے اوائل میں شیخ نے جادو کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کی بات سے رجوع کرلیا۔ اس کی مناسب وجہ بتائی (جس کی تفصیل آگے آئے گی) ۔اوراس کا باقاعدہ اعلان کردیا تاکہ حقیقت بے نقاب ہوجائے۔
اس پر جادو کے ماننے والوں نے شور مچایا ،کئی قسم کے اعتراض کرنے لگے اور اشکالات ظاہر کرتے رہے۔ شیخ نے تحمل کے ساتھ سب کا جواب دیا۔ پھر گزشتہ ماہ جون 2014 میں یعنی سن 1435ہجری رمضان المبارک کی ابتدا ئی دس راتوں میں اس موضوع پر شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا۔ جن دلائل سے جادو کو ثابت کیا جاتاہے ،ان کا بھی علمی جائزہ پیش کیا۔ اورکئی اعتراضات اوراشکالات کا تسلی بخش جواب دے کر سامعین کو مطمئن کیا۔
شیخ ریاست تمل ناڈو کے باشندے ہیں جن کی مادری زبان تمل ہے۔ اس لیے ان کی دینی اورملی تقاریر، اصلاحی خطبات، غیر مسلموں کے اعتراضات کا معقول اور اطمینان بخش جوابات ، اخباری بیانات ،دیے گئے انٹرویو، اور حکومت سے حقوق کے مطالبات سب تمل زبان میں ہے۔ اسی طرح توحید جماعت کی طر ف سے جاری ماہنامے ،ویب سائٹ آن لائن پی جے ڈاٹ کام (www.onlinepj.in)اورفیس بک سب تمل زبان میں ہے ۔ ماضی قریب میں ہی توحید جماعت کا فیس بک انگریزی زبان میں بھی کھولا گیا جس کا آی ڈی یہ ہے:
مگر تمل ناڈو کے بعض اضلاع میں اردو بولنے اور بات چیت کرنے والے زیادہ ہیں ،جو اردو کے ساتھ تمل بھی جانتے ہیں ۔ یہی لوگ شیخ کی باتوں اوربیانوں کو اورتوحید جماعت کی تبلیغ اور اس کے موقف کو اردو دان طبقہ تک پہنچاتے ہیں۔ اس وقت اکثر وبیشتر حضرات اردو میں دلائل اور ثبوت مانگتے ہیں ۔ اسی طرح ہندوستان کے دیگر ریاستوں سے تشریف لانے والے علماءکرام بھی اردو میں کتاب چاہتے ہیں۔ ان کے علاوہ اردو دان طبقہ کے پڑھے لکھے لوگ بھی اردو میں کتاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس کے پیش نظر ذمہ داروں نے فیصلہ کیا کہ جادو کے موضوع کو اردودان طبقہ تک پہنچایاجائے۔ اس کے لیے شیخ کی تمل میں لکھی ہوئی کتاب کو جو دراصل رمضان کا مسلسل بیان ہے، اردو میں ترجمہ کرنے کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی ۔میں نے اپنی بساط کی حد تک ترجمہ کیا ہے۔ پھر جن احباب نے اس پر نظر ثانی کی ، اورکتابی شکل میں پیش کیا، میں ان سب کا تہے دل سے شکریہ ادا کرتاہوں ۔اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہم سب کو جادو کی حقیقت سمجھنے میں مدد فرمائے۔
کے محمد ناصر عمری ،پرنام بٹ
تمہید مصنف
میں نے ‘‘اسلام کی نظر میں جادو’’ کے عنوان پر گزشتہ جولائی سن2014ء میں یعنی ماہِ رمضان 1434ھ کی دس راتوں میں مسلسل خطاب کیا۔ کئی احباب نے اصرار کیا کہ ان خطبات کو کتابی شکل میں پیش کی جائے ۔ چنانچہ میں نے‘‘جادو - ایک دھوکا اور فریب کے’’ نام سے اس کتاب کو ترتیب دی ہے۔
تقریری انداز کو اگر ویسے ہی تحریری شکل دی جائے تو ظاہر بات ہے پر کشش نہیں رہے گی۔ اس لیے نفسِ مضمون کو باقی رکھتے ہوئے کتابی انداز میں تحریر کررہاہوں۔
خطاب میں دلیلوں کو پیش کرتے ہوئے مفہوم پیش کردیاجاتاہے مگر تحریرمیں ایسا نہیں ہوتا ۔قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ معنی مفہوم بھی سمجھایاجاتاہے۔
چونکہ قرآن کریم ہر گھر میں موجود ہے اس لیے کتاب کی ضخامت کو کم کرنے کے لیے آیت قرآنی کا عربی متن دانستہ طورپر چھوڑدیا گیا ۔لیکن چونکہ حدیث کی کتابیں سب کے پاس نہیں ہیں ،اس لیے حدیث کا عربی متن کتاب میں شامل کرلیا گیا ہے۔
خطاب کرتے وقت کسی ضرورت کے مد نظر کہی ہوئی بات کوباربار دہرایاجاتاہے ۔مگر تحریر میں پیش کرتے وقت تکرار کی ضرورت نہیں پڑتی۔
موضوع سے متعلق کچھ باتیں جو تقریرکرتے ہوئے ذہن سے نکل گئی ،اُن تمام باتوں کو بھی اس کتاب میں شامل کردیا گیا۔
آج ہمارے اسلامی معاشرے میں بہت سارے لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ جادو برحق ہے، جادو گر خرق عادت کچھ بھی کرسکتاہے ، کرامت دکھاسکتا اورمعجزہ ظاہر کرسکتاہے۔غرض جادو گر ایسا کردکھانے پر قدرت واختیار رکھتاہے۔اسی طرح یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ اللہ کے آخری رسول محمد ﷺ پر بھی جادو کا اثر ہوا۔
حالانکہ اس طرح کا عقیدہ رکھنا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ پر ہمارا جوایمان ہے ، اس کو بہت حد تک نقصان پہنچاکرہم کو اسلام سے خارج کردیتاہے۔ایساعقیدہ رکھنا اللہ کے ساتھ شرک کرناہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اس موضوع سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے۔
میں امید کرتاہوں کہ یہ کتاب ان کی رہنمائی کرے گی ۔اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاگوہوں کہ ہماری قوم کو اس کتاب کے ذریعہ جادو کی بابت مکمل وضاحت حاصل ہو۔خیر اندیش
پی ۔ زین العابدین
دینِ اسلام کی دو قسمیں
تمام قوموں میں یہ عقیدہ پایا جاتاہے کہ جادو، افسوں، ٹونا، ٹوٹکا، طلسم اور منتر وغیرہ جس کو عربی زبان میں سحر کہاجاتاہے،جس کے ذریعہ غیر معمولی اور خطرناک نقصان پہنچایاجاسکتاہے۔ انسانی اعضاءوجوارح کو ناکارہ اور عقل وفہم کو ماووف کیاجاسکتاہے وغیرہ ۔ دوسرے اقوام کی طرح مسلمان میں سے اکثر لوگوں کا عقیدہ بھی یہی ہے۔
مگر مسلمانوں میں اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ جادو جوہےخفیہ تدبیر کرکے دھوکادینے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔یعنی نظر بندی اورشعبدہ بازی ہے، مکاری اورفریب ہے ،اور اس جادوکے ذریعہ خرقِ عادت کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔اور ہم بھی اسی موقف پر جمے ہوئے ہیں۔
ان دومختلف اعتقاد میں کونسا عقیدہ صحیح ہے؟ یہ جاننے کے لیے قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی طرف رجوع کرنا اوران دلائل کی روشنی میں سچائی اور حق وصداقت کو سمجھناہمارا فرض بنتاہے۔
سِحر نامی جادو ، منتر کے بارے میں جاننے سے پہلے ہم چند بنیادی حقیقتوں کو جاننا ضروری ہے ۔جس سے جادو کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ نےہمیں جو دین پسند کرکے عطاکیاہے، اس کی اس نے دو قسمیں کی ہیں:
- پہلی قسم ایمان ہے جوعقیدے سے تعلق رکھتاہے۔
- دوسری قسم اسلام ہے جو اعمال سے متعلق ہے۔
ان دو لفظوں کے براہِ راست معنیٰ ہی سے ہم اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ ایمان کا معنیٰ ماننے کے ہوتے ہیں جس کا تعلق دل سے ہوتاہے ،اور اسلام کا معنیٰ تابع داری کے ہیں، جس کا تعلق عمل،کارروائی اور برتاؤ سے ہوتاہے۔
اللہ اوراُس کےفرشتے، اُس کے انبیاء ورسل، اُس کی کتابوں ، آخرت کے دن ، اور تقدیر کے متعلق ایسے ہی ماننا ایمان کہلاتاہے جس طرح اللہ اوراس کے رسول ﷺ نے ہمیں تعلیم دی ہے۔
اس طرح ایمان لانے کے بعد جن اعمال کا کرنا ضروری ہے انہیں کرنا اسلام کہلاتاہے۔
ذیل کی حدیث سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان دوقسموں کا باقاعدہ الگ الگ ذکرکرکے بالکل وضاحت کردی ۔
حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ - وَهَذَا حَدِيثُهُ - حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ قَالَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ - أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ - فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَاءِ فِي الْقَدَرِ، فَوُفِّقَ لَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ دَاخِلًا الْمَسْجِدَ، فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي أَحَدُنَا عَنْ يَمِينِهِ، وَالْآخَرُ عَنْ شِمَالِهِ، فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ : أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ، وَذَكَرَ مِنْ شَأْنِهِمْ، وَأَنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ، وَأَنَّ الْأَمْرَ أُنُفٌ، قَالَ: «فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ، وَأَنَّهُمْ بُرَآءُ مِنِّي»، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ «لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَ اللهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ» ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ»، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟» قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ» (مسلم)
ترجمہ:عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ عمر بن خطابؓ نے حدیث بیان کی کہ ایک روز ہم اللہ کے رسول ﷺ کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آپہنچا۔جس کے کپڑے نہایت سفید تھے اور بال نہایت کالے تھے۔ یہ نہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ سفر سے آیاہے اور ہم میں سےکوئی اس کو پہچانتا نہ تھا ۔وہ آپ کے قریب (پہنچ کر) بیٹھ گیا۔ اپنے گھٹنے آپﷺ کے گھٹنوں سے ملادیے ،اور دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے۔
پھر وہ شخص پوچھنے لگا: اے محمدﷺ! مجھ کو بتلاؤ کہ اسلام کیا ہے؟ تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ دل سے یقین کرکے زبان سے یہ اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،اور یہ اقرار کرنا کہ محمداللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور اگر استطاعت ہوتو خانۂ کعبہ کا حج کرنا، اس (جواب کے سننے) پر وہ شخص بولا: تم نے سچ کہا۔ہم کوتعجب ہوا کہ وہ خود سوال کرتاہے ، پھر وہی اس کی تصدیق بھی کرتاہے۔
پھر اس شخص نے سوال کیا: مجھ کو بتلاؤ کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: اللہ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن کو دل سے یقین کرنا اور اس بات کا یقین کرنا کہ اچھا اور براسب کچھ تقدیر کے مطابق ہی ہوتاہے۔
۔۔۔۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: وہ(شخص جو آکرسوال کررہاتھا) جبرئیل ؑ تھے۔ تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ (مسلم حدیث نمبر1، مختصر)
اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے واضح کردیا کہ جن چھ باتوں کو مانناضروری ہے، اُنہیں دل سے یقین کرنے کانام ایمان ہے ۔اور عبادت کرنے کا نام اسلام ہے۔ یہ دین ہم کو ایمان اور اسلام غرض دوقسم سے عطاکیا گیا ہے ، جس کو ذیل کی ایک قرآنی آیت سے سمجھ سکتے ہیں ۔
(الحجرات 49:آیت نمبر14)
دیہات کے کچھ لوگ ایسے تھے جو نماز اور روزے اداکرتےتھے مگر جن باتوں پر یقین رکھنا ضروری تھا ،ان پر انہوں نے ٹھیک سے یقین نہیں رکھا۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے کہا:‘‘ تم ایمان نہیں لائے کیونکہ ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، البتہ ظاہری طورپر تم عبادت کرتے ہو اس لیے تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے،اسلام میں رہتے ہیں’’۔اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اسلام کو الگ الگ کرکے دکھاتاہے ۔
اس آیت سے پتہ چلا ہے کہ ایمان دل سے یقین رکھنے کانام ہے ،اوراسلام ظاہری عبادات کو کہاجاتاہے۔
ذیل کی آیت سے بھی اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں:
(سورۃ النحل16:آیت نمبر106)
یہ آیت بتلاتی ہے کہ اگر کوئی شخص جس کا ایمان مضبوط ہے کسی دھمکی کی وجہ سے مجبور ہوکر صرف زبان سے ایمان کو متاثرکرنے والے کفریہ کلمات کہہ دے ،تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اگر مجبور شخص دین کے خلاف بات کہہ دے ،حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو،تو اس سے اس کی اخروی زندگی پر اثر نہیں ہوگا۔
اسلام نام کی عبادات اور کارروائی میں اگر کمی اورکوتاہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردےگا ۔مگر ایمان نام کے یقین رکھنے میں کمی ہو اور دل سے ماننے میں کسر ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف نہیں کرےگا۔ مکہ کے کافروں نے کعبہ کا طواف کیا، حج کیا، اللہ کا ذکر کیا، صدقہ وخیرات کیا، اورحاجیوں کی خدمت بھی کی اس کے باوجود ان کے اعمال کا اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا۔
کفار مکہ اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود یہ یقین کررہے تھے کہ اللہ کو جس طرح بے شمار اختیارات اور قدرت ہے ،اسی طرح اپنے چھوٹے چھوٹے معبودوں کو بھی چند اختیارات ہیں۔ ایسا عقیدہ رکھنا چونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ویقین میں کمی اورنقصان کرتاہے۔ اسی لیے ان کے نیک اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔
اگر کوئی شخص ایک طرف اللہ تعالیٰ کو مانے، اور دوسری طرف کسی اور کو اللہ کی طرح بااختیار اورقدرت والا مانے اور اس پر یقین رکھے، تو اس کے نیک اعمال سب اکارت ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی بہت ساری صفات میں سے صرف ایک صفت کو کسی اور میں اللہ کی طرح مانے، اور اللہ کی طرح قدرت والا سمجھے، تو بھی شرک ہے۔ اس لیے ان کے سارے نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے تعلق سے کئی آیتوں میں واضح کرتاہے:
(النسا ئ 4: آیت نمبر 48) - (النسائ4:آیت نمبر116) - (المائدۃ 5: آیت نمبر 72) - (الانعام 6: آیت نمبر 82)
ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ کرنا کس کو کہتے ہیں؟ اس کی بابت اللہ کے رسول ﷺ نے جو وضاحت پیش کی وہ یہی ہے:
(بخاری 32)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے لوگ اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ آلودہ کردیں، تو وہ آخرت میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
(الانعام6: 88) - (التوبہ9: 17) - (الزمر39: 66،65)
ہم کو کسی بات پر یقین کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں اس سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کامعاملہ تو نہیں ۔ ہم کو بہت ہی محتاط رہنا چاہیے کہ کسی قسم کی بات ماننے میں اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کا ادنیٰ شائبہ بھی ہو تو ہمارے سارے نیک اعمال تباہ ہوجائیں گے۔
مذکورہ دلائل سے پتہ چلتاہے کہ جو شخص نماز، روزہ، زکات اور دیگر عبادات کا پابند رہنے کے باوجود ،اللہ تعالیٰ پر ایمان ویقین کے تعلق سے ذرا سا بھی نقصان کرنے والی کوئی غلط بات کو دل سے مانے ،اور اس پر یقین کرے ،تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کا کوئی اجر نہیں دے گا۔
نیز جب ہمارا یقین واذعان اور عقیدہ قرآنی آیتوں سے ٹکرانے لگے تب تو ہمارے نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ جیسا کہ اس نے وعیدسنائی:
(الاعراف7: 147)
اس بات میں کہ جادو کے ذریعہ نقصان پہنچایاجاسکتاہے ،شرک کی آمیزش ہے ۔اس کے علاوہ جادو کو ماننے پر قرآن کریم کی کئی آیتوں کو انکارکرنے کی نوبت آتی ہے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ بہرحال جادو سے اثر ہونے کا یقین رکھنا کوئی معمولی بات نہیں کہ اسے نظر انداز کیاجائے۔
چونکہ اس مسئلے کا تعلق ایمان سے ہے ،اس لیے زیادہ توجہ کا طالب ہے۔ تبھی اس کے انجام کا پتہ چلے گا۔
قرآن اورحدیثوں کو کس طرح سمجھیں؟
جادو سے اثر ہونے کا یقین رکھنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے ۔اس کے لیے جب ہم قرآن کی آیتوں اور احادیث رسول ﷺ کوپیش کرتے ہیں، تو جولوگ جادو سے متاثر کرنے کا یقین رکھتے ہیں ،وہ اس کی دلیل میں چند آیات واحادیث پیش کرتے ہیں۔
اب عام لوگ الجھن میں پڑگئے اور سمجھنے لگے کہ جس طرح جادو سے متاثر نہ ہونے پر دلیل ہے ،اسی طرح جادو سے متاثر ہونے پر بھی دلیل ہے ۔غرض وہ کش مکش میں گرفتار ہیں۔
واضح رہے کہ قرآن کریم کبھی ایسی بات نہیں کرتا جو آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ آپ اس میں متضاد باتیں نہیں پائیں گے۔
(النساء4:82)
قرآن کریم میں متضاد اورمخالف باتیں نہیں رہیں گی۔یہی بات قرآن کریم کے کتابِ الٰہی ہونے پرواضح دلیل ہے۔
قرآن میں اگر ہم کو تضاد معلوم ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو سمجھنے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اس آیت میں پوچھتاہے کہ کیا تم غور نہیں کرتے؟ اگر غوروفکر کرتے ، تو تضاد نہیں پاتے۔
قرآنی آیت کو سمجھنے میں بعض لوگوں کو کافی وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے ہی یہ تصور پیداہوجاتاہے کہ قرآن میں گویا دومتضاد باتوں کے لیے بھی گنجائش ہے!!!
آیا قرآن میں ،یا ثابت شدہ حدیثوں (احادیث صحیحہ) میں ہم کو اگر تضاد نظر آئے ،تو اس کی درستی اور اصلاح کیوں کر ہو؟ ہم کواچھی طرح جان لینا ضروری ہے۔
اس کے لیے چند عمومی بنیاد ہیں جو حسب ذیل ہیں:
- قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے ۔اور یہ دین اللہ کا عطا کردہ ہے جو سب کچھ جانتاہے۔
- یہ دین محمد ﷺ کے ذریعہ جن کے سچے اور امانت دار ہونے کا دشمنوں نے بھی اعتراف کیا ، لوگوں کو عطا کیا گیا۔
- ان خصوصیات کا حامل اس دین میں تضاد، بے جوڑ، بے تکی اوردیوانگی کی باتیں نہیں ہوں گی۔ اس یقین کے ساتھ ہی قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے۔
4) اگر ہم قرآنی آیت سمجھار ہے ہیں۔ تو اس سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ وضاحت وتشریح اللہ کی قدر ومنزلت کے لائق بھی ہے؟
5) قرآنی آیت کی ایسی تفسیر نہ کرے کہ سننے والے کو یااُس کے پڑھنے والے کو شک وشبہ میں ڈال دے کہ کیا عظمت والا پروردگار ایسی بات کرسکتاہے؟
6) کسی بھی آیت کو سمجھنے کے لیے، اس کے کہنے والے (اللہ تعالیٰ) کا مقام ومرتبہ، اس کے وسیع علم اور قدرت کا خیال رکھتے ہوئے اس کے علم وفضل کے مطابق معنی دیا جائے۔
مثال کے طورپر عبادت کو لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس کی عبادت وبندگی کے لیے ہی پیدا کیا۔ جس کی رہنمائی کرنے کے لیے انسانوں میں سے ہی انبیا اوررسولوں کو بھیجتا رہا۔ پورے قرآن کا خلاصہ اور لب لباب یہی ہے کہ اللہ ہی قادر مطلق اور مالک ہے۔ اورہم سب اس کے عاجز بندے ہیں۔
فرض کیجئے کہ ایک آیت پر سرسری نظر دوڑانے پر حقیقت سے پھیرتے ہوئے اگر یہ بات معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا غیر کی بھی عبادت کی جاسکتی ہے ، تو ایسے موقع پر اس طرح نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی اور کی عبادت کرنے کا ہر گزحکم نہیں دے گا۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی کسی بھی آیت کی وضاحت کی جائے۔
رسولوں کی مثال لیجئے۔ اللہ تعالیٰ ان سے چند معجزات ظاہر کرتاہے، تاکہ لوگ ان کو اللہ کا رسول مانیں۔ جو کام صرف اللہ ہی سے ہوتاہے، وہ اگر رسول سے ظاہر ہوتاہے، تو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کو بھی اللہ کی طرح قدرت حاصل ہے۔ ورنہ ہم اللہ کی صفت اور خصوصیت کا انکار کرنے والے ہوجائیں گے۔
قرآن کریم کہتاہے کہ انبیاکے علاوہ نیک بندوں سے معجزات اور کرشمے کا ظہورہواہے!
(آل عمرآن3 :37،38)
اس واقعہ کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے چونکہ مریم علیہا السلام کو غیر معمولی طریقے سے، بلکہ معجزاتی طورپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست غذا مل رہی تھی، اس لیے نیک لوگوں اور بزرگوں سے اگر مانگیں تو وہ ہم کودیں گے۔ اس طرح ہر گزنہیں سمجھناچاہیے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں جن واقعات کا بھی ذکر ہواہے ،ان سب کو کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر ہی سمجھاجائے۔ اس کے خلاف کوئی وضاحت نہ کی جائے۔
قرآن کریم کو کیوں کر سمجھا جائے؟ اس کو چند مثالوں کے ذریعہ اور بھی واضح کرسکتے ہیں۔
عام معنی دینے والے الفاظ کو ہم ہمیشہ ایک ہی طرح کا معنی نہیں دیتے ،بلکہ یہ دیکھ کر کہنے والے کون ہے؟ اس کے لائق معنیٰ ہی مراد لیتے ہیں۔
تمل ناڈو توحید جماعت کا عقیدہ توحید پر منحصر ہے، یہ سب کومعلوم ہے۔ اسی طرح بریلوی لوگ قبروں کی عبادت کرتے ہیں، یہ بھی سب کومعلوم ہے۔
اب ایک عام لفظ‘‘ بڑوں کی عزت’’ اٹھالیجئے۔ توحید جماعت کہتی ہے کہ بڑوں کی عزت کرو، اور بریلوی عقیدہ والے بھی کہتے ہیں کہ بڑوں کی عزت کرو۔ لفظ ایک ہی رہنے کے باوجود دونوں گروہ الگ الگ معنی ومطلب میں کہتاہے۔
اگر توحید جماعت کہتی ہے کہ بڑوں کی عزت کرو، تو اس کا معنی جماعت کے موقف کے موافق سمجھ لیتے ہیں ۔ یعنی ہم یہ باور کرلیتے ہیں کہ اس جملے کو توحید جماعت اس معنی میں لیتی ہے کہ بڑوں کے ساتھ گستاخی نہ ہواور نہ بدتمیزی ہو، بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام کا معاملہ ہو۔
اگر بریلوی لوگ اورقبوری حضرات یہ جملہ کہیں تو ہم کو ان کےعقیدے کے مطابق اس کا معنی سمجھنا چاہیے ۔یعنی قبروں یا درگاہوں میں مدفون لوگوں کی عبادت کی جائے اوران سے دعائیں کی جائے۔ غرض اس قسم کا معنی ومطلب پیش کرنے کے لیے ہی وہ لوگ اس جملے کو استعمال کرتے ہیں۔
ان دوگروہوں کے عقائد، نظریات اور دعوت وتبلیغ وغیرہ کا خیال رکھتے ہوئے اس لفظ کا معنیٰ اورمطلب متعین کرلیتے ہیں۔ صرف لفظ کو بنیاد بناکر کوئی خاص معنی مراد نہیں لیا جاتا۔
دوسری مثال عظمت صحابہ کی دی جاسکتی ہے۔اگر توحید جماعت کہتی ہے کہ صحابہ کا احترام کیاجائے اوران کی عظمت کا اعتراف کیاجائے، تو اسے یہ معنی لیاجائے گاکہ صحابہ کرام نے تنگی کے دور میں خلوص نیت کےساتھ اسلام قبول کیا۔ قوم تک اس حق وصداقت کو پہنچایا، اوردین کی خاطر بہت ساری قربانیاں دیں ۔ہم سب کو ان کے حق میں دعائے خیر کرنا چاہیے۔
دوسرے نظریات کے حاملین بھی اگر یہ کہتے ہیں کہ عظمت صحابہ کا خیال رکھاجائے ،تو ہم ان کے موقف کے مطابق یہ سمجھ لیتے ہیں کہ صحابہ کرام جو بھی کہیں، اسے قبول کیاجائے۔ نیز جس طرح اللہ اور رسول ﷺ کے کہنے پر ماننا ضروری ہے، اسی طرح صحابہ کے اقوال کو بھی ماننا ضروری ہے۔
لفظ ایک ہی ہے مگر کون کہتے ہیں؟ یہ پرکھ کر الگ کرکے ہم اس کے لائق معنی ومطلب سمجھ جاتے ہیں۔
اسی طرح زیارت قبر اورجادو(سحر) وغیرہ کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول محمد ﷺ نے کوئی بات بتائی ہے،تو اس سلسلے میں قرآن کریم اور صحیح حدیثوں میں مجموعی طورپر جو باتیں بتائی گئی ہیں، اور جو عقائد پیش کئے گئے ہیں ان کے لائق اورمناسبت سے ہی اس کو سمجھاجائے ۔
قرآن کریم مجموعی طورپر جو عقیدہ اورنظریہ پیش کرتاہے، اس کے برخلاف ہم کو کوئی آیت نظرآئے ،تو اس کو بنیاد بناکر متصادم معنی نہیں لینا چاہیے۔ بلکہ قرآن کریم میں اس موضوع پر جتنی آیتیں ہیں ان سب کا خلاصہ اورلب لباب کو سامنے رکھتے ہوئے، اس سے ٹکرائے بغیر ،اس آیت کا معنی ومطلب پیش کرنا چاہیے۔ قرآن کریم کو صحیح طورپر سمجھنے کے لیے یہ بڑی اہم رہنمائی ہے۔
اسی طرح چند حدیثیں، قرآن کریم کے مزاج کے موافق نہیں ہیں۔ قرآن جو باتیں بتارہا ہے ان کے برعکس واقع ہوئی ہیں۔جب حدیثیں قرآنی تعلیمات کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ نہ ہوں اور آپس میں تطبیق ممکن ہی نہ ہو، تو کیاکیاجائے؟
اس موقع پر یہ بات یادرہے کہ اللہ کے رسول محمدﷺ کو قرآن کی تفصیل بتانے، تفسیر کرنے اور وضاحت وتشریح کرنے کے لیے ہی بھیجاگیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(النحل16: 44)
جورسول، قرآن کریم کی وضاحت وتشریح کے لیے مبعوث ہوئے یقینی بات ہے کہ وہ قرآنی تعلیمات کے خلاف نہ کوئی بات کریں گےا ور نہ عمل کریں گے۔ اس لیے ہم کو اس نتیجے پر پہنچنا اور یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اگر اللہ کے رسول ﷺ قرآنی تعلیمات کے خلاف کوئی بات کہنے کی روایت ملے، خواہ وہ کسی بھی کتاب میں موجود ہو، وہ حقیقت میں رسول ﷺ کی کہی ہوئی نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح تعلیمات قرآنی کے برخلاف رسول ﷺ کے کسی عمل کی روایت خواہ وہ کسی بھی کتبِ حدیث میں مل جائے، وہ درحقیقت رسول ﷺ کا عمل نہیں ہوسکتا۔
یہ حدیثوں کا انکار نہیں ہے۔ اس کو بھی ہم وضاحت کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے۔
کیونکہ قابل اعتماد لائق اعتبار اورمکمل بھروسے کے معاملے میں قرآن اور حدیث دونوں برابر کے درجے کے نہیں۔ تمام صحابہ کرام قرآن کریم کے کتاب الٰہی ہونے پر گواہ ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے پاس قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنایا اور فرمایا: یہ میرے پروردگار کی جانب سے نازل کردہ ہے ۔ رسول ﷺ کے اسی تلاوت قرآنی پر تمام صحابہ شاہد ہیں۔ اس کو باقاعدہ لکھ کر تحریری شکل میں محفوظ کرلیا گیا۔ اور بہت سارے صحابہ نے اسے اپنے دل میں محفوظ کرلیا۔
رہا حدیثوں کا معاملہ، اس کا اہتمام قرآن کی طرح تمام صحابہ کرام سے نہیں ہوا۔ چنانچہ کسی حدیث کو بھی تمام صحابہؓ نے روایت نہیں کیا۔ گنتی کے چند حدیثیں ایسی ہیں جن کو زیادہ سے زیادہ پچاس صحابہ نے روایت کیا ہے ۔دیگر بے شمار حدیثیں ایسی ہیں جن کی روایت کرنے والے صحابہ کرام ؓ میں سے کبھی ایک یا دو، اورکبھی کبھار تین ہیں۔
یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے یوں فرمایا: اوراس فرمان پر صرف ایک یادو صحابی نے گواہی دی ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن کی بابت پوری قوم کی گواہی اور حدیث کی بابت چند ایک کی گواہی ، دونوں برابر نہیں ہوسکتی۔
ایک دو راویوں کی روایت میں غلطی ہونے کاامکان زیادہ پایاجاتاہے، اگر چہ وہ راوی کتنے ہی قابل بھروسا کیوں نہ ہو۔
قرآن کا معاملہ ایسا نہیں۔ رسول ﷺ کے زمانے میں بلکہ اس کے بعد کے زمانے کے تمام لوگ یعنی تمام تابعین نے بھی صحابہ سے سن کر روایت کی کہ قرآن یہی ہے۔ پھر ان کے بعد والے تمام تبع تابعین نے بھی تابعین سے سن کر راویت کی کہ قرآن یہی ہے ۔ اس طریقے سے ہر زمانے میں تمام لوگوں نے اس کی روایت کی۔
حدیثوں کو روایت کرنے کا معاملہ اس کے برعکس رہا۔ اللہ کے رسول ﷺ سے حدیث کو کوئی ایک یا دو صحابی ہی نے روایت کی۔ پھر ان سے سن کرروایت کرنے والے تابعی بھی ایک یا دو ہی رہے۔ پھر ان سے حدیث روایت کرنے والے تبع تابعین بھی ایک یا دو سے بڑھ کر نہیں۔ بلکہ حدیثوں کو کتابی شکل میں جمع کرنے کے زمانے تک بھی ایک راوی سے ایک راوی کی بنیاد پر ہی حدیثیں بیان کی جارہی تھیں۔
چنانچہ قرآن کریم کے معاملے میں ذرہ برابر شک وشبہ نہیں ۔البتہ حدیث کی روایت کے معاملے میں ایسی صورت نہیں ہے۔
اس کے باوجود ہم، صحابہ کرام ؓ کے معتبر ہونے کی بنیاد پر ان کی روایت کردہ حدیثوں کو قبول کرکے عمل کرتے ہیں۔ نیز حدیثیں جب تک قرآنی تعلیمات سے نہ ٹکرائیں، اس وقت تک ان میں شک نہ کی جائے۔ البتہ کوئی حدیث قرآنی آیت سے براہ راست ٹکرائے ، اس موقع پر یہ فیصلہ کرکےکہ اس روایت میں کہیں غلطی ہوئی ہے، تسامح ہوگیا ہے، قرآنی تعلیمات کو ترجیح دی جائے گی۔
ہوسکتاہے کہ یہ تسامح، روایت کرنے والے صحابی نے تھوڑا بہت سننے کی وجہ سے ہو، یا سمجھنے میں غلطی کی وجہ سے ہو ،یا یہ تسامح صحابی کے بعد آنے والےتابعی میں ہو، یا یہ غلطی ان کے بعد آنے والوں میں سرزد ہوئی ہو۔
کوئی حدیث قرآنی تعلیمات سے میل نہ کھاتی ہو ۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ بظاہر قرآنی آیات سے ٹکراتی رہی ہے، اس کی تاویل بھی نہ ہو ،اور اس حدیث اور قرآن کے درمیان تطبیق ممکن ہی نہ ہو، تو ایسے شاذ ونادر موقع پر قرآنی تعلیمات کا انکار نہ کیاجائے، بلکہ اس کو قبول کرتے ہوئے اس روایت ِ حدیث کاانکار کردیاجائے کہ وہ حدیث نہیں ہوسکتی۔
حدیث کی روایت کرنے والے اگر چہ قابل بھروسا اور ثقہ ہوں ،پھر بھی اگر ان کی روایت قرآنی تعلیم کے خلاف ہو،تو ہم کو اس حدیث سے منہ پھیر لینا چاہیے ۔اور یہ فیصلہ بھی ہم اپنی طرف سے نہیں کرتے، بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہی کیا۔
(مسند احمد بن حنبل :3:497 حدیث نمبر:16102)
ابو اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم میری طرف سے (کوئی ایک) حدیث سنو، جس کو تمہارا دل مانتاہو، اورجس کے لیے تمہارے رونگٹے اورجلد (یعنی احساسات) عاجزی اختیار کرے، اور دیکھتے ہو کہ وہ (حدیث) تم سے قریب ہے ،تو (جان لو کہ) اس (حدیث کے کہنے) کے لیے میں ہی تم سے زیادہ حق دار ہوں ۔اور جب تم میری جانب سے حدیث سنو، جس کا تمہارا دل انکار کرے، اور تمہارے رونگٹے اور جلد نفرت کرے ،اوردیکھتے ہو کہ وہ (حدیث) تم سے دور ہے، تو میں تم سے زیادہ اس سے دور ہوں۔ (احمد: 15478)
اللہ کے نبی ﷺ نے یہاں تک وضاحت کردی کہ آپ ﷺ کی طرف منسوب حدیثوں میں جھوٹ کی آمیزش ہوگی، اور اسے کس طرح پہچانا جائے۔
کسی حدیث کو سنتے وقت ، مناسب وجوہات کی بنا پر کسی کا دل گواہی دے کہ ایسا اللہ کے نبی ﷺ کہے ہوں گے، تو اس قسم کی حدیثیں کہنے کے لیے آپ ﷺ حقدار ہیں۔ اسی طرح جن حدیثوں کو سنتے وقت ہی کوئی شخص چند اسباب کی باعث اس سے نفرت اور دوری اختیار کرے ، اور اس کا ضمیر کہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبیﷺ اس طرح نہیں فرمائے ہوں گے، تو وہ حدیث آپ ﷺ کا قول نہیں ہوسکتا اور آپ ﷺ کا فعل بھی نہیں ہوسکتا یہی وہ طریقہ کار اور طرز عمل ہے جسے آپ ﷺ نے اوپر کی حدیث میں اچھی طرح سمجھادیا۔
اس کے علاوہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
(الفرقان25 :73)
اندھے اور بہرے ہوکر گرنے کا مطلب کیا ہے؟ کسی آیت پر طائرانہ نظر دوڑاتے وقت جب وہ کئی دوسری آیتوں کے خلاف معلوم ہو ،اور اسلام کی بنیادی باتوں اور اصولوں سے ٹکرا رہی ہو، تو ٹکرانے دو! اس طرح جانتے ہوئے دو متضاد اورمتصادم باتوں کو بھی ماننا ہی اندھے اور بہرے ہوکر گرنا ہے۔
کوئی آیت دیگر کئی آیتوں سے ٹکرائے، تو اس آیت کو دیگر آیتوں سے ٹکرائے بغیر، نیز اسلام کی بنیادی باتوں اور اصولوں کی خلاف ورزی سے بچتے ہوئے معنی بیان کرنے والے ہی اندھے اوربہرے ہوکر گرنے والے نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے:
(فصلت41 : 40-42)
غرض یہ آیتیں ڈنکے کی چوٹ اور کھلم کھلا کہتی ہیں کہ قرآن کریم میں نہ تضاد پایاجاتاہے اور نہ کوئی غلطی۔ اس لیے ہم کو اس پر یقین رکھنا چاہیے۔ اس کے برعکس ڈھلمل یقین نہیں ہوناچاہیے کہ قرآن میں تضاد بیانی اور غلطیاں بھی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کوئی حدیث اگر یہ کہے کہ قرآن میں غلطی ہے ،تو وہ حدیث نہیں ہے۔ اور یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ کے نبی ﷺ اس طرح ہرگز نہیں کہے ہوں گے۔
فن حدیث میں‘‘شاذ’’ کے نام سے ایک قسم پائی جاتی ہے، جسے جادو کے ماننے والے لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں ۔وہ یہ کہ سلسلہ سند کے تمام راوی ثقہ اور قابل بھروسا ہونے کے باوجود اس کو قابل حجت نہیں مانا جائے گا۔ٍ
فرض کیجئے کہ ایک محدث سے پانچ شاگرد حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ جن میں سے تین شاگرد ایک طرح سے روایت کریں، جب کہ دوشاگرد دوسری طرح سے روایت کریں، اور پانچوں شاگرد بھی قابل اعتماد ہونے میں برابر درجے کے ہوں،تو دوشاگردوں کی روایت کو رد کردیاجائےگا۔ اسی کو شاذ کہتے ہیں۔ اور تین شاگردوں کی روایت کو قبول کرلیاجائے گا ۔کیونکہ اس میں غلطی کا امکان نہیں ہوسکتا۔
فن حدیث کے اس اصول کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں، اور جادو کو ماننے والا گروہ بھی تسلیم کرتاہے۔
کیا شاذ کہہ کر حدیثوں کا انکار کیاجاسکتاہے، جب کہ ان کو بھی قابل بھروسا راویوں نے ہی روایت کیا ہے؟ تو پھر کیا شاذ حدیثوں کا انکار سے قابل اعتماد اور ثقہ راویوں کا انکار لازم نہیں آتا؟ (ہاں! کیوں نہیں)۔
مگر جادو کے ماننے والے گروہ کی تضاد بیانی پر افسوس ہے۔ کیوں کہ ایک طرف شاذ قسم کی روایتوں کے انکار کا دعوا کرتاہے ،تو دوسری طرف شاذ قسم کی روایت کا انکار اور رد کرنے کے بجائے ہم کو گمراہ ہونے کا طعنہ دے رہاہے۔
گویا ہمار ا یہ کہنا کہ تمام صحابہ کی روایت کردہ قرآن کریم کے خلاف وارد حدیثوں کا انکار کیاجائے، ان کی نظروں میں گمراہی ہے ۔مگر چار ثقہ راویوں کے خلاف تین ثقہ راویوں کی روایت کا انکار کرنا ان کی نظروں میں ہدایت ہے۔
جب ایک ثقہ راوی، کئی ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف کوئی بات بتائے، تو ہم اس کو‘‘ شاذ’’ ہونے کی بنا پر اس کا انکار کردیتے ہیں۔ مگر جادو کو ماننے والے گروہوں کے موقف کے مطابق شاذ قسم کی روایت کرنے والے راوی کیا جھوٹے ہوسکتے ہیں؟ اگرایسی بات نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ حدیث(شاذ روایت) ثابت شدہ اور صحیح ہے۔
اب کیا یہ لوگ اکیلے ثابت شدہ صحیح حدیثوں کا انکار کریں گے؟ دیکھیے کہ شیطان ان کی گمراہیوں کو کس طرح خوبصورت بناکر مزین کرکے پیش کررہاہے۔
مثال کے لیے ذیل میں چند حدیثیں پیش خدمت ہیں، ملاحظہ فرمایئے:
قرآن کریم سے ٹکرانے والی چند حدیثیں
عربی متن (بخاری، حدیث نمبر: 3359)
ترجمہ: ام شریکؓ نے خبر دی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا ،اور فرمایا: اس نے ابراہیم ؑ کی آگ پر پھونکا تھا۔ (بخاری، حدیث نمبر: 3359)
اس حدیث میں صرف یہ بات ہوتی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا، تو ہم کو رسول کے حکم پر عمل کرناچاہیے۔ کیونکہ یہ کسی قرآنی آیت کے خلاف نہیں ہے۔
لیکن مذکورہ حدیث میں چھپکلی کو کیوں مارنا چاہیے؟ اس کی وجہ بتلائی گئی ہے کہ جب نبی ابراہیم علیہ السلام کو بھیانک آگ کےاَلاَوْ میں ڈالاگیا ، تو اس وقت صرف چھپکلی نے اپنی منہ سے زور سے ہوا نکالی اور پھونک مارا ۔تاکہ آگ مزید بھڑکے اورا براہیمؑ کو خوب جلائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ وجہ جو بتلائی جا رہی ہے صحیح ہے؟ اس پر ہم کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
جب ہم اس موضوع پر غور کرتے ہیں، تو معلوم ہوتاہے کہ یہ بات قرآن کریم کی کئی آیتوں اوردینِ اسلام کے اصول وعقائد کے بھی خلاف واقع ہوئی ہے۔
چھپکلی ایک چھوٹی سی جاندار ہے۔ اس کی پھونک مارکر آگ تیز کرنے، بھڑکانے اور بڑھانےکی بات پر غور کیجئے ۔کیا واقعی یہ بات، علم وآگاہی سےمکمل واقف نبی ﷺ کی بتائی ہوئی بات ہوسکتی ہے؟ یا پھر علم سےکورے، نادان اور انجان کی بات ہوسکتی ہے۔
چھپکلی ایک چھوٹی سی جاندار ہے، جو اگر بڑے آگ کے قریب جائے تو وہ خود جل کر ختم ہوجائے گی۔ کیا یہ بات نبی ﷺ کو معلوم نہیں؟ یہ پہلا نکتہ ہے۔
دوسرا نکتہ: بعض جانداروں نے انبیاءکرام علیہم السلام کی مدد کی ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید کہتاہے کہ نبی سلیمانؑ کے لیے ہدہد نامی پرندے نے مدد کی ۔ دیکھئے: سورۃ النمل27:آیت نمبرآیت نمبر20۔
اس لیے اس طرح کی حدیثیں ہم قبول کریں گے۔
(آل عمران3 :آیت نمبر 83) - (الرعد13:آیت نمبر 15) - (الحج22:آیت نمبر 18)
ان آیتوں کے خلاف یہ حدیث کہتی ہے کہ چھپکلی نے اللہ کی تابعداری نہیں کی ،فرماں برداری سے منہ پھیرلیا ،اور مخالفت کی راہ اختیار کی۔
تیسرا نکتہ: نبی ابراہیم علیہ السلام نے عقیدہ توحید کی دعوت دی ،اور شرک اوربت پرستی سے روکا ۔آخر کار ظالموں نے ان کو بہت بڑی آگ کےالاومیں ڈال دیا۔ یہ حدیث کہتی ہے کہ چھپکلی نے بھی ان کو اپنا دشمن سمجھا ۔ ان کو آگ میں پھینکے جانے پر خوش ہوا ،اور آگے بڑھ کر آگ بھڑکانے کے لیے پھونک مارا۔
اگر اس کو صحیح مانیں ،تو ہم کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جانداروں میں بھی کافر پائے جاتے ہیں۔اور اس طرح کی باتوں کو ماننے سے مذکورہ قرآنی آیتوں کا انکار لازم آتاہے۔
چوتھا نکتہ: یہ روایت اسلام کے ایک بنیادی اصول سے ٹکراتی ہے۔ وہ یہ کہ گنہ گار کو ہی سزا دی جائے گی۔ گنہ گار کے بدلے میں کسی بے گناہ کو سزا نہیں دی جائے گی۔ جیسا کہ ذیل کی آیتوں سے معلوم کرسکتے ہیں:
(الانعام6:آیت نمبر 164) - (بنی اسرائیل17:آیت نمبر 15) - (فاطر35:آیت نمبر 18) -(الزمر39:آیت نمبر 7) -(النجم53:آیت نمبر36- 39 )
ایک کا بوجھ دوسرا کوئی نہیں اٹھائے گا۔ یہی وہ اہم اصول اور عقیدہ ہے جو دینِ اسلام کو عیسائی مذہب سے الگ کرکے دکھاتاہے۔
عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ ابوالبشر آدم علیہ السلام کے گناہ کرنے کی وجہ سے ان کی ساری نسل گنہ گار ہی پیدا ہوتی ہے۔ مگر ہم مذکورہ آیتوں کو بنیاد بنا کر ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ آدم سے گناہ سرزد ہونے پر، اس کا بوجھ ان کی نسل کیوں اٹھائے گی؟
عیسائیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ تمام لوگ گنہ گار پیدا ہوتے ہیں۔ اس پیدائشی گناہ کو ڈھوتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ کو قربان کرکے لوگوں کو چھٹکارا دلایا ہے۔ ان کے اس عقیدے کے رد میں بھی ہم مذکورہ آیتوں کو دلیل بناکر ان سے کئی سوالات کرتے ہیں۔
چلیے! ایک بات سمجھانے کے لیے ہم نے مانا کہ چھپکلی نے نبی ابراہیم ؑ کے خلاف پھونک مارکر آگ بھڑکائی۔
اگر یہ واقعہ سچ ہے ،حقیقت پر مبنی ہے ،تو جس چھپکلی نے نبی ابراہیم ؑ کے خلاف پھونک مارا ،صرف اسی کو مارا جائے۔ اس کے سوا کسی اور کو نہ مارا جائے۔ نبی ابراہیمؑ کا زمانہ آج سے کئی ہزار سال پہلے کا ہے۔ چنانچہ جس چھپکلی نے ان کے خلاف پھونک مارا، وہ تو مرکر کئی ہزار سال گزرگئے۔ پھر بھی اس کی نسل درنسل چلی آنے والی چھکلیوں کو مارڈالنے کے لیے کیا یہ سبب درست ہے؟!
نیز نبی ابراہیم ؑ کو آگ کے الاو میں ڈالتے وقت دنیا میں موجود ساری چھپکلیاں اس جگہ آنہیں سکتیں۔ اس کے باوجود ان چھپکلیوں اوران کی نسلوں کو کیوں مارا جائے؟
کیا نبی ﷺ قرآنی تعلیمات کے خلاف اس طرح کہے ہوں گے؟ جب ایک عام آدمی کسی ایک کی غلطی پر کسی دوسرے کو سزا نہیں دیتا، تو علم ودانش مندی کی چوٹی پر واقع، اور عدل وانصاف کے پیکر اللہ کے نبی کیا اس طرح کی بات کہے ہوں گے؟
چنانچہ چھپکلی کو مارنے کے لیے جو سبب اور علت بتائی ہے چونکہ وہ قرآن سے ٹکرارہی ہے اور حقیقت حال کے خلاف بھی ہے۔ اس لیے ہم کو اس نتیجے پر پہنچنا چاہیے کہ یہ بات نبی ﷺ کی بتائی ہوئی نہیں ہوسکتی۔ اور یہ روایت رسول ﷺ کا فرمان نہیں ہوسکتا۔
اس قسم روایتوں کے معاملے میں ہم کو ایسا ہی فیصلہ کرنا چاہیے، خواہ وہ کسی بھی مستند کتاب میں ہو، اور وہ کتنی ہی کتب حدیث میں درج ہی کیو ں نہ ہو۔ اگر آپ اس فیصلے کا انکار کرتے ہیں ،تو ممکن ہے کہ جن آیتوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا، آپ ان کا اور اسلام کی بنیادی اور اصول کا انکار کردیں۔ یعنی قرآنی آیتوں سے ٹکرانے والی حدیثوں کا انکار نہ کرنے سے آیات قرآنی کا انکار لازم آتاہے۔ اس لیے کوئی بھی شخص دومتضاد باتوں کو نہیں مانتا۔
حدیثوں کو سمجھنے کا صحیح راستہ یہی ہے۔
کیا نبی بننے سے پہلے معراج ہوا؟
بہت سی صحیح ثابت شدہ حدیثوں کے خلاف ذیل کی حدیث ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُنَا عَنْ " لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الكَعْبَةِ: جَاءَهُ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ، قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ، وَهُوَ نَائِمٌ فِي مَسْجِدِ الحَرَامِ، فَقَالَ أَوَّلُهُمْ: أَيُّهُمْ هُوَ؟ فَقَالَ أَوْسَطُهُمْ: هُوَ خَيْرُهُمْ، وَقَالَ آخِرُهُمْ: خُذُوا خَيْرَهُمْ. فَكَانَتْ تِلْكَ، فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّى جَاءُوا لَيْلَةً أُخْرَى فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمَةٌ عَيْنَاهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ، وَكَذَلِكَ الأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلاَ تَنَامُ قُلُوبُهُمْ، فَتَوَلَّاهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ "
شریک بن عبد اللہ بن ابی نمرؒ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس ؓ بن مالک سے سنا وہ ہم کو کعبہ کی مسجد (مسجد حرام) سے نبی ﷺ کی معراج کا واقعہ بیان کررہے تھے کہ (معراج سے پہلے) تین فرشتے آئے۔ یہ آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے ، جب کہ آپ مسجدِ حرام میں دو آدمیوں(حضرت حمزہ اورجعفر بن ابی طالب) کے درمیان سورہے تھے۔
ایک فرشتے نے پوچھا: ان میں وہ کون ہیں(جن کو آسمان پر لے جانے کا حکم ہے)؟ دوسرے نے جواب دیا: وہ درمیان والے ہیں۔ وہی سب سے بہتر ہیں۔ تو تیسرے نے کہا: پھر جو سب سے بہتر ہیں، انہیں(آسمانی سفر کے لیے) لے آؤ ۔ اس رات صرف اتنا ہی واقعہ ہوکر رہ گیا۔
پھر آپ نے انہیں نہیں دیکھا۔ لیکن فرشتے ایک اور رات میں آئے جب کہ آپ (نیند کی حالت میں) دل کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ آپ کی آنکھیں سوتی تھیں۔ پر دل نہیں سوتا تھا۔ اورتمام انبیاء کی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ جب ان کی آنکھیں سوتی ہیں تو دل اس وقت بھی بیدار ہوتاہے۔
غرض کہ پھر جبریل ؑ نے آپ کو اپنے ساتھ لیا اور آسمان پر چڑھالے گئے۔ (بخاری:3570)
بخاری کی درج کردہ اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ محمد ﷺکو آسمان اٹھالے جانے کا واقعہ آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے یعنی آپ کے نبی بننے سے پہلے ہی پیش آیا۔
مگر بہت ساری حدیثیں کہتی ہیں کہ معراج کا یہ واقعہ آپ کے نبی بننے کے بعد ہی پیش آیا۔ ثابت شدہ کئی حدیثوں سے پتہ چلتاہے کہ محمد ﷺ نے جب پہلے پہل جبریل علیہ السلام کو وحی لے آتے دیکھا تو ڈر کر کانپنے لگے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ کو ہر طرح تسلی دی اور خوف کو دور کیا۔
اللہ کے نبی محمد ﷺ کو اگر نبوت ورسالت سے پہلے ہی جبرئیل کے ذریعہ معراج پر لے جایا گیا۔ تو نبوت کے وقت جبرئیل کی پہلی آمد پر آپ نہ پریشان ہوتے اور نہ خوف سے کانپتے۔
بہرحال بخاری کی یہ شاذ روایت دیگر صحیح حدیثوں سے ٹکرارہی ہے۔
اگر ہم اس شاذ روایت کو صحیح مانیں، تو معراج کے متعلق آنے والی تمام حدیثوں کا انکار کرنا پڑے گا۔ نیز وحی کی ابتدا کس طرح ہوئی؟ اس کی بابت آنے والی تمام حدیثوں کا بھی انکار لازم آئے گا۔
اس لیے یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ مذکورہ حدیث بخاری میں درج ہونے کے باوجود صحیح نہیں بلکہ وہ غلط روایت ہے۔ یہ فیصلہ ہی حدیثوں کا تعارض کے بغیر سمجھنے کا صحیح طریقہ ہے۔
کیا ہل، پھالی وغیرہ باعث ذلت ہے؟
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ الحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الأَلْهَانِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ البَاهِلِيِّ، قَالَ: وَرَأَى سِكَّةً وَشَيْئًا مِنْ آلَةِ الحَرْثِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لاَ يَدْخُلُ هَذَا بَيْتَ قَوْمٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الذُّلَّ»
محمد بن زیاد الہانی ؒ نے بیان کیا: ابوامامہ باہلی ؓ کی نظر (ایک گھر میں) ہل، پھالی اور کھیتی کے بعض دوسرے آلات پر پڑی۔ توآپ نے بیان کیا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: جس قوم کے گھر میں یہ چیز داخل ہوجاتی ہے، تو اللہ اس (گھر) میں ذلت کو داخل کیے بغیر نہیں رہتا۔ (بخاری:2321)
اس حدیث میں نبی کی طرف منسوب کرکے یہ کہا گیا ہے کہ جس گھر میں ہل، پھالی، پھالا، پاوڑا، کدال غرض کھیتی باڑی کے آلات واوزار رکھے ہوں، تو وہاں رسوائی ، بے عزتی اور ذلت وخواری آئے گی۔
ہم کو غور کرناچاہیے کہ کیا اللہ کے نبی ﷺ اس طرح کہے ہوں گے؟ اس لیے کہ عام طور پر کھیتی باڑی اور زراعت ہی انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ضرورت اور نبض حیات ہے۔ لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔
کسی ملک میں جہاں صرف مسلمان رہتے ہوں، اس حدیث کو صحیح مان کر ہل ، پھالی وغیرہ جتنے بھی آلاتِ زراعت ہیں سب کو اٹھا کر پھینک دیں، اور زراعت اور کاشت کاری سے ہاتھ دھو بیٹھیں، تو اس ملک کی حالت کیا ہوگی؟
کیا اللہ کے نبی ﷺ ایسی رہنمائی کریں گے جس سے دنیا کے لوگ ہلاکت کے گڑھے میں گرجائیں؟
آج کے دور میں بھی جب کہ برآمد(ایکسپورٹ) اور درآمد( امپورٹ) کی بڑی سہولیات مہیا ہیں، کھیتی باڑی کو چھوڑ کر اورکاشت کاری سے منہ پھیر کر تمام غذائی اشیاء کو بیرونی ممالک سے درآمد کریں، تو پھر وہ ملک معاشی بحران کا شکار ہوکر تباہ ہوجائے گا۔
اس سے پہلے کے دور میں جب برآمد اور درآمد کی سہولت نہیں تھی ، اگر زراعت سے سر منہ انحراف کرتے تو اس سے بھی زیادہ براانجام ہوتا۔
نبی ﷺ نہ صرف روحانی پیشوا تھے بلکہ ملک پر حکومت چلانے والے سیاسی رہنما اور حاکم بھی تھے۔ جب ایسی بات ہے تو کیا آپ ﷺ زراعت کے خلاف ایسا ایک موقف اپنائے ہوں گے؟
قرآن کریم اس زراعت کے سلسلے میں جابجا کہتا ہے ۔ مثال کے لیے ذیل میں حوالے جات دیے گئے ہیں، ملاحظہ فرمایئے: البقرۃ2:آیت نمبر:22، البقرۃ2:آیت نمبر164، الانعام6:آیت نمبر99، الانعام6:آیت نمبر141، الاعراف7:آیت نمبر 57 ، یوسف12:آیت نمبر47، الرعد13:آیت نمبر4، ابراھیم14:آیت نمبر24 ، ابراھیم 14:آیت نمبر32، الحجر15:آیت نمبر 19، النحل16:آیت نمبر65، الکھف18:آیت نمبر32، طٰہٰ20:آیت نمبر53،54، الحج22:آیت نمبر5، الحج22:آیت نمبر63، المومنون23:آیت نمبر20، الشعراء26:آیت نمبر 7، النمل27:آیت نمبر60، العنکبوت29:آیت نمبر68، الروم30:آیت نمبر24، لقمان31:آیت نمبر10، السجدہ32:آیت نمبر27، فاطر35:آیت نمبر27، یٰس36:آیت نمبر36، الزمر39:آیت نمبر21، فصلت41:آیت نمبر39، الزخرف43:آیت نمبر11، الجاثیہ45:آیت نمبر5، الفتح48:آیت نمبر29، قٓ50:آیت نمبر7،9، النبأ78:آیت نمبر14-16، عبس80:آیت نمبر27-32۔
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ زراعت کی فضیلت ، ضرورت اور اہمیت واضح کرتے ہوئے اس کو اپنا فضل وکرم قرار دیتاہے۔
یادرہے کہ نبی ﷺ قرآن کریم کی وضاحت وتفسیر کے لیے بھیجے گئے، تو کیا آپ ﷺ ان مذکورہ آیتوں کے خلاف کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات واوزار کو حقارت کی نظر سے دیکھیں گے؟ نفرت کے ساتھ دور کردیں گے؟ ان کو رسوائی کا سبب اور باعث ذلت گردانیں گے؟ اگر ہم اس کے بارے میں غوروفکر کریں گے، تو معلوم کرسکتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ ایسی بات ہرگز نہیں کہے ہوں گے۔ یہ آپ کا فرمان نہیں ہوسکتا۔
اس کے علاوہ خود اللہ کے نبی ﷺ نے زراعت کی فضیلت بیان کی ہے ،جس کے متعلق کئی حدیثیں ہیں۔ مثال کے طورپر ذیل میں ایک دو حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے
-2320حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ المُبَارَكِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ» (البخاری)
انس بن مالکؓ نے حدیث بیان کی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ‘‘کوئی بھی مسلم جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیت میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھائیں گے وہ اس کی طرف سے صدقہ ہوگا۔ (بخاری:2320)
-2325حَدَّثَنَا الحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَتِ الأَنْصَارُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْسِمْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا النَّخِيلَ، قَالَ: «لاَ» فَقَالُوا: تَكْفُونَا المَئُونَةَ، وَنَشْرَكْكُمْ فِي الثَّمَرَةِ، قَالُوا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (البخاری)
ابوہریرہؓ نے بیان کی کہ (مدینہ کے )انصاری صحابہ نے نبی ﷺ سے کہا: آپ ہم میں اور (مکے سے ہجرت کرکے آئے ہوئے) ہمارے بھائیوں میں کھجور کے ان درختوں کو تقسیم کردیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا تو یہ سن کر انصار (ان مہاجرین سے )کہنے لگے:(ہمارے باغات میں) ہماری جگہ تم محنت اور رکھ والی کرو۔ اس کی آمدنی میں ہم تمہارے ساتھ شریک رہیں گے۔ (اس پر ) انہوں نے کہا: ہم نے سنا اور کہنا مانا۔ (بخاری: 2325)
ہل، پھالی وغیرہ کو باعث ذلت قرار دینے والی حدیث انسانی نسل کو تباہی کی طرف رہنمائی کرتی ہے، بہت سی قرآنی آیات کے خلاف واقع ہوئی ہے۔ اور نبی ﷺ کے کئی فرامین کے خلاف بھی ہے۔ اس لیے ہمارا یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ یہ اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان نہیں ہوسکتا۔
اگر کوئی اس طرح کا فیصلہ نہ کرے، بلکہ مذکورہ ہل، پھالی کی حدیث کو صحیح مانے، تو وہ کئی آیتوں کو انکار کرنے کی حالت پیدا ہوجائے گی۔ کیونکہ کوئی بھی شخص دو متضاد باتوں کو مان نہیں سکتا۔
کیا دنیا کو پیداکرنے سات دن ہوئے؟
ذیل میں ایک اورحدیث ملاحظہ فرمایئے:
-7231حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَافِعٍ، مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَقَالَ: «خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَخَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فِي آخِرِ الْخَلْقِ، فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ»(مسلم(
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے میر ا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہفتہ کے دن پیداکیا، اس میں اتوار کے دن پہاڑوں کو پیداکیا، پیر کے دن درخت کو پیدا کیا، دھاتوں کو منگل کے دن پیدا کیا، روشنی کو بدھ(چہارشنبہ) کے دن پیدا کیا، جمعرات کے دن زمین میں جاندار پھیلائے ، اور جمعہ کے دن عصر کے بعد آخری گھڑی میں یعنی عصر سے لے کر رات تک آدم علیہ السلام کو آخری مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔
(مسلم:7231)
حدیث کی کتاب مسلم میں یہ روایت پائی جاتی ہے جس میں ہفتے کے سات دنوں میں سات قسم کی مخلوقات پیدا کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ غرض اس دنیا کو پیدا کرنے کل سات دن ہوئے۔
مگر قرآن کریم کی آیتیں بتلارہی ہیں کہ دنیا کی تخلیق سات دنوں میں نہیں، بلکہ صرف چھ دن میں ہوگئی۔
(الاعراف7:آیت نمبر54) - (یونس10:آیت نمبر3) - (ھود11:آیت نمبر 7) - (الفرقان25:آیت نمبر 59) - (السجدہ32:آیت نمبر 4) - (قٓ50:آیت نمبر 38) -(الحدید57:آیت نمبر4)
اللہ تعالیٰ ان آیتوں میں کہتاہے کہ دنیا کو چھ دنوں میں پیدا کیا گیا جب کہ مذکورہ حدیث کہتی ہے کہ دنیا کو سات دنوں میں پید اکیا گیا۔
اس کےعلاوہ اس میں جوباتیں بتائی گئی ہیں وہ بھی مذکورہ آیات ِ قرآنی کے خلاف واقع ہوئی ہیں۔
یہ حدیث چونکہ قرآن کریم سے ٹکرارہی ہے، اور اللہ کے نبی ﷺ جو قرآن کی وضاحت کرنے کے لیے تشریف لائے تھے، قرآن کے خلاف اس طرح ہرگز نہیں کہے ہوں گے۔ اس لیے ہم کو فیصلہ کرناچاہیے کہ یہ حدیث صحیح نہیں، بلکہ گھڑی ہوئی جھوٹی حدیث ہے۔ اگر چہ اس کو امام مسلم نے اپنی حدیث کتاب صحیح مسلم میں نقل کیا ہے۔
یہاں پر آپ یہ نہ سمجھیں کہ صرف ہم اس قسم کے نتیجے پر پہنچے ہیں۔ بلکہ بہترین عالم ِ دین شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے بھی کہا تھا کہ یہ حدیث قابل قبول نہیں۔ آپ کی لکھی ہوئی کتاب "فتاویٰ " میں ملاحظہ ہو:
وَ لَوْ کَانَ أوَّلُ الْخَلْقِ یَوْمَ السَّبْتِ وَآخِرُہُ یَوْمَ الْجُمْعَۃِ لَکَانَ قَدْ خُلِقَ فِیْ الأیّامِ السَّبْعَۃِ وَھُوَ خِلَافُ مَا أخْبَرَ بِہِ الْقُرْآنُ مَعَ أَنَّ حُذَّاقَ أھْلِ الْحَدِیْثِ یُثْبِتُونَ عِلَّۃَ ھَذَا الْحَدِیْثِ مِنْ غَیْرِ ھَذِہِ الْجِھَۃ
ترجمہ: اگر پیدائش کی ابتدا ہفتے کے دن کو ہوا ،اور اس کی اختتام جمعہ کے دن ہوا، تو (دنیا کی) پیدائش پر سات دنوں میں ہوئی۔ حالانکہ قرآن نے جس کی خبر دی ہے یہ اس کے خلاف ہے۔ فن حدیث کے ائمہ نے اس کے علاوہ، اس کے حدیث کے متعلق باریک نقص کا بھی ذکر کیا ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہؒ)
چھ دنوں میں دنیا کے پیدا کیے جانے کی بابت آنے والی قرآنی آیتوں کا اگر ہم انکار کردیں، تب چل کر ہی سات دنوں میں دنیا کی تخلیق والی حدیث قبول کرسکتے ہیں۔
اسی وجہ سے ہم اس حدیث کا انکار کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ایسی بات کبھی نہیں کہے ہوں گے۔
اسی طرح کی ایک اور حدیث ملاحظہ ہو:
کیا نبی ﷺ اجنبی عورت سے قریب رہے؟
-7001حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ، وَجَعَلَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ۔ (البخاری)
-7002قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا البَحْرِ، مُلُوكًا عَلَى الأَسِرَّةِ، أَوْ: مِثْلَ المُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ " - شَكَّ إِسْحَاقُ - قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَدَعَا لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ» كَمَا قَالَ فِي الأُولَى، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: «أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ» فَرَكِبَتِ البَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ البَحْرِ، فَهَلَكَتْ۔ (البخاری)
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہ ہم کو امام مالک نے خبردی، انہیں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اورانہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحانؓ کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ وہ حضرت عبادہ بن صإمت کے نکاح میں تھیں، ایک دن آپ ان کے یہاں گئے تو انہوں نے آپ کے سامنے کھانے کی چیز پیش کی اور آپ کاسر جھاڑنے لگیں۔ اس عرصہ میں آنحضرت ﷺ سوگئے، پھر بیدار ہوئے توآپ مسکر ارہے تھے۔ (بخاری:7001)
انہوں نے کہا کہ میں نے اس پر پوچھا یارسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آ پ نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اللہ کے راستے میں غزوہ کرتے ہوئے پیش کئے گئے اس دریا کی پشت پر، وہ اس طرح سوار ہیں جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں۔ اسحاق کو شک تھا( حدیث کے الفاظ‘‘ملوکاً علی الاسرۃ’’ تھے ‘‘مثل الملوک علی الاسرۃ’’) انہوں نے کہا میں نے اس پر عرض کیا یارسول اللہ !دعاکیجئے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ان کے لیے دعا کی۔ پھر آپ نے سرمبارک رکھا (اور سوگئے) پھر بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اللہ کے راستے میں غزوہ کرتے پیش کئے گئے۔ جس طرح آنحضرت ﷺ نے پہلی مرتبہ فرمایا تھا۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! اللہ سے دعا کردیں کہ مجھے بھی ان میں کردے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم سب سے پہلے لوگوں میں ہوںگی۔ چنانچہ ام حرام ؓ معاویہؓ کے زمانے میں سفر پرگئیں اور جب سمندر سے باہر آئیں، تو سواری سے گرکر شہید ہوگئیں۔ (بخاری: 7002)
حدیث کس بات کی خبر دے رہی ہے؟ کیا نبی ﷺ کا ام حرام سے کوئی خونی رشتہ ہے؟ یا پھر وہ رضاعی بہن ہیں؟ مگر یہ حدیث کہتی ہے کہ نبی ﷺ اس اجنبی عورت کے گھر گئے اور وہ بھی صرف ایک بار نہیں، بلکہ بارہاتشریف لے جاتے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ عورت نبی ﷺ کے سرجھاڑتی، جیوں نکالتی اور بال صاف کرتی تھیں۔ واضح رہے کہ یہ کام اسی وقت ہوسکتاہے جب کہ وہ ایک دوسرے کو چھونے کے لائق قریب ہوں۔
اس حدیث میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نبی ﷺ اپنا سر نیچے رکھا اور سوگئے اور یہ بھی کہاگیا کہ نبی ﷺ جب بھی بیدار ہوکر مسکرانے لگے تو وہ عورت برابر وجہ دریافت کرتی ہے۔ چنانچہ اس میں یہ مفہوم بھی پایا جاتاہے کہ نبی ﷺ سونے کے بعد وہ عورت وہاں سے دور نہیں گئیں، بلکہ قریب میں وہیں بیٹھ کر دیکھتی رہتی تھیں۔ آپ کے حرکات وسکنات کو نوٹ کررہی تھیں۔
کیا نبی ﷺاس طرح کیے ہوں گے؟ صحیح حدیثیں ہمیں بتلاتی ہیں آپ ﷺ اجنبی عورت کے معاملے میں کس طرح دوررہا کرتے تھے۔
اللہ کے نبی ﷺ جب مردوں سے عہد واقرار (بیعت) لیتے، تو آپ ﷺ ان کے ہاتھ پکڑ کر بیعت لیتے، مگر جب عورتوں سے عہد واقرار لیتے تو عورتوں کے ہاتھ نہیں چھوتے۔(دیکھیےبخاری:7214)
نبی ﷺ نے حکم دیا ہے کہ مرد کو کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ نیز عورت کو بھی چاہیے کہ وہ شوہر کے بھائی (یعنی جیٹ، دیور) جیسے رشتہ دار کے ساتھ اکیلی نہ رہے۔ (بخاری:5232) کیا نبی ﷺ خود اس حکم کے خلاف ورزی کریں گے؟
مذکورہ واقعہ کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتاہے کہ قرآن مجید جس پاکیزہ زندگی کی تعلیم اور اصول پیش کرتاہے۔ نعوذ باللہ نبی ﷺ نے اس کو قابلِ اعتناء نہیں سمجھا اور جان بوجھ کر حکم الٰہی کی نافرمانی کی۔
(النور24:آیت نمبر 30)
نگاہ نیچی کررکھنے کا حکم دینے والے نبی ﷺ کیا ایک اجنبی عورت سے اتنے قریب ہوسکتے ہیں کہ وہ آپ کے سر جھاڑنے لگیں اور بال صاف کرنے لگیں؟ اور کیا نبی ﷺ ایک اجنبی عورت کے گھر میں اس کی روبرو لیٹ کر سوئے ہوں گے؟
یہودی لوگ اللہ کے نبی ﷺ پر کئی طرح بے بنیاد الزام لگا کر اسلام کی ترقی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہے تھے۔ اگر نبی ﷺ اجنبی عورت کے گھر جاتے اور وہاں آرام کرتے تو وہ لوگ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ہی نبی ﷺ کو خوب بدنام کرتے اور اسلام کی ترقی کو ہر طرح روکتے۔
اسلام کا کوئی کٹر دشمن بھی نبی ﷺ کا ام حرام کے گھر جانے کے متعلق تبصرہ نہیں کیا۔ اس سلسلے میں کوئی روایت بھی نہیں ملتی۔ اسی سے ہم کو اور بھی یقین بڑھتاہے کہ ایسا ایک واقعہ ہوا ہی نہیں۔
اور بھی کھلے الفاظ میں کہنا ہے تو وہ لوگ نبی ﷺ کی پاکیزہ زندگی دیکھ کر اور حسن ِ سیرت سے متأثر ہوکر ہی دائرہِ اسلام میں داخل ہوئے۔
ان لوگوں کا نبی ﷺ پر سو فیصد بھروسا اور مکمل اعتماد رہا۔یہی وہ پہلا سبب ہے جس کی بدولت وہ مشرف باسلام ہوئے۔
کوئی بھی آدمی اپنی ماضی کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو یاد دلاکر یہ نہیں کہہ سکتاکہ مجھ پر بھروسا کرو۔ کیونکہ اس کی گزری ہوئی زندگی پوری طرح عیب سے پاک نہیں رہے گی۔ اس لیے عام طورپر لوگ یہ بات سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیر اور بابا کی بھی موجودہ حالت ہی دیکھی جائے ۔ اس سے آگے بڑھتے ہوئے ان کی گذشتہ زندگی کی بابت نہ دیکھی جائے۔
نبی ﷺ نے اپنے آپ کو اللہ کا رسول ﷺ کہنے کے لیے اپنی ماضی کی پاکیزہ زندگی کو ہی بطور دلیل پیش کیا۔ آپ ﷺ کو ہی اس طرح اعلان کرنے کی ہمت وجرأت ہوئی۔
اس کو بنیاد بنا کر اپنے آپ کو اللہ کا رسول ﷺ ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم نے بھی حکم دیا:
(یونس10:آیت نمبر 16)
محمد ﷺ کی زندگی نبی اور رسول بننے سے پہلے عیب سے پاک تھی، اور نبوت ورسالت کے بعد آپ ﷺ کی زندگی اور بھی پاک رہی۔
مگر مذکورہ روایت ، اس بنیاد کو منہدم کرکے ریزہ ریزہ کردیتی ہے۔ پاک دامن نبی ﷺ کے دامن کوداغ دار بنادیتی ہے۔
علماءکرام مذکورہ روایت کو بھی محض اس لیے تائید کررہے ہیں کہ اس سند کے تمام راوی ٹھیک ہیں۔ گویا وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ راوی قابل اعتماد اور ثقہ ہے اور نبی ﷺ کی عزت ووقار کے لیے رائی کے دانے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔ آپ ﷺ کی جیسی تعظیم، تکریم وتوقیر کرنی چاہیے وہ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ اخلاقی سند دیتاہے:
(القلم68:آیت نمبر4)
غور کیجئے کہ اس روایت ِ حدیث میں جو کہا گیا ہے وہ بلند اخلاق اور اعلیٰ کردار ہوسکتاہے؟
چونکہ یہ روایت اسلامی تعلیم کے خلاف ہے، اس لیے ہم کو اس کا انکار کرنا چاہیے کہ نبی ﷺ اس طرح ہرگز نہیں کیے ہوں گے۔
آپ اس حدیث پر بڑے عالم دین کی طرح غور نہ کریں، بلکہ ایک مومن کی طرح ایک متقی اور پرہیزگار کی طرح غور کریں۔ تب بھی اسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ بلند اخلاق کے پیکر نبی ﷺ ہرگز اس طرح نہیں کرسکتے۔
آیا اس طرح کی روایت کو مان لیں تو نبی ﷺ پر تہمت لگانے کی طرح ہوگا یا نہیں؟ کیا اللہ کے نبی ﷺ اس طرح کی حرکت کریں گے؟
اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ یہ حدیث تو بخاری میں درج ہے، اس لیے اس کو ماننا ہی پڑے گا ۔اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ تو وہ اپنی بات میں سچا نہیں ہے۔
کیونکہ نبی ﷺ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ اس لیے آپ ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے عام مسلمانوں کوکیا اس طرح کسی اجنبی عورت کے گھر میں جاکر ٹھہرنے اور سر جھاڑنے اوربال صاف کرنے کی حد تک قریب ہونے کی اجازت ہے؟ مذکورہ حدیث کی بنیاد پر کیا یہ روایت پرست علماء اس کی اجازت دیتے ہوئے فتویٰ دیں گے؟ ہر گز نہیں دیں گے۔
اسی سے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ صرف ان کی زبان کہتی ہے کہ اس کو مانو! لیکن ان کا دل بھی اس حدیث کو ماننے سے انکار ہی کررہا ہے۔
ذیل میں اسی قسم کی ایک اور حدیث بھی دیکھئے:
کیا قرآن کی آیت گم ہوسکتی ہے؟
-3670حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ: عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ، ثُمَّ نُسِخْنَ، بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُنَّ فِيمَا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ "۔ (مسلم(
حضرت عائشہؓ نے کہا: قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ دس بار دودھ کا چوسنا حرمت کرنا ہے۔ پھر یہ منسوخ ہوگیا اور یہ پڑھا جانے لگا کہ پانچ بار دودھ چوسنا، حرمت کا سبب ہے۔ اور اللہ کے رسول ﷺ کی وفات ہوئی اس حال میں کہ یہ قرآن میں پڑھا جارہا تھا۔ (مسلم :3670)
عائشہ ؓ کے حوالے سے یہ حدیث کہتی ہے کہ پانچ بار دودھ چوسنے کی ایک آیت نبی ﷺ کی وفات تک قرآن میں موجود تھی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس طرح کی ایک آیت اگر نبی ﷺ کی وفات تک قرآن کریم میں رہی، تو اس آیت کو اب بھی قرآن ہی میں ہوناچاہیے۔ مگر اس طرح کی آیت قرآن میں نہیں ہے۔
اس سے کیا معلوم ہوتاہے؟ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو آیت نبی ﷺ کے زمانے میں پڑھی جارہی تھی ، وہ بعد میں بدل دی گئی ہے۔
حالانکہ قرآن کریم میں کسی آیت کو بدلنا ہو، تو اللہ تعالیٰ نبی محمد ﷺ کے ذریعہ ہی بدلائے گا۔ اور آپ ﷺ کی وفات پانے کے بعد کسی آیت کو بدلا نہیں جاسکتا۔
اب دنیا بھر میں موجود کسی قرآنی نسخے میں بھی پانچ بار دودھ چوسنے کی (رضاعت والی) آیت نہیں ہے۔ نیز عثمانؓ کے قدیم نسخے میں بھی جو میوزیم میں حفاظت کے ساتھ رکھے ہوئے ہیں یہ آیت نہیں ملی ہے۔
اللہ تعالیٰ کہتا ہے :
(الحجر15:آیت نمبر 9)
جب اللہ تعالیٰ اس قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، تو پھر قرآن کو غیر محفوظ قرار دینے والی یہ روایت ایک من گھڑت اور فرضی کہانی کے سوا اور کچھ نہیں ۔اگر اس روایت کو صحیح مان کر قبول کرلیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ قرآن کریم کے غیر محفوظ ہونے کو تسلیم کرتے ہیں۔
ہم کسی حدیث کو قبول کرنے کے لیے راویوں کے سند کا برابر ہونا ہی کافی نہیں، بلکہ وہ قرآن کریم سے ٹکرائے بغیر بھی رہے۔
غرض اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نبی ﷺ کی وفات تک جو آیت قرآن میں تھی ، اس کو بعد میں کسی نے بدل دیا، یا قرآن سے خارج کردیا ، جب کہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔اگر چہ یہ روایت حدیث کی کتاب‘‘مسلم’’ میں ہے۔ پھر بھی یہ صحیح نہیں ہے۔ سچائی پر مبنی نہیں ،بلکہ یہ ایک من گھڑت بات ہے۔
حدیثوں کو سمجھنے کا صحیح راستہ یہی ہے اور بھی وضاحت کے ساتھ جاننے کے لیے ذیل کی حدیث ملاحظہ فرمائیے
کیا سلیمان علیہ السلام کی توہین کی جاسکتی ہے؟
-5242حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ: لَأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ بِمِائَةِ امْرَأَةٍ، تَلِدُ كُلُّ امْرَأَةٍ غُلاَمًا يُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ المَلَكُ: قُلْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَلَمْ يَقُلْ وَنَسِيَ، فَأَطَافَ بِهِنَّ، وَلَمْ تَلِدْ مِنْهُنَّ إِلَّا امْرَأَةٌ نِصْفَ إِنْسَانٍ " قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمْ يَحْنَثْ، وَكَانَ أَرْجَى لِحَاجَتِهِ "(البخاری)
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ داؤد کے بیٹے سلیمان ؑ نے فرمایا: آج رات میں (اپنی) سو بیویوں کے پاس ہو آؤں گا۔(اور اس قربت کے نتیجے میں) ہر عورت ایک (بہادر) لڑکا جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا۔ فرشتے نے ان سے کہا کہ (اس کے ساتھ) ان شاءاللہ کہہ لیجئے۔ لیکن انہوں نے نہیں کہا اور بھول گئے۔ چنانچہ آپ تمام بیویوں کے پاس گئے ،مگر ایک کے سوا کسی کے یہاں بھی بچہ پیدانہ ہوا۔ اور اس ایک کے یہاں بھی آدھا بچہ پیدا ہوا۔ (بخاری 5242)
ایک ہی رات میں سو بیویوں سے ملنے کی طاقت ہے یا نہیں؟ اس بات سے قطع نظر یہاں پر صرف یہ دیکھاجائے گا کہ ایمان کو کھوکھلا کرنے والا پہلو کیا ہے؟
اگر یہ حدیث سچائی پر مبنی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ غیب سے متعلق جو باتیں صرف اللہ تعالیٰ جانتاہے ان میں سے کئی باتیں خود سلیمان علیہ السلام نے کہی ہیں، ذرا غور کیجئے:
- سلیمان علیہ السلام کی قربت سے ان کی سو بیویاں بھی حاملہ ہوں گی۔
- پیداہونے والے سو بھی لڑکے ہوں گے، لڑکیاں نہیں۔
- پھر وہ سب اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے۔ اس جملے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ پیداہونے والے وہ سو لڑکے بھی جوان ہونے سے پہلے نہیں مریں گے۔
- نیز وہ سب نیک بندے ہوں گے
- اوربہادر بھی ہوں گے
واضح رہے کہ اتنی ساری غیب کی باتیں اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جان سکتا ۔ ان غیبی امور سے اللہ اکیلا ہی واقف ہے۔ جس کے تعلق سے عام مسلمان بات کرنے سے ڈرتاہے۔
کیا کوئی مومن ایسی باتیں کرے گا کہ آج میں اپنی بیوی کے پاس جاؤں گا، جس سے وہ ایک لڑکا جنے گی، وہ جوان ہوکر نیک بندہ رہے گا؟ ہر گز نہیں۔ تمام مسلمان اس کو جانتے ہیں کہ یہ سب غیبی باتیں ہیں۔
کیا یہ بات ، نبی سلیمان علیہ السلام کو معلوم نہیں تھی؟ ایمان کو بگاڑنے والی اس قسم کی باتیں سلیمان علیہ السلام ہر گز نہیں کہے ہوں گے۔
(لقمان 31:آیت نمبر 34)
-4697عَنْ ابن عمرؓ ان رسول اللہ ﷺ قال: مفاتیح الغیب خمس لا یعلمھا الا اللہ (۱) لا یعلم احد ما فی غد الا اللہ (۲) ولا یعلم ما تغیض الارحام الا اللہ (۳) ولا یعلم متی یاتی المطر احد الا اللہ (٤) ولا تدری نفس بای ارض تموت (٥) ولا یعلم متی تقوم الساعۃ الا اللہ۔(البخاری)
حضر ت عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا (۱) اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے؟ (۲) اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ عورتوں کے رحم میں کیا کمی بیشی ہوتی رہتی ہے؟ (۳)اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب برسے گی؟ (۴) کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی موت کہاں ہوگی؟ (۵) اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ (بخاری: 4697)
جو کچھ رحم مادر میں ہے اس کو جب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، تو جو نبی ﷺ لوگوں کو توحید کی تعلیم دینے آئے، کیا وہ ایسی باتیں کہہ سکتے ہیں؟
یہ روایت نبی سلیمانؑ کی طرف منسوب کیے جانے کے باوجود، وہ اس قسم کی باتیں ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ سچے مسلمان کو ان کی بابت ایسا ہی یقین کرنا چاہیے۔
اس موقع پر آپ یہ نہ سمجھیں کہ شاید سلیمانؑ کو نبی ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بتادیا ہو!!
یہ اشکال درست نہیں۔ کیونکہ سلیمان ؑ اگر اللہ کی طرف سے وحی پاکر ایسی باتیں بتاتے، تو پھر ان کے کہنے کے مطابق ہی ہوتا، اوران کی ہر بیوی ایک لڑکا جنتی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس سے یقین ہوجاتاہے کہ سلیمان ؑ نے اللہ کی جانب سے اطلاع پاکر نہیں کہا۔
چنانچہ ہم کو اس نتیجے پر پہنچنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سلیمان ؑ کو کوئی پیشن گوئی نہیں کیا، تو سلیمان ؑ بھی ایسی باتیں ہرگز نہیں کریں گے۔ نیز نبی محمد ﷺ بھی سلیمان ؑ کی طرف منسوب کرکے اس قسم کی باتیں نہیں کہے ہوں گے۔ بلکہ یہ روایت تو بالکل من گھڑت (موضوع حدیث) ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ایک اور حدیث دیکھئے۔
کیا موسیٰ علیہ السلام نے فرشتے کو تھپڑ مارا؟
-3407حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " أُرْسِلَ مَلَكُ المَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ، فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لاَ يُرِيدُ المَوْتَ، قَالَ: ارْجِعْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ، فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعَرَةٍ سَنَةٌ، قَالَ: أَيْ رَبِّ، ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ثُمَّ المَوْتُ، قَالَ: فَالْآنَ، قَالَ: فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الأَرْضِ المُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُ ثَمَّ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ، إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ تَحْتَ الكَثِيبِ الأَحْمَرِ» قَالَ وَأَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ۔(البخاری)
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس موت کا فرشتہ بھیجا گیا۔ جب وہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے ان کو تھپڑ مارا۔ موت کے فرشتہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں واپس ہوئے اور عرض کیا: تو نے ایک ایسے بندے کے پاس مجھے بھیجا جو موت کے لیے تیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے (اس فرشتے سے) کہا کہ دوبارہ ان کے پاس جاکر کہو : اپنا ہاتھ کسی بیل کی پیٹھ پر رکھیں۔ (اس کے پیٹھ پر موجود بالوں میں جتنے بال) ان کے ہاتھ ڈھانپ لے، ان میں سے ہر بال کے بدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی۔
(چنانچہ وہ فرشتہ واپس آکر اللہ کا فیصلہ سنایا تو ) موسیٰ بولے: اے پروردگار! (اتنی مدت کی زندگی گزارنے کے) بعد کیاہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ پھر موت ہے۔ موسیٰ نے عرض کیا: تو وہ موت ابھی آجائے۔ ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ موسیٰ ؑ نے دعا کی کہ بیت المقدس سے مجھے اتنا قریب کردیاجائے کہ (جہاں ان کی قبر ہو وہاں سے) اگر کوئی پتھر پھینکنے والا پتھر پھینکے تو وہ بیت المقدس تک پہنچ سکے۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اگر وہاں (بیت المقدس میں) موجود ہوتا، تمہیں ان کی قبر دکھاتا جو راستے کے کنارے پر ریت کے سرخ ٹیلے سے نیچے ہے۔ (بخاری: 3407)
کیا ایسا ہوسکتاہے کہ جب موت کا فرشتہ اپنی ذمہ داری نبھانے اور اپنا فریضہ ادا کرنے آیا تو موسیٰ ؑ نے اس کو چانٹا مارا؟
یہ بات موسیٰ ؑ کو معلوم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ روح قبض کرنے کے لیے جب موت کا فرشتہ آتاہے، تو وہ خود سے نہیں آتا ، بلکہ اللہ ہی اس کو بھیجتاہے۔
موسیٰ ؑ یہ جانتے ہوئے کہ یہ موت کافرشتہ ہے، جو اپنی پسند اور مرضی سے کچھ نہیں کرتا ،بلکہ وہ اللہ کا تابع وفرمان ہے۔ اور اب اللہ ہی نے بھیجا ہے، اس کے منہ پر غناٹے دار طمانچہ رسید کیا۔ حالانکہ ایسی بات کہنے کے لیے اورروایت کرنے کے لیے بھی مومنوں کا دل دہل جائے گا۔ کیونکہ اس واقعے میں صاف دکھائی دیتاہے کہ موسیٰ کا رد ِ عمل اللہ کے ساتھ جنگ چھیڑنے کے مترادف ہے۔
اگر نبی موسیٰ ؑ کو مرنا پسند نہ ہو ، مزید کچھ مدت زندہ رہنے کی خواہش ہو، تو فرشتے کے منہ پر طمانچے مارکر واپس لوٹانے کے بجائے اگر اس طرح عرض کرتے کہ مجھے مزید کچھ عرصہ زندگی گزارنے کے لیے کیا کوئی راستہ ہے؟ مہلت زندگی میں ڈھیل پانے کے لیے کونسی راہ ہے؟ پروردگار سے پوچھ کرآؤ۔ تو ایک حد تک ہم یہ بات قبول کرسکتے ہیں۔
فرشتے کی غیر معمولی اور حیرت انگیز طاقت کے مقابلے میں نبی موسیٰ کی جسمانی طاقت کچھ بھی نہیں۔ ہم کو غورکرنا چاہیے کہ ایسی حالت میں کس طرح تھپڑ مارا جاسکتاہے؟ کیا یہ ممکن ہے؟
فرض کیجئے کہ نبی موسیٰ ؑ نے فرشتے کو طمانچہ مارا، تو کیا وہ موت کا فرشتہ ہار مان کر اپنی ذمہ داری نبھائے بغیر، اپنا فریضہ ادا کیے بغیر ہی واپس چلا جائے گا؟
ذیل کی آیتیں ہمیں بتلا رہی ہیں کہ فرشتے اللہ کا حکم جوں کا توں کر گزر نے والے ہیں ، اوراس کی ذرا سی بھی نافرمانی نہیں کرتے۔ ملاحظہ ہو:
(الانعام6:آیت نمبر61) - (الانبیاء21:آیت نمبر27) -(النحل16:آیت نمبر50) -(التحریم66:آیت نمبر6)
ذکر بالا خوبیوں والے فرشتے ، جن کو اللہ تعالیٰ جو حکم دیتاہے وہی کریں گے، اس میں کوتاہی نہیں کریں گے، اور کسی کے پاس مارکھاکر اپنی شکست کا اعتراف کرکے واپس نہیں جائیں گے۔ اس لیے فرشتوں کی بابت معمولی واقفیت رکھنے والا بھی نبی موسیٰ کا طمانچے والی روایت کو نہیں مانے گا۔
اللہ کے فیصلے کو ماننا مومن پر فرض ہے ۔ اللہ کے فیصلے کا نہ صرف انکار، بلکہ وہ فیصلہ سنانے والے فرشتے پر حملہ کرنا، کسی رسول کی صفت اور خوبی نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ ایسا فعل کفر ہے۔
جب یہ معلوم ہو کہ خبر دینے والا اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ ہے تو پھر اس کو غصے میں طمانچے مارکر دوڑانے کی کوشش کرنا اللہ کے حکم کے خلاف ورزی ہے ۔اس حقیقت کا معمولی علم رکھنے والے لوگ کیا اس واقعے کو سچ مانیں گے؟
اگر سچ مانیں گے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ اللہ کی مرضی کے خلاف بات کی جاسکتی ہے اور غصے کامظاہرہ کیا جاسکتاہے۔
ایک مرتبہ یونس علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ایک انتظام اور فیصلے سے بہت ناراض ہوکر غصے سے بھر گئے۔ حالانکہ اللہ پر غصہ کرنے کا انجام بہت برا ہوتاہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ اپنے کلام قرآن کریم میں کرتاہے ملاحظہ ہو:
(الانبیاء21:آیت نمبر87،88) - (القلم68:آیت نمبر49،50)
اللہ تعالیٰ یونس علیہ السلام کا واقعہ بیان کرکے ہمارے نبی محمد ﷺ کو متنبہ کرتاہے کہ آپ کہیں مچھلی والے یونس کی طرح نہ ہوجائیں۔
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہےکہ جو بھی اس طرح غیر مناسب کام کرتاہے جس سے اللہ تعالیٰ کی کبریائی اوربڑائی پر اثر پڑتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نظر انداز نہیں کرتا، بلکہ اس کا سخت نوٹس لیتا اور تادیبی کارروائی کرتاہے۔
اس لحاظ سے اللہ کے حکم کے مطابق آئے ہوئے فرشتے کو تھپڑ رسید کرنے کی پاداش میں موسیٰ پر اللہ تعالیٰ کا غیظ وغضب بہت سخت رہاہوگا۔
اللہ تعالیٰ کی عزت وجلال کے خلاف جنگ چھیڑنے والی اس قسم کی بات کی بھی تاویل کرنے بعض لوگوں نے بڑی کوشش کی ہے۔
ان کی تاویل کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ موت کے فرشتے کو یہ بات پہلے ہی بتادیا ہو یعنی تم موسیٰ کے پاس جاؤگے، تو وہ تمہارے چہرے پر تھپڑ ماریں گے ،تم تپھڑ کھانے کے بعد لوٹ آؤ گے۔
آپ غور کیجیے کہ اگر ایسی بات ہوتی، تو وہ فرشتہ موسیٰ کا تھپڑ کھانے کے بعد واپس جاکر پروردگار سے کیا یہ بات کہےگا:
اے اللہ! تو نے ایک ایسے بندے کے پاس مجھے بھیجا ہے جو موت کے لیے تیار نہیں ہے؟ یا یہ کہے گا: اے اللہ! تیرے کہنے کے مطابق موسیٰ نے مجھے تھپڑ مارا، اور میں بھی خاموشی کے ساتھ تھپڑ کھا کر تیرے پاس لوٹ آیا؟
اگر ان لوگوں کی تاویل صحیح ہے، تو فرشتہ اول الذکر کو نہیں بلکہ ثانی الذکر کو کہتا ۔اب آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ ان کی من گھڑت تاویل میں کوئی دم خم نہیں ہے بلکہ وہ بکواس ہے۔
آخر میں ایک عورت کا اجنبی نوجوان کو دودھ پلانے کی حدیث بھی جان لیجیے۔
کیا عورت، اجنبی نوجوان کو دودھ پلاسکتی ہے؟
عن عائشۃؓ قالت:جاءت سھلۃ بنت سھیل ؓ الی النبی ﷺ فقالت: یا رسول اللہ ! انی اری فی وجہ ابی حذیفۃ من دخول سالم وھو حلیفہ (وفی روایۃ: وھومولی ابی حذیفۃ) فقال النبی ﷺ: ارضعیہ۔ فقالت: وکیف ارضعہ وھو رجل کبیر؟ فتبسم رسول اللہ ﷺ وقال: قد علمت انہ رجل کبیر۔ وفی حدیثہ وکان قد شھد بدرا وفی روایۃ ابن عمرؓ فضحک رسول اللہ ﷺ (مسلم)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سہلہ بنت سہیلؓ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئیں اورعرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں (اپنے شوہر) ابوحذیفہ کے چہرے میں کچھ خفگی پاتی ہوں، جب سالم(ابن معقل) میرے گھر آتاہے اوروہ ان کا غلام ہے۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم سالم کو (اپنا) دودھ پلادو۔ سہلہ نے دریافت کیا: میں اسے دودھ کیوں کر پلاؤں، جب کہ وہ جوان مردہے؟
آپ ﷺ نے مسکرا تے ہوئے فرمایا: میں بھی جانتا ہوں کہ وہ جوان مرد ہے۔ (مسلم)
کوئی عورت جب کسی بچے کو دودھ پلائے، تو وہ عورت اس بچے کے لیے ماں کی حیثیت اور درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ اس کے بعد اگر وہ بچہ بڑا ہوکر جوان ہوجائے، تب بھی جس عورت نے اس کواپنا دودھ پلایا، اس کے ساتھ تنہائی میں رہ سکتاہے، کیونکہ اسلام کا قانون ہے کہ بچے کو دودھ پلانے والی عورت بھی ماں کا درجہ پالیتی ہے اوررضاعی ماں کہلاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس حدیث میں جو بات بتائی گئی ہے کیا وہ اس قانون اور شرعی حکم کے تحت آئے گی؟ ہرگز نہیں آئے گی۔ اس کے متعلق مکمل واقفیت کے لیے تفصیل کے ساتھ جاننا ضروری ہے۔
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ دودھ پلانے سے رشتہ قائم ہونے اور رضاعت سے حرمت ثابت ہونے کا حکم مشروط ہے۔ شرط کے ساتھ موقوف ہے۔ اگر وہ شرط نہ پائی جائے تو رضاعی رشتہ قائم نہیں ہوگا اور حرمت ثابت نہیں ہوگی۔
اولین شرط یہ ہے کہ جس بچے کو دودھ پلایاجاتاہے اس کی عمر دو برس کے اندر ہو۔ اگر کوئی عورت تین سال کے بچے کو دودھ پلائے تو وہ عورت اس بچے کی رضاعی ماں نہیں بنے گی، اور وہ بچہ اس عورت کا رضاعی بیٹا نہیں کہلائے گا۔ اس کا پتہ ہم ذیل کی آیتوں سے لگاسکتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
(البقرۃ2:آیت نمبر233) - (لقمان31:آیت نمبر14) -(الاحقاف46:آیت نمبر15)
-5102حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَشْعَثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا رَجُلٌ، فَكَأَنَّهُ تَغَيَّرَ وَجْهُهُ، كَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ أَخِي، فَقَالَ: «انْظُرْنَ مَنْ إِخْوَانُكُنَّ، فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ المَجَاعَةِ» (البخاری)
عائشہؓ نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) ان کے گھر میں نبی ﷺ تشریف لائے ، تو دیکھا کہ ان کے یہاں ایک مرد بیٹھا ہوا ہے۔ (غصے کی وجہ سے) آپ کے چہرےکا رنگ بدل گیا، گویا آپ نے اس کو پسند نہیں کیا۔ تو عائشہؓ نے عرض کیا:‘‘ اے اللہ کے رسول ﷺ!یہ تو میرے دودھ والے (دودھ شریک) بھائی ہیں’’۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: تحقیق کرکے فیصلہ کرو کہ کون تمہار ابھائی ہے (کیونکہ) دودھ پلانے (رضاعت) کا رشتہ وہی معتبر ہے جو بھوک کی وجہ سے (شیر خوار بچہ دودھ پیا ) ہو۔ (بخاری:5102)
-4412حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ دُبَيْسِ بْنِ أَحْمَدَ , وَغَيْرُهُمَا قَالُوا: نا أَبُو الْوَلِيدِ بْنُ بُرْدٍ الْأَنْطَاكِيُّ , نا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ , نا سُفْيَانُ , عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا رَضَاعَ إِلَّا مَا كَانَ فِي الْحَوْلَيْنِ». لَمْ يُسْنِدْهُ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ غَيْرُ الْهَيْثَمِ بْنِ جَمِيلٍ وَهُوَ ثِقَةٌ حَافِظٌ۔(دارقطنی)
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: دودھ پلانے کا اعتبار نہیں ہے مگر جو دو سال کے اندر میں ہو۔ (دارقطنی)
مذکورہ دلائل میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ بچے کو دوسال کی عمر تک جو دودھ پلایا جائے گا اسی کا اعتبار کیا جائے گا۔ چنانچہ اگر کوئی عورت کسی بچے کو جس کی عمر تین برس کی ہو دودھ پلائے، تو بھی وہ عورت اس بچہ کی رضاعی ماں نہیں بنے گی۔
مگر اس موضوع پر سب سے پہلے ذکر کردہ سالم کے سلسلے میں آنے والی روایت میں کہا گیاہے کہ نبی ﷺ نے سہلہ سے سن بلوغت کو پہنچا ہوا ، نوجوان کو دودھ پلانے کے لیے کہا اور بتایا کہ اس سے رضاعی بیٹے کا رشتہ قائم ہوجائے گا۔
اب آپ سمجھ گئے ہوں گےکہ سالم کی یہ حدیث قرآنی تعلیمات کے خلاف واقع ہوئی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اجنبی عورتوں کے معاملے میں نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔
عورتوں کے پاس مردوں کو اپنی طرف کھینچنے والے پرکشش اور دل ربا اعضا میں سرفہرست اس کی چھاتی ہی ہے۔ ایسے میں کیا عورت کو کسی نوجوان کے منہ میں اپنے چھاتی سے دودھ پلانے کے لیے کہاجائے گا جس سے وہ نوجوان رضاعی بیٹا بن جائے؟ کیا اللہ کے رسول ﷺ اس طرح کہے ہوں گے؟
اس بات میں کراہت اور گھن آتی ہے۔اور دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺ کے علم وحکمت اورتہذیب اور شائستگی پر گو یا سوالیہ نشان لگ جاتاہے۔
مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سالم کی حدیث بالکل صحیح ہے۔ اس لیے اس کو ماننا چاہیے۔ وہ صرف زبان کی حدتک کہتے ہیں درحقیقت وہ بھی دل سے نہیں مانتے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ اس حدیث کو حجت مان کر اس کے مطابق شرعی حکم نافذ نہیں کرتے۔ یعنی اگر وہ لوگ اس روایت کو نبی ﷺ کا فرمان مانتے ہیں تو کیا وہ یہ فتویٰ دیں گے کہ جو مسلمان اس طرح کرنا چاہیں، کرسکتے ہیں؟ اس طرح کا فتویٰ ہرگز نہیں دیں گے۔ کیا اسی سے آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتاکہ وہ بھی اس حدیث کو نہیں مانتے۔ اس کے باوجود جھوٹ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو مانتے ہیں۔
وہ لوگ ہمارے اس سوال سے بچنے کے لیے ایک عمدہ تاویل پیش کرتے ہیں۔ یعنی ان کی تاویل یہ ہے کہ حدیث میں پستان منہ میں رکھ کر دودھ پلانے کے لیے نہیں کہا گیا۔ ہوسکتاہے کہ چھاتی سے دودھ اتارکر دیا گیا ہو ۔ واضح رہے کہ اس طرح کی تاویل ثابت کرنے کے لیے نہ اس حدیث میں کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی دوسری روایتوں میں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تاویل پیش کرنے والوں کو کم ازکم اپنے دعوے میں سچے رہنا چاہیے۔ کیا وہ اس طرح ہیں؟ نہیں بلکہ اس میں بھی وہ جھوٹ ہی کہتے ہیں۔
کیا وہ اس طرح کا فتویٰ دیں گے کہ جو عورتیں اجنبی مرد کے ساتھ تنہائی میں رہنا چاہتی ہیں وہ سب اپنے پستان سے دودھ اتار کر اجنبی مرد کو پلا دیں تو پھر اس کے ساتھ تنہائی میں رہ سکتی ہیں؟ کیا یہ فتویٰ دیں گے کہ کوئی بھی مرد اس طریقے کو اپناتے ہوئے کسی بھی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرسکتاہے؟ ظاہر سی بات ہے کہ اس قسم کا فتویٰ ہرگز نہیں دیں گے۔ تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ مذکورہ تاویل کو وہ خود نہیں مانتے مگر لوگوں سے کہتےہیں کہ ماننا پڑے گا۔
وہ لوگ اس طرح کا فتویٰ اگر نہ بھی دیں مگر ایک مرد اور ایک اجنبی عورت تنہائی میں رہتے وقت ننگے ہاتھ پکڑے جائیں، اور اس وقت اگر وہ عورت یہ کہے کہ میں نے ابھی ابھی اس کو اپنا دودھ پلایا ہے۔ اس لیے یہ میرا رضاعی بیٹا بن گیا۔ تو کیا وہ لوگ ان کو سزادیے بغیر چھوڑ دینے کا حکم سنائیں گے؟ وہ ایسا بھی نہیں کریں گے۔
ان سب مسائل سے بچنے، دامن چھڑانے اور راہِ فرار اختیار کرنے ان لوگوں نے ایک نیاراستہ دریافت کرلیا ہے! وہ نیاراستہ یہ ہے کہ دودھ پلانے کا جو حکم دیا گیا وہ صرف سالم کے لیے خاص ہے۔ سب کے لیے دیا گیا عام حکم نہیں ہے۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا اس حدیث میں اس کی تخصیص ہے کہ یہ حکم سالم کے سوا کسی اور کے لیے لاگو نہیں ہوسکتا؟ایسا ہرگز نہیں ہے۔
البتہ دین میں چند احکام مخصوص افراد ہی کے لیے دیا گیا ہے۔ مگر وہ بھی بے حیائی، بے عزتی، قابل شرم بات اور فحش وغیرہ کی اجازت کے لیے نہیں دیا گیا۔
اگر یہ کہا جائے کہ نبی ﷺ نے صرف ایک شخص کو بدکاری کرنے کی اجازت دی، تو کیا وہ لوگ اس کو مان لیں گے؟ اسی کے ہو بہو اورعین مطابق یہ بات بھی ہے کہ نبی ﷺ نے ایک صرف نوجوان کو اجنبی عورت کا پستان دیکھنے ، چوسنے اور مزا چکھنے کی اجازت دی۔ غرض کہ کوئی بھی خاص حکم بے حیائی اور بے شرمی کے معاملے میں نہیں ہے۔
یہ دیکھو! قرآنی آیتیں جو گویا ان ہی لوگوں کے لیے نازل کیا گیا ہے:
(الاعراف7:آیت نمبر28) - (النحل16:آیت نمبر90)
ان کے علاوہ کئی آیتوں میں اللہ تعالیٰ یہ نشاندہی کرتاہے کہ شیطان ہی بے حیائی اوربرے کام کا حکم دے گا، ملاحظہ ہو: النور24:آیت نمبر21 ، البقرہ2:آیت نمبر169 ، البقرہ2:آیت نمبر268۔
اس لیے سالم کو دودھ پلانے کی روایت من گھڑت کہانی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان (فرمودہ) نہیں۔
اب تک ہم نے کئی حدیثوں پر تبصرہ کیا ہے ۔ چھپکلی کا ابراہیم ؑ کے خلاف آگ پرپھونک مارنا، نبوت سے پہلے ہی معراج کا واقعہ، ہل پھالی کا باعث ذلت ہونا، دنیا کا چھ دنوں کے بجائے سات دنوں میں پیدا کیاجانا ، نبی ﷺ کا اجنبی عورت سے قریب رہنا، قرآنی آیت کا گم ہونا، سلیمان ؑ کی توہین، فرشتے کو تھپڑ مارنا اور عورت کا اجنبی مرد کو اپنا دودھ پلانا، یہ ساری حدیثوں پر ہم نے گزشتہ صفحات میں تفصیل سے بحث کی ہے۔
ان احادیث پر بحث کی اصل وجہ یہ ہے کہ جادو کو برحق ماننے والے، اور نبی ﷺ پر جادو کا اثر ہونے کو تسلیم کرنے والے لوگ دلیل کے طورپر سب سے پہلے حدیث ہی کو پیش کرتے ہیں اور یہ دعوا بھی کرتے ہیں کہ جب نبیﷺ پر ہی جادو کا اثر ہوا جس سے آپ ذہنی طور پر مریض ہوگئے ، تو پھر عام آدمیوں پر جادو کا اثر کیوں نہیں ہوسکتا؟
مگر ہم نے اور جن حدیثوں کا ذکر کیا ہے جو قابل رد اور جھوٹی حدیثیں ہیں، ان سب سے کہیں زیادہ خطرناک بات جادو کے متعلق آنے والی حدیثیں ہیں، جو اسلام کی بنیاد ہی کو ہلا کر رکھ دینے کے لیے کافی ہیں، جن کو صحیح طورسے سمجھانے کے لیے ہی ہم نے گزشتہ دو فصلوں میں یعنی قرآن وحدیث کو کس طرح سمجھاجائے اور پھر جو حدیثیں آیاتِ قرٓنی اور عقائد اسلامی سے براہ راست ٹکراتی ہیں ان کی خوب وضاحت کی۔
نبی ﷺ پر جادو کیے جانے کی بابت وارد حدیثیں کیا کہتی ہیں؟
جن روایتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ نبی محمد ﷺ پر جادو کیا گیا ، جس سے آپ متاثر ہوئے، وہ حسب ذیل ہیں:
پہلی حدیث: -3268 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ اللَّيْثُ: كَتَبَ إِلَيَّ هِشَامٌ أَنَّهُ سَمِعَهُ وَوَعَاهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشةَ قَالَتْ: سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا يَفْعَلُهُ، حَتَّى كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ دَعَا وَدَعَا، ثُمَّ قَالَ: " أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَا فِيهِ شِفَائِي، أَتَانِي رَجُلاَنِ: فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ، قَالَ: فِيمَا ذَا، قَالَ: فِي مُشُطٍ وَمُشَاقَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ، قَالَ فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ " فَخَرَجَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ لِعَائِشَةَ حِينَ رَجَعَ: «نَخْلُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ» فَقُلْتُ اسْتَخْرَجْتَهُ؟ فَقَالَ: «لاَ، أَمَّا أَنَا فَقَدْ شَفَانِي اللَّهُ، وَخَشِيتُ أَنْ يُثِيرَ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا» ثُمَّ دُفِنَتِ البِئْرُ۔(البخاری)
حضرت عائشہؓ نے بیا ن کیا تھا کہ نبی ﷺ پر جادو کیا گیا تھا اس حد تک کہ آپ کے ذہن میں یہ بات ہوتی تھی کہ فلاں کام میں کررہاہوں، حالانکہ آپ اسے نہ کررہے ہوتے۔ آخر ایک دن آپ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس جادو کا اثر دفع کرے۔
اس کے بعد آپ نے عائشہؓ سے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہوا کہ اللہ نے مجھے وہ بات بتادی ہے جس میں میری شفا(مقدر) ہے۔ (وہ یہ کہ ) میرے پاس دوآدمی آٗے۔ ایک تو میرے سر کی طرف بیٹھ گئے اور دوسرا پاؤں کی طرف۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا: مَاوَجْعُ الرَّجُلِ؟ اس آدمی کو جو تکلیف پہنچی ہے وہ کیا ہے؟ دوسرے آدمی نے جواب دیا کہ ان پر جادو ہواہے۔ انہوں نے پوچھا: جادو ان پر کس نے کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم یہودی نے ۔ پوچھا کہ وہ جادو( ٹونا) رکھا کس چیز میں ہے؟ کہا : بال میں، کنگھی میں اور نر(کھجور) کے خشک خوشے کے غلاف میں۔ پوچھا: اوریہ چیزیں ہیں کہاں؟ (مدینے میں) قبیلہ بنو زریق کے باغ میں واقع ذروان نامی کنویں میں۔
پھر (یہ سب اطلاع دینے کے بعد) آپ وہاں تشریف لے گئے پھر واپس آئے۔ تو عائشہؓ سے فرمایا: وہاں کے کھجور کے درخت ایسے ہیں جیسے شیطان کے سر ہیں۔ میں نے (آپ سے) پوچھا: وہ(جادو کی چیزیں) ٹونا آپ نے نکلوایا بھی؟ آپ نے جواب دیا: نہیں۔ مجھے تو اللہ نے خود شفا دی اور میں نے اسے اس خیال سے نہیں نکلوایا کہ کہیں اس کی وجہ سے لوگوں میں کوئی جھگڑا کھڑا نہ ہوجائے۔ اس کے بعد وہ کنوان پاٹ دیا گیا۔ (بخاری: 3268)
دوسری حدیث:-5763 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَحَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، يُقَالُ لَهُ لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ، حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ كَانَ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَهُوَ عِنْدِي، لَكِنَّهُ دَعَا وَدَعَا، ثُمَّ قَالَ: " يَا عَائِشَةُ، أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ، أَتَانِي رَجُلاَنِ، فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ فَقَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ، قَالَ: فِي أَيِّ شَيْءٍ؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ، وَجُفِّ طَلْعِ نَخْلَةٍ ذَكَرٍ. قَالَ: وَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ " فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:137] فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَجَاءَ فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ، كَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ، أَوْ كَأَنَّ رُءُوسَ نَخْلِهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَفَلاَ اسْتَخْرَجْتَهُ؟ قَالَ: «قَدْ عَافَانِي اللَّهُ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ فِيهِ شَرًّا» فَأَمَرَ بِهَا فَدُفِنَتْ تَابَعَهُ أَبُو أُسَامَةَ، وَأَبُو ضَمْرَةَ، وَابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامٍ، وَقَالَ: اللَّيْثُ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامٍ: «فِي مُشْطٍ وَمُشَاقَةٍ» يُقَالُ: المُشَاطَةُ: مَا يَخْرُجُ مِنَ الشَّعَرِ إِذَا مُشِطَ، وَالمُشَاقَةُ: مِنْ مُشَاقَةِ الكَتَّانِ
حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ قبیلہ بنوزریق کے ایک شخص نے جس کانام لبید بن اعصم تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ پر جادو کردیا تھا اوراس کی وجہ سے آپ ﷺ کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کررہے ہیں حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔
ایک دن یا (راوی نے بیان کیا کہ) ایک رات آپ ﷺ میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اور مسلسل دعا کررہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا: عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ سے جوبات میں پوچھ رہا تھا۔ اس نے اس کاجواب مجھے دے دیا۔ ( وہ اس طریقے سے کہ) میرے پاس دوفرشتے آئے۔ ایک میرے سر کی طرف کھڑ اہوگیا اور دوسرا میرے پاؤں کی طرف۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا: ان صاحب کی تکلیف کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: ان پر جادو ہواہے۔ اس نے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا: لبید بن اعصم نے پوچھا: کس چیز میں (جادو کیا ہے)؟ جواب دیا کہ کنگھے اور سر کے بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھے ہوے ہیں۔ سوال کیا: اوریہ جادو ہے کہاں؟ جواب دیا: زروان کے کنویں میں۔
پھر آپ ﷺ اس کنویں پر اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو فرمایا: عائشہ! اس (کنویں) کا پانی ایسا (سرخ )تھا جیسے مہندی کا نچوڑ ہوتاہے۔ اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر (اوپر کا حصہ) شیطان کے سروں کی طرح تھے۔
میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس جادو کو باہر کیوں نہیں کردیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے مجھے اس سے عافیت دے دی۔ اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اب میں خواہ مخواہ لوگوں میں اس برائی کو پھیلاؤں۔ پھر آپ نے اس جادو کا سامان کنگھی ، بال خرما کا غلاف ہوتے ہیں۔ اسی میں دفن کرادیا۔ (بخاری5763)
تیسری حدیث: -5765 حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: أَوَّلُ مَنْ حَدَّثَنَا بِهِ ابْنُ جُرَيْجٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي آلُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، فَسَأَلْتُ هِشَامًا، عَنْهُ، فَحَدَّثَنَا عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُحِرَ، حَتَّى كَانَ يَرَى أَنَّهُ يَأْتِي النِّسَاءَ وَلاَ يَأْتِيهِنَّ، قَالَ سُفْيَانُ: وَهَذَا أَشَدُّ مَا يَكُونُ مِنَ السِّحْرِ، إِذَا كَانَ كَذَا، فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ، أَعَلِمْتِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ، أَتَانِي رَجُلاَنِ، فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رَأْسِي لِلْآخَرِ: مَا بَالُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ - رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ حَلِيفٌ لِيَهُودَ كَانَ مُنَافِقًا - قَالَ: وَفِيمَ؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاقَةٍ، قَالَ: وَأَيْنَ؟ قَالَ: فِي جُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ، تَحْتَ رَاعُوفَةٍ فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ " قَالَتْ: فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ البِئْرَ حَتَّى اسْتَخْرَجَهُ، فَقَالَ: «هَذِهِ البِئْرُ الَّتِي أُرِيتُهَا، وَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ، وَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ» قَالَ: فَاسْتُخْرِجَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَفَلاَ؟ - أَيْ تَنَشَّرْتَ - فَقَالَ: «أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ شَفَانِي، وَأَكْرَهُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ شَرًّا» (البخاری)
حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کردیاگیا تھا اور اس کا آپ پر یہ اثرہواتھا کہ آپ کو خیال ہوتاکہ آپ نے ازواج مطہرات میں سے کسی کے ساتھ ہم بستری کی ہے حالانکہ آپ نے کی نہیں ہوتی۔ سفیان ثوری نے بیان کیا کہ جادو کی یہ سب سے سخت قسم ہے جب اس کا یہ اثرہو۔ پھرآپ نے فرمایا عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ سے جو بات میں نے پوچھی تھی اس کا جواب اس نے کب کا دے دیا ہے۔ میرے پاس دو فرشتے آئے۔ ایک میرے سر کے پاس کھڑ اہوگیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس ۔ جو فرشتہ میرے سر کی طرف کھڑا تھا اس نے دوسرے سے کہا ان صاحب کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کردیا گیا ہے پوچھا کہ کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعظم نے یہ یہودیوں کے حلیف بن زریق کا ایک شخص تھا اور منافق تھا۔ سوال کیا کہ کس چیز میں ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ کنگھے اور بال میں۔ پوچھا جادو ہے کہاں؟ جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشے میں جو زروان کے کنویں کے اندر رکھے ہوئے پتھر کے نیچے دفن ہے۔ بیان کیا کہ پھر حضور اکرم ﷺ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جادو اندر سے نکالا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا۔ اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا رنگین تھا اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر شیطانوں کے سروں جیسے تھے ۔ بیان کیا کہ پھر وہ جادو کنویں میں سے نکالا گیا ۔عائشہؓ نے بیان کیا کہ میں نے کہا آپ نے اس جادو کا توڑ نہیں کرایا۔ فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی اب میں لوگوں میں ایک شور ہونا پسند نہیں کرتا۔(بخاری5765)
چوتھی حدیث: -5766 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ عِنْدِي، دَعَا اللَّهَ وَدَعَاهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَشَعَرْتِ يَا عَائِشَةُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا [ص:138] اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ» قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " جَاءَنِي رَجُلاَنِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ اليَهُودِيُّ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، قَالَ: فِيمَا ذَا؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذِي أَرْوَانَ " قَالَ: فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِلَى البِئْرِ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَعَلَيْهَا نَخْلٌ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَ: «وَاللَّهِ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَأَخْرَجْتَهُ؟ قَالَ: «لاَ، أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِيَ اللَّهُ وَشَفَانِي، وَخَشِيتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا» وَأَمَرَ بِهَا فَدُفِنَتْ۔ (البخاری)
حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا گیا تھا ۔اور اس کا اثر یہ تھا کہ آپ کو خیال ہوتاکہ آپ کوئی چیز کررہے ہیں حالانکہ وہ چیز نہ کی ہوتی۔ ایک دن آنحضرت ﷺ میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اور مسلسل دعائیں کررہے تھے۔ پھر فرمایا: عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ سے جوبات میں نے پوچھی تھی اس کاجواب اس نے مجھے دےد یاہے۔ میں نے عرض کی: وہ کیا بات ہے یارسول اللہ؟ آپ نے فرمایا :میرے پاس دوفرشتے آئے۔ اور ایک میرے سر کے پاس کھڑا ہوگیا اوردوسرا پاؤں کی طرف ۔پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا:ان صاحب کی تکلیف کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ پوچھا :کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ فرمایا : بنی زریق کے لبید بن اعصم یہودی نے ۔ پوچھا :کس چیز میں؟ جواب دیا کہ کنگھے اور بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھا ہواہے۔ پوچھا: او روہ جادو رکھا کہاں ہے؟ جواب دیا کہ ذروان کے کنویں میں۔ بیان کیا کہ پھر حضور اکرم ﷺ اپنے چند صحابہ کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے۔ اور اسے دیکھا وہاں کھجور کے درخت بھی تھے ۔پھر آپ واپس حضرت عائشہؓ کے یہاں تشریف لائے اور فرمایا: اللہ کی قسم !اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا (سرخ ) ہے اور اس کے کھجور کے درخت شیاطین کے سروں جیسے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! وہ کنگھی بال وغیرہ غلاف میں نکلوائے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا :نہیں، سن لے ۔اللہ نے مجھ کو شفا دے دی ،تندرست کردیا۔ اب میں ڈراکہ کہیں لوگوں میں ایک شور نہ پھیلے۔ اورآپ ﷺ نے اس سامان کے گاڑدینے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ گاڑدیا گیا۔ (بخاری:5766)
پانچویں حدیث:-6063 حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: مَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا وَكَذَا، يُخَيَّلُ [ص:19] إِلَيْهِ أَنَّهُ يَأْتِي أَهْلَهُ وَلاَ يَأْتِي، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَ لِي ذَاتَ يَوْمٍ: " يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِي أَمْرٍ اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ: أَتَانِي رَجُلاَنِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رِجْلَيَّ وَالآخَرُ عِنْدَ رَأْسِي، فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رِجْلَيَّ لِلَّذِي عِنْدَ رَأْسِي: مَا بَالُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، يَعْنِي مَسْحُورًا، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ، قَالَ: وَفِيمَ؟ قَالَ: فِي جُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ فِي مُشْطٍ وَمُشَاقَةٍ، تَحْتَ رَعُوفَةٍ فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ " فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «هَذِهِ البِئْرُ الَّتِي أُرِيتُهَا، كَأَنَّ رُءُوسَ نَخْلِهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ، وَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ» فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْرِجَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَهَلَّا، تَعْنِي تَنَشَّرْتَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ شَفَانِي، وَأَمَّا أَنَا فَأَكْرَهُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا» قَالَتْ: وَلَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، حَلِيفٌ لِيَهُودَ۔(البخاری)
حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ (جادو کی بناپر) رسول اللہ ﷺ ایسے اورایسے رہے آپ کو خیال ہوتاتھا کہ جیسے آپ اپنی بیوی کے پاس جارہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے مجھ سے ایک دن فرمایا: عائشہ! میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک معاملہ میں سوال کیا تھا اوراس نے وہ بات مجھے بتلادی۔ دوفرشتے میرے پاس آئے ۔ایک میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا سر کے پاس بیٹھ گیا ۔ اس نے اس سے کہا کہ جو میرے سر کے پاس تھا ان صاحب کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کردیا گیا ہے۔ پوچھا کہ کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔ پوچھا: کس چیز میں کیا ہے؟ جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشہ کے غلاف میں، اس کے اندر کنگھی ہے اور کتان کے تار ہیں۔ اوریہ ذروان کے کنویں میں ایک چٹان کے نیچے دبادیا ہے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ تشریف لے گئے اور فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے جو مجھے خواب میں دکھلایا گیا تھا، اس کے باغ کے درختوں کے پتےسانپوں کے پھن جیسے ڈراؤ نے معلوم ہوتے ہیں۔ اور اس کاپانی مہندی کے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح سرخ تھا۔ پھر آنحضرت ﷺ کے حکم سے وہ جادو نکالا گیا۔ عائشہؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا :یارسول اللہ! پھر کیوں نہیں؟ ان کی مراد یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ نے اس واقعہ کو شہرت کیوں نہ دی؟ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے شفادے دی ہے او رمیں ان لوگوں میں خواہ مخواہ برائی کے پھیلانے کو پسند نہیں کرتا۔ عائشہؓ نے بیان کیا کہ لبید بن اعصم یہود کے حلیف بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا۔ (بخاری6063)
چھٹی حدیث:-6391 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُنْذِرٍ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طُبَّ، حَتَّى إِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ صَنَعَ الشَّيْءَ وَمَا صَنَعَهُ، وَإِنَّهُ دَعَا رَبَّهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ» فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " جَاءَنِي رَجُلاَنِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ، قَالَ: فِي مَاذَا؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي ذَرْوَانَ " - وَذَرْوَانُ بِئْرٌ فِي بَنِي زُرَيْقٍ - قَالَتْ: فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَ: «وَاللَّهِ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ» قَالَتْ: فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهَا عَنِ البِئْرِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَهَلَّا أَخْرَجْتَهُ؟ قَالَ: «أَمَّا أَنَا فَقَدْ شَفَانِي اللَّهُ، وَكَرِهْتُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا» زَادَ عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا وَدَعَا» وَسَاقَ الحَدِيثَ۔(البخاری)
عائشہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ آنحضرت ﷺ سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کرلیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا ۔اور آنحضرت ﷺ نے اپنے رب سے دعا کی تھی۔ پھر آپ نے فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے مجھے وہ بات بتادی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی۔ عائشہؓ نے پوچھا یارسول اللہ ! وہ خواب کیا ہے؟ فرمایا: میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گئے اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: ان پر جادو ہواہے ۔ پہلے نے پوچھا :کس نے جادو کیاہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے ۔ پوچھا :وہ جادو کس چیز میں ہے؟ جواب دیا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشے میں۔ پوچھا :وہ ہے کہاں؟ کہا کہ ذروان میں اور ذروان بنی زریق کا ایک کنوان ہے۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب عائشہؓ کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا:اللہ کی قسم ! اس کا پانی تو مہندی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درخت شیطان کے سر کی طرح تھے۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور انہیں کنویں کے متعلق بتایا۔ میں نے کہا !یارسو ل اللہ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے شفاد ے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں۔ عیسی ٰ بن یونس اور لیث نے ہشام سے اضافہ کیا کہ ان سے ان کے والد نے بیان کی اوران سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ پر جادو کیا گیا توآپ برابر دعا کرتے رہے اور پھر پوری حدیث کو بیان کیا۔(بخاری6391)
جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ جادو سے متاثر کیا جاسکتاہے، وہ ان حدیثوں کو ہی سب سے بڑی دلیل کے طورپر پیش کرتے ہیں۔ نیز ان کا دعویٰ ہے کہ ان حدیثوں میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ جادو ٹونا کے ذریعہ نقصان پہنچایا جاسکتاہے۔
یہ حدیثیں کہتی ہیں کہ ایک یہودی کے جادو کرنے پر آپ ﷺ سخت متاثر ہوئے۔ اورکس حد تک متاثر ہوئے؟ مذکورہ حدیثوں میں اس کے متعلق آنے والے جملوں پر غور کیجئے:
پہلی حدیث میں کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے ذہن اور تصور میں یہ بات لگاتا ر ہوتی تھی کہ فلاں کام کررہے ہیں۔ حالانکہ آپ اسے نہ کررہے ہوتے۔
دوسری حدیث میں بتایا گیا کہ آپ ﷺ کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ وہ کام کررہے ہیں۔ حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔
تیسری حدیث میں یہ بات ہے کہ آپ کو خیال ہوتاکہ آپ نے کسی بیوی کے ساتھ ہم بستری کی ہے۔ حالانکہ آپ نے کی نہیں ہوتی۔
چوتھی حدیث میں کہا گیا ہے کہ آپ کو یہ تصور ہوتا کہ آپ کوئی کام کررہے ہیں حالانکہ وہ نہ کی ہوتی۔
پانچویں حدیث میں بتایا گیا کہ آپ ایسے اور ایسے کررہے تھے اور یہ خیال ہوتا کہ جیسے آپ اپنی بیوی کے پاس جارہے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں تھا۔
چھٹی حدیث میں بتایا گیا کہ آپ سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کرلیا ہے۔وہ آپ نے نہیں کیا تھا۔
ان میں اس بات کی وضاحت کی گئی کہ اللہ کے نبی ﷺ پر ایک یہودی نے جادو ٹونا کردیا جس کی وجہ آپ ﷺ نے جوکام نہیں کیا ہے، اس کے متعلق ذہن میں مسلسل یہ خیال ہوتا، اور سمجھتے رہتے کہ آپ نے وہ کرلیا ہے۔ غرض جادو کا اس حد تک اثر ہونے لگا کہ اپنی بیوی سے ہم بستری اور صحبت کے بغیر ہی باربار یہ تصور ہونےلگا کہ آپ نے ہم بستری کی ہے۔
ایک آدمی کا اپنے نہ کردہ کام کے بارے میں یہ کہتے رہنا کہ میں نے وہ کام کیا ہے۔ دراصل نفسیاتی مرض کی ایک قسم ہے نیز بیوی سے صحبت کے بغیر ہی یہ خیال گزرنا کہ ہم بستری ہوچکی ہے، سخت قسم کی نفسیاتی بیماری ہے۔ اور یہ حدیثیں کہتی ہیں کہ نبی ﷺ کو جادو کے ذریعہ اسی نفسیاتی مرض میں مبتلا کیا گیا۔
جاد وکے متعلق جس حدیث کو ہم نے سب سے پہلے ذکر کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ نفسیاتی مرض کے علاوہ جسمانی تکلیف بھی ہورہی تھی۔ اس روایت میں فرشتوں کے گفتگو کے دوران یہ الفاظ آئے ہیں: مَاوَجْعُ الرَّجُلِ یعنی ان صاحب کا (بدنی) درد وتکلیف کیا ہے جو ان کو پہنچی ہے؟ (یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ عربی متن میں وجع ( یعنی درد) آیا ہے۔ جب کہ بعض نے اس کا ترجمہ’’بیماری‘‘ کیا ہے جو غلط ہے۔
جادو کی وجہ سے نبی ﷺ پر جو اثر ہوا وہ اگر کوئی ایک دن رہا تو اس کو نفسیاتی بیماری نہیں کہا جائے گا ۔مگر یہ روایتیں بتارہی ہیں کہ جادو کا اثر اور اس کا زور ایک لمبا عرصہ تک رہا۔ اگر چہ یہ مفہوم ترجمہ میں نہیں ہے لیکن عربی متن میں ’’کان‘‘ کا لفظ آیاہے جو استمراری پر دلالت کررہاہے۔ یعنی اس کا مفہوم یہ کہ آپ ﷺ مسلسل اس حالت سے گزررہے تھے۔
مسند احمد کی حدیث میں وضاحت کے ساتھ ہے:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ:<< لَبِثَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ اَشْھُرٍ یَرٰی اَنَّہٗ یَاْتِیْ وَلَایَاْتِیْ>> یعنی عائشہؓ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی حالت چھ مہینے ایسی رہی کہ سمجھتے کہ آرہے ہیں حالانکہ نہیں آتے ۔(احمد: 23211)
جادو میں طاقت وقدرت ہونے کا عقیدہ رکھنے والے یہ دعوا کرتے ہیں کہ چونکہ یہ حدیثیں بتلاتی ہیں کہ جادو کا اتنا سخت اثر رہا کہ نا کردہ کام کو بھی باقاعدہ کیے گئے کام کی طرح خیال کیاجانے لگا۔ تو پھر جادو، ٹونا اورمنتر سے کچھ بھی کیا جاسکتاہے۔
چونکہ ان لوگوں نے دین اسلام کی بنیادی عقائد کو نظر انداز کرکے، انہیں پس پشت ڈال کر، ان حدیثوں کا مطالعہ کیا ہے۔ اس لیے یہ اس طرح کا دعوا کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اسلامی عقائد اور دینی مسلَّمات سے تجاوز کیے بغیر غور وفکر کرتے، تو وہ لوگ بھی یہی فیصلہ کریں گے کہ جادو کی یہ حدیث من گھڑت کہانی ہے، افسانے کے سوا کچھ نہیں۔ آخر ایسا کیوں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ
- اس کومانتے وقت اللہ کے ساتھ اس کو شریک کرنے کی حالت پیدا ہوجاتی ہے جو بہت بڑا گناہ ہے۔
- جادو کو برحق ماننے پر ہم کو قرآن کریم کی بہت ساری آیتوں کا انکار کرنے کی نوبت آئے گی۔
- اگر ہم یہ مان لیں کہ نبی ﷺ پر جادو کا اثر ہو ا جس سے آپ بہت زیادہ متاثر ہوئے، اور نفسیاتی طورپر نقصان پہنچا ،تو پھر قرآن کریم کی حفاظت مشکوک ہوجاتی ہے؟
- ان کے علاوہ اللہ کے رسول محمد ﷺ کی نبوت ورسالت پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتاہے۔
ہم نے شروع میں قرآن سے ٹکرانے والی چند حدیثیں پیش کی تھیں۔ مگر جادو کے متعلق جو حدیثیں وارد ہیں ،وہ ان گزشتہ حدیثوں سے بھی کہیں زیادہ قابل اعتراض واقع ہوئی ہیں، جن میں سے ایک ایک کا تفصیل کے ساتھ ہم جائزہ لیں گے۔
قرآن میں شک پید اکرنے والا جادوئی عقیدہ
دین اسلام کا سب سے بڑ امعجزہ قرآن کریم ہے ۔ ہر نبی کو اللہ کی جانب سے معجزہ عطا کیا گیا، جس کو دیکھنے کے بعد لوگ یقین کرتے کہ واقعی وہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی ہیں۔ تب ان پر ایمان لے آتے۔
چونکہ محمد ﷺ ہی آخری نبی ہیں ۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئیں گے۔ اس لیے معجزہ کو آنکھوں سے دیکھ کر ایمان لانے کا موقع آپ ﷺ کی امت کو نہیں ہے۔
تو آپ ﷺ کے بعد آنے والے لوگ، ان کو کیوں کر اللہ کا رسول مانیں گے؟ اسلام اس کا جواب دیتاہے کہ ان کے ایمان لانے کے لیے ہی قرآن کے نام سے ایک زندہ معجزہ دیا گیا ہے۔
-4981عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنَ الأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَيْهِ البَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ، فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ القِيَامَةِ»۔(البخاری)
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطاکیے گئے کہ (انہیں دیکھ کر ) لوگ ان پر ایمان لائے۔ (بعد کے زمانے میں ان کا کوئی اثر نہیں رہا) اور مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی (قرآن) ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی ہے۔ (اس کا اثر قیامت تک باقی رہے گا)۔(بخاری: 4981:7274)
قرآن کریم ثابت کرتاہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی جانب سے اترا ہواہے۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے، تو پھر یہ بھی ثابت ہوجائےگا کہ اس (قرآن) کو لے کر آنے والے محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
چودہ سو سال پہلے کا آدمی جو باتیں نہیں بتاسکتا مگر وہ سب قرآن کریم نے کہا جسے آج کا سائنسی دور ثابت کررہاہے۔
بہت پہلے ماہِ رمضان کی راتوں میں ہم نے ’’اسلام ہی الگ خوبیوں کا حامل دین‘‘ کے عنوان کے تحت ایک ماہ مسلسل بیان کیا جس میں خوب سمجھایا کہ یہ قرآن ایک زبردست معجزہ ہے۔
اگر آپ تمل زبان جانے ہیں تو ہمارے ویب سائٹ پر دیکھئے:
https://www.onlinepj.in/thaniuthu_vilangum_islam/
اگر ہم سچ مچ یقین کرتے ہیں کہ قرآن کریم ایک محفوظ معجزہ ہے تو پھر اس میں شک وشبہ پیدا کرنے والی کسی روایت کو خاطر میں نہ لائیں، بلکہ اس کو اٹھا کر پس پشت ڈال دیں۔
کیونکہ قرآن کی ایک الگ خصوصیت ہے جو کسی اور میں نہیں، وہ یہ کہ قرآن کریم میں شک کرنے کی گنجائش ہی نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(البقرہ2:آیت نمبر2) - (یونس10:آیت نمبر37) - (السجدۃ32:آیت نمبر2)
قرآن میں اس مفہوم کی اور بھی کئی آیتیں ہیں۔
مسلمانوں کے سوا بہت سے افراد کو قرآن میں شکوک اورشبہات ہیں۔ ایسے موقع پر اگر یہ کہاجائے کہ اس میں کوئی شک نہیں تو اس کو براہ راست معنی میں نہ سمجھاجائے، بلکہ وہ جملہ اس معنی ومفہوم میں کہا گیا ہے کہ اس میں شک کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے، بلکہ جتنے اشکالات پیش کیے جاتے ہیں ان سب کا جواب اسلا م میں ہے۔
جب اللہ نے قرآن کو لوگوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے نازل کیا ہے، تواس قرآن کو اس قابل ہوناچاہیے کہ لوگ اس کو مانیں ۔ تبھی اس کو کتاب الٰہی تسلیم کرکے راہِ راست پرآئیں گے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ یہ اہم دعوا کرتاہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
اگر نبی ﷺ پر جادو کا اثر ہوا تھااورچھ ماہ تک نفسیاتی مرض میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ ناکردہ کام کے بارے میں بھی ہمیشہ یہی خیال ہوتا اور کہتے کہ آپ وہ کام کرچکے ہیں یا کررہے ہیں۔ تو ان چھ مہینوں میں نازل شدہ آیتوں میں شک آسکتاہے،اوراشکال پیدا ہوسکتاہے۔
جادو کی حدیثوں کو ماننے والے(جادو کے قائلین) کے پاس چونکہکوئی واضح ثبوت نہیں ہے کہ وہ چھ مہینے کو نسے ہیں، جن میں جادو کا اثر ہوا؟ اس لیے مدینے میں نازل شدہ تمام آیتوں کے متعلق بھی یہ شک پید اہوگا کہ شاید یہ سب آیتیں ان چھ مہینوں میں نازل ہوئی ہوں۔
جادو کے قائلین کو اس کاجواب دینے نہیں ہورہاہے۔ اس لیے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ سوال اٹھتے اللہ تعالیٰ اعلان کرچکا ہے کہ قرآن کے خلاف جتنے شکوک وشبہات اوراشکالات آئیں گے سب کا بھی جواب موجود ہے۔
اگر کوئی شک کرتاہے کہ قرآن کتاب الٰہی نہیں ہوسکتی ،تو اللہ تعالیٰ اس کو معمولی بات قرار دے کر نہیں چھوڑتا۔ بلکہ اس کو للکارتا ہے کہ اس کی طرح ایک کتاب پیش کرے۔
(البقرۃ2:23) - (یونس10:38) (ھود11:13) (بنی اسرائیل17: 88) (الطور52 : 33,34)
جب دشمنوں نے قرآن کے متعلق یہ تبصرہ کیا کہ محمد ﷺ نے اس کو اپنی طرف گھڑ کر پیش کیا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو یوں ہی نظر انداز نہیں کیا کہ دشمن جو چاہے کہہ لے۔ شک کرے، اشکال پیش کرے، اور اعتراض کرے۔ صرف مسلمان اس کو مان لے کافی ہے۔ اس طرح اللہ نے ان سے بے رخی اختیار نہیں کی۔ بلکہ اس نے تمام لوگوں سے برملا اعلان کیا اور باقاعدہ ایسا چیلنج کیا جو ان کے شک وشبہ کا ازالہ کردے اور ثابت کردیا کہ یہ قرآن واقعی کتاب الٰہی ہے۔
نبی ﷺ کے دور کے مخالفین نے ایک اور اشکال کیا کہ یہ محمد ﷺ جو بے پڑھے لکھے ہیں، وہ ساری باتیں بتا نہیں سکتے ،اس لیے دوسرے گاؤں سے ایک آدمی آکر جواس کو سکھلاتاہے انہی باتوں کو یہ محمد ﷺ کتاب الٰہی کہتاہے۔
اللہ تعالیٰ اس سے کنارہ کش نہیں ہوا کہ کافر لوگ اس میں شک کرنے لگیں تو مجھے کیا پڑا ہے، بلکہ اس نے اس کا مناسب جوا دیا:
(الفرقان25:5) (النحل16:102,103)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی بلند پایہ عربی زبان اس کی فصاحت وبلاغت کی طرف اشارہ کرکے، اس کے حوالے سے سوال کرتاہے کہ جو شخص عربی نہیں ،عربی زبان کی فصاحت وبلاغت سے ناواقف ہے، وہ کس طرح فصیح وبلیغ قرآن سکھلا سکتاہے؟ اس سوال کے ذریعہ اللہ نے مخالفین کے منہ بند کردیا۔
کیا جس پروردگار نے قرآن کے سلسلے میں اٹھنے والے تمام اشکالات کا قابل قبول رد پیش کیا، کیا وہی اپنے بھیجے ہوئے رسول کو نفسیاتی مریض بناکر قرآن میں شک پیدا کرسکتاہے؟ کیاوہ اس کی گنجائش رکھ سکتاہے؟
اگر اس ناحیت سے غور کیا جائے تو نبی ﷺپر جادو کیے جانے کی روایت کے تعلق سے اوربھی یقین بڑھ جاتاہے کہ وہ من گھڑت کہانی ہی ہے۔
قرآن اللہ ہی کی جانب سے نازل کردہ ہے، کسی کو بھی اس میں شک نہیں ہونا چاہیے۔ اسی مقصد کے لیے اس نے نبی محمد ﷺ کو بے پڑھے لکھے ہی رکھا۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ قرآن کے متعلق یقین پید اکرنے اور اس میں کسی قسم کا شک نہ ہونے کے لیے کتنی اہمیت دی ہے۔
پڑھنا اور لکھنا انسان کے لیے ضروری ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کی ہے جیسا کہ اس کی طرف سے پہلے پہل اتری ہوئی آیتیں کہتی ہیں ۔
(العلق96: 4,5) (القلم68: 1)
جو اللہ یہ کہتاہے کہ حرف کے ذریعہ علم حاصل کیا جاسکتاہے، اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتاہے، سیکھا اور سکھایا بھی جاسکتاہے۔وہی اللہ نے صرف نبی ﷺ کو پڑ ھنے اور لکھنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔
نیز اس نے قرآن کریم کی الاعراف 7:آیت نمبر158،157 میں نبی محمد ﷺ کو ’’ اُمی‘‘ کہا ہے۔ واضح رہے کہ اُمّ کے معنی ماں کے ہیں۔ اوراُمّی کے معنی ماں پر منحصر رہنے والے کے ہیں۔ چونکہ ہاتھ کے بچے (شیر خوار بچہ) کا انحصار ماں پر ہی ہوتاہے۔ اس لیے اس بچے کو امّی کہاجاتاہے۔ پھر اس لفظ کا استعمال اس آدمی کے لیے ہونے لگا جو پڑھنا لکھنا جانتا نہ ہو۔ چونکہ وہ اس معاملے میں بالکل شیر خوار بچے کی حالت سے مطابقت رکھتاہے، اس لیے بے پڑھے لکھے شخص کو بھی ’’اُمی ‘‘کہاجانے لگا ۔
حدیبیہ کے مقام پر اللہ کے رسول محمد ﷺ اورمکے کے قبیلے قریش کے درمیان آپس میں صلح کا معاہدہ طے ہورہا تھا ۔اس کے شروع میں جب لکھا گیا کہ یہ اللہ کے رسول محمد کا صلح نامہ ہے۔ تو کفار مکہ نے اعتراض کیا کہ ہم تو محمد کو اللہ کا رسول نہیں مانتے ، اس لیے اس جملے سے لفظ ’’اللہ کا رسول‘‘ کو مٹایا جائے۔ اس واقعے میں کہا گیا کہ نبی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ اس حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
براءؓ نے بیان کیا :پھر معاہدے کے شرائط کو علی بن ابی طالبؓ نے لکھنا شروع کیا۔ اوراس طرح ’’یہ محمد رسول اللہ کے صلح نامے کے تحریر ہے‘‘۔ مکہ والوں نے کہا کہ ہم اگر جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، تو پھر آپ کو (مکہ جاکر عمرہ کرنے سے) روکتے ہی نہیں، بلکہ آپ پر ایمان لے آتے۔
اس لیے تم کو یوں لکھنا چاہیے’’یہ محمد بن عبداللہ کے صلح نامہ کی تحریر ہے"۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ گواہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں، اور اللہ گواہ ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ راوی نے کہا: آپ ﷺ لکھنا نہیں جانتے تھے۔
آپ ﷺ نے علی ؓ سے فرمایا: رسول اللہ کا لفظ مٹادے۔ علی ؓ نے (جوش ایمان اورمحبت کی بنا پر) عرض کیا: اللہ کی قسم ! میں یہ لفظ کبھی نہ مٹاوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر مجھے دکھلاؤ۔ علی نے آپ کو وہ لفظ دکھلایا تو آپ ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے اسے مٹادیا۔(بخاری: 3184 مختصر)
اس واقعے سے معلوم کرسکتے ہیں کہ آپ ﷺ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔
قرآن کریم کی کئی آیتیں اعلان کررہی ہیں کہ آپ ﷺ بے پڑھے لکھے تھے جیسے الانعام 6:آیت نمبر112، ا لاعراف7:آیت نمبر157،158، الفرقان25:آیت نمبر5 اور العنکبوت29:آیت نمبر48
اگر آپ کو لکھنا پڑھنا آتاہو تو لوگ تبصرہ کرسکتے ہیں کہ محمد ﷺ نے اپنی زبان دانی اور علمی قابلیت سے گھڑ کر قرآن کے نام سے کتاب الٰہی کہہ کر پیش کررہاہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو زیادہ اہمیت دیتاہے کہ قرآن کے کتاب الٰہی ہونے میں کسی کو شک نہ ہو۔ کوئی شبہ نہ ہو اور یہ بات ہم گمان کی بنا پر نہیں کہتے ، بلکہ اللہ ہی اس کا ذکر کررہاہے۔
(العنکبوت29:47-49)
اگر چہ تعلیم انسان کا درجہ اور مرتبہ بلند کرتی اور اعزازبخشتی ہے، مگر اللہ کے نبی محمد ﷺ کا بے پڑھنے لکھے رہنا ہی خوبی ہے۔
نبی ﷺنے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے پیغام (وحی) آرہی ہے۔ اور وہ وحی عربی کی بالکل معیاری زبان میں ہے، جو فصاحت وبلاغت کی بلندی کو چھورہی ہے۔ ایسے اعلا درجے کا کلام ہے کہ باقاعدہ للکار اورچلینج کیا گیاکہ اس جیسا کلام پیش ہی نہیں کیاجاسکتا۔
اگر آپ ﷺ پڑھے لکھے ہوتے، تو لوگ خیال کرتے کہ ا س نے اپنی سمجھ، رسائی، لیاقت وصلاحیت کو قرآن کے نام سے وضع کررہاہے ۔ غرض اس سے صرف یہ ثابت ہوگا کہ آپ قابلیت رکھتے ہیں، ماہر ہیں ۔مگر یہ ثابت نہیں ہوگا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
واضح رہے کہ محمد ﷺ کو عربی دان اور زبان عربی کے ماہر کہنے سے بھی اللہ کا رسول ماننا ہی بہترین درجہ اور اعلا مقام ہے۔
اگر آپ ﷺ پڑھنا لکھنا جانتے تو آپ کو براہِ رااست جولوگ دیکھ رہے تھے، وہ نہ آپ کو اللہ کا رسول مانتے اور نہ آپ کے سنائے ہوئے پیغام (وحی) کو کتاب الٰہی قرار دیتے۔
نبی ﷺ کو پڑھنا لکھنا نہیں آتاتھا۔ یہی وہ اصل وجہ ہے جس کی بنا پر اُس دور کے لوگوں نے بھروسا کیا اوریقین مانا کہ یہ بے پڑھا لکھا محمد ایک دم معیاری زبان میں پیغام سنارہا ہے۔ واقعی یہ اس کی قابلیت اور استعداد سے نہیں ہوسکتا، ممکن ہے کہ وہ پیغام اس کے کہنے کی مطابق اللہ کا پیغام ہو۔
محمد اگر پڑھنا لکھنا جانتے ہوتے، لوگوں کے لیے قرآن کو کتاب الٰہی ماننے میں رکاوٹ پیش آتی۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو پڑھنے لکھنے کا موقع ہی نہیں دیا ،تاکہ قرآن کے کتاب الٰہی ہونے میں کسی کو بھی شک نہ ہو۔
اگر ہم یہ مانیں کہ نبی ﷺ کو چھ مہینے تک نفسیاتی مرض میں مبتلا رہے، تو پھر قرآن کریم میں اوراس کی آیتوں میں شک پیدا ہوگا کہ یہ قرآن میں ہے یا نہیں؟ اس لیے ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ نبی ﷺ پر جادو کیے جانے کی بات سراسر جھوٹ اورمن گھڑت کہانی ہے۔
کیونکہ قرآن کریم کی سورہ النساء 4:آیت نمبر82 میں کہا گیا ہے کہ قرآن میں تضاد اور مخالفت نہیں ہے۔
النساء4:آیت نمبر82 ، بنی اسرائیل17:آیت نمبر41 ،الانبیاء 21:آیت نمبر10 ، المئومنون23:آیت نمبر68 ، الفرقان25:آیت نمبر73، ص38:آیت نمبر29 ،محمد 47:آیت نمبر24 میں سوال کیا گیا کہ کیا تم غور وفکر سے کام نہیں لیتے؟ نیز (سورۃ فصلت41:آیت نمبر42) میں اعلان کیا گیا ہے کہ قرآن میں باطل اور غلطیاں نہیں آئیں گی۔
ان کے علاوہ الحجر15:آیت نمبر9 ، الکھف 18:آیت نمبر1 ، الزمر39:آیت نمبر28 ، فصلت41:آیت نمبر42 ، القیامۃ75:آیت نمبر17 میں واضح کیا گیا کہ یہ قرآن ایسی کتاب الٰہی ہے جس کی پوری حفاظت ونگہداشت کی گئی ہے۔
یہ ساری آیتیں بتلارہی ہیں کہ قرآن میں ہم کو شک نہیں آنا چاہیے۔
اگر نبی ﷺ کو جادو کیا گیا جس سے آپ ﷺ چھ مہینے سخت متاثر رہے، اور ذہنی کیفیت پریشان کن رہی، اِذَا لَارْتَابَ المُبْطِلُونَ
'' تو باطل پرست شک وشبہ میں پڑجاتے'' کے مصداق ، وہ باطل پرست لوگ ان چھ مہینوں میں اتری ہوئی آیتوں کے سلسلے میں شک میں پڑجاتے۔
چنانچہ وہ لوگ یہ سوال کیے ہوتے کہ جو شخص نفسیاتی مرض میں مبتلا رہے، ذہنی کیفیت ٹھیک نہیں، اس کی باتوں کا کیا اعتبار؟ وہ اللہ کا پیغام کہہ کر ایسی بات بھی بتاسکتاہے جو اس کا پیغام نہ ہو؟ جو حکم اللہ کا نہیں، اس کو بھی وہ حکم الٰہی کیوں نہیں کہہ سکتا؟
علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ قوت یادداشت عطا کیا۔ چنانچہ دوسرے لوگ اپنے دل میں جتنی باتوں کو بٹھاتے، ان سے کئی گنا زیادہ باتوں کو نبی ﷺ دل نشین کرلیتے تھے۔ یہ اللہ کی جانب سے آپ ﷺ پر خصوصی عنایت تھی۔
(القیامۃ 75: 16-19)
اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ عام انسان کو جتنی قوت سے نوازا، اس سے کہیں زیادہ مزید قوت نبی ﷺکو قرآن کریم کی حفاظت کی خاطر عطا کرکے مضبوط کیا ہے۔ مگر آپ ﷺ پر جادو کیے جانے کی حدیث، آپ ﷺ کے دل کو کمزور سے کمزور ترین درجے تک لے جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مضبوط دل عطا کیا گیا تھا۔ مگر جادو کے قائلین اس طرح کے منظر پیش کرتے ہیں جس سے لگتاہے کہ آپ ﷺ کو کمزور دل رہا۔
نبی محمد ﷺ کو اللہ کے رسول ماننے سے انکارکرنے والوں نے آپ کو دیوانہ کہا۔ اورجادو کے قائلین اسی کو دوسرے الفاظ میں کہتے ہیں۔
قوم یہود ، اسلام کو گرانے اور نیست ونابود کرنے کی بھر پور کوشش کررہی تھی۔ چھوٹے سے چھوٹا معاملہ کیوں نہ ہو، ہر طرح نقصان پہنچانے کے لیے پوری طرح تیاررہتی تھی۔
اگر نبی ﷺ چھ مہینے نفسیاتی مریض رہے، اور یہ مرض یہودیوں کے جادو اورمنتر کے زور سے ہوا ،تو اس سنہر ے موقع کو وہ ہرگزہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے، بلکہ اس کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے۔ نبی ﷺ کو ذلیل کرتے اور اسلام کو شکست دیتے، ہرطرح زک دیتے اور یوں کہتے کہ کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے تمہارے رسول کو کس طرح بنادیا ہے؟ پھر بھی تم اس کو رسول مانتے ہو؟
مگر تاریخ شاہد ہے کہ کسی نے بھی نبی ﷺ کے خلاف اس طرح کا تبصرہ نہیں کیا۔
اس طرح کا اگر ہم سوال کرتے ہیں، تو جادو پارٹی کے لوگ اس کا بھی جواب دے کر نبی ﷺ کو نفسیاتی مریض بتانے میں ہی لگے ہوئے ہیں۔
چنانچہ ان کا جواب یہ ہے کہ نبی ﷺ کو جو نفسیاتی مرض لاحق ہوا، اس کا علم صرف آپ ﷺ کی بیویوں (امہات المومنین) کو ہوا ، چونکہ عام لوگوں میں کسی کو اس کا علم نہ ہوا، اس لیے اس قسم کا تبصرہ نہیں آیا۔
تو کیا جس نے جاد وکرکے نفسیاتی مریض بنایا، اس کو بھی معلوم نہیں ہوا؟ کیا جادو گر نے اپنی قوم والوں کے پاس یہ بات فخر کے ساتھ بیان نہیں کیا ہوگا؟ جادو پارٹی کے لوگ اس طرح کے سوالات کرنے سے پتہ چلتاہے کہ وہ علم سے ناواقف اورحقیقت سے ناآشنا ہیں۔
عام طورپر دنیا کا رواج یہی ہے کہ لیڈروں کے لیے زیادہ حفاظتی بندوبست کیاجاتاہے ،جس کی وجہ سے لوگ آسانی سے ان تک نہیں پہنچ سکتے ۔ ایسی حالت میں اگر اس لیڈر کو جنون کا عارضہ ہوجائے ،تو اسے لوگوں سے چھپایاجاسکتاہے، کسی کو خبر نہیں ہوسکتی۔
مگر نبی ﷺ کیا ایسی حالت میں رہتے تھے جس کی وجہ سے آسانی کے ساتھ ملاقات نہیں ہوتی ہو؟ کیا آپ حفاظتی دستہ کے حصار میں رہتے تھے؟ نہیں۔ ہرگز نہیں۔
آپ ﷺ لوگوں سے الگ تھلک نہیں رہتے، بلکہ عام لوگوں کے ساتھ مل جل کر ہی رہتے تھے، پانچ وقت نماز کے لیے بھی مسجد آتے تھے ، جو شخص بھی چاہے باآسانی آپ سے ملاقات اوربات چیت کرسکتاہے۔ منافق (جودل میں کفر ونفاق چھپائے ہوئے ہیں وہ) لوگ بھی مسجد آکر آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔
اگر نبی پر جادو کیا گیا منتر کا اثر پڑا ہو، جس سے آپ چھ ماہ متاثر رہے تھے، تو یہ بات آسانی کے ساتھ تمام لوگوں تک پہنچ جاتی، اور وہ سب بھی معلوم کرلیتے۔
چنانچہ وہ منافقین کیا یہ معاملہ نہیں اچھالیں گے کہ ہم نے محمد کو پہلے ہی دلیل کے بغیر دیوانہ کہا تھا، اوراب ان کی بیویاں خود بھی اس کا اقرار کررہی ہیں؟ کیا وہ لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے نہیں روکیں گے؟ اورنئے نئے مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنے کے لیے اس حربے کا استعمال نہیں کریں گے؟
مگر آپ کو تعجب ہوگا کہ اس قسم کی ایک روایت بھی کسی کتاب میں درج نہیں ہے۔ اللہ کہتاہے کہ :
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والےہیں (١)۔( دیکھیےالحجر15:آیت نمبر9)
قرآن کی حفاظت کرنے کے لیے نبی ﷺ کے دل کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ دل مسخ ہوجائے تو بات اورپیغام بھی مسخ ہوجائےگا۔ تب یہ مسخ قرآن کی حفاظت کے حوالے سے، اللہ کے قول اور اس کی ضمانت میں شک پیداکرے گا۔
چونکہ یہ جادوئی عقیدہ سب سے بڑا معجزہ قرآن کو شک میں دائرے میں لاتاہے۔ اس کو مشکوک ٹھہرانے کا موجب بنتاہے۔ اس لیے کیا کوئی مسلمان یہ مان سکتاہے کہ نبی ﷺ پر جادو کیا گیا ، جس سے آپ ذہنی طورپر بری طرح متأثر ہوئے اور نفسیاتی مریض بن گئے؟
جب غیر مسلم حضرات کو نبی ﷺ کے سحر زدہ ہونے کا پتہ چلے گا، تو کیا وہ آپ ﷺ کو اللہ کا رسول مانیں گے؟ اور اسلام کو قبول کریں گے؟ یا اُن یہودیوں کے پاس جائیں گے جومعجزاتی کلام(قرآن) پیش کرنے والے نبی پر ہی جادوئی کرشمہ دکھایا تھا؟
مسلمانوں کو اللہ پر ایمان ہونا چاہیے مگر نبی ﷺ کو جادو کے بل بوتے پر نقصان پہنچانے کی کہانی جو ہے اللہ پر ایمان میں شک پید اکرتی ہے۔
مسلمانوں کو کتابِ الٰہی قرآن پر ایمان لانا چاہیے۔ مگر یہ اس میں شک پیدا کرتی ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو نبی ﷺپر بھی ایمان لاناچاہیے۔ مگر یہ کہانی اس عقیدےمیں بھی شبہ ڈالتی ہے۔
سب سے خطرناک عقیدہ یہ کہ جادو گر کو قدرت واختیار والا مانا جا تا ہےجو اسلام کی بنیاد ہی کو ہلا کررکھ دیتاہے۔
اللہ تعالیٰ کو ماننے میں کسی قسم کا شک نہیں آنا چاہیے۔ اسی طرح قرآن، اللہ کی کتاب ہے، اس میں ذرہ برابر شک نہیں ہونا چاہیے ۔بلکہ ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس معاملے میں شک پیدا کرنے والی کسی روایت کو نہ مانیں، اور اس کو پوری طرح ٹھکرائیں۔
فرض کیجئے کہ ایک باپ اپنی اولاد میں سے صرف ایک بیٹے کو اپنی ساری جائیداد لکھ کر فوت ہوجاتاہے، تب اس کی دیگر اولاد یہ ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ باپ جس وقت جائیداد کی وصیت لکھ رہے تھے، اس وقت ان کی دماغی حالت خراب تھی۔ اوران کو جنون کا عارضہ ہوگیا تھا ، اور ثبوت اس طرح پیش کرے کہ عدالت کو ان کی باتوں پر یقین آجائے، تو پھر عدالت یہ فیصلہ سنائے گی کہ باپ کی دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔ اس لیے ان کے وصیت نامہ کو یہ عدالت مسترد کرتی ہے۔ چنانچہ ان کی ساری جائیداد ان کی دیگر اولادکو چھوڑ کر صرف ایک بیٹے کو نہیں دی جاسکتی۔
نہ صرف ہندوستان، بلکہ دنیا بھر کے ملکوں میں بھی یہی قانون ہے۔ نیز عرب ممالک میں بھی یہی قانون ہے۔
آدمی کو جب پاگل پن آتاہے، جنون لاحق ہوتاہے ،تو پھر اس کا سارا لین دین ناقابل قبول اور مسترد قرار دیاجاتاہے۔
غرض ہم نے جائیداد کے معاملے میں صحیح طور پر سمجھا ہے ۔مگر دین کے معاملے میں ہی بے ڈھنگے طریقے سے غورکرنا اور الٹا سیدھا فیصلہ لینا کیا یہ صحیح ہو سکتا ہے؟
کیا کوئی یہ کہہ سکتاہے میرا ماننا ہے کہ قرآن پوری طرح محفوظ ہے اور یہ بھی مانتاہوں کہ قرآن محفوظ نہیں ہے؟
کیا کوئی عقل رکھنے والا یہ کہہ سکتاہے کہ میں ایمان رکھتاہوں کہ اللہ کی طرح کوئی بھی کسی معاملے میں بھی نہیں کرسکتا ، اور میں اس بات پر یقین رکھتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرح صرف جادو گر کردکھاسکتاہے؟
جس شخص کو قرآن کریم پر پورا یقین اورمضبوط ایمان ہے، نیز محمد ﷺ کی حد درجہ عزت وتوقیر کرتاہے، وہ اس بات کو کس طرح مانےگا کہ آپ ﷺ کو جادو کیا گیا جس سے آپ کا ذہنی توازن برقرار نہ رہا؟
جب ہم اس طرح کے سوالات کرتے ہیں، توجادو پارٹی کے لوگ پلٹ کر ہم سے ایک الٹا سوال کرتے ہیں کہ وہ یہ کہ نبی ﷺ کو بھول ہوجاتی تھی، تو کیا غیر مسلم لوگ یہ سوال نہیں کریں گے کہ بھول اورنسیان کی دجہ سے قرآنی آیتیں آپ ﷺ کیوں نہیں بھولے ہوں گے؟ اس لیے کیا تم دعوا کروگے کہ آپ کو کوئی بھول اور سہو نہیں ہوئی۔
گویا ان لوگوں کی نظروں میں ایک آدمی کا پاگل ہونا ،اور ایک آدمی کا چند باتوں کو بھول جانا، دونوں برابر معلوم ہوتاہے۔
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا واضح جواب دیتے ہوئے فرمایا: جس آیت کو ہم بھلادیں، اس سے بہتر لاتے ہیں۔ دیکھیے
البقرۃ2:آیت نمبر106۔
یہ آیت وضاحت کررہی ہے کہ نبی ﷺ اللہ کی مرضی سے کچھ بھول جائیں ، تو اس کے سوا ساری آیتیں جن کو آپ ﷺ نے لوگوں تک پہنچادیں، وہی قرآن ہے۔اورجو باتیں آپ ﷺ نے لوگوں کو نہیں بتائیں، وہ قرآن نہیں ہے۔ اس طرح کہنے میں کوئی الجھن نہیں آئے گا۔
بھول ، نسیان جو ہے ذہن میں موجود باتوں میں کمی کردیتاہے، جب کہ نفسیاتی مرض وہ ہے جو ناپید اور معدوم کو موجود اور حاضر قرار دے۔
جادو پارٹی کے لوگ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کو اس قسم کا عارضہ لاحق ہوا ۔وحی آئے بغیر ہی، وحی آئی کہنا کیا بھول اور نسیان کی طرح ہے؟ وحی آئے بغیر ہی یہ کہے ہوں گے کہ ابھی وحی آئی۔ کیا اس طرح کہنا بھول اور نسیان کی طرح ہے؟
اگر بھول ہو بھی جائے، تب بھی اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جو اس نے چاہا کہ ہم تک پہنچے، وہ ہم تک پہنچ گیا۔ اس میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔ جب کہ نفسیاتی مرض یہ ہے کہ نبی ﷺ کے ذہن میں یہ خیال برابر ابھرتے رہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے یوں کہا ۔حالانکہ اس نے کچھ نہیں کہا ہوگا۔ اس طریقے سے ہر آیت میں شک پیدا کرے گا۔
نبی ﷺ کے بھول اور نسیان کی وجہ سے اب قرآن میں موجود کسی آیت میں بھی شک نہیں آئے گا۔
علاوہ ازیں قرآن کی حد تک جب بھی وحی آتی ہے، قرآنی پیغام آتاہے، اسی وقت نبی ﷺ نے کاتبین وحی کے ہاتھوں لکھوادیا تھا۔ قرآنی آیتیں نازل ہوتے ہی فوراً ان کو قلم بند کرلیاجاتا تھا۔ کوئی آیت نہیں چھوٹتی۔ ا س لیے اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔
غرض ان لوگوں کو اس فرق کا احساس ہوناچاہیے۔
جادوئی عقیدہ جو معجزات کو بے معنیٰ کردیتا ہے
ایک اور وجہ سے بھی یقین ہوجاتاہے کہ نبی ﷺ پر جادو کرکےانہیں متاثر نہیں کیا جاسکتا۔
کسی آدمی کو لوگ اللہ کا رسول ماننے کے لیے اللہ نے کس طرح کا انتظام کیا تھا؟ کیونکہ جن کو اللہ کے رسول بناکر بھیجا گیا تھا، وہ انسانوں میں سے چنے اور منتخب کیے گئے تھےجو ہر لحاظ سے انسان ہی رہے۔
جو آدمی ہر لحاظ سے عام آدمی کی طرح ہی ہے پھر بھی وہ اپنے آپ کو اللہ کے رسول ہونے کا دعواکررہاہے، تو یہ بات لوگوں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی۔
ذیل میں قرآنی آیتیں ملاحظہ فرمائیں:
(بنی اسرائیل17:آیت نمبر 94) (یٰسٓ36:آیت نمبر 15) (الشعراء26:آیت نمبر 186) (الشعراء26:آیت نمبر 154) (الفرقان25:آیت نمبر 7) (المؤمنون23:آیت نمبر 33) (المومنون23:آیت نمبر47) (الانبیاء21:آیت نمبر 3)
ہر زمانے میں لوگوں نے یہی خیال کیا کہ انسان کی طرف سے جس کو قاصد اور نمائندہ بناکر بھیجا جاتاہے وہ انسان ہی ہوتاہےتو اللہ کی جانب سے بھیجاگیانمائندہ انسان کیسے ہوسکتاہے؟ اس کو تو انسانی صفات سے بالاتر ہوناچاہیے۔
لوگ اس طرح خیال کرنے کی مناسب وجہ بھی ہے ۔اگر یہ کہاجائے کہ کوئی اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہے، تو اس پر فوراً ایمان لاناچاہیے، تو پھر چورکا دروازہ کھل جائے گا، اور یہ نوبت آئے گی کہ جو شخص بھی خود کو رسول ہونے کا جھوٹا دعواکرے، اس پر بھی یقین کرنا پڑے گا۔
اس لیے لوگوں کی یہ خواہش تھی کہ اللہ کے رسول ﷺ عام آدمیوں سے کسی طرح الگ اور ممتاز رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خواہش ایک حد تک قبول کرلیتا ہے۔
اللہ جن کو بھی اپنا رسول بناکر قوم کے پاس بھیجتا ہے ،تو ان کے ساتھ چند ایسے معجزات بھی دے کر بھیجتاہے جو یہ ثابت کردیتے ہیں کہ وہ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔
لوگ جب رسول کا ایسا معجزہ دیکھتے ہیں جس کو دیکھ کر دیگر لوگ اس طرح دکھا ہی نہیں سکتے،تب سیدھی نظر رکھنے والوں کو اور اہل بصیرت کو ان کے رسول ہونے پر ایمان لانے میں کوئی ہچکچاہٹ ، جھجک اور تامل نہیں ہوتا۔
اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور نبی ﷺ کو معجزات کے ساتھ ہی بھیجا۔ قرآن کی مختلف آیتیں اس بات پر دلالت کررہی ہیں ۔ غرض تمام رسولوں کو بھی اس لیے معجزات عطاکیے گئے تاکہ وہ ان معجزات کے ذریعے سے یہ ثابت کردیں کہ واقعی وہ اللہ کے رسول ہی ہیں۔ چنانچہ وہ ان معجزات کے بدولت ہی اللہ کے رسول مانے گئے۔ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
(آل عمران3:آیت نمبر 184) (الاعراف7:آیت نمبر 101) (فاطر35:آیت نمبر25) (یونس10:آیت نمبر 74) (یونس10:آیت نمبر13) (المؤمن40:آیت نمبر22) (التوبہ9:آیت نمبر70) (التغابن64:آیت نمبر6) المؤمن40:آیت نمبر50)
(الحدید57:آیت نمبر25) ان آیتوں سے معلوم کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت ورسالت ثابت کرنے کے لیے نبیوں کو معجزات سے نوازا، اورکوئی نبی ایسا نہیں آیا جسے معجزہ نہ دیا گیا ہو۔ بلکہ ہر نبی کو لازمی طورپر معجزہ عطا کیا گیا۔
ہر نبی اپنا معجزہ قوم کے سامنے ظاہر کرنے کے ذریعے ہی اپنے آپ کو اللہ کا رسول ثابت کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔
ایسی حالت میں اگر یہودی لوگ نبی ﷺ پر ہی جادو کیا ہو، اوراس کے زور دار اثرسے آپ ﷺ کے عمل ہی کو موقوف کردیا ہو، تو عام لوگ آپ ﷺ کے مقابلے میں یہودیوں نے جو کردکھایا، اس کو بڑا معجزہ سمجھے ہوں گے۔
اللہ نے پیغام پہنچانے کے لیے جس شخص کو منتخب کیا،اس پر جب جادو کردیا جائے، اس کے عمل کو موقوف کردیا جائے، اور ذہنی طورپر متاثر کردیا جائے، توغور کیجئے کہ اس زمانے میں کس طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہوں گے اور اس کا نتیجہ کیسا رہا ہوگا؟
لوگوں میں بہت سارے یہ خیال کیے ہوں گے کہ یہ محمد ﷺ جو ہم جیسا ایک آدمی ہونے کے باوجود، چونکہ وہ چند معجزات دکھلائے ،اس لیے ہم ان پر یقین کیے اورایمان لائے ۔مگر آج حالت الٹی ہوگئی ہے ،جو ان کے دشمن تھے انہوں نے محمد کے نفسیات کو جادو سے متاثر کردیا ،اورذہنی طورپر ان کو بری طرح نقصان پہنچادیا ہے، لگتاہے کہ ان سے وہ یہود زیادہ قدرت رکھتے ہیں ۔
اُس دور کے لوگ کہے ہوں گے کہ یہ(محمد) جو پیش کیا وہ ایک جادو گر کے کرتب کے مقابلے میں معمولی ہے ۔اس لیے یہ اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا۔
کوئی کہہ گا کہ محمد نے جو کرشمہ دکھایا، اس سے بڑا کرشمہ یہودیوں نے کردکھایا یعنی جس نے معجزہ ظاہر کیا ،اسی کو ان لوگوں نے جادو منتر کے زور سے گرادیا۔ اس قسم کاتبصرہ کسی نے نہیں کیا اور یہ وجہ بتاکر کسی نے اسلام سے باہر نہیں گیا۔ اور مرتد نہیں ہوا۔
اسی سے واضح ہوجاتاہے کہ کسی قسم کے آلے کے بغیر، کسی اوزار کے وسیلے کے بغیر، کسی ہتھیار کی مددلیے بغیر ،کنگھی اور بالوں کے استعمال کرکے اللہ کے نبی ﷺ کو گرادینا اورنقصان پہنچانے کی بات کرنا من گھڑت کہانی اور افسانہ ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ رسولوں کے خلاف دشمنوں کو کرشماتی قدرت دے کر ،اس کے ذریعہ ایمان والوں کو سیدھی راہ سے بھٹکنے ،اورگمراہی میں پڑنے ہرگز نہیں چھوڑے گا ۔اس لیے اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ نبی ﷺ پر جادو نہیں کیاجاسکتا۔
یہ کہنے کے لیے کہ جادو سے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا، اور بھی کئی دلائل ہیں۔
غیب کی جن باتوں کو اللہ نے کہہ دیا ہم ان پر ایمان لاتے ہیں۔ فرشتے ،جنّ ، شیطان ، جنت ، دوزخ اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا غرض اللہ تعالیٰ کئی باتیں بتلاتاہے۔
تمام مسلمان ان باتوں کو جانچے بغیر ،آزمائش وامتحان کے بغیر ہی ایمان رکھتے ہیں۔ کیوں کہ یہ ٹیسٹ کرکے جاننے کی بات نہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا صرف اس وجہ سے مانتے اور ایمان رکھتے ہیں۔
البتہ چند باتیں ایسی بھی ہیں جن کو جانچا جاسکتاہے ۔چنانچہ انہیں باقاعدہ جانچ پرکھ کر ہی ماننا چاہیے کہ سچ ہے یاجھوٹ! محض اندھے پن سے نہیں ماننا چاہیے۔
مثال کے طورپر اگر یہ کہاجائے کہ گنجے سروالے کو یہ تیل لگانے سےبال اگ آئیں گے، تواس بات کو ٹیسٹ اورآزمانے کے بعد ہی ہم استعمال کرتے ہیں۔
ٹھیک اسی طرح جب شرک کامعاملہ آتاہے تو اس موقع پر بھی جانچ کر ہی معلوم کرنا ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ ’’جادو گر فلاں فلاں کام کرسکتاہے۔ وہ اس کی قدرت رکھتاہے‘‘ تو اس کو ہم بھی ٹیسٹ کرکے معلوم کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیں شرک کے خلاف اسی طریقے کو اپنانے کی تعلیم دیتاہے۔
(فاطر35:آیت نمبر40)
(الاحقاف46:آیت نمبر4)
اگر یہ مسئلہ پیش آئے کہ کیا اللہ کی طرح کسی کو قدرت حاصل ہے؟ تو اس کو ثابت کردکھانے کے لیے کہاجائے ۔ مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ ہمیں یہی راستہ دکھاتا اور اسی کی رہنمائی کرتاہے۔
اگر جادوگر کے پاس غیر معمولی طاقت ہو اور کرشمہ دکھانے کی قدرت ہو، تو اس کو ثابت کر دکھانے کے لیے اس سے مطالبہ کیاجائے پھر اگر وہ اس کو ثابت نہ کرسکا تو معلوم کرسکتے ہیں کہ وہ جھوٹ کہہ رہاہے۔ اس کے پاس کوئی عجیب وغریب قدرت نہیں ۔ غرض حقیقت جاننے کا یہ طریقہ ہم کو اسلام نے بتایا ہے۔
اگر یہ سوال کیاجائے کہ کوئی جادو گر ہوتو ہم کو بتاؤ، ہم جو کہیں وہ اس کو کردکھائے ،یا کم از کم وہ جادو گر جس قدرت واختیار کا دعوا کرتاہے اسی کو کردکھائے ،پھر بھی کوئی آگے نہیں آتا۔
(الاعراف7:آیت نمبر191-195)
کہتے ہیں کہ بتوں کے ہاتھ پیر بنائے گئے ہیں جن سے وہ لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ: یہ ہمارا عقیدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کو نہیں مانتا۔ بلکہ اس شرک کے خلاف ہمارا موقف کیاہوناچاہیے؟ وہ ہمیں سکھاتاہے کہ بت کے جو ہاتھ ہیں ان سے وہ کچھ پکڑ کر دکھائے؟اور ان کے جو پیر ہیں ان سے وہ باقاعدہ چل کردکھائے؟
اگر جادو گر کو غیر معمولی قدرت ہے جو عام آدمی کو نہیں ہوتی، تو ہم سوال کرتے ہیں کہ وہ اس کو کرکے دکھائے اور ثابت کرے۔ اگر کوئی بھی اس کے لیے آمادہ نہ ہو تو ہم کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جادو منتر میں کوئی قدرت نہیں ۔ ٹونا ، طلسم اور افسوں میں کوئی اثر نہیں ۔ ایسا سمجھنا ہی قرآن کی بنیاد پر لیاجانے والا صحیح فیصلہ ہے۔
اسی طرح جب ہم بحث کرتے ہیں تو دیگر نظریات کے لوگ ہمارے بارے میں شرم کے بغیر یوں کہتے ہیں کہ یہ لوگ تمام مسائل میں جھگڑتے اور معقول طریقے سے بات کرتے ہیں۔
غرض جادو کو ماننے والے ، نادان بن کر ، علمی انداز سے بحث کرنے والوں کو حقارت کے ساتھ تصویر کھینچ دیتے ہیں۔
اسلام میں معقول طریقے سے بحث کیاجائے۔ چنانچہ نبی ہود علیہ السلام اس طریقے کو اپناتے ہوئے چیلنج کیا۔ ملاحظہ ہو:
(ھود11:54-55)
جس طرح ہود علیہ السلام نے کہا اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ جادو گر کوئی قدرت اور اختیار نہیں رکھتا وہ کسی کا کچھ پگاڑ نہیں سکتا۔ اگر وہ کچھ کرسکتاہے تو ہم چیلنج کرتے ہیں کہ ہم پر جادو کردکھائے۔
(الاعراف7:194)
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ کتنے اچھے انداز میں تمہیں سکھاتاہے کہ وہ لوگ اگر یہ دعوا کریں کہ بتوں کو قدرت ہے، تو ان سے مطالبہ کرو کہ وہ قدرت ثابت کردکھائیں۔
معاملہ اگر شرک کا آئے، تو اس کاحل اس کو ثابت کردکھانے کا مطالبہ ہی ہے۔ چونکہ جادو منتر بھی شرک کی حالت سے مطابقت رکھتاہے،اس لیے اس جادو کے معاملے کا بھی ٹیسٹ کرنا، آزمانا اور امتحان لینا ہی صحیح طریقہ ہے۔
جادو گروں میں نام کے مسلمان بھی پائے جاتے ہیں۔ اگر ان میں کچھ بگاڑنے کی قدرت ہو،تو عالمی سطح پر، یاہندوستان کی حدتک جو لوگ مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں، ان پر جادو کرکے ان کا کچھ پگاڑکر قوم کا بھلاکرسکتے تھے۔
غیر مسلموں میں بھی جادو گر ہیں ۔ہمارے دیس کے سیاسی لیڈران ان کا استعمال کرکے اپنے حریف اورمد مقابل پر جادو کرکے ،انہیں گونگا بنادیتے تو کافی تھا ۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
میں تمام مذہب کے جادو گروں کو جو یہ کہتے ہیں کہ ہم جادو کے بل بوتے پر سب کچھ کریں گے، للکارتاہوں ،اورچیلنج کرتاہوں کہ جادو منتر سے کوئی میرا کچھ بھی بگاڑنہیں سکتا۔
وہ جادوگر، مجھ پر یعنی زین العابدین پر جادو کردکھائیں ،جس کے لیے وہ مجھ سے جو بھی مانگیں، دوں گا۔ قدموں کے نیچے کی مٹی، جو قمیص پہناہوںوہ ،سر کے بال اور وہ سب بھی، جسے وہ جادو گر چاہے ضرور دوں گا۔ بہرحال وہ مجھ پر جادو کردکھائے۔
وہ اس سلسلے میں مجھ سے باقاعدہ معاہدہ کرے اور اس کا بھی ذکر کرے کہ وہ کس دن اور کس وقت مجھ پر جادو کرنے والے ہیں ؟ آپس میں معاہدہ ہونے کے بعد وہ اشتہار دیں کہ
1) کیا وہ جادو کے زور سے مجھے جان سے ماردیں گے؟
2) یا میرے ہاتھ پیر کے حرکت وعمل کو موقوف کردیں گے اور وہ شل ہوجائیں گے
3) یا پھر نفسیاتی مریض بنادیں گے؟
اور ہم بھی باقاعدہ اس کا اشتہار دیں گے۔ اور اس کو لوگوں تک پہنچادیں گے۔
وہ جادو گر میرا بگاڑنے کے لیے جو دن اور جو وقت مقرر کردیتے ہیں اس دن، مقررہ وقت اور مقررہ جگہ پر میں نمایاں جگہ(اسٹیج) پر آکر بیٹھ جاؤں گا ۔ تا کہ لوگوں کا بہت بڑا مجمع اس کو دیکھتا رہے ،وہ جس قسم کے جادو کرنے کا اعلان کیا، اس کے مطابق اس کا اثر مجھ پر دکھائے؟ تو میں پچاس لاکھ روپئے کا انعام دینے تیار ہوں۔
جادو گر جس مذہب کا بھی ہو وہ مجھ پر جادو کرکے یہ انعام حاصل کرلے۔ اگر کوئی جادو گر کہے کہ یہ انعام کم ہے تو میں ا س کو اور بھی زیادہ دینے کے لیے تیار ہوں۔ میں اس کا برملا اعلان کرتاہوں۔ یہ چیلنج ہی ان شاءاللہ ثابت کردے گا کہ جادو منتر جھوٹ ہے، باطل ہے ۔ اور اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
میں چونکہ جادوگروں کی آمدنی اورگزارے کو مٹی میں ملا رہاہوں۔ اس لیے ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا ذریعہ معاش کا سلسلہ برقرار رکھنے کے لیے مجھ پر جو رکاوٹ ڈال رہاہوں جادو کرے ۔
قرآن نبی ﷺپر جادو کیے جانے کا انکار کرتاہے
اللہ کے آخری رسول محمدﷺ اور آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیائے کرام جب اپنے آپ کو اللہ کے بھیجے ہوے رسول کہنے لگے، تو قوم کے کافروں نے ماننے سے انکار کیا۔ آخر اس کی وجوہات کیا ہیں؟
وہ کہنے لگے کہ : ×تم کھاتے ہو اور پیتے ہو
× تم بس ہم جیسے انسان ہو
× تم کہانت کرنے والے (کاہن ) ہو
×مہارت رکھنے والے شاعر ہو
×تم پر کسی نے جادو کردیاہے جس کی وجہ سے تمہارا دماغ خراب ہو کر بکواس کررہے ہو
اللہ تعالیٰ نےاُن کے پہلے اور دوسرے تبصروں کو قبول کرتاہے، جب کہ نبی ﷺپر جادو کیے جانے کی بات کو، انہیں کاہن اور شاعر وغیرہ کہنے کو سختی سے انکار کرتاہے۔ ذیل میں ان کے متعلق چند قرآنی آیتیں ملاحظہ ہو:
(بنی اسرائیل17:آیت نمبر94)
(یٰسٓ36:آیت نمبر15)
(الشعراء26:آیت نمبر186)
(الشعراء26:آیت نمبر154)
(الفرقان25:آیت نمبر7)
(المؤمنون23:آیت نمبر47)
(الانبیاء21:آیت نمبر3)
اس طریقے سے جب انبیا ء کرام پر تبصرہ کیا گیا، تب اللہ نے اس کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ جواب میں کہا کہ انبیا ء تو انسان ہی ہیں۔
(ابراہیم14:آیت نمبر11)
(بنی اسرائیل17:آیت نمبر93)
(الحج22:آیت نمبر7-8)
لوگوں کا یہ عقیدہ رہاکہ جادو اثر کرنے والا ہے چنانچہ جادو منتر سے کسی کو متاثر کیاجاسکتاہے اور اس کی عقل میں فتور لایاجاسکتاہے ۔جب نبی ﷺ نے لوگوں کو جنت اور دوزخ وغیرہ کے بارے میں بتایا ،تو چونکہ ان لوگوں کے علم ودانش میں وہ باتیں نہیں آئیں اور سمجھنے سے قاصر رہے۔ اس لیے کہنے لگے کہ اس (محمد) کو دیوانہ پن اور جنون لاحق ہوگیا ہے ،اور یہ کسی کے جادو کردینے کے نتیجے میں پیدا ہواہے۔
جب یہ کہاجاتاہے کہ نبی ﷺ پر جادو کیا گیا، یا جب یہ کہاجاتاہے کہ (جادو سے) نبی ﷺ کو نفسیاتی مرض لاحق ہوگیاہے، تواللہ تعالیٰ اس کا سختی سے تردید کرتاہے۔
(بنی اسرائیل17:آیت نمبر47)
(الفرقان25:آیت نمبر8)
جولوگ نبی ﷺپر جادو کیے جانے کا تبصرہ کرتے ہیں مذکورہ آیتیں ان کے متعلق اعلان کرتی ہیں کہ وہ بڑے ظالم ہیں ،ناحق غلط بات منسوب کرتے اور جھوٹا الزام لگاتے ہیں۔
نبی ﷺ پر جادو کرنا اگر معمولی بات ہوتی کہ اس سے تبلیغ ورسالت کی ذمہ داری پر کوئی اثر نہیں پڑتا، تو پھر اللہ تعالیٰ ان کے اس تبصرے کی تردید نہیں کرتا۔
جب لوگوں نے یہ تبصرہ کیا کہ یہ نبی کھاتا ہے اورپیتابھی ہے۔ تو چونکہ نبی کے کھانے اور پینے سے نبوت ورسالت کی فرائض پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید نہیں کی۔ بلکہ یہ جواب دیا کہ تمام انبیا بھی کھاتے اور پیتے رہے۔
مگر جب لوگوں نے یہ کہا کہ نبی ﷺ پر جادو کیا گیا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا رد کرتے ہوئے کہتاہے کہ یہ بے انصاف اور ظالم ہیں جوا س طرح کی باتیں بنالیتے ہیں۔ جادو کیے جانے پر اگر نبی ﷺاس سے متاثر ہو تو اس کا اثردعوت وتبلیغ اورپیغام رسانی پر ضرور پڑے گا ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ اس کا انکار کرتاہے۔
بعض لوگ یہ کہیں گے کہ ہوسکتاہے کہ یہ آیت نازل ہوتے وقت آپ ﷺ پر جادو نہ کیا گیا ہو ، اوربعد میں اس طرح کیا گیا ہو ۔مگر یہ بات قابل قبول نہیں۔
کیونکہ اگر بعد میں جادو کیا جائے گا تو وہ اللہ کو ضرورمعلوم رہے گا۔ آئندہ جادو کیے جانے کی بابت جاننے والا اللہ، آج ہی اس کا انکار اور تردید کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اگر یہ لوگ مذکورہ دونوں آیتوں کو پھر اس کے بعد کے آنے والی آیتوں پر غور کرتے ،تو اس قسم کی باتیں نہیں کرتے۔ وہ آیتیں حسب ذیل ہیں:
(الفرقان25:آیت نمبر9)
(بنی اسرائیل17:آیت نمبر48)
جن لوگوں نے نبی ﷺ کو سحر زدہ کہا، انہیں اللہ تعالیٰ یہاں پر گمراہ قرار دیتاہے، اور کہتاہے کہ وہ سیدھی راہ نہیں پاسکتے۔
جن پر جادو کیا ہی نہیں جاسکتا، ان کو یہ لوگ سحر زدہ کہتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ دیکھو! یہ لوگ کج فہمی کی بنا پر کس طرح تبصرہ کررہے ہیں۔
قرآن کریم کے واضح فیصلے کے مطابق یہ بات یقینی ہے کہ نہ نبی ﷺ پر یا کسی اور نبی پر کوئی جادو کرسکتاہے اور نہ اس کے ذریعہ ان کے عمل کو موقوف کرسکتاہے۔
کافروں نے نہ صرف یہ کہا کہ نبی ﷺ سحر زدہ ہیں، بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ دیوانے اور مجنون ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جادو کو ماننے والے بھی تو یہی کہہ رہے ہیں۔
وہ جو کہنا تھا سو کہہ دیے۔ مگر اب سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم نے یہ کہا کہ نبی ﷺ کو جادو سے پاگل پن او رجنون لاحق ہوا؟
یہ کس طرح کی بات ہے! اور یہ کیسی باتیں کررہے ہیں! یہ سمجھنے کے لیے ذیل کی مثال پر غور کیجئے۔
ہم کو یہ خبر پہنچتی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کا مال چھپ کر اڑالیا، اورہم اس کا ذکر کرتے وقت کہیں گے کہ اس شخص نے دوسرے کامال چوری کی۔
کوئی یہ اطلاع دیتاہے کہ فلاں آدمی سوتے وقت حلق سے خرخر کی آواز نکالتاہے، تو آپ یوں کہیں گے کہ وہ آدمی خراٹے لیتاہے۔
اسی طرح یہ کہنے کے لیے کہ اس نے غصے میں ہوش وحواس کھو دیا اور سودائی ہوگیا، تو یہ کہیں گے کہ اسے جنون آگیا ہے، وہ پاگل ہوگیا ہے۔ عوام میں اس طرح کا رواج ہے کہ ایک خبر کو کئی مختلف الفاظ کے ذریعہ واضح کیاجاتاہے۔ اسی طرح نبی ﷺ کو جو نفسیاتی مرض لاحق ہوا، اس کے لیے اگر چہ یہ لفظ روایتون میں استعمال نہیں ہوا، مگر اس کامفہوم اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
چنانچہ یہ کہنا کہ نبی ﷺ چھ مہینے اپنے ناکردہ کام کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ آپ نے وہ کام کردیا ہے، اور یہ کہنا کہ آپ ﷺ چھ مہینے نفسیاتی مریض رہے، دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ اگر چہ دونوں جملوں کے الفاظ کی ترکیب الگ الگ ہے۔
وہ لوگ بولے کہ محمد کو جنوب لاحق ہوگیا ہے، وہ پاگل اور دیوانہ بن گیا ہے۔ تو اس بات پر اللہ تعالیٰ کو غصہ آتاہے۔ چنانچہ اللہ نے قرآن میں محمد ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے اس کے متعلق ارشاد فرمایا:
(الطور52:آیت نمبر29)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ کہہ دیا کہ وہ آپ کو دیوانہ نہیں بنائے گا۔
(القلم68:آیت نمبر1-4)
(الاعراف7:آیت نمبر184)
ان آیتوں کو غور سے پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ ان آیتوں میں کہتاہے کہ آپ ﷺ کو جنون لاحق نہیں ہوگا اور عقل میں فتور نہیں آئے گا۔ اور یہ آپ پر اللہ کی مہربانی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ للکارتاہے کہ کسی کو اگر اس میں شک ہوتو وہ لوگ آپ ﷺ کے قول وفعل اورحرکات وسکنات غرض ہر معاملے میں غور کرکے دیکھیں، تب وہ سب جان لیں گے کہ آپ کو کسی قسم کا نفسیاتی مرض نہیں ہے۔
جادو پارٹی کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ منہ توڑ جواب دیتاہے۔ ملاحظہ ہو:
(سبا34:آیت نمبر46)
اللہ تعالیٰ للکارتاہے : اے وہ لوگو جو یہ کہتے ہو کہ نبی پر جادو کیا گیا جس سے آپ نفسیاتی مریض بن گئے، اس طرح کہنے والو! تم ایک ایک یا دودو آکر نبی کوٹیسٹ کرکے دیکھو ۔ہر ایک جس قسم کا چاہے سوال کرکے معلوم کرلو۔ آپﷺ کیا نفسیاتی مریض کی طرح جواب دے رہے ہیں یا پھر بہت جاننے والے ، نہایت دانا اور بڑے ہی سمجھ دار کی طرح جواب دے رہے ہیں؟ اگر آزماکر اورامتحان لے کر دیکھوگے تو جان لوگے کہ آپ ﷺ کو کسی قسم کا نفسیاتی مرض نہیں ہے۔
چنانچہ نبی جادو کیے جانے سے آپ ﷺ نفسیاتی مریض بنے رہنے کے متعلق روایت ،من گھڑت کہانی اور افسانہ ثابت کرنے کے لیے یہ ایک آیت ہی کافی دلیل ہے۔
اب تک کی بحث سے ہم نے یہ جان لیا کہ بعض حدیثوں میں نبی ﷺ پر جادو کیے جانے کے سلسلے میں جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ چونکہ اسلام کے بنیادی عقائد اور قرآن کریم کے خلاف واقع ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ کہانی کے سوا اورکچھ نہیں۔
رہا یہ سوال کہ نبی ﷺ کے سوا دوسرے کو کیا اس جادو منتر سے نقصان پہنچایا جاسکتاہے؟ آئیے اب اس کے متعلق جانکاری حاصل کرلیں۔
نبی ﷺ نے جادو کا انکار کردیا
اللہ کے نبی محمد ﷺ نے وضاحت کے ساتھ فرمایا : کہ جادو کو نہ مانیں، اس کو سچ نہ جانیں۔
حضرت ابو درداء ؓ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: (ماں باپ کا) نا فرمان، جادو کو سچ ماننے والا، ہمیشہ شراب پینے والا، اور تقدیر کا انکار کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (احمد 26212)
نبی کا یہ فرمان کھلے الفاظ میں ہے کہ جو شخص جادو کو مانتا ہے اس کو بر حق سمجھتا ہے، اور اس پر ایمان رکھتا ہے، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ اس کے لیے الفاظ اس طرح استعمال کئے گئے ہیں کہ اس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
یہ حدیث بعض دوسرے طریقوں (طرق) سےبھی آئی ہے، جو ضعیف قسم کی ہیں۔ اس لیے وہ سب قابل حجت نہیں ہو سکتیں ۔ مگر مسند احمد کی مذکورہ حدیث (نمبر 26212) ثابت شدہ اور قابل حجت ہے۔
مسند احمد میں یہ حدیث درج شدہ ہونے کے باوجود ، بعض لوگ یہ کہہ کر اس کا انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسند احمد میں اس طرح کی حدیث اس کے اصل نسخے میں نہیں ملتی۔ بلکہ بعد کے دور میں ایجاد کر دہ سافٹ ویر کاپی میں اس کو بیچ میں شامل کر دیا گیا ہے۔ او ر یہ بھی کہتے ہیں کہ مسند احمد کی طباعت شدہ کتاب میں یہ حدیث نہیں ہے۔
ذیل میں ہم نے چھا پہ خانے (مطبع) سے باقاعدہ چھپی ہوئی مسند احمد کی ایک فوٹو کاپی پیش کیا ہے، جس میں آپ وہ حدیث بھی پائیں گےجسے ہم نے ابھی بطور دلیل پیش کیا تھا۔
SCANNING
ایک کتاب میں کوئیبات یا حدیث چھوٹ گئی ہے؟ یا کچھ اضافہ ہوا ہے؟ یہ معلوم کرنے کے کئی طریقے ہیں جن سے ہم کمی بیشی کا قطعی علم حاصل کرلیتے ہیں۔
حدیث کی کتابیں دوقسموں میں پائی جاتی ہیں۔ جن میں ایک قسم یہ ہے کہ کتاب کے مرتب(امام) نے جن حدیثوں کو جمع کیاہے، انہیں درج کرکے کتابی شکل میں محفوظ کردیا ہے۔ یہی اصل اور مرجع ہے۔
پھر جب ان کتابوں کے نقلوں میں اختلاف پیداہوجائے، تو مرتب(امام) نے اس حدیث کو کس طرح اورکن الفاظ کے ساتھ درج کیا ہے؟ یہ دیکھنے کےلیے ان کی اصل کتاب کی طرف رجوع کریں گے۔ اوراس کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے کہ کونسا صحیح ہے؟ اور یاد رہے کہ امام حدیث نےاپنی جمع کردہ حدیثوں کی کتابوں کو اپنے پاس موجود پرانے زمانے کے قدیم قلمی نسخوں ہی سے اٹھاکرلکھے ہوں گے۔
اورحدیث کتابوں کی دوسری قسم یہ ہے کہ جمع کردہ حدیثیں جو کئی کتابوں میں درج کی گئی ہیں، انہیں مضمون اور باب کے لحاظ سے ترتیب دیاجاتاہے۔
المسند الجامع اسی قسم کی ایک کتاب ہے، جس میں احمد، ترمذی ، ابن ماجہ، ابوداؤد وغیرہ کی کتب احادیث سے مختلف ابواب کے تحت حدیثیں جمع کرکے مرتب کی گئی ہے۔ ہم نے مسند احمد کے حوالے سے جو حدیث پیش کی ہے وہ بھی اس کتاب(المسند الجامع) میں درج کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہواہے کہ یہ حدیث احمد میں ہے۔ ملاحظہ ہو:
عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ عَائِذِ اللهِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، قَالَ:
لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَاقٌّ، وَلاَ مُؤْمِنٌ بِسِحْرٍ، وِلاَ مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَلاَ مُكَذِّبٌ بِقَدَرٍ.- لفظ هشام بن عمار: لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مُدْمِنُ خَمْرٍ.
أخرجه أحمد 6:441 (28032) المسند الجامع (33:449)
المسند الجامع کے مرتب نے اس حدیث کومسند احمد میں دیکھنے پر ہی وہاں اس کو اپنی کتاب میں نقل کرکے جمع کیا ہے، نیز یہ کتاب ترتیب دیتے وقت اُس دور میں سافٹ ویر کاپی نہیں تھی۔ اس لیے یہ یقینی بات ہے کہ مذکورہ حدیث’’احمد‘‘ میں ہی ہے۔
اسی طرح الجامع الصحیح نامی کتاب میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ حدیث ’’احمد ‘‘میں درج کردہ ہے۔
(حم) , وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَاقٌّ، وَلَا مُؤْمِنٌ بِسِحْرٍ، وَلَا مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَلَا مُكَذِّبٌ بِقَدَرٍ " (1) الجامع الصحيح للسنن والمسانيد (2:619، بترقيم الشاملة آليا)
مذکورہ کتاب کے مرتب نے اپنے زمانے میں رہے دستیاب مسند احمد کے قلمی نسخے کے نقل دیکھ کر ہی اس کو مرتب کیا ہوگا۔
ابن کثیرؒ کی کتاب’’جامع المسانید‘‘ میں یہ حدیث پائی جاتی ہے۔
حدثنا أبو جعفر السويدى، حدثنا أبو الربيع سليمان بن عبيد الدمشقى، سمعت يونس بن ميسرة، عن أبى إدريس عائذ الله، عن أبى الدرداء، عن النبى - صلى الله عليه وسلم - قال: «لا يدخل الجنة عاق، ولا مؤمن بسحر، ولا مدمن خمر ولا مكذب بقدر» (1) . جامع المسانيد والسنن (9:335)
حافظ ابن حجرؒ کی ’’اطراف المسند‘‘ نامی کتاب میں بھی یہ الفاظ وضاحت کے ساتھ پائے گئے ہیں۔
7977 -[ق] حديث: لا يدخل الجَنَّةَ عاقٌّ، ولا مؤمنٌ بسِحْرٍ، ولا مُدْمِنُ خَمْرٍ، ولا مُكَذِّبٌ بقَدَر. (6: 441) حَدَّثَنا أبو جعفر السويدي، ثنا أبو الربيع سليمان بن عُتْبَة الدمشقي، سمعتُ يونس بن مَيْسَرة، عنه بهذا. اطراف المسند المعتلي بأطراف المسند الحنبلي (6:149)
ان بزرگوں نے اپنے دور میں جو قلمی نسخے ملے، انہیں سامنے رکھ کر ہی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ اس لیے اگر کسی ایک طباعت شدہ نسخے میں یہ حدیث نہ ملے ، تو اہل علم یہی فیصلہ کریں گے کہ یہ حدیث اس میں چھوٹ گئی ہے۔
جن علماءنے قدیم زمانے کے قلمی مخطوطات کے نقول دیکھ کر حدیثیں جمع کیں، انہوں نے جب مسند احمد کی حدیثیں چھپائی اور زیور طباعت سے آراستہ کرنے کے لیے مراجعہ کیا اور حدیثیں اصلی نسخہ کے مطابق جمع کیں، تو اوپر ہم نے جو حدیث پیش کی اس کو بھی مسند احمد میں ہونے کا ذکر کیا ہے۔
اسی سند کے ساتھ ہی حدیث کو ابن عسا کر نے اپنی کتاب" تاریخ دمشق "میں نقل کیا ہے۔ اس میں بھی ’’مُؤْمِنٌ بِسِحْرٍ‘‘ (جادو کو سچ ماننے والا بھی جنت میں داخل نہیں ہوگا) کے الفاظ آئے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:
وحدثني ابي (8) نا أبو جعفر السويدي نا أبو الربيع سليمان بن عتبة الدمشقي قال سمت يونس بن ميسرة عن أبي إدريس عائذ الله عن أبي الدرداء عن النبي (صلى الله عليه وسلم) قال لا يدخلن الجنة عاق ولا مؤمن بسحر (9) ولا مدمن خمر ولا مكذب بقدر تاريخ دمشق (56:135)
ابن عساکر ؒ نے مسند احمد کی مذکورہ حدیث، امام احمدؒ کی سند ان تک کس کے ذریعہ پہنچی، وہ بھی بتادیا۔ اس راوی کی سلسلہ سند ملاحظہ ہو:
أخبرنا أبو القاسم بن الحصين أنا أبو علي بن المذهب أنا أبو بكر بن مالك أنا عبد الله حدثني أبي (6) نا محمد بن النوجشان وهو أبو جعفر السويدي نا الدراوردي حدثني زيد بن أسلم (7) عن أبي واقد الليثي عن أبيه أن النبي (صلى الله عليه وسلم) قال لأزواجه في حجة الوداع هذه ثم ظهور الحصر قال وحدثني ابي (8) نا أبو جعفر السويدي نا أبو الربيع سليمان بن عتبة الدمشقي قال سمت يونس بن ميسرة عن أبي إدريس عائذ الله عن أبي الدرداء عن النبي (صلى الله عليه وسلم) قال لا يدخلن الجنة عاق ولا مؤمن بسحر (9) ولا مدمن خمر ولا مكذب بقدر أخبرنا أبو القاسم النسيب وابو الحسن المالكي قالا نا وابو منصور بن زريق تاريخ دمشق لابن عساکر (56:135)
اگر ایک طباعتی نسخے میں مذکورہ حدیث نہ ہو، مگر دوسرے نسخے میں وہ درج ہو، تو ہم نے جیسا کہ اوپر بتایا اس طریقے کو اپناتے ہوئے دیگر کتابوں کی مدد سے ہی صحیح بات اورحقیقت کی جانکاری ہوسکتی ہے۔
اس طریقے سے مسند احمد کی ایک طباعتی نسخے میں اگر یہ حدیث نظر نہ آئے، تو یہ فیصلہ کیاجائے کہ نقل کرنے والے نے (غفلت میں) اس کو چھوڑ دیا ہے۔ اور اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے مذکورہ دلائل ہی کافی ہیں۔
جب ہم نے احمد کی روایت میں وہ الفاظ دوسرے طرق سے ثابت کردیا جس کا کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا ۔تو اب (جادو کے قائل )لوگ ایک نیا دعوا پیش کرتے ہیں کہ یہ حدیث مسند احمد تو ہے مگر ضعیف ہے،قابلِ قبول نہیں۔
واضح رہے کہ اس کی سند میں ابوجعفر السُویدی نامی ایک روای آتے ہیں، جن کے بارے میں امام ابوداؤد السجستانیؒ نے کہا کہ یہ راوی قابل بھروسا اورثقہ ہے ۔اس کے باجود حدیث کے معاملے میں شک کرنے والے تھے۔
وہ لوگ یہ قول بتاکر اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے راوی ابوجعفر کے حدیث میں شک کرنے کی بات کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے بجائے الٹا سمجھا اورالٹی سمجھ کی وجہ سے فیصلہ بھی غلط نکلا۔
اس راوی کے حدیث میں شک کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی روایت کردہ حدیثیں مشکوک اورمحل نظر ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روای یعنی ابو جعفر جو حدیثیں سنتے ہیں ان میں شک ظاہر کرتے، وہ اگر سو حدیثیں سنے، تو وہ ان سب کو سناتے اور روایت کرتے نہیں، بلکہ ان میں کئی شبہات کا اظہارکرکے، صرف ان دس حدیثوں کو ہی روایت کرتے جن میں ان تمام شبہات کا ازالہ اورحل پیش کیا گیا ہے۔
اس راوی کو تھوڑا بھی شک آئے، اور شبہ پیدا ہو ، تو ایسی کوئی حدیث بھی وہ ہرگز روایت نہیں کرتے۔ بلکہ جن حدیثوں میں ان کو کوئی شک نہیں آتا، شبہ نہیں ہوتا۔ صرف ان کو روایت کرتے ہیں، تو اس راوی کو احتیاط پر جو تعریفی کلمات اورمدح خوانی کی گئی، اس کو ان لوگوں نے الٹا سمجھ لیا۔
اس راوی کے تعلق سے امام احمد بن حنبلؒ جو کہا وہ قابل ذکر ہے، ملاحظہ ہو:
حدثنا عنہ احمد بن حنبل، وکان صاحب شکوک۔ رجع الناس من عند عبدالرزاق بثلاثین ألف حدیث، ورجع بأربعۃ آلاف۔
یہ صاحب(ابوجعفر سُویدی) شک کرنے والے تھے۔ دوسرے لوگوں نے عبدالرزاق سے تیس ہزار حدیثیں حاصل کیں، مگر یہ صاحب نے چار ہزار حدیثیں ہی حاصل کیں۔
یعنی تیس ہزار حدیثوں میں چوبیس ہزار حدیثوں کو چھوڑدے کر صرف چار ہزار حدیثوں کی روایت کرنا۔ اس راوی(ابوجعفر) حد درجہ احتیاط برتنے کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ نیز امام ذہبی اور ابوداود صنعانی وغیرہ نے بھی اس راوی کو قابل بھروسا اور ثقہ کیا ہے۔
اس کے بعد اس حدیث کو انکار کرنے والے لوگ ایک اور راوی سلیمان بن عتبہ کو ضعیف کہہ کر بولتے پھر رہے ہیں۔ دراصل وہ ضعیف راوی نہیں۔
اس راوی کے قابل بھروسا ہونے پر فن حدیث کے ائمہ نے سرٹیفکیٹ دی ہیں۔ چنانچہ دھیم، ابوحاتم ، ابوذرعہ، ہیثم بن خارجہ۔ ہشام بن عمار، ابن حبان، ابن حجر اور ذہبی وغیرہ نے کہا کہ یہ راوی (سلیمان بن عتبہ) ثقہ ہے۔
البتہ یحیی بن معین نے ہی ان پر جرح کیا ہے۔ مگر مناسب وجہ نہیں بتایا کہ وہ کس بنا پر قابل قبول اور مجروح ہے؟کئی ثقہ حضرات کے کہنے کے خلاف صرف یحیی بن معین نے وجہ بتائےبغیر، عمومی طورپر جرح کیا ہے، تو یہ جرح فن حدیث کی رو سے قابل رد ہے۔
اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث صحیح قابل حجت ہے۔
’’مُؤْ مِنٌ بِسِحْرٍ‘‘یعنی جادو کو ماننے والا، اس پر ایمان والا کسے کہتے ہیں؟ اس سے کیا مرادہے؟ ا س کا صحیح مطلب جاننا ضروری ہے۔ کیونکہ جادو کے نام سے جو دھوکا ، فریب، مکاری، چال بازی اور شعبدہ بازی ہوتی ہے، اسے ہم بھی جانتے ہیں ۔ یہ حدیث وہ بات نہیں کہتی، اور اس سے وہ مراد بھی نہیں۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جادو سے تاثیر پیدا کرنے کا عقیدہ رکھنا ہے۔
اسی ترکیب کے ساتھ یعنی ’’مُؤْ مِنٌ بِسِحْرٍ‘‘کی طرح ذیل میں نبی ﷺ کا فرمان ’’مُؤْ مِنٌ بِالکَوْکَبِ‘‘آیا ہے۔ جس سے ہم اس کا مطلب آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔ پوری حدیث یوں ہے:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ، فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِالكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي وَمُؤْمِنٌ بِالكَوْكَبِ " (البخاری)
حضرت زید بن خالد جہنیؓ نے بیان کیا: اللہ کے رسول ﷺ نے حدیبیہ میں ہم کو صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو بارش ہوچکی تھی۔ نماز کے بعد آپ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا معلوم ہے؟ تمہارے پروردگار نے کیا کہا؟ لوگ بولے: اللہ اوراس کے رسول ﷺخوب جانتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ پروردگار کہتاہے : آج میرے دو طرح کے بندوں نے صبح کی، ایک مومن اور ایک کافر۔ جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے ہم پر بارش ہوئی، وہ تو مجھ پر ایمان لایا، اور ستاروں کا انکار کردیا۔ اور جس نے کہا فلاں فلاں ستاروں کی وجہ سے ہی (ہم پر بارش برسی)، اس نے میرا انکار کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔ (بخاری: 1038)
اس حدیث میں کہا جارہا ہے کہ ستاروں پر ایمان نہ رکھائے جائے اگر کوئی یہ مانے کہ ستارے موجودہیں، تو اس میں کوئی غلطی نہیں۔ نبی ﷺ کا یہ فرمان اس کا انکار نہیں کرتا، اس کے برعکس یہ سمجھنا کہ ستاروں کی دجہ سے بارش ہوتی ہے۔ ان کے ذریعہ آئندہ پیش آنے والے معاملات کا اندازہ کیاجاسکتاہے، اوران سے دوسروں کو نقصان پہنچایا جاسکتاہے، اس طریقے سے ماننے ،اوران کی تاثیر کا عقیدہ رکھنےسے یہ حدیث انکار کرتی ہے۔
اگر کوئی اس بنیاد پر ستارے کو مانتا اور اس پر یقین رکھتاہے، تو وہ حقیقت میں اللہ کو نہیں مانتا، بلکہ ستارے پر ایمان رکھتاہے۔
اسی طرح یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی اگر جادو کو مانے، تو وہ جنت میں نہیں داخل ہوسکتا۔
جو یہ کہتے ہیں کہ جادو کا اثر ہوتاہے انہیں یہ حدیث اتارتی اور مرنے کے قریب کردیتی ہے۔
جادو کے اثر کو ماننے والا، جادو منتر کی تاثیر پر یقین رکھنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ یہ جملہ قرآنی آیتوں کے مطابق بہت وضاحت کے ساتھ واقع ہواہے۔
جادو اللہ کی نظر میں
قرآن کریم میں جادو (سحر)، جادو کرنے والا(ساحر)، اورجادو کیا گیا ،سحرزدہ(مسحور) جیسے الفاظ کئی جگہوں پر استعمال ہوئے ہیں۔
یہ الفاظ بعض جگہوں پر اس معنے میں استعمال ہواہے کہ جادو کا اثر ہوگا، اس سے تاثیر پیدا ہوگی، مگر دوسرے مقامات میں اس کے برعکس اس معنے میں استعمال ہواہے کہ جادو سے تاثیر پیدانہیں کی جاسکتی، وہ کسی پر اثر نہیں دکھا سکتا اور جادو منتر سے کسی کا نقصان نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ وہ تو صرف دھوکا، مکاری اور شعبدہ بازی ہے۔
جادو کی تاثیر کو ماننے والے لوگ، اپنے موقف کو مدلل بنانے کے لیے اس کی تائید کرنے والی آیتوں کو پیش کرکے ثابت کرتے ہیں کہ جادو منتر سے پیدا کی جاسکتی ہے، او ردوسروں کا بگاڑ بھی کیا جاسکتاہے۔
اللہ تعالیٰ کبھی الٹی، خلاف اورمتضاد باتیں نہیں کرتا۔ اس کا خیال رکھتے ہوئے جب ہم جادو کے متعلق آنے والی تمام آیتوں کا تحقیقی جائزہ لوگے ، تب جان لوگے کہ جادو پارٹی کے لوگوں نے قرآن کوصحیح سمجھنے میں غلطی کی۔ اور غلط فہمی کی وجہ سے وہ خلافِ حقیقت غلط سلط دعوا کررہے ہیں۔
آیئے اس کے متعلق تفصیل سے دیکھیں۔
جب انبیا ءکرام نے قوم والوں کو توحید کا درس دیا آخرت کے بارے میں خبردار کیا، اور کئی نصیحتیں کیں ، تو جو لوگ ان باتوں کو ماننے سے انکار کررہے تھے ، انہوں نے سمجھا کہ نفسیاتی مرض ہی کی وجہ سے وہ نبی اس طرح بے تکی باتیں کرتے ہیں۔ نفسیاتی مرض لاحق ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ چنانچہ انبیا ءکرام کی تعلیمات کا انکار کرنے والوں نے کہا: نبیوں پر جادو کیا گیا جس سے ان کو جنون لاحق ہوکرفضول باتیں اور بکواس کرتے ہیں۔
اس بات کو قرآن نے کئی آیتوں میں نقل کیا ہے۔مثال کے طوپرقوم ثمود نے اپنے نبی صالح علیہ السلام کے تعلق سے کہا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ ذیل کی آیتیں اس کی وضاحت کرتی ہیں:
(الشعرا ء 26:آیت نمبر153)
اسی طرح شعیب علیہ السلام کو کہا گیا :( الشعراء 26: آیت نمبر185)
نبی نوح علیہ السلام کو بھی کافروں نے یہی لقب دیا۔عقل میں فتور آگیا ہے، دیوانے ہیں کہ بے سمجھی کی باتیں کررہے ہیں۔
(القمر54:آیت نمبر9)
موسیٰ علیہ السلام کو بھی جادو اور پاگل پن سے جوڑدیا گیا۔
(الذاریات51:آیت نمبر39،38)
انبیاءکرام نے اپنی قوم والوں کو دینِ اسلام کا پیغام سنایا ،تو دشمنوں نے کہا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔
جادو کے قائلین ان آیتوں سے جو دعویٰ پیش کرتے ہیں، پہلے اسے معلوم کرلیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوکر نبی ﷺ جو بے تکی باتیں کرنے لگے، اس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ہی ان لوگوں نے سحرزدہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لفظ جادو کو وہ لوگ نفسیاتی مرض کے معنی میں استعمال کررہے تھے۔ اسی لیے وہ اس طرح کہہ رہےتھے۔
نیز ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ مذکورہ آیتوں میں سحرزدہ، اورجادو کیا گیا وغیرہ الفاظ اس معنیٰ میں آئے ہیں کہ جادو کا اثر ہوتاہے، جادو سے تاثیر پیدا کی جاسکتی ہے، اور جس پر جادو کیا جاتاہے، وہ اس سے متاثر ہوتاہے ۔ بہرحال جادو کی تاثیر ثابت کرنے کے لیے مذکورہ آیتیں ہی کافی دلیل ہیں۔
یہ دعوا جادو پارٹی کا ہے۔ مگر یہ عقل مندوں کے پیش کردہ دعویٰ کی طرح نہیں ہے۔ کیونکہ سحر زدہ کا یہ مطلب اللہ نے نہیں بیان کیا ۔ بلکہ نادان لوگوں نے اس کو جس قسم کا معنیٰ دے رکھا تھا اس کو اللہ تعالیٰ مذکورہ آیتوں میں صرف نقل کررہا ہے۔ یعنی انہوں نے جو تصور کررکھا تھا اس کے لیے وہ آیتیں دلیل ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جادو کا جو بھی معنی ہے یہ بیان کرتے ہیں وہی معنی اللہ کے پاس بھی ہے۔
اللہ کا انکار کرنے والوں نے یقین مانا کہ جادو کو قدرت ہے تو ان کی سمجھ اور خیال کے مطابق اس جادو کے تعلق سے بو ل بھی رہے تھے۔ عقل مند لوگ یہ بات سمجھ جائیں گے۔
نبی پر جادو کیا گیا ہے،وہ سحرزدہ ہے۔ یہ جملہ کس نے کہا؟ اللہ تعالیٰ نہیں کہا ۔بلکہ دشمنوں نے کہا تھا۔ اللہ تو بس ان کی بات کو نقل کیا ہے۔
کافروں نے جادو کے بارے میں اپنے عقیدے اور نظریے کے مطابق بول رہے تھے۔ یادرکھیے کہ ان کا بول، اللہ کی بات نہیں ۔
کافروں نے اپنے دل میں جمائے ہوئے یقین اوراعتقاد کے مطابق جو کچھ کہا، اسے اللہ تعالیٰ بیان کرے اور اس کا حوالہ دے، تو سمجھ لیں کہ یہ کافروں کا عقیدہ ہے۔
کافروں نے کہا کہ بتوں کو قدرت حاصل ہے۔ وہ نقصان پہنچاتے ہیں ان کی اس بات کو اللہ تعالیٰ نقل کرتاہے۔ ملاحظہ ہو:
(ھود11:آیت نمبر54)
یہ آیت پڑھنے کے بعد کیا آپ یہ مطلب لیں گے کہ بت کو قدرت واختیار ہے ؟ نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ بت کا نقصان پہنچانے کے بارے میں کافروں نے ہی کہاتھا۔
فرعون نے کہا تھا کہ میں ہی سب سے بڑا رب ہوں۔ اس کی اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نقل کیا ہے۔ اس لیے کیا کوئی یہ کہے گا کہ فرعون کو اللہ نے ہی خدا کہا ہے؟ ہرگز نہیں۔ مگر جادو کو ماننے والے یہی غلطی کررہے ہیں یعنی کافروں کے بول کو اللہ تعالیٰ کی بات سمجھ کر دعویٰ کررہے ہیں۔
کافروں نے نبیوں کو جو سحر زدہ کہا وہ نفسیاتی مرض ہی کے معنیٰ میں کہا مگر اللہ تعالیٰ نے جادو کے لفظ کو جہاں اپنی طرف سے، اور اپنی بات کی حیثیت سے پیش کیا، وہاں پر اس معنی میں استعمال نہیں کیا۔ آگے ہم اس کا مناسب موقع پر وضاحت کریں گے۔
انبیا کرام کی نصیحتوں کو سننے پر قوم والوں نے جس طرح انہیں سحر زدہ کہا، اسی طرح ساحر، جادو گر بھی کہا۔ انہوں نے اپنی نبوت ورسالت کی دلیل کے طورپر جو معجزہ قوم کے سامنے پیش کیا، اس کو بھی قوم والوں نے سحر، جادو کہا۔
نبی نے واقعی ایسا معجزہ دکھایا جسے کرتب اور شعبدہ بازی نہیں کہاجاسکتا، اس کے باوجود قوم والوں نے اس کا انکار کرنے کے لیے یوں کہا کہ یہ توسحر جادو ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کئی مقامات پر ان کی اس بات کو نقل کرتاہے، ملاحظہ ہو:
(المائدہ5:آیت نمبر110)
(الصف61:آیت نمبر6)
(یونس10:آیت نمبر77)
(طٰہٰ 20:آیت نمبر57)
(الشعراء 26:آیت نمبر35)
(النمل 27: آیت نمبر13)
(القصص28:آیت نمبر36)
(الانبیاء21:آیت نمبر48)
(طٰہٰ20:آیت نمبر71)
(یونس10:آیت نمبر2)
(الذاریات51:آیت نمبر52)
جادو پارٹی کے لوگوں نے جادو منتر کو ثابت کرنے کے لیے پہلے جس طرح کافروں کے قول کو دلیل میں پیش کیا کہ انبیا ء پر جادو کیا گیا ہے ، وہ سحر زدہ ہیں۔اسی طرح وہ لوگو انبیا ء کے جادو گر اور ساحر ہونے کے متعلق بھی کافروں کی مذکورہ باتیں ہی اپنے دعویٰ کے اثبات میں بطور حجت پیش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انبیا کے معجزات دیکھنے پر قوم والوں نے اس کو جادو قرار دیا۔ تو اس سے کیا معلوم ہوتاہے؟ جس طرح انبیا ء نے کردکھایا ،اسی طرح کے کام جادو منتر سے بھی ممکن ہے۔ اسی لیے قوم والوں نے ایسا کہا۔
جادو پارٹی کہتی ہے کہ نبی موسیٰ علیہ السلام کے لاٹھی ڈالنے پر جب وہ سانپ بن گئی، تو اس کو دیکھ کر ناظرین نے جواب دیا کہ ایسا تو جادو گر بھی کرسکتاہے۔ ان کے جواب سے یہ واضح ہوتاہے کہ جادو سے بھی معجزہ اور کرامت دکھایا جاسکتاہے۔ غرض مذکورہ قرآنی آیتوں سے ہم جادو کا یہ مطلب سمجھ سکتے ہیں۔
یہ بھی ان کے پہلے دعوے کی طرح ہے ۔ جادو سے کچھ بھی کیاجاسکتاہے۔ کافروں نے اسی معنیٰ میں کہا تھا جس میں کوئی شک نہیں۔
مگر کافروں نے اپنے خیال ، نظریہ اور عقیدے کے مطابق جو جملہ استعمال کیا تھا، وہ کس طرح دین میں ثبوت ہوسکتاہے؟ اس اہم اور بنیادی مسئلہ کو جادو پارٹی کے لوگ نہیں جانتے۔
جادو کو ماننے والوں نے آج جو سمجھ رکھا ہے کہ اس جادو منتر سے جو چاہے کیا جاسکتاہے ، بالکل اسی طرح اس سے پہلے کے دور میں بھی خیال کیا جارہا تھا۔
جاد وکا اثر ہوتاہے ،اور جادو سے تاثیر پیدا کی جاسکتی ہے، حرکت وعمل کو موقوف کیا جاسکتاہے، عقل میں فتور آتاہے، اورجادو سے پاگل پن اورجنون بھی آتاہے۔ غرض ایسی باتیں ثابت کرنے کے لیے مذکورہ آیتیں کبھی دلیل نہیں بن سکتیں۔ بلکہ وہ آیتیں اس بات کے لیے دلیل بنتی ہیں کہ کافروں نے جادو کو کیا سمجھ رکھا تھا۔
جادو کے بارے میں کافروں کا عقیدہ کیا ہے؟ وہ تو ابھی گزرا اب آیئے۔ یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں جادو کیا ہے؟ اس کی حقیقت وماہیت کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ملاحظہ ہو۔
(الاعراف 7 :آیت نمبر108-120)
(طٰہٰ 20: آیت 65-70)
ان آیتوں میں جو باتیں کہی گئی ہیں آپ ان پر غور کریں۔ اللہ تعالیٰ الاعراف 7 : آیت نمبر116 میں کہتاہے کہ وہ (سب جادو گر) بہت بڑا جادو لے کر آئے۔
نبی موسیٰ علیہ السلام کے خلاف جو جادوگرمقابلے میں آئے اور صف آرا ہوئے وہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھے۔ بلکہ وہ اپنے فن میں بہت مہارت رکھنے والے تھے ۔ پھر انہوں نے جو کر دکھایا وہ بھی کوئی معمولی قسم کا چھوٹا جادو نہیں۔ بلکہ واقعی بہت بڑا جادو لے کر آئے جیسا کہ ہم اس آیت سے معلوم کرسکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بہت ہی بڑے جادو سے جو کر دکھایا، وہ کیا ہے؟
یہ بات قابل توجہ ہے کہ انہوں نے اپنے جادو کے زور سے رسیوں اور لاٹھیوں کو درحقیقت سانپوں میں تبدیل نہیں کیا ، سچ مچ سانپ نہیں بنایا ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ سورہ طٰہٰ 20: آیت نمبر66 میں کہتاہے کہ انہوں نے پیش کیا۔
سانپوں کی طرح جھوٹی شکل
بہت بڑے جادو کے ذریعہ وہ صرف جھوٹی شکل بنا سکے ۔ اور حقیقت و ماہیت میں کوئی تبدیل نہ کرسکے۔ جب بہت بڑے جادو کی طاقت اتنی ہی ہے، تو پھر ہم معمولی جادو کا حال معلوم کرسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سورہ طٰہٰ 20: آیت نمبر69 میں کہتاہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ تو ) ہے۔ کوئی چال چل کر ، شعبدہ بازی کرکے آنکھوں کو دکھا سکتے ہیں کہ جادو سے کچھ کردیا ہے۔
ہیر اپھیری (مکر وفریب اور داؤ پیچ
میجگ() کے نام سے چالاکی کا ایک فن ہے جس میں فنکار (میجگ مین) خفیہ تدبیر اور کمال ہوشیاری کے ساتھ ایسے حیرت انگیز کام کردکھاتاہے کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ اس فن کے ماہرین ایک آدمی کو لِٹاکرکے یا کھڑا کرکے، اس کو کاٹ کر دو ٹکڑے کرنے کی طرح دکھائیں گے۔ کچھ دیر کے بعد کٹے ہوئے ان دونوں حصوں کو جوڑ کر پرانی حالت پر لے آئیں گے۔
Magic
مگر حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اس آدمی کو اصل میں کاٹا ہی نہیں، کاٹ کر دو ٹکڑے نہیں کیے۔ اس کے باوجود وہ مختلف رنگ برنگ کے چراغوں (لائٹوں) کے ذریعےہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ اور وہ ماہرین اس آدمی کو ٹکڑے کیے بغیر ہی ہماری آنکھوں کو اس طرح دکھاتے ہیں کہ گویا وہ اس کو کاٹ رہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جادو گر بھی چال چلتے اور دھوکا دیتے ہیں۔ حقیقت میں کچھ بھی نہیں کرتے۔
میجگ کرنے والے اپنے کام کے بارے میں صاف کہہ دیں گے کہ یہ سب نظر بندی ہے ، مگر جادو گر اپنے کام کے بارے میں اس طرح نہیں کہتے۔ دونوں میں بس یہی فرق ہے۔
میجگ مین ایک آدمی کو چارپائی پر لٹا دے گا۔ پھر اسی چارپائی کے چار پاوں بھی نکال دے گا۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ آدمی گویا خلا میں لٹک رہا ہے۔
حقیقت میں اس طرح نہیں کیا جاسکتا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا؟ دراصل اس چارپائی کو دھات کے مضبوط لمبے مگر باریک ڈورے سے باندھ دیا گیا ہے۔ چونکہ وہ ہماری آنکھوں کو نظر نہیں آتا، اس لیے وہ آدمی خلا میں ٹھہرا ہوا دکھائی دیتاہے۔
اسی طرح میجگ شو میں ہاتھی کو غائب کردیں گے۔ وہ کیسے؟ مجمع کے سامنے ہاتھی کو اسٹیچ پر لایاجائےگا۔ لائٹ آف کرکے آن کریں گے ہاتھی نہیں رہے گا۔ پھر اسی طرح لائٹ آف کرکے آن کردیں گے۔ تو پھر وہاں ہاتھی آجائے گا۔ اس کو صرف ایک یا دو لمحے(سکینڈ) میں کردیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح ہاتھی کو حقیقت میں نظروں سے غائب کیا جاسکتاہے؟ ناممکن۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
وہ اصل میں رنگین چراغوں سے ہماری آنکھوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ وہ چونکہ رنگوں کی خاصیت جانتے ہیں کہ بعض خاص رنگ کی روشنی میں بعض خاص رنگ چھپ جائے گا۔ اس لیے وہ ہاتھی کا کا لا رنگ چھپانے کے لیے اس کے لائق لائٹ آن کریں گے، تو ہاتھی اسی جگہ قائم رہنے کے باجود ہم کو نظر نہیں آئے گا۔ لیکن وہاں جاکر چھوکر دیکھیں گے تو ہاتھی وہیں پر کھڑا پائیں گے۔
ہماری آنکھیں خبر دیتی ہے کہ سامنے ہاتھی کی شکل نہیں ہے۔ یہ ہےنظر کا دھوکا نظر بندی۔
اب مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے جو جملے استعمال کیے ہیں ان پر غور کیجئے۔
وہ (نقیب) کو آپ کے پاس لے آئیں گے۔
ہر ماہر جادوگر
پھر جب انہوں نے (اپنے شعبدے کی چیزیں) ڈالیں ، تو لوگوں کی آنکھوں پر نظر بندی کردی۔
اوران لوگوں کو خوف زدہ کردیا۔ اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے۔
وہ سب (جادو گر) وہاں مغلوب ہوگئے ۔اور ذلیل ہوکر رہ گئے۔
ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کےجادو سے موسیٰ علیہ السلام کو ایسے دکھائی دینے لگیں جیسے وہ (سانپ کی طرح) پھنکارہے ہیں۔
انہو نے جو کچھ بنایا ہے وہ جادو گر کا فریب (داؤپیچ ) ہے۔
جادو گر کامیاب نہیں ہوگا۔
مذکورہ آیتوں میں استعمال کیے گئے جملے کیا کہہ رہی ہیں؟ کیا یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جادو جو ہے صرف خیالی بات ہے،جھوٹی شکل ہے، نظر بندی اورشعبدہ ہی ہے۔ حقیقت میں کچھ نہیں ہوا۔ اصلیت وماہیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
کیا جادو کی اصلیت اور حقیقت جاننے کے لیے جو کچھ اللہ اور موسیٰ علیہ السلام نے کیا اس کی طرف رجوع کیاجائے؟ یا کافروں نے نادانی سے جادو کے بارے میں جو کچھ کہا اس کو بطور دلیل ماناجائے؟
جب نبی موسیٰ کی نظر میں، اور خود اللہ کی نظر میں جادو کے معنی دھوکا دہی، نطر بندی، فریب کاری ، داؤپیچ اورہیرا پھیری کے آتے ہیں، تو جادو کو ماننے والوں نے اس معنے کو چھوڑدے کر کافروں کی باتوں بطور حجت پیش کرکے دعویٰ کرتے ہیں کہ جادو برحق ہے۔
واضح رہے کہ جادو(سحر) کا لفظ قرآن کریم میں کئی جگہوں پر آیاہے۔ 1) یہ لفظ کافروں نے استعمال کیا۔ 2) یہ لفظ انبیا نے استعمال کیا۔ 3) اوراللہ تعالیٰ خود اپنے الفاظ کے طور پر استعمال کیا۔
قرآن کی آیتوں میں لفظ ’’جادو ‘‘ کو جہاں اللہ نے اپنے الفاظ کے طورپر پیش کیا ہے، کیا وہاں پر جادو کا اثر اوراس کی تاثیر اور نقصان کے متعلق کچھ کہا گیا ہے۔ نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ دو آدمی مدینے کے مشرق کی طرف سے آئے اور خطبہ دیا ۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: إنَّ مِنَ الْبَیَانِ سِحْرًا بے شک بات میں جادو ہے۔ (صحیح بخاری:5146)
سحر ، جادو کے کیا معنی ہیں؟ نبی ﷺ نے اس حدیث کے ذریعہ اس کو واضح کردیا، اور ہمیں سکھادیا۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ پلاٹ فارم میں دوائی اور معجون بیجنے والے اپنی جھوٹی باتوں کو سچائی کی طرح اس انداز میں پیش کرتا اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتاہے۔ پھر وہ اس کو گھیر لیتے ہیں۔ اور اس کی باتوں کو غور سے سننے لگتے ہیں۔ غرض اللہ کے نبی ﷺ نے یہاں پر ہمیں سمجھادیا کہ پرکشش باتوں سے جھوٹ کو سچ کی طرح پیش کرنا سحر ہے، جادو ہے۔
جادو جو ہے دھوکا دینے کی ایک خفیہ تدبیر، سازش ہے۔ اورجھوٹ ہے۔ ذیل کی ایک آیت ہی اس کے لیے کافی دلیل ہے۔
(الطور52:آیت15،14،13)
آخرت میں پوچھ گچھ اور بازپرس ہونے کے بعد، جنتی لوگ جنت میں، اور دوزخی لوگ ،دوزخ میں جائیں گے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ دوزخیوں کو دیکھ کر کہے گا: جس (دوزخ) کو تم جھوٹ سمجھ رہے تھے۔ وہ دوزخ یہی ہے۔ پھر ان سے سوال بھی کرے گا کہ : بتلاؤ! کیا یہ سحر ہے؟ جادو ہے؟
اللہ کے اس سوال سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ سحر(جادو) کا لفظ اللہ کے ہاں کس معنے میں ہے؟
کافر لوگ دنیا میں دوزخ کو جھوٹ قرار دے رہے تھے ۔ جھوٹ کی رٹ لگا رہے تھے۔ مگر جب ان کو دوزخ میں دھکیلا جائے گا، اس وقت اللہ تعالیٰ ان سے ’’ کیا یہ جھوٹ ہے‘‘؟ پوچھنے کے بجائے یہ پوچھتا ہے کہ کیا یہ سحر (جادو) ہے؟
یہاں پر جادو کے لفظ کو اللہ تعالیٰ جھوٹ کے معنے میں استعمال کرتاہے، اور بتلاتاہے کہ جادو جھوٹ ہے، سچ نہیں۔
کافروں نے سحر(جادو) کے لفظ کو جس معنے میں استعمال کررہے تھے، اللہ نے اس کو قبول نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سحر کے معنی یہ ہیں کہ عدم کو موجود کی طرح دکھانے کی چال ہی ہے۔
جادو کو ماننا شرک ہے
یہ ماننا کہ جادو کا اثر ہوتاہے ، جادو سے تاثیر پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچایاجاسکتاہے، اللہ کے ساتھ شریک کرنے کا گناہ لازم آتاہے۔ وہ کیسے؟ آئیےاس کاجائزہ لیں۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ کاکوئی شریک نہیں۔ کسی کو اللہ کے ساتھ شریک اور ساجھی نہ بنائیں۔ بعض سمجھتے یہ ہیں کہ دو خداوں میں سے اللہ بھی ایک، یا تین خداوں میں ایک اللہ بھی ہے، ایسا عقیدہ رکھنا ہی شرک ہے۔ اگر چہ یہ بھی شرک ہے۔ مگر شرک اس سے بھی وسیع معنوں میں آتاہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات اور خصوصیات ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتاہے کہ اللہ کی کوئی ایک صفت، فلاں آدمی میں بھی پائی جاتی ہے۔ تو اس خاص صفت کے معاملے میں وہ اس کو اللہ کی طرح سمجھتا اور اس کا شریک گردانتا ہے ۔ یہی اس شخص کا شرک ہوا۔
اس حقیقت کو ہم ذیل کی آیتوں سے معلوم کرسکتے ہیں۔
(یٰسٓ36: آیت نمبر78)
(الشوریٰ 42: آیت نمبر11)
(الاخلاص 112:آیت نمبر4)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرح سننے والا کوئی نہیں، اس کی طرح دیکھنے والا کوئی نہیں۔اور اس کی طرح کرنے والا بھی کوئی نہیں۔
مثال کے طورپر سننے کی طاقت اللہ کو ہے اور ہم کو بھی ہے۔ مگر جس طرح اللہ کو سننے کی قدرت ہے ٹھیک اسی طرح فلاں بزرگ کو بھی ہے۔ کیا ہم اس طرح عقیدہ رکھ سکتے ہیں؟ نہیں۔ ورنہ اس صفت میں اللہ کے ساتھ فلاں بزرگ کو شریک ٹھہرانے (شرک) لازم آئے گا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سننے کی جو قدرت حاصل ہے اس کی حد اور انتہا نہیں۔ جب کہ ہمارے سننے کی قدرت بہت محدود ہے۔
ایک وقت پر ہم صرف ایک آدمی کی بات سن سکتے ہیں۔ البتہ بعض خصوصی تربیت اور مشق کے ذریعہ اور بھی دو ایک خبریں اضافی طور پر سن سکتے ہیں۔ مگر دنیا بھر کے سات سو کروڑ لوگ بھی اگر ایک ہی وقت میں اللہ تعالیٰ سے مانگیں، تب بھی وہ اسی وقت پر سب کی باتوں کو بھی اچھی طرح سن لے گا۔
قبروں کی پرستش کرنے والے لوگ، ان میں مدفون اولیا کو پکارتے ہیں۔ کئی بستیوں کے لوگ ایک ہی وقت میں ان کو پکارتے ہیں۔ کہ بابا! ہمیں یہ دے دو۔ کیا وہ ان سب لوگوں کی ضرورت پوری کرسکتے ہیں۔ اس کو ایک طرف رہنے دیجئے۔ اس سے پہلے کہ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ بابا سب کی دعائیں بیک وقت سنتے ہیں۔ تو اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ بزرگ سبھی لوگوں کی سنتے ہیں۔ چاہے وہ تعداد میں کتنی زیادہ کیوں نہ ہو۔ غرض ایسا عقیدہ رکھنا شرک ہے جس میں کوئی شک ہی نہیں۔
اگر ہم کو کسی کی بات سننا ہے، توا س کے اور ہمارے درمیان کی دوری محدود ہو، تبھی سن پائیں گے۔ اگر وہ زیادہ دور ی میں ہو تو ہم سن نہیں سکتے۔
ہم کسی کی بات کو سننا چاہیں، تو اس بات کو آگے بڑھانے والی ہوا کا ہونا ضروری ہے۔ جو ہماری کانوں تک پہنچائے۔ یا کوئی بجلی کی رو ہونا چاہیے پھر وہ آواز کا بھی مخصوص ڈیسیبل میں ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اس سے کم آواز ہمارے کانوں میں سنائی نہیں دے گی۔ مگر اللہ کے لیے ایسا کوئی عیب نہیں ہے۔
دیکھنے کی صفت اٹھالیجئے ۔ہم انسانوں کو دیکھنے کی قدرت ہے۔ اور اللہ کو بھی ہے۔ مگر اللہ کو جس طرح دیکھنے کی لامحدود قدرت ہے اس طرح کسی انسان میں مانے کہ وہ بھی اس طرح کی قدرت رکھتاہے۔ تو یہ شرک ہے۔
ہم ایک حدتک کی دور کی چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ اور وہ بھی اس وقت جب کہ روشنی ہو اور درمیان میں کوئی رکاوٹ اورپردہ نہ ہو تبھی دور کی چیز دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک وقت پر صرف ایک چیز ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مگر اللہ کے لیے اس طرح کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی۔
اگر کوئی شخص یہ مانتا ہے کہ فلاں بابا دور کی چیزوں کو اچھی طرح دیکھتے ہیں خواہ کتنی ہی دور ہو، چاہے کتنی ہی رکاوٹیں اوردیواریں اورپہاڑ حائل ہوں، ان کے باوجود وہ سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں ، تو وہ شخص اس بابا کو اللہ کی طرح سمجھ رہاہے۔
مکے کے کافر اللہ کے علاوہ بہت سے من گھڑت چھوٹے چھوٹے خداوں کی پرستش کررہے تھے۔ اسی وقت وہ کافروں سے یقین بھی کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی تمام قدرتوں اور اختیارات والا ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مشرکین (شرک کرنے والے) قرار دیا۔
(یونس10:آیت نمبر31) (المومنون23: آیت نمبر84،85)
(المؤمنون23:آیت نمبر86،87) (المؤمنون23: آیت نمبر88،89)
(العنکبوت29: آیت نمبر61) (العنکبوت29: آیت نمبر63)
(لقمان31: آیت نمبر25) (الزمر39:آیت نمبر38)
(الزخرف43: آیت نمبر9) (الزخرف43: آیت نمبر87)
یہ تمام آیتیں کسی شک وشبہ کے بغیر بتلارہی ہیں کہ مکے کا فرلوگ اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے۔ اور اس کی قدرت کا اعتراف بھی کرتے تھے۔
(یونس10: آیت نمبر18)
(الزمر39: آیت نمبر3)
یہ دو آیتیں ہمیں بتلارہی ہیں کہ مکے کے کافروں نے اپنے جھوٹے معبودوں کے متعلق کس قسم کا عقیدہ رکھتے تھے۔
ایک طرف وہ یہ مان رہے تھے کہ اللہ کی قدرت کی طرح اپنے جھوٹے دیوتاوں کو قدرت نہیں ہے، او ردوسری طرف اس کے برعکس یہ مان رہے تھے کہ اپنے چھوٹے معبودوں کو بھی اللہ کے برابر کی قدرت ہے!!؟
ان لوگوں کا یہ عقیدہ رہا کہ اپنے چھوٹے معبودوں کو جہاں سے پکاریں، جتنے افرد بھی پکاریں، جس وقت میں بھی پکاریں، اور جس زبان میں بھی پکاریں، تو بھی وہ معبودوں کو ایک ہی وقت میں ان سب کی باتیں بحسن خوبی جاننے کی قدرت حاصل ہے۔
اسی وجہ سے کئی دور دراز مقامات سے بہت سارے افراد نے ان چھوٹے معبودوں سے ایک ہی وقت پر کئی دعائیں کیں اور یہ عقیدہ ان کے دلوں میں راسخ ہوگیا تھا کہ وہ بھی اللہ ہی کی طرح ہماری دعائیں سنتے ہیں۔ غرض دعا سننے کے معاملے میں ان لوگوں نے اپنے چھوٹے معبودوں کو اللہ کے برابر سمجھا۔
اسی سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ کی تمام صفات اورخوبیوں کو دوسروں میں ماننا ہی شرک نہیں ۔ بلکہ اللہ کی بے شمار صفات اور خصوصیات میں سے کسی ایک صفت کو بھی دوسروں میں ماننا شرک ہے۔
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص یہ مانتاہے کہ کوئی ایک صفت جس طرح اللہ کے پاس ہے۔ ہو بہو وہی صفت فلاں آدمی میں بھی پائی جاتی ہے، تو وہ کھلا شرک ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جادو کا جائزہ لیں۔
دوسروں کو نقصان پہنچانے کی یہ صفت اللہ کو بھی ہے اورانسانوں کو بھی ہے۔
فرض کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کا پیر توڑنے کا ارادہ کرتاہے اس کے لئے اللہ ایک بڑا چاقو لے کر اس آدمی کو پکڑ کر اس کا پاؤں نہیں کاٹے گا۔ بلکہ اللہ تو اس کو پکڑنے کے لیے چھوئے گا بھی نہیں ،اور پیر توڑنے کے لیے چاقو جیسا کوئی اوزار بھی استعمال نہیں کرے گا۔ بلکہ وہ صرف یہ کہہ دے گا کہ : پیر ٹوٹ جا۔ فوراً اس کا پیر ٹوٹ جائے گا۔
مگر ایک آدمی کسی دوسرےآدمی کا پیر توڑنا چاہے، تو اسے تلوار، یا سَبَّل، یا نہایت مضبوط اورموٹی لکڑی لے کر اس آدمی کے پیر میں زور دار وار کرے، تب ہی اس کا پیر توڑسکتاہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کسی کے عقل میں فتور لاناچاہے ،اور ذہنی حالت کو بگاڑنا چاہے، اور نفسیاتی مریض بنانا چاہے ، تو اللہ صرف یہ کہے گا کہ نفسیاتی مریض ہوجا‘۔ تو وہ شخص اسی وقت نفسیاتی مریض بن جائے گا۔
مگر ایک آدمی کسی شخص کو نفسیاتی مریض بنانا چاہے، تو وہ اس کے لائق گولیاں، یا دوائیاں اس کے اندر پہنچا کریا اس کے سر پر اتنا زور سے مارتے رہنا کہ اس کا ذہنی توازن بگڑ جائے، تب چل کر وہ شخص نفسیاتی مریض بن سکتاہے۔
اس معاملے میں اللہ اور انسان کے درمیان فرق واضح اور بالکل نمایاں دکھائی دیتاہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ کرتاہے ، تو وہ اس کو ’’ہوجا‘‘کہنے سے ہی وہ فوراً ہوجاتاہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ان قرآنی آیتوں میں اس کی وضاحت کرتاہے، ملاحظہ ہو:
(البقرۃ2:آیت نمبر117، آل عمران3:آیت نمبر47، الانعام6:آیت نمبر73، النحل16: آیت نمبر 40، مریم19: آیت نمبر35،
یٰسٓ 36: آیت نمبر82، المؤمن 40: آیت نمبر68)
یہ اللہ ہی کی قدرت کاملہ ہے کہ وہ صرف ہوجا کہنے سے ہوجائے۔ مگر یہ مانتے ہیں کہ جادو سے تاثیر پیدا کی جاسکتی ہے ، جادو کا اثرہوتاہے، اور جادو سے نقصان پہنچایاجاسکتاہے، وہ لوگ جادوگر کو کس مقام پر رکھتے ہیں؟
وہ لوگ جادوگر کو کس طرح مانتے ہیں؟ اس طرح نہیں کہ جادوگر کسی تلوار، یا سبّل سے یا موٹی اورمضبوط لاٹھی سے اس آدمی کو پیر توڑےگا۔ بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جادو گر صرف ہوجا کہہ کر حکم دینے سے وہ تاثیر پیدا کردے گا۔
جادو کو ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جادو گر کسی کو کوئی دوائی پہنچائے بغیر ہی کسی کو صرف’’ہوجا‘‘ کہنے سے وہ اس کو پاگل بنانے کی قدرت رکھتاہے۔
یہ جادو پارٹی کے لوگ یقین کے ساتھ یہ بات مانتے ہیں کہ ایک شخص کسی آدمی کو غم میں مبتلا کرنے، غمگین بنانے، یا زخمی کرنے کے لیے دنیا میں جو کچھ طریقے اپنائے جاتے ہیں، ان کا استعمال کیے بغیر ہی ، صرف جادو منتر کے ذریعہ ایک دوسرے کو بے شک نقصان پہنچاسکتاہے۔
مثال کے طورپر ایک شخص کسی دوسرے شخص کو چاقو سے چبو سکتاہے، یا وہ دونوں ہی آپس میں چاقو لے کر ایک دوسرے پر حملہ کرسکتے ہیں۔ جس سے کسی ایک کو یا دونوں کو ہی نقصان پہنچ سکتاہے۔
اس کے علاوہ دوسرے کئی طریقے سے بھی ایک دوسرے کو نقصان پہنچا سکتاہے۔ مثلاً کوئی شخص دوسرے کو گالی دیتاہے ، یا اس پر تہمت لگاتاہے۔ تو جس کو اس نے گالی دی ، یاجس پر اس نے تہمت لگائی، اس شخص کو وہ رنجیدہ اورغمگین بناسکتاہے۔
اسی طرح کے راستوں سے ایک آدمی دوسرے آدمی پر اثر ڈال سکتاہے، اور اس کو متاثر کرسکتاہے۔ یہ کام کرنے کے لیے کسی کو الگ سے سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس قسم کے کام تو کوئی بھی کسی کے خلاف بھی کرسکتاہے۔
دنیا میں آدمی دیگر آدمیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو راستے اور طریقے مہیا کیے ہیں ۔ ان کے سوا باقی تمام راستے اور طریقے اللہ ہی کے لیے خاص ہیں۔
جو یہ کہتاہے کہ میں کسی پر بھی جادو کرسکتاہوں، لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کے پاس جاکر فلاں آدمی کے خلاف جاد وکرنے کے لیے کہیں تو وہ اس آدمی کو چھوئے بغیر ، اس کے قریب آئے بغیر، بلکہ اس کو دیکھے بغیربھی نقصان پہنچاسکتاہے۔
جس آدمی کو متاثر کرنا اور نقصان پہنچانا مقصود ہو، جادو گر اس کی قمیص پسینہ، پاوں کے نیچے کے تلے مٹی، سر کے بال وغیرہ لے جاکر ان کے ذریعہ ایک گڑیا کی شکل بناتا ہے جس کو نقصان پہنچانا مقصود ہے۔ فرض کیجئے کہ اس کانام سکندر ہے۔ تو یہ جادو گر(؟) اس گڑیا کانام سکند ر رکھ دیتاہے، پھر اگر یہ گڑیا کے پیٹ میں چبوئے ، تو کہیں دوررہنے والے سکندر کے پیٹ میں درد محسوس ہوگا۔ اور گڑیے کی آنکھ میں چبوئے ، تو اُدھر سکندر کی آنکھ زوردار تکلیف ہوگی۔ لوگ مانتے ہیں کہ جادو یہی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جادو گر نہ صرف بدن بلکہ دل ودماغ پر اثر ڈال سکتاہے۔ نفسیات کو متاثر کرسکتاہے۔
واضح رہے کہ کسی آدمی کو متاثر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ جو طریقے مہیا کیے ہیں، ان میں سے جادو گر کوئی طریقہ بھی نہیں اپناتا۔
کسی شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کے لیے اگرجادوگر کے پاس اس کی منہ مانگی رقم دے دیں، تو لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ جادو گر کہیں دور کسی جگہ رہتے ہوئے بھی ان میاں بیوی کو ایک دوسرے سے الگ کردے گا۔
جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ جادو سے تاثیر پیدا کی جاسکتی ہے، اوردوسرے کو متاثر کیاجاسکتاہے ۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جادو گر، اللہ تعالیٰ کی طرح کرگزرنے کی قدرت واختیار رکھتاہے۔ اورقادر مطلق ہی ہے۔
اگر چہ اس قسم کا عقیدہ، شرک کے قبیل سے ہے، مگر جادو کو ماننے والے لوگ اپنے موقف کو صحیح اور حق بجانب قرار دینے کے لیے بعض دلائل پیش کرتے ہیں ۔ کچھ غلط دعوے بھی کرتے ہیں۔ الٹے جوابات بھی دیتے ہیں۔ آیئے ان میں سے ایک ایک تفصیلی جائزہ لیں۔
کیا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قدرت سے جادو کیا جاتاہے
جادو پارٹی کے لوگ الٹا یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جادو شرک نہیں ہو سکتا ۔ وہ کہتے ہیں کہ جادو گر خود اپنی ذاتی قدرت سے ایسا کچھ نہیں کرتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اس کو وہ قدرت عطاکرتاہے جس کی مدد اور سہارے ہی سے وہ سب کرتاہے۔ اس لیے یہ کیسے شرک ہوسکتاہے؟
اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی مُوَحِّد عقیدہ ، توحید کے قائل اور موحد ہیں، وہ گروہ بھی یہی جواب دے کر اس شرک کی وکالت کررہے ہیں۔
ان کے اس دعوے کو دیکھ کر واضح ہوتاہے کہ یہ لوگ عقیدہ توحید کے الف، بے ، کا قاعدہ تک نہیں جانتے۔
تمام مخلوقات کے افعال واعمال، اورحرکات وسکنا ت سبھی اللہ تعالی ٰ کی عطاکردہ ہیں۔ اور انہی کی بنیاد پر کام کررہے ہیں۔
چنانچہ ہم جو کچھ کرتے ہیں جیسے دیکھتے ، سنتے،بات چیت کرتے، کھاتے، پیتے ، دوڑتے اور کھیلتے وغیرہ ہیں، تو یہ سب ہم نے خود اپنی طرف سے نہیں بنالیا۔ بلکہ اللہ کی دی ہوئی قدرت ہی کی بنیاد پر یہ سارے کام ہم سے کرنے ہورہاہے۔
اگرچہ اللہ تعالیٰ انسان کو بہت ساری قدرتوں سے نوازا پھربھی وہ اپنے پاس جیسی قدرت واختیار رکھتاہے، ویسی قدرت واختیار وہ ہرگز کسی کو نہیں دیتا۔ ورنہ وہ بھی اللہ کے برابر اوراس کا شریک ہوتا۔ اللہ کے اس قو ل میں کہ میرا کوئی شریک اور ساجھی نہیں، مذکورہ بات شامل ہے۔
(بنی اسرائیل17: آیت نمبر111)
(الفرقان25 : آیت نمبر2)
اللہ تعالیٰ کی جو خاص خوبیاں اور صفات ہیں، وہ کبھی کسی کو ہرگز نہیں دےگا۔ وہ اس بات کو ایک بہترین مثال کے ذریعہ سمجھاتاہے ۔ اس قرآنی آیت کو غور سے پڑھیے۔
(النحل16: آیت نمبر71)
اللہ تعالیٰ انسا ن کو کسی حد تک قدرت عطا کرتاہے ؟ اس کو وہ یہاں پر واضح کرتاہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ اپنے ہی لیے جو صفات مخصوص کررکھے ہیں ان میں وہ کبھی کسی کو ہرگز نہیں دے گا۔ اپنے برابر نہیں کرے گا ۔یہی وہ بنیادی بات ہے جہاں تک بہت ساروں کی رسائی نہیں ہوئی۔
جو بھی اس بنیادی بات کو اچھی طرح سمجھ گئے وہ ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ اللہ، جادوگر کو اپنی طرح کام کرنے کی قدرت عطا کرے گا۔
اگر یہ کہہ دیا جائے کہ ایک آدمی (بابا) اولاد دیتاہے۔ مگر وہ خود اپنی طرف سے نہیں دیتا۔ بلکہ اللہ کی دی ہوئی طاقت کے ذریعہ دیتاہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شرک نہیں ہے؟
ایک آدمی سورج بھگوان کی پوجا پاٹ کرتاہے ۔اور سورج بھگوان کو خود سے کوئی قدرت نہیں رکھتا۔ اس کے ساتھ یہ جملہ ملا لیاجائے کہ ہاں! اللہ نے اس کو یہ قدرت عطا کی ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شرک نہیں ہے؟
مکے کے کافروں نے اللہ تعالیٰ کو مانا، اور اس کے ساتھ چند بزرگوں کی بھی پرستش کررہے تھے۔ اس طرح وہ پرستش کرتے وقت بھی ان کافروں کا عقیدہ یہ نہیں تھا کہ یہ ہستیاں خدا ہیں، اورانہیں تمام قدرتیں حاصل ہیں۔ یہ ان کا عقیدہ نہیں رہا۔
اس لیے ان کافروں نے بھی یہی دعوا کیا کہ یہ شرک میں شامل نہیں ہوتا۔کیونکہ یہ ہستیاں خود سے کچھ نہیں کرتے۔ مگر اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں مانتا۔
ان کافروں کا عقیدہ تھا کہ یہ بزرگ ہستیاں اللہ کے قریب ہیں۔ اگر ان کی پرستش کی جائے، تو وہ اللہ کے پاس ہمارے حق میں سفارش کریں گے۔ اور ہماری ضرورت پوری کروائیں گے۔ اس کے علاوہ ہمیں اللہ سے قریب بھی کردیں گے۔ اس کے تعلق سے قرآنی آیتیں ملاحظہ ہو۔
(یونس10:آیت نمبر18)
(الزمر39: آیت نمبر3)
مذکورہ آیتیں وضاحت کررہی ہیں کہ مکے کے کافروں نے اسی طرح کا عقیدہ رکھاتھا۔
یہ آیتیں اعلان کررہی ہیں کہ کافر وں نے اللہ کے سو اجن کی عبادت کررہے تھے ان کو وہ خدا نہیں کہہ رہےتھے۔ بلکہ وہ یقین کررہے تھے کہ یہ ہستیاں اللہ کے پاس ہمارے لیے سفارشی ہیں۔ واضح رہے کہ اس غلط عقیدے کو مٹانے ہی کے لیے نبی ﷺ کو بھیجا گیا۔
یہ دعوا کہ جادو گر اللہ ہی کی عطا کردہ قدرت سے جادو کرتاہے، اور کافروں کادعوا دونوں ایک ہی جیسے ہیں۔
غرض یہ لوگ اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے بعد۔ یہ بکواس کرتے ہیں کہ یہ شرک میں داخل نہیں ہے، اور یہ اس کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس طریقے سے یہ لوگ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔
قبر پرست لوگ بھی ایسی ہی بات کرکے مُردوں کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیا ہم نے ان بزرگوں کو اللہ قرار دیا؟
کیا ہم نے کہا کہ یہ بزرگ خود سے معجزہ اور کرامت دکھاتے ہیں؟ ایسا کبھی نہیں کہنا۔ بلکہ ہمارا مانناہے کہ وہ بزرگ کرامت ظاہر کرتے ہیں، تو یہ کیوں کر شرک ہوسکتاہے؟ غرض یہ لوگ اپنے بزرگوں کو اللہ نہیں، مگر اللہ کے نیک صالح بندے کہہ کر ہی اپنے شرکیہ عقیدہ کی وکالت کررہے ہیں۔
اللہ سےقدرت پاکر ہی
قبر پرست لوگ جو دعوا کرتے ہیں ، وہی دعوا جادوگر کے معاملے میں جادو کے قائلین بھی کررہے ہیں۔
جب ہم جادو پارٹی سے کہتے ہیں کہ یہ کھلا شرک ہے، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے ماننے میں، او رمکے کے کافر کے ماننے میں فرق ہے۔ اور کہتے ہیں کہ ہمار اعقیدہ اوردرگاہوں کی پرستش کرنے والوں کا عقیدہ ایک نہیں، جداگانہ الگ ہے ۔ دونوں میں فرق رہنے کی وجہ سے ہم اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے نہیں ہوسکتے۔
جب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ امتیازی فرق کیا ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اولیا کو معجزہ اور کرامت ظاہر کنے کی قدرت ہونے کے بارے میں اللہ نے نہیں کہا۔ مگر جادو گر کو معجزاتی قدرت اور جادوئی طاقت حاصل ہونے پر اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ، سور ت نمبر2 اور آیت نمبر102 میں کہہ دیا ہے۔ وہی ہمارے اور قبرپرستوں کے درمیان فرق ہے۔
یعنی ان کا کہنا ہے کہ جادو گر کو قدرت ہونے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا ہے، اس لیے ہم اس کو مانتے ہیں۔ مگر اولیا کو اس طرح قدرت اورکرامت دیے جانے کے متعلق اللہ نے نہیں کہا، اس کے باوجود قبر پرست لوگ اولیاکو قدرت والا اور بااختیار مانتے ہیں۔ اس لیے ہمارا ان کے ساتھ موازنہ کیسے کرسکتے ہیں؟
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرح کام کرنے کی قدرت اولیا کو نہیں دے گا۔ انبیا کرام کو بھی نہیں دے گا۔ اور جادو گروں کو بھی نہیں دے گا۔ اس بنیادی اصول کے خلاف یہ لوگ دعوا کررہے ہیں۔
جس طرح آیت کےظاہر اور سرسری جائزہ سے لگتاہے کہ جادو گر کو قدرت حاصل ہے۔ اسی طرح قبر پرستوں کے پاس بھی کئی دلائل ہیں جن پر اگر طائرانہ نظر ڈالیں تو بظاہر ایسا معلوم ہوگاکہ اولیا کو بھی معجزاتی قدرت حاصل ہے۔
قبرپرست کہتے ہیں کہ اللہ نے اولیا کو معجزاتی قدرت عطا کیا ہے جس کے لیے کئی دلائل ہیں۔ اسی لیے ہم اس کو مانتے ہیں۔
واضح رہے کہ جادو پارٹی کے پاس جو دلیل ہے اس سے زیادہ مضبوط دلیل قبرپرستوں کے پاس ہے۔ مثال کے طورپر ذیل کی حدیث پر غور کیجئے۔
ابوہریرہؓ نے بیان کیا اکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی ٰ فرماتاہے کہ جس نے میرے ولی سے دشمنی کی، اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔ اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتاہے ان میں کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے۔ (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج)
میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتاہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتاہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتاہوں، تو میں اس کاکان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتاہے، اس کی آنکھ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھتاہے، اس کا ہاتھ بن جاتاہوں جس سے وہ پکڑتاہے، اس کا پاوں بن جاتاہوں جس سے وہ چلتاہے۔
اگر وہ مجھ سے مانگتاہے تو میں اسے دیتاہوں۔ اگر وہ کسی سے پناہ مانگتاہے تو میں اسے محفوظ رکھتاہوں۔ اور میں جو کام کرنا چاہتاہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتاہے، وہ تو موت کو پسند نہیں کرتا۔ اور میں بھی اسے (موت کے ذریعہ) تکلیف دینا پسند نہیں کرتا۔ (بخاری:6502)
قبر پرست لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اولیا کو اختیارات اورمعجزاتی قدرت عطا کیا ہے۔ اس کے لیے مذکورہ حدیث ہی بڑا ثبو ت ہے۔
درگاہوں کی پرستش کرنے والا گروہ دعوا کرتاہے کہ چونکہ اس حدیث میں اولیا کے ہاتھ کو اللہ کا ہاتھ اور اولیا کے پاوں کو اللہ کا پاوں کہا گیا ہے ۔ اس لیے ان سے سب کچھ ہوسکتاہے۔
جادوگر کو قدرت حاصل ہونے کی بابت جادو پارٹی نے جو دلیل دی ہے، اس سے بھی درگاہ پرستوں کی یہ دلیل مضبوط ہے۔
قبر پرست لوگ کہتے ہیں کہ اللہ خود کہتاہے کہ اس نے اولیا کو بڑی قدرت عطا کیاہے۔ اس لیے ہم ان کو مانتے اور ان پرعقیدہ رکھتے ہیں۔ کیا جادو پارٹی کے لوگ اس کو مانتی ہے؟
گزشتہ سالوں میں جادو پارٹی کے لوگوں نے اس کا یوں جواب دیا کہ جب اس حدیث کا سرسری جائزہ لیں گے تو ویسا ہی معلوم ہوگا۔ مگر مجموعی طورپر قرآن کا جائزہ لیں گے، تو اس کاجو اصولی پیغام عقیدہِ توحید ہے اس کے مطابق ہی اس آیت کی دوسری تفسیر کرناچاہیے۔ مگریہی لوگ اب یہ سوال کرتے ہیں کہ جادو گر کو جو قدرت حاصل ہے، وہ اللہ کی عطا کردہ ہے۔ تو پھر یہ شرک کیسے ہوسکتاہے؟
یہ بات قابل ذکر ہے ان لوگوں نے قرآن کی مجموعی پیغامات کے خلاف اور وہ بھی جادوگر کے معاملے ہی میں الگ رائے اورموقف کیوں اختیار کیا؟ اس کی وجہ کیا ہے؟
قرآن میں اللہ نے آدم کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس لیے درگاہ پرست دعوا کرتے ہیں کہ بزرگوں کے لیے سجدہ کرسکتے ہیں۔ اوران کے قدموں میں گرسکتے ہیں۔ وہ اپنے دعوا کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کی البقرہ2: آیت نمبر34، بنی اسرائیل 17: آیت نمبر61، الاعراف7: آیت نمبر11، الکھف 18: آیت نمبر50، طٰہٰ 20: آیت نمبر116 کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
سرسری طور پر صرف ہم ان آیتوں کو دیکھیں گے ، تو یہ ٹھیک معلوم ہوتاہے۔ مگر چونکہ یہ بات قرآن کی مجموعی تعلیم سے ٹکررہی ہے ، اس لیے ہم نے دیگر آیتوں سے ٹکراؤ کے بغیر، ایک مناسب وضاحت پیش کی تھی۔ اسی طرح جادو کے طرف داروں نے بھی توحید کا لبادہ اوڑھ کر بیان دیا تھا۔
یہ لوگ قرآن کا جو مجموعی پیغام ہے اس کا لحاظ کیے بغیر ، صرف جادو گر کے معاملے میں ایک آیت کا مطلب بیان کرتے ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ کیسے درست ہوسکتاہے؟
درگاہ پرست لوگ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کو غیب کا علم تھا۔ جس کے لیے وہ ذیل کی آیتیں پیش کرتے ہیں:
(الجن 72: آیت نمبر26،27)
(التکویر81: آیت 24)
تو کیا یہ جادوپارٹی کے لوگ نے اعتراف کرلیا کہ ظاہری آیت سے وہ جو معنی بیان کرتے ہیں اس کی گنجائش ہے؟ غیب کی باتیں اللہ کے سو ا کوئی بھی نہیں جانتا۔ اس کے لیے کئی دلائل ہیں۔ ان سب کا خیال رکھتے ہوئے ان سے ٹکرائے بغیر کیا انہوں نے وضاحتی بیان دیا؟
کئی آیتیں کہتی ہیں کہ جادو گر کو کوئی قدرت نہیں۔ جادوپارٹی کے لوگ نے ان کو بھول جاکر ان آیتوں کے برخلاف سورۃ البقرۃ2 کی آیت نمبر102 کا معنی لیا، اورمطلب سمجھا اس میں اور قبر پرستوں کے دعوا میں ذرا برابر بھی فرق نہیں ہے۔
(رہا یہ سوال کہ بقرۃ 2: آیت نمبر 102 کا مطلب کیا ہے؟ اس کو ہم آگے مناسب دلائل کی روشنی میں سمجھائیں گے)
درگاہ پرست لوگ تو قبر میں مدفون آدمی کو نیک صالح اور ولی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کو کرشماتی قدرت عطا کیا ہے، مگر جادو گر کے پاس طاقت وقدرت ہونے کا عقیدہ رکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نےاس کا انکار کرنے والے (جادوگر) کو یہ قدرت دی ہے۔ غرض یہ عقیدہ درگاہ پرستوں کے عقیدے سے بھی گیا گزرا اوربدتر ہے۔
اس لیے ان کے جو بے معنی دعوا ہے کہ وہ جادو کو ماننے سے شرک لازم نہیں آتا، یہ ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی مدد نہیں کرتا۔
کیا جنوں کی مدد سے جادو کیا جاتاہے؟
جب ہم نے کہا کہ جادو کے ذریعہ اثرڈالنے او رمتاثر کرنے کا عقیدہ رکھنا شرک ہے۔ تو اس کا انکار کرنے والے لوگ ایک اور دعوا کرکے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کی نئی وضاحت یہ ہے کہ جادو گر خود سے کسی کو متاثر نہیں کرتا۔ بلکہ وہ پہلے جنوں کو اپنے قبضے میں کرلیتاہے۔ پھر جس پر اثر ڈالنا ہو اور نقصان پہنچانا ہو اس کے لیے کوئی ہتھیار ، اوزار، ذرائع اور وسائل کا استعمال کیے بغیر ہی ان جنوں کو حکم دے کر اس پر جادو کرتاہے۔ وہ جاکر اس کو متاثر کردیتاہے۔ چونکہ جن آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتا، اس لیےجادو گر کو دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرح کسی وسیلہ کے بغیر کام کررہا ہے۔ او ردوسروں پر اثرڈال رہاہے۔
اس نئے دعوے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر عمدًا جھوٹ بول رہے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے جادو گر کو قدرت حاصل ہونے کے بارے میں کس کو بطور دلیل پیش کیا؟
انہوں نے ایک حدیث پیش کی کہ ایک یہودی نے نبی ﷺ پر جادو کیا اور آپ کے اعمال کو موقوف کردیا۔
نبی ﷺ پر جادو والی حدیث میں کیا کہا گیا ہے؟ کنگھی پر سے گرے ہوئے بال، اورکھجور کے خشک خوشے وغیرہ میں لبید بن اعصم یہودی نے جادو کرکے ذروان نامی کنویں میں دفن کردیا تھا۔ پھر اس کنویں کا پانی نکالا گیا اورجادو کی وہ چیزیں بھی برآمد کی گئیں۔ اس کے بعد ہی نبی ﷺ شفا یاب ہوئے۔
اگر اس حدیث میں یہ بات ہوتی کہ اس یہودی نے جنوں کو حکم دے کر بھیجا ۔اور وہ جا کر نبی ﷺپرحملہ کیا، جس سے آپ نفسیاتی مریض بنتے تب وہ لوگ اس طرح جنوں کے حوالے سے دعوا کرسکتے ہیں۔ اسی سے معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ تصورکرکے ایک نئی بات بتارہے ہیں جس کو وہ خود بھی نہیں مانتے۔
جن کی مدد سے جادو کرنے کی بات اس وقت ہوسکتی ہے جب کوئی جادو کرنے والا نام کا مسلمان ہو، (برائے نام مسلم ہو) اوروہ جنّوں کے بارے میں واقفیت ہونے کی وجہ سے اسے اپنے قبضے میں کرکے اور اس کی مدد سے جادو کرسکتاہو۔
مگر ہندو، عیسائی، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس جادو کیاجاتاہے، اورہم جادو منتر میں مہارت رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ لوگ جن کے نام سے جو مخلوق اور نسل ہے اس کو نہیں مانیں گے۔ بلکہ یہ لوگ جنوں کوجانتے ہی نہیں ۔توپھر ان کو حکم دے کر ان کی مدد سے کیسے جادو کرسکتے ہیں؟ جادو پارٹی کا یہ دعوا ان لوگوں پر منطبق نہیں ہوتا۔ غرض یہ دعوا کہ جنوں کی مدد سے جادو کیا جاتاہے۔ ایک نامناسب اورغیر معقول دعوا ہے۔
یا پھر کیا یہ کہنے جارہے ہیں کہ مسلمانوں میں سے کوئی جادو کرے، تو ہم اسے مانیں گے ۔ مگر دوسری قوم کا آدمی جو جنوں کو نہیں مانتا وہ جادو نہیں کرسکتا ۔ یہی ہمار اعقیدہ ہے!!!
اگر یہ لوگ ایسی بات کریں گے، تو پھر اس حدیث کا انکار کرنے والے ہوجائیں گے جس میں کہا گیا کہ نبی ﷺ پر ایک یہودی نے جادو کیا۔
ان باتوں سے پتہ چلتاہے کہ جادو پارٹی کے لوگ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔
دوسری بات یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ کیا آدمی، جنوں کو اپنا مطیع وفرماں بردار بناسکتاہے؟ کیا اس کو اپنے قبضے میں کرسکتاہے؟ کیا اس کے لیے دلیل بھی ہے؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے وہ تمام جاندار مسخر کردیے اور جو غیر ذوی العقول ہیں۔ یعنی جن کو سمجھ، دانائی اورفہم وشعور نہیں ہیں ان سب کو انسان کے ماتحت اورقبضے میں کردیا۔ اس کے لیے دلائل ہیں۔
قرآن کریم کی الجاثیۃ45:آیت نمبر12،13، ابراہیم14: آیت نمبر32، النحل16: آیت نمبر14، الحج22: آیت نمبر37،65، لقمان 31: آیت نمبر20، الزخرف 43: آیت نمبر13 ،میں اس کو اللہ تعالیٰ وضاحت کے ساتھ کہتاہے۔
مگر جنوں کو جو سمجھ بوجھ، اورعقل وشعور رکھنے والی مخلوق ہے، اور وہ بھی انسان سے زیادہ طاقتور ہے۔ کیا انسان اپنے کنٹرول میں لاسکتاہے؟ کیا اللہ نے کہا کہ انسان ، جنوں پر قبضہ جما سکتاہے؟ نیز انہیں اپنے زیر اثر اور اطاعت گزار بنانے کے لیے کیا اللہ تعالیٰ نے یااس کے رسول نے ہمیں کوئی طریقہ بتایاہے؟ جادو پارٹی کے لوگوں کو ان کے دلائل وثبوت پیش کرنے کے بعد ہی یہ کہنا چاہیے کہ جنوں کو اپنے قبضے اورکنٹرول میں لاکر ان کی مدد سے جادو کیا جاتاہے ۔ کوئی دلیل دیے بغیر بچنے اور راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے بکواس نہیں کرنا چاہیے۔
جن نامی مخلوق آگ سے پید اکی گئی ہے ،جو انسانوں کے آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے باوجود وہ انسان کی طرح سمجھ بوجھ ، فہم وشعور ، عقل اور تمیز رکھتی ہے جس کے لیے دلیل ہے۔
(الذاریات51: آیت نمبر56)
(الانعام6: آیت نمبر130)
اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ جنوں میں بھی رسول آئے ہیں، جنوں کے لیے کتابِ الہی ہے ۔ اور جنوں نے بھی باقاعدہ دعوت وتبلیغ کاکام کیا ہے۔
(الرحمن 55: آیت نمبر31) (الاعراف7: آیت نمبر38)
(الاعراف7: آیت نمبر179) (ھود11: آیت نمبر119)
(السجدۃ32: آیت نمبر13)
یہ آیتیں بتلارہی ہیں کہ جس طرح انسانوں کو ان کے لیے نیکی کے لائق جنت میں اوربدی کے لحاظ سے دوزخ میں ڈالاجائےگا، اسی طرح جنوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیاجائے گا۔ نیز جنوں پر بھی عبادت وبندگی فرض ہے۔
سورۃ الاعراف7: آیت نمبر179 جو ہے ہمیں وضاحت کررہی ہے کہ جنوں کو عقل، سمجھ اور دانائی دی گئی ہے۔
انسان سمجھ بوجھ سے عاری درندوں کو اپنے قبضے میں کرسکتاہے۔ مگر عقل وشعور رکھنے والے جنّ کو کیوں کر اپنے قبضے میں کرسکتاہے؟
عقل وشعوررکھنے ولے ایک آدمی ، جب اپنے ہی جیسا عقل وشعور رکھنے والے دوسرے آدمی کو اپنے قبضے میں نہیں کرسکتا، تو پھر فہم وشعور اور عقل ودانائی رکھنے والے جنّوں کو کس طرح وہ اپنے قبضے میں کرسکتاہے؟!
اس کے علاوہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ وہ یہ کہ جنّوں کی طاقت وقدرت جو ہے انسانوں کی طاقت سے بہت زیادہ ہے۔
(النمل 27: آیت نمبر38،39،40)
عفریت نامی جن بولا کہ ملکہ سبا کا وہ شاہی تخت نبی سلیمان کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے لے کر آؤں گا۔ مگر اس سے زیادہ طاقت وقدرت رکھنے والا نے کہا کہ اسے پلک جھپکتے میں لے آٗؤں گا۔ اورکہنے کے مطابق اس نے اس کو لاکر حاضر کردیا۔
اس واقعے سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جن ، انسانوں کے مقابلے میں کئی ہزار گنا زیادہ طاقت وقدرت رکھتاہے۔
اللہ تعالیٰ جنوں کی ایک بات چیت اورمکالمہ کا نبی ﷺ کو اطلاع دے رہاہے جو سورہ جنّ میں مذکورہے۔
(الجن72: آیت نمبر9،8)
آسمانی دنیا کو جہاں تک انسان آج کی ترقی یافتہ سائنسی دورمیں بھی نہیں پہنچ سکا، مگر یہ جنّ یوں ہی بڑی آسانی سے پہنچ جاتاہے۔ تو ہم اس سے جنّوں کی حیرت انگیز طاقت وقدرت اور قوت پرواز وغیرہ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
جنوں کو انسانوں کی طرح عقل، سمجھ بوجھ اور وہ طاقت وقوت میں انسانوں سے کئی ہزار گناہ بڑھ کر ہیں۔ جب ایسی بات ہے تو جنّ، انسانوں پر قبضہ کرکے ان کو اپنا ماتحت بناسکتاہے۔مگر یہ یقینی بات ہے کہ انسان، جنوں کو اپنے قبضے میں کرہی نہیں سکتا۔
اور بھی کھلے الفاظ میں وضاحت کے ساتھ یوں کہہ سکتے ہیں کہ جنوں پر قبضہ کرنا ان پر تسلط قائم رکھنا، ان کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنانا انسانوں سے ناممکن بلکہ محال ہے۔ اس کے لیے ہی دلائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو نبی سلیمان علیہ السلام کے قبضے میں کررکھا تھا۔ جس کی بابت قرآنی آیتیں یہ ہیں۔ ملاحظہ ہو:
(الانبیا 21: آیت نمبر82)
(سبا34: آیت نمبر12)
کیا ہروقت جن ، نبی سلیمان علیہ السلام کی اطاعت کررہاہے؟ اس کی اللہ تعالیٰ نگرانی کررہا تھا، اسی لیے ان سے جنوں کو اپنے قبضے میں رکھنا ممکن ہوا۔
اللہ نے ہوا کو نبی سلیمان علیہ السلام کے قبضے میں دے دیا۔ پرندوں کو آپ کے قابو میں کردیا ، آپ کو چونٹیوں کی بولی سمجھنے کی قابلیت دی، اور اسی طرح جنوں کو بھی آپ کے قبضے میں دے دیا۔
اگر جنوں کو قبضے اور قابو میں کرنا انسانوں سے ممکن ہے، تو پھر اللہ کا جنوں کو سلیمان کے قبضے میں دینے کی بات، بے معنیٰ جملہ ہوجائے گا۔
اللہ نے جنوں کو سلیمان کے جو قبضے میں دیا، اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جنوں کو قبضے اورقابو میں لانا انسانوں سے نہیں ہوسکتا۔ اور یہ ان کے بس کی بات نہیں۔
اللہ کی ان نعمتوں سے بہرہ ور سلیمان نے اللہ سے ایک اہم دعا بھی کی ۔
(صٓ38: آیت نمبر35)
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی۔ جیسا کہ حدیث میں اس کا ثبو ت ملتاہے۔
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: گزشتہ رات ایک سرکش جنّ اچانک میرے پا س آیا۔ یا اسی طرح کی کوئی بات آپ نے فرمائی۔ وہ میری نماز میں خلل ڈالنا چاہتاتھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دے دیا۔ اورمیں نے سوچا کہ مسجد کے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تاکہ صبح کو تم سب بھی اسے دیکھو۔ پھر مجھےاپنے بھائی سلیمان کی یہ دعا یاد آگئی (جو سورہ صٓ میں ہے) اے میرے رب! مجھے ایسا ملک عطا کرنا جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو۔‘‘ (بخاری: 461)
سلیمان علیہ السلام نے جو دعا کی تھی اللہ تعالیٰ اس کے متعلق نبی ﷺ کو یاد دلا کر جنّ کو اپنے قابو میں کرنے سے روک دیا۔ نبی ﷺ کا رک جانا دلیل ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی دعا میں یہ بھی شامل تھی۔
اسی سے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ خود نبی ﷺ بھی جنوں کو اپنے قابو میں نہیں کرسکتے۔
جب یہ بات قرآن سے واضح ہوگیا کہ جنوں کو قابو میں کرنا انسان سے ہرگز نہیں ہوسکتا، تو پھر اس کے خلاف اس دعوے کو کیسے قبول کیا جاسکتاہے کہ جادو گر جنوں کو اپنے قابو میں کرلیتاہے؟!
اگر جنوں کے ذریعہ جادو کیاجاتاہے، تو اس کے لیے سر کے بال، پاوں تلے مٹی وغیرہ کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ اگر یہ ایک حکم دے تو وہ جنّ وہی کرے گا؟
جب جادوگر ہی یہ بات نہیں کہتا کہ ہم جنوں کے ذریعہ ہی جادو ٹونا کرتے ہیں، تو ایسی حالت میں یہ بڑی دکھ کی بات ہے کہ علماءکرام خواہ مخواہ جادو کو سہارا دے رہے ہیں۔
جو آدمی یہ کہتاہے کہ میرے پاس جنّ ہے، جسے میں اپنے قابو میں رکھاہوں، اس سے آپ یہ کہیے: میں تجھے ماروں گا۔ تو مجھے نہیں روکنا بلکہ تیرے قابو میں جو جنّ ہے اس کے ذریعہ تو مجھے روکنا ہے، کیا وہ اس بات کو مان لے گا؟
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جادو گر جنوں کو اگر اپنے قابو میں رکھتاہو، تو پھر کیا وہ اپنی ضروریات زندگی کے لیے لوگوں کے پاس ہاتھ پھیلاتے رہے گا؟
جنوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی بات اگر صحیح ہے، تو وہ اس کو یہ حکم کیوں نہیں دیتا کہ زمین میں مدفون کئی ہزار کروڑ رروپیوں کا سُونا نکال کر باہر لے آئے، اوراپنے قدموں میں ڈال دے؟
ان عاملوں ، باباوں ، اور عالموں کے پاس اگرجنّ آتے ہیں ان کی بات مانتے ہی ہیں ،تو ان میں سے کسی چار جنّوں کو امریکہ اوراسرائیل میں تباہی مچانے کے لیے بھیجا جاسکتاہے؟ جب کہ جنوں کو ایسا کرنے پر قدرت بھی ہے؟
کہیں دور میں موجود شاہی تخت کو پلک جھپکتے میں حاضر کرنے والے جنوں کو اگر یہ حکم دیں، تو امریکہ کے بنڈگان میں موجود تمام اسلحہ کو منٹوں میں برباد کرسکتاہے؟
جنّوں کو قبضے میں رکھنے کی بات کرنے والے یہ جھوٹے ، فریبی اور مکار لوگ چھوٹا موٹا اورمعمولی کام ہی دیکھتے ہیں۔ جنوں سے جو بڑے بڑے کام ہوتے ہیں ان میں سے کوئی کام بھی یہ نہیں کرواتے۔
عقل سے ذرا سوچیں، تو پتہ چلے گا کہ آنکھوں کو نظر نہ آنے والی مخلوق کو جو عقل وشعور بھی رکھتی ہے، دوسروں کو اپنے قابو اور قبضے میں کرنے کا امکان زیادہ رہے گا۔ جنّ ہم کو دیکھتا ہے، جب کہ ہم اس کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اس کے متعلق اللہ، قرآن میں کہتاہے:
(الاعراف 7: آیت نمبر27)
اگر جنّ کسی آدمی کے سرپر ڈابی مار کر یہ کہے: میری بات سنو! تو وہ آدمی انکار اورنافرمانی نہیں کرے گا، کیوں کہ جن اس کے آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتا اور وہ آدمی یہ نہیں جانتا کہ اگلا مار کس طرف سے پڑے گا؟ اس لیے وہ اس کی مخالفت کیے بغیر اس کی اطاعت کرے گا۔ یہ بات ہم تسلیم کرسکتے ہیں۔
مگر انسان ، اپنے ہی طرح عقل ودانائی اورفہم وشعور رکھنے والے جنّوں کو جو طاقت وقدرت میں انسان سے کئی گنا زیادہ بھی اور نظروں سے اوجھل رہنے کی وجہ سے اور بھی قوت رکھتاہے ، اپنے قابو میں کبھی نہیں لاسکتا۔ اور اپنے قبضے میں ہرگز نہیں کرسکتا۔
یہ لوگ جنّوں کی مدد سے ان کے لائق کوئی کام نہیں لیتے ۔بلکہ عوام کو اُلو بناکر روپیے اینٹھنے کے لیے ہی جادو کے نام سے ڈراتے ہیں۔
کیا معجزوں کو ماننا شرک ہے؟
جادو گرکے تعلق سے یہ ماناجاتاہے کہ وہ انسان کی طرح نہیں، بلکہ اللہ کی طرح وسائل وذرائع کا استعمال کیے بغیر ہی کام کرتاہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ جادو کے ذریعہ اثرڈالنے کا عقیدہ رکھنا صرف منتر سے تاثیر پیدا کرنے کا اعتقاد رکھنا اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ اس پر جادو پارٹی کے لوگ ہم سے کچھ الٹے سوال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انبیا نے جو معجزات دکھائے انہیں تم مانتے ہو، اور ہم بھی مانتے ہیں۔ نیز انبیا کا کوئی معجزہ انسان کے کام اور کمال کی طرح نہیں تھا۔ بلکہ واقعی اللہ کی کمالِ قدرت ہی کی طرح تھا۔ معجزات کو مانتے وقت چونکہ انبیا بھی اللہ کی طرح کمال دکھانے کا مفہوم پایاجاتاہے۔ اس لیے کیا تم معجزات کو ماننا اللہ کے ساتھ شرک کہیں گے؟
ہماراجواب یہ ہے کہ ان کا یہ دعوا نادانی اور جہالت پر مبنی ہے۔ انبیا نے جو معجزات کردکھائے وہ انسان کا کمال نہیں۔ ان کی یہ بات بھی صحیح ہے کہ کوئی آدمی بھی اس طرح نہیں کرسکتا۔ مگر ان کی بات بھی ٹھیک ہے۔ مگر انبیا نے جو معجزے دکھائے وہ دراصل ان کے کیے ہوئے کام نہیں۔
اللہ ہی نے انسانوں میں سے نبیوں (انبیا)کوبھیجا ۔ لوگ انہیں اللہ کا رسول ماننے اور ان پر ایمان لانے کے لیے بطورِ دلیل چند معجزات ان کے ذریعے ظاہر کیے۔ ان معجزات اورانبیا ء میں کوئی تعلق نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انبیا کو خود ان کی زبان سے لوگوں میں اعلان کرواتا ہے کہ ہم اللہ کی اجازت ہی سے کوئی کرشمہ دکھاسکتے ہیں۔ اوراللہ کے حکم ہی سے ہم کوئی معجزہ ظاہر کرسکتے ہیں۔ قرآن کی کئی آیتوں میں اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی وضاحت کے ساتھ ذکر کرتاہے۔
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا جادو گر اللہ کی طرف سے وحی پاکر اوراس کی اجازت ہی سے جادو کرتے ہیں؟ کیا جادو پارٹی کا عقیدہ یہی ہے؟
اس لیے انبیا کے معجزات کو جادو کے ساتھ ملانے اور آپس میں موازنہ کرنے کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں۔
انبیا جب معجزہ دکھانا چاہیں، تب دکھا نہیں سکتے۔ اسی طرح ان سے جب لوگ معجزہ کا مطالبہ کریں، تب بھی انبیا معجزہ ظاہر نہیں کرسکتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو جب اجازت دیتاہے، صرف اس وقت پر وہ معجزہ قوم کے سامنے دکھاسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معجزہ دکھانے کا اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
(الرعد13: آیت نمبر38)
(المؤمن40: آیت نمبر78)
(ابراہیم14: آیت نمبر11)
یہ آیتیں ناقابل انکار دلائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ، انبیا ء کرام کوئی معجزہ بھی نہیں دکھا سکتے۔
(بنی اسرائیل 17: آیت نمبر90-93)
مذکور ہ معجزات ظاہرکردکھانا اللہ کے لیے بہت ہی آسان ہے۔ قوم والوں نے نبی سے یہ سب کرنے دکھانے کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ ان میں سے کوئی ایک معجزہ کا مطالبہ کیا اور یہ بھی کہا کہ اس طرح وہ اگر معجزہ دکھادے تو اس کو نبی مانیں گے۔ اوراس کی رسالت پر ایمان لائیں گے۔
اس پر اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کے زبانی جواب دیتاہے کہ جس کا مفہوم یہ ہے لوگو! میں بھی تم جیسا ایک آدمی ہوں، اور ساتھ ہی اللہ کا رسول بھی ہوں، جس کی ذمہ داری تو صرف اس کا پیغام پہنچانا ہے۔ اور معجزے دکھانا تو اللہ کے اختیار میں ہے۔ اور جس چیز کو اللہ ہی سے مانگنا ہے اس کا مطالبہ مجھ سے کیوں کر رہے ہو؟
معجزہ ظاہر کرکے دکھانے والا اللہ ہی ہے۔ جب وہ چاہے گا تب انبیا کے ذریعہ اس کو ظاہر کرے گا ۔یہ بات سمجھنے کے لیے مذکورہ دلائل کافی ہیں۔ حقیقت میں کرشمہ بتانے والا کون ہے؟ معجزہ ظاہر کرکے دکھانے والا دراصل کون ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک اور ناحیت سے بھی ہم کو غور کرنا چاہیے ۔
تمام انبیا نے لوگوں سے کیا کہا؟ یہی کہ ہم انسان ہی ہیں۔ اللہ کی طرف سے اگر حکم آئے، تبھی ہمارے ذریعہ وہ جو معجزہ دکھاناچا ہےگا،وہ ہم سے ظاہر ہوگا۔ اس معاملے میں ہمار ا کوئی عمل دخل نہیں۔
مگر جادو پارٹی کے لوگ یہ مانتے ہیں کہ جادو گر (اپنا فیس وصول کرنے کے بعد ) جس وقت چاہے اور جس پر چاہے جادو کراسکتے ہیں۔
انبیا خود سے معجزہ نہیں دکھاتے ۔بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ان کے ذریعہ ظاہر کر دکھانے کی بات کو اور بھی یقین کے ساتھ جاننے کے لیے موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ خرق عادت جو معجزات رونماہوئے ان پر غور کرسکتے ہیں۔
نبی موسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ سے بات چیت کرنے کے لیے کوہِ طور سیناء تشریف لے گئے۔ پھر کیا ہوا؟
(طٰہٰ 20: آیت نمبر17-21)
موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں جو تھا وہ صرف لاٹھی تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھی اس کا اعتراف اوراقرار کیا۔ اس کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے اس کو نیچے ڈالنے کےلیے کہتاہے۔ ڈالتے ہی وہ فوراً سانپ بن گئی۔ اس معجزہ کو اللہ ہی نے دکھایا۔ موسیٰؑ کو معلوم نہیں تھا کہ وہ سانپ بن جائے گی۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا، جہاں آپ نے فرعون کو توحید کی دعوت دی۔ اوراللہ کی اجازت سے وہی معجزہ دکھایا۔ اس کو دیکھ کر فرعون نے اعلان کیا اورللکارا کہ یہ تو جادو ہے۔ ہمارے دیس کے جادو گروں کے ساتھ تیرا مقابلہ رکھوں گا ۔ ان کے ذریعہ تجھے شکست دوں گا۔
چنانچہ بہت سارے جادوگر آئے اور اپنا جادو اورکرتب دکھانے لگے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پاس لاٹھی رکھنے کے باوجود اس کو ڈال کر فریق مخالف کے جادوگروں کو شکست نہیں دی۔ بلکہ اللہ کے حکم کا انتظارکررہے تھے۔ حالانکہ اللہ نے اس سے پہلے بھی لاٹھی کو سانپ بنا کردکھایا تھا۔ اس کے باوجود موسیٰ نے اللہ کا حکم آنے کے بعد ہی وہ کام کیا۔
اللہ کا فرمان آنے کے بعد موسیٰ ؑ نے لاٹھی ڈالی، تب چل کر وہ لاٹھی بہت بڑا سانپ بن کر جادوگروں کے شعبدوں کو نگلنے لگی۔ ملاحظہ ہو:
(النمل27: آیت نمبر115-117)
موسیٰ کے ہاتھ میں لاٹھی ہونے کے باوجود، اس کو ڈالنے کا وقت آنے کے باوجود آپ نے جلدی نہیں کی۔ بلکہ اللہ کا حکم ہونے کے بعدہی ڈالی۔ اسی طرح ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمایئے:
(الشعراء26: آیت نمبر61-63)
جب دشمنوں نے موسیٰ اور ان کی قوم کو پکڑکر سزا دینے کے لیے تیزی سے آرہے تھے ، توموسیٰ ؑ نے اپنی لاٹھی سے سمندر کو نہیں مارا۔ بلکہ کہنے لگے کہ اللہ میری رہنمائی کرے گا، اور حکم الٰہی کا انتظا رکرنے لگے۔ چنانچہ ارشاد ہوا کہ اپنی لاٹھی سے سمند ر پر ماریے۔ ارشاد الٰہی پانے کے بعد ہی موسیٰ نے مارا۔ غرض اللہ کے حکم ہی کی وجہ سے یہ معجزہ ظاہر ہوا۔
اسی طرح موسیٰ ؑ کی زندگی میں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا، ملاحظہ ہو:
(البقرۃ2: آیت نمبر60)
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ ہاتھ میں لاٹھی رہنے پر بھی، ضرورت کے وقت اس کو مار کر موسیٰ نے پانی کا چشمہ جاری نہیں کیا۔ اور کر بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ اللہ کا حکم آنے سے پہلے تک بھی وہ لاٹھی، صرف ایک معمولی لاٹھی ہے۔ جس سے کوئی خرق عادت کرشمہ ظاہر نہیں ہوگا۔ اسی لیے موسیٰ نے قوم کو پانی کی ضرورت کے سلسلے میں اللہ سے دعا کی۔ اللہ کا حکم آنے کے بعد ہی آپ نے اپنے لاٹھی سے اس چٹان پر دے مارا۔ جس سے چشمے جاری ہوگئے۔
کیا جادو پارٹی کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جادو میں تاثیر پیدا کرنے کے لیے جادوگر کو اللہ کی طرف سے وحی آئے گی؟ وہ اگر ایسی بات کریں تبھی جادو کا انبیا کے معجزات کے ساتھ موازنہ کرکے سوال کرسکتے ہیں۔
توحید کو قائم کرنے کے لیے اللہ نے جومعجزات دکھائے۔ ان کو یہ لوگ شرک کے جواز کے لیے بطورِ دلیل پیش کررہے ہیں۔ ہائے افسوس ان کا ایمان کتنا کمزور ہوتاجارہاہے۔
نبی عیسیٰ علیہ السلام نے مُردوں کو زندہ کرنا وغیرہ کئی معجزات دکھائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان معجزات کا ذکر کرتے وقت یوں کہا کہ یہ کام میری اجازت ہی سے ہوا۔ عیسیٰ سے کچھ نہیں ہوا۔ کیونکہ وہ آپ خدائی صفات یا اختیارات کے حامل نہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:
(آل عمرآن3: آیت نمبر49)
(المائدۃ5: آیت نمبر110)
لوگوں نے جب بھی معجزات کا مطالبہ کیا ۔ انبیا نے وہ نہیں دکھائے ۔جب انبیا ء نے لوگوں کو معجزہ دکھانا چاہا ، تب بھی وہ نہیں دکھائے۔
بہرحال الٹے سوال کرنے والے جادوپارٹی کے لوگوں کو معلوم ہوناچاہیے کہ انبیا ء کے ذریعہ اللہ نے جو معجزات دکھائے، ان کو ماننے سے وہ شرک کے دائرے میں آئے گا ہی نہیں۔ مگر جادو سے اثر ہونے کا عقیدہ رکھنا بے شک شرک کے دائرے میں آتاہے۔
کیا سامری کے کرشمے کو ماننا شرک ہے؟
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کتابِ الٰہی دینے کے لیے کوہِ طورپر بلایا۔ آپ کوہِ طور کی طرف نکلتے ہی قوم کا ایک فرد سامری نے لوگوں کے زیورات حاصل کرکے پگلا کر بچھڑے کا ڈھانچہ بنایا۔
نبی موسیٰ کے قدموں کے نیچے کی مٹی اٹھا کر اس میں ڈالتے ہی اس میں سے آواز آئی ۔ سامری نے لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ خدا یہی ہے۔ اورموسیٰ علیہ السلام تو راستہ بھٹک گئے ہیں۔ اس طریقے سے اس نے ان لوگوں میں بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ (دیکھئے طٰہٰ 20: آیت نمبر96)
یہاں پر جادو پارٹی کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اس کو اگر مان لیں، تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں آئے گا کہ سامری نے اللہ کی طرح کام کردیا ہے؟ جادو کی تاثیر ماننا اگر شرک ہے، تو پھر سامری نے جو کیا اس کو ماننا بھی شرک ہی ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ سامری نے جو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس طرح کرنے پر قدرت رکھتا تھا۔
ہم یہ جملہ کب کہتے ہیں کہ فلاں صاحب اس کام میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ اور یہ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے؟
جب ان کو کرنے کا خیال آئے، تو کردکھانا چاہیے۔ دیا سلائی کی ایک کاڑی کو تمام آدمی میں دو ٹکڑے کردیتے ہیں، جسے ہم بھی مانتے ہیں جب ہم چاہیں اسے دو ٹکڑے کردکھا سکتے ہیں۔ لاکھ میں کوئی ایک کاڑی اللہ کی مرضی کے مطابق ٹوٹنے سے رہ جائے گی۔
فرض کیجئے کہ ایک شخص ایک سبّل کو ٹیڑھا کرتاہے، اس وقت وہ ٹوٹ جاتاہے۔ تو کیا ہم اس کو سبل توڑنے کے قابل بڑا طاقتور کہیں گے؟ نہیں ، بلکہ اس کے پاس اوربھی چند سبل دے کر کہیں گے اس کو توڑ کے دکھاؤ۔ جب وہ ہمارے کہنے کے مطابق تمام سبل توڑ کر ٹکڑے کردیتاہے ،تب ہم سمجھیں گے کہ اس کو واقعی سبل توڑنے کی طاقت ہے۔
اگر وہ شخص دوسرے سبل کو اس طرح توڑ نہ سکے، یا وہ اس طرح کرنے سے انکار کردے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سبل ایک مرتبہ جو ٹوٹ گیا ، وہ اس شخص کی طاقت سے نہیں بلکہ وہ اندر سے کھوکھلا رہا ہوگا۔ یااللہ نے اس سبل کو ٹوٹنے کا حکم دیا ہوگا۔ ہم ایسا ہی سمجھیں گے۔ اوریہ فیصلہ کرلیں گے کہ اس شخص کو سبل توڑنے کی طاقت نہیں۔
ہماراسوال یہ ہے کہ سامری نے جو کیا ،وہ کیا خود سے منصوبہ بناکر اس کو کیا؟ کیا سامری نے جب چاہا بچھڑے کی طرح بناکر اس میں آواز پیدا کرنے کی قدرت رکھتاتھا؟ یا اتفاقی طورپر ایک بار ایسا ہوا؟
اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں وضاحت کرتاہے ۔ ملاحظہ ہو:
(طٰہٰ20: آیت نمبر95-97)
جب موسیٰ نے جانچ پڑتال کیا کہ کیا ماجرا ہے؟ اس وقت پر سامری نے یہ نہیں کہا کہ مجھے اس طرح کرنے کی قدرت ہے بلکہ جواب دیا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ اس ڈھانچے میں رسول کے پاوں تلے مٹی ڈالی جائے، اور بس۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس کو اس طرح کرنے کی قدرت نہیں تھی۔ مگر اللہ نے اس کے دل میں یہ خیال ڈال دیا کہ اس طرح کردے ۔ چنانچہ اس نے وہ کام کردیا۔
سامری کے پاس کوئی جادو ئی طاقت اورمنترکا کرشمہ وغیرہ کچھ نہیں ہے۔ اس کو قوم کے سامنے ثابت کردکھانے کے لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس کے بنائے بچھڑے کو آگ میں جلا کرراکھ کر دیا۔ پھر اس راکھ کو سمندر میں خوب بھکیر کردکھادیا۔ سامری کچھ نہ کرسکا۔ چپ چاپ کھڑا سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
مضبوط ایمان والے موسیٰ کے سامنے سامری ٹھہر نہ سکا، احتجاج نہ کرسکا۔ جب بچھڑے کو اس نے بنایا اسے خود وہ بچا نہ سکا۔ اور نہ وہ بچھڑا اس کو بچا سکا۔
اس طرح کئی لوگوں کی زندگی میں بھی اتفاقی طورپر کرامات وکرشمے ظاہر ہوتے ہیں۔ مگران کرامات کے وہ مالک وحقدار نہیں ہوں گے۔
کوئی شخص کوما(انتہائی بے ہوشی) میں پڑا ہو تو پورے ڈاکٹر کہہ دیں گے کہ یہ کبھی اٹھے گا ہی نہیں۔ مگر اچانک اس کو ہوش آجائے، بات کرنے لگے اور ہم سے خیریت دریافت کرے ۔ توکوئی بھی یہ ہرگز نہیں کہے گا کہ یہ اس کا کرشمہ اورکرامت ہے ۔ اورہم بھی اس طرح نہیں کہیں گے۔ بلکہ یوں کہیں گے کہ اللہ نے اس پر مہربانی کرنے کے لیے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھایا ہے۔
کسی کو کوئی کام اس کا کب ہوتاہے ؟ جب خودسے سوچ سمجھ کر کسی کام کے لیے باقاعدہ منصوبہ بناکر اس کے مطابق کرے، تب چل کر ہم کہیں گے کہ ہاں! یہ کام اس نے کیا ہے۔
ایک آدمی پچاس منزلہ عمارت سے نیچے گرگیا۔ مرا نہیں۔ جان بچ گئی۔ تو ہم اس کو کس طرح سمجھیں گے؟ وہ جب چاہے پچاس منزلہ عمارت سے گرے گا اس کو کچھ نہیں ہوگا۔ ایسا کوئی بھی نہیں کہے گا۔کرنے والا بھی نہیں کہے گا ۔ ہم اس واقعے کو یوں سمجھیں گے کہ اللہ نے معجزاتی طریقے سے اس کی مدد کی ہے، جس کی اس کو خود امید نہیں تھی۔ جب ہم اس حقیقت کو سمجھ لیں گے، تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ سامری نے کوئی کرشمہ نہیں دکھایا، اور نہ اس کے پاس اس کی قدرت ہی تھی۔
جادو گر کو جب چاہے جس کے خلاف بھی جادو کرکے اللہ کی طرح کرنے کی قدرت واختیار والا سمجھنا اور یہ واقعہ دونوں کیسے برابر ہوسکتاہے؟
(۱) بہرحال سامری نے کیا سامری سے ظاہر ہوا۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ (۲) جادوگر کو بہت ساری قدرتوں والا ماناجاتاہے۔ اوریہ عقیدہ سامری سے ظاہر ہونے والا اتفاقی واقعہ کی طرح نہیں۔ (۳) جادو گر خود سے منصوبہ بناتاہے۔ جب بھی منصوبہ بناتاہے برابر منتر پڑھتا ہے۔(۴) اوروہ جتنے بار چاہے اس طرح کرتاہے۔
غرض یہ جادو منتر شرک نہیں تو اور کیا ہے؟
کیا دجال کےمعجزات کو ماننا شرک نہیں ہے؟
ہم مانتے ہیں کہ دجال آگے آنے والے زمانے میں آئے گا۔ جو کئی کام خرق عادت کرکے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے گا۔ اس کے کاموں میں مردے کو زندہ کرنا بھی شامل ہے ۔ نیز کسی کو مار ڈال کرپھر اس کو جی اٹھائے گا بھی۔
اب فریق مخالف ہم سے الٹاسوال کرتے ہیں کہ ہم اگر یہ مان لیں کہ اللہ کی طرح کوئی بھی نہیں کرسکتا، تو دجال اس طرح کرنے کو کس طرح مانیں؟ اگر اس کو مان لیں تو کیا یہ بھی شرک نہیں ہوگا؟
اس سوال کو اگر سرسری طورپر دیکھیں، تو صحیح معلوم ہوگا۔ مگر ذرا غور کریں تو واضح ہوجائے گا کہ یہ سوال ہی غلط ہے۔
کیونکہ نوح علیہ السلام سے لے کر تمام انبیانے امت کو باخبر کیا ہے کہ آخری زمانے میں دجال آنے والا ہے۔
عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے صحابہ کو خطاب فرمایا: آپ نے اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کی جو اس کی شان کے لائق ہے۔ پھر دجال کا ذکر فرمایا اورفرمایا کہ میں بھی تمہیں اس کے بارے میں ڈراتاہوں۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس کے فتنوں سے نہ ڈرایا ہو۔ نوح نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا۔ لیکن میں اس کے بارے میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی۔ اوروہ بات یہ ہے کہ دجال کا نا ہوگا (ایک آنکھ والا) اوراللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے۔(بخاری:3057)
اللہ کے نبی ﷺنے ہمیں بتلادیا ہے کہ دجال آکر کچھ غیر معمولی کام کرکے اپنے آپ کو خدا ہونے کا دعوا کرےگا۔ خبردار! تم اس کی باتوں پر یقین نہ کرو۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کیوں نہ میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات بتادوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی۔ وہ کانا ہوگا۔ جنت اور دوزخ جیسی چیز لائے گا۔ پھر جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہوگی۔ اورمیں بھی تم کو (اس کے بارے میں) اسی طرح باخبر کرتاہوں جیسے نوح نے اپنی قوم کو باخبر کیا تھا۔ (بخاری: 3338)
ابن عمرؓ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ایک دن لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کیا۔ اورفرمایا کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔ لیکن دجالِ مسیح کی داہنی آنکھ کانی ہے۔ اس کی آنکھ (خوشے میں) اٹھے ہوئے انگو ر کی طرح ہوگی۔ (بخاری: 3439)
عمربن ثابت انصاریؓ نے بیان کیا کہ ان سے رسول ﷺ کے بعض صحابہ نے بیان کیا جس روز اللہ کے رسول ﷺ نے لوگوں کو دجال سے ڈرایا ۔ (اس وقت) پھر یہ بھی فرمایا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں’’کافر‘‘ لکھا ہوگا۔ جس کو وہ شخص پڑھ لے گا جو اس کے کاموں کو براجانے گا یا اس کو ہر مومن پڑھ لے گا۔ اور آپ نے فرمایا: تم یہ جان رکھو کہ تم میں سے کوئی مرنے سے پہلے اپنے پروردگار کو نہیں دیکھ سکتا۔ (مسلم: 5615)
انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے سے نہ ڈرایا ہو۔ خبردار ہوجاؤ۔ وہ کانا ہے اورتمہارا پروردگار کانا نہیں ہے۔ اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں کا ،ف، ر (یعنی کافر) لکھاہوگا۔ (مسلم: 5620)
اللہ کی وحدانیت کا انکار کرنے والا جو بھی ہو، لوگوں نے اس کے کام سے پہچان لیا کہ یہ کافر ہے۔ مگر کسی کی پیشانی میں اس (دجال) کی طرح’’کافر‘‘ لکھ کر نشاندہی نہیں کی گئی۔ یہ اس دجال کی بہت بڑی کمزوری اورعیب ہے۔
دجال کچھ کمالات دکھا کر خود کو خدا کہے گا۔ مگر یہ بات جادو گر کو قدرت والا ماننے کی طرح نہیں ہے۔
دجال اور جادوگر میں پیشن گوئی کے اعتبار سے فرق ہے۔ یعنی دجال کے بارے میں پہلے ہی بتادیا گیا کہ وہ آنے والا ہے، جس کی پیشانی پر لفظ کافر لکھاہوگا، نبی ﷺ نے خبردی کہ وہ کمالات دکھائے گا اور اس سے بھی باخبر کیا کہ وہ داہنی آنکھ سے کانا ہوگا۔ اور خدا ہونے کا دعوا کرے گا۔ غرض پیشن گوئی کے لحاظ سے دجال جو ہے ، جادو گر کی قدرت سے مختلف ہے۔
اس کے علاوہ دجال جو کرشمہ اور کمال دکھا کر اپنے آپ کو خدا ہونے کا دعوا کرے گا، اسی کمال اور معجزے میں اللہ تعالیٰ اس کو جھوٹا ثابت کردے گا۔
ابوسعید خدریؓ نے بیان کیا کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے دجال کے متعلق ایک لمبی حدیث بیان کی۔ آپ نے اپنی حدیث میں یہ بھی فرمایا تھا کہ دجال مدینے کی ایک کھاری شور زمین تک پہنچے گا۔ اس پر مدینے میں داخلہ تو حرام ہوگا۔(مدینے سے)اس دن ایک شخص اس کی طرف نکل کر بڑھے گا۔ یہ لوگوں میں بہترین نیک مرد ہوگا یا (یہ فرمایا کہ) بزرگ ترین لوگوں میں سے ہوگا وہ شخص کہے گا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ تو ہی دجال ہے جس کے متعلق ہمیں رسول اللہ ﷺ اطلاع دی تھی۔
دجال کہے گا: کیا میں اسے قتل کرکے پھر زندہ کرڈالوں، تو تم لوگوں کو میرے معاملے میں کوئی شبہ رہ جائے گا؟ (اس کے حواری) لوگ کہیں گے: نہیں۔ چنانچہ دجال اس (نیک بندے ) کو قتل کرکے پھر زندہ کردے گا۔
جب دجال اس کو زندہ کردے گا، توہ وہ(بندہ) کہے گا: اللہ کی قسم! میں نے تیرے بارے میں آج کے دن سے زیادہ (بخوبی اس سے پہلے) نہیں جانا۔ (یعنی اب تو مجھ کو پورا حال معلوم ہوگیا کہ تو ہی دجال ہے)۔
اس پر دجال کہے گا: لاؤ اسے قتل کردوں۔ لیکن اس مرتبہ وہ قابو نہیں پاسکے گا۔(بخاری: 1882)
اس حدیث میں بڑی وضاحت ہے کہ دجال للکارتا ہے کہ میں اگر ایک نیک بندے کو قتل کرکے پھر جی اٹھاؤں، تو کیا تم لوگ مجھے واقعی خدا مان لوگے؟ اس نے کہنے کے مطابق ایک نیک بندے کو قتل کرکے پھر اس کو زندہ کرکے دکھائے گا۔ مگر یہ بات قابل توجہ ہے کہ دجال نے جس آدمی کو دلیل بناکر خود کو خدا ہونے کا دعوا کرے گا ،وہی آدمی اس کو خدا ماننے سے انکار کردے گا۔ اورکہے گا کہ تو وہی دجال ہے جس سے ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں باخبر کیا تھا۔
اس حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دجال یہ سمجھ رہا ہوگا کہ اُ سے مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت ہے ۔چنانچہ وہ دوبارہ اس نیک آدمی کو مارڈالنے کی کوشش کرے گا۔ مگر وہ قتل نہیں کرسکتا۔
اسی وقت اور اسی لمحہ یہ ثابت ہوگیاکہ اس نیک آدمی کو قتل کرنا پھر اس کو زندہ کرنا، مارنا اور جلانا دراصل دجال کاکام نہیں۔ (یہ تو خاص اللہ کی صفت ہے ۔ مگر اس نے لوگوں کی آزمائش کے لیے دجال کے ہاتھ پر یہ نشانی ظاہر کیا۔ بس) دجال اس آدمی کو پھر زندہ کرنا تو درکنار، اسے قتل بھی نہیں کرسکتا۔ حالانکہ کسی کو قتل کرنا انسان سے ہونے والا کام ہی ہے۔ زندہ کرکے اٹھانا ہی ناممکن ہے۔ مگر یہاں پر اللہ تعالیٰ یہ دکھا دیتاہے کہ دجال ایک آدمی کو بھی قتل بھی کرسکتا۔
ایسی بات ہی یہ حدیث کہتی ہے اگر ہم اس طرح مانیں ، تو کیایہ دجال کو خدائی صفت والا ماننا ہوا؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ حدیث تو اس بات کے لیے دلیل ہے کہ دجال خدائی صفت والا ہی نہیں ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کسی شخص کو ایک قدرت دیا ہوتا، تو وہ کئی مواقع پر اس کا استعمال کرسکتاہے ۔ مگر ایک ہی مرتبہ اس شخص سے ایک قدرت ظاہر ہوا، پھر وہ اس کو دوبارہ نہ کرسکا اور کرنے سے عاجز رہا، توہم معلوم کرسکتے ہیں کہ اس کے ذریعے اللہ نے ایک مرتبہ کرشمہ ظاہر کیا ہے۔
جادو پارٹی دجال اور جادو گر دونوں کو ہم پلہ سمجھ رہی ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں۔ دجال اپنا کرشمہ دکھاتے ہی اسی لمحے میں اس کو جھوٹ ثابت کردیا جائے گا۔ مگر جادو پارٹی کے لوگ جادوگر کے کرتب کے بارے میں اس طرح عقیدہ نہیں رکھتے کہ جادوگر جو شعبدہ دکھاتاہے ،وہ فوری طورپر جھوٹ ثابت ہوگا۔ بلکہ وہ لوگ یہ مانتے ہیں کہ جادو گر ایک بار نہیں بلکہ جتنے بار چاہیں جادو کرسکتے ہیں وہ اس کی قدرت رکھتے ہیں ۔اوراللہ کی طرح کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺ نے وضاحت کردی کہ دجال جو کرشمہ اورمعجزہ دکھائے گا وہ سچ مچ اور حقیقت نہیں، بلکہ دھوکا اور فریب ہی ہے۔
ربعی بن حراش نے بیان کیا کہ عقبہ بن عمروؓ نے حضرت حذیفہؓ سے کہا: کیا آپ وہ حدیث ہم سے نہیں بیان کریں گےجو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی؟ انہوں نے کہا: میں نے آں حضرت ﷺ کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جب دجال نکلے گا ، تو اس کے ساتھ آگ اور پانی دونوں ہوں گے۔ لیکن لوگوں کو جو آگ دکھائی دے گی وہ (حقیقت میں) ٹھنڈا پانی ہوگا، اور لوگوں کو جو ٹھنڈا پانی دکھائی دے گا، وہ تو(دراصل)جلانے والی آگ ہوگی۔ اس لیے تم میں سے جو کوئی اس کے زمانے میں ہو، تو اسے جو آگ ہوگی، اس میں گرنا چاہیے۔ کیونکہ وہی انتہائی شیرین اور ٹھنڈا پانی ہوگا۔(بخاری: 3450)
دجال جس کو دوزخ کہے گا ، وہ دراصل دوزخ نہیں بلکہ جنت ہے۔ اور وہ جسے ٹھنڈا پانی کہے گا، وہ سچ مچ گرم کھولتا ہوا پانی ہوگا۔ اس کے ذریعے اسی وقت پتہ چل جائے گا کہ یہ (دجال) خدا نہیں بلکہ فریبی اور مکار ہے۔
کیا جادو پارٹی کا یہ عقیدہ ہے کہ جادوگرا للہ کی طرح ایک بار کرے گا؟ جب اس کا جھوٹ ثابت ہوجائے گا، تو پھراس کو وہ دوبارہ کرنے کی قدرت نہیں پائے گا؟ کیا یہ ان کا عقیدہ ہے؟ اگر وہ اس قسم کا عقیدہ رکھیں، تو کیا وہ اس کے لیے دلائل پیش کریں گے؟
کیا دجال کا اتفاقی کرشمہ اورجادو دونوں ایک ہوسکتاہے؟
البقرۃ کی آیت نمبر 102 کیا کہتی ہے؟
جن لوگوں کی رائے یہ ہے کہ جادو کے ذریعہ کچھ کام کرسکتے ہیں، وہ قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر102 کے حوالہ دیتے ہوئے دعوا کرتے ہیں کہ جادو سے متاثرکیا جاسکتاہے۔
یہ آیت کیا کہتی ہے؟ اس کو کس طرح سمجھنا چاہیے؟ کیا یہ آیت کہتی ہے کہ جادو کو قدرت ہے اور اس میں تاثیر ہے؟ یا اس کے برخلاف کہتی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنہیں وضاحت کے ساتھ جاننا ضروری ہے۔
اس کا صحیح معنیٰ جاننے سے پہلے دوسرے فاضل ترجموں کا ترجمہ پیش خدمت ہے ۔ تیسیر الرحمن لبیان القرآن سے محمد لقمان سلفی کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ’’اور وہ پیچھے ہولیے ان باتوں کے جو شیاطین ، سلیمان کے عہد سلطنت میں پڑھا کرتے تھے ۔ او رسلیمان نے کفر نہیں کیا۔ بلکہ شیاطین نے کفر کیا کہ وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے ۔ اور اس چیز کے پیچھے ہولئے جو بابل میں ہاروت وماروت دوفرشتوں پر اتاری گئی۔ او وہ دونوں کسی کو جادو سکھانے سے پہلے بتادیا کرتے تھے کہ ہم تو صرف آزمائش کے طورپر بھیجے گئے ہیں۔ اس لیےکفرنہ کرو۔
پھر بھی لوگ ان دونوں سے وہ کچھ سیکھتے تھے جس کے ذریعہ آدمی اور اس کے بیوی کے درمیان تفریق پید اکرتے تھے۔ او روہ اس (جادو) کے ذریعہ بغیر اللہ کی مشیت کے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔
اورلوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جو ان کے لیے نقصان دہ تھی، اور نفع نہ پہنچا سکتی تھی۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ جو کوئی جادو کو اختیار کرے گا، اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اور بہت ہی بری چیز تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنےآپ کو بیچ ڈالا ،کاش وہ اس بات کو سمجھتے۔(البقرۃ2:آیت نمبر102)
توضیح القرآن سے مفتی محمد تقی عثمانی کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
اوریہ (بنی اسرائیل) ان (منتروں) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کے زمانے میں شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ اور سلیمان نے کوئی کفر نہیں کیا تھا۔ البتہ شیاطین لوگوں کو جادو کی تعلیم دے کر کفر کا ارتکاب کرتے تھے۔ نیز(یہ بنی اسرائیل) اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت وماروت نامی دوفرشتوں پر نازل کی گئی تھی۔ یہ دو فرشتے کسی کو اس وقت تک کوئی تعلیم نہیں دیتے تھے جب تک اس سے یہ نہ کہہ دیں کہ یہ محض آزمائش کے لیے (بھیجے گئے) ہیں۔ لہذا تم (جادو کے پیچھے لگ کر) کفر اختیار نہ کرنا۔
پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیزیں سیکھتے تھے جس کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی پیدا کردیں۔(ویسے یہ واضح رہے کہ ) وہ اس کے ذریعہ کسی کو اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔
(مگر ) وہ ایسی باتیں سیکھتے تھے جو ان کے لیے نقصان دہ تھیں، اورفائدہ مند نہ تھیں۔ اور وہ یہ بھی خوب جانتے تھے کہ جو شخص ان چیزوں کا خریدار بنے گا، آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز بہت ہی بری تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچ ڈالیں۔ کاش کہ ان کو (اس بات کا حقیقی) علم ہوتا۔ (البقرۃ2:آیت نمبر102)
(ویسے زبان اردو میں قرآن کریم کے بہت سارے ترجمے دستیاب ہیں ۔میں یہاں صرف ان دو ترجموں پر اکتفا کرتاہوں - مترجم)
ان دو ترجموں کے دوران خط کشیدہ جملے خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ ہیں ۔اوراس سے پہلے یہ جان لیں کہ یہ دونوں ترجمے کیا کہتی ہیں؟
وہ یہ کہ دوفرشتے لوگوں کو جادو سکھانے آئے تھے نیز جو جادو سیکھنا چاہتے ہیں ان کویہ پہلے باقاعدہ باخبر کردیتے تھے کہ جادو مت سیکھو ورنہ کافر ہوجاؤگے۔
اس طرح وہ فرشتے ان کو تنبیہ اورآگاہ کرنے کے باوجود جادو سیکھنے کی خواہش اورولولہ رکھنے والوں نے ان سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا سیکھ لیا۔
مذکورہ دونوں ترجمے اوران سے ملتے جلتے دیگر ترجموں سے یہ مفہوم نکلتاہے کہ جو جادو سیکھنا چاہتے ہیں انہوں نے جادو کی ایک قسم میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کو سیکھ لیا۔
جادو پارٹی کہتی ہے کہ یہ دلیل ہے کہ جادو سے شوہر اوربیوی کے درمیان جدائی ڈال سکتے ہیں۔ ایک کو دوسرے سے الگ کرسکتے ہیں۔ اور وہ دعوا بھی کرتے ہیں کہ قرآن ہی کہتاہے کہ جادو کو قدرت ہے اور جادو میں اثر ہے۔ اس لیے ہم اس کو مانتے ہیں!
واضح رہے کہ اوپر جو ترجمے پیش کیے گئے ہیں، وہ گرامر کے لحاظ سے ٹھیک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر گرامر کے مطابق دوسرا معنی لینے کے لیے بھی گنجائش ہے۔
جب دو طریقے سے بھی ترجمہ کرنے کے لیے گرامر کے مطابق گنجائش ہو، تو اس گنجائش کی بنا پر کوئی ایک من پسند راستہ اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ دو قسم کے ترجموں میں سے ایک قسم کا ترجمہ اگر اسلام کی بنیاد اور اصول کے خلاف واقع ہو اور دوسری قسم کا ترجمہ اصول اسلام کے عین مطابق ہو، تو ہم کو وہی ترجمے کا جو اسلام کی بنیادوں کے خلاف نہ جائے، انتخاب کرنا چاہیے۔
مذکورہ دونوں ترجمے اگر گرامر کے لحاظ سے ٹھیک ہیں ، مگر اسلام کی بنیاد کو ہلا دینے والے ہیں۔ وہ کیسے؟ جادو کے ذریعہ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال سکتے ہیں۔ یہ مفہوم مذکورہ ترجمے کے حاصل ہونے والا نتیجہ ہے۔
چغل خوری اور جھوٹ بول کر میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں، تو وہ گناہ ہوگا۔ اگر کوئی یہ مانتا ہو اور عقیدہ رکھتاہو کہ جادو کے ذریعہ وہ ایسا کرسکتا ہے، جدائی ڈال سکتاہےتو مطلب یہ ہوا کہ جادو گر اللہ کی طرح کام کرنے کی قدرت رکھنے والا ہے۔
یہ ماننا کہ منتر کے ذریعہ شوہر اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرسکتے ہیں، بے شک شرک میں شامل ہے، اس وجہ سے یہ ترجمہ ٹھیک نہیں ہے غلط ہے۔
اگرسچ مچ جادو سے اثر ڈالا جاسکتاہے اور نقصان پہنچایاجاسکتاہے، تو یہ ترجمہ سورہ یونس کی آیت نمبر77 کے خلاف ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے جب معجزہ دکھایا، تو کافروں نے اس کو جادو قرار دیا ۔ جس کی تردید کرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام نے یوں کہا:
(یونس10:آیت نمبر77)
یعنی موسیٰ نے جواب دیاکہ جادو سچ نہیں ہوتا۔ وہ جھوٹ ہے۔ مگر میں نے جو لے آیا، وہ واقعی معجزہ ہے۔ پھر تم اس کو کس طرح جادو کہہ سکتے ہو؟
اسلام کی نظر میں جادو جو ہے دھوکا بازی اور مکاری کے سوا کچھ نہیں۔ جس میں ذرا بھی سچائی نہیں ہے۔ یہ بات اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ واضح کردیا ہے۔ یہ آیت کہتی ہے کہ جادوگر کامیاب نہیں ہوتا۔ مگر مذکورہ ترجمے کہتے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے میں جادو گر کامیاب ہوجائے گا۔
سورہ یونس 10 کی آیت نمبر77 کہتی ہے کہ جادو جھوٹ اورباطل ہے۔ مگر مذکورہ ترجمے جادو کو سچ بتارہے ہیں۔ اس لیے ترجمے صحیح نہیں۔
اس کے علاوہ یہ ترجمے الاعراف 7کی آیت نمبر116 کے بھی خلاف واقع ہوئے ہیں۔
(الاعراف7:آیت نمبر116)
فرعون نے دیس کے بڑے بڑے مشہور جادو گروں کو موسیٰ علیہ السلام کے مقابل میں کھڑا کیا۔ یہ آیت کہتی ہے کہ مقابلے کے وقت ان لوگوں نے جو کرتب دکھایا وہ بڑا جادو ہے ان بڑے جادو گروں نے بڑا جادو کیا۔ چنانچہ یہ آیت کہتی ہے کہ انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، ان کی نظر بندی کردی اور ان کی نگاہیں جادو سے ماردیں۔
بڑے جادو کے ذریعے انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ بلکہ نظروں کو دھوکا دیا۔ انہوں نے جو کیا وہ فریب نظر اور شعبدہ بازی ہے۔ یعنی دیکھنے والوں کی توجہ کسی طرف پھیر کر، سچ مچ جادو منتر کرنے کی طرح دکھانا اورباور کرانا ہی نظر بندی اور شعبدہ بازی ہے۔
بڑے جادوگروں کے کیے جانے والا بڑا جادو ہی آنکھوں کودھوکا دینا ہے جب اللہ تعالیٰ اس آیت میں ہمیں بتلاتاہے، تو اس کے برخلاف مذکورہ ترجمے واقع ہوئے ہیں کہ جادو کے ذریعہ میاں بیوی میں جدائی ڈال سکتے ہیں۔ یعنی جادو سے صرف آنکھوں کو دھوکا دیا جاسکتاہے، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جادو سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کی بات غلط ہے، اورمذکورہ ترجمہ ٹھیک نہیں۔
اس کے علاوہ یہ خط کشیدہ ترجمے سورہ الاعراف کی بعض آیتوں کے بھی خلاف ہیں۔
(الاعراف7:آیت 118-120)
یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ جادو گر اگر حقیقت میں منتر پڑھتے اور جادو کرتے، تو وہ موسیٰ کے کام دیکھ کر یہ فیصلہ کرتے کہ وہ واقعی ہم سے بہت بڑا جادو گر ہے۔ یعنی موسیٰ کو جادوگر کی حد تک تسلیم کرلیتے۔ لیکن کیا ہوا؟
یہ آیتیں بتلاتی ہیں کہ ان جادو گروں نے جو کیا وہ جھوٹی شکل ہے، اورجادو سے یہی کیا جاسکتاہے۔ مگر موسیٰ نے جو کیا وہ اصلی ہے جس میں کوئی چال یا دھوکا بازی نہیں ہے۔ اسی لیے جادو گروں نے اپنی ہار مان لی، اپنی شکست تسلیم کرلی۔ اور ساتھ ہی ساتھ اللہ پر ایمان لاتے ہوئے دین اسلام میں بھی داخل ہوگئے۔
دراصل جادو میں کوئی قدرت نہیں۔ اس حقیقت کو جادو گر ہی اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے پہچان لیا کہ جو وہ کررہے ہیں وہ کرتب اور شعبدہ ہے، اورموسیٰ جو کررہے ہیں وہ سراسر معجزہ ہے۔ اسی لیے وہ موسیٰ کے دین میں شامل ہوگئے۔
سچائی قائم ہوگئی جادو گر ہار گئے اورسجدے میں گرگئے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ جادو سچ نہیں۔ جادو منتر برحق نہیں۔
اس کے برعکس مذکورہ خط کشیدہ ترجمہ ہے۔ نیز یہ سورہ طٰہٰ کی بعض آیتوں سے بھی ٹکرارہاہے۔
(طٰہٰ20:آیت 66)
یہاں پر اللہ تعالیٰ کھلے الفاظ میں کہتاہے کہ جادو گر جب جادو کرنے لگے، تو کیا ہوا؟ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ وہ چیزیں پھنکا ریں۔ بلکہ یوں کہا کہ وہ پھنکارنے کی طرح دکھائی دے رہی ہیں۔
رسیاں اگر سانپ میں تبدیل ہوجائیں ، تو اللہ کہہ دیا ہوگا کہ وہ رسیاں سانپ بن گئیں جب اللہ تعالیٰ موسیٰ کے معجزہ کا ذکر کرتاہے، تب کہتاہے کہ وہ لاٹھی سچ مچ سانپ بن گئی۔ مگر جب وہ جادو گروں کے کرتب کا ذکرکرتاہے تب یوں کہتاہے کہ وہ ان کی لاٹھیاں سانپ کی طرح دکھائی دینے لگیں۔
یہ آیتیں وضاحت کررہی ہیں کہ جادو جو ہے فریب نظر اور شعبدہ ہی ہے۔ اور منتر کی طاقت سے میاں بیوی میں جدائی ڈالنا جادو نہیں۔
ان کے علاوہ مذکورہ خط کشیدہ ترجمہ جو ہے سوہ طٰہٰ کی ایک اور آیت کے بھی خلاف جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کہتا ہے: (اے موسیٰ) آپ کے داہنے ہاتھ میں جو(لاٹھی )ہے اسے ڈال دیجئے۔ انہوں نے جو کچھ بنایا ہے، اس کو وہ نگل جائے گا۔ (کیونکہ) انہوں نے جو کچھ بنایا ہے وہ تو جادوگر کا فریب(داو پیچ) ہے۔ جادوگرجدھر سے بھی آئے ، کامیاب نہیں ہوگا۔(طٰہٰ20: آیت نمبر69)
اللہ تعالیٰ جن کو بڑے جادوگر کہا، ان کاموں کے بارے میں یوں کہا کہ جادوگروں نے جو کیا وہ سازش، چال اور مکروفریب ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ چالاکی اور کمال ہوشیاری سے دھوکا دینے کو سازش، چال ، فریب اور داؤ پیچ کہتے ہیں۔ نیز جادو گر حقیقت میں کچھ نہیں کرتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ وہ کامیاب نہیں ہوتے۔
مگر مذکورہ خط کشیدہ ترجمے کہتے ہیں کہ جادو سے سچ مچ میاں بیوی کو الگ کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ آیت کہتی ہے کہ جادو گرکامیاب نہیں ہوتا۔ لیکن خط کشیدہ مذکورہ ترجمے کہتے ہیں کہ جادو گر میاں بیوی کو جد اکرنے میں کامیاب ہوگا۔ اس لیے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ یہ ترجمہ سراسر غلط ہے۔
ان کے علاوہ قرآن میں سورہ طور کی چند آیتوں میں جادو(سحر) کا معنی بیان کرتاہے۔ چنانچہ ان آیتوں سے بھی مذکورہ خط کشیدہ ترجمہ براہِ راست ٹکرارہاہے۔
جس دن ان کو دھکے دے کر دوزخ میں ایک دم دھکیل دیاجائے گا۔ یہی وہ دوزخ ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے۔ (ان سے پوچھا جائے گا کہ) کیا یہ جادو ہے؟ یا تم (اس دوزخ کو) دیکھتے ہی نہیں ہو؟ (الطور52:آیت نمبر13-15)
یہ آیتیں کہتی ہیں کہ جب کافروں کو دوزخ میں دھکیلا جائے گا،اس وقت اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا: کیا یہ جادو ہے؟ یا تم اس کو دیکھتے نہیں ہو؟
تمہارے آنکھوں کے سامنے جو دوزخ دکھائی دے رہی ہے کیا یہ جھوٹی شکل ہے؟ خیالی پلاؤ ہے؟ یا سراسر حقیقت ہے؟ اس طرح اللہ تعالیٰ سوال کرنے کے بجائے یوں سوال کرتاہے: کیا یہ جادو ہے؟ اسی طرح اس دوزخ کو اچھی طرح غور سے دیکھو، تومعلوم ہوگا کہ یہ سچ مچ ہے ۔اور برحق ہے، کہنے کے بجائے اللہ تعالیٰ یوں سوال کرتاہے: کیا تم اس کو دیکھتے ہی نہیں ہو؟
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے سچ مچ اورحقیقت کی ضد اور نقیض کے طورپر جادو(سحر) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مگر مذکورہ خط کشیدہ ترجمے کہتے ہیں کہ جادو سے میاں بیوی میں جدائی ہوسکتی ہے، اس اعتبار سے جادو کو حقیقت کہتے ہیں۔
اب تک ہم نے کئی آیتوں کے ذریعےیہ ثابت کردیا کہ مذکورہ خط کشیدہ ترجمے غلط ہیں۔ ان کے علاوہ یہ ترجمہ غلط قرار دینے کے لیے معقول وجوہات بھی ہیں۔
مذکورہ ترجمے کہتے ہیں کہ وہ دونوں کسی کو جادو سکھانے سے پہلے ہی بتادیا کرتے تھے کہ ہم تو صرف آزمائش کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ اس لیے تم کفر نہ کرو۔ پھر بھی لوگ اس کی پرواہ کئے بغیر ہی کہنے لگے: ہم کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ ہم کافر بھی ہوجائیں کوئی مضائقہ نہیں، بہرحال تم ہمیں جادو سکھاؤ۔ چنانچہ وہ ان دونوں سے میاں اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کو سیکھ لیے۔
خبردار! جادو سیکھو گے، تو کافر ہوجاؤگے ۔ جب یہ تنبیہ اور انتباہ ان لوگوں کو متاثر نہیں کیا، اور وہ جادو سیکھنے سے باز نہیں آئے، تو ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے والا بہت چھوٹا جادو کیوں سیکھے؟
اگر چھوٹا جادو سیکھیں، تو بھی کافر ہوں گے، بڑا سیکھیں، تو بھی کافر ہوں گے۔ تو پھر کیوں چھوٹا جادو سیکھیں؟
جادو پارٹی کے عقیدے کے مطابق جادو جو ہے بہت سارے کرشمے اورکمالات دکھانے کا فن ہے۔ خود سر،ضدی اور سرکش قسم کے لوگ جن کو کفر کی کچھ پرواہ نہیں، کافر بھی ہوجائیں تب بھی کوئی افسوس نہیں۔ اس قسم کے لوگ تو تمام قسم کے جادو بھی کیوں نہ سیکھے ہوں گے؟
کیا وہ لوگ صرف ایک کو، اور وہ بھی بہت چھوٹا جادو کا انتخاب کرکے سیکھیں گے؟ جب کہ ایک جادو سیکھیں تب بھی کافر یقینی ہے ، ہزار قسم کا جادو سیکھیں، تب بھی کافر ہونا یقینی ہے، جب ایسی بات ہو، تو پھر وہ تمام قسم کا جادو کیوں نہ سیکھے؟ جاد وکے تمام انواع واقسام سب سیکھے بغیر کیوں چھوڑدیے؟
وہ مال جمع کرنے، دولت اکٹھا کرنے، اور دنیوی منفعت حاصل کرنے کے لیے ہی جادو سیکھنے آمادہ ہوے ہوں گے۔ صرف ایک جادو سیکھیں، بہت کم ہی کماسکتے ہیں۔ بہت سارے جادو سیکھ جائیں، تو مال زیادہ بٹو رسکتے ہیں، اورآمدنی بے حساب ہوسکتی ہے۔
جولوگ دنیاوی فائدے اور مطلب کے لیے کافرہونے کے متعلق فکر نہیں کرتے، اس قسم کے لوگ جادو کے تمام انواع واقسام کو بھی کیوں نہ سیکھے ہوں گے؟ جب ہم اس ناحیت سے غور کرتے ہیں ، تو مذکورہ خط کشیدہ ترجمے میں مفہوم کی غلطی اورکوتاہی نظر آرہی ہے۔
اس لیے قرآن کریم کی دیگر آیتوں سے ٹکرائے بغیر، اوراسلام کا بنیادی عقیدےسے مطابقت رکھتے ہوئے ہم کو البقرہ2 کی آیت نمبر102 کا معنیٰ بیان کرنا چاہیے، جسے پہلے بھی وضاحت کرچکے ہیں۔ اسی بنیاد پر اس آیت کو سمجھنا چاہیے۔ چنانچہ ہم نے اس کا یوں ترجمہ کیا ہے۔
یہ لوگ سلیمان کی حکومت میں شیاطین نے جو پڑھ رہےتھے، اس کی پیروی کرنے لگے ۔ سلیمان نے کفر (اللہ کا انکار) نہیں کیا۔ اوران دوفرشتوں پر (یعنی جبرئیل اورمیکائیل پر جادو) نہیں اتارا گیا۔ بلکہ شہر بابل میں ہاروت اورماروت نامی شیطانوں نے ہی کفرکیا، جولوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اور وہ دونوں کسی کوسیکھانے سے پہلے ہی یہ کہہ دیتے تھے کہ’’ ہم تو بطور عبرت ہیں، اس لیے تو کفر نہ کر‘‘۔
اس لیے وہ لوگ ان دونوں سے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال دینے کی چیز سیکھنے لگے۔ حالانکہ وہ اللہ کی مرضی کے بغیر، کسی کو بھی اس کے ذریعہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ انہوں نے وہ باتیں سیکھیں جو خود ان کے لیے نقصان دہ تھیں، نفع بخش نہیں تھیں۔ نیز وہ یقین کے ساتھ جان چکے ہیں کہ جس نے اسے خریدا، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ پس انہوں نے اپنے آپ کو جس کے بدلے بیچ ڈالا، وہ بہت ہی برا ہے ۔ کاش وہ (اس بات کو )جانتے ہوتے (البقرۃ2: آیت نمبر102)۔
اس طرح ہم نے ترجمہ کرنے کے بعد ہمارے قرآن کریم مترجم میں وضاحت نمبر 395 کے تحت حسبِ ذیل تشریح کی ہے۔
جولوگ یہ دعوا کرتے ہیں کہ جادو کے ذریعہ اثرڈالا جاسکتاہے ،اور نقصان پہنچایاجاسکتاہے، وہ اس آیت کو (البقرۃ2: آیت نمبر102) کو اپنے موقف کے لیے بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
مگر اس آیت پر غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ جادو سے کوئی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ مگر فریق مخالف نے ٹھیک سے غور نہیں کیا۔ اس لیے وہ یہ سمجھ رہاہے کہ اس آیت میں جادو ئی اثر کے بارے میں کہا گیا ہے۔
اس لیے ہم اس کے متعلق تفصیل کے ساتھ ذکر کریں گے۔ بردست متعلق آیت کا ترجمہ یہ ہے:
لوگ سلیمان کی حکومت میں شیاطین نے جوپڑھ رہے تھے، اس کی پیروی کرنے لگے ۔ سلیمان نے کفر (اللہ کا انکار) نہیں کیا۔ اوران دوفرشتوں پر (یعنی جبرئیل اورمیکائیل پر جادو) نہیں اتارا گیا۔ بلکہ شہر بابل میں ہاروت اورماروت نامی شیطانوں نے ہی کفرکیا۔ جولوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور وہ دونوں کسی کو سکھا نے سے پہلے ہی یہ کہہ دیتے تھے کہ’’ ہم تو بطور عبرت ہیں، اس لیے تو کفر نہ کر‘‘۔
اس لیے وہ لوگ ان دونوں سے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال دینے کی چیز سیکھنے لگے۔ حالانکہ وہ اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کو بھی اس کے ذریعہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ انہوں نے وہ باتیں سیکھیں جو خود ان کے لیے نقصان دہ تھیں، نفع بخش نہیں تھیں۔ نیز وہ یقین کے ساتھ جان چکے ہیں کہ جس نے اسے خریدا، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ پس انہوں نے اپنے آپ کو جس کے بدلے بیچ ڈالا، وہ بہت ہی برا ہے ۔ کاش وہ (اس بات کو )جانتے ہوتے (البقرۃ2: آیت نمبر102)
اس آیت میں جو باتیں بتائی گئی ہیں پہلے ان کو جان لیں گے۔
یہ جملہ کیا کہتاہے؟ جادو کو نیک لوگوں نے نہیں سکھایا۔ بلکہ سلیمان کے زمانے کے برے لوگوں نے سکھایا۔ یہی اوپر کے جملے کا مفہوم ہے۔
یہ لوگ سلیمان کی حکومت میں شیاطین نے جو پڑھ رہے تھے اس کی پیروی کرنے لگے۔
سلیمان نے کفر (اللہ کا انکار) نہیں کیا۔ اور ان دوفرشتوں پر (یعنی جبرئیل اور میکائیل ) ان دونوں فرشتوں پر (جادو) نہیں اتارا گیا۔
یہ جملہ کیا کہتاہے ؟ یہودی کہتے ہیں کہ جادو کو سلیمان علیہ السلام نے سکھلایا۔ یہ بات غلط ہے۔ انہوں نے نہیں سکھلایا۔ اگر سکھلایا ہوتا تو اس کی وجہ سے کافر ہوتے۔ بلکہ انہوں نے جادو نہیں سکھایا اورکافر بھی نہیں ہوئے۔
اسی طرح یہودی سمجھ رہے تھے کہ جادو کو فرشتوں نے سکھلایا، یہاں پر بتایا جارہاہے کہ یہ عقیدہ غلط ہے۔ یعنی جادو کا سیکھنا کفر ہے۔ اللہ کا انکار ہے۔ چنانچہ اس کفر کو نہ سلیمان کرسکتے ہیں اور نہ فرشتے کرسکتے ہیں۔
۔ یہ جملہ کیا کہتاہے؟ ہاروت اورماروت نام کے دو شیطان نے ہی لوگوں کو جادو سکھایا۔ اس کے ذریعہ وہ دونوں کافر ہوگئے۔
بلکہ شہر بابل میں ہاروت اورماروت نامی شیطانوں نے ہی کفر کیا
۔ یہ جملہ کیا کہتاہے؟
اور وہ دونوں کسی کو سکھانے سے پہلے ہی یہ کہہ دیتے تھے کہ ہم تو بطور عبرت ہیں۔ اس لیے تو کفر نہ کر
ہاروت اورماروت نامی دو شیطان جو کافر ہوگئے تھے، جادو سیکھنے کی خواہش مند ہر شخص کو جادو سکھانے سے پہلے ہی باقاعدہ تنبیہ کردیتے ہیں۔ وہ تنبیہ یہ کہ ہم جادو سیکھ کر کافر ہوگئے ہیں۔ اورتمہارے سامنے عبرت بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے تم بھی اس جادو کو سیکھ کر کافر مت بن جاؤ۔ ان دونوں نے ہر ایک کو اس کے تعلق سے انتباہ دیا ہے۔
۔ یہ جملہ کیا کہتاہے؟
اس لیے وہ لوگ ان دونوں سے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کی چیز سیکھنے لگے
یہاں پر عربی متن میں'فا' کا حرف آیا ہے جو سببیہ کہلاتاہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ اس لفظ کے بعد جو بات بتائی گئی ہے وہ دراصل لفظ سے پہلے جو بات بتائی گئی اس کی وجہ سے ہے۔ اس کی نشاندہی کے لیے اردو زبان میں ’’اس لیے‘‘ استعمال کیا جاتاہے۔
مثال کے طور پر یہ کہاجائے کہ یہ آدمی دھوکے باز ہے، اس لیے میں اس کو قرض نہیں دوں گا، تو اس سے یہ مفہوم نکلتاہے کہ اس کو قرض دینے سے انکار کرنے کی وجہ اس کے دھوکہ باز ہونا ہی ہے۔
اسی طرح اوپر کا یہ جملہ بھی ہے۔ یعنی آیت کے اس جملے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان لوگوں نے میاں اور بیوی کے درمیانی جدائی ڈالنے کو سیکھ لیا۔ اور یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی وجہ جادو سیکھنے سے کافرہونے کا خطرہ تھا ،جس سے ان کو تنبیہ کی گئی تھی۔
چونکہ جادو سیکھنے سے کافرہونے کی تنبیہ کی گئی تھی ، چنانچہ وہ کافر بنانے والے جادو کو چھوڑ دے کر، اس کے سوا ایک اور چیز سیکھ گئے۔ جسے ’’اس لیے‘‘ کا لفظ بتارہاہے۔
فرض کیجئے کہ کراٹے کا فن سیکھنا ہو، تو گرو کے آگے سجدہ کرنا پڑے گا پہلے ہی اس کے متعلق طلبہ کو باخبر کردیا گیا ۔ اس لیے طلبہ نے کُشتی لڑنا سیکھ لیا۔ یعنی طلبہ کو کراٹے سیکھنے کا نقصان بتاکر، تنبیہ کرنے کی وجہ سے وہ کراٹے کو چھوڑ کر، اس سے الگ ایک دوسرا فن کشتی لڑنا سیکھ گئے۔ اسی طرح آیت کا مذکورہ جملہ بھی واقع ہواہے۔
کراٹے کی خرابی بتایا گیا ۔ اس لیے وہ کراٹے سیکھ لیے۔ اس طرح کہنا نامناسب اور موزوں ہے۔ تنبیہ کرنے کے بعد کوئی اور سیکھیں، تب ہی، ’’اس لیے‘‘ کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں۔
باپ نے خبر دار کیا کہ بیڑی پینا چھوڑدے۔ اس لیے بیٹے نے اس عادت کو ترک کردیا۔ اس طرح کہاجائے تو مناسب رہے گا۔ باپ نے خبردار کیا کہ بیڑی پینا چھوڑدے۔ اس لیے بیٹے نے اچھی طرح بیڑی پیا۔ اس طرح کہاجائے، تو نامناسب اور غیر موزوں رہے گا۔
اس وضاحت کو ذہن میں رکھتے ہوئے مذکورہ جملے پر غور کیجئے ۔ ان دونوں نے خبردار کیا کہ جادو سے خرابیاں جنم لیں گی۔ اس لیے لوگوں نے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کے فن کو سیکھ لیا۔ اسے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کا فن جادو میں شامل نہیں ہے، بلکہ جادو سے ہٹ کر، اور نقصان اور برائی میں جادو سے کم درجے کی کوئی دوسری چیز ہے۔
مذکورہ آیت میں اگلا جملہ یہ ہے:
وہ (لوگ) اللہ کی مرضی کے بغیر، کسی کو بھی اس کے ذریعہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
جادو پارٹی کہتی ہے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر، کسی کو بھی اس کے ذریعہ کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اگر اللہ چاہے تو اس کے ذریعہ نقصان پہنچ سکتاہے۔ اس لیے جادو کے ذریعہ نقصان پہنچایاجاسکتاہے۔ اور یہ جملہ جادوئی تاثیر کے لیے مضبوط دلیل ہے۔
اللہ چاہے، تو اس کے ذریعہ نقصان پہنچ سکتاہے۔ مگر ’’اس کے ذریعہ سے‘‘مراد جادو نہیں ہے جیسا کہ انہوں نے سمجھا ہے۔
اس کے ذریعہ کہاجائے، تو یہ معنی لیاجائے کہ اس سے پہلے جو کہاگیا ہے، اس کے ذریعہ ۔ چنانچہ اس سے پہلے کیا کہا گیا ہے؟ جادو سیکھنے سے کافر ہونے کا خطرہ تھا۔ اس لیے وہ لوگ اس سے ڈرکر، اس کو چھوڑدے کر ، میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کا فن سیکھ لیے۔ ’’اس کے ذریعہ‘‘ کا لفظ سے یہی مراد ہے۔ جادو مراد نہیں۔
یہ جملہ کہتاہے کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کے فن کے ذریعہ اگر اللہ چاہے، تونقصان پہنچ سکتاہے۔ یہ نہیں کہا کہ جادو سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
مذکورہ آیت میں آگے یہ ہے: انہوں نے وہ باتیں سیکھیں جو خود ان کے لیے نقصان دہ تھیں، نفع بخش نہیں تھیں۔ نیز وہ یقین کے ساتھ جان چکے ہیں کہ جس نے اسے خریدا، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ پس انہوں نے اپنے آپ کو جس کے بدلے بیچ ڈالا۔ وہ بہت ہی برا ہے۔ کاش وہ (اس بات کو ) جانتے ہوتے۔ (البقرۃ2: آیت نمبر102)
میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کے فن سے اگر اللہ چاہے، تو دوسروں کو نقصان پہنچایا جاسکتاہے ۔ پھر بھی یہ کام کرنے والے کو آخرت میں خرابی ہے۔ ان لوگوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا جیسا کہ قرآنی آیت کے یہ جملے متنبہ کررہے ہیں۔
غرض اس آیت کو پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ تحقیق کریں گے، تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ ان لوگوں نے جادو کو چھوڑدے کر، اس کے بجائےشوہر اور بیوی کے بیچ میں دوری پیدا کرکے ایک کو دوسرے سے الگ کرنے کا فن ہی سیکھا۔ اور اس بات کا بھی پتہ چلا کہ اس کے ذریعہ چند نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس آیت میں یہ کہا ہی نہیں گیا کہ جادو سے اثر ڈالا جاسکتاہے، اورجادو منتر سے نقصان پہنچایا جاسکتاہے۔ اس کے بارے میں ذکر ہی نہیں کیا گیا۔
بعض نے اشکال ظاہر کیا کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا جوہے جادو کی ایک قسم کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہ اشکال دووجوہات کی بنا پر غلط ہے۔
جاد وکے بارے میں ان دونوں نے سخت تنبیہ کرنے کے بعد بھی لوگوں نے جادو کی ایک قسم سیکھا ہو، تو نہیں کہاجائے گا۔
’’اس لیے‘‘
نیز اس آیت میں تین جگہوں پر یہ کہا گیا ہے کہ جادو سیکھنا آدمی کو کافر بنا دے گا۔ مگر میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا بے شک گناہ کاکام ہے۔ پھر بھی یہ ایسام جرم نہیں کہ آدمی کو کافر بنادے۔ اور ہم بھی اس طرح نہیں کہتے۔ جادو کو ماننے والے بھی اس کے قائل نہیں ہیں۔
ان لوگوں نے جو فن سیکھا وہ جب آدمی کو کافر نہیں بناتا، تب یہ یقینی بات ہے کہ وہ فن، جادو کی ایک قسم ہرگز نہیں ہوسکتا۔
یعنی یہ آیت کہتی ہے کہ ان لوگوں نے جادو نہیں سیکھا۔ بلکہ جادو کو چھوڑکر، اس سے ہٹ کر، میاں بیوی کے درمیان کس طرح جدائی ڈالی جاسکتی ہے؟ وہ فن ہی سیکھا۔ اور وہ بھی سو فیصد کامیاب نہیں ہوگا۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو ایک حد تک کامیابی ہوسکتی ہے۔ اور اللہ نہ چاہے، تو اس کے ذریعہ جدائی نہیں ہوسکتی۔
اس طرح ترجمہ کرتے وقت اللہ کے ساتھ شرک نہیں ہوتا،شرک کے گناہ سے بچاؤ ہوگیا۔ نیز جادو دراصل چال ، فریب اور شعبدہ ہے۔ اور جادو کو کامیابی نہیں۔ آیتوں سے بھی یہ ترجمہ نہیں ٹکراتا۔ اس کے علاوہ اللہ کے قول میں تضاد اورتصادم کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔
نیز اس آیت میں اللہ نے الفاظ جس ترکیب کے ساتھ استعمال کیا ہے وہ بھی قابل غور ہے۔
متن میں ہے کہ جس کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال سکتے ہیں وہ سیکھنے لگے۔ یعنی ان کے درمیان جدائی ڈالنے کی چیز سیکھنے لگے۔
یوں نہیں کہا گیا کہ وہ میاں اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے والے جادو کو سیکھنے لگے۔ بلکہ جملہ یوں ہے کہ جس کے ذریعہ جدائی ڈال سکتے ہیں اس چیز کو سیکھنے لگے۔ الفاظ کی یہ ترکیب بتارہی ہے کہ جادو کو چھوڑ کر کوئی اور چیز ہے جسے وہ سیکھنے لگے۔
اسی آیت کو رحمت چاریٹیبل ٹرسٹ نے جو ترجمہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:
رحمت چاریٹیبل ٹرسٹ کا شائع کردہ ترجمہ:
وہ(یہودی) لوگ، سلیمان کی حکومت میں شیاطین جو پڑھ کر دکھا رہے تھے۔ اس کی پیروی کررہے تھے۔ سلیمان نے انکار نہیں کیا۔ بلکہ شیاطین نے ہی انکار کیاتھا۔ جو لوگوں کو جادو اور (خود انہی کے اپنے کے مطابق) بابل میں ہاروت اور ماروت نامی دو فرشتوں پر جو نازل کی گئی اس کی بھی تعلیم دیتے تھے۔ مگر وہ دونوں کسی کو اس وقت تک کوئی تعلیم نہیں دیتے تھے۔ جب تک اس سے یہ نہ کہہ دیں کہ ہم (اللہ کی طر ف سے )آزمائش ہیں۔ اس لیے تم (اللہ کا) انکارنہ کرو۔( کہ) انہوں نے ان دونوں سے وہ سیکھا جس کے ذریعہ سے میاں اور بیوی کےدرمیان جدائی ڈال دیں۔ وہ اس کے ذریعہ کسی کو اللہ کے حکم کے بغیر، کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
اور یہ بھی کہتے آرہے تھے
غور کیجئے، پہلے ہم نے جو ترجمے پیش کیے تھے۔ ان سے یہ ترجمہ مختلف ہے۔
پہلے نےجن دو ترجمے کا ہم نے حوالے دیا تھا۔ اس طرح اگر ترجمہ کرتے، تو پھر شرک کے دلدل میں پڑجاتے۔ اس سے بچنے کے لیے مذکورہ ٹرسٹ نے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے والی بات کو اس قسم سے ترجمہ کردیا جس سے وہ اب اللہ کا قول نہ رہا۔
رحمت ٹرسٹ کا ترجمہ ملاحظہ ہو:(اور یہ بھی کہتے آرہے تھے کہ )انہوں نے ان دونوں سے وہ سیکھا جس سے میاں اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیں۔
یہ الفاظ کہ انہوں نے میاں اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کو سیکھ لیا۔ کس کے ہیں؟ اللہ کا قول نہیں بلکہ یہودیوں نے اس طرح کہا۔ یہ مفہوم بیان کرنے کے لیے ہی ٹرسٹ والوں نے قوسین میں یہ الفاظ (اور وہ یہ بھی کہتے آرہے تھے)، لکھ کر وضاحت کردی۔ یعنی ٹرسٹ نے اس طرح ترجمہ کیا گویا یہودیوں کی بات کو اللہ تعالیٰ نقل کررہاہے۔
یہودیوں نے کہا کہ جادو سے میاں اور بیوی کے درمیان جدائی ڈال سکتے ہیں۔ اگر اس طرح مطلب بیان کیاجائے ، تو یہ بات جادو پارٹی کے لیے دلیل نہیں بنتی۔ اس میں صرف اتنی بات ہے کہ یہودیوں نے اپنے عقیدے کے مطابق اس طرح کہاہے۔ اس کو چھوڑ کر اور کوئی بات نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کس طرح کہے گا کہ جادوسے نقصان ہوسکتاہے؟ اگر اس طرح کہے، تو یہ بات قرآن کئی آیتوں سے ٹکرانے لگتی ہے۔ اس سے ڈرتے ہوئے رحمت چاریٹیبل ٹرسٹ کے علما نے مذکورہ جملے کو اس طرح ترجمہ کردیا کہ جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ بات یہودیوں کا قول ہے۔
جب تک اللہ کے ساتھ شرک کاشائبہ نہ آئے ،اور قرآن کی دیگر آیتوں سے ٹکراؤ کے بغیر، وہ اگر اس طرح ترجمہ کریں، تو اس میں ہم کو کوئی اعتراض نہیں۔
کیا فلق اورناس جادو کے لیے دلیل ہیں؟
جولوگ یہ کہتے ہیں کہ جادو کو قدرت ہے، وہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور دعوا بھی پیش کرتے ہیں۔
ان کا دعوا یہ ہے کہ جب نبی ﷺپر جادو کیا گیا، تو سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دو سورتیں اتریں، نیز ان کا یہ دعوا ہے کہ آپ ﷺ ان دونوں سورتوں میں سے ایک ایک آیت پڑھتے گئے۔ ایک ایک گرہ کھلتی گئی۔ یہاں تک کہ آخری گرہ بھی کھل گئی۔ اورآپ اس طرح نشاط محسوس کرنے لگے جیسے کہ ان کا بندھا ہوا جسم کھول دیا گیا ہو۔
نبی ﷺ پر جادو نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کو ہم نے پہلے ہی مناسب دلائل کے ذریعہ ثابت کردیا ہے۔
جب نبی ﷺ پر جادو کیے جانے کی خبر ہی جھوٹی ہوجائے، تو جاد وکو دور کرنے کے لیے ہی یہ دونوں سورتوں کے نازل ہونے کی خبر بھی جھوٹی اور افسانہ ہوجائے گی۔
حدیث کی روایت کرنے والے اگر چہ قابل بھروسا اورثقہ ہوں، مگر نبی ﷺ پر جادو کیے جانے کی روایت اسلام کی بنیاد کو ڈھادینے اورمنہدم کرنے والی ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ روایت صحیح نہیں۔ غلط ہے۔ من گھڑت کہا نی ہے۔
مگر یہ کہنے کے لیے کہ یہ سورتیں، نبی ﷺ پر جادو کیے جانے پر نازل ہوئیں، کوئی قابل قبول سلسلہ سند نہیں ہے۔ تو پھر یہ دلیل بن سکتی ہے؟
اس کے تعلق سے امام ابن کثیرؒ نے جو تبصرہ کیا ہے ملاحظہ ہو:
وَقَالَ الْأُسْتَاذُ الْمُفَسِّرُ الثَّعْلَبِيُّ فِي تَفْسِيرِهِ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: كَانَ غُلَامٌ مِنَ الْيَهُودِ يَخْدِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فدبَّت إِلَيْهِ الْيَهُودُ، فَلَمْ يَزَالُوا بِهِ حَتَّى أَخَذَ مُشَاطة رَأْسِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِدَّةَ أَسْنَانٍ مِنْ مُشطه، فَأَعْطَاهَا الْيَهُودَ، فَسَحَرُوهُ فِيهَا. وَكَانَ الَّذِي تُوَلَّى ذَلِكَ رَجُلٌ مِنْهُمْ -يُقَالُ لَهُ: [لَبِيَدُ] (4) بْنُ أَعْصَمَ-ثُمَّ دَسَّهَا فِي بِئْرٍ لِبَنِي زُرَيق، وَيُقَالُ لَهَا: ذَرْوان، فَمَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَانْتَثَرَ شَعْرُ رَأْسِهِ، وَلَبِثَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ يُرَى أَنَّهُ يَأْتِي النِّسَاءَ وَلَا يَأْتِيهِنَّ، وَجَعَلَ يَذُوب وَلَا يَدْرِي مَا عَرَاهُ. فَبَيْنَمَا هُوَ نَائِمٌ إِذْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَقَعَد أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِهِ وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رِجْلَيْهِ لِلَّذِي عِنْدَ رَأْسِهِ: مَا بَالُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: طُبَ. قَالَ: وَمَا طُبَ؟ قَالَ: سُحِرَ. قَالَ: وَمَنْ سَحَرَهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ الْيَهُودِيُّ. قَالَ: وَبِمَ طَبَه؟ قَالَ: بِمُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ. قَالَ: وَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي جُفَ طَلْعَةٍ تَحْتَ رَاعُوفَةٍ فِي بِئْرِ ذَرْوَان -وَالْجُفُّ: قِشْرُ الطَّلْعِ، وَالرَّاعُوفَةُ: حَجَرٌ فِي أَسْفَلِ الْبِئْرِ نَاتِئٌ يَقُومُ عَلَيْهِ الْمَاتِحُ -فَانْتَبَهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَذْعُورًا، وَقَالَ: "يَا عَائِشَةُ، أَمَا شَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ أَخْبَرَنِي بِدَائِي؟ ". ثُمَّ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَالزُّبَيْرَ وَعَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ، فَنَزَحُوا مَاءَ الْبِئْرِ كَأَنَّهُ نُقاعة الْحِنَّاءِ، ثُمَّ رَفَعُوا الصَّخْرَةَ، وَأَخْرَجُوا الْجُفَّ، فَإِذَا فِيهِ مُشَاطَةُ رَأْسِهِ وَأَسْنَانٌ مِنْ مُشْطِهِ، وَإِذَا فِيهِ وَتَرٌ مَعْقُودٌ، فِيهِ اثْنَتَا عَشْرَةَ (5) عُقْدَةً مَغْرُوزَةً بِالْإِبَرِ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى السُّورَتَيْنِ، فَجَعَلَ كُلَّمَا قَرَأَ آيَةً انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، وَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِفَّةً حِينَ انْحَلَّتِ الْعُقْدَةُ الْأَخِيرَةُ، فَقَامَ كَأَنَّمَا نَشطَ مِنْ عِقَالٍ، وَجَعَلَ جِبْرِيلُ، عَلَيْهِ السَّلَامُ، يَقُولُ: بِاسْمِ اللَّهِ أرْقِيك، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ حَاسِدٍ وَعَيْنٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ. فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَأْخُذُ الْخَبِيثَ نَقْتُلُهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أما أَنَا فَقَدَ شَفَانِي اللَّهُ، وَأَكْرَهُ أَنْ يُثِيرَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا" (6) .
هَكَذَا أَوْرَدَهُ بِلَا إِسْنَادٍ، وَفِيهِ غَرَابَةٌ، وَفِي بَعْضِهِ نَكَارَةٌ شَدِيدَةٌ، وَلِبَعْضِهِ شواهد مما تقدم، والله أعلم.
(تفسیر ابن کثیر ج4/ص575)
مفسر قرآن ثعلبی نے اپنی تفسیر میں کہا: جب نبی ﷺ پر جادو کیا گیا اس کے بعد آپ ﷺ نے علی ؓ ، زبیرؓ اور عمار بن یاسرؓ وغیرہ کو بھیج کر انہوں نے اس (ذروان) کنوئیں کا پانی کھینچا۔ اس کا پانی مہندی کا گدلا پانی کی طرح تھا۔ پھر پتھر کی چٹان ہٹایا ۔نیچے سے کھجور کے درخت کی چھال برآمد کیا، جس میں نبی کے سر کےبال، کنگھی کے دندانے تھے، سوئی میں دھاگا پھرویا ہوا تھا، جس میں بارہ گرہیں تھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ دونوں سورتیں اتاریں۔ آپ ان کی ایک ایک آیت پڑھتے جاتے تھے۔ اور ایک گرہ اس کی خود بخود کھلی جاتی تھی۔ جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں ، وہ سب گرہیں کھل گئیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح کی ایک روایت ثعلبی کہتے ہیں۔ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ عائشہؓ اور ابن عباسؓ نے کہا۔ پھر ان دونوں نے کن سے کہا؟ پھر انہوں نے کن شاگردوں سے کہا؟ کوئی سلسلہ سند کا ذکر نہیں ہے۔ صاحب کتاب تک یہ روایت کس سند سے پہنچی ہے؟ اس کے بغیر ہی انہوں نے اس کو روایت کیا ہے۔ پھر حافظ ابن کثیر نے کہا اس میں کہی گئی چند باتیں ایسی ہیں جو ثابت شدہ روایت سے ٹکرارہی ہیں۔ اور ایسی باتیں بھی ہیں جن کو کسی نے نہیں کہا۔
سلسلہِ سند کے بغیر کہی جانے والی کوئی حدیث بھی من گھڑت افسانہ کے مترادف ہے۔ اس لیے اس بے سند روایت کو قابل حجت نہیں مانا جاسکتا۔
اسی طرح حافظ ابن حجر نے بھی تبصرہ کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
وَقد وَقع فِي حَدِيث بن عَبَّاسٍ فِيمَا أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ بِسَنَدٍ ضَعِيفٍ فِي آخِرِ قِصَّةِ السِّحْرِ الَّذِي سُحِرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ وَجَدُوا وِتْرًا فِيهِ إِحْدَى عَشْرَةَ عُقْدَةً وَأُنْزِلَتْ سُورَةُ الْفَلَقِ وَالنَّاسِ وَجُعِلَ كُلَّمَا قَرَأَ آيَةً انْحَلَّت عقدَة وَأخرجه بن سعد بِسَنَد آخر مُنْقَطع عَن بن عَبَّاسٍ أَنَّ عَلِيًّا وَعَمَّارًا لَمَّا بَعَثَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِاسْتِخْرَاجِ السِّحْرِ وَجَدَا طَلْعَةً فِيهَا إِحْدَى عَشْرَةَ عُقْدَةً فَذَكَرَ نَحْوَهُ
(فتح الباری ج10/ص: 225)
یعنی ابن حجر نے تبصرہ کیا ہے کہ امام بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں ضعیف سند کے ساتھ نبی پر جادو کا قصہ ذکرکیا ہے۔ جس کے آخر میں ہے کہ انہوں نے کنویں میں تانت پایا جس میں گیارہ گرہیں تھیں۔ سورۃ الفلق اور ناس نازل ہوئیں۔ آپ ﷺ ایک ایک آیت پڑھنے پر ایک ایک گرہ کھلنے لگی۔ اسی طرح ابن سعد نے ابن عباس سے (مرفوع متصل نہیں، بلکہ) منقطع (کٹی ہوئی) سند کے ساتھ روایت کی ہے۔
غرض جب نبی ﷺ پر جادو کیا گیا ، تب یہ دونوں سورتیں نازل ہوئی۔ یہ کہنے کے لیے کوئی صحیح روایت نہیں، یہاں تک کہ جادو پارٹی بھی مانتی ہے کہ یہ ضعیف روایت ہے۔ اس لیے واضح ہوگیا کہ یہ من گھڑت افسانہ ہے۔ حجت کے قابل ہی نہیں۔
اس کے بعد کچھ لوگ ان سورتوں کی تشریح کرتے ہوئے دعوا کرتے ہیں کہ یہ سورت جادو کے بارے میں ہی کہتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ خاص کر سورۃ الفلق میں کہا گیا کہ گرہوں میں پھونکنے والیوں کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں اور دعوا کرتےہیں کہ اس سے گرہوں میں پھونک مارکر جادو کرنے والی عورتیں مراد ہیں۔ اور اس سے معلوم کرسکتے ہیں کہ جادو کو طاقت ہے۔
حالانکہ گرہوں میں پھونکنے والیوں سے مراد جادو گرنی نہیں۔ کیونکہ اللہ یا اس کے رسول نے یہ معنی بیان نہیں کیا۔ اس لیے ہم ان سے جب سوال کرتے ہیں کہ گرہوں میں پھونکنے والیوں سے مراد ’’جادو گرنی‘‘ لینے کے لیے کیا دلیل ہے؟ تو ان کے پاس کوئی قابل قبول جواب نہیں ہے۔
ایک عام آدمی کی عقل بھی فیصلہ کردے گی کہ ان کی بات غلط ہے ۔ جادو پارٹی کے عقیدے کے مطابق نہ صرف عورتیں بلکہ مرد حضرات بھی جادو کرتے ہیں۔
وہ مانتے ہیں کہ اللہ کے نبی کو لبید نامی یہودی مرد نے ہی جادو کیا ۔ قابل غور بات ہے کہ اس آیت میں گرہوں میں پھونکنے والی عورتوں سے پناہ مانگی جارہی ہے۔ جب ایسی بات ہے، تو پھر جادو کرنے والے مردوں سے حفاظت نہیں ہے۔ کیا کیاجائے؟
اگر جادو میں نقصان پہنچانے کی قدرت ہو، اوراس سے اللہ تعالیٰ حفاظت اور پناہ طلب کی رہنمائی کررہاہو، تو گرہوں میں پھونک مارنے والی عورتوں سے پناہ مانگنے کی تعلیم دے کر گرہوں میں پھونکنے والے مردوں سے پناہ مانگے بغیر کیا اللہ تعالیٰ غیر محفوظ حالت پیدا کرے گا؟
اگر ہم اس طرح غور کریں گے، تو پتہ چلے گا کہ انہوں نے اس آیت کی جو تشریح کی ہے وہ بے فائدہ ، بے سود ہے۔ اور اللہ کی بات کو لغو، بے ہودہ اور بے معنی کیاجارہا ہے۔
اس کے علاوہ جادو پارٹی کا نظریہ یہ نہیں کہ گرہوں میں پھونک مارنا۔ ایک طریقہ ہی سے جادو کیاجاتاہے۔ بلکہ ان کے نظریہ کے مطابق ہزاروں طریقے سے جادو کیاجاسکتاہے۔ اگر یہ سورت ہم کو جادو سے بچاؤ اور تحفط پانے کے لیے نازل کیا گیا ہے، تو اس میں تمام قسم کے جادو سے حفاظت ہونی چاہیے، جب کہ اس میں صرف گرہوں میں پھونکنے کی ایک قسم کی جادو سے پناہ مانگی جارہی ہے۔ اگر کوئی اس کو چھوڑ کر دوسرے طریقے سے جاد وکرے۔ تو اسے کوئی پناہ اورحفاظت نہیں ہے۔ وہ اور غیر محفوظ ہے۔ اس سے کیا معلوم ہوتاہے ؟ یہ حقیقت سمجھ میں آئی ہے کہ یہ سورت جادو گروں سے پناہ طلب کرنے کے لیے نہیں اتری۔ اور یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح آدھا پاو، تھوڑا بہت، اورقدرے تعلیم نہیں دیتا۔
علاوہ ازیں جادو پارٹی کے دعوے کے مطابق نبی ﷺ پر جادو کرنے والا مرد تھا۔(بخاری: 3668،5763) جب ایسی بات ہو، تو جادو کرنے والی عورتوں سے پناہ مانگنے کی رہنمائی کرنا کیامناسب بات ہے؟
ویسے دنیا بھر میں زیادہ تر جادو کرنے والے مرد ہی ہیں ۔ شاذ ونادر ہی جادو گرنیاں ہیں۔ باتصویر کہانیوں میں اور ڈراونی شیطان، بھوت کی فلموں میں ہی بوڑھی جادو گرنی کو بتایاجاتاہے۔ حقیقت میں اس طرح نہیں ۔بلکہ اکثر وبیشتر جادوگر مرد ہی ہیں۔ ایسی حالت میں جادو کرنے والی عورتوں سے پناہ مانگنے کے لیے کہنا ذرا بھی موزوں اور موافق نہیں۔
گرہوں میں پھونکنے والی عورتوں سے کیا مراد ہے؟ گرہوں براہِ راست معنی اگر چہ گرہیں ہی ہیں۔ مگر یہاں پر یہ معنی مطابقت نہیں رکھتا ۔ کیونکہ جب ہم غور کرتے ہیں کہ گرہ ڈالنے سے ہم کو کیا نقصان پہنچے گا؟ تب بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں پر گرہ کو اس کے اصلی معنی میں نہیں دیا جاسکتا۔
گرہ کو اس کے براہِ راست معنی کے سوا دوسرے معنی میں بھی استعمال ہواہے۔ مثال کے طور پر موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں لکنت تھی۔ ہکلا پن تھا جس کی شکایت انہوں نے اللہ سے یوں کی۔
(طٰہٰ20: آیت نمبر27)
اس آیت میں موجود گرہ کو ہم یہ نہیں سمجھیں گے کہ زبان میں سچ مچ گرہ ڈالی گئی ہے۔ بلکہ وہ رک رک کر پکلا کر بولتے تھے۔ جسے انہوں نے گرہ سے تعبیر کیا۔
اسی طرح اللہ شادی کے بارے میں کہتاہے کہ نکاح کے بعد میاں بیوی دونوں اگر صحبت سے پہلے الگ ہوجائیں۔ تو شوہر آدھا مہر ادا کرے۔ یہ اور بات ہے کہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح نام کی گرہ ہے، وہ درگزر سے کام لے۔ (البقرۃ2: آیت نمبر237)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایک مرد اور عورت کے نکاح کے ذریعہ ملنے کو ’’گرہ‘‘ قرار دیتاہے۔
اس لیے اس سورت(فلق) میں جو گرہ کا ذکر ہواہے۔ اس کی مناسب تشریح کیا نبی ﷺ کے فرمان میں ہے؟ ہم کو اس کی تلاش کرنا چاہیے۔
جب ہم تلاش وجستجو کرتے ہیں تو حدیث کی کتاب میں نبی ﷺ کا ایک فرمان اس کے بالکل موافق نظر آتاہے۔
ابوہریرہؓ نے خبر دی کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص سوتاہے تو اس کے سر کے پچھلے حصہ پر شیطان تین گرہیں لگاتاہے اور ہر گرہ کے ساتھ یہ بات بھی چسپاں کردیتاہے کہ ابھی رات لمبی ہے۔ پھر جب وہ شخص جاگ اٹھتاہے اوراللہ کو یاد کرتاہے ، تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ اور جب وضو کرتاہے ، تودوسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اور جب نماز پڑھتاہے، توتیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کو وہ چاق وچوبند خوش مزاج رہتاہے ۔ ورنہ سست اور بدباطن رہتاہے۔ (بخاری: 1142)
شیطان گرہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ نیک کام کرنے سے روکنا اوربرے کام کرنے پر ابھارنا ہے۔ جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا۔
اس طرح گرہوں میں پھونک مارنے سے پناہ کا مطلب یہ ہواہے کہ شیطان گرہ لگا کر ہمیں گمراہ کرنے سے پناہ مانگی جائے۔
دلیل کے بغیر، یوں ہی تصور کرکے من مانی اور غیر مناسب تشریح کرنے سے بہتر یہ ہے کہ حدیث کی مدد سے گرہ کا مطلب سمجھ لیں۔
جس طرح ہم سورہ ناس کے اندر دلوں میں وسوسہ ڈالنے والوں کی برائی سے پناہ مانگتے ہیں، اسی طرح اس سورت (فلق) میں بھی پناہ مانگتے ہیں۔
یہ ساری باتیں جب ہم مجموعی طورپر دیکھتے ہیں، تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جادو جو ہے صرف خیالی تصور ہے، جس سے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
بعض یہ خیال کرتے ہوں گے کہ گرہوں میں پھونکنے والیوں سے مراد اگر شیطان ہے، تو (نر) مرد شیطانوں سے پناہ کیوں کر ہوسکتی ہے؟ واضح ہو کہ شیطان کے لیے مؤنث کا صیغہ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ مذکر صیغہ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ ا س کو جیسا بھی استعمال کریں۔ بہرحال وہ دوجنسوں پر بھی مشتمل ہے۔ نر شیطان اور مادہ شیطان سب ہی اس میں آجائیں گے۔
کیا علماءِ حق نے جادو کا انکار نہیں کیا؟
معتزلہ کے نام سے ایک گروہ تھا جو حدیثوں کا انکار کررہا تھا۔ انبیاء کرام کے معجزات کو نہیں مانتا۔ تاریخ کی کتابوں میں اس فرقے کو گمراہ قرار دے کر منہ پھیر لیا گیا ہے۔
یہ فرقہ ایک زمانے میں تھا۔ اب نہیں ہے۔ تمام علماء حق اس فرقے کو ہی گمراہوں کے لیے مثال دیں گے۔ غرض اس فرقے کے لوگوں نے جادو کابھی انکار کیا تھا۔
اب جادو کی وکالت کرنے والے، جادو کا انکار کرنے والے ہم کو معتزلہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ جو کہتے ہیں وہ معتزلہ کا نظریہ ہے۔ فرقہ معتزلہ کی طرح ہی یہ لوگ بھی جادو کا انکار کرتے ہیں۔ پھر یہ الزام لگاتے ہیں کہ معتزلہ کے سوا کسی اور نے جاد وکاانکار نہیں کیا۔
جادو پارٹی عوام میں یہ تبلیغ کررہی ہے کہ توحید جماعت اس نئے نظریہ کو لوگوں کو ٹھونس کرانہیں الجھارہی ہے۔
اگر یہ لوگ سمجھیں کہ توحید جماعت کا یہ نظریہ غلط ہے، تو وہ لوگوں کے درمیان دلائل پیش کرکے ثابت کرسکتے ہیں کہ توحید جماعت کا دعوا غلط ہے ، اس میں ہم کو کوئی اعتراض نہیں۔
جب ان لوگوں نے دیکھا کہ ان کی تبلیغ کارگر نہیں ہورہی ہے، بلکہ خود ان کا ڈیرا خالی ہورہا ہے۔ ان کے ماننے والے دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں۔ اس کا اور بھی اندیشہ ہے تو ان کو چاہیے کہ باقاعدہ مناظرہ کے ذریعہ ایک نتیجے کو پہنچنے کی کوشش کرے۔
مگر یہ لوگ اپنے ساتھ رہنے والوں کو روکے رکھنے کے لیے، توحید جماعت کو فرقہ معتزلہ کے نظریے کے حامل کہہ کر لوگوں کی سمجھ بوجھ اور عقل پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ فرقہ معتزلہ نے جاد وکا انکار کیا۔ محض جادو کے انکار سے ان کو گمراہ قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ قرآن میں کئے گئے انبیا کے معجزات کا جان بوجھ کر انکار کیا، اس کے علاوہ کوئی غلط نظریے کی وجہ سے ہی ان کو گمراہ قرار دیا گیا۔
جن علما ءکرام نے معتزلہ کا سخت مخالفت کی ۔ ان میں کئی علما نے جادو کا انکار کیا ہے۔ اس بنا پر ان علما کو معتزلہ کے فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جادو کے انکار سے کوئی معتزلہ نہیں بنتا۔
ہاں! معتزلہ نے کہا کہ جادو ایک دھوکا ہے، فریب ہے۔ نہ صرف معتزلہ بلکہ معتزلہ کی مخالفت کرنے والے علمانے بھی کہا تھا کہ جادو صرف خیال ہے، تخییل ہے ۔ جادو کے قائلین نے اس حقیقت کو عوام سے چھپادیا ہے۔
بخاری کی کئی شر حیں لکھی گئیں ،جن میں دو بہت اہم ہیں۔ ایک حافظ ابن حجر کی لکھی ہوئی فتح الباری ہے۔ اوردوسری شرح عینی کی لکھی ہوئی عمدۃ القاری ہے۔ شافعی مسلک والے فتح الباری کو بڑی اہمیت دیں گے۔ اور حنفی مسلک کے لوگ عمدۃ القاری کو قدر ومنزلت کی نظر سے دیکھیں گے۔
بہرحال ان دونوں کتابوں میں جادو کے تعلق سے جو کہا گیا ہے وہ قابل مطالعہ ہے۔ حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب فتح الباری میں یوں کہا ہے:
وَاخْتُلِفَ فِي السِّحْرِ فَقِيلَ هُوَ تخبيل فَقَط وَلَا حَقِيقَةَ لَهُ وَهَذَا اخْتِيَارُ أَبِي جَعْفَرٍ الْإِسْتِرَبَاذِيِّ مِنَ الشَّافِعِيَّةِ وَأَبِي بَكْرٍ الرَّازِيِّ مِنَ الْحَنَفِيَّة وبن حَزْمٍ الظَّاهِرِيِّ وَطَائِفَةٍ قَالَ النَّوَوِيُّ وَالصَّحِيحُ أَنَّ لَهُ حَقِيقَةً وَبِهِ قَطَعَ الْجُمْهُورُ وَعَلَيْهِ عَامَّةُ الْعُلَمَاءِ وَيَدُلُّ عَلَيْهِ الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ الصَّحِيحَةُ الْمَشْهُورَةُ انْتَهَى
فتح الباري – ابن حجر – (10/222)
سحر کے معاملے میں اختلاف پایا جاتاہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ صرف تخییل ہے۔ ذہن میں ابھرنے والا خیال اور تصور ہے۔وہ سچ نہیں، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ شافعی مسلک کے بڑے عالم ابوجعفر کی رائے یہی ہے۔ اورحنفی مسلک کے عالم ابوبکر رازی کی بھی رائے یہی ہے۔ اورابن حزم کی رائے بھی یہی ہے ۔ (ابن حزم نے کہا ہے کہ قرآن وحدیث کی باتوں کو جوں کا توں تسلیم کیاجائے۔ کوئی تاویل نہ کی جائے۔ اور انہوں نے گمراہ کی نظریے کے خلاف سخت موقف اختیار کیا تھا)۔ نیز ایک گروہ کا موقف بھی یہی ہے۔ البتہ نووی نے کہا کہ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ جادو سے نقصان پہنچایاجاسکتاہے۔ قرآن اور حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔ (فتح الباری ابن حجر:222/10
یہ سچائی سب کو معلوم ہے کہ چاروں مسلک والوں نے بھی فرقہ معتزلہ کے نظریات کی مخالفت کی۔ حنفی اور شافعی مسلک کے علماکے علاوہ معتزلہ کے تردید کرنے والے ابن حزم نے بھی جادو کو دھوکا ،اورفریب کہا ہے۔ جیسا کہ ابن حجر نے نقل کیا ہے۔ ابن حجر نے مذکورہ علما کو جادو کا انکار کردینے کی بنا پر انہیں معتزلہ نہیں کہا۔ بلکہ یوں کہا کہ یہ اکثریت کی رائے ہے۔ اور یہ اقلیت کی رائے ہے۔
اسی طرح حنفی مسلک کے بڑے پائے کے عالم بدر الدین محمود عینی نے اپنی شرح کی کتاب عمدۃ القاری میں جو کہا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے:
الأول: إِن السحر لَهُ حَقِيقَة، وَذكر الْوَزير أَبُو المظفر يحيى بن مُحَمَّد بن هُبَيْرَة فِي كِتَابه (الْأَشْرَاف على مَذَاهِب الْأَشْرَاف) : أَجمعُوا على أَن السحر لَهُ حَقِيقَة إلاَّ أَبَا حنيفَة. فَإِنَّهُ قَالَ: لَا حَقِيقَة لَهُ. وَقَالَ الْقُرْطُبِيّ: وَعِنْدنَا أَن السحر حق، وَله حَقِيقَة يخلق الله تَعَالَى عِنْده مَا شَاءَ، خلافًا للمعتزلة وَأبي إِسْحَاق الإسفرايني من الشَّافِعِيَّة، حَيْثُ قَالُوا: إِنَّه تمويه وتخيل.
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (14/62)
جادو کے بارے میں پہلی رائے یہ ہے کہ وہ سچ ہے۔ اس کی حقیقت ہے۔ وزیر ابو مظفر اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ ابوحنیفہ کے سوا تمام علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جادو سچ ہے۔ مگر ابوحنیفہ نے کہا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اس میں ذرا بھی سچائی نہیں ہے۔ اور قرطبی نے کہا کہ ہماری رائے یہ ہے کہ جادو برحق ہے۔اور اللہ تعالیٰ چاہتے وقت جو چاہے پیداکرے گا۔معتزلہ اور شافعیہ میں ابواسحاق اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں۔ وہ اس طرح سے کہتے ہیں کہ جادو جو ہے خیالی صورت ، جھوٹی شکل اور توہم، ملمع اور گلٹ ہے۔ (عمدۃ القاری 14/62)
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ اورشافعی مسلک کے ابواسحاق معتزلہ ہیں؟
یہی بات ابن کثیر نے بھی نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
[فَصْلٌ] (10) وَقَدْ ذَكَرَ الْوَزِيرُ أَبُو الْمُظَفَّرِ يَحْيَى بْنُ هَبيرة بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ هُبَيْرَةَ فِي كِتَابِهِ: "الْإِشْرَافُ عَلَى مَذَاهِبِ الْأَشْرَافِ" بَابًا فِي السِّحْرِ، فَقَالَ: أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ السِّحْرَ لَهُ حَقِيقَةٌ إِلَّا أَبَا حَنِيفَةَ، فَإِنَّهُ قَالَ: لَا حَقِيقَةَ لَهُ عِنْدَهُ.
تفسير ابن كثيرت سلامة (1/371)
ابومظفر نے اپنی کتاب’’ الاشراف‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ جادو مکمل سچ ہے۔ جادو کے سچ ہونے میں ابوحنیفہ کے سو ا تمام علما متفق ہیں۔ ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ اس میں ذرا بھی سچائی اور حقیقت نہیں۔
ابن تیمیہؒ ، ابن حجر کے زمانے میں تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب" الفرقان بین اولیاء الرحمٰن واولیاء الشیطان" میں جو لکھا ہے وہ قابل ذکر ہے۔ ملاحظہ ہو:
حدیث:
جادو کے متعلق علماء کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے کہ کیا وہ سچ ہے؟ کیا اس کا وجود ہے ؟ کیا ایک چیز کو جادو کے ذریعہ کسی دوسری چیز میں تبدیل کیاجاسکتاہے؟ یا یہ صرف تصور اورخام خیالی ہے؟
فرقہ معتزلہ کے علاوہ جصاص کے نام سے معروف ومشہور ، حنفی مسلک کے ابوبکر رازی، اورشافعی مسلک کے ابوجعفر استرا بادی اور بغوی نے جادو کے تمام قسموں کو انکار کیاہے۔ یہ حقیقت میں جادو گر کی طرف سے دیکھنے والوں کا تصور ہے۔ جادو دراصل عدم کو وجود کی طرح بتانا، خیالی شکل اور وہم ہے۔
اور وہ کہتے ہیں کہ جس پر جادو کیا گیا ہے ۔ اس کو زہر دے کر یا دھوان وغیرہ دے کر جادوگر تکلیف پہنچاسکتاہے۔ ان کے بغیر صرف جادو کے ذریعہ کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا ۔ اور یہ بھی نقل کیا گیا کہ حنفی مسلک والوں کی رائے بھی یہی ہے ۔اور یہ علما کہتے ہیں کہ جادو گر کسی چیز کی اصلیت، اور اس کی خاصیت نہیں بدلا سکتا۔ چنانچہ لاٹھی کو سانپ میں بدل نہیں سکتا۔ اسی طرح انسان کو گدھا نہیں بناسکتا۔ (الفرقان لابن تیمیہ1/15)
ابن تیمیہ نے اس طرح کہنے والے علما کو معتزلہ نہیں کہا۔ بلکہ انہیں بھی علما ہی کہا۔ ابن تیمیہ نے بغوی کا بھی ذکر کیا جنہوں نے حدیثوں کو قائم کرنے بڑی جدوجہد کی جس کی بنا پر انہیں مُحْیُ السُّنَّۃ (سنتوں کو زندہ کرنے والے) کا لقب دیا گیا تھا۔ بغوی نے جادو کے متعلق حدیثوں کا انکار کرنے کی وجہ سے کسی نے بھی ان سے محی السنہ کا لقب چھین کر، معتزلہ کا لقب نہیں دیا۔
جادو کو تاثیر ہے، اور جادو کا اثر ہوتاہے۔ یہ خیال سب سے زیادہ پھیلنے کی کئی وجوہات ہیں ،جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ پیٹ پالنے والے علماء کے لیے ذریعہ معاش بن گیا ہے۔ نیز مسجد کے ذمہ داروں کو ڈرانے کے لیے کام آتاہے۔ اس طرح اورکئی وجوہات کی بنا پر جادوئی عقیدہ عام ہوگیا ہے۔
ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، اورافغانستان جیسے ملکوں میں زیادہ حنفی مسلک کے لوگ رہنے کے باوجود وہ جادو کو مانتے ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ اس کو محض خام خیالی اور توہم کہنے کے بعدبھی اس کو سچ سمجھتے ہیں۔ تو اس کی اصل وجہ نقلی علما ء کا پرچار اور تبلیغ ہے کہ ہمارے پاس کالا جادو ہے۔ اور جادوئی تاثیر سے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔
اس کے مقابل میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جادو سے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا، چونکہ ان کو لوگوں سے کچھ حاصل کرنے کی امید اور توقع نہیں ہوتی، اس لیے یہ بات عام لوگوں تک بہت کم ہی پہنچی۔
جادو پارٹی کے لوگ جو یہ کہہ رہے تھے کہ معتزلہ کے سوا کسی نے بھی جادو کا انکار نہیں کیا۔ اوراب توحید جماعت ہی اس کا انکار کررہی ہے، ان کے سارے دعوےکو مذکورہ دلائل کے ذریعہ جھوٹ ثابت کردیاگیا۔
حنفی اور شافعی مسلک کے بڑے مدارس وجامعات میں فضیلت کے آخری سال میں پڑھنے والے طلبہ کو نصابی تعلیم میں شامل تفسیر بیضاوی کا باقاعدہ درس دیا جاتاہے۔
اس تفسیر میں عقیدہ توحید کے خلاف کئی باتیں پائی جاتی ہیں ،پھر بھی اس میں دیکھیے کہ جادو کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟
فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ ساجِدِينَ لعلمهم بأن مثله لا يتأتى بالسحر، وفيه دليل على أن منتهى السحر تمويه وتزويق يخيل شيئاً لا حقيقة له،
تفسير البيضاوي = أنوار التنزيل وأسرار التأويل (4/138)
الشعراء26: آیت نمبر46 کہتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام معجزہ دکھاتے ہی جادوگر سب سجدہ میں گر گئے۔ یعنی وہ جادو گر یہ جاننے کی وجہ سے کہ جس طرح موسیٰ نے کیا اس طرح وہ جادو کے ذریعہ نہیں کرسکتے۔ (اپنی ہار مان کر) سجدے میں گرگئے۔ چنانچہ یہ آیت دلیل ہے کہ جادو جو ہے خلاف ِ واقعہ، جھوٹا خیال، جھوٹی شکل اورملمع سازی ہے جس میں سچائی ہے ہی نہیں۔(تفسیر بیضاوی)
ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح تفسیر لکھنے والے بیضاوی معتزلہ کا عقیدہ رکھتے ہیں؟ کیا مدارس وجامعات کے ذمہ داران نے عقیدہِ معتزلہ کے حامل تفسیر ہی کو فضیلت سال آخر کے نصاب میں شامل کیا ہے؟
فَلَمَّا أَلْقَوْا قالَ مُوسى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ أي الذي جئتم به هو السحر لا ما سماه فرعون وقومه سحراً. وقرأ أبو عمرو السِّحْرُ على أن مَا استفهامية مرفوعة بالابتداء وجئتم به خبرها والسِّحْرُ بدل منه أو خبر مبتدأ محذوف تقديره أهو السحر، أو مبتدأ خبره محذوف أي السحر هو. ويجوز أن ينتصب ما بفعل يفسره ما بعده وتقديره أي شيء أتيتم. إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ سيمحقه أو سيظهر بطلانه. إِنَّ اللَّهَ لاَ يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ لا يثبته ولا يقويه وفيه دليل على أن السحر إفساد وتمويه لا حقيقة له.
تفسير البيضاوي = أنوار التنزيل وأسرار التأويل (3/121)
یونس10: آیت نمبر81 میں اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ جب جادوگروں نے اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو ڈال کر جادو کیا، تو اس کو دیکھ موسیٰ نے کہا: یہ جو کچھ تم نے پیش کیا ہے۔ جادو ہے۔ اللہ اس کو شکست دے کر ختم کردے گا۔ اللہ تعالیٰ الجھانے اوربگاڑنے والوں کے کام کو بننے اور غالب ہونے نہیں دیتا۔ اور اس آیت میں دلیل ہے کہ جادو جو ہے الجھانا، فساد کرنا ،خلافِ واقع، عدم کو موجود کی طرح بتانا ہےجس میں سچائی اور حقیقت ذرہ برابر بھی نہیں ہے۔ (تفسیر بیضاوی)
یہ بات بیضاوی نے کہی ہے۔ تو ان کو کسی نے بھی معتزلہ کیوں نہیں کہا؟ اس کا طعنہ کیوں نہیں دیا؟
عالم وفاضل بننے والے طلبہ کو ساتواں یا آٹھواں سال میں تفسیر بیضاوی ہی کو پڑھایاجاتاہے۔ وہ علما اورفضلا اس کو باقاعدہ پڑھ کر فراغت کی سند حاصل کرچکے ہیں۔ یہ علماءِ دین نے تفسیر بیضاوی کی بہت سی بے دلیل باتوں کو قبول کیا ہے۔ مگر تعجب ہے جس حقیقت کو بیضاوی نے دلیل کے ساتھ کہا اس کو علما کیوں نہیں مانتے!انکار کیوں کررہے ہیں؟
اسی طرح شوکانی نے بھی اپنی کتاب فتح القدیر میں بیان کیا۔ ملاحظہ ہو:
وما فِي مَا يَأْفِكُونَ مَصْدَرِيَّةٌ أَوْ مَوْصُولَةٌ، أَيْ: إِفْكِهِمْ أَوْ مَا يَأْفِكُونَهُ، سَمَّاهُ إِفْكًا، لِأَنَّهُ لَا حَقِيقَةَ لَهُ فِي الْوَاقِعِ بَلْ هُوَ كَذِبٌ وَزُورٌ وَتَمْوِيهٌ وَشَعْوَذَةٌ فَوَقَعَ الْحَقُّ أَيْ: ظَهَرَ وَتَبَيَّنَ لِمَا جَاءَ بِهِ مُوسَى وَبَطَلَ مَا كانُوا يَعْمَلُونَ مِنْ سِحْرِهِمْ، أَيْ: تَبَيَّنَ بُطْلَانُهُ فَغُلِبُوا
فتح القدير للشوكاني (2/265)
الاعراف7: آیت نمبر117 میں جادوگروں کے جادو کی بابت اللہ تعالیٰ ذکر کرتے وقت یأفِکُوْنَ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس لفظ کے معنی ہیں جھوٹ بولنا۔ جھوٹ گھڑنا، اللہ نے لفظ یہاں پر اس لیے استعمال کیا کہ جادوگروں نے جو جادو دکھایا۔ اس میں ذرا بھی سچائی اور حقیقت نہیں ہے۔ بلکہ وہ جھوٹ اورگھڑی ہوئی بات ہے، خلاف واقع دکھانا اورملمع سازی ہے۔ اورشعبدہ بازی بھی ہے۔ اسی لیے وہ جادوگر ہار گئے۔
یأفِکُوْنَ کے اسی لفظ کو بنیاد بناکر طبری نے اپنی تفسیر میں یوں کہا ہے:
(فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ) يقول: فإذا عصا موسى تزدرد ما يأتون به من الفرية والسحر الذي لا حقيقة له، وإنما هو مخاييل (1) وخدعة. (فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ) يقول: فلما تبين السحرة أن الذي جاءهم به موسى حق لا سحر، وأنه مما لا يقدر عليه غير الله الذي فطر السموات والأرض من غير أصل، خرّوا لوجوههم سجدا لله، مذعنين له بالطاعة، مقرّين لموسى بالذي أتاهم به من عند الله أنه هو الحقّ، وأن ما كانوا يعملونه من السحر باطل
تفسير الطبري = جامع البيان ت شاكر (19/348)
اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ موسیٰ کا معجزہ ان کے بنائے ہوئے جھوٹے طلسم کو نگلنے لگا۔ کیونکہ ان جادوگروں نے جو کیا وہ اورایساجادو ہے جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں، وہ تومحض تخیل وتصور اور دھوکاوفریب ہے۔
جب انہیں معلوم ہوگیا کہ موسیٰ نے جو پیش کیا وہ حقیقت میں معجزہ ہے، جادو نہیں۔ اس کا مقابلہ ناممکن ہے اور وہی غالب رہے گا۔اس لیے وہ تمام جادوگر سجدے میں گرپڑے۔ (تفسیر طبری)
اسی طرح ابن حبان نے اپنی تفسیر’’ البحر المحیط‘‘ میں لکھا ہے:
فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجاؤُ بِسِحْرٍ عَظِيمٍ أَيْ أَرَوُا الْعُيُونَ بِالْحِيَلِ وَالتَّخَيُّلَاتِ مَا لَا حَقِيقَةَ لَهُ كَمَا قَالَ تَعَالَى يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّها تَسْعى «3»
البحر المحيط في التفسير (5/133)
طٰہٰ 20:آیت نمبر66 میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے لوگوں کے آنکھوں پر جادو کردیا اور ان کی نظر بندی کردی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے آنکھوں کو حیلے اور چال بازی کے ذریعہ نیز خلاف واقع عدم کو موجود کی طرح جھوٹی شکل اور خیال پید اکرکے دکھایا۔ انہوں نے موسیٰ کو جھوٹی شکل دکھا یا۔
اسی طرح روح البیان میں قاضی رقمطراز ہیں:
إِنَّ اللَّهَ لا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ اى لا يثبته ولا يكمله ولا يديمه بل يمحقه ويهلكه ويسلط عليه الدمار قال القاضي وفيه دليل على ان السحر إفساد وتمويه لا حقيقة له انتهى.
روح البيان (4/70)
یونس10: آیت نمبر81 میں اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ اللہ ابگاڑنے والوں کے کام کو درست نہیں کرتا ،اور ان کے عمل کو غالب نہیں کرتا۔ قاضی نے کہا کہ اس آیت میں دلیل ہے کہ جادو میں ذرا بھی سچائی نہیں۔ وہ جھوٹ، الجھاؤ، فساد، ملمع سازی اور دھوکاہے۔(روح البیان)
اسی طرح روح البیان میں شعرانی کا قول نقل کیا گیا۔ ملاحظہ فرمایے:
وفيه دليل على ان التبحر فى كل فن نافع فان السحرة ما تيقنوا بان ما فعل موسى معجزهم الا بمهارتهم فى فن السحر وعلى ان منتهى السحر تمويه وتزوير وتخييل شىء لا حقيقة له وجه الدلالة ان حقيقة الشيء لو انقلبت الى حقيقة شىء آخر بالسحر لما عدوا انقلاب العصا حية من قبيل المعجزة الخارجة عن حد السحر ولما خروا ساجدين عند مشاهدته
روح البيان (6/274)
جادوگروں کاسجدے میں گرنا دلیل ہے کہ جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ وہ اس طرح سے کہ جادوگر ایک چیز کو اگر جادو سے بدل کر حقیقت میں دوسری چیز پیش کرتے، تو وہ موسیٰ کے لاٹھی ڈال کر اسے سچ مچ سانپ میں تبدیل کرنے کو دیکھ تعجب نہیں کرتے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ حقیقت میں تبدیلی ہے۔ جو جادو سےنہیں ہوسکتا۔ ناممکن ہے تب انہوں نے اپنی شکست کو تسلیم کرلیا۔ (روح البیان)
اس میں افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے جادوگروں کے متعلق آنے والی ہر آیت کا باریک بینی اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا ،اور کہا کہ جادو میں ذرا بھی سچائی نہیں۔ سب نظربندی ، دھوکا اور شعبدہ ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ مگر ان میں کئی حضرات البقرۃ2: آیت نمبر102 کی تفسیر کرتے وقت ، جادوگروں کے بارے میں آنے والی آیتوں اوراپنی کہی ہوئی بات سب کو بھول گئے، اوراب بدل کر اس کے برعکس باتیں کرتے ہیں۔
وجملة ذلك أن السحر عقد ورقى وكلام يتكلم به ويكتبه أو يعمل شيئاً يؤثر في بدن المسحور أو قلبه أو عقله من غير مباشرة له وله حقيقة فمنه ما يقتل وما يمرض وما يأخذ الرجل عن امرأته فيمنعه وطأها ومنه ما يفرق به بين المرء وزوجه وما يبغض أحدهما إلى الآخر أو يجب بين اثنين وهذا قول الشافعي وذهب بعض أصحابه إلى أنه لا حقيقة له إنما هو تخييل قال الله تعالى (يخيل إليه من سحرهم أنها تسعى) وقال أصحاب أبي حنيفة إن كان شيئاً يصل الى بدن المسحور كدخان ونحوه جاز أن يحصل منه ذلك فأما ان يحصل المرض والموت من غير أن يصل انى بدنه شئ فلا يجوز ذلك لأنه لو جاز لبطلت معجزات الأنبياء عليهم السلام لأن ذلك يخرق العادات فاذا جاز من غير الأنبياء بطلت معجزاتهم وأدلتهم
الشرح الكبير لابن قدامة (10/112)
جادو جو ہے گرہ لگانا ، کچھ الفاظ کہنا، پھونکنا، کچھ حروف لکھنا، یاکچھ کام کرنا وغیرہ غرض اس کے کئی قسمیں ہیں۔ جس پر جادو کیا گیا ہے۔ اسے(سحرزدہ کو) ہاتھ لگائے بغیر ہی، اس کے بدن ،یا اس کی عقل کو، یا اس کے دل کو متاثر کیاجاسکتاہے۔ اور ان پر اثر ڈالا جاسکتاہے۔ یہ سچ ہے، اس کی حقیقت ہے۔ چنانچہ جادوکے ذریعہ کسی کو قتل کیاجاسکتاہے، کسی کو بیمار کیاجاسکتاہے، شوہر کو اپنی بیوی سے مجامعت کرنے روکا جاسکتاہے۔ میاں اور بیوی کے درمیان محبت یا نفرت پیدا کی جاسکتی ہے۔ ان کے آپس میں جدائی بھی ڈالی جاسکتی ہے۔ یہی امام شافعی کا قول ہے۔
مگر شافعی مسلک کے بعض علما نے کہا کہ جادو کچھ نہیں، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ صرف خام خیالی ہے۔ اللہ کا یہ قول ہی اس کی دلیل ہےکہ موسیٰ کو سانپ کی پھنکارنے کی طرح ایک جھوٹا خیال گزرنے لگا۔ ایک جھوٹی شکل دکھائی دینے لگی۔
امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد کہتے ہیں کہ دھواں وغیرہ جیسی کوئی چیز آدمی کے جسم میں پہنچائے، تو اس سے نقصان پہنچ سکتاہے۔ مگر کسی چیز کا بھی استعمال کیے بغیر، آدمی کو بیمار کرنا یا جان سے ماردینا وغیرہ بالکل ناممکن ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ اگر اس طرح ہوسکتاہے، تو انبیا کے معجزات ناکام اور نامراد ہوجائیں گے۔ انبیا کے سوا دوسرے بھی اگر خرق عادت کام کریں، کرشمے اور کرامات دکھاتے رہیں، تو پھر انبیا کے معجزات اور ان کے انبیا ہونے کے دلائل سب بے کار ہوجائیں گے۔ (شرح کبیر)
جصاص کے نام سے معروف ومشہور ابوبکر رازی نے بھی جادو کا سختی کے ساتھ انکار کیا ہے۔ ان کے الفاظ ملاحظہ ہو:
وَمَنْ صَدَّقَ هَذَا فَلَيْسَ يَعْرِفُ النُّبُوَّةَ وَلَا يُؤْمَنُ أَنْ تَكُونَ مُعْجِزَاتُ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ السَّلَامُ مِنْ هَذَا النَّوْعِ وَأَنَّهُمْ كَانُوا سَحَرَةً. وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَلا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى} [طه: 69] .
وَقَدْ أَجَازُوا مِنْ فِعْلِ السَّاحِرِ مَا هُوَ أَطَمُّ مِنْ هَذَا وَأَفْظَعُ، وَذَلِكَ أَنَّهُمْ زَعَمُوا أَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ سُحِرَ، وَأَنَّ السِّحْرَ عَمِلَ فِيهِ حَتَّى قَالَ فِيهِ: "إنَّهُ يُتَخَيَّلُ لِي أَنِّي أَقُولُ الشَّيْءَ وَأَفْعَلُهُ وَلَمْ أَقُلْهُ وَلَمْ أَفْعَلْهُ" وَأَنَّ امْرَأَةً يَهُودِيَّةً سَحَرْته فِي جُفِّ طَلْعَةٍ وَمُشْطٍ ومشاقة، حتى أَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهَا سَحَرَتْهُ فِي جُفِّ طَلْعَةٍ وَهُوَ تَحْتَ رَاعُوفَةِ الْبِئْرِ، فَاسْتُخْرِجَ وَزَالَ عَنْ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ ذَلِكَ الْعَارِضُ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى مُكَذِّبًا لِلْكُفَّارِ فِيمَا ادَّعَوْهُ مِنْ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ: {وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلاً مَسْحُوراً} [الفرقان: 8] .
وَمِثْلُ هَذِهِ الْأَخْبَارِ مِنْ وَضْعِ الْمُلْحِدِينَ تَلَعُّبًا بِالْحَشْوِ الطَّغَامِ وَاسْتِجْرَارًا لَهُمْ إلَى الْقَوْلِ بِإِبْطَالِ مُعْجِزَاتِ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ السَّلَامُ وَالْقَدْحِ فِيهَا، وَأَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ مُعْجِزَات الْأَنْبِيَاءِ وَفِعْلِ السَّحَرَةِ، وَأَنَّ جَمِيعَهُ مِنْ نَوْعٍ وَاحِدٍ وَالْعَجَبُ مِمَّنْ يَجْمَعُ بَيْنَ تَصْدِيقِ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ السَّلَامُ وَإِثْبَاتِ مُعْجِزَاتِهِمْ وَبَيْنَ التَّصْدِيقِ بِمِثْلِ هَذَا مِنْ فِعْلِ السَّحَرَةِ مَعَ قَوْله تَعَالَى: {وَلا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى} [طه: 69] فَصَدَّقَ هَؤُلَاءِ مَنْ كَذَّبَهُ اللَّهُ وَأَخْبَرَ بِبُطْلَانِ دَعْوَاهُ وَانْتِحَالِهِ.
وَالْفَرْقُ بَيْنَ مُعْجِزَاتِ الْأَنْبِيَاءِ وَبَيْنَ مَا ذَكَرْنَا مِنْ وُجُوهِ التَّخْيِيلَاتِ، أَنَّ مُعْجِزَاتِ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ السَّلَامُ هِيَ عَلَى حَقَائِقِهَا، وَبَوَاطِنُهَا كَظَوَاهِرِهَا، وَكُلَّمَا تَأَمَّلْتهَا ازْدَدْت بَصِيرَةً فِي صِحَّتِهَا، وَلَوْ جَهَدَ الْخَلْقُ كُلُّهُمْ عَلَى مُضَاهَاتِهَا وَمُقَابِلَتِهَا بِأَمْثَالِهَا ظَهَرَ عَجْزُهُمْ عَنْهَا; وَمَخَارِيقُ السَّحَرَةِ وَتَخْيِيلَاتُهُمْ إنَّمَا هِيَ ضَرْبٌ مِنْ الْحِيلَةِ وَالتَّلَطُّفِ لِإِظْهَارِ أُمُورٍ لَا حَقِيقَةَ لَهَا، وَمَا يَظْهَرُ مِنْهَا عَلَى غَيْرِ حَقِيقَتِهَا، يُعْرَفُ ذَلِكَ بِالتَّأَمُّلِ وَالْبَحْثِ وَمَتَى شَاءَ أَنْ يَتَعَلَّمَ ذَلِكَ بَلَغَ فِيهِ مَبْلَغَ غَيْرِهِ وَيَأْتِي بِمِثْلِ مَا أَظْهَرَهُ سِوَاهُ.
أحكام القرآن للجصاص ط العلمية (1/58)
جس نے جادو کی تصدیق کی ۔ اس نے نبوت کو نہیں پہچانا۔ اگر جادو کو سچ ماناجائے، تو انبیا کے معجزات کو جادو کی ایک قسم سمجھنے سے۔ اور خود انبیا کو جادو گر سمجھنے سے بچایا نہیں جاسکتا۔ اور اللہ تعالیٰ طٰہٰ20: آیت نمبر69 میں کہا کہ جادوگر جادو کرنے کے لیے جدھر سے بھی اور جس راستے سے بھی آئے۔ کامیاب نہیں ہوتا۔ لوگوں نے جادو کے عمل سے بھی زیادہ بڑی اور ہولناک بات جائز قرار دی ہے۔ چنانچہ ان کا خیال ہے کہ نبی ﷺ پر جادو کیا گیا تھا۔اور اس کا اثر بھی آپ ﷺ پر ہوا تھا۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے ایسا خیال ہوتاہے کہ میں کوئی بات کہہ رہاہوں یا کررہاہوں جب کہ میں نے نہ وہ بات کہی ہوتی، اور نہ کی ہوتی ہے۔
اور ایک یہودی عورت نے آپ پر کھجور کے چھلکے کے اندر کنگھی اوربالوں میں جادو کردیا تھا۔ یہاں تک کہ آپ کے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ کو اطلاع دی کہ اس عورت نے کھجور کے چھلکے کے اندر جادو کردیا۔ اوروہ کنویں کے پتھر کے نیچے ہے۔ تو آپ نے اس کو نکلوایا اور نبی ﷺ پر سے اس کا اثر زائل ہوگیا۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی نسبت کفار کے دعوے کو جھٹلاتے ہوئے فرمایا ہے: ظالم کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے آدمی کی پیروی کررہے ہو جس پر جادو کردیا گیا ہے۔
اس طرح کی حدیثیں درحقیقت اسلام کے دشمنوں کی وضع کردہ ہیں۔ ان کامقصد انبیا کے معجزات کی خصوصیات کو مٹانا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق جادو اور معجزات انبیا کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ بلکہ یہ سب ایک ہی قسم قرار دے دیا گیا ۔
جو یہ کہتے ہیں کہ انبیا کے معجزات بھی سچ ہیں،اسی طرح جادوگروں کے کرتب اور کرشمے بھی سچ ہیں ۔ان کے متضاد نظریے پر ہم کو تعجب ہوتاہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جادوگر۔ جادو کرتے وقت کامیاب نہیں ہوتا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ جادوگروں کو جھٹلا تاہے۔ مگر یہ لوگ ان کو سچے بنارہے ہیں۔
انبیا کے معجزات اورجادوگروں کے کرتب اور شعبدوں میں فرق یہی ہے ۔ انبیا کے معجزات اس کے حقائق پر محمو ل ہوتے ہیں۔ جیسے دیکھیں، حقیقت میں بھی ویسے ہی ہوں گے۔ اس کا ظاہرجس طرح دکھائی دیتاہے، اسی طرح ہی اس کا باطن اور اندرونی حصہ بھی ہے۔ معجزات میں تو جتنا غور کرے گا۔ اتناہی ا سکی سچائی اور حقیقت واضح ہوگی ۔ اگر پوری دنیا بھی مل کر اس طرح کرنا چاہے تو ان سے ہرگز نہیں ہوسکتا۔
جادوگری کا جادو جو ہے جھوٹ، حیلہ ، دھوکا اور مکاری ہے۔ اس سے کوئی سچائی نہیں ہے۔ اس کی حقیقت کے خلاف اس کی ظاہری صورت ہوتی ہے۔ اگر غور کرکے تحقیق کریں گے، تو اس کو پہچان لیں گے۔
اس کے علاوہ مشہور مفسر ابوبکر جصاص نے اس کا بھی ذکر کیا۔
وَحِكْمَةٌ كَافِيَةٌ تُبَيِّنُ لَك أَنَّ هَذَا كُلَّهُ مَخَارِيقُ وَحِيَلٌ لَا حَقِيقَةَ لِمَا يَدَّعُونَ لَهَا أَنَّ السَّاحِرَ وَالْمُعَزِّمَ لَوْ قَدَرَا عَلَى مَا يَدَّعِيَانِهِ مِنْ النَّفْعِ وَالضَّرَرِ مِنْ الْوُجُوهِ الَّتِي يَدَّعُونَ وَأَمْكَنَهُمَا الطَّيَرَانُ وَالْعِلْمُ بِالْغُيُوبِ وَأَخْبَارِ الْبُلْدَانِ النَّائِيَةِ وَالْخَبِيئَاتِ وَالسُّرُقِ وَالْإِضْرَارِ بِالنَّاسِ مِنْ غَيْرِ الْوُجُوهِ الَّتِي ذَكَرْنَا، لَقَدَرُوا عَلَى إزَالَةِ الْمَمَالِكِ وَاسْتِخْرَاجِ الْكُنُوزِ وَالْغَلَبَةِ عَلَى الْبُلْدَانِ بِقَتْلِ الْمُلُوكِ بِحَيْثُ لَا يَبْدَأهُمْ مَكْرُوهٌ، وَلَمَا مَسَّهُمْ السُّوءُ وَلَا امْتَنَعُوا عَمَّنْ قَصَدَهُمْ بِمَكْرُوهٍ، وَلَاسْتَغْنَوْا عَنْ الطَّلَبِ لِمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ فَإِذَا لَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ وَكَانَ الْمُدَّعُونَ لِذَلِكَ أَسْوَأَ النَّاسِ حَالًا وَأَكْثَرَهُمْ طَمَعًا وَاحْتِيَالًا وَتَوَصُّلًا لِأَخْذِ دَرَاهِمِ النَّاسِ وَأَظْهَرَهُمْ فَقْرًا وَإِمْلَاقًا عَلِمْت أَنَّهُمْ لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ
أحكام القرآن للجصاص ط العلمية (1/57)
یہ حکمت کی بات آپ کو واضح کردے گا کہ جادو کے یہ کام سب تجربہ کاری اور مکاری ہے۔ وہ جو کچھ کرنے کا دعوا کرتے ہیں۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہ اگر منتر کے ذریعہ فائدہ اور نقصان پہنچانے کےدعوے میں سچے ہیں، اسی طرح وہ جو دعوے کرتے ہیں کہ آسمان میں پرواز کرتے ہیں، غیب کی باتیں جانتے ہیں۔ اور دور دراز شہروں کی خبر رکھتے ہیں، وغیرہ تو ان جادوگروں کو چاہیے کہ موجودہ حکومتوں کو ہٹا کر دکھائیں، زمین میں مدفون پوشیدہ دفینوں اور خزانوں کو نکال باہر کریں۔کسی کا کوئی نقصان ہوے بغیر، بادشاہوں کو قتل کریں اور شہروں پر غالب آئیں۔ دوسروں سے ان کو کوئی مصیبت نہ آئے، اسی طرح ان جادوگروں کو لوگوں کے پاس ہاتھ پھیلائے بغیر رہنا چاہیے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ وہ اس طرح کچھ بھی نہیں کرتے۔ اسی لیے ان کی مالی حالت لوگوں میں سب سے بدتر ہے۔ اورلالچی ہیں۔ غربت وافلاس کے مارے اور فقیر ہیں۔ مال کے حریص اورلالچی ہیں۔ دھوکہ دے کر لوگوں کے پیسے چھین لیتے ہیں۔ اورلوگوں سے خوشامداور چاپلوسی کرتے ہیں۔
اسی سے واضح ہوتاہے کہ یہ جادوگر جن چیزوں کا اور جن قدرتوں کا دعوا کرتے ہیں۔ حقیقت میں ان کو کسی چیز پر کوئی قدرت حاصل نہیں ہے۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ اس طرح کھلم کھلا بیان کرنے والے ابوبکر جصاص کو کیا تم نے معتزلہ کہا؟ کیا پھر ان کو کسی اور نے اس طرح کہا؟
جادو پارٹی نے کہا کہ معتزلہ کے سوا کسی نے جادو کا انکار نہیں کیا۔ مگر مذکورہ دلائل وشواہد سے اب آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ جادو پارٹی نے جو کہا وہ حقیقت حال کے خلاف ہے۔
کیااکثریت کی بات دلیل بن سکتی ہے؟
جادو کو ماننے والے، اس کا انکار کرنے والوں سے زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اکثریت جادو کے قائل ہیں۔ اس لیے کیااس بات کو مان لیاجائے کہ یہی موقف صحیح ہے؟
کیا مسلمان زیادہ ہیں یا اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے زیادہ ہیں؟ اگر اس طرح سوال کیاجائے، تو ظاہر سی بات ہے کہ شرک کرنے والے ہی زیادہ تعداد میں ہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہاجاسکتاکہ یہ اسلام کی شکست اورہار ہے۔
بلکہ کھلے الفاظ میں کہنا ہے تو اللہ کاارشاد ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ نہیں جانتے۔ اورلوگوں میں اکثر نادان ہیں۔ ملاحظہ ہو:
الاعراف7: آیت نمبر187 یوسف12: آیت نمبر21،40،68
النحل16: آیت نمبر38 الروم30:آیت نمبر6،30
سبا34: آیت نمبر28،36 المؤمن 40: آیت نمبر57
الجاثیۃ45: آیت نمبر26
اس لیے ہم ان دومختلف موقف کوسامنے رکھ کر یہ غور کرنا ہے کہ
کونسا موقف قابل قبول ہے؟
کس کی رائے مناسب اورموزوں ہے؟
کونسا موقف اسلام کا بول بالا کرسکتاہے؟
کونسا موقف نبی ﷺ کی عزت ووقار کو بڑھانے والا ہے؟
کونسا نقطۂ نظر قرآن کی تعظیم میں اضافہ کرنے والا ہے؟
اورکونسا موقف لوگوں کو دھوکا کھانے سے بچاسکتاہے؟ اور چین وسکون غارت ہونے سے روک سکتاہے۔
پھر اس موقف کو اختیار کرلینا چاہیے۔
جب جادو کچھ نہیں، تو گناہ کیوں؟
جن کا یہ عقیدہ ہے کہ جادو کے ذریعہ متاثر کیاجاسکتاہے ،وہ اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے ہمیشہ ایک سوال کرتے ہیں۔ تھوڑا بہت غور وتدبر کرنے والے بھی اس طرح کا سوال نہی کرسکتے۔
ان کا سوال یہ ہے کہ جب اللہ کے نبی ﷺ نےفرمادیا کہ جادو بڑے گناہوں میں سے ہے۔ اور تم بھی کہتے ہو کہ جادو کفر میں دھکیل دے گا۔ اگر یہ کہتے ہو کہ جادو کچھ نہیں۔ تو اس کو گناہ اورکفر کس طرح کہاجاسکتاہے؟
ہم جو کہتے ہیں کہ جادو نہیں ہے۔ اس کو وہ اچھی طرح سمجھنے کے باوجود، اس طرح ناٹک کرتے ہیں گویا وہ سمجھے ہی نہیں۔
ہمارا یہ کہنا کہ جادو نہیں ہے۔ اس معنی میں ہوتاہے کہ جادو کے ذریعہ متاثر کیا جانے کا جو عقیدہ پایاجاتاہے، وہ نہیں ہے۔ جاد ومیں کوئی اثر نہیں ،اوراس کی کوئی تاثیر نہیں۔ جیسا کہ اس کو چھوٹا بچہ بھی سمجھتاہے۔
البتہ جادو کے نام پر دھوکا ، فریب اورمکاری تو ہے ہی۔ واضح رہے کہ جو چیز ہے ہی نہیں، ناپید ہے، اس کو ہےکہنا اور موجود قراردینا گناہ نہیں ہے؟ اوریہ کہنا کہ جادو گر بھی اللہ کی طرح کام کرتاہے۔ اللہ کے ساتھ شرک نہیں ہوا؟ کیا یہ باتیں بھی ان کو سمجھ میں نہیں آئیں؟
مثال کے طورپر جھوٹ کو لیجئے۔ ہم کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ جھوٹ وہ ہے جو نہیں ہے، اورنہیں ہو ا۔یعنی جس کے بارے میں کہاجارہا ہے ، حقیقت میں جب وہ بات نہیں ہے، او ر وہ واقعہ نہیں ہوا، تو کہنے والے کو گناہ کیوں ہوگا؟ کیا ان کو وسیع علم یہ سوال کرے گا؟
جوچیز نہیں ہے ،معدوم ہے،وہ گناہ نہیں۔ بلکہ معدوم کو موجود کہنا ہی گناہ ہے۔ اسی طرح جادو سے کچھ بھی نہیں کیاجاسکتا۔ بلکہ چالاکی اورمکاری کے ذریعہ دھوکا دیا جاسکتاہے۔ اس حقیقت کو جانتے ہوئے کوئی اس دھوکہ کو اگر سچ کہے، تووہ گناہ ہے۔ کیا وہ لوگ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے؟
دنیا میں سحر(جادو) کے نام سے ایک دھوکہ کا فن ہے۔ مگر وہ دھوکے کا فن نہیں۔ یہ کہہ کر کہ سچ مچ یہ دوسروں کو متأثر کرنےکا فن ہے۔ دھوکا دینا ہی گناہ ہے۔ ان کویہ بات سمجھ لیناچاہیے۔
پہلے کہی ہوئی بات سے رجوع کیوں؟
اس سے پہلے ہم نے کہا اور لکھا بھی تھا کہ جادو کے ذریعہ بڑی حد تک متاثر نہیں کیاجاسکتا۔ زیادہ سے زیادہ میاں اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالی جاسکتی ہے۔ مگر ہم اب یہ کہتے ہیں کہ جادو کے ذریعہ شوہر اوربیوی کے بیچ میں جدائی بھی نہیں ڈالی جاسکتی۔
جادو پارٹی کے لوگ اسی بات کو بڑے ثبوت کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ حالانکہ عقیدہ توحید کی بنیاد ہی ہے کہ انسان کم علم والا ہے۔ اس لیے اس سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ اس سے کوئی چھٹکارا نہیں۔ تاریخ میں دیکھیں گے کہ کوئی پائے کا عالم ایسا نہیں جو کچھ پہلے اس نے کہہ دیا ان میں سے کچھ حصہ بعد کے دور میں رجوع نہ کیا ہو۔ اسلام کا اصول ہی یہی ہے کہ جب غلطی اور خطا کا علم ہو، اس کی اصلاح کردے، اور اپنی بات سے رجوع کرلے۔
ہم نے اپنا موقف کیوں بدل دیا؟ اس کو زیر نظر کتاب کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص معلوم کرسکتاہے ۔ پہلے ہم نے جو کہا وہ غلط ہے، اور اب جو کہہ رہے ہیں یہی صحیح ہے۔ اس کے لیے ناقابل تردید دلائل مل چکے ہیں۔ دلائل وحجت قائم ہوجانے کے بعد ہم نے اپنی پہلی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیا۔
اگر یہ کہاجائے کہ جادو سے میاں اور بیوی کے درمیان تفریق ہوسکتی ہے، یا یہ کہاجائے کہ جادو سے نبی ﷺ کو نفسیاتی مریض بنایاجاسکتاہے۔ تو بھی یہ مفہوم آتاہے کہ جادوگر کو االلہ کی طرح قدرت حاصل ہے۔
قرآن کی بہت سی آیتیں کہتی ہیں کہ جادو سے کچھ بھی نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے برخلاف ہمارا پرانا موقف تھا، اس لیے ہم نے اس کو ٹھیک کیا۔ اور یہ تبدیلی اور رجوع قابل ستائش ہے۔ جس میں عیب ڈھونڈنے کی کوئی وجہ جواز نہیں۔
کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ سب کچھ مکمل طور پر تحقیق کرنے کے بعد ہی اس بات کو بتائی جاسکتی تھی؟
یہ سوال ایک مسلمان پوچھنے کا نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا موقف کا انحصار دلائل وبراہین پر ہونا چاہیے۔ چنانچہ اب ہم نے جو کہا ہے اس کو اگر دلائل سے غلط ہونا ثابت کردے، تو اس سے رجوع کرنےمیں نہیں ہچکچائیں گے۔ بلکہ اس کی رہنمائی کرنے والے کو شکریہ ادا کرنے سے بھی نہیں شرمائیں گے۔
پہلے ایک موقف، پھر بعد میں اس سے رجوع، ایسا تمام ائمہ کرام سے بھی ہواہے۔ امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ غرض تمام ائمہ کی بھی پرانی بات اورنئی بات اس طرح بہت ہیں۔
ابوحنیفہ کی پہلے ایک رائے تھی۔ پھر انہوں نے رائے بدل دی۔ اس طریقے سےان کے بہت سے اقوال ہیں۔ اس طرح شافعی نے کسی مسئلے میں یوں کہا پھر اس سے رجوع کرلیا، بے شمار مسائل میں رائے بدلتی رہی۔ اور اپنائے ہوئے موقف میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ چنانچہ بڑی تعداد میں تبدیلی موقف کا لمبی فہرستیں ہیں۔
نیکو کاروں سے غلطی ہوجائے ،اور اس کا صحیح علم ہوتے ہی فوراً اس سے وہ رجوع کرلیتے ہیں۔ اوراعلان کردیتے ہیں کہ ہم نے غلطی سے اس طرح کہہ دیا۔ اب اس موقف کو بدل لیتے ہیں۔ تاکہ لوگ ان کی پرانی بات پر نہ چلیں۔ بلکہ دلائل کی بنیاد پر نئے موقف کو اپنائیں۔
اگر بدکاروں سے غلطی ہوجائے ،اوراس کا احساس بھی ہو، پھر بھی اپنی بات پر اڑے رہیں گے۔ اس موقف کو دلائل سے غلط ثابت کردینے پر بھی اس سے رجوع نہیں کریں گے۔ بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک زمانے سے اس طرح کہتے آئے ہیں۔ اگر ہم اس کو بدل دیں، تو پھر ہماری عزت چلی جائے گی۔ چنانچہ وہ ہٹ دھرمی کے ساتھ لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔
دلائل اور ثبوت کی بنا پر موقف بدل دینا قابل تعریف اور مستحسن کام ہے۔ مگر یہ لوگ خوبی کو خامی اور عیب کی طرح پیش کررہے ہیں۔
ہم عرصہ دراز سے روزہ کھولتے وقت یہ دعا پڑھ رہے تھے کہ ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ۔
اس کی سند میں ایک ایسے راوی ہیں جن کے نام سے دو راوی آتے ہیں۔ ایک راوی ثقہ اور قابل بھروسہ مگر اسی نام کے دوسرے راوی ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ ہم نے اس ضعیف راوی کو غلطی سے ثقہ راوی سمجھ کر مذکورہ دعا کو صحیح اور مسنون کہتے آرہے تھے۔
مگر بعد میں اس کا پتہ چلا ، اسی وقت ہم نے اپنا ویب سائٹ آن لائن پی جے ڈاٹ کام کے ذریعہ اس کی خبر دی۔ اپنا ماہنامہ میں بھی اس کی حقیقت کو سمجھایا۔ پھر نوٹس اور عوامی جلسوں کے ذریعہ بھی لوگوں تک حقیقت پہنچادی۔
غلطی کا اعتراف اوراصلاح میں ہم نے کبھی پس وپیش نہیں کیا۔ بلکہ جوں ہی غلطی کا علم ہوا، فوراً ہی اس کا اعتراف کیا اور صحیح موقف اپنایا۔
صحابہ کرام نے پہلے پتھروں کا پوجا کیا تھا، بعد میں اسلام قبول کیا۔ کیا ان سے یہ سوال کیاجاسکتاہے کہ تم نے پتھروں کا پوجا کیوں کیا؟ اسی وقت اسلام میں آسکتے تھے؟ چنانچہ ان لوگوں کے دعوے کے مطابق کوئی کافر اسلام میں نہیں آسکتا!
کوئی قبر پرست ، توحید کا قائل ہوجائے، تو یہ لوگ کہیں گے کہ کل درگاہ کی پرستش کرکے ، آج اس کو غلط کہہ رہاہے۔ اگر وہ یہ کہیں کہ کل ہی وہ بات کہہ سکتا تھا، کیوں نہیں کہا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کل اس کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ مگر آج اس سے واقف ہوگیا۔
کیا میجک ()کرنا شرک ہے؟
Magic
ہم سے ایک اور سوال بھی کیاجاتاہے کہ تم کہتے ہو کہ جادو دراصل میجک ہے، اور تم یہ بھی کہتے ہو کہ جادو شرک ہے۔ تو کیا میجک سیکھنا اور میجک دیکھنا شرک ہے؟
یہ سوال بھی عام طورپر ہر جگہ پوچھا جاتاہے۔ اس لیے قدرے وضاحت ضروری ہے۔ کبھی ظاہر میں دوکام ایک ہی جیسے ہوں گے۔ مگر اس کے پیچھے جو نظریہ اور عقیدہ کارفرماہے اسی لحاظ سے وہ دونوں الگ الگ ہوجائیں گے۔
مثال کے طورپر ایک سونے کا مالا (گولڈ چین) ہے ۔ہندوں میں شوہر شادی کے موقع پر دلہن کے گلے میں ڈالتاہے جب تک شوہر زندہ رہتاہے۔ وہ مالا اسی طرح گلے میں ہی رہنے دیاجاتاہے۔ اس کو ہمارے یہاں کالی پوت (منگل ستر) کہتے ہیں۔
اس کے علاوہ یوں ہی زیور کے طورپر بھی عورتیں پہنتی ہیں ۔ دیکھنے میں شکل وصورت میں وہ سونے کا مالا ہی ہے۔ مگر خاص عقیدے کی وجہ دونوں میں فرق ہوتاہے۔
شادی کا رشتہ ہی اس کالی پوت یا منگل ستر میں ہے۔ اگر وہ مالا ٹوٹ جائے، تو یہ سمجھا جاتاہے کہ شوہرکو کوئی مصیبت آئے گی۔ اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ کالی پوت کے پیچھے بدعقیدگی پائی جاتی ہے۔ لہذا اس کا استعمال نہ کیاجائے۔
مگر اسی وقت ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ عورتیں اگر زیب وزینت کے طورپر اس کو پہنیں، تو وہ جائز ہے۔ سونے کا مالا تو ایک ہی ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے عقیدے کو کس طرح متاثر کرتاہے؟ کیا نقصان ہوتاہے؟
ایک آدمی کیلا(موز) لے جاکر پوجا پاٹ میں رکھتاہے پھر اس کیلے کو ہمارے پاس دیتاہے مگر ہم اس کو نہیں لیتے مگر ایک دوست کیلا لاکر پوجا پات کے بغیر ایسے ہی پیش کرتاہے تو ہم اسے قبول کرلیتے ہیں۔ دونوں اگر چہ کیلے ہی ہیں۔ مگر ایک پوجا پاٹ میں رکھ کر تبرک کا غلط عقیدہ شامل ہوگیا، اس لیے دین اسلام اسے حرام کہتاہے۔رہا دوسرا کیلا، اس میں چونکہ اس قسم کا بدعقیدہ نہیں ہے۔ اس لیے اس کا استعمال اورکھانا حلال ہے۔
اسی طرح میجک اورجادو دیکھنے میں دونوں اگر چہ ایک ہی جیسے معلوم ہوتاہے مگر اس کے پیچھے جو بدعقیدگی پائی جاتی ہے اس کے اعتبار سے دونوں میں فرق ہوتاہے۔
میجک کرنے والا خالی ہاتھ سے اگر انگوٹھی لاکر حاضر کردے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کو جو پہلے نہیں تھی، اب اس نے منگوادیا۔ اس طرح نہ میجک کرنے والا کہتاہے، اورنہ لوگ اس طرح سمجھتے ہیں۔ بلکہ سب لوگ جانتے ہیں اور ہم بھی مانتے ہیں کہ وہ میجک کرنے والا اس انگوٹھی کو پہلے ہی سے چھپائے رکھا ہوتاہے۔ پھر اس کو اس طریقے سے ظاہر کرتاہے کہ کسی کو اس کا پتہ نہیں چلتا۔ اس کے لیے وہ کچھ چال چلتاہے، اورہماری نظروں کو کسی اور طرف پھیر دیتاہے؟
کوئی بھی شخص میجک کرنے والے کے پا س جاکر مدد نہیں مانگتا۔ کوئی اس سے یہ نہیں پوچھتا کہ اس کا گم شدہ بکری کہاں ہے اور اس لاکر حاضر کر۔ اسی طرح کوئی بھی اس کے پاس یہ مقصد لے کر نہیں جاتاکہ وہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالے گا ، یا دشمن کے ہاتھ پیر کام کرنے موقف کردے گا۔ اگر کوئی نادان اس میجک کرنے والے سے درخواست کرے بھی، تو وہ صاف طور سے کہہ دے گا کہ وہ اس طرح نہیں کرسکتا۔
مگر جادو گر کیا کرتاہے؟ باقاعدہ اعلان کرتاہے کہ میں حقیقت میں معمول کے خلاف، خرق عاد ت کرشمہ دکھاؤں گا، معجزہ ظاہر کروں گا۔
میں یہیں رہ کر کہیں دور رہنے والے فلاں کے ہاتھ پر معذور کردوں گا اور دعوا کرتاہے کہ میں منتر کے ذریعہ شوہر کو بیوی سے الگ کردوں گا اور بیو ی کو شوہر سے جدا کرکے بتاؤں گا اور لوگ بھی اس مقصد کے لیے اس کے پاس حاضری دیتے ہیں۔
میجک کرنے والا (بازی گر) طے شدہ نمائش گاہ(میجک شو) میں وہی میجک کردکھائے گا جس کے لیے وہ پہلے سے تیاری کرکے آیاہے، اور بس۔
اس کے مقابل میں جادوگر کا رویہ کیساہے؟ جادو گر پہلے سے جو منصوبہ بنارکھا ہے، وہ نہ صرف اس کو کرتاہے، بلکہ اس سے آگے جو شخص بھی اس کے پاس آتاہے، جس کے خلاف بھی اس سے شکایت کرتاہے اور اس سے جو کام کرنے اور جو سزاد دینے کے لیے کہتاہے سبھی کو وہ کردکھانے کی قدرت ہونے کا زوردار دعوا کرتاہے۔ یہی جادو ہے۔
ایک میں ہمارا علم کہتاہے کہ شرک پایاجاتاہے، اوردوسرے میں ہماراعلم فیصلہ کرتاہے کہ وقت گزاری اور دل بہلانے کے لیے کیے جانے والے حیرت انگیز کرتب اورشعبدے ہیں۔
انگریزی زبان میں اس فرق کو ظاہر کرنے کے لیے ایک کو میجک کہتے ہیں اور ایک کو بلا ک میجک کہتے ہیں، اور ہم اس بلا ک میجک کو ہی جادو، کالا جادو، ٹونا، افسوں اور طلسم وغیرہ کہتے ہیں۔
میجک کرنے والا (بازی گر) کہے گا کہ یہ میجک مشق اور مہارت حاصل کرنے سے کیاجاتاہے، اورکہے گا کہ تم بھی مسلسل مشق کے ذریعہ اس طرح کرسکتے ہو۔
مگر جادو گر کہے گا کہ اس کے پاس جو منتر کی طاقت ہے۔ (؟!) اس سے ملنے والی قدرت سے وہ دوسروں پر جادو کرتا اور اثر ڈالتا ہے۔
اس لیے یقین جانئے کہ جادو کے ذریعہ کسی پر بھی کسی قسم کا اثر نہیں دالاجاسکتا ۔اور جادو منتر سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ ا نہیں جاسکتا۔ اسلام کا صحیح عقیدہ یہی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صحیح عقیدہ اپنانے اور اس کے مطابق نیک عمل کرنے والا بنائے۔
ختم شد الحمدللہ
اس کتاب کے اندر / میں
دین کی /میں دو قسمیں
قرآن اور حدیث کو کس طرح سمجھاجائے؟
بعض احادیث جو قرآن سے ٹکراتی ہیں۔
نبی ﷺ پرجادو کیے جانے کی حدیثیں کیا کہتی ہیں؟
قرآن میں شک پید اکرنے والا جادوئی عقیدہ
جادوئی عقیدہ جو معجزات کو بے معنی کردیتاہے۔
قرآن نبی ﷺ پر جادو کیے جانے کا انکار کرتاہے
جادو کوماننے سے نبی ﷺ کا انکار
جادو، ٹونا اللہ کی نظر میں
جادو کاماننا شرک ہے۔
کیا اللہ کی عطا کردہ قدرت سے جادو کیاجاتاہے؟
کیا جنوں کی مدد سے جادو کیاجاتاہے؟
کیا معجزون کی مدد سے جادو کیاجاتاہے؟
کیا معجزوں / معجزات کو ماننا شرک ہے؟
سامری نے جو کرشمہ دکھایا، کیا اس کو ماننا/ کیا سامری کے کرشمے کو ماننا شرک ہے؟
کیا دجال کے کرشمے کو ماننا شرک ہے؟
سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر102 کیا کہتی ہے؟
کیا فلق اور ناس کی سورتیں جاد وکے لیے دلیل ہیں؟
کیا علمائے حق نے جاد و کاانکار نہیں کیا؟
کیا اکثریت کی بات دلیل بن سکتی ہے؟
جب جادو کچھ نہیں، تو پھر گناہ کیوں ہوتاہے؟
پہلے کہی ہوئی بات سے رجوع کیوں؟
کیا میجک کرنا شرک ہے؟
جادو منتر ایک دھوکا ہے
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode